دو ماہ قبل
امیر خسرو کی یہ غزل چھایا گنگولی کی آواز میں محفل میں ارسال کی تو ہمارے محترم جناب محسن حجازی صاحب کا جواب ملا:
جواباً ہم نے ان الفاظ میں کوشش کرنے کا وعدہ کر لیا:
لیجیے صاحب! وہی وعدہ "حتی الوسع" ایفا کرتے ہوئے ترجمے کے ساتھ حضرت امیر خسرو کی یہ مشہورِ زمانہ غزل پیش خدمت ہے۔
غزل
زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
(حضرت امیر خسرو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیر خسرو نے اس غزل کے تمام اشعار کے مصرعِ ہائے اولیٰ فارسی میں جب کہ مصرعِ ہائے ثانی اس دور کی مروجہ اردو یا ہندی میں لکھے تھے۔ میں نے حسبِ استطاعت ترجمے کی کوشش تو کی ہے مگر یقیناً اغلاط موجود ہوں گی جن کی اصلاح کی درخواست ہے۔
زحالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جان نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
ترجمہ:
اس غریب کے حال سے تغافل نہ برت، آنکھیں پھیر کر، باتیں بنا کر
اب جدائی کی تاب نہیں مری جان، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
ترجمہ:
جدائی کی راتیں زلف کی مانند دراز اور وصال کے دن عمر کی مانند مختصر
اے دوست! محبوب کو دیکھے بغیر یہ اندھیری راتیں کیوں کر کاٹوں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
ترجمہ:
پلک جھپکتے میں وہ دو ساحر آنکھیں میرے دل کا سکون لے اُڑیں
اب کسے پڑی ہے کہ جا کر ہمارے محبوب کو ہمارا حالِ دل (باتیں) سنائے
چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
ترجمہ:
میں اس عشق میں جلتی ہوئی شمع کی اور ذرۂ حیراں کی طرح ہمشیہ فریاد کر رہا ہوں
نہ آنکھوں میں نیند، نہ تن کو چین کہ نہ تو وہ خود آتے ہیں اور نہ ہی کوئی پیغام بھیجتے ہیں
بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
اس شعر کا ترجمہ نہیں کر پایا۔ فارسی و ہندی کے ماہرین کی توجہ درکار ہے۔