روحانی بابا ایک شعر کا ترجمہ اتنا طویل۔۔۔۔۔بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
بامحاورہ ترجمہ:
محبوب جو کہ کثرت میں وحدت کے جلوے دکھا رہا ہے اس نے کمال ہوشیاری سے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے اس نے اپنے جسم پر سفید منکوں کی راکھ کا بھبھوت مل رکھا ہے۔ منکہ کا مطلب گردن بھی ہوتا ہے یعنی اپنی سفید گردن پر راکھ کا بھبوت مل رکھا ہے۔ جب خسرو جوتیاں گھساتا ہوا مطلوب تک پہنچا تو یہ راز آشکارا ہوا کہ یہ تو فریب ہے جس محبوب حقیقی کی تلاش (یعنی اللہ تبارک تعالیٰ ) میں خسرو ادھر تک پہنچا یہ تو اس کا جلوہ ہے۔ اس موقع پر کیا خوبصورت کلام یاد آیا جس کا حق نصرت فتح علی خان نے ادا کردیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ بے حد رمزاں دَس دا میرا ڈھولن ماہی
جناب یہ شعر کا ترجمہ نہیں تشریح ہے۔روحانی بابا ایک شعر کا ترجمہ اتنا طویل۔۔۔ ۔۔
اسلام آباد میں ہوتے ہیں چند دن قبل ان سے فون پر بات بھی ہوئی تھی۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ محفل پر کیوں نہیں آتے! کوئی پیغام ہو تو بتائیے عرض کر دوں گا۔آپ کوکچھ پتہ ہو کہ جناب الف نظامی صاحب آج کل کہاں ہوتے ہیں؟ شادی کا ماہ عسل تو کب کا گزر چکا ۔
بس شدت سے انہیں مس کرتے ہیں (اور یقینا دیگر احباب کے بھی یہی جذبات ہوں گے)۔ ہماری طرف سےانہیں سلام نیاز اور نیک خواہشات پہنچا دیجئے گا۔ جزاک اللہ!اسلام آباد میں ہوتے ہیں چند دن قبل ان سے فون پر بات بھی ہوئی تھی۔ لیکن یہ نہیں معلوم کہ محفل پر کیوں نہیں آتے! کوئی پیغام ہو تو بتائیے عرض کر دوں گا۔
سر مترجم کا نام تو معلوم نہیں لیکن میں نے یہ ترجمہ ویکی پیڈیا سے حاصل کیا ذیل میں لنک دے رہی ہوںانگریزی ترجمہ دینے کا شکریہ زہرہ جی۔ اگر ہو سکے تو مترجم کا نام بھی درج کریں۔
دراصل اس زمانے میں شعرا کا کلام اکثر و بیشتر لوگوں کے ذہنوں میں ہی محفوظ ہوا کرتا تھا اور شعرا کی وفات کے بعد ان کے مجموعے لوگوں کے دماغوں میں محفوظ کلام سے ہی چھپے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشعار میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
فاتح بھیا یہی کلام مجھے ’’اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ‘‘ از ڈاکٹر سلیم اختر میں یوں ملا ہے۔ اسے بھی ملاحظہ کیجئے!
زحال ِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں ملائے بتیاں
چو تابِ ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیو گاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلش چو عمر کوتہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببرو تسکیں
کسے پڑی ہے کہ جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
جو شمع سوزاں چو ذرہ حیراں ہمیشہ گریاں بعشق آں مہ
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
بحق آں مہ کہ روز محشر بداد مارا فریب خسرو
سپیت من کی دوراہے راکھوں جو جائے پائوں پیا کی کھتیاں
امیر خسرو کا ہندوی کلام مع نسخہ برلن ذخیرہ اشپر نگر ص:46
اس غزل کے ضمن میں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ آب حیات اور بعض دیگر کتب میں املا اور بعض الفاظ کا فرق بھی ملتا ہے مثلا مطلع یوں ہو گیا ہے:
زحال مسکیں مکن تغافل دوائے نیناں بنائے بتیاں
چو تاب ہجراں ندارم اے جاں، نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاں
مخزن نکات از قائم چاند پوری مرتبہ ڈاکٹر اقتدا حسن
حوصلہ افزائی کے لیے بہت شکریہ بزرگوارم۔امیر خسرو کی نہایت عمدہ غزل شئیرکی ہے آپ نے، فاتح صاحب اور ترجمے کی کاوش بھی قابل ستائش ہے۔ آخری شعر
آپ کی محبتوں پر ممنون ہوں قبلہکیا کہنے جناب
کیا غضب کا کلام شریک محفل کیا ہے
ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کا لطف آ گیا
شریک محفل کرنے کا شکریہ
شاد و آباد رہیں
بہت شکریہ برادرم۔جس تن لاگی سو تن جانے
واہ فاتح بھائی!
کیا خوب ترجمہ کیا ہے۔ اس کلام کی نغمگی تو سمجھ میں آئے بغیر ہی انسان پر وارفتگی طاری کر دیتی ہے۔ اور سمجھ کر پڑھی سنی جائے تو دو آتشہ جام۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
انتخاب و ترجمہ سراہنے پر آپ کا بھی شکریہشبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمر کوتاہسکھی، پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاںفارسی اور برج بھاشا کے امتزاج سے کہی گئی خسرو کی ایک بہت ہی عمدہ غزل۔
شیئر کرنے کے لئے شکریہ
بہت شکریہ کہ آپ نے اس شعر کا بھی ترجمہ شامل کر دیا۔بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
ابھی ابھی اس شعر پر سے نظر گزری ہے
پہلے تو شعر کا دوسرا مصرعہ میں لفظ من کے غلط مندرج ہے یہ منکے ہے
اس شعر کا ترجمہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس مقطع میں امیر خسرو نے حد تمام کردی ہے
میں ناچیز کوشش کرتا ہوں ترجمہ کرنے دراصل یہ شعر سمجھنے میں آرہا ہے لیکن آپ لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے لیئے ہندی معاشرت کی بھی ضرورت ہے جو آپ لوگوں کو نہیں پتہ بہرحال اب ہندی چینلز نے یہ کسر پوری کردی ہے۔
وصال کے دن خسرو پر یہ رازآشکارا ہوا کہ وہ فریب خوردہ ہے ۔ یہ تو پہلے مصرعہ کا ترجمہ ہوا ۔
سپیت کا مطلب ہے سفید۔۔۔ ۔منکے مطلب جو فقیروں کے کے گلے میں ہار کی شکل میں لٹکے ہوتے ہیں ۔۔۔ ۔ورائے راکھوں ۔۔۔ ۔یعنی راکھ کی شکل میں ۔۔۔ ۔جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں۔۔۔ یعنی جس مقام یا محبوب تک ہم جوتیاں گھساتے ہوئے پہنچے ہیں۔
بامحاورہ ترجمہ:
محبوب جو کہ کثرت میں وحدت کے جلوے دکھا رہا ہے اس نے کمال ہوشیاری سے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے اس نے اپنے جسم پر سفید منکوں کی راکھ کا بھبھوت مل رکھا ہے۔ منکہ کا مطلب گردن بھی ہوتا ہے یعنی اپنی سفید گردن پر راکھ کا بھبوت مل رکھا ہے۔ جب خسرو جوتیاں گھساتا ہوا مطلوب تک پہنچا تو یہ راز آشکارا ہوا کہ یہ تو فریب ہے جس محبوب حقیقی کی تلاش (یعنی اللہ تبارک تعالیٰ ) میں خسرو ادھر تک پہنچا یہ تو اس کا جلوہ ہے۔ اس موقع پر کیا خوبصورت کلام یاد آیا جس کا حق نصرت فتح علی خان نے ادا کردیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ بے حد رمزاں دَس دا میرا ڈھولن ماہی
یہ بھی خوب ہے۔ نیک کام کیا ہے۔میں نے سوچا انگلش ٹرانسلیشن شئیر کر دوں تا کہ جس شعر کا ترجمہ اردو میں کرنے میں دقت ہے شاید اس میں کچھ آسانی ہو جائے
Do not overlook my misery
Blandishing your eyes, and weaving tales;
My patience has over-brimmed, O sweetheart,
Why do you not take me to your bosom.
The nights of separation are long like tresses,
The day of our union is short like life;
When I do not get to see my beloved friend,
How am I to pass the dark nights?
Suddenly, as if the heart, by two enchanting eyes
Is beset by a thousand deceptions and robbed of tranquility;
But who cares enough to go and report
To my darling my state of affairs?
The lamp is aflame; every atom excited
I roam, always, afire with love;
Neither sleep to my eyes, nor peace for my body,
neither comes himself, nor sends any messages
In honour of the day of union with the beloved
who has lured me so long, O Khusrau;
I shall keep my heart suppressed,
if ever I get a chance to get to his place
وعلیکم السلامفاتح بھائی السلام علیکم
ابھی تک ترجمہ کی سنگلاخ وادیوں سے گزرنے کا ہمیں جوگمان تھا۔ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ آپ کا ترجمہ پڑھ کر۔
آپ کاترجمہ نہایت خوبصورت، متن سے وفادار، سلیس اور رواں ہے۔اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ
آپ کو دوبارہ دیکھ کر خوشی ہوئیبہت خوب روحانی بابا
جزاک اللہ