مہ جبین
محفلین
آپ کو دوبارہ دیکھ کر خوشی ہوئی
آپکے خلوص کا بیحد شکریہ شہزاد بھائی
آپ کو دوبارہ دیکھ کر خوشی ہوئی
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
ابھی ابھی اس شعر پر سے نظر گزری ہے
پہلے تو شعر کا دوسرا مصرعہ میں لفظ من کے غلط مندرج ہے یہ منکے ہے
اس شعر کا ترجمہ کوئی آسان کام نہیں ہے اس مقطع میں امیر خسرو نے حد تمام کردی ہے
میں ناچیز کوشش کرتا ہوں ترجمہ کرنے دراصل یہ شعر سمجھنے میں آرہا ہے لیکن آپ لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل ہے کیونکہ اس کے لیئے ہندی معاشرت کی بھی ضرورت ہے جو آپ لوگوں کو نہیں پتہ بہرحال اب ہندی چینلز نے یہ کسر پوری کردی ہے۔
وصال کے دن خسرو پر یہ رازآشکارا ہوا کہ وہ فریب خوردہ ہے ۔ یہ تو پہلے مصرعہ کا ترجمہ ہوا ۔
سپیت کا مطلب ہے سفید۔۔۔ ۔منکے مطلب جو فقیروں کے کے گلے میں ہار کی شکل میں لٹکے ہوتے ہیں ۔۔۔ ۔ورائے راکھوں ۔۔۔ ۔یعنی راکھ کی شکل میں ۔۔۔ ۔جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں۔۔۔ یعنی جس مقام یا محبوب تک ہم جوتیاں گھساتے ہوئے پہنچے ہیں۔
بامحاورہ ترجمہ:
محبوب جو کہ کثرت میں وحدت کے جلوے دکھا رہا ہے اس نے کمال ہوشیاری سے اپنے آپ کو چھپا رکھا ہے اس نے اپنے جسم پر سفید منکوں کی راکھ کا بھبھوت مل رکھا ہے۔ منکہ کا مطلب گردن بھی ہوتا ہے یعنی اپنی سفید گردن پر راکھ کا بھبوت مل رکھا ہے۔ جب خسرو جوتیاں گھساتا ہوا مطلوب تک پہنچا تو یہ راز آشکارا ہوا کہ یہ تو فریب ہے جس محبوب حقیقی کی تلاش (یعنی اللہ تبارک تعالیٰ ) میں خسرو ادھر تک پہنچا یہ تو اس کا جلوہ ہے۔ اس موقع پر کیا خوبصورت کلام یاد آیا جس کا حق نصرت فتح علی خان نے ادا کردیا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ بے حد رمزاں دَس دا میرا ڈھولن ماہی
تبھی کہا جاتا ہے کہ شعر کی تشریح کرنا اسے چھوٹا کرنے کے مترادف ہے۔۔۔
شعر کا لفظی ترجمہ ہی کیا جانا چاہیے اور تشریح قاری پر چھوڑ دینی چاہیے
بابا !السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!حضور فارقلیط رحمانی صاحب وحدت الوجود ایک الگ دنیا ہے اس کو سمجھنا ازحد دقیق اور پرخطر ہے
میں ترتیب سے مراسلے پڑھتا آیا اس لیے آپ کا مراسلہ آخر میں پڑھا، اس شعر کے آپ والے ترجمے سے کلی متفق ہوں۔روحانی بابانے شعر کی جو قرأت کی ہے ،آئیے اسےایک اور طرح سے سمجھنے کی کوشش بھی کر دیکھیں۔
بقول روحانی بابا لفظ "من کے" یہاں بمعنیٰ دل یا نفس کے نہ ہو کر تسبیح کے دانوں کے معنیٰ والا"منکے" ہے۔جو منکہ کی جمع ہے۔ ریڑھ کی ہڈی کے حلقوں کو یہاں ہندوستانی زبانوں میں منکہ کہا جاتا ہے۔یہ بات تو موصوف نے بالکل صحیح فرمائی۔ حالانکہ موصوف کی اس قرأت کو تسلیم کرنے کے لیے کسی قدیم نسخے میں اسے تلاش کرنا پڑے گا۔
چونکہ کسی بھی شعر کے معانی و شرح کا انحصار اس کی قرأت پر ہوتا ہے۔ لہذا اگر اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو اس کی ایک قرأ ت یہ بھی ممکن ہے جس میں سپیت کو بجائے:س +پے+ت=سپیت کے س +پی+ت=سپیت بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ اور یہ زیادہ قرین قیاس یوں بھی ہے کہ سفید کا قدیم تلفظ و املا جہاں کہیں بھی پایا جاتا ہے سپید ہی پایا جاتا ہے نہ کہ سپیت۔ حالانکہ اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سپیت دراصل سنسکرت لفظ شویت(श्वेत) کی تہنید (ہندی شکل) ہے۔
س +پی+ت=سپیت میں سَ بمعنیٰ ساتھ اور پیت بمعنیٰ پریت (عشق و محبت ) بایں صورت اس مصرعے کے معنیٰ ہوں گے :محبت کے ساتھ قیمتی آبدار موتیوں کو نچھاور کر دوں اگر جاکر کے پیاکے خط پا سکوں ۔
آپ نے بجا فرمایا ہم سے طفلان مکتب کا ان پر خطر وادیوں میں گزر کہاں۔
اور ہاں وہاں ہم طفلان مکتب کا کام بھی کیا ہے۔
جناب@ فارقلیط رحمانی صاحب
آپ نے جو دوسرے شعر کے الفاظ کے جو تراجم کیئے ہیں اس لحاط سے شعر کا ترجمہ کچھ اسطرح بنتا ہے
سفید دل کو دھو کر یا صاف کرکے ،محبوب کے پاؤں میں ، اس کے کھت یعنی خط پاسکوں
جناب عالی اگر آپ کی بات کو درست مان لیا جائے تو پھر بھی پہلے شعر سے یہ لگا نہیں کھاتا ہے
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
دو ماہ قبل امیر خسرو کی یہ غزل چھایا گنگولی کی آواز میں محفل میں ارسال کی تو ہمارے محترم جناب محسن حجازی صاحب کا جواب ملا:
جواباً ہم نے ان الفاظ میں کوشش کرنے کا وعدہ کر لیا:
لیجیے صاحب! وہی وعدہ "حتی الوسع" ایفا کرتے ہوئے ترجمے کے ساتھ حضرت امیر خسرو کی یہ مشہورِ زمانہ غزل پیش خدمت ہے۔غزلزحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
(حضرت امیر خسرو)
امیر خسرو نے اس غزل کے تمام اشعار کے مصرعِ ہائے اولیٰ فارسی میں جب کہ مصرعِ ہائے ثانی اس دور کی مروجہ اردو یا ہندی میں لکھے تھے۔ میں نے حسبِ استطاعت ترجمے کی کوشش تو کی ہے مگر یقیناً اغلاط موجود ہوں گی جن کی اصلاح کی درخواست ہے۔
زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جان نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
ترجمہ:
اس غریب کے حال سے تغافل نہ برت، آنکھیں پھیر کر، باتیں بنا کر
اب جدائی کی تاب نہیں مری جان، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
ترجمہ:
جدائی کی راتیں زلف کی مانند دراز اور وصال کے دن عمر کی مانند مختصر
اے دوست! محبوب کو دیکھے بغیر یہ اندھیری راتیں کیوں کر کاٹوں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
ترجمہ:
پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں میرے دل کا سکون لے اُڑیں
اب کسے پڑی ہے کہ جا کر ہمارے محبوب کو ہمارا حالِ دل (باتیں) سنائے
چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
ترجمہ:
میں اس عشق میں جلتی ہوئی شمع کی اور ذرۂ حیراں کی طرح ہمشیہ فریاد کر رہا ہوں
نہ آنکھوں میں نیند، نہ تن کو چین کہ نہ تو وہ خود آتے ہیں اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجتے ہیں
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
اس شعر کا ترجمہ نہیں کر پایا۔ فارسی و ہندی کے ماہرین کی توجہ درکار ہے۔