زر نگار

الف عین

لائبریرین
ادارۂ ہٰذا کی شعری نشست کی سلور جوبلی کے موقع پر

شعری و ادبی مجلّہ

زرنگار

۲۰۰۸ء



صدر۔ ناگپور ۰۰۱ ۴۴۰
فون نمبر : ۲۵۲۷۶۴۷
فروری ۲۰۰۸ء
 

الف عین

لائبریرین
عُہدہ داران و اراکین صدر مسلم لائبریری

عالیجناب سیدّ مکّرم حسین خطیب صاحب صدر
عالیجناب سراج الحسن صاحب نائب صدر
عالیجناب حامد بن خالد قریشی صاحب سکریٹری
عالیجناب مجیب الّدین صدّیقی صاحب جوائنٹ سکریٹری
عالیجناب عرفان حسین خان صاحب خازن
عالیجناب عبدالقدیرصاحب ممبر
عالیجناب عبدالرشید سوبانی صاحب ممبر
عالیجناب ایڈوکیٹ قطب ظفر صاحب ممبر
عالیجناب ایڈوکیٹ سیّد سعادت علی صاحب ممبر
عالیجناب ڈاکٹر شیخ شبیّر صاحب ممبر
عالیجناب شیخ حسنین شاکر صاحب ممبر
عالیجناب ایڈوکیٹ غلام عباّس کبّاوالا صاحب ممبر
عالیجناب عثمان اقبال غنی صاحب ممبر
عالیجناب سیّد آصف علی صاحب ممبر
عالیجناب ابوالکلام ساجد صاحب ممبر
 

الف عین

لائبریرین
پیش لفظ

صدر مسلم لائبریری ناگپور شہر کے ایک ایسے علاقہ میں واقع ہے جہاں بیشتر علمی درس گاہیں تشنگانِ علم و فن کی پیاس بجھا رہی ہیں.اسی جگہ پر۱۹۲۲ء؁ میں شہر کے با شعور و حساس لوگوںباالخصوص اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والے جیالوں نے صدر مسلم لائبریری کی بنیاد ڈالی.یہ ادارہ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا گیا اور آج الحمداللہ ایک بہترین عمارت کے ساتھ علمی ،ادبی،سماجی، ثقافتی اورمختلف موضوعات پر کتابوں کا ایک عمدہ ذخیرہ اس لائبریری میں موجود ہے۔ جس سے تشنگانِ علم و فن بلا تفریق مذہب و ملّت فائدہ اٹھارہے ہیں.فی الوقت اس کے تا حیات اراکین کی تعداد ۵۵اور عام ممبران کی تعداد بھی سینکڑوں پر مشتمل ہے. ادارہ ہذٰا کو ہمیشہ سے ہی اچھے لوگوں کا تعاون حاصل رہا ہے. جنھوں نے بڑھ چڑھ کر اپنی خدمات پیش کیں۔ اس وقت بھی مخلص ‘ تعلیم یافتہ اور دور اندیش افراد کی قیادت میں یہ ادارہ دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا ہے.
راقم الحروف کا بھی اس ادارہ سے پرانا تعلق ہے.میں اس کا لائف ممبر ہوں.آج سے تقریباً ۲۷ ماہ قبل یعنی دسمبر ۲۰۰۵ء؁میں صدر مسلم لائبریری کے سکریٹری عالیجناب حامد بن خالد قریشی صاحب جو میرے اچھے دوست بھی ہیں ‘ لایبریری کے تعلق سے تفصیلی گفتگو کی اور خیال ظاہر کیا کہ لائبریری ایک اچھے مقام پر واقع ہے. الحمداللہ تمام سہولتیں یہاں موجود ہیں.نشستوں کا معقول انتظام ہے.کیوں نہ یہاں شعری ‘ ادبی ‘ سماجی ‘ ثقافتی سرگرمیاںبھی جاری کی جائیں اور قوم کے افراد اس سے فائدہ اٹھائیں۔ چونکہ وہ میرے مزاج سے واقف ہیں لہٰذاانھوں نے یہ درخواست کی کہ میں شعری و ادبی پروگراموں کی ذمہ داری لوں.اور اس منصوبے کو جلد از جلد عملی جامہ پہناؤں. مجھے اور ایوب صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ ہم ہر مہینے کے چوتھے سنیچر کی شب ایک شعری نشست منعقد کریں۔جس میں ہر مہینے شہر کے منتخب شعرائے کرام اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ فرمائیں۔لہذٰا پہلی ماہانہ شعری نشست بروز سنیچر ۳۱! دسمبر ۲۰۰۵ء؁ کو منعقد کی گئی.جس کی صدارت عالیجناب ڈاکٹر پروفیسر منشاء الرحمان خاں منشائؔ صاحب نے فرمائی. دیکھتے دیکھتے یہ سلسلہ چل نکلا. کچھ لوگوں نے اس کی درازئی عمر کی دعائیں دیں اور کچھ نے چند مہینوں میں اس کے ختم ہوجانے کی وعیدیں سنائیں۔
بہر حال لائبریری کے عہدیداران و اراکین اور عملے کا بھر پور تعاو ن، ناگپور و اطراف کے شعراء وادباء اور اہلِ ذوق سامعین کی لگاتار شرکت نے اس شعری محفل کو ہر مہینہ کامیابی سے ہمکنار کیا. چار پانچ نشستوں کے بعد سے ہی اس میں ہم نے تبدیلیاں کیں. ہر تیسری نشست کو طرحی نشست کی شکل دی جس سے یہ فائدہ ہوا کہ نہ صرف ناگپور و کامٹی میں ایک صحت مند شعری ماحول پیدا ہوا بلکہ نئے لکھنے والوں کو بھی ترغیب ملی. اور اس طرح کئی نئے شعراء متعارف ہوئے اور پرانے شعراء کا تازہ کلام سننے کو ملا۔ ساتھ ہی ساتھ ناگپور وکامٹی کے مرحوم شعراء کو خراجِ عقیدت پیش کرنے اور ان پر تعارفی مضامین کا مفید سلسلہ بھی شروع کیا گیا.اسے بھی حاضرین نے بیحد پسند کیا. اور اس طرح کئی نامور مرحوم شعراء پر وقیع مقالے لکھوائے گئے اور ان کی تحریرکردہ نعتیں بہترین آواز میں پڑھوا کر ان کی یاد تازہ کی گئی. اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ شہر کے اچھے لکھنے والوں نے اپنے قلم کو جنبش دی اور صفحۂ قرطاس پر علاقے کے شعراء کے حالاتِ زندگی ‘ ان کی شاعری اور ان کے فن کو محفوظ کردیا جو انشاء اللہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوگی.
ہم نے ہر نشست میں ہمیشہ یہ اعلان کیا کہ شعراء کرام اپنا کلام اور مقالہ نگار اپنے مقالے جمع کروائیں تاکہ انہیں کتابی شکل میں محفوظ کیا جا سکے. جن حضرات نے اس ضمن میں تعاون کیا ان کا کلام اور مقالے آج آپ کے سامنے ہیں.اس اثناء میں ’’ یادِ طرفہؔ ‘‘ کے نام سے دو شاندارمشاعرے بھی ہوئے۔جس میں بیرونی شعراء کرام نے بھی شرکت کی.جن بیرونی شعراء کرام نے ہماری محفلوں میں شرکت کی ہیں ان میں باالخصوص جناب شمسؔ جالنوی، جناب ملک بزمیؔ (پاتھری)‘ جناب عبدا لرحیم نشترؔ(رائے گڑھ)، جناب حبیب راحت حبابؔ (کھنڈوہ)، جناب خلشؔ تسکینی(اچلپور)، جناب احسان ؔ بھنڈاروی (بھنڈارہ)، جناب کاملؔ بہزادی (بھوپال)، جناب عزیز ؔبیلگامی(بنگلور)، جناب غفّار عزمؔ (لندن) اور محترمہ نورالعین علی صاحبہ (ممبئی) قابلِ ذکر ہیں.
ان شعری نشستوں کو کامیاب بنانے میں صدر مسلم لائبریری کے تمام عہدیدار و اراکین کا زبردست تعاون رہا.باالخصوص حامد بن خالد قریشی صاحب‘ عبدالرشید سوبانی صاحب‘ عبدالقدیر صاحب‘ مجیب الدین صدیقی صاحب‘ مکرم حسین خطیب صاحب‘ ایڈوکیٹ قطب ظفر صاحب‘ سراج الحسن صاحب وغیرہ. جناب محمد ایوب صاحب کی بہترین نظامت . محفل کو سنوارنے میں ان کی برجستہ گوئی ۔ان کے قیمتی مشورے.شعراء کومحفل میں پیش کرتے وقت ان کا مناسب تعارف نیز ماحول سازی قابلِ تعریف ہے. میں ادارہ کی جانب سے ان کا بیحد ممنون و مشکور ہوں. محمد ایوب صاحب کی عدم موجودگی میں محترم ڈاکٹر محمد اظہر حیات صاحب نے بڑی خوش اسلوبی اور منفردانداز سے نظامت کے فرائض انجام دیئے جسے کافی پسند کیا گیا. جناب کلیم احمد اور ڈاکٹر خواجہ غلام ربّانی صاحبان نے بھی وقتاً فوقتاً اپنی نظامت سے ان محفلوں کو کامیاب بنایا ہے. غرضیکہ شہر کے اکثر اہل علم، اہل فن، دانشوراور باذوق حضرات کا ہمیں تعاون حاصل رہا جسکی بناء پر ہم اپنے کارواں کوپچیسویں منزل تک لانے میں کامیاب ہو سکے.
میں دل کی گہرائیوں کے ساتھ شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں صدر مسلم لا ئبریری کے تمام عہدیدار وا راکین کا ‘ ان تمام شعراء کرام ومقالہ نگار حضرات کا جن کی تخلیقات اسمیں شائع ہوئیں اور جن کی شرکت نے ہماری محفلوں کو کامیاب بنایا۔ان تمام معزز سامعین حضرات کا بیحد ممنون و مشکور ہوں جن کے بغیر ہماری محفلیں کامیاب نہیں ہوسکتی تھیں.اگر کسی کا ذکر یہاں رہ گیا ہو تو اسے بشری غلطی پر محمول کیا جائے۔
جنوری ۱۹۷۵ء؁ میں صدر مسلم لائبریری کی گولڈن جوبلی کے موقعہ پر ایک شاندار مجلّہ ترتیب دیا گیا تھا.جسکا نام ’’ زرنگار‘‘ تھا.ہم نے بھی اس موقعہ پر اسی نام کو اختیار کیا ۔گویا یہ تجدید عہد ہے کہ آئندہ بھی ہم اسی نام سے شعراء و ادباء کی تحریریں آپ تک پہنچائیںگے۔ مجلّہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ہم اپنی کوششوںمیںکتنے کامیاب ہیں یہ تو آپ ہی بتاسکتے ہیں۔بس ایک درخواست ہے کہ ؂
دعا کرو مری خوشبو پہ تبصرہ نہ کرو
مشتاق احسنؔ
ناگپور
مورخہ ۲۴/ فروری ۲۰۰۸ء
 

الف عین

لائبریرین
ناطقؔ گلاوٹھوی
( یہ مقالہ چھٹویں ماہانہ شعری نشست مورخہ۲۷! مئی ۲۰۰۷ء؁ کو پڑھا گیا )
از . محمّد سکندر حیات

قابلِ مبارک باد ہیں صدر مسلم لائبریری کے عہدیداران و اراکین کہ انھوں نے ماہانہ شعری نشستوں کے سلسلہ کو استواریت کے ساتھ جاری رکھا ہے. جو نہایت کامیابی سے رواں دواں ہے.ان شعری نشستوں کا مقصد جہاں عصری رجحانات سے روشناس ہونا ہے وہیں ہی مقصد بھی زیرِ نظر ہے کہ ہم ناگپور کے مرحوم اساتذہ کو بھی یاد کریں اور ان کے شعری رسالوں سے استفادہ حاصل کریں.
معزّز سامعین !
جہاں شہر ناگپور سنتروں کے منفرد ذائقہ کے لیے جانا جاتا ہے وہیں دو اور شخصیتیں اس شہر کے لئے باعثِ عزّو شرف ہیں. اوّل حضرت بابا تاج الدّین ؒ اور مولٰنا ابوالحسن ناطقؔ گلاٹھوی ‘ دونوں ہی بزرگ قابل تعظیم ہیں. ایک صوفی ‘ کیفیتِ جذبات سے سر شار‘ دوسرے عالمِ دین اور اردو شاعری کے علمبردار‘ دونوں ہی حضرات کا جائے پیدائش ناگپور سے قریب شہر کامٹی ہے. اور دونوں ہی بزرگ شخصیتیں ناگپور میں سپرد خاک ہیں.
مرحوم نیاز فتحپوری اردو کے مستند نقّاد میں شمار کئے جاتے ہیں.اپنے رسالہ نگار ۱۹۴۱ء؁ کے مشاہیر نمبر میں مولٰنا ناطقؔ سے متعلق رقمطراز ہیں کہ ناطقؔ گلاوٹھوی تغزل کے دیرینہ گفتار ہیں. اور با وصف کسی خاص اسکول کے پابند نہ ہونے سے ان کا اندازِ بیان ہمیں اساتذہ دہلی کی یاد دلاتا ہے. یہ معاملاتِ حسن و عشق کو اُسی زبان میں ادا کرتے ہیں جو تغزل کے لحاظ سے معیاری سمجھی جاتی ہے.اور بعض اوقات یہ اپنے خیال کو ایسے پہلو سے پیش کرتے ہیں کہ سننے والا دفعتًا چونک پڑتا ہے. انکے کلام میں ایک خاص تیکھا پن پایا جاتا ہے جو پرانی بات میں بھی نئی کیفیت پیدا کر دیتا ہے. سلاست و روانی جو تغزّل کی جان ہے انکے کلام میں ہر جگہ پائی جاتی ہے.
مولٰنا خود اپنی شعر گوئی کے متعلق فرماتے ہیں . ؂
شعر گوئی نئے انداز کی‘ تجدیدِ خیال دیکھنا چاہے تو ناطقؔ مرا دیوان اٹھا
حضراتِ گرامی! پیرِمغاں‘ خمخانۂ سخن ‘ فخرالمتاثّرین ‘ استادالاساتذہ حضرت مولٰنا ناطقؔ گلاوٹھوی کو ان القاب کے لئے ذاتی طور پر تگ و دو نہیں کرنی پڑی. اور نہ ہی یہ القاب کسی مال و ثروت سے حاصل ہوئے ہیں. اسکے علاوہ بھی آپکو کئی خطابات ملک کی مختلف انجمنوں کی طرف سے ملے مگر آپ نے خود ان القاب و خطابات کو اپنے نام کے ساتھ نہ کبھی استعمال کیا اور نہ دوسرے صاحبان کے استعمال پر پسندیدگی کا اظہار فرمایا.
۱۹۴۰ء؁ کو لکھنوٗ میں ایک عظیم الشان کل ہند طرحی مشاعرہ ہوا. صدرِ مشاعرہ آنجہانی سر تیج بہادر سپرو تھے. اُسی مشاعرے میں مولٰنا مرحوم کے علاوہ اس زمانے کے بعض نامور اساتذہ اور مشہور مترنّم شعراء شریک تھے. مولٰنا کی غزل مشاعرہ میں بہت پسند کی گئی. سر تیج بہادر سپرو نے آپکی غزل پر تبصرہ کرتے ہوئے وہاں آپکو استاذالاساتذہ کے گرانقدر الفاظ سے خطاب کیا.اسی دن سے لوگ آپکو استاذالاساتذہ لکھنے لگے. اسی طریقہ سے جلوۂ یار میرٹھ نے پیر مغاں خمخانۂ سخن اور فخرالمتاخرین کا خطا ب لکھنؤ کے مشہور ادبی ادارہ انجمنِ فردوسِ ادب نے ۱۹۳۰ء؁ میں دیا.
جلوۂ یار میرٹھ کی بات آئی تو یاد آیا کہ مولٰنا کی غزلیں اس رسالہ میں شائع ہوتی تھیں. میرے جدّ امجد حضرت منشی ولی اللہ مرحوم و مغفور کی فارسی غزلیں بھی اسی رسالہ میں شائع ہوتی تھیں. یہ دونوں حضرات اسوقت ایک ہی محلہ میں رہتے تھے. چنانچہ ان میں گہری ادبی دوستی بھی تھی. ادبی نشستیں جو محلہ جونا جیل خانہ کی رہائش پر ہوئیں مولٰنا اس میں شرکت کرتے. منشی ولی اللہ مرحوم کے انتقال کے بعد بھی ہمارے گھر سے مولٰنا کا دیرینہ تعلق رہا. والد محترم جناب سعید حیات ایڈوکیٹ مرحوم سے ملنے اکثر و بیشتر گھر تشریف لاتے. میرا بچپن تھا. کبھی کبھی مجھ سے فرمائش ہوتی کہ غالبؔ کی غزل سناؤں اور میں شروع ہوجاتا.’’دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت‘ درد سے بھر نہ آئے کیوں‘‘
مولٰنا بہت خوش ہوتے.مولٰنا ۱۸۸۶ء؁ میں پیدا ہوئے اور ٹھیک ۳۷! سال پہلے یعنی ۲۷! مئی ۱۹۶۹ء؁ کی شب اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے. ۸۳! سال کی عمر پائی. جن حضرات کو آپکی زودگوئی اور قادرالکلامی کا علم ہے وہ جانتے ہیں کہ اس مکثِ طویل میں آپنے کس قدر کلام کہا.اگر یہ تمام کلام محفوظ ہوتا تو موجودہ دیوانِ ناطقؔ سے دس گنا ضخیم ہوتا جو اردو ادب میں ایک بیش بہا اضافہ ہوتا اور ہزاروں تشنگانِ ادب کیلئے استفادہ کا باعث ہوتا. مگر یہ اردو شاعری کا زبردست المیہ ہے کہ مولٰنا کا کلام کئی وجوہات کی بناء پر محفوظ نہیں رہا.بڑی محنت وجانفشانی سے مولٰنا کے معتقد اور عزیز بابو عبدالحلیم صاحب نے مولٰنا کی غزلوں کو مرتّب کیا.۲۷۳ غزلیں شاملِ دیوان کیںاورمولٰنا کے انتقال کے بعد زیورِ طباعت سے آراستہ کیا. اردو والوں پر یہ انکا خاموش احسان ہے.
ابتدائی تعلیم کامٹی میں آپ کے نجی مکان میں ہوئی جہاں عربی‘ اردو‘ فارسی کی تعلیم حاصل کی. ۱۹۰۰ء؁ میں مولٰنا دیوبند حصولِ علم کے لئے تشریف لے گئے. وہیں مولٰنا نے سید معشوق حسین اطہر ہا پوڑی کی تحریک پر شاعری شروع کی. اس زمانہ میں دیوبند میں انسان کے لئے بلبلۂ معقول حیوانِ ناطق کی اصطلاح عام تھی. جب آپکو تخلص کی فکر ہوئی تو لفظ ناطق آپکو مناسب لگا چنانچہ آپنے یہی تخلص کو لیا. مرزا داغؔ دہلوی کے کلام سے آپ بہت متاثّر تھے. داغؔ دہلوی کے مجموعوں میں آفتابِ داغ کا عمیق مطالعہ فرمایا. اس زمانہ میں آپکو یہ دیوان حفظ ہو گیا تھا. ۱۹۰۴ء؁ میں اپنے والد محترم کے مشورہ سے بذریعۂ خط و کتابت داغؔ دہلوی کے حلقۂ تلامذہ میں داخل ہو گئے.لیکن ایک سال بعد ہی حضرت داغؔ بھی داغِ مفارقت دے گئے. اسکے بعد پھر آپنے کسی کو کلام نہیں دکھا یا. ہمیشہ اپنے کلام پر خود ہی اصلاح کی نظر کی. آپنے تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی. لیکن نظم نگاری اور غزل مر غوب طبع رہی. آپکے شعر پڑھنے کا انداز بڑا دلکش اور موثّر ہوتا تھا. حالانکہ تحت الفظ پڑھتے. بامحاورہ زبان اور کسے ہوئے مصرعے اور اپنی با رعب اور پُر کشش شخصیت کی وجہ سے مشاعروں میں چھا جاتے تھے. کیا مجال کہ سامعین سے کوئی چوں چراں کی آواز آئے.
آپکے شاگرد برِّ صغیر ہندوپاک میں پھیلے ہوئے ہیں. کچھ معروف شاگردوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں. سید امیر حسن امیرؔ گلاؤٹھوی. مولٰنا عبدالباری آسیؔ.مولٰنا غضنفر حسین شاکرؔ نائطی. ڈاکٹر ممتاز احمد خان خوشترؔ کھنڈوی. مرزا ظفر حسین ظفرؔ ناگپوری. مولوی جلیل ؔمانکپوری . تصوّرؔ سورتی. قدیم شاگردوں میں کامٹی کے منشی ابوبکر صاحب مشہور ہیں.انکے علاوہ بھی ایک لمبی فہرست ہے آپ کے شاگردوں کی. جنہوں نے اپنے شعری سرمایہ سے اردو ادب میں ایک مقام بنایا.
مولٰنا ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے. جہاں وہ ایک مستند شاعر کی حیثیت سے معروف و مقبول تھے. وہیں وہ مستند عالم دین بھی تھے. کامیاب صحافی بھی تھے.سیاست سے بھی لگاؤ تھا. کانگریس کے حامی تھے. ناگپور میونسپل کمیٹی کے ۹۱۲۱ء؁ سے ۱۹۵۰ء؁ تک ممبر رہے. مرکزی حکومت کی لیجسلیٹیواسمبلی میں بحیثیت رکن ریاستِ متوسط برار کی نمائندگی کی. میونسپل کونسل ناگپور میں علاقہ سیتا بلڈی سے الیکشن جیت کر اس علاقہ کی نمائندگی کی.
آپکی تصانیف میں دیوانِ ناطقؔ .کنزالمطالب جو شرحِ دیوانِ غالبؔ ہے اور سبع سیارہ کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی.آخر وقتوں میں مختلف عوارض نے گھیر لیا. لیکن تادمِ آخر صوم و صلٰوۃ کے پابند رہے. ۲۷! مئی ۱۹۶۹ء؁ کو آپکی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی. آپکی قیام گاہ محلہ لشکری باغ سے جنازہ اٹھا. مسلم قبرستان مومن پورہ میں سپرد خاک کئے گئے. جنازہ میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے. بلا لحاظ مذہب و ملّت ‘ عقیدہ و مسلک جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ مقبولِ عام تھے. اور آپکی عظمت کے سب معترف.
روتے ہیں وہ ناطقؔ کیلئے بیٹھ کے پہروں جو لوگ ابھی زندہ ہیں اسے دیکھنے والے
 

الف عین

لائبریرین
نواب غازی آف گیوردھا ‘ شخصیت اور شاعری​
(یہ مقالہ ۱۶! ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۱! اپریل ۲۰۰۷ء؁ کو پڑھا گیا)
از . کلیم احمد

محمد عبدالوحید غازی ‘ نواب آف گیوردھا اسٹیٹ ضلع چاندہ ‘ ۳۱! اکتوبر ۱۹۰۷ء؁ کو گیوردھا میں پیدا ہوئے. ابھی وہ زندگی کے چار سال بھی مکمل نہ کر پائے تھے کہ ۱۹! جنوری ۹۱۱۱ء؁ کو ان کے والد نواب زین الدّ ین کا انتقال ہو گیا.یوں نواب غازی کم سنی میں ہی تمام جائیداد و املاک کے وارث ہو گئے.چونکہ ان کی عمر بہت کم تھی لہٰذا حکومت نے تمام انتظامات اپنے ذمّہ لے لیے.حکومت کی نگرانی میں رئیس زادوں کی طرح ان کی تعلیم و تر بیت ہوئی.مختلف استادوں سے متعدّد زبانیں اور متعدّد علوم سیکھنے کا موقع ملا. جسکا فائدہ اٹھا کر انھوں نے اردو‘ فارسی‘ عربی اور انگریزی پر مکمل عبور حاصل کیا. ساتھ ہی گونڈی‘ ہندی اور مراٹھی سے بھی قدرے واقفیت حاصل کی.
ان کے متعدد استادوں میں ایک عبدالحمید خان زیبا کوٹی بھی تھے.جو اپنے وقت کے ایک بلند پایہ شاعر تھے.نواب صاحب نے انہی سے شاعری کا فن سیکھا اور اس فن میں بہت جلد وہ مقام حاصل کیا کہ ۲۰! برس کی عمر میں صوبۂ متوسّط و برار میں پوری طرح مشہور ہوگئے. حالئی ادب ‘ خلّاقِ معنی‘ نکتہ سنج اور عکّاسِ فطرت کہلانے والے علم و فضل کے مثال پیکر نواب غازی ۳۰! سال کی عمر میں ۱۹۳۷ء؁ میں کامٹی آئے.اور پھر ۱۹۵۸ء؁ میں باغ منزل ناگپور میں سکونت اختیار کی. مطالعٔہ کتب ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا. بلا شبہ وہ ادبی دنیا کی ایک ممتاز اور پروقار شخصیت تھے.اعلٰی خاندان کے چشم و چراغٗ مختلف زبانوں کے عالمٗ اردو شاعری کے بہترین ورثے کے محافظ ‘ بادقار اور ذی وجاہت بزرگ .گیوردھا اسٹیٹ کے مالک مگر اتنا کچھ ہونے پر بھی زمیندارانہ غرور اور تمکنت نے انھیں چھوا بھی نہیں.
نواب صاحب نے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں ہونے والے کل ہند مشاعروں کی صدارت کی. مقامی اخبارات و رسائل کی سر پرستی اور مالی اعانت کی.ان کا کلام ملک کی مختلف جرائد و رسائل میں امتیازی حیثیت سے شائع ہوا.مگر افسوس صد افسوس کہ ان کا دیوان دیوان زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکا.ان کی ابتدایٔ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ۱۰۴ !صفحات کا ایک مختصر سا مجموعہ ’ گلستانِ معرفت‘ کے نام سے۱۹۳۲ء؁ میں دہلی سے شائع ہوا. اس کے علاوہ ان کی چند حقیقت افروز اردو نظموں پر مشتمل ۱۸! صفحات کا ایک کتابچہ ’’ تلخیات ‘‘ کے نا م سے کامٹی سے چھپا. علاوہ ازیں اور کئی کتابچے اردوٗ ہندیٗ فارسی اور انگریزی میں مختلف وقتوں میں شائع ہوئے. شاطرؔ حکیمیٗ ڈاکٹر ایل.سی.رندھیرؔ.شوکتؔ جعفریٗ فروغؔ نقّاشٗ تابشؔ حلیمی اور اختر ؔ نظمی نے نواب صاحب کے علم و فضل سے بھر پور استفادہ کیا. نواب صاحب ۱۶! فروری ۱۹۷۹ء؁ کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے. انھیں ناگپور کے زری پٹکا مسلم قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا. حکیم عزیزؔ قدّوسی نے سنِ ہجری میں قطعۂ تاریخِ وفات کہا کہ ؂
شاعرِ عکّاسِ فطرت ‘ صاحبِ فکرو نظر نام کی برکت سے جو اپنے وحیدالعصر تھے
ناز تھا علم و ادب کو جنکی ہستی پر عزیزؔ اس جہاں سے ہائے وہ نواب غازی چل بسے
نواب صاحب کی زندگی ان کی وفات کے ساتھ بھلے ہی فوت ہو گئی ہو مگر ان کی شخصیت ‘ شاعری اور فن آج بھی زندہ و تابندہ ہے.شاعری میں انھوں نے مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی.غزلیں بھی کہیں ‘ نظمیں بھی لکھیں‘ قطعات بھی کہے اور رباعیات بھی جن میں تخیّل کی بلند پرواز ی ‘ فصاحت و بلاغت ‘ فارسی تراکیب ‘ موسیقیتِ شعری ‘ تشبیہات و استعارات ‘ فلسفے اور تصوّف کے مشکل مضامین ‘ پاکیزہ تغزّل اور زندگی کے مسائل کی بھر پور ترجمانی دیکھنے کو ملتی ہے. نواب غازی کی شعری تخلیقات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ نواب صاحب کی شاعری انکی طبیعت کی عکّاس تھی. نوابی آن بان کے باوجود وہ اپنے رب سے فقر کے طلبگار نظر آتے ہیں. وہ گنج و مال کو ہیچ جانتے ہیں اور ایک اچھّے انسان کی طرح انھیں خدائے بزرگ و برتر پر یقین کامل ہے. دیکھیے وہ بارگاہِ الٰہی میں کس عاجزی اور انکساری سے یہ اعتراف کرتے ہیں ؂
تو باغِ جہاں کا مالی ہے
فہم سے اونچا وہم سے بالا
ہر دل تیرا جانچا پرکھا

برگ وثمر کا رکھوالی ہے
پروازِ خرد سے عالی ہے
ہر نیّت دیکھی بھالی ہے
ایک جگہ ہندی زبان کے الفاظ اور محاورات کا بر محل استعمال کرتے ہوئے یوں دعاگو ہیں کہ ؂
پرم وشواس ‘ ہے پرماتما د ے
مرے سر پر ہو گیان امرت کی برکھا

مہا بلوان ‘ نربل کو بنادے
جٹاؤں سے مری گنگا بہا دے
نواب صاحب کے کلام میں ہمیں قومی اتّحاد اور قومی یکجہتی کا ایک ایسا پیغام ملتا ہے جو اردو شاعری کی صحت مند اور توانا روایت کے شانہ بشانہ نظر آتا ہے. اپنی ایک ربائی میں نواب غازی کہتے ہیں کہ ؂
انسان سب ایک ہیں‘ جدا طو ر نہیں
غم سے وہی نفرت‘ وہی راحت کی تلاش

کس دل میں طلب ‘ کس سر میں غور نہیں
مسلم اور نہیں ‘ ہندو اور نہیں
خصوصاً نواب صاحب کی نظموں میں عصری حسّیت‘ بے اعتدالی و بے راہ روی پر بھر پور تنقید ہم صاف طور پر محسوس کر سکتے ہیں.اپنی ایک نظم ’’ رہنمایان گمراہ ‘‘ میں مذہبی رہنماؤں اور ان کے قول و فعل کے تضاد کو دیکھ کر وہ پکار اٹھتے ہیں کہ ؂
رہنما ہی بے خبر ہیں جب صلوٰۃ و صوم سے
کیا اثر صوتِ اذاں کا ہو‘عوام النّاس پر

کیا فلاحِ قوم ہو پھر ان کی ہائے قوم سے
رہ نما خود صبحدم چونکے نہیں ہیں نوم سے
اس طرح اپنے ایک قطعے میں بے شعور اور فن سے بے خبر شعراء پر لطیف طنز کے پیرایہ میں نواب صاحب یوں چوٹ کرتے ہیں کہ ؂
ہر چند عقل کم ہے‘ ذرا بے شعور ہیں
جب سے غزل سنی ہے مجھے بھی ہے ا عتراف

دنیائے شاعری کے مجدّد حضور ہیں
فنّی اگر نہیں ‘ متفنّی ضرور ہیں
نواب صاحب کے کلام میںقنوطیت اور یاسیت نہیں بلکہ نا مساعد حالات میں بھی با حوصلہ زندگی جینے کادرس ملتا ہے ثبوت میں ایک رباعی پیشِ خدمت ہے ؂
خوش ہوئے ابھی چارئہ ناچار تو ہے
غازیؔ یہ غمِ خانہ خرابی کب تک

سامانِ تسلّیِ دلِ زار تو ہے
چھپّر نہ سہی‘ سایۂ دیوار تو ہے
نواب غازیؔ آف گیوردھا اپنے کلام میں بہ اعتبارِ فن روایت کے پاسدار اور بہ اعتبارِ خیال جدّت کے علمبردار نظر آتے ہیں.جہاں تک انکی غزلوں کا معاملہ ہے تونوا ب صاحب کی غزلوں کی رعنائی و د لبری‘ رنگینی اور حسن‘ داخلیت اور غنائیت‘ رمزیت او ر اشاریت دلوں کو تسخیر کر لیتی ہیں.ان کی غزلوں میں بڑا ہی پاکیزہ تغزّل پایا جاتا ہے.کچھ شعر سماعت فرمائیں.کہتے ہیں. ؂

رخ نہ یوں پھیر ‘ ستم کوش نہ جا
دل کو مشکل سے قرار آیا ہے

بے وفا ‘ عہد فراموش نہ جا
رحم کر راحتِ آغوش نہ جا
دو کیفیت بھرے شعر اور سن لیں کہتے ہیں.
اضطرابِ ہجر کے سب مرحلے طئے ہو چکے
شمع کی آنکھوں میں آنسو‘ چاند کا دل داغ داغ

ہچکیاں کچھ رہ گئیں ورنہ مجھے آرام ہے
سوگ میں غمخوار ہیں کیا زندگی کی شام ہے
اسی غزل میں عکّاسِ فطرت نواب غازی نے اپنے مصوّرِ فطرت ہونے کا ثبوت دیا.لفظوں میں یہ تصویر کھینچ کرکہا ؂
مدّعا کیا کہہ سکوں لکنت زباں کی الاماں
خونچکاں آنکھیں پریشاں مولبِ گویاخموش

تم مقابل ہو تکلّم لرزہ بر اندام ہے
دیکھ جاؤ خوب تصویرِ غمِ ایّام ہے
نواب صاحب کی غزلوں کا پاکیزہ تغزّل اپنی جگہ مسلّم ہے.لیکن اسکے علاوہ بھی انکی غزلوں میں ’’بہت کچھ ہے‘‘اور یہی ’’بہت کچھ‘‘ انھیں اپنے ہم عصر شعراء میں ممتاز کرتا ہے. وہ کہتے ہیں ؂
کون طوفان میں ہو‘شرم سے‘ پانی پانی نا خدا کا‘ میری کشتی نہ سہارا لے گی
انھوں نے اپنی غزلوں میں غزل کے زیرِ لبی لہجے کو بھی بڑی خوبی سے برتا ہے.ایک شعر سنیے ؂
وہ نیم جاں ہو ں کہ ہچکی سے د م نکل جاتا نہ یاد کی ‘ یہ ثبوتِ وفا دیا تم نے
آئیے اب آخر میں ’’نواب صاحب کی شخصیت اور شاعری ‘‘ کے اس تذکرے کے مقطع کے طور پر میں نواب صاحب کا ایک بے پناہ مقطع آپکی سماعتوں کے حوالے کرتا چلوں.سنیے اور شعروسخن کے اس گم گشتہ امام کی یاد تازہ کیجئے کہ ؂
میخانے سے مسجد میں غازیؔ کی پھر آمد ہے
مژدہ با مسلماناں گم گشتہ امام آیا
 

الف عین

لائبریرین
حضرت آذر سیمابی : شخصیت اور فن
(یہ مقالہ ۱۷! ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۶! مئی ۲۰۰۷؁ء کو پڑھا گیا)
از : خواجہ ربّانی


شہر ناگپور بجا طور پر اپنی اردو شاعری کی روایات پر فخر کر سکتا ہے کہ اس کی سر زمین سے ایسے اساتذہ اُٹھے جن کی خدمات کے نتیجے میں ناگپور کا نام برّصغیر کی ادبی تاریخ میں درج ہو گیا۔
ڈاکٹر صوفی حمید اﷲخاں آذرؔسیمابی اُن اساتذئہ فن میں شمار کئے جاتے ہیں جنہوں نے نہ صرف معیاری کلام سے اہلِ ذوق کو نوازا بلکہ آئندہ نسل کو زبان کے برتنے کا سلیقہ سکھایا اور فنِ شاعری کے گلشن کی آبیاری کی۔
۱۵! جنوری ۱۹۲۱ ؁ء کو محمد یٰسین خاں کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حمید اﷲ رکھا گیا۔ محمد یٰسین خاں معاشی طور پر بہت خوش حال نہیں تھے اس لئے یہ مشیّت الٰہی تھی کہ حمید اﷲ خاں کا بچپن افلاس میں گذرے .... لیکن جس طرح سونا آگ میں تپ کر کندن ہوتا ہے اسی طرح حمید اﷲ خاں نے غربت میں بھی علم کی دولت کا اکتساب جاری رکھا اور اپنی شخصیت کو علم سے سنوارا۔ دسویں جماعت تک تعلیم پوری کرنے کے فوراَ بعد انہیں مجبوراً انجمن ار دومڈل اسکول میں مدرسی کی ملازمت اختیار کرنی پڑی۔ دینی علوم کی تحصیل کے لئے آپ نے مولانا مفتی عبدالرشید خان فتح پوری کا تلمّذ حاصل کیا۔ آپ سلوکِ تصوف کے بھی راہی ہوئے اور صوفی عبدلرؤف ساکنِ مؤناتھ بھنجن سے بیعت ہوئے۔ خانگی طورپر ناگپور یونیورسٹی سے بی۔ اے۔ اور اردو ادب میں ایم۔ اے۔ کے بعد ’اردو ادب میں تصوف‘ کے عنوان سے ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا جس پر ناگپور یونیورسٹی نے انہیں پی۔ایچ۔ڈی۔ سے توازا۔
آپ ۱۹۶۳؁ء میں پاکستان تشریف لے گئے اور وہیں کی شہریت اختیار کر لی۔ آپ کے قیامِ پاکستان کے زمانے میں ناگپور سے ربط برابر قائم رہا لیکن ان کی روح اور جسم کا ربط ۱۹۹۷؁ء میں ٹوٹ گیا۔ ناگپور کے ادبی حلقوں کے لئے ان کا انتقال ایک بڑا صدمہ تھا وہ ہر کام ادھورا چھوڑ کر اس جہاں سے گذر گئے، چنانچہ خود کہا :
ہر کام رہ گیا ہے ادھورا تو کیا کریں
دن بھی تو زندگی کے بہت مختصر ملے
آذر سیمابی کو زمانۂ طالب علمی سے ہی شاعری سے رغبت تھی..... یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا ناطق ؔگلاؤ ٹھی اپنی فکر و فن سے ایک دبستان ناگپور میں قائم کر چکے تھے۔ اور منظور حسین شورؔ علم و ادب کے چراغ جلا رہے تھے.... اُسی فضا میں آذرؔ سیمابی نے اپنی فکر اور شاعری سے ایک نئی شمع روشن کی۔ ۱۹۴۱؁ء میں آپ نے سیمابؔ اکبر آبادی کی شاگردی اختیار کی۔ دھیرے دھیرے اُن کے اطراف روشنی کا ایک ہالہ بننے لگا اور پروانے شمع کے گرِد جمع ہونے لگے۔
ایک طرف حضرت طرفہؔ قریشی بھنڈاروی سیمابؔ کے جوھروں سے روشنی کشید کر کے فانوسِ حرم روشن کر رہے تھے تو دوسری طرف آذرؔ سیمابی پگھلی ہوئی چاندی یعنی آبِ سیم سے شاعری کا نیا صنم کدہ بنا رہے تھے..... حضرت آذرؔ کے نام کی رعایت سے ان کی شعری خدمات کو ’’شاعری کا صنم کدہ بنانا‘‘کہا جا سکتا ہے لیکن حقیقتاً حضرت آذرؔ سیمابی صوم وصلواۃ کے پابند ایک ذاکرِتہجّد گذار تھے۔ وہ تصوّف اور عرفان کی منزلوں کے راہی تھے اس لئے ان کی فکر اور شاعری میں توحید اور معرفتِ الٰہی کے انوار کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔
ایک جگہ فرماتے ہیں : ؂
اے نگاہِ شوق اب تو کچھ نہ کچھ جرأت دِکھا طورِ دل تک لا چکا ذوقِ کلیمانہ مجھے
آذرؔ سیمابی شاعری کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے زبان اور اس کے برتنے کے اصولوں سے انحراف کو پسند نہیں کرتے تھے۔ زبان و ادب میں تحقیق و مطالعہ آپ کا مستقل شغل تھا اس لئے وہ اپنے اشعار میں الفاظ اور محاوروں کو بہت احتیاط اور اہتمام سے استعمال کرتے تھے۔ مضمون کی رعایت سے الفاظ کا رکھ رکھاؤ ان کے یہاں ایک عجیب سا تاثر پیدا کرتا ہے۔ کہتے ہیں ؂
آذر ؔکچھ اس طرح سے وہ جلوہ نما ہوئے
جلوے ہی سامنے تھے جہاں تک نظر گئی
ان کی شاعری میں زندگی کی مقصد یت کا واضح تصور پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکثر زندگی گذارنے والے اس سرنہاں تک نہیں پہنچ سکتے اور زیست کو A time segment without purposiveness سمجھتے ہیں لیکن آذرؔ کہتے ہیں :
اُس کا عنوان جنونِ غم ہستی ہوگا
جس فسانے کی حقیقت کا مجھے ہوش نہیں
ایک اور جگہ وجوداور اس کی مقصدیت کے لئے کہا ہے : ؂
تعمیرِ کائنات میں کام آرہا ہوں میں
دنیا سمجھ رہی ہے مٹا جارہا ہوں میں
حضرت آذرؔ سیمابی عشق کو عرفانِ ذات کا ذریعہ سمجھتے تھے کہتے ہیں کہ ؂
میرا وجود برزخِ رازونیاز ہے
پیغامِ عشق حسن کو پہنچا رہا ہوں میں
قبائے زندگانی کی شکستگی، جسم اور روح کو باندھنے والے تارِ نفس کی نزاکت، محبوب کی خواہش کا احترام اور مضمون کی رعایت سے الفاظ کا انتخاب اس شعر کو عشقِ حقیقی کی عظیم بلندی عطا کرتا ہے۔
شعر دیکھئے : ؂
قبائے زندگانی میں نہیں ہے اور کچھ باقی
بس اک تارِ نفس ہے حکم ہو تو توڑدوں وہ بھی
حضرت آذرؔ سیمابی نے اپنے اطراف شاگردوں کی بھیڑ کبھی جمع نہیں کی۔ بہت چھان پھٹک کر با صلاحیت تلامذہ کو اپنے حلقۂ شاگری میں جگہ دی جن میں مولانا مصطفیٰ شائقؔ، یونس انیسؔ، ظفر کلیمؔ، عاجزؔ ہنگن گھاٹی، نظیر احمد نظیرؔ مرحوم، محمد حسین شاغلؔ، افضل حیدریؔ، کلیم احمد کلیمؔ قابلِ ذکر ہیں۔
حضرت آذرؔ سیمابی محض شاعر نہیں تھے بلکہ اردو ادب کے ایک محقق اور مقتدر زبان دان تھے جو اشتقاق اور الفاظ کی اصل کا علم بھی رکھتے تھے اور آپ کو اردو نثر پر بھی عبور حاصل تھا۔ آپ نے ناگپور سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’بنائِ حق‘ اور ’نباّض‘ کے مدیر کی حیثیت سے بھی ادب کی خدمت انجام دی ہے۔ ۱۹۴۴؁ء میں آپ ایک ملک گیر ادبی انجمن ’ادبیہ سیمابیہ‘ کے ناظم مقرر ہوئے۔ ترنّم حیدرآبادی کے ساتھ مل کر آذرؔ سیمابی نے ’سیماب لٹریری سوسائٹی‘ قائم کی تھی۔ ماہ نامہ ’شاعر‘ بمبئی کے ماہانہ طرحی مشاعروں میں آپ ہمیشہ شریک رہتے تھے۔
آذرؔ سیمابی آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن اُن کا فن آج بھی باقی ہے اُن کی شمعِ سخن آج بھی ادبی محفلوں میں روشنی بکھیر رہی ہے۔

(نوٹ : اِس مقالے کے لئے مواد جناب عاجزؔ ہنگن گھاٹی کے ایک مضمون سے لیا گیا ہے جو ’اُردو ٹائمز۔ممبئی‘ میں ۸! ستمبر ۲۰۰۶؁ء کو شائع ہوا تھا۔)
 

الف عین

لائبریرین
طرفہؔ قریشی
(یہ مقالہ ۲۵ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۴!فروری ۲۰۰۸ء؁ کو پڑھا گیا)
از. ڈاکٹر شاکر حسین عبّاسی

کسی بھی زبان کے ادب کے لئے پچاس سال کا عرصہ اس لحاظ سے کافی سمجھا گیا ہے کہ اس دور میں ادب میںجو فکری شعوری‘ عروضی اور اظہاری تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ان کے نتیجے واضح طور پر ہمارے سامنے آجاتے ہیں.طرفہ ؔقریشی پچاس سال پہلے کے شاعر ہیں جب ہم ان کی شاعری پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس نکتہ کو ذہن میں رکھنا چاہئے.
طرفہؔ قریشی کا شہر--آج کے ناگپور سے بہت مختلف تھا اور ادبی لحاظ سے ممتاز بھی. وہ ناگپور کا ایسا دور تھا جس پر ہم بجا طور پر ناز کر سکتے ہیں. مولانا ناطقؔ کا طوطی بول رہا تھا ان کی شاعرانہ عظمت اور علمی وقعت کے سامنے اچھے اچھوں کا پتّہ پانی ہو جاتا تھا. ظفرؔکلیم نے اس دور کی اچھی تصویرکشی کی ہے کہ ؂
یہ شہر ناگپور ہے ناطقؔ کا شہر ہے کم بولئے جناب ذہانت کے باوجود
اس کا غیر شعوری طور پر یہ اثر تھا کہ شاعر اپنے کلام پر ہر اعتبار سے بار بار نظر ڈالتے تھے.اسے زیادہ سے زیادہ نکھارتے تھے.معتبر بناتے تھے.اس طرح خود بخود شاعری کا معیار ہر لحاظ سے بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا. اس زمانے کے شاعروں پر نظر ڈالئے. شاطرؔحکیمی ‘ طرفہؔقریشی‘ حمیدآذرؔ ‘ نواب غازیؔ ‘ یعقوب ساقیؔ ‘ ظفر ؔ ناگپوری‘ شوکت جعفری‘ حافظ بیکسؔ ‘ نواب بلقیس خجستہ بیگم سب کے یہاں الفاظ کی دروبست‘ خیال کی بلندی اور فن کی آبروملتی ہے. یہ اس زمانے کے شاعرانہ ماحول کی تربیت کا تمام اثر تھا.
شاعروں اور ادیبوں کی بے تکلف محفلوں کے لئے جس طرح لکھنؤ کا امین آباد پارک اور دہلی کی جامع مسجد کو شہرت ملی. ناگپور میں اپنے زمانے کا آفتاب ہوٹل بھی اسی زمرہ میں آتا ہے. مومن پورہ میں جیسے ہی داخل ہوں مورچے پر ہی یہ ہوٹل واقع تھا. عصر کے بعد پانی کا چھڑکاؤ ہوتا اور میز اور کرسیاں سلیقہ سے لگا دی جاتی تھیں. اس وقت کے اکثر و بیشتر ادب کے متوالوں کی بے تکلف نشست یہیں جمتی تھی. میں نے طرفہؔ قریشی کو سب سے پہلے یہیں دیکھا.
اوسط قد. منحنی جسم اور سر پر اونچی دیوار کی جناح ٹوپی...ترچھی لگی ہوئی.طرفہؔ صاحب پر جب بھی پہلی نظر پڑتی ٹوپی ہی ٹوپی نظر آتی.کچھ دیر کے بعد معلوم ہوتا کہ ٹوپی کے علاوہ انسانی خدوخال بھی موجود ہیں.ان کی پوری شخصیت میں ایک تھما تھما سا . ایک دھیما دھیما سا انداز تھا. ان کی چال دھیمے رفتار کی‘ ان کی گفتگو دھیمے لَے کی‘ کلام بھی سناتے تو دھیمے لہجے میں. ان کی شاعری میں اونچے نعرے ‘ اونچے الفاظ ‘ اونچا لہجہ اور اونچے دعوے کم ملتے ہیں.’’جس میں طوفاں نہیں آتا وہ سمندر ہوں میں‘‘...ان کی شاعری میں استقلال اور استقامت کی ایک یکساں لَے کا احساس ہوتا ہے جو ان کی فکر و شعور کی پختگی اور ان کے انداز کے یقین کا نتیجہ ہے. جو کچھ کہا جارہا ہے اس پر اعتماد.. جس طرح کہا جا رہا ہے اس پر اعتماد.. یہی ان کی شاعری کا بنیادی وصف ہے.جو بہت کم شاعروں کے حصہ میں آیا ہے.
طرفہؔ قریشی کی ابتدائی ذہنی نشو و نما رسالہ ’’شاعر‘‘ کے مطالعہ سے ہوئی جس میں با قائدہ ہر ماہ طرحی غزلیں شائع ہوتی تھیں.یہ علامہ سیمابؔ اکبر آبادی کا رسالہ تھا .یہی تعلق آگے جاکر شاگردی کا وسیلہ بنا. استاد داغؔ دہلوی کے جو نہ رتن مشہور ہوئے اس میں سے ایک سیمابؔ اکبر آبادی تھے.جن کے طرفہؔ شاگرد ہوئے. داغؔ کے دوسرے رتن مولانا ناطقؔ ناگپور ہی میں موجود تھے اور دنیا مانتی ہے کہ مولانا ناطقؔ الفاظ سے کھیلنے میں کتنی ماہرانہ قدرت رکھتے تھے. اس دور میں غزل میں اس کا عام استعمال تھا . طرفہؔ نے بھی اس ہنر کو اپنایا. اس کو اپنانے میں علامہ سیمابؔ سے زیادہ مولانا ناطقؔ کی موجودگی اپنا اثر ڈال رہی تھی.یہاں صرف ایک مثال دونگا.
طرفہؔ کا شعر ہے ؂
اٹھا نہ رکھ حشر پر یہ جھگڑاعذاب کو اب ثواب کر دے
وہاں یہ زحمت کسی کو کیوں ہو یہیں ہمارا حساب کردے
اور یہی مضمون مولانا ناطقؔ کے یہاں دیکھئے.کہتے ہیں۔۔.
ہویٔ ختم عمر رواں جہاں ‘ وہیں رہ گیا و ہ لیا دیا
سرِ حشر کس کا حساب دوں مجھے آپ نے ہی تھا کیا دیا
یہ الگ بات ہے کہ روانی کے اعتبار سے میزان کیجئے تو استاد استاد ہیں اور شاگرد شاگرد. پھر بھی طرفہؔ نے اسمیں اپنا رنگ دکھایا ہے . اس ہنر کے اور کچھ اشعار دیکھئے.
دیکھا ہے منہ کسی نے خوشی کا‘ تو منہ دکھائے رونا رہا ہے سب کو غمِ روزگار کا
ہوگئی طرفہؔ بہت کہنہ بساطِ زندگی پھینک لے جاکر کہیں اس کو‘کھڑا ہو‘چل ‘اٹھا
اک عرضِ التفات پہ اب تک کھنچے ہیںوہ اتنی سی بات نے انھیں تلوار کردیا
لگانے جا رہا ہے العطش کا تو کہاں نعرہ زباں باہر نکل آئیگی دیوانے‘ بیاباں کی
اللہ ری ان کی شوخئی رفتارکا فسوں محشر نے آنکھ کھول دی‘ فتنے اچھل پڑے
اس منصبِ جلیل کے قربان جائیے سر دار یوں کیا کہ سرِ دار کر دیا
ایک اور شعر دیکھئے شطرنج کے کھیل میںبساط ‘ شرط ‘ پیدل اور مہرے مخصوص الفاظ ہیں.طرفہؔ کی مشاقی دیکھئے.
میں بساطِ شوق بچھاؤں کیا،غمِ دل کی شرط لگاؤںکیا
جو پیادہ چلنے میں طاق تھے وہ تمام مہرے بکھر گئے
طرفہؔ قریشی کا اصلی رنگ غزل میں ہی ابھرتا ہے مگر ان کے دور میں ادب میں گاہے گاہے جو نئے رجحانات ابھرتے رہے ہیں انھوںنے ان کا بھی اثر قبول کیا کہیںکم کہیں زیادہ۔طرفہؔقریشی کی جوانی کے زمانے میں ترقّی پسند تحریک کا غلغلہ بڑے زورشور سے اٹھا تھا۔ایسے ڈھول پیٹے گئے کہ دوسری آوازیں وقتی طور پر سہی اس میں دب کر رہ گئی تھیں۔کچھ ادیب و شاعر وقتی طور پر متاثر ہوئے کچھ ہمیشہ کے لئے اس کارواں کا حصّہ بن گئے۔طرفہ ؔ نے اثر قبول کیا۔ان کا یہ قطعہ دیکھئے:
اک شعاع سرخ کردے گی اجالا ہر طرف یہ جبال و دشت و صحرا آتشیں ہو جائیں گے
اہلِ محنت کو ذرا سا مسکرالینے تو دو جتنے ہیں بے حسن گوشے سب حسیں ہو جائیںگے
مگر طرفہؔ اس غبار سے جلد ہی باہر نکل آئے کیوںکہ ان کا تجربہ بڑا تلخ تھا اور نتیجہ مایوس کن۔انھوںنے اس تحریک کو تنبیہ کی کہ :
یہ ترا نقصِ جلی ،اے انقلابِ عصرِ نو آدمیت ختم ہو اور آدمی باقی رہے
طرفہؔ غزل کے شاعر تھے لہٰذہ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کی اچھل کود کی بجائے ان کے اشعار میں ’’شعاعِ سرخ‘‘ ۔’’اہلِ محنت‘‘۔’’بے حُسن گوشے‘‘ اور ’’نقصِ جلی‘‘ جیسی ترکیبیں استعمال ہوئی ہیں۔یہ ان کے شعور کی پختگی اور فکر کی گہرائی کی غماز ہیں۔کچھ اور شعر دیکھیے جن میں غزلیت کے لوازمات کے ساتھ فکر و نظر کی بالیدگی بھی ملتی ہے۔
اک حرفِ مدعا سے ہوئی کتنی آگہی دنیا ذرا سی بات سے پہچان لی گئی
گئی کچھ اس طرح ،بے درد نے مڑکر نہیں دیکھا ابھی تک بے وفائی یاد ہے،عمر گریزاںکی
بجھائے تھے جہان تُم نے دیے میرے تبسم کے ترستی ہیں وہ گلیاں آج تک جشن چراغاںکو
مری تخئیل میں بنتی نہیں بے ربط تصویریں مرا ہر شعر طرفہؔ فکر کے سانچے میں ڈھلتا ہے
اپنے پائے عمل پہ جھک ناداں سجدئہ شکر ماسوا کیا ہے؟
رحمت کا ذکر رندوںمیں کرنا نہ تھا تجھے واعظ،اسی عطا پہ،خطا اور بڑھ گئی
طرفہؔقریشی کا پہلا مجموعۂ کلام ’’پہلی کرن‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔دوسرا مجموعۂ غزل ’’ نصف النہار‘‘ کے نام سے چھپاڈاکٹر شرف الدّین ساحلؔ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’فکری لحاظ سے پہلی کرن کا کلام صاف ، سُتھرا، پاکیزہ اور لطیف ہے لیکن بعد کے مجموعوںمیں یہ خوبی زائل ہوگئی ہے۔‘‘ مجھے ڈاکٹر ساحلؔ صاحب کی رائے سے اتفاق نہیں ہے۔پہلے مجموعے کا نام ہے۔’’پہلی کرن‘‘ یعنی ابتدا۔دوسرے مجموعے کا نام ہے ’’نصف النہار‘‘ یعنی عروج کی انتہا۔اور دونوںکے درمیان پچیس سال کا عرصہ ہے۔کیا کوئی شاعر زندگی ،وقت اور زمانے کے ارتقائی کارواںسے کچھ بھی حاصل نہیں کرتا اور وہ بھی پچیس سال کے طویل عرصہ میں؟اور اگر واقعی ایسا ہے تو پھر وہ شاعر ،شاعر کہلانے کا ہی مستحق نہیں۔لیکن طرفہ ؔ کا دیوان’’نصف النہار‘‘ ثابت کرتا ہے کہ طرفہؔقریشی شاعر تھے اور قابل شاعر۔جنہوںنے زندگی کو جیا بھی اور وقت کی رفتار پر نظر بھی رکھی ۔ان کے دیوان،’’پہلی کرن‘‘ اور’’نصف النہار‘‘ کو سامنے رکھ کر موازنہ کریں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ طرفہؔ کی گرفت غزل پر مستحکم ہوتی چلی گئی، زبان نکھرتی گئی، الفاظ کی نشست کی باریکیوںسے وہ آشنا ہوتے چلے گئے اور تخئیل کی دھنک رنگ بکھیرنے لگی۔بے شمار اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں مگر میں یہاں تین اشعار پیش کروں گا ۔آپ خود دیکھیے ذہنی طور پر شاعر کی پختگی اور بالیدگی۔’’پہلی کرن‘‘ کا شعر ہے:
جمالِ ابتدا ہو کر ، جلالِ انتہا ہو کر بشر دنیا میںآیا مظہرِ شانِ خدا ہو کر
جو حضرات شاعری کا ذوق رکھتے ہیں وہ آسانی سے کہہ دیںگے کہ یہ شعر بالکل حالیؔ کے رنگ کا ہے۔ اب ’’نصف النہار‘‘ میں اسی موضوع کو دیکھیے:
مرا وجود ہے اسرارِ کائنات کا دل مذاقِ خلقتِ کون و مکاں کا حاصل ہوں
یہ شعر سن کر ذہن بے ساختہ ’’اقبالؔ ‘‘ کی طرف جاتا ہے۔حالیؔ اور اقبالؔ میں کیا فرق ہے یہ دنیا جانتی ہے۔ اس شعر میں ’’خلقتِ کون و مکاں‘‘ سے اضافت کے ساتھ لفظ ’’مذاق‘‘ کو کتنا مقدس اور محترم بنادیا ۔ ایک اور شعر دیکھیے۔’’پہلی کرن‘‘ میں کہتے ہیں:
ذکر غم پر وہ تبسم بھی نہ فرماتے تو پھر سن کے پتّھر کی طرح خاموش رہ جاتے تو پھر
اوریہی بات جب ’’نصف النہار‘‘ میں کہتے ہیں تو انداز دیکھئے۔
کہتا نہ تھاکہ عرضِ غمِ دل ہے بے اثر لے اے شعورِ درد ، ترے بات بھی گئی
اس’’ شعورِ درد‘‘ میں جوکیفیت اور کرب ہے بس اس کی شدّت محسوس کیجئے۔ ایک اور شعر ہے’’پہلی کرن‘‘ کا۔کہ
تجھ سے غرض ہے تیری حضوری سے کام ہے کونین میرے سامنے آئے تو کیا کروں
لیکن جب ’’ نصف النہار‘‘ میں یہی خیال پیش کرتے ہیں تو تیور دیکھئے۔
وہ عروج ہے کہ فرشتے بھی نہ اٹھا سکے یہاں سر کبھی
کوئی کیسے آنکھ ملا سکے ترے در کے سجدہ گزار سے
ان اشعار کا موازنہ بتا رہا ہے کہ ’’پہلی کرن‘‘ کے مقابلے میں ’’نصف النہار‘‘ میں شاعر کے تخئیل کی اڑان کتنی بلند ہوئی اس کا شعور کتنا جِلا پا گیا اور پیش کرنے کا ہنر کتنا نکھر گیا۔ اس لئے انھوں نے اعلان کیا کہ ۔
نہیں ہے کیا میرے پاس طرفہؔخدا نے کیا کچھ نہیں دیا ہے
کرے گا کوئی طلب جو مجھ سے شعور دونگا شعار دونگا
اور جنابِ عالی... شاعری....نام ہی ہے شعور اور شعار کے مرکب کا۔ کہتے ہیں۔
ہمارے دم سے سب کچھ ہے نہ ہوں گے ہم تو اے ساقی
یہ مینا ، یہ سبو ، یہ خم ُ ،یہ ساغر ، کون دیکھے گا

ان کی بعض غزلیں تو ایسی ہیں کہ پوری کی پوری غزل ،غزلیت میں غرقاب ہے اور بے ساختہ مومنؔ کی یاد دلاتی ہیں۔ایسی ہی ایک مچلتی ہوئی غزل دیکھئے کتنی سجل، شگفتہ اور شاداب ہے۔ کہتے ہیں۔
یہ تن تن کے چلنا،یہ تیور بدلنا،قیامت کو سائے میں لے کر نکلنا
فلک ہے کہ سہما ہوا سا کھڑاہے زمیںہے کہ ڈر سے دبی جا رہی ہے
تم اچھے تمھاری ہر اک بات اچھی،ہنسی تم پہ صدقے،خوشی تم پہ قرباں
مگر اپنی چتون کے بل تو نکالو، یہ کچھ اور ہی چغلیاں کھا رہی ہیں
یہ طرفہؔ تمہیں آج کیا ہو گیا ہے،یہ کس رو میں بہتے نظر آرہے ہو
گیا اب کہاںوہ تخیّل تمہارا، غزل آج کس رنگ میں جا رہی ہے
طرفہؔ کیا بتاتے کہ انہیں کیا ہو گیا ہے۔ انسان کی زندگی میں ایسا لمحہ آ ہی جاتا ہے جب وہ دل کو کبھی کبھی تنہا بھی چھوڑ دیتا ہے۔پروفیسر منشاء الرحمان خاں منشائؔ نے ان کے ایک اور مجموعہ کلام ’’ فانوس حرم‘‘ میں اپنی رائے لکھی ہے کہ ۔’’شعور کی پختگی اور شعر گوئی کی مہارت جہاں ان کی غزلوں میں امتیازی طور پر پائی جاتی ہے وہیں نعتوں میں بھی ان کی جلوہ گری جا بجا نظر آتی ہے۔‘‘
طرفہؔقریشی کے کلام پر یہی تبصرہ صحیح ، صائب اور صحت مند ہے۔ہر سخن فہم اور سخن شناس طرفہؔ کا کلام پڑھ کر ماننے پر مجبور ہوگا۔ بات ’’فانوس حرم‘‘ کی آگئی ہے تو ایک قصیدہ کا ایک بند بھی ملاحظہ کیجئے۔حضور اکرمؐ کی دنیا میں آمد ہے اور شاعر نے نقشہ کھینچا ہے۔
رات کی پلکوں پہ مہتابی اجالے رولتی ہر سیاہی میں ،جمالِ حسن فطرت گھولتی
چاند کی زرّیں شعاعوں کو پروں پر تولتی قصرِ باطل میں حقیقت کے دریچے کھولتی
عرش سے اُتری زمیں پر ناز فرماتی ہوئی
کفر کر رُخ کو، کرن ایماںکی، جھلساتی ہوئی
مہتابی کے اجالے رولنا، جمالِ حسن فطرت گھولنا، پروں پر تولنا، حقیقت کے دریچے کھولنا۔کیا یہ ترکیبیںاظہار نہیں ہیں کہ شاعر کو الفاظ پر کتنی قدرت اور اندازِ بیان پر کتنی مہارت حاصل ہے۔جہاں ترکیبیں بے مثال ہیں تو تخئیل کی رو بھی رواں دواں ہے۔
ان کی نظموں میں بھی غزل کی نغمگی اور جذباتی فضا خود بخود بنتی چلی جاتی ہے ان کی ایک نظم ہے۔’’آ میرا وطن دیکھ‘‘ پوری نظم مخمور اور مسرور فضا سے معمور ہے۔ایک بند دیکھئے کہ کس جذبے کی مٹھاس ، الفاظ کی شیرینی میں پگھل رہی ہے۔
آ میرا وطن ، میراوطن، میرا وطن دیکھ
بال اپنے یہاں بنتِ عنب کھول رہی ہے
تسنیم کی بوندوں کو گھٹا رول رہی ہے
زمزم کے پیالوں میں شکر گھول رہی ہے
او خانہ بر اندازِ چمن ، نازِ چمن دیکھ
آمیراوطن،میراوطن،میرا وطن دیکھ
یہ تفصیل اور تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ طرفہؔ قریشی قادرالکلام شاعر تھے۔زبان آشناتھے۔شعر کہنے کا فن جانتے تھے۔
مگر یہ حقیقت بنیادی ہے کہ وہ غزل کے شاعر تھے۔اور غزل کا شاعر ہوناخود ایک کمال ہے۔غزل کو غزل کی طرح کہنے میں شاعر کا
تخیّل،الفاظ پر اس کی گرفت اور مصرعوں میں ان کی مینا کاری۔محنت بھی چاہتی ہے اور جودت بھی۔اور طرفہؔ کو قدرت نے یہ دونوں چیزیں عطا کی تھیں ۔لہٰذا انھوں نے اردو کو ’’ نصف النہار‘‘ جیسا دیوان دیا۔یہی ایک دیوان ان کے اس دعوے کو سچ ثابت
کرنے کے لئے کافی ہے کہ ؂
میں تخت نشینِ ادب و شعر ہوں طرفہؔ
برسوں مجھے یاد، اہلِ قلم کرتے رہیں گے
 

الف عین

لائبریرین
حمیدؔ ناگپوری
(یہ مقالہ پانچویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۲! اپریل ۲۰۰۶ء؁ کو پڑھا گیا)
از. محمد سکندر حیات
صدر محترم و معزز سامعین !
سب سے پہلے مبارکباد پیش ہے صدر مسلم لائبریری کے عہدیدارو اراکین کی خدمت میں کہ انھوں نے ماہانہ شعری نشستوں کا اہتمام کیا اور اُسے استواریت سے چلانے کی ذ مّہ داری جناب مشتاق احسن اور انکے رفقاء کار کو سو نپی جسے وہ انتہائی خوش اسلو بی سے پوری کر رہے ہیں. ان شعری نشستوں کا مقصد جہاں نئے شعری رجحانات سے روشناس ہونا ہے وہیں یہ مقصد بھی زیر نظر ہے کہ ہم ناگپور کے اساتذہ کے شعری تخلیقات سے استفادہ حاصل کریں۔
حمید ؔ ناگپوری کا نام شعری حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں. البتہ ہماری نئی نسل کو شاید انکی شاعرانہ عظمت و حسیت کا علم نہ ہو. اس زمانہ میں شاید ہی کوئی ادبی نشست ہوتی جس میں حمیدؔ صاحب موجود نہ ہوتے. وہ وسیع النظر. بلند خیالات کے حامل. پیکر اخلاص و محبت تھے. انکے کلام میں فطری بہاؤ اور آمد ہے. یہی وجہ ہے کہ انکے اشعار آسانی سے دل میں اُتر جاتے ہیں اور زبان زد ہیں.آل احمد سرور کے یہ جملے انکے محاسن کلام پر روشنی ڈالتے ہیں.
’’ میں و سطِ ہند کے اِس شاعر سے اب تک واقف نہ تھا. کلام پڑھا تو حیرت بھی ہوئی اور افسوس بھی. حیرت ‘ کلام کی خوبی پر اور افسوس اپنی لا علمی پر. حمیدؔ ناگپوری کی فکر پر تغزل کا گہرا اثر ہے. حسن اظہار اور لب و لہجہ کی سنجیدگی اور روانی کی وجہ سے انکے بیشتر اشعار مقبول ہیںاور زبان زد ہیں.‘‘
پیر مغاں خم خانۂ سخن حضرت مولنٰا ناطقؔ گلاؤٹھوی اپنے تاثرات میں رقم طراز ہیں کہ ’’ انسان عمر بھر غلط فہمیوں کا شکار ہوتا رہتا ہے. حمیدؔ صاحب کی ابتدائی شاعری میں حسنِ کلام و بیان کی خوبیوں کو دیکھ کر اور انکی محدود علمی قابلیت کا اندازہ لگاتے ہوئے میں یہ سمجھتا تھا کہ حمیدؔ صاحب کو ضرور کوئی دوسرے صاحب لکھ دیتے ہونگے. مگر جب نظر آیا کہ حمیدؔ صاحب کے کلام اور حسنِِبیان کی خوبیاں روز افزوں ہیں ‘ میں نے یہ خیال کیا کہ ان خوبیوں کے ساتھ لکھنے والا دوسرا کوئی شخص ناگپور میں موجود نہیں. اور ساتھ ہی یہ بھی سوچا کہ اگر اس عظمت کے ساتھ کوئی دوسرا لکھنے والا ہوتا تو وہ خود ضرور میدانِ شاعری میں آگیا ہوتا. ان کا کلام جو میں نے سنا اسے محاسنِ لفظی اور معنوی سے پُرپایا. اسلئے میری وابستگی حمیدؔ صاحب سے بڑھتی گئی.‘‘
مولنٰا ناطقؔ نے آج تک کسی صاحب کی تصنیف پر کوئی مقدمہ نہیں لکھا. لیکن حمیدؔ ناگپوری کے مجموعہ کلام ’’حرفِخاموش‘‘پر اپنے تاثرات ضرور قلمبند کئے. اس سے بھی حمیدؔ صاحب کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہوتا ہے.ان کی شا عری زندگی کے تلخ حقائق پر محیط ہے.انھوں نے جو محسوس کیا اسکا بر محل اظہار کیا.کسی مخصوص طرزِ فکر سے وابستگی یا کسی نظریے کی تبلیغ نہیں کی.محبت انکا شعار تھا. ؂
حمید ؔ مجھ کو زمانہ مٹا نہیں سکتا
بنا لیا ہے محبت کو زندگی میں نے
حمیدؔ صاحب کے مجموعہ کلام ’ حرف خاموش‘ کو ادبی حلقوں نے سراہا .اسمیں نظمیں.غزلیں.قطعات.رباعیات شامل ہیں. حرف خاموش پر پروفیسر ڈاکٹر سید رفیع ا لدین صاحب دامت برکاتہ کا تبصرہ اسطرح روشنی ڈالتا ہے.’’ حرفِ خاموش میں جو رنگ غالب ہے وہ ان کا تغزل ہے.شاعر کا مذاق نہایت شستہ ‘ پاکیزہ اور رومانیت آمیز ہے. نکھرے ستھرے جذبات کیلئے حسنِ اظہار کا جامہ بھی نہایت سادہ اور لطیف ہے. انکی شاعری پامال راہوں سے گریزاں ہے اور رسمی قیدو بند سے آزاد ہے.‘‘
ان کے کلام میں زمانہ کی شکایت کے مضامین جا بجا پائے جاتے ہیں. جو تغزل کے رنگ میں حسنِ اظہار کا اچھا نمونہ ہے.
حمیدؔ رسمِ زمانہ سے ہم نہ تھے واقف کسے خبر تھی کہ اپنے بنیں گے بیگانے
پوچھو نہ کس عذاب میں کاٹی ہے زندگی ناکام حسرتوں کا سہارا لئے ہوئے
حوادثِ زمانہ نے شاعر کو بے حد حساس بنادیا تھا.اس کا اظہار وہ اس طرح کرتے ہیں. ؂
فکر پابندئی حالات سے آگے نہ بڑھی زندگی قیدِ مقامات سے آگے نہ بڑھی
سر خوشی بن نہ سکی زہر الم کا تریاق زندگی تلخیٔحالات سے آگے نہ بڑھی
حمیدؔ کے یہاں چھوٹے پیرائے میں اخلاقی مضامین نہایت خوبصورتی کے ساتھ ادا ہوتے ہیں.
الفت میں یہ نفرت کا ابھرنا کیسا
اب تک یہ سمجھ میں نہیں آیا اپنی
کردار ہے کیا چیز خبر ہو تو سہی
دنیا سے برائی کا تصوّر مٹ جائے
یہ تفرقۂ شیخ و برہمن کیوں ہے
مذہب ہے اگر صدق و محبت کی دلیل

تفریق کی راہوں سے گزرنا کیسا
انسان کا انسان سے ڈرنا کیسا
اس راز سے آگاہ بشر ہو تو سہی
عیبوں پہ مگر اپنے نظر ہو تو سہی
یہ برق دوئی شامت گلشن کیوں ہے
انسان پھر انسان کا دشمن کیوں ہے
نا مساعد حالات کے باوجود وہ مایوس نہیں ہیں.انھوں نے امید کا دامن تھامے رکھا ہے.دیکھئے یہ شعر ؂
حمیدؔ شامِ غریباں کا کس لئے شکوہ وہ دیکھ جانبِ منزل چراغ جلتا ہے
اور وہ اس طرح سکون بھی تلاش کرتے ہیں.
سکونِ دل کہاں انساں کو حاصل سوائے زیر دامانِ محمد
حمیدؔ صاحب کا کلام اپنے شعری محاسن کی وجہ سے اربابِ علم وادب سے دادِ تحسین حاصل کرتا رہیگا اور لوگ انہیں یاد
کرتے رہینگے.
ستم رسیدۂ الفت کوئی حمید ؔ بھی تھا زمانہ دے تمھیں فرصت تو یاد کرلینا
 

الف عین

لائبریرین
حافظ محمد ولایت اﷲ حافظ
از : ڈاکٹر محمد اظہر حیات
(ریڈر (اردو)، یشودا گرلز آرٹس اینڈ کامرس کالج، ناگپور)

ناگپور میں اردو زبان و ادب کی تاریخ کے سرسری مطالعہ سے ہی ہمیں ایسے نام مل جائیں گے جن کے علم و فضل کی بنیاد پر ہندوستان میں ناگپور کو پہچانا جاتا ہے ۔ ان چند ہستیوں میں حافظ محمد ولایت اﷲ کا نام نمایاں نظر آتا ہے ۔
حافظ صاحب ہندوستان کے سابق نائب صدر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد ہدایت اﷲ صاحب کے والد بزرگوار تھے ۔ ان کے آباواجداد کا وطن بنارس تھا۔ حافظ صاحب کے والد کا نام محمد قدرت اﷲ تھا۔ وہ زود گو شاعر کثیرالتصانیف بزرگ اور بااثرشخصیت کے مالک تھے ۔ غدر کے زمانے میں قومی و ملکی افرتفری کے سبب انہوں نے ہجرت کر کے بھوپال کے پاس سیہور نامی شہر میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے قدرت اﷲ ریاست بھوپال میں کئی اہم منصب پر فائز ہوئے ۔ ان کے چار بیٹے تھے ۔ محمد ولایت اﷲان کے دوسرے نمبر کے فرزند تھے ۔
محمد ولایت اﷲ ۴/ ستمبر ۱۸۷۳؁ء کو سیہور میں پیدا ہوئے ۔ صرف نو سال کی عمر میں انھوں نے قرآن کریم حفظ کر لیا تھا۔ اس سے ان کی غیر معمولی ذہانت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ابتدائی تعلیم سیہور میں حاصل کی بعد ازاں جبلپور سے انٹرنس کے امتحان میں نمایاں کامیابی کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے محمڈن اینگلو اور ینٹل کالج علی گڈھ میں داخلہ لیا۔ ۱۸۹۵؁ء میں بی۔اے ۔ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔
ایم۔اے ۔ او کالج میں حافظ صاحب کا زمانہ طالب علمی بڑا یادگاررہا۔ ایک طرف مولانا محمدعلی جوہرؔ، مولانا شوکت علی، بابائے اردو مولوی عبدالحق وغیرہم جیسے با کمال حضرات ان کے ہم مکتب تھے تو دوسری طرف سر سید احمد خاں ، مولانا الطاف حسین حالی، محسن الملک اور مولانا شبلی نعمانی جیسی قد آور شخصیات ابھی بقید حیات تھیں ۔ جن کے افکار و خیالات سے پوری قوم متاثر ہورہی تھی۔ حافظ ولایت اﷲ کو بھی ان بزرگوں کی صحبت نصیب ہوئی۔ جس سے ان کے خیالات میں وسعت پیدا ہوئی اور فطری صلاحیتوں کو جِلا ملی۔
۱۸۹۰؁ء میں بی۔ اے ۔ پاس کرنے کے بعد حافظ صاحب اپنے وطن لوٹ آئے ۔ اور روزگار کی تلاش میں ۱۸۹۷؁ء میں ممالک متوسط و برار کی طرف رخ کیا۔ یہاں پہلی تقرری چاندہ میں تحصیلدار کی حیثیت سے ہوئی۔ بعد ازاں ایڈیشنل کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ ۱۹۲۹؁ء میں ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے ریٹائر ڈ ہوئے ۔ اورناگپور کو ہمیشہ کے لیے جائے مسکن بنا لیا۔
حافظ صاحب نے سرکاری ملازمت کے فرائض نہایت حسن و خوبی کے ساتھ انجام دئیے جس کے صلے میں حکومت نے انہیں خان بہادر ’قیصر ہند، آئی ایس او اور بیج آف سینٹ جونس ایمبولبنس جیسے گراں قدر خطابات سے سرفراز کیا۔
حافظ صاحب خوش مزاج ظریف طبیعت اور بزلہ سنج تھے ۔ بے تکلّف دوستوں کی محفل میں ان کی گلفشانیِ گفتار سننے کے قابل ہوتی۔ ان کی ظریفانہ طبیعت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس کے راوی مرحوم پروفیسرڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب تھے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک شام حافظ صاحب دوستوں کے ساتھ اپنے مکان کے سامنے باغ میں بیٹھے تھے ۔ ایک شادی شدہ جوڑا سامنے کی سڑک پر سے گذر رہا تھا ایک دوست نے حافظ صاحب کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور کہا حافظ صاحب آپ کو بھی اسی طرح جوڑے کے ساتھ گھومنا چاہئے ۔ حافظ صاحب کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی انھوں نے برجستہ کہا ’’لوگ کہیں گے کیا اس لیے ایسی صورت کو چالیس سال تک پردے میں رکھا تھا۔‘‘
طبیعت کی شگفتگی اور بذلہ سنجی کا اثرکلام میں بھی نمایاں نظرآتا ہے ۔
’’سوز و گداز‘‘ کے نام سے ۱۹۴۱؁ء میں ایک مجموعہ کلام شائع ہوا۔ ۳۳۰ صفحات پر محیط اس مجموعہ میں غزلیں ، نظمیں ، قصائد اور قطعات شامل ہیں ۔ حافظ صاحب کی دوسری تصنیف ’’تعمیرِ حیات‘‘ اگست ۱۹۴۹؁ء میں شائع ہوئی یہ ایک طویل نظم ہے جس میں اصلاحی پہلو غالب ہے ۔
حافظ صاحب کا مخصوص میدان یوں تو نظم گوئی تھا۔ اس میں وہ مزاحیہ نظموں کے بادشاہ کہے جا سکتے ہیں ۔ لیکن اردو کے بیشتر شعراء کی طرح انہوں نے بھی شعرگوئی کی ابتداء غزل سے ہی کی تھی۔ ’’سوزوگداز‘‘ میں غزلیات کے تحت ۵۳ غزلیں شامل ہیں ۔سادگی، سلاست، ندرت خیال اور جدّت تخّیل ان کی غزلوں کے نمایاں اوصاف ہیں ۔ مثال کے طور پر یہ چند اشعار دیکھئیے :
عشق کہتا ہے میرے نالوں سے
دل یہ کہتا ہے بار بار مرا
غیر کی اتنی کہاں ہمّت کہ وہ آئے یہاں
ناصح کو نہ سمجھا تھا کہ کم ظرف ہے ایسا

دل لگی تھی جو دل لگا بیٹھے
کوئی کرتا ہے انتظار مرا
کس طرح ہم کو یقیں ہو آپکا ایمانہ تھا
کیا دھوم مچائی ہے جو تھوڑی سی پلادی
دنیا کی بے ثباتی اور شہر خموشاں کی ویرانی پر کیا ہی بلیغ تبصرہ ہے ؂
ہزاروں نامور آکر بسے شہر خموشاں میں

مگر اس سر زمیں کی پھر بھی ویرانی نہیں جاتی
حیات بعد الممات کی گتھی کس طرح سلجھاتے ہیں ؂
مرنا جسے کہتے ہیں وہ ہے زیست کا آغاز

ملتی ہے بقا سب کو اسی راہ فنا میں
حافظ صاحب نے سہل ممتنع میں بڑی کامیاب غزلیں کہی ہیں ۔ چند اشعار ملاخطہ فرمائیے :
راہ پر مڑ کے کیوں مجھے دیکھا
نہیں پہلو میں جب قیام و قرار

کی محبت کی ابتداء تونے
اے خدا کیوں یہ دل دیا تونے
اس بحر میں ایک حمدیہ غزل کے یہ اشعار بھی دیکھیے :
مجھ کوپیدا کیا خدا تونے
دور پھیکا نہ بعد مردن بھی

اور سب کچھ عطا کیا تونے
پاس اپنے بلا لیا تونے
حافظ ولایت اﷲ حافظ کا اصلی جوہر تو میدانِ ظرافت میں کھلتا ہے ۔ اکبر الہ آبادی کے رنگ میں انھوں نے خوب کہا ہے ۔ اکبر کا تتبع اور تقلید انھوں نے کچھ اس طرح کیا کہ لوگ انہیں اکبر ثانی کہنے لگے ۔ سوزوگداز میں مزاحیات کا الگ عنوان قائم کیا گیا ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت ۸۶ نظمیں شامل ہیں ۔ اکبر کی طرح وہ بھی مسلمانوں کی زبوں حالی، اخلاقی پستی اور اسلامی اقدار سے بیزاری پر کڑھتے ہیں ۔ مولویوں اور علماء کی بے حسی پر جا بجا طنز کرتے ہیں ۔
اکبر نے جن موضوعات پر اشعار کہے ہیں کم و بیش وہی موضوعات ہمیں حافظ صاحب کے کلام میں بھی نظر آتے ہیں ۔ مثلاً پردہ، حالات حاضرہ، زبان، مسلمانوں کی زبوں حالی فیشن پرستی اور قوم و وطن کی محبت کے موضوعات دونوں کے یہاں مشترک نظر آتے ہیں ۔
پردہ کے متعلق اکبر الہ آبادی کے اشعار زبان زد خاص و عام ہیں ۔
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بی بیاں
پوچھا جو ان سے آپکا پردہ وہ کیا ہوا

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
حافظ صاحب کے یہ اشعار دیکھیے
ایک دن وہ تھا کہ ہر جانب یہ ہوتی تھی پکار
پھر یہ دیکھا لوگ کہتے تھے بہ آواز بلند
مرد اب رہتے ہیں پیچھے بیبیاں ہیں پیش پیش
عام جلسوں میں صفِ اوّل میں ہے ان کی نشست
شکل جس کی نہ ہو اچھی وہ رکھے پوشیدہ

بیبیاں پردہ میں ہو جائیں کہ مرد آتے ہیں یاں
مرد کرلیں اس طرف منہ آرہی ہیں بیبیاں
اور سب ان کے لیے کرتے ہیں خالی کُرسیاں
بیوی لکچر دیتی ہیں خاموش بیٹھے ہیں میاں
اچھی صورت کے لیے حاجتِ پردہ کیا ہے
شیخ واعظ، مولوی پنڈت کی ظاہرداری و ریاکاری اکبر کا محبوب موضوع تھا۔ حافظ صاحب نے بھی اس موضوع پر خوب شعر کہے ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیے : ؂
شیخ کی عادت ہوئی اتنی خراب
شیخ صاحب برسر منبر بہت آساں ہے وعظ
آپ نے اپنا بنارکھا ہے دستور العمل

ان کو زمزم بھی کشیدہ چاہئیے
پستئی اخلاق کی حالت مگر کیسے بنے
دعوتیں کھائیں لیا نذرانہ اور چلتے بنے
اکبر کے یہاں سماجی برائی چندہ اور غیر ضروری کمیٹیاں اس موضوع پر بھی اشعار ملتے ہیں ۔ اکبر کی طرح حافظ صاحب کی گلفشانی دیکھئیے : ؂
چلتے ہیں سارے کام چندوں سے
لسٹ چندوں کی چند روزہ ہے
نقد تحویل کے امین بنے
سخت مشکل حساب میں یہ ہے

صرف ان کا حساب ہے غائب
بعد میں وہ کتاب ہے غائب
اب جو پوچھو جواب ہے غائب
کہ وہاں بے حساب ہے غائب
ایک طویل نظم ’’تذکیرو تانیث بُزبان اردو‘‘ کے منتخب چند اشعار ملاحظہ کیجئے : ؂
بہت پر لطف گو اردو زباں ہے
حجاب و پردہ گھونگھٹ اور برقع
مونث ہے جناب شیخ کی ریش
مذکر ہو گیا گیسوئے جاناں
دُوپٹّہ عورتوں کا ہے مذکر
فراق و وصل ہیں دونوں مذکر
ہوئیں جب مونچھ اور داڑھی مونث

مذکر اورمونّث کی ہے دقّت
مذکر ہے یہ کل سامانِ عورت
ہو کچھ بھی اس کی مقدار و طوالت
ہوئی اس کی طوالت کی یہ عزّت
مونث کیوں ہے دستارِ فضیلت
مونث ہے مگر واعظ کی صحبت
تو پھر کرنا پڑا دونوں کو رخصت
حافظ صاحب ہندی اور انگریزی کے الفاظ بڑی بے تکلفی سے استعمال کرتے تھے ایک طویل طنزیہ نظم ’’نوجوانوں سے خطاب‘‘ کا مطلع بھی دیکھئے :
نوجواں تجھ کو سزاوار ہو یورپ کا چلن
یہ دعا ہے کہ مبارک ہو تجھے یہ فیشن
اس نظم میں ڈائمن،مینشن، سیمی کولن، کٹھن، آرگن، رشین، لوشن، انجن، جرمن، لندن ، لیٹن، کچن، ٹفن، سمّن، رن، وغیرہ انگریزی قوافی کا استعمال بڑی خوبی سے کیا گیا ہے ۔ ۷۲ اشعار کی اس نظم میں ۶۰ مقامات پر انگریزی لفظوں کا استعمال کیا گیا ہے ۔
حافظ صاحب کے ہاں طنز و مزاح ایک خاص رنگ و آہنگ کا حامل ہے ۔ وہ مزاج کے ساتھ طنز کی آمیزش اس طرح کرتے کہ قاری زیر لب مسکراتا اور پھر سنجیدہ بھی ہو جاتا۔ آخر میں شاعر کے جذبہ خلوص کا قائل ہو جاتا۔ در حقیقت حافظ صاحب کے کلام کی یہی خوبی انہیں وسط ہندکا اکبر ثانی بناتی ہے ۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ناگپور میں حافظؔ صاحب طنز و ظرافت کے نقشِ اوّل ہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ اب تک ان کا کوئی ثانی نہیں ہے تو شاید غلط بھی نہ ہو۔
حافظؔ صاحب نے پیرانہ سالی کے سبب ۱۲/ نومبر ۱۹۴۹؁ء کو رحلت فرمائی۔ اس وقت ان کی عمر ۷۶/ برس تھی۔ زری پٹکا قبرستان ، ناگپور میں تدفین عمل میں آئی۔ بیدل ؔنے تاریخ وفات نکالی :
ہے مرگ حضرت حافظ گراں بار
ہوئے بے چین سب اپنے پرائے
بزرگوں کی گئی آخر نشانی

ادب کی محفلیں تھیں ان کے دم سے
جدائی ہے بزرگِ محترم سے
جہاں خالی ہوا اہلِ قلم سے
دعا بیدل ؔکی ہے یہ بہتر تاریخ
الٰہی بخش دے ان کوکر م سے
 

الف عین

لائبریرین
’’شاطرؔ حکیمی..... تو نہ ہوتا تو زندگی کیا تھی‘‘
از ۔ : خلیل انجمؔ کامٹی
(یہ مقالہ ۲۳/ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۹/ دسمبر ۲۰۰۷؁ء کو پڑھا کیا)

اشارہ ان کی جانب سے اگر پہلے نہیں ہوتا توکیوں برباد کرتے مفت میں ہم زندگی اپنی ؟
ایک شعر کی صحیح تعریف یہ ہے کہ اسے سنتے یا پڑھتے ہی وہ ہمارے دل میں اتر جائے ۔ اس کا کوئی لفظ اپنی جگہ سے ہٹایا جائے اور نہ ہی اس میں کسی ترمیم و اصلاح کی گنجائش نظر آئے ۔ غرض وہ ایسی ڈھلی ڈھلائی شئے ہو جو کسی خوبصورت مجسمہ سے کم نہ ہو جسے دیکھ کر ہم بیساختہ کہہ اٹھیں ’’واہ!کیا چیز ہے !‘‘۔ اس سے بہتر تعریف کسی معیاری شعر کی نہیں ہو سکتی۔ اور اگر شعر پڑھنے یا سننے کے بعد ہم کو یہ سوچنا پڑے کہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے ؟ تو سمجھ لیجئے شعراپنی تعریف میں نا مکمل ہے ۔ حسر تؔ موہانی نے ایک معیاری شعر کی تعریف یوں کی ہے :
شعر دراصل ہیں وہی حسرتؔ سنتے ہی دل میں جو اتر جائیں
با لکل یہی کیفیت ’’اشارہ ان کی جانب سے .......‘‘ والا شعر سننے یا پڑھنے کے بعد ہوتی ہے ۔ اس شعر کے شاعر ہیں شاطرؔ حکیمی جو آج میرا موضوع سخن ہیں ۔ گرچہ وہ آج ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کی یادیں آج بھی دل و دماغ کو تروتازہ کر دیتی ہیں ۔
شہر کامٹی جو ہمیشہ سے اردو زبان کا مرکز رہاہے یہی شاطرؔ حکیمی کی جائے پیدائش ہے اور جائے وصال بھی۔ان کے والد محترم الحاج صوفی عبدالحکیمؒ کا شمار کامٹی کی ان علمی و ادبی شخصیات میں ہوتا ہے جن کے فیض و اثر سے کامٹی کو آج علم و ادب کے میدان میں نمایاں مقام حاصل ہے ۔ شاطرؔ حکیمی جب تک حیات میں رہے ہرسال ۲۲/ محرم کو اپنے والد محترم کا عرس پورے اہتمام کے ساتھ مناتے اور۲۳/محرم کی شب میں کبھی طرحی اور کبھی غیر طرحی مسالمہ بیاد شہدائے کربلا کا اہتمام بھی کیا جاتا۔مسالمہ بڑے پیمانے پر ہوتا جس میں ملک کے چند نامور شعرائے کرام شرکت فرماتے ۔ عالمی شہرت یافتہ ناظم مشاعرہ ثقلین حیدر شاطرؔ حکیمی کے بڑے معقّد تھے ۔ جب تک شاطرؔ حکیمی حیات میں رہے ہر سال ثقلین حیدر نہ صرف مسالمہ میں حاضری دیتے بلکہ اپنے ساتھ دوچار نامور شعراء کو بھی لاتے ۔ اہلِ ذوق سامعین کثیر تعداد میں جمع ہوتے اور رات بھر مسالمہ سے لطف اندوز ہوتے ۔ خواتین سامعین کی تعداد بھی خاصی ہوتی۔ مسالمہ کو کامیاب بنانے میں ثقلین حیدر کی کوششیں معاون ثابت ہوتیں ۔ شاطرؔ حکیمی کے وصال کے بعد مسالمہ کا انعقاد شاذونادر ہی ہوا مگر عرس کی تقریب اب بھی ہر سال منعقد ہوتی ہے مگر شاطرؔ حکیمی صاحب کے زمانے کی بات ہی کچھ اور تھی۔
اپنے مضمون کا آغاز راقم التحریر نے شاطرؔ صاحب کے ایک مشہور شعر سے کیا تھا مگر اس پر اپنی بات کو ادھورا چھوڑ کر دوسری طرف چلا گیا۔ اردو شاعری کے عشقیہ مضامین میں اس خیال سے ملتے جلتے شعر ترقی یافتہ صورت میں بہت سے ملیں گے اس کی ایک مثال مجازؔ لکھنوی کا یہ شعر بھی ہے :
عشق کا ذوقِ نظارہ مفت میں بدنام ہے حسن خود بیتاب ہے جلوہ دکھانے کے لیے
اگر تقابلی جائزہ لینا مقصود ہو تو یہ بتائے بغیر کہ شاعر کون ہے ؟ یہ دونوں شعر کسی کے سامنے رکھئے پھر دیکھئے کس کے شعر پر کتنی داد ملتی ہے : ....اندازِ بیان یا اسلوب دونوں میں ایک جیسا ہے مگر سادگی اور بے تکلفی کے اجزا شاطرؔ حکیمی کے شعر میں زیادہ ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ فرق لکھنؤ اورکامٹی کا ہے ۔ دراصل آج بھی ہم میں سے بہت سے لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ شعر کس کا ہے ؟ یہ نہیں دیکھتے کہ بات کیا کہی گئی ہے اور اس کا اندازِ بیاں ذہن و دل کو کس طرح اپیل کرتا ہے ؟
ایک اندازے کے مطابق شاطرؔ حکیمی نے چارسو سے زائد غزلیں کہی ہوں گی۔ نظم، مرثیہ، تاریخی قطعات وغیرہ بھی اچھی معقول تعداد میں ان کے یہاں مل جائیں گے ۔ مگر افسوس کہ ان کا ایک ہی شعری مجموعہ ہے جو ’’موت و حیات‘‘ کے نام سے ۱۹۴۴؁ء میں شائع ہوا۔ یعنی ’’موت و حیات‘‘ کی تمام غزلیں اور ن۔ظمیں انگریزی دور کی ہیں ۔ شاطرؔ حکیمی کا وصال ۱۹۸۸؁ء میں ہوا۔ اس اعتبار سے ان کی شاعری کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے اور ظاہر ہے ان دونوں حصوں کی شاعری میں فرق و امتیاز بھی ہونا چاہیے ۔ ’’موت و حیات‘‘ کی شاعری میں جوش اور ولو لہ اپنے عروج پر نظر آتا ہے کہ ہندوستان آزادی کے لیے جدوجہد میں مصروف تھا اور آزادی کے بعد کی شاعری میں جوش اور ولولہ کی تپش قدرے مدھم ہو گئی تو متانت اور سنجیدگی کی فضا ہموار ہوئی۔ گویا ایک دریا پہاڑی راستوں سے گزرتا ہوا کھلے اور ہموار میدان میں آگیا جہاں دریا کی رفتار تو سست ہو جاتی ہے مگر اس کی قدرو قیمت بڑھ جاتی ہے ۔
نظم کا عنوان مجھے یاد نہیں مگر یہ نظم ’’موت و حیات‘‘ میں محفوظ ہے اور ۱۹۴۴؁ء ہی میں یہ نظم ریڈیو ماسکو (روس) سے نشر ہوئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں اس نظم کا پسِ منظر لوکمانیہ تلک کا وہ نعرہ تھا جسے سنتے یا پڑھتے ہی دلوں کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں ۔ تلک نے فرمایا تھا ’’آزادی میرا پیدائشی حق ہے اور اسے میں لیکر رہوں گا۔‘‘ اس نظم کو سننے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ شاطرؔحکیمی پکّے محب وطن تھے ۔وہ ہندوستان کو مکمل طور پر آزاد دیکھنے کے دل سے خواہاں تھے اور اپنے ملک پر غیر ملکی تسلط کو ہر گز برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔ پوری نظم ان کے جذبات و احساسات کی آئینہ دار ہے ۔ نظم کے بول بڑے اثر انگیز ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں :
بہادرو نہ جانے پائے ہاتھ سے یہ سرزمین وطن ہی سے جہان ہے وطن نہیں تو کچھ نہیں
’’موت و حیات‘‘ میں وطن پرستی کے جذبات سے معمور اس فکر و خیال کی اور بھی نظمیں ہیں جنھیں پڑھ کر نہ صرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاعر کو اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس ہے بلکہ قاری کو بھی جدوجہد آزادی کے لیے اکساتی ہیں ۔ شاطرؔ حکیمی بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں مگر ملک کے حالات کے پیشِ نظر انہوں نے نظمیں بھی کہیں کیونکہ نظم کا دامن وسیع ہوتا ہے ۔ اس میں جذبات و احساسات کو احسن طریقے سے پیش کرنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے ۔
’’موت و حیات‘‘ پربیشتر اہلِ علم و دانش نے تبصرے کئے ہیں اور مختلف رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوئے ہیں ۔ تمام تبصروں کو احاطۂ تحریر میں لانا مشکل ہے تاہم نیازؔفتح پوری اور مجنوں ؔ گورکھپوری نے جس انداز میں تبصرے فرمائے ہیں ان کا ذکر اختصار میں کیا جا تا ہے ۔ نیازؔ فتح پوری اپنے رسالہ ’’نگار‘‘ میں لکھتے ہیں کہ شاطرؔحکیمی بڑی سے بڑی بات آسانی سے کہہ جاتے ہیں ۔ یہ خصوصیت بڑی خصو صیات میں سے ہے ۔ شاطرؔ حکیمی کا شمار ترقی پسند شعراء میں ہوتا ہے مگر ان کے کلام میں ان کی بے راہ روی نہیں پائی جاتی۔ مجنوں ؔ گورکھپوری نے لکھا کہ ’’موت و حیات‘‘ شروع سے آخر تک پڑھ جائیے ، شاطرؔ حکیمی مرکزی خیال سے نہیں ہٹتے ۔‘‘
میرے خیال سے اس سے بڑی سند کسی فنکارکو مشکل سے ہی حاصل ہوتی ہے ۔ اس اعتبار سے شاطرؔ حکیمی خوش نصیب ہیں کہ اتنا بڑا اعزاز انھیں اس وقت ملا جب ان کی شاعری کی عمر نصف بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ محفل مشاعرہ ہو، شادی خانہ آبادی کی تقریب ہو یا کوئی سیاسی جلسہ، شاطرؔ حکیمی ہر محفل کی جان ہوتے تھے ۔ بخشی غلام محمد جموں کشمیر کے وزیر اعظم تھے ۔ آج بھی مسئلہ کشمیر ہندوپاک کے درمیان زیر بحث ہے ۔ اس مسئلہ پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں بھی ہوئیں ۔ بخشی غلام محمد کامٹی تشریف لائے تھے اور یہیں گاندھی چوک پر ان کے اعزاز میں ایک جلسہ منعقد کیا گیا تھا۔ کثیر تعداد میں لوگ بخشی غلام محمد کی تقریر سننے آئے تھے شاطرؔ حکیمی نے ان کے استقبال میں ایک نظم پیش کی تھی جس میں مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کے موقف کی حمایت کی گئی تھی۔ نظم چھ یا سات بند پر مشتمل تھی اور ہر بند کا آخری مصرع تھا’’جان کر دیں گے فدا کشمیردے سکتے نہیں ‘‘ ، شاطرؔصاحب تحت میں پڑھ رہے تھے اور جب اس مصرع پر آتے تو لوگ بھی ان کی آواز میں آواز ملا دیتے ۔ ان کے پڑھنے کا انداز بھی بہت خوب تھا۔ بخشی غلام محمد نے اس جلسہ میں کیا کچھ کہا وہ تو لوگ جلد ہی بھول گئے مگر شاطرؔ حکیمی کی نظم کا مصرع ’’جان کر دیں گے فدا کشمیر دے سکتے نہیں ‘‘ آج بھی ان لوگوں کو یاد ہے جو اس جلسہ میں موجود تھے ۔
شاطرؔ حکیمی مشاعروں میں بھی اپنا کلام سناتے تھے اور اپنا نقش چھوڑ جاتے ۔ تقسیم ہند سے پہلے برہان پور کے ایک طرحی مشاعرے میں وہ مدعو تھے ۔ طرحی مصرع تھا ’’زندگی کا مزہ گناہ میں ہے ‘‘ یہ مصرع جگرؔ مراد آبا دی کا ہے اور جگر ؔ مرادآباد ی خود اس مشاعرے میں شریک تھے ۔ جگر ؔکے علاوہ ماہرؔالقادری، ادیبؔ مالیگانوی اور آزادؔ انصاری جیسے ماہرین فن بھی اس مشاعرے میں شریک تھے ۔ جگر ؔجب اپنے اس شعر پر پہنچے تو دادو تحسین کی صداؤں سے مشاعرے کی چھت اڑنے لگی :
میں جہاں ہوں ترے خیال میں ہوں تو جہاں ہے مری نگاہ میں ہے
مشاعرہ ہوتا رہا لیکن اس شعر سے زیادہ کوئی شعر مقبول نہیں ہوا اور جب شاطرؔ حکیمی مائک پر آئے اور اپنے اس شعر پر پہونچے تو ایک بار پھر ’’واہ /واہ‘‘ کے شور سے مشاعرہ گونج اُٹھا :
تم نہ سمجھو تو کیا کرے کوئی دل کا ہر مدعا نگاہ میں ہے
ماہرؔ القادری سرِ مشاعرہ فرمانے لگے کہ بعض اوقات شخصیتیں کام کرتی ہیں ۔ ان کی بلند آواز اور شہرت کے غلغلے کے آگے دوسری آواز دب کر رہ جاتی ہے ۔ مثلاً سچ پوچھئے تو شاطرؔ حکیمی کا یہ شعر مشاعرے کی مقبولیت کا حامل ہے جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔
اسی دوران آکولہ میں شکیلؔبدایونی کی صدارت میں ایک طرحی مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ طرحی مصرع تھا ؂ ’’اک فرشتہ بھی انتظار میں ہے ‘‘ شکیلؔ بدایونی کے علاوہ صباؔ افغانی اور حسرتؔ جے پوری وغیرہ بھی اس مشاعرے میں شریک تھے ۔ مشاعرہ پوری کیفیت کے ساتھ چل رہا تھا۔ دوسرے شعراء کے مقابلے میں شاطرؔ حکیمی کے اس شعر کو زیادہ پسند کیا گیا :
شبِ ہجراں گزار دی ہم نے روزِ محشر تو کس شما ر میں ہے ؟
شکیلؔ بدایونی نے جب اس مشاعرے کی روداد لکھی تو اس شعر کا خصوصی طور پر ذکر کیا۔
۲۴!نومبر ۱۹۷۴؁ء کو کامٹی میں شمع لائبریری کے ایک یادگار آل انڈیا مشاعرے میں جب شاطرؔ حکیمی اپنی نظم ’’سینۂ کائنات کا اضطراب و کرب‘‘ پڑھ کر رخصت ہوئے تو ناظمِ مشاعرہ ڈاکٹر ملک زادہ منظور نے نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج کا نوجوان شاعر بیس سال بھی کوشش کرے تو شاطرؔ حکیمی کے اس مقام تک نہیں پہونچ سکتا۔
پیشے کے اعتبار سے شاطرؔ حکیمی مونسپل اردو پرائمری اسکول ، کامٹی میں مدرس تھے ۔ ان کی اہلیہ جو آج بھی حیات ہیں ، بڑی صابر و شاکر اور وفا شعار ہیں ۔ سات بچوں (دو بیٹیاں اور پانچ بیٹوں ) کی تعلیم و تربیت کا بوجھ تنہا شاطرؔ حکیمی کے کاندھوں پر تھا ۔ گھر کا خرچ مشکل سے چلتا تھا۔ تنخواہ بھی وقت پر نہیں ملتی تھی۔ تین تین، چار چار ماہ انتظار کرنا پڑتا تھا۔ ظاہر ہے ادھار لیکر گھر کے اخراجات کو پورا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے باوجود کوئی مہمان آجاتا تو خندہ پیشانی سے اس کا استقبال کرتے ۔ ان کی بڑی بیٹی اپنی تعلیم مکمل کر کے معلّمہ بنی تو گھر میں آسودگی کے آثار نمایاں ہوئے ۔ کچھ دنوں بعد دو بیٹیوں کو بھی ملازمت مل گئی تو مزید آسودگی حاصل ہوئی مگر تب تک شاطرؔ حکیمی اپنے درس و تدریس کے شعبے سے سبکدوش ہو چکے تھے ۔
کامٹی میں ناگپور، جبل پور روڈ پر آزاد لائبریری کے سامنے ایک چھوٹی سی ہوٹل تھی جو ’’غفور ہوٹل‘‘ کے نام سے مشہور تھی۔ آس پاس اور بھی اس طرز کی ہو ٹلیں تھیں مگر اب وہاں ’’شہید سمارک‘‘ بن گیا ہے ۔ آزاد لائبریری بھی اب نہیں رہی۔ ’’غفور ہوٹل‘‘ کی چائے بہت مشہور تھی۔ ہم لوگ شام میں وہیں ہوٹل کے عقبی حصّے میں کرسیاں لگا کر بیٹھ جاتے ۔ میرے دوستوں میں ممتاز قادری، ماسٹر اسماعیل، نسیم مظہری وغیرہ بھی وہیں مل جاتے ۔ فلم، کرکٹ اور شاعری ہماری گفتگو کے موضوعات ہوا کرتے ۔ اکثر شاطرؔ حکیمی بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے ۔ اگر حسنِ اتفاق مولوی سعید اعجازؔ کامٹی میں ہوتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ جاتے مگر ان کے سامنے فلم کا موضوع غائب ہو جاتا۔ پاکستان کے نامور کرکٹ کھلاڑی حنیف محمد، شاطرؔ حکیمی کے رشتہ دارہیں ۔ شاطرؔ حکیمی کبھی کبھی فلم بھی دیکھ لیا کرتے تھے ۔ دلیپ کماراور وحیدہ رحمٰن کی اداکاری سے وہ بہت متاثر تھے ۔ محبوب خان اور بی آر چوپڑہ ان کے پسندیدہ ڈائرکٹر تھے ۔ فلم ’’نیا دور‘‘، ’’پیاسا‘‘، ’’مغلِ اعظم‘‘، ’’دھرم پتر‘‘ اور مشہور انگریزی فلم ’’دی ٹین کمانڈ منٹس‘‘ (The Ten Commandments) وغیرہ انہوں نے ہمارے ساتھ ہی دیکھی تھیں ۔ ان کی شخصیت میں بڑی کشش تھی۔ ۶۰۔۶۵/سال کی عمر میں بھی تندرست و چست نظر آتے ۔ اتنی عمر میں بھی تیز قدموں سے چلتے تھے ۔ چہرے مہرے کے بھی خوب تھے ۔ چھوٹی سی داڑھی تھی اور اس پر سفّتی بال، سفید کرتہ اور تنگ مہری کا پاجامہ ان کا پسندیدہ لباس تھا۔ کسی خاص مشاعرے میں جا نا ہو یا کسی خاص شخصیت سے ملاقات کرنا مقصود ہو تو شیروانی بھی زیب تن کر لیتے ۔ شیروانی میں ان کی شخصیت مزید پر کشش نظر آتی۔ مجھے یاد ہے وہ عید کا ہفتہ تھا۔غا لباً ۱۹۶۱؁ء کا ذکر ہے ۔ ان دنوں لبرٹی ٹاکیز (ناگپور) میں ’’دی ٹین کمانڈمنٹس‘‘ چل رہی تھی۔ ناگپور ہی میں محلّہ بھالدارپورہ میں ان کے ایک قریبی رشتہ دار رہتے تھے ۔۔ وہ ان سے ملنا چاہتے تھے ۔ میں ان کے ساتھ ہو لیا۔ وہ شیروانی پہنے ہوئے تھے ۔ اپنے ر شتہ دار سے عید ملنے کے بعد ہم دونوں لبرٹی کی طرف کوچ کر گئے ۔ جب ہمارا رکشا لبرٹی پہنچا تو ہم اتر گئے ۔ میں رکشا والے کو پیسے دینے میں رہ گیا اور شاطرؔ حکیمی صاحب آگے بڑھ گئے ۔ رکشا والا شاید شاطرؔ صاحب کی شخصیت اور اندازِ گفتگو سے مرعوب تھا۔ مجھ سے پوچھنے لگا۔ ’’یہ کہاں کے باشندے ہیں ؟، ، میں نے مسکرا کے جواب دیا ’’یہیں کے ہیں ‘‘..... ’’میں سمجھا لکھنؤ سے آئے ہیں ۔‘‘ رکشاوالے نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔
اردو شاعری میں گروپ بندی کا رواج بہت پہلے سے ہے اور آج بھی ہے ۔ شاطرؔ حکیمی کا شمار معتبر اساتذہ میں ہوتا ہے ۔ ان کے بہت سے شاگرد ہیں جنھوں نے ان سے استفادہ کیا۔ مشاعروں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اساتذہ اپنے شاگردوں ہی کے معیاری اور اچھے شعر کی داد دیا کرتے ہیں مگر شاطرؔ حکیمی کسی بھی اچھے اور معیاری شعر کی کھل کر داد دیتے تھے بھلے ہی وہ ان کا شاگر د نہ ہو۔ یہ ان کی ایسی خصوصیت تھی جس نے انھیں مزید مقبول و ممتاز بنایا۔
مارچ ۱۹۶۴؁ء میں ممتاز قادری کراچی چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد میرا بھی کامٹی سے تبادلہ ہو گیا تو ’’غفور ہوٹل‘‘ کی بیٹھک ہی ختم ہو گئی۔ بہت دنوں بعد ممتاز قادری کا خط کراچی سے آیا۔ اس نے لکھا تھا ’’جب سے کراچی آیا ہوں نہ تو اچھا شعر پڑھنے میں آیا اور نہ ہی سننے میں ۔ جی چاہتا ہے اڑکر کامٹی آجاؤں اور شاطرؔ حکیمی صاحب کے پاس بیٹھ کر اچھے شعر سنوں ۔‘‘
غرض شاطرؔ حکیمی میں فنِ شاعری کے علاوہ اور بھی بہت سی خوبیاں تھیں ۔ اگر وہ شاعری نہ بھی کرتے تو ایک اچھے انسان کی حیثیت سے معاشرے میں جانے جاتے ۔ ان کے وصال سے اردو شاعری کو نقصان ہوا ہی ہے ۔ ایک انسانیت نواز شخصیت سے بھی معاشرہ محروم ہو گیا ہے ۔ اپنا مضمون انھیں کے اس شعر پر ختم کرنا چاہوں گا جس نے مجھے ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کی یاد دلائی اور ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے :
’’تو نہ ہوتا تو زندگی کیا تھی اے غمِ عشق تیری عمردراز‘‘
 

الف عین

لائبریرین
شاکر اورنگ آبادی کی ادبی خدمات​
از : ڈاکٹر شاکر حسین عبّاسی​
(یہ مقالہ ۱۸/ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۳/ جون ۲۰۰۷ء کو پڑھا گیا)

شاکرؔ اورنگ آبادی..... اردو کے ایسے ادیب تھے جو شاعر بھی تھے ۔ مضمون نگار بھی اور افسانہ نویس بھی۔ اور اس پر امتیاز یہ کہ اپنے وقت کے بہترین مقرر بھی تھے ۔انھوں نے شاعری کی مگر ’’صاحبِ دیوان‘‘ نہ ہو سکے ۔ انھوں نے افسانے لکھے مگر ’’صاحبِ کتاب‘‘ نہ بن سکے ، ہاں تقریر کے میدان میں ان کا طوطی بولتا تھا اور وہ یقینا ’’صاحبِ بیان‘‘ کے درجہ پر متمئن تھے ۔
شاکرؔ صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا۔ شاکرؔ ان کا تخلص تھا ورنہ ان کا نام تو منور حسین تھا۔ ابتدائی چند سالوں کو چھوڑ کر شاعری پر انھوں نے بہت کم توجہ دی حالانکہ فن شاعری پر ان کی نظر اہل نکتہ سنج کی طرح تھی۔ اسی طرح انھوں نے نثر میں مضامین اور افسانے بھی لکھے ان کا قلم اس محفل کا بھی نکتہ داں تھا۔ نثر کیسے لکھی جائے ، نثر کی اچھائیاں ، اس کی خوبیاں ، اس کی کمزوریاں ، اس کی بے اعتدالیاں ، اس کی جولانیاں اور اسکی پستیاں ان سب پر ان کی گہری نظر تھی۔ کیا مجال کے کوئی اچھا ادیب یا شاعر ان کے مطالعے سے بچ نکلے ۔ کسی کتاب کا نام لیجئے ان کے پاس موجود، کسی رسالے کا ذکر کیجئے ان کا پڑھا ہوا۔
آج سے تقریباً ساٹھ سال پہلے جنوری ۱۹۴۴ء میں ناگپور میں انجمن ترقی اردو ہند کی تیسری آل انڈیا کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس شاکرؔ اورنگ آبادی کی زندگی کا ایک اہم موڑ بن گئی۔ پورے ہندوستان سے تقریباًَ تین سو ادیب، شاعر اور اہل فن اس کانفرنس میں شریک ہوئے ۔ بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق،انجمن کے سیکریٹری تھے ان کے علاوہ مولانا حبیب الرحمٰن خاں شروانی، پروفیسر غلام مصطفٰی خاں ، ڈاکٹر احتشام حسین، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی، مولانا امتیاز عرشی، پروفیسر شہاب رضوی، ڈاکٹر عبادت بریلوی، جیسے نامور ادیب تشریف لائے ۔ شعراء کرام میں ماہرؔ القادری، خمارؔ بارہ بنکی، اخترؔ شیرانی ،سلیمان ادیب، محوی ؔصدیقی، علامہ دتاتاریہ کیفی، ظریف ؔدہلوی اور شعری ؔبھوپالی جیسے آسمان شاعری کے ستارے اس کانفرنس میں جمع ہوئے ۔ تین دن کی اس کانفرنس کے عام اجلاسوں میں دس دس ہزار کا مجمع تھا۔
کانفرنس کا اہتمام انجمن ہائی اسکول، صدر ناگپور کے میدان میں ایک خوبصورت اور وسیع شامیانے میں کیا گیا تھا۔ کانفرنس بہت کامیاب اور شاندار رہی۔
کانفرنس کی تیاری، انتظامات اور کامیابی کے لئے جہاں ایک طرف نواب محی الدین خاں کھجی، نواب صدیق علی، ابراہیم فنا اور عبدالستار فاروقی کے نام لئے گئے وہیں ایک بیس سالہ نوجوان کا نام بھی سب کی زبان پر تھا۔ یہ نوجوان تھے ... شاکرؔ اورنگ آبادی۔ ان کے جوش و خروش، جذبہ خدمت اور ان تھک محنت کا یہ ثمرہ تھا کہ کانفرنس کے بعد انجمن ترقی اردو کے سیکریٹری ڈاکٹر مولوی عبد الحق نے خاص طور سے اس نوجوان کو نجی ملاقات کے لئے بلوایا۔ یہ ایک ملاقات اپنا رنگ دکھا گئی۔ شاکر صاحب اردو کے عاشق تو تھے ہی مرشد کی ایک صحبت نے انہیں اردو کا مجذوب بنا دیا۔ اس کے بعد آنے والے برسوں میں اس علاقے سے اردو کی جو بھی تحریک اٹھی، جو بھی تنظیم ابھری، جو کارواں چلا، شاکرؔ صاحب اس کے لازمی اور فعالی رکن ہوا کرتے تھے ۔
کانفرنس کے ایک سال کے بعد ہی ان کی مرتب کر دہ کتاب ’’سمن زار‘‘ شائع ہوئی جس میں اس زمانے کے چند مقامی شاعروں کا مختصر تعارف اور ان کے کلام کا نمونہ دیا گیا ہے ۔ خود شاکرؔ صاحب کی دو نظمیں ’’گدگدی‘‘ اور ’’ماہ درخشاں سے ‘‘ اس مجموعہ میں شامل ہیں ۔
انجمن ترقی اردو کی سالانہ کانفرنس سے جو جذبہ اور جوش پیدا ہوا تھا اس کے نتیجے میں ناگپور میں ادارہ ادبیہ سیمابیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا۔ اس ادارہ کے تحت بڑے پیمانے پر کامیاب مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ طرفہؔ قریشی اور آذرؔ سیمابی کے ساتھ شاکرؔ اورنگ آبادی بھی اس ادارہ کے فعالی رکن تھے ۔اس ادارہ نے اس علاقے میں مشاعروں کا ایک نیا جہاں آباد کیا۔
اس علاقے سے نکلنے والے ماہ نامے جیسے ماہنامہ راہیؔ، ماہنامہ پروازؔ، ماہنامہ نباضؔ اور ماہنامہ خیالؔ میں شاکرؔ اورنگ آبادی کے مضامین اور افسانے شائع ہوئے ۔ افسانوں میں ’’ناسور‘‘ ، ’’صبح و شام‘‘ اور ’’یہ مرد‘‘ کامیاب افسانے مانے جاتے ہیں ۔ انجمن جوانانِ حسینی، ناگپور نے ’’نفس نبی‘‘ کے نام سے ایک شاندار اور ضخیم مجلّہ شائع کیا اسمیں شاکرؔ اورنگ آبادی کا ایک مضمون مولانا علی ابن ا بی طالب کی شاعری پر بڑا وقیع اورعلمی مضمون ہے ۔ یہ رسالہ ۱۹۸۱ء میں شائع ہوا اس کے بعد ان کا کوئی مضمون نظر سے نہیں گزرا۔
شاکرؔ صاحب کو دور سے دیکھ لینے اور ان سے ملنے میں بڑا تضاد تھا۔ دیکھئے تو گہرا سانولا رنگ، گول مٹول چہرا، قد ذرا کم مگر چست ضخامت کی طرف مائل، ان پر نظر پڑتے ہی ذہن میں ایک قسم کی گولائی کا تصور ابھر آتا تھا۔ مگر جب ملئے تو لبوں پر تبسم کی باریک لکیر، شستہ لہجہ، صاف الفاظ، نرم دم گفتگو اور سداپامنکسر۔ ان سے مل کر ہمیشہ اپنائیت کا احساس ابھرا۔
ایک زمانہ میں شاکرؔ صاحب کا گھر ناگپور آنے والے ادیبوں اور شاعروں کے لئے ایک آستانہ تھا۔ بہت سے ایسے شاعر اور ادیب جو آگے چل کر قد آور اور نام ور ہوئے ابتدائی ایام میں شاکر صاحب کی مہمان نوازی کا لطف اٹھا چکے تھے ، ان کو اس کا چٹخارہ تھا۔
تخلص.... شاکرؔ... زندگی بھر ساتھ چلتا رہا مگر شاعری بہت پہلے ہی کہیں راستے میں پیچھے رہ گئی۔ یہی حال کچھ سالوں کے بعد نثر کا بھی ہوا۔ قلم سے بھی ناطہ ٹوٹ گیا اور وہ پورے کے پورے تقریر کے ہو کر رہ گئے ۔ ان کی تقریروں میں زبان کا رسیلا پن، الفاظ کا جڑاؤ، محاوروں کی کاٹ، فی البدیہہ اشعار کی آرائش اور لطیفوں کی جھالر ہمیشہ سجی رہی لیکن موضوع کا حق برابر ادا کرتے تھے ۔ اردو والوں کا کہیں بھی کیسا ہی اجتماع ہو اگر شاکرؔ صاحب نظر آجائیں تو سامعین آس لگا لیتے تھے کہ ایک اچھی، شگفتہ اور پر مغز تقریر سننے کو ملیگی۔ قدرت نے انہیں ویسا ملکہ بھی دیا تھا اند کی آواز میں بڑی لچک اور لئے تھی، لہجے کے اتارچڑھاؤ پر کمال کی مہارت تھی ۔ قدرت نے جذبات کی عکاسی کا پورا فن انہیں عطا کر دیا تھا ان کی تقریر میں الفاظ اور لہجہ مل کر جذبے کی پوری پوری تصویر کھینچ دیتے تھے ۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا تھا کہ شاکرؔاورنگ آبادی اپنے پورے وجود میں آواز ہی آواز ہوں ،
وہ آواز ......جو ذاتی نشستوں میں اپنی شیرنی، شگفتگی اور اپنائیت کی مٹھاس بھرتی رہی۔
وہ آواز ......جو اپنی مجلسوں میں ایمان اورایقان کی جوئے نغمہ خواں بنی رہی۔
وہ آواز ......جو شاعروں میں زبان و بیان کی گل کاریاں کرتی رہی۔
وہ آواز ......جو ۲۶/نومبر ۱۹۹۰ء کو شام ۶ بجے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گئی۔ ایسا بولنے والا انسان چند دنوں بیمار رہ کر ایسی خاموشی سے چلا گیا.... چلا گیا اور وہ بھی ایسی جگہ کہ ؂
مر بھی جاؤں تو نہیں ملتے ہیں مرنے والے
موت لے جا کے خدا جانے کہاں چھوڑتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
حضرت حکیم شیخ محبوب واقفؔ برہانپوری (مرحوم)
از : حاجی عبدالجبّار سحرؔ ناگپوری

حکیم شیخ محبوب واقفؔ بُرہانپوری ۸/ فروری ۱۹۰۱ء میں پیدا ہوئے ۔ اُنکے والد شیخ قاسم مرحوم ایک نامور زمین دار تھے ۔ اور اپنے دور کی معزز ہستیوں میں شمار کیے جاتے تھے ۔
حضرت حکیم واقفؔ مرحوم نے اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم حکیم علامہ حاذقؔ (مرحوم) ملکہ پوری (جو اُستاد شمشاد لکھنوی، فرنگی محلی کے شاگردِ عزیز تھے ) سے حاصل کی۔ آپ کو جہاں شاعری میں مہارت حاصل تھی، وہیں حکمت میں کمال، لہذا حضرت واقفؔ نے شاعری اور حکمت کے لئے انہیں کے آگے زانو ئے تلمذ تہہ کیا۔
موصوف بہترین شخصیت کے مالک تھے ۔ آپ نے ہمیشہ ماحول اور روایت کا احترام کیا۔اسلیے آپ کی شاعری، روایت سے نہ صرف وابستگی کا، بلکہ مرعوُبیت کا ثبوت فراہم کرتی ہے ۔ آپ نے روایتی اسلوب میں اپنی شاعری کا بہترین معیار پیش کیا۔ اور پوری خود اعتمادی کے ساتھ اپنے فن اور فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں اپنی مدد آپ کی۔ ذوق شاعری کا یہ سلسلہ حضرت واقفؔ کی وفات تک قائم رہا۔
اسلیے بزمِ سخن ہو، یا دانشوروں کی محفل، آپ ہر خاص و عام میں قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے ۔ آپ کی عمر کا پورا زمانہ نیک نامی میں گُذرا، صورت و سیرت سے بُزرگانِ سلَف کی یاد تازہ ہو جاتی۔ طبیعت میں حد درجہ وضع داری اور نفاست تھی۔ دلکش شخصیت، سلیقے کا لباس، دکنی وضع کی شیروانی آپکی بزرگی میں چار چاند لگا دیتے تھے ۔
عمر کے آخری حصّے میں کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئے ۔ ناگپور میں علاج کے باوجود افاقہ نہیں ہوا۔ تو ڈاکٹروں کے مشوروں پر علاج کے لئے بمبئی گئے ۔ مگر مرض بڑھتا گیا، جُوں جُوں دوا کی۔ اور پھر زندگی کا آخری سفر تمام ہوا۔ ۱۷/ نومبر ۱۹۶۶ء جمعرات کے دن اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ، مقام ناریل باڑی (بھائیکلہ) کے قبرستان میں سُپردِ خاک کیے گئے ۔
اپنے پیچھے تین لڑکے اور ایک لڑکی چھوڑ گئے ۔ دوسرے نمبر کے (درمیانی) فرزند شیخ اسمعٰیل واقفؔ تین سال پہلے داغِ مفارقت دے گئے ۔ اِس وقت اُنکے بیٹوں میں جناب ڈاکٹر شیخ ابراھیم واقف ہیں جو N.M.C. میں میڈیکل آفیسر کے عہدے سے ریٹائیرڈ ہو چکے ہیں ۔ اور سب سے چھوٹے بیٹے شیخ اسحاق واقف بقید حیات ہیں اور خوشگوار زندگی گذار رہے ہیں ۔
آپکا مجموعۂ کلام ’’نبض کو نین‘‘ آپکی حیات ہی میں مکمل ہو چکا تھا۔ جس پر حضرت ابراؔ حسنی (مرحوم) نے آپکی شاعری پر تبصرہ لکھا ہے ۔ اور’’ نبض کونین‘‘ کا پیش لفط استاذالاساتذہ، فخرالمتاخرین پیر مغانِ خم خانۂ سخن حضرت مولانا ناطقؔ گلاوٹھی نے تحریر کیا ہے ۔ جو فرماتے ہیں :
حکیم شیخ محبوُب واقفؔ برہانپوری میرے ایک خاص کرم فرما ہیں ۔ اور مجھے بھی اُن سے کافی محبت اور لگاؤ ہے ۔ آپ اپنے بُلند اخلاق اور کامیاب طبابت کی بدولت نا گپور میں کافی مقبوُل ہیں ۔آپکی عام ہمدردی کا دہ عالم ہے کہ امیر و غریب جو آپکے پاس کسی غرض سے آتا ہو۔ مستفیض ہی ہو کر جاتا ہے ۔
واقفؔ صاحب کی حدِ علمی ،قابلیت بہت اچھی ہے ۔ اور آپ کی خصوصیت یہ ہے کہ ہمیشہ تحصیل علم کے شوق میں رہتے ہیں ۔ موصوف ناگپور کے ایک مقبول شاعر بھی ہیں ۔ میرا تجربہ ہے کہ شہر کے کچھ بدمذا ق لوگ اچھی اورقابل ہستیوں کو ہمیشہ دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس سرگرمی کا میں خود یہاں ۵۰ برس رہ کر شکار رہا ہوں ۔ تو حکیم صاحب کے ساتھ بھی یہاں یہی ہوا۔ آپ کو فنِ شاعری سے بے دل اور دوُر کرنے کی کوشش کی گئی۔ میں حکیم صاحب کے مقام کو جانتا ہوں ۔ خدا کا شُکر ہے ۔ موصوف کے کلام میں بہت کچھ ایسا سرمایہ ہے جو نہ صرف قابل قدر ہے بلکہ اپنی خوبیوں کی بدولت، میں سمجھتا ہوں کہ اُنکے بہت اشعار زندہ و جاوید ہو کر رہیں گے ۔
’’مشک آنست کہ خوُد بگوید‘‘ ، نمونہ کلام ملاحظہ فرمائیں : ؂
مانگ کا بوسہ نہ دینا غیر کو
تو مالکِ ازل ہے خداوندِ حشر ہے
میری طرف علاج ہے تیری طرف شفا
ایک طوُفان محبت کا رگ رگ میں ہے
کبھی جب سُست گامی آ گئی ہے
لباسِ گل ہو یا پوشاک انجم
مجھے اظہارِ غم کی کیا ضرورت
خوشی میں اپنے ، بیگانے نہیں ہوتے
کیا ہے عجب ہر تارے میں ہو
دوُر جھٹک دیتی ہے سب کو
انساں اِس سے پیٹھ نہ ٹیکے
سینے کے زخم ،داغِ جگر، دل کے آبلے

پہلے ہم لینگے ہماری مانگ ہے
آغاز کا حکیم تو انجام کا حکیم
میں نام کا حکیم ہوں تو کام کا حکیم
یم بہ یم، جوُ بہ جوُ، تندوروَمعجزن
مجھے منزل نے خود آواز دی ہے
تمہیں میری نظر پہنچانتی ہے
نگاہِ یار سب کچھ جانتی ہے
حقیقت غم کی منزل پر کھلی ہے
جیسی تہہ ا فلاک ہے دُنیا
پھربھی گلے کا ہار ہے دُنیا
گرتی ہوئی دیوار ہے دُنیا
سب کو ملاکے ایک گلستاں بنائیے
آخری شعر :
طوافِ ماہ و انجم، سوز باطن کا نتیجہ ہے بشرکو آسماں پر لے اُڑی سینے کی چنگاری
ایسے لا تعداد اشعار ہیں جو حکیم واقفؔ مرحوم کی ’’نبض کونین‘‘ کی زینت بنے
 

الف عین

لائبریرین
شاعرہمہ صفات..... حضرت جلیل سازؔ
(یہ مقالہ ۲۰/ ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۵/اگست ۲۰۰۷ء کو پڑھا گیا)
از : ڈاکٹر محمد اظہر حیات
(ریڈر۔ صدر شعبہ اردو، یشودا گرلز آرٹس اینڈ کامرس کالج، ناگپور)

حضرت جلیل سازؔ وسطِ ھند کے معتبر شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں ۷/ اگست ۲۰۰۷ء کو جب ان کی رحلت ہوئی تو وہ اپنی زندگی کے ۷۶ سرد گرم موسم دیکھ چکے تھے ۔ وہ جئے اور بھر پور جئے ۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گذرے ، قسمت کی ستم ظریفیاں جھیلیں ، تقدیر کی یاوری کے لطف اٹھائے ۔ ناگپور میں بے شمار ادبی علمی چپقلش کے روح رواں رہے ۔ سماجی و ثقافتی سرگرمیاں برپا کیں اور اس کے محور و مرکز رہے ۔
جلیل سازؔ مرحوم کہنہ مشق شاعر تھے ۔ انھوں نے دشتِ ادب میں عرصۂ دراز تک سیّاحی کی۔ اس طویل سفر میں انھوں نے محض شاعری نہیں کی بلکہ شاعروں کی ایک نسل کی ادبی و شعری تربیت بھی کی۔ اس اعتبار سے وہ ایک ایسے مرکز و سر چشمہ تھے جہاں سے تشنگانِ شعر و ادب حسبِ استعداد سیراب ہوتے ۔ وہ دنیائے ادب میں استادی و شاگردی کے رشتے کی قدر کرتے تھے ۔ یہ روایت ناگپور میں ان کے دم سے زندہ بھی تھی۔
جلیل سازؔ کو میں تب سے جانتا ہوں جب میں ۷ یا ۸ برس کا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے ڈھیلا ڈھالا سفید قمیض پائیجامہ پہنے لمبے لمبے پیروں سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے جلدی جلدی چلتے وہ ہمارے گھر کے سامنے سے جاتے آتے تھے ۔وہ ہمارے گھر کے قریب مومن بنکر کو آپریٹیو سوسائٹی میں معمولی تنخواہ پر کلرک تھے ۔ اس لیے ان کا آنا جانا روز کا معمول تھا۔ کبھی کبھار میرے والد صاحب کو سلام بھی کر دیتے اور والد صاحب بڑے تپاک سے ان کے سلام کا جواب دیتے ۔ ایک روز میں نے والد صاحب سے پوچھ لیا ابّاجی یہ کون صاحب ہیں ؟ انھوں نے کہا ان کا نام جلیل سازؔ ہے ۔ اچھے شاعر ہیں ۔
’’اچھے شاعر ہیں ‘‘ میرے تحت ا لشعور میں چپک کر رہ گیا۔ گویا ۷۔۸ سال کی عمر میں میرا ان کا تعارف ہو گیا۔ اس کے بعد تو جلیل سازؔ صاحب سے میری ملاقات ہر رہ گذر پر ہونے لگی۔
قریبی رشتہ داروں میں شادیاں ہوتیں وہ سربراہی کرتے نظر آتے ۔ مشاعرہ ہوتا تو وہاں کرسئی صدارت پر جلوہ افروز ہوتے ۔ تعلیمی جلسوں میں مہمانانِ خصوصی کے صف میں ہوتے اور کبھی سیاسی پارٹی کے جلسوں میں تقریر کرتے نظر آتے گویا ہر جگہ جلیل سازؔ کا نام سننے کو ملتا۔
۱۹۶۹ء میں جب وہ ناگپور کارپوریشن کے وارڈ الیکشن میں کھڑے ہوئے تو دیگر بچوں کے ساتھ میں بھی گلی گلی ’’ساز صاحب کو ووٹ دو‘‘ کے نعرے لگاتے پھرتا رہا۔ ہم نے ان کے لیے خوب محنت کی نتیجہ آیا ساز صاحب کثیر ووٹوں سے وارڈ کے ممبر منتخب ہو گئے ۔ پھر وہ پانچ سال تک ہمارے وارڈ کے معزز ممبر ر ہے ۔مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے صرف آٹھویں کلاس تک ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کی تحریر پڑھ کر یا ان کی تقریر سن کر یا ان سے گفتگو کر کے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ڈگریاں رکھتے ہونگے ۔
سازؔ صاحب ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ ان کی شخصیت پر کشش اور جاذب نظر تھی وہ بلا کے معاملہ فہم تھے ۔ سنجیدگی اور متانت ان کے بشرے سے ظاہر ہوتی تھی۔ ان کا قد ایسا تھا کہ سیکڑوں میں الگ پہچانے جاتے تھے ۔ مطالعہ وسیع تھا اور حافظہ غضب کاپایا تھا، غالبؔ، اقبالؔ، جگرؔ، فیضؔ، سیمابؔ، ساحرؔ اور شکیل ؔبدایونی کے بے شمار اشعار انہیں ازبر تھے ۔وہ اکثر کہتے تھے میاں خوش بختی اور اکتساب علم بزرگون کی صحبت کا فیض ہوتا ہے جو مجھے نصیب ہوا۔
ایک زمانے میں سازؔ صاحب کی تحریر کر دہ ’بدائی، ،’’چلی میکے سے دلہن دے کے صد رنج ومحن‘‘ کیمقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب تک یہ پڑھی نہ جاتی تب تک دلہن وداع ہی نہیں ہوتی تھی۔ اس کے پڑھنے والوں کی مخصوص جماعت ہوتی جو پرسوز ترنم کے ساتھ اس وداعی کو پڑھتے تو سارا ماحول غمگین ہو جاتا اور گھر ماتم کدہ بن جاتا کیا مرد کیا عورتیں ، بچے بوڑھے دھاڑیں مار مار کر روتے تھے ۔ ایک روز میں نے سازؔ صاحب سے پوچھا حضرت آپ نے یہ وداعی گیت کس عالم میں لکھا تھا کہنے لگے عالم والم تو کچھ نہیں تھا بلکہ یہ تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی وکیل پرویز کی شادی کے موقع پر اسکی بیوی کے میکے والوں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ مجھے بھی گمان نہیں تھا کہ یہ گیت اسقدر مقبول ہو جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ وداعی گیت زبان و بیان کے اعتبار سے ایسا مرصّع اور پر اثر ہے کہ اگر سازؔ صاحب صرف یہ گیت لکھ کر ہی چلے جاتے تو ناگپور کی ادبی تاریخ میں اپنا نام درج کرا جاتے ۔
سازؔ صاحب کے کاموں پر غور کرو تو احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ صرف یہی کام کر جاتے تو امر ہو جاتے ۔ دیکھئے انھوں نے لڑکیوں کے لیے ڈاکٹر ذاکر حسین کے نام سے ایک ڈی ایڈ کالج کی بنیاد رکھی جسکے ذریعے سیکڑوں نہیں ہزاروں بچیوں نے ڈی ایڈ کیا اور برسر روزگار ہوئیں ۔ آج ۳۰۔۳۵ سال قبل لڑکیوں کے لیے کالج کھولنا گناہ کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ سماج میں کالج کے معنی محض عیاشی کا اڈّہ گردانہ جاتا تھا۔ سازؔ صاحب نے سماج کے ان طعنوں کی پرواہ بھی نہ کی اور ڈی ایڈ کالج قائم کر دیا جو آج بھی شان سے جاری ہے ۔ اگر ہم کہیں کہ سازؔ صاحب صرف یہی کام کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتے تو اہل ناگپور ان کے احسان کو کبھی نہ بھولتے ۔
ان میں انتظامی صلاحیتیں بھی خوب تھیں وہ بیک وقت ڈی ایڈ کالج کے صدر کے ساتھ مجیدیہ گرلز اسکول ناگپور کی مجلس انتظامیہ کے صدر، اور یعقوبیہ مدرسہ مومن پورہ کے سکریٹری بھی تھے ۔ اس کے علاوہ شہر کی بے شمار ادبی و سماجی سرگرمیوں سے وابستہ تھے ۔
سازؔ صاحب سادہ مزاج، مخلص اور ملنسار تھے ۔ ان میں غرور نام کو نہیں تھا۔ وہ ہر خاص و عام سے یکساں پیش آتے ۔ محلّے کے لڑکوں سے ایسی بات کرتے گویا وہ ان کے ہم راز ہوں ۔ ان کا ذہن ہمیشہ ادبی، علمی، تعلیمی و سیاسی سر گرمیاں کرنے پر آمادہ ہوتا۔ در اصل ناگپور میں بیشتر سماجی و ثقافتی سرگرمیاں ان کے دم سے رواں دواں تھیں ۔رمضان کا مہینہ آتا۔ مومن پورہ میں گہماگہمی اور چہل پہل اپنے شباب پر ہوتی اس عالم میں نوجوان لڑکوں کی ٹولی ’’قصیدہ‘‘ پڑھنے نکلتی۔ فلمی دھن اورطرز پر حالاتِ حاضرہ پر چوٹیں ہوتیں ۔ بیشترقصیدے سازؔصاحب کے تحریر کر دہ ہوتے جو رات میں پڑھے جاتے اور راتوں رات پورے شہر میں مشہور ہو جاتے ۔انہوں نے دلہوں کے لیے سہرے بھی خوب لکھے ۔ اگر ان سہروں ، قصیدوں ، وطن کے گیتوں اور قومی نظموں کویک جا کر دیا جائے تو سازؔ صاحب کی شاعری کے حوالے سے سماجی منظر نامہ بھی مرتب ہو سکتا ہے ۔
انھیں اردو اور اردو کے لکھنے والوں سے والہانہ محبت تھی۔ وہ شہر کے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کرتے ۔ میری کتاب ’’حافظ ولایت اﷲ حافظ حیات و خدمات‘‘ شائع ہوئی تو میں نے اسکی ایک جلد ان کی خدمت میں پیش کی۔ فوراً جیب سے ۱۰۰ روپیے نکالے اور مجھے عنایت کیے میں نے کہا حضرت اس کی ضرورت نہیں ہے کہنے لگے دیکھو جب کبھی کوئی مصنف یا شاعر کتاب دے تو اس کا ھدیہ ضرور دیا کرو۔ ہاں ایک زمانہ تھا کہ میری مالی حالت اس قدر خستہ تھی کہ مجھے کتابیں مانگ کر پڑھنی پڑتی تھیں مگر اب تو اﷲ کا فضل و کرم ہے ۔ میں نے کہا حضرت اسکی قیمت تو صرف ۴۰ روپیے ہے کہنے لگے میں قیمت کب دے رہا ہوں ۔ ھدیہ قبول کرو۔ اور زبردستی میری جیب میں سو کا نوٹ ڈال دیا۔
مہاراشٹر اردو اکادیمی کے زیر اہتمام اردو طنز و مزاح پر ایک سیمینار تھا۔ بڑے بڑے اشتہارات شہر میں چسپاں تھے ۔ شفیقہ فرحت، زہرہ موڈک، ڈاکٹر شیخ رحمن آکولوی اس میں شامل تھے ۔ سازؔ صاحب اس کے کنوینر تھے ۔ میں نے سازؔ صاحب سے سر راہ یوں ہی کہہ دیا کہ سازؔ صاحب میں بھی طنز و مزاح لکھتا ہوں آپ مجھے بھول گئے کہنے لگے ہاں باباتمہارا نام رہ گیا۔ لیکن تم اپنی تحریر ضرور پڑھوگے اور پھر شام میں میرے نام علیحدہ سے ایک دعوت نامہ خود لے کر آئے اور اصرار کیا کہ تمھیں اس سیمینار میں ضرور شرکت کرنی ہے ۔
سازؔ صاحب کا مجموعۂ کلام ’’نگاہ‘‘ ۲۰/ اگست ۲۰۰۶ء کو منظرِ عام پر آیا۔اجراء کی تقریب ہندی مور بھون سیتا بلڈی میں تزک و احتشام سے منعقد کی گئی۔ کامریڈ اے بی بردھن کے ہاتھوں اجراء ہوا۔ محترم شمیم فیضی دہلی سے ، شگوفہ کے مدیر مصطفٰے کمال حیدر آباد سے اور ہارون بی۔ اے مالیگاؤں سے اور عبدالاحد ساز بمبئی سے بطور خاص تشریف لائے تھے ۔ اسی دن کثیرالاشاعت مراٹھی روزنامہ ’’دیش انّتی‘‘ میں ساز صاحب کی شخصیت اور شاعری پر میں نے ڈاکٹر کرن دھوڑ کے تعاون سے ایک مضمون مراٹھی میں لکھا جو اسی دن شائع ہوا۔ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہنے لگے جو کام اردو والے نہ کر سکے مراٹھی والوں نے کر دکھایا۔
سازؔ صاحب کی شخصیت کو ان کی شاعری سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی زندگی کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کی شاعری دراصل ان کی شخصیت کا آئینہ ہے ۔ ان کے کلام میں عصری آگہی کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ان کی غزلوں میں گردوپیش کی زندگی کا گہرا مشاہدہ ملتا ہے ۔ وہ فلسفی نہیں تھے اور نہ ہی فلسفیانہ شاعری کرتے تھے ۔ سیدھی سادی زبان میں بات کہتے ۔ سماجی زندگی کی ناہمواری، استحصال، جبروستم، فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہمارے سماج و معاشرے کی بے بسی ان کی شاعری کا موضوع تھے ۔
میرے ان دعووٗں کو پرکھنا ہو تو ان کے مجموعہ کلام ’’نگاہ‘‘ پر نظر ڈالیے جہاں پر غزل میں ایسے اشعار ضرور مل جائیں گے جو نگاہ کے ذریعے دل میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تاہم اشعار ملاخطہ فرمائیے :
بساط یہ ہے کہ بس ایک مشتِ خاک ہیں ہم
کمال یہ ہے کہ کون و مکاں پہ چھائے ہیں
تمھیں خوشی کی تمنّا تھی، سو ملی تم کو
خدا نے بخشی متاعِ غمِ حیات مجھے
ملو تو سازؔ خلوص اور سادگی سے ملو
نہیں پسند یہ بے جا تکلّفات مجھے
الگ یہ بات کہ میں ہنس نہیں پایا ہوں برسوں سے
مری تقدیر لیکن مجھ پہ اکثر مسکراتی ہے
کوئی آئے گا آکر زندگی میں رنگ بھر دے گا
یہی امید ہر انسان کو جینا سکھاتی ہے
انہیں سمٹتی ہوئی زندگی کا علم نہیں
بڑے گھروں میں جو سوتے ہیں پاؤں پھیلا کر
میں اپنے عہد سے آنکھیں چرا نہیں سکتا
تری یہ ضد کہ فقط میری سمت دیکھا کر
عشق وہ چیز ہے واعظ تجھے معلوم نہیں
ہوش مندوں کو یہ دیوانہ بنا دیتا ہے
’’نگاہ‘‘ میں ایسے اشعار کی تعداد بے شمار ہے جسے سنبھال کر رکھا جانا چاہئے ۔
سازؔصاحب نے منہ پھٹ ؔ ناگپوری کے نام سے بھی طنز و ظرافت کے پیرائے میں دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں ۔ اب ناگپور کے ادبی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ سازؔ صاحب کے مزاحیہ کلام کو سنجیدگی سے یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کروائیں ۔ سازؔ صاحب اس معاملہ میں قدرے سست واقع ہوئے تھے ۔۷/اگست ۲۰۰۷ء کو سازؔ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے ۔ مگر سازؔ کے نغمات ہنوز زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گے ۔ بقول سازؔ مرحوم :
یہ زندگی ہے سفر، صرف چند سانسوں کا
طویل اس کی مگر داستان کتنی ہے
حضرت پیر غلام سالم’عرف سالمؔ ناگپوری ،کے شعری محاسن
از ۔ عالیجناب وکیل نجیب صاحب

۲۸ /جولائی ۲۰۰۷ ء کو حضرت سالم ؔ بھی ہم سے جدا ہوکر عالمِ ارواح کی سمت روانہ ہو گئے ۔ناگپور کے ادبی ماحول سے ایک اور ادبی و علمی شخصیت نے اپنا تعلق توڑ لیا۔حضرت شارقؔ جمال ، جناب شاہدؔ کبیر ، پروفیسر سیّد یونس ؔ کے بعد سالمؔ ناگپوری کا انتقال ایک ایسا ادبی المیہ تھا جسنے شہر ناگپور کی ادبی محفلوں کو سونا کر دیا۔(یہاں میں نے جلیل سازؔ کا نام شامل نہیں کیا ہے کیوں کہ سازؔ صاحب کا انتقال جناب سالمؔ کے بعد ہوا ہے )۔
حضرت سالمؔ ناگپوری نعت کے ایک شعر کے حوالے سے پوری دنیائے اردو ادب میں ہمیشہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گے ۔نعت کا وہ شعر اِس طرح ہے کہ ؂
اک نام مصطفے ٰ ہے جو بڑھ کر گھٹا نہیں ورنہ ہر اک عروج میں پنہاں زوال ہے
جو لوگ حضرت سالمؔ ناگپوری کو قریب سے جانتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت نام و نمود کی تمنّا اور شہرت وناموری کی آرزو کے بغیر نہایت خاموشی سے ادب کی خدمت کرتے رہے ۔نہ ستائش کی تمنّا تھی اور نہ ہی کبھی صلے کی پرواہ کی۔اچھّے خاصے آسودہ حال زندگی گزارنے والے چند شعراء گھس پیٹھ کر کے یا خوشامد و چاپلوسی سے سرکاری وظائف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن سالمؔ ناگپوری صاحب کنجِ تنہائی میں صرف اور صرف خدا کے بھروسے اپنی زندگی کے دن گزارتے رہے اور بلآخر۲۸ /جولائی کو اس عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے ۔
حضرت سالمؔ ناگپوری نے اپنے پیچھے تلامذہ کی کثیر تعداد بھی نہیں چھوڑی کہ اُنکے لیے ان کی زندگی میں یا بعد از مرگ کچھ کرتے لہٰذاناگپور کی سر زمین پر نمودار ہونے والا ادب کا یہ جیّد عالم ایک طرح سے گُمنامی کے کٹہرے میں روپوش ہو گیا۔ویسے بھی ناگپور کی ادبی فضا میں یہ ہوتا آیا ہے کہ ’’ جو چلا گیا اسے بھول جا‘‘ اور اسی روایت کو بر قرار رکھا جاتا ہے ۔جناب شارقؔ جمال ، جناب شاہدؔ کبیر اور جناب پروفیسر سیّد یونس ؔصاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔میں اس کمیٹی کے اراکین کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اس ماہانہ شعری نشست میں آعلیٰ پیمانے پر نہ سہی چھوٹے پیمانے پر ہی مرحومین کو یاد تو کر لیا جاتا ہے ۔
جہاں تک جناب سالمؔ ناگپوری کی شاعری کا تعلق ہے تو مو صوف نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی اور خوبصورت شاعری کی۔حمد، نعتیں ،منقبت،تضمینات،قومی گیت ،مرثیے نوحے ،قطعات،رباعیات،نظمیں ،پوربی زبان کے پچرے اور رمضانُ المبارک میں پڑھے جانے والے قصیدے ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور دادو تحسین سے نوازے گئے ۔رہی بات غزل کی تو پچھلی کئی دہائیوں سے غزل تمام ہی شعراء کی پسندیدہ صنف رہی ہے لہٰذا جناب سالمؔ نے بھی غزلیہ شاعری میں بہت سی یادگار غزلیں کہی ہیں ۔
غزل کا دامن بہت وسیع ہے ۔بس یہ سمجھ لیجئے کہ ادب کا ایک سمندر ہے بلکہ سار سمندروں کا ایک سمندر ہے جس سے ہرشاعر اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ،اپنی ضرورت کے مطابق،اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ لیتا رہتا ہے اور قارئین و سامئین کو دیتا رہتا ہے ۔ آج اردو دنیا میں غزل گو شعراء کی تعدادشمار کی جائے تو لاکھوں سے تجاوز کر جائے گی۔اردو کا کوئی اخبارہو یا رسالہ اردو غزلوں سے سجا ہوا نظر آتا ہے ۔ہر شاعر اس صنف میں طبع آزمائی کرنے میں لگا ہوا ہے حسرت سے کہ برسوں سے جاری اس کی طغیانی میں کسی طرح کی کمی نہیں ہونے پا رہی ہے ۔چھوٹے بڑے مشاعرے ہو رہے ہیں ۔دوان شائع ہورہے ہیں ۔گوشے اور نمبر شائع ہورہے ہیں ۔کیا بھارت، کیا پاکستان، کیا سعودی عربیہ، کیا عرب امارات، کیاامریکہ کیا روس، کیا انگلینڈ کیا فرانس، دنیا کا ہر وہ ملک جہاں چند ایک بھی اردو بولنے والے ہیں شاعری ہورہی ہے ۔اور زیادہ تر شعراء غزل گوئی میں اپنی ذہنی اور کچھ حد تک جسمانی توانائی خرچ کرتے رہتے ہیں پھر بھی غزل کے دامن کی تنگی کبھی محسوس نہیں کی جاتی۔اردو کی سب سے سہل اور سب سے آسان صنف بن کر رہ گئی ہے غزل۔
جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے انھوں نے غزل میں نئی بات کہنے کی کوشش کی ہے ۔صرف ردیف اور قافیے ہی برت کر الگ نہی بدلے گئے ہیں ۔ایسے ہی غزل گو اساتذہ میں حضرت سالمؔناگپوری کا بھی شمار ہوتا ہے ۔ جوہر جسے انگریزی م ATOM کہاجاتا ہے ایک زمانے تک یہ محسوس کیا جاتا رہا کہ کسی بھی عنصرکا یہ نا قابل تقسیم ذرّہ ہے ۔لیکن سائنس دانوں نے اپنے تجربات سے یہ بات ثابت کر دی کہ جوہر کو بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ جوہر تین دیگر چھوٹے ذرّات سے مل کر بنا ہو تا ہے جسے علمِ کیمیا کی زبان میں الیکٹروننیوٹرون اور پروٹون کہا جا تا ہے اور جب یہ ذرّات ایٹم سے الگ ہو جا تے ہیں تو زبردست توانائی پیدا ہو تی ہے اور جوہر اپنا وجود کھو دیتا ہیجناب سالمؔناگپوری حالانکہ سائنس داں نہیں تھے لیکن لفظ جوہر کی اہمیت سے واقف تھے اسی لئے آپ نے اپنے ایک شعر میں کیا خوبصورت بات کہی ہے ملا حظہ فرمائیں ؂
داغِ دل ، زخمِ جگر ،خونِ تمنّا ، شبِ غم جوہرِعشق کی تقسیم ہے ان چاروں میں
عشق ایک جوہر ہے اور یہ جوہر ایسا ہے کہ اگر اس کا اشقاق کیا جائے تو یہ اپنے اجزاء میں تقسیم ہو جائے گااور اس کے اجزاء ہیں داغِ دل، زخمِ جگر، خونِ تمنّا اور شبِ غم۔ سائنس کے اس عمل سے استفادہ کرتے ہوئے غزل کے اس شعر میں حضرت سالمؔ نے لفظ جوہر نہایت خوبصورت طریقے سے برتا ہے ۔ویسے جوہر اپنے اندر معانی کا جہان رکھتا ہے اور اسے الگ الگ مفہو م میں خوبصورت طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے ۔
جس طرح جوہر کے تین اجزاء ہوتے ہیں جنہیں جوہر کو توڑ کر الگ الگ کیا جا سکتا ہے اسی طرح ایک زمانے تک یہ تصوّر رہا کہ جانداروں کا جسم بھی چار عناصر سے مل کر بنا ہے ۔خاک ، آگ ،پانی اور ہوا۔مرنے کے بعد جاندار کا جسم انھیں چار اجزاء میں تقسیم ہو جا تا ہے جیسا کہ جنابِ چکبست نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے ؂
زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہورِ ترتیب موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
یہ تصوّر سراسر مادّیت پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔یہاں پر روح کا کوئی تصوّر نہیں ہے ۔روح کا کہیں وجود نہیں ہے ۔لیکن اسلامی نظریے کے مطابق انسان کا جسم اسی وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک روح اس میں موجود ہوتی ہے ۔روح جسم سے الگ ہو گئی تو جسم پھر مٹّی کا ڈھیر ہے ۔اس روح کا تعلق ایک ایسی دنیا سے ہے جہاں کبھی نہ فنا ہونے والی زندگی کی شروعات ہو گی۔روح کی موجودگی کو ہندو دھرم کے لوگ بھی مانتے ہیں ۔جسم کے ختم ہوتے ہی آتما کسی اور جاندار میں منتقل ہو جاتی ہے ۔لیکن اسلام نے یہ بتایا ہے کہ مرنے کے بعد ہر انسان کی روح عالمِ ارواح میں چلی جاتی ہے جہاں وہ قیامت تک رہے گی اور قیامت کے بعد پھر سے تمام انسانوں کو ان کی اصلی شکل و صورت میں زندہ کیا جائیگا۔روح ان کے جسم میں داخل کر دی جائے گی اور اعما ل کے حساب سے انہیں جنّت یا جہنّم میں داخل کیا جائیگا۔ جہاں انہیں ہزاروں لاکھوں سال تک رہنا ہے ۔اسی بات کو جناب سالمؔ ناگپوری نے کیسی خوبصورتی سے اپنے ایک شعر میں بیان کیا ہے ؂
شروع ہو گی اسی دن سے حقیقی زندگی سالم ؔ ہماری روح جس دن جسمِ خاکی سے جدا ہو گی
زندگی ایک امتحان گاہ ہے جیسا جو عمل کرے گا اسی حساب سے بعد از مرگ اسے اپنی زندگی گزارنی ہو گی اور وہی زندگی اصل زندگی ہے ۔یہ زندگی تو عارضی ہے ۔فانی ہے ۔غزل کو محبوب سے بات چیت کی صنف کہا جاتا ہے ۔ابتدا ء میں شاعروں نے غزل کو اسی طرح برتا ہے لیکن اب تو غزل ہر مضمون کو اپنے اندر سمو لیتی ہے ۔لیکن آج بھی جب غزل کے اشعار میں حسن و عشق کی بات ہو تی ہے تو شعر دل میں سوزوگداز کی کیفیات پیدا کر دیتا ہے ۔دیکھئے جناب سالمؔ نے غزل کا کیا خوبصورت شعر کہا ہے ؂
نظر جو آتے کہیں وہ ہم کو یہ عرض کرتے سلام کر کے
ہمیں سے پردہ ،ہمیں سے دوری،ہمارے دل میں قیام کر کے
قدیم اور جدید شعراء نے اپنی غزل کے اشعار میں ۔’’ تصویر ‘‘ کو نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے مثلاً .
تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت ہم جہاں میں تری تصویر لئے پھرتے ہیں
یا
تصویر تری دل میرا بہلا نہ سکے گی
یا
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط بعد مرنے کے مرے دل سے یہ ساماں نکلا
جناب سالمؔ ناگپوری نے تصویر کو اپنی غزل کے ایک شعر میں نئے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے .ملاحظہ فرمائیں .
رخ بدل سکتے نہیں آنکھ چرا سکتے نہیں کتنے مجبور نظر آتے ہو تصویر میں تم
آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں پر مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں .ہم دیکھ رہے ہیں عراق میں مسلمان مسلمان سے بر سرِ پیکار ہے افغانستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے .پاکستان بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے .فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے ہو کسی سے پو شیدہ نہیں .لبنان اور روس سے الگ ہونے والے ممالک چیچینیا اور ازبکستان بھی انھیں حالات سے دو چار ہیں .اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتّحاد و اتّفاق نہیں ہے ااا اسلام نے مسلمانوں میں اتّحاد و اتّفاق پر بہت زور دیا ہے اور قرآن شریف نے تنبیہ کی ہے کہ ’’ اگر تم نے آپس میں اتّحاد نہ رکھا تو تمھاری ہوا اکھڑجائے گی‘‘ اتّحاد کی قوت مسلمانوں میں موجود نہیں ہے اس لئے جگہ جگہ مسلمانوں کی ہوا اکھڑتی جا رہی ہے . جناب سالمؔ ناگپوری نے بھی اپنے ایک شعر میں اسی عالمگیرحقیقت کو بیان کیا ہے ؂
رہو یاروں جو مل کر لائق فضل خدا تم ہو اگر الجھے رہے یو نہی تو آپ اپنی قضا تم ہو
حضرت سالمؔ کی مکمل زندگی ایک گوشہ نشین شاعر کی زندگی تھی.سردار گلی میں آپ کا مکان آپ کی تمام تر کاوشوں کا مرکز تھا.حضرت نہ تو کسی پان کے ٹھیلے پر نہ ہی کسی ہوٹل میں اور نہ ہی کسی دوکان میں بیٹھ کر وقت گزاری کرتے تھے .اذان ہوتی تو تکیہ دیوان شاہ کی مسجد میں چلے جاتے نماز ادا کر کے پھر سے اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتے . حضرت کی آخر آخر عمر میں کسی سے ایسی دوستی بھی نہیں تھی جس کے ساتھ چہل قدمی کرتے یا کھلے ماحول میں اپنا وقت گزارنے کے لئے نکل پڑتے .یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ قناعت پسند اور وضعدار آدمی تھے .قناعت پسند کہنا اس لئے بھی صحیح ہے کہ چاہے شاعری کا معاملہ ہو یا کاروبار یا اولاد کی تعلیم و تربیت کا ، ہر معاملہ میں آپ نے رضائے خداوندی کو فوقیت و اوّلیت دی. یہی وجہ ہے کہ آبائی مکان وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے کمروں میں تقسیم ہوتا چلا گیا.ان کمروں سے حاصل ہونے والا کرایہ ہی گزر بسر کے لئے ایک بڑا سہارا تھا. آپ کا کوئی بھی بچّہ اونچی تعلیم حاصل نہیں کر سکا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو جہاں adjust ہوا وہیں کا ہو کر رہ گیا.قناعت پسندی کو پسند کیا اور اچھی چیزوں کی آرزو کو تو بالائے طاق رکھ دیا اور اسی مفہوم کو ادا کرتے ہوئے انہوں نے یہ شعر کہا ہے جو ان کے حسب حال ہے ؂
وہ بزم ہے بزم غیر فانی،تجھے مناسب ہے فکر فردا یہ انجمن تو فنا ہے سالمؔ، یہاں پہ کیا ہو گا نام کر کے
جناب سالمؔ ناگپوری نے اچھا خاصہ شعری سرمایہ چھوڑا ہے جسکا کتابی شکل میں شائع ہوکر منظر عام پر آنا اسلئے ضروری ہے کہ نئے شعراء کو ہمارے بزرگوں کی شاعری کا انداز معلوم ہو سکے . ان موضوعات کا علم ہو سکے جنہیں انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ان سب سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے . لیکن فی زمانہ کتاب شائع کرانا بھی کچھ لوگوں کے لئے جوئے شیر لانے سے کم دقّت کا کام نہیں ہے . ہمارے یہاں ایسے ادارے نہیں ہیں جو یہ کام انجام دے سکیں . لے دے کے ایک مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی تھی لیکن اس کی لاش بھی ممبئی کے اکادمی کے دفتر کے سرد خانے میں رکھی ہوئی ہے .ہمیں سیکو لر پارٹیوں کی حکومت سے بڑی امیدیں ہوئیں ہیں لیکن در حقیقت مسلمانوں کے تابوت میں کیل ٹھوکنے کا کام یہی کرتی ہیں . لہٰذا یہ امید کرنا کہ حضرت سالمؔ کا مجموعہ کلام زیور طباعت سے آراستہ ہو ماضی قریب میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا.
جناب ارشدالقادری صاحب کی صحبت میں رہنے والا ناگپور شہر کا یہ ایک بڑا شاعر جس نے ابتدائی دنوں جناب خلیل جونپوری سے اپنے کلام پر اصلاح لی تھی شاعری کی باریکیوں کو سمجھا تھا بلآخر ۲۸ / جولائی ۲۰۰۷ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا. مومن پورہ ، جہاں ان کے دن رات گزرے ، جہاں انھوں نے اپنی شاعری کو پروان چڑھایا . جہاں انہوں نے مشاعروں میں اپنے اثر انگیز کلام سے دادو تحسین پائی، اسی بستی سے بہت دور یہاں صدر میں حضرت سالمؔ کو یاد کرنے کے لئے اس شعری نشست کا انعقاد ہوا اس کے لئے بانیانِ مشاعرہ یقینًااہل اردو زبان کے شکریہ کے مستحق ہیں ۔
 

الف عین

لائبریرین
شاہدؔ کبیراور ان کا شعری اسلوب
از. محمد سکندر حیات
حضراتِ محترم !
یادِ رفتگان کے سلسلہ کو قائم رکھتے ہوئے آج باری ہے مشہور شاعر شاہدؔ کبیر کی نعت کی. حسبِ روایت صاحبِ کلام کی ادبی اور شعری محاسن کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے .بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ شاہدؔ کبیر نے حمد اور نعت میں بھی طبع آزمائی کی ہے .شاہدؔ کبیر کی پہچان ناگپور سے پھیلی اور ہر اس جگہ موجود ہے جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے . پروقار.درازقد. بیباک و جاذب شخصیت ، دوستی میں اخلاص.انکا طبعی قد تو بلند تھا ہی وہ جدید لب ولہجہ کے قد آور شاعر تھے . انکی شخصیت پر انکا ہی یہ شعر موضوع ہے . ؂
وہ سر و قد پسِ دیوار بھی نہیں چھپتا ہزار جھُک کے چلے سر دکھائی دیتا ہے
پہلی مئی ۱۹۳۲ءکو ناگپور میں محفوظ الکبیر بن محمّد اسرائیل پیدا ہوئے .ابتدائی تعلیم مومن پورہ اردو پرائمری اسکول میں ہوئی.ثانوی تعلیم انجمن ہائی اسکول ناگپور سے مکمل کی. ۱۹۵۰ءمیں میٹرک پاس کیا.۱۹۵۶ءمیں سنٹرل گورنمنٹ کے فوڈ اینڈ مارکیٹنگ محکمہ میں ملازمت کی. ۱۹۹۰ءمیں ملازمت سے وظیفہ یاب ہوئے . ۱۹۵۷ءمیں ڈرامہ مرزا غالب کے اسکرین راائٹر تھے . جسے فائن آرٹس ڈرامہ مقابلہ میں راشٹرپتی بھون دہلی میں پیش کیا گیا.
وہ ۱۹۵۲ءسے ہی نثر نگاری کرتے تھے . انکے کئی مضامین.افسانے .منی افسانے اور غزلیں ہندوستان کے موقر جرائد و اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں .انھوں نے ہندوستانی فلموں کے لئے گیت بھی قلمبند کئے .کئی یادگار غزلیں کہیں جسے ہندوستان کے معروف فنکاروں نے اپنی آواز سے عوام تک پہنچایا. یہ غزلیں برصغیر ہندو پاک کے حصار سے باہر یورپ اور امریکہ میں بھی سنی جاتی ہیں .جگجیت سنگھ.ہری ہرن.چندن داس.انور اور عزیز نازاں جیسے شہرہ آفاق فنکاروں نے انکے کلام کواپنی آواز کیلئے منتخب کیا جو مقبول عام ہے .سب سے عظیم ترین نام ان فنکاروں میں لتا منگیشکر کا ہے .آپ نے بھی غزلِ شاہدؔ کبیرکو اپنی آواز دی.
۔’’ چاروں اور‘‘ جدید غزلوں کا انکا مرتب کر دہ مجموعہ.مراٹھواڑہ یونیورسٹی کے گریجویشن کورس کے لئے شاملِ نصاب ہے .مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ آف ایجوکیشن نے بھی بارہویں جماعت کیلئے انکی غزلوں کو شاملِ نصاب کیا ہے . ۹۵۔۱۹۹۱ءسے وہ ناگپور یونیورسٹی بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن رہے .ان کی حیات ہی میں انکی کئی کتابیں اور مجموعہ کلام شائع ہوچکے تھے . ملازمت کے سلسلے میں شاہدؔ کبیر کا قیام ۱۹۵۳ء سے ۱۹۵۸ءتک دہلی میں رہا.اور یہی دور وسیلۂ اظہار کی تلاش و جستجو کا دور تھا. ۱۹۵۶ءمیں وہ نثر نگاری کی طرف مائل رہے . ’ ’ کچّی دیواریں ‘‘ انکا ناول اسی سال منظرِ عام پر آیا. جسے اہلووالیا بکڈپو، کرول باغ دہلی نے شائع کیا.بلآخر انھوں نے غزل کی شاعری کے حق میں فیصلہ کیا.اور بقول پروفیسر سید یونس ’’ شاہدؔ کے مجموعہ کلام ، پہچان کا دیباچہ آپکی تراوشِ قلم کا نتیجہ ہے .اُسوقت سے آج تک شاہدؔ یکسو ہوکر شاہدِ غزل کی زلفیں سنوارنے میں منہمک ہیں . بقول پروفیسر عشرت ظفر ’’ میں شاہدؔ کبیر کی غزل کو مملکتِ شعرو سخن میں ایک توانا آواز مانتا ہوں .حالانکہ وہ خود یہ کہتے ہیں ؂
کسی امیر کو کوئی فقیر کیا دے گا غزل کی صنف کو شاہدؔ کبیر کیا دے گا
سکوتِ آب سے جب دل مرا گھبرانے لگتا ہے تو سطحِ آب پر کنکر گرا کر دیکھ لیتا ہوں
محترم سامعین! حقیقی شاعر کا امتیازی وصف یہ ہے کہ وہ سوچتا زیادہ ہے اور جب ہر پہلو سے نقش مکمل ہو جاتا ہے تب ہی وہ کچھ اظہارِ خیال کرتا ہے . اسی کیفیت کو شاہدؔ کبیر کے اس شعر سے جو میں نے ابھی سنایا دیکھا جا سکتا ہے . سکوتِ آب ایک منظر کا استعارہ ہے جو تحریک سے خالی ہے .اب ایسا نہیں کہ سکوتِ آب میں تحرک پیدا نہیں ہو سکتا. یقیناہو سکتا ہے . تو شاعر اسمیں ایک کنکر پھینکتا ہے تاکہ کچھ ہلچل پیدا ہو.دائرے بنیں .لکیریں متشکل ہوں . ارسطو نے بھی اسی خیال کو لیا کہ زندگی اس سطح پر بھی اپنا اظہار کرتی ہے جب اسے باہر سے متحرک کیا جا سکے .
صدر مسلم لائبریری کے عہدیداران لائقِ مبارکباد ہیں کہ انھوں نے اس فلسفہ کو عملی جامہ پہنایا اور ادبی سکوت کو عمل سے محرک بنایا.اس کیفیت کو شاہدؔ کبیر کے یہاں دیکھئے .
حقیقتوں کا سبھی کو پتہ نہیں ہوتا کوئی کسی سے بچھڑ کر جدا نہیں ہوتا
شاہدؔ کبیر کے اسلوبِ اظہار میں ایک تنوع ہے ، متانت ہے جواسے پرشِکوہ بناتی ہے .اور یہی بڑی شاعری کی پہچان ہے . شاہدؔ کبیر نے اپنے عہد کو سمیٹا ہے .انکے یہاں جمالیاتی نظام ایک خاص سطح سے کلام کرتا ہے اور منفرد نقوش بناتا ہے .بقول پروفیسر سید یونس.’’ وہ ہمارے شاعر کیا کرے جس کے اعصاب پر ابتدائے شاعری کے دور ہی سے مرزا غالبؔ سوار ہو چکے ہوں ‘‘ موجودہ دور میں استادی شاگردی کی روایت معدوم سی ہو گئی ہے .مگر اس قسم کی تلمذ ذہنی کو کون روک سکتا ہے . شاہدؔ کا نظریۂ شاعری بھی یہ ہے کہ میرؔ و غالبؔ کے بعدشاعری کی جائے تو کم ازکم وہ کچھ الگ تو ہو.چنانچہ شاہدؔ کی غزل کے تمام رنگِ قدیم سے ابھرتے ہیں لیکن وہ جن آبشاروں میں نہا کر ترو تازہ ہوتے ہیں وہ آج کا عہد ہے .وہ عہد جو ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے . یہی وجہ ہے کہ اشعار میں تازگی زیادہ نظر آتی ہے . یہ اشعاردیکھئے
اب بتا تجھ سے بچھڑ کر میں کہاں جاؤ نگا تجھ کو پایا تھا قبیلہ سے بچھڑ کر میں نے
ہر چند مجھے ریت پہ تو لکھ کے مٹادے میں جنبشِ انگشت میں محفوظ رہوں گا
اس شعر پر ایک ذاتی واقعہ بیان کرنا چاہوں گا.اپنے کسی کام کے سلسلے میں شاہد ؔ کبیر امراؤتی تشریف لائے .اس دوران میں بسلسلۂ ملازمت امراؤتی قیام پذیر تھا.ایک صاحب سے خاکسار نے انکا تعارف کروایا.اور کہا کہ انکا یہ شعر مقبول عام ہے .
تو لاکھ مجھے ریت پر لکھ کر کے مٹادے میں جنبشِ انگشت میں محفوظ رہوں گا
بڑی نرمی سے شاہدؔ کبیر نے میری تصحیح فرمائی اور صحیح شعر سنایا. بہر حال مدّعا یہ کہ جنبشِ انگشت میں محفوظ رہنے کی جو بات کہی گئی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ جسمانی طور پر تو اشیاء ہم سے دور چلی جاتی ہے اور بحرِ فنا ہو جاتی ہے .لیکن وہ ہمارے ساتھ رہتی ہے اور انکا انعکاس، پرچھائیوں ، تصویروں یا لفظوں کی شکل میں ہوتا رہتا ہے .اور یہی وہ چیز ہے جو ہمیں ان اشیاء سے قریب رکھتی ہے جو بادی النظر میں تو ہمارے پاس نہیں ہوتی مگر ہوتی ہے .اور ہم انکے ہونے کا احساس پیکروں میں کرتے ہیں .غزل کا یہی کمال ہے کہ وہ انتہائی تیزی سے ہر کیفیت کو بیان کرتی ہے .انکی شاعری علامتی شاعری رہی ہے .مروجّہ علامتوں مثلاً پانی.ریت.صحرا. پتھر .آئینہ . سایہ . موج. ساحل . رات . دیوار وغیرہ کی نئی تو جیہات کی ہیں اور نئے ادراک عطا کئے . اشعار دیکھئے .
پانی کا پتھّروں پہ اثر کچھ نہیں ہوا
میں تو بہتا ہوا پانی ہوں نہ ہاتھ آؤ ں گا
باندھ رکھا ہے کسی سوچ نے گھر سے ہم کو
شجر سے گرتی ہیں کٹ کٹ کے پتّیاں شاہد
کونسا کرب چھلکتا ہے ہنسی سے میری
پیروں سے زمیں نکل رہی ہے
تمام حادثے احساس کھوچکے اپنا
کب کی پتھّر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر
بس اک گماں کے تعقب میں لوگ چلتے ہیں

روئے تمام عمر مگر کچھ نہیں ہوا
لاکھ ساحل سے تو آئینہ بنالے مجھ کو
ورنہ اپنا درودیوار سے رشتہ کیا ہے
نہ کوئی ہاتھ نہ خنجر دکھائی دیتا ہے
کیسے ہنستا ہوں کہ دنیا کو رلا دیتا ہوں
اور ہاتھوں میں آسماں نہیں ہے
آرزو ہے کوئی آنکھ میری نم کر دے
چھو کے جب دیکھا تو میرے ہاتھ گیلے ہو گئے
سفر کو سمت کوئی راہ گیر کیا دے گا
غزل کے ان اشعار کو لتا منگیشکر نے آواز دی ہے .
نیند سے آنکھ کھلی ہے ابھی دیکھا کیا ہے
گھیر کر مجھ کو بھی لٹکا دیا مصلوب کے ساتھ
اپنی دانست میں سمجھے کوئی دنیا شاہد ؔ

دیکھ لینا ابھی کچھ دیر میں دنیا کیا ہے
میں نے لوگوں سے یہ پوچھا تھا کہ قصّہ کیا ہے
و رنہ ہاتھوں میں لکیروں کے علاوہ کیا ہے
یہ شعر دیکھئے کہ احساسِ حسن میں کسطرح ایک استعجابی کیفیت پیدا ہو گئی ہے
اتنا بھی سرور ہو نہ رشتے میں
جائے گا بھی تو کہاں جائے گا پاؤں والا

چھونے کا خیال مست کر دے
گھر سے نکلے کہ اٹھا ہاتھ دعاؤں والا
اس شعر کے مفہوم اور ندرت بیانی پر پروفیسر یونس صاحب نے کہا کہ یہ شعر اردو شاعری میں ایک نادر اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے
روٹھ کر جاتے ہوئے محبوب کی کیسی بولتی تصویر کھینچی ہے .
جیسے گل ہوتی چلی جائے چراغوں کی بہار
جیسے کوئی لباس نہ ہو اس کے جسم پر

جب کوئی روٹھ کے جاتا ہو تو منظر دیکھو
یوں راستہ چلے ہے بدن کو سمیٹ کر
جدید صنعتی شہر اور اسکی مصروفیات نے افراد کی مذہب اور روحانیت سے محرومی کو کس بہتر انداز میں پیش کیا ہے .ملاحظہ فرمائیں .
ان کو بھی بہا لے گئے ناقوس ملوں کے
خود کو آئینے میں ہم ڈھونڈ رہے ہیں شاہد

جو صبح کو جاگے تھے موذّن کی اذاں سے
اپنی پہچان نظر آئے تو گھر سے نکلے
حضرات محترم ! آپنے دیکھا شاہدؔ کی ادبی کاوشیں اور خدمات کا تذکرہ کرتے کرتے میں انکے اشعار میں اسقدر غرق ہو گیا کہ وہ بات ادھوری رہ گئی.بہر حال میں اس موضوع پر دوبارہ آتا ہوں کہ شاہدؔ کبیر کی پہلی غزل شب خون دسمبر ۱۹۶۷ءمیں شائع ہوئی تھی.۱۹۶۰ءسے ۱۹۷۰ءکے درمیان نئی غزل کے افق پر ابھرنے والے شعراء تو بہت سے ہیں لیکن ماہنامہ شب خون کے ہمہ گیر شعلوں کی روشنی میں جن چہروں کے خدوخال نمایاں ہوئے انھیں شاہدؔ کبیر کے ساتھ کرشن کمار.عقیل شاداب.ظفر غوری اور مقامی شاعر پروفیسر مدحت الاختر جیسی اہم شخصیتیں ہیں .
انکی غزلوں کا مجموعہ مٹی کا مکان ۱۹۷۹ءمیں شائع ہوا جسے حکومتِ مہاراشٹر سے اول انعام حاصل ہوا. ٹھیک ۲۰ سال بعد شاہدؔ کبیر کی غزلوں کا دوسرا مجموعہ ’ پہچان، شائع ہوا.اسے بھی حکومتِ مہاراشٹر کی اردو اکادمی نے اول انعام کا مستحق قرار دیا. یہی مجموعہ کلام پہچان۲۰۰۲ءمیں دیوناگری رسم الخط میں انکے صاحبزادے سمیر کبیر نے ترتیب دیا اور شائع کروایا. یہ مجموعہ کلا م انکے انتقال کے بعد شائع ہوا.۲۰۰۱ءمیں شاہدؔ کبیر کو حجّ بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی.اور فریضۂ حج کے ٹھیک چالیس دن بعد یعنی ۱۱! مئی ۲۰۰۱ ئبروز جمعہ دوپہردنیائے آب و گل سے رخصت ہوئے . سچ تو یہ ہے کہ شاہدؔ کبیر نئی غزل کی غیر فانی آواز ہے .
اب لوگ ترس جائیں گے آواز کو میری
گونجوں گا فضاؤں میں سنائی نہیں دوں گا
 

الف عین

لائبریرین
موجودہ عہد کا نوحہ گر ۔۔’’ میکش ؔناگپوری‘‘
از.ڈاکٹر محمّد اظہر حیات​
کپڑوں کا ہوش نا خود کا خیال ، پراگندہ بال ، لڑکھڑاتی چال ، درمیانہ قد ، منحنی جسم. میکش کا خیال آتے ہی ذہن کے قرطاس پر یہ تصویر ابھر آتی ہے گویا میکش ؔناگپوری اسمِ با مسمّیٰ تھے .میکش رندِ بلا نوش تھے . ہمیشہ شراب کے نشے میں دھت اور مد مست رہتے تھے .یار دوست ان کی کیفیت سے خوب فائدہ اٹھاتے تھے .لیکن ایسی مد ہوشی میں بھی ان کا شعور جاگتا رہتا تھا. حافظہ غضب کا پایا تھا. ایسے ایسے اشعار زبان سے ادا ہوتے کہ سننے والے حیرت سے میکش ؔ کا منہ تکتے .
میکشؔ ناگپوری کا پورا نام محمّد یونس تھا. وہ یکم جولائی ۱۹۳۳ءکو ناگپور میں پیدا ہوئے .ان کے والد عظمت علی ایک اچھّے جرّاح تھے اور یہی ان کا پیشہ تھا. محمّد یونس میکشؔ نے میٹرک تعلیم حاصل کی. انہوں نے ناگپور پاور ہاؤس اور انڈین جیولاجی اینڈ مائننگ میں باالترتیب ملازمت کی لیکن اپنی لا ابالی طبیعت و مزاج کی وجہ سے بہت جلد دونوں ملازمتوں کو یکے بعد دیگرے چھوڑ دیا. میکشؔ کی شادی بھنڈارہ میں جناب احمد خان پٹھان کی صاحبزادی محترمہ طاہرالنساء سے ۱۲! دسمبر ۱۹۷۱ءمیں ہوئی. ان کی اہلیہ بھنڈارہ ضلع پریشد اسکول میں مراٹھی کی ٹیچر تھیں . ابھی میکشؔ زندگی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ شادی کو صرف پانچ سال بعد طاہرالنساء نے انہیں مفارقت کا داغ دے دیا. اور ایک لڑکا اور ایک لڑکی اپنی یادگار چھوڑ گئیں .میکش جو بے روزگار ی سے نبردآزما تھے رفیقِ حیات کی دائمی جدائی سے ٹوٹ کر رہ گئے .اور کہہ اٹھے . ؂
مرے رفیقِ سفر کو کس نے چھین لیا نہ جانے کھانی ہے ٹھوکر کہاں کہاں مجھ کو
میکشؔ نے شاعری کی ابتداء زمانۂ طالب علمی سے شروع کر دی تھی. اسکول میں ان کے استاد حضرت حمیداللہ خان آذرؔسیمابی نے ان کی شعری صلاحیتوں کو پرکھا اور نکھارا. ۱۹۶۳ءمیں آذرؔ صاحب پاکستان ہجرت کر گئے تو اس کے بعد میکشؔ نے کبھی کسی سے مشورۂ سخن نہیں کیا. اور واقعہ یہ ہے کہ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی. وہ اپنے کلامِ بلاغت سے ناگپور کے اہلِ ادب کو متاثر کر رہے تھے . حضرت مولانا ناطقؔ گلاوٗٹھوی ، نواب غازیؔ آف گیوردھا ، حافظ انورؔ کامٹوی ، جناب حمیدؔ ناگپوری اور حضرت طرفہؔ قریشی جیسے باکمال شعراء کرام میکشؔ کی شاعرانہ صلاحیتوں کے مدّاح تھے .
میکشؔ ذہین ، بے باک اور منہ پھٹ تھے . وہ سچ کو سچ کہنے میں کبھی نہیں چوکتے تھے .ریاکاری ، مکّاری اور فریب کاری سے دور تھے . ان خوبیوں کی وجہ سے وہ عوام النّاس میں بیحد مقبول تھے . مشاعرے میں ان کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی. وہ محفل میں مرکزِ نظر ہوتے . اپنی حاضر جوابی اور غیر معمولی ذہانت سے ہر خاص و عام کو متاثر کرتے تھے . ایک مرتبہ ایک مشاعرے میں کلام سناکر بیٹھے ہی تھے کہ مولانا ناطقؔ گلاوٗٹھوی نے داد کے انداز میں فرمایا. ’’ میاں یہ کہاں سے لاتے ہو‘‘
میکش ؔ نے بر جستہ جواب دیا.حضرت آپ جہاں سے لاتے ہو. اور پھر اپنا ہی ایک شعر برجستہ پڑھا. ؂
جہاں انکا ٹھکانہ ہے وہاں میری رسائی ہے مقیّد کر نہیں سکتا کوئی پروازِ انساں کو
میکشؔ بادہ نوشی میں بھی شعر کبھی غلط نہیں پڑھتے تھے .مجھے ایک نعتیہ مشاعرہ خوب یاد ہے جب میکشؔ نے نشے کی حالت میں ایک نعت پاک ترنّم سے سنا کر خوب داد پائی تھی. گویا مشاعرہ لوٹ لیا تھا. مگر کسی کی ہمت نہیں تھی کہ کوئی اس حالت میں انہیں ٹوک دیتا. اسی مشاعرے میں انہوں نے نعت کا یہ مطلع کہا تھا.
یادِ حبیب آئی تو جی بھر کے رو لئے پھولوں کے ہو لئے کبھی کانٹوں کے ہو لئے
ملک کے معیاری رسائل و جرائد میں میکش کا کلام چھپتا اور قوال حضرات ان کی تحریر کر دہ قوّالیاں جھوم جھوم کر گاتے تھے . لوگوں کی فرمائش پر انھوں نے بے شمار سہرے لکھے . محرم کے ایّام میں ان کے تحریر کر دہ نوحے اور مرثیے آج بھی جوش و خروش کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں . رمضان کے مہینے میں قصائد اور فلمی گیتوں کی دھن پر حالاتِ حاضرہ پر طنز بھرے نغمے اب تک لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں .میکشؔ نے عجیب طبیعت پائی تھی. وہ نشہ میں ہوتے تو بھی شریف ، ملنسار ، نیک دل ، نیک طبیعت ہوتے . رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی وہ میخانے کی بجائے مسجد کی راہ لیتے . سر پر ٹوپی. گردن نیچی. خراماں خراماں راہ چلتے . کم بولتے اور رمضان کے پورے روزے اہتمام سے رکھتے . اکثر تلاوت میں مصروف نظر آتے . گویا روزوں سے ان کا ظاہر بدل جاتا تھا. مگر شراب ان کا باطن بدلنے میں کبھی کامیاب نہ ہو ئی. وہ ہر حال میں شریف النفس اور پاکباز تھے . بزرگوں کا ادب کرنا ان کی فطرت میں تھا. میں نے سنا کہ وہ اپنی والدہ کا اس قدر خیال کرتے تھے کہ ایک مرتبہ بمبئی کے سفر پر گئے اور کام ہونے سے قبل محض یہ کہہ کر لوٹ آئے کہ ’’والدہ کی یاد آ رہی ہے ‘‘.
ایک دن برادرِ محترم جناب قمر حیات صاحب سے سر راہ ملاقات ہوئی. نشے میں تھے . دیکھتے ہی کہنے لگے .قمر حیات فی البدیہہ شعر سنو. ؂
قمر کی چاندنی شب کو، اجالا مہر کا دن کو یہ دنیا روشنی ہی روشنی معلوم ہوتی ہے
یہ دنیا ہے ، محبت ہے اسے باطل پرستوں سے خدا لگتی یہاں سب کو بری معلوم ہوتی ہے
محترم قمر حیات صاحب ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میکشؔ صاحب حسبِ عادت اپنے پورے سرورمیں تھے . قمر صاحب کو دیکھا تو آواز دی اور وہی قطعہ پڑھ دیا. قمر صاحب نے کہا. میکشؔ صاحب نے کہا میرا شعر سنو. پھر میکشؔ ایک دم سنجیدہ ہو گئے اور کہا سناؤ. قمر صاحب نے کہا ؂
زندگی میں مقام پیدا کر عمل صالح سے نام پیدا کر
میکشؔ نے فوراً کہا خیال اچّھا ہے مگر بحر سے بالکل خارج ہے اور کہا اسے یوں کر دو ؂
زندگی میں مقام پیدا کر نیک سیرت سے نام پیدا کر
یہ کہہ کر میکشؔ اپنی ترنگ میں آگے بڑھ گئے . اس واقعہ سے یہ بتانا مقصود ہے کہ میکشؔ شعر کے معاملہ میں بھی کتنا ہوش رکھتے تھے . جنابِ میکشؔ نے ادب کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی لیکن غزل اور قطعات میں انہیں خاص ملکہ حاصل تھا. وہ وارداتِ قلب و نظر کو کیف و سرور میں ڈوب کر بیان کرتے تھے اس لیے ان کے کلام میں زندگی کی تازگی اور حرارت محسوس ہوتی ہے . ان کی غزلیں تغزل کی بھر پور ترجمانی کرتی ہیں . زبان و بیان میں سلاست و روانی بدرجہ اتم موجود ہے .ان کے اشعار زبان زد خا ص و عام ہو نے کی صلاحیت رکھتے ہیں . اپنی اس خوبی کا انہیں بھی احساس تھا. کہا ہے ؂
ترکیب میں جدّت ہے تو الفاظ میں شوکت میکشؔ ترا نکھرا ہوا اندازِ بیاں ہے
میکشؔ حسّاس با شعور اور باخبر شاعر تھے . عصری حسّیت ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے . وہ سماج میں عدم مساوات ، نا انصافی ، ظلم وتشدّد سے تڑپ جاتے تھے . اس اعتبار سے ہم میکشؔ کو موجودہ عہد کا نوحہ گر کہہ سکتے ہیں . شعر کا تیور دیکھئے .
بے سود کٹ رہے ہیں لاکھوں حسین میکشؔ
بھارت کی سر زمیں بھی میدانِ کربلا ہے
کیا بجھتی مجھ سے آگ کسی کے مکان کی
اپنے ہی گھر کی آگ بجھانے میں رہ گیا
میکشؔ کو میکشی میں اپنی بربادی کا احساس تھا مگر مجبور تھے . اس کا اظہار انھوں نے کئی اشعار میں کیا ہے . کہا ہے ؂
میرے دلِ تباہ کا عالم نہ پوچھیے خانہ خراب کر دیا ذوقِ شراب نے
باہر کوئی سکون نہ گھر میں قرار ہے مجھ کو کہیں کا رکھا نہیں اس شراب نے
ہم نے خود بڑھ کے جلایا ہے نشیمن اپنا اس میں اے برقِ تپاں تیرا کوئی دوش نہیں
کبھی میکشؔ اپنی اس کمزوری کو فطرت کا نام دیتے تھے ؂
ابتدائے حیا ت سے میکشؔ اپنی قسمت کو رو رہا ہوں میں
ازل سے اپنی قسمت میں لکھا ہے ٹھوکریں کھانا نہ دیکھیں اہلِ دا نش یوں مجھے چشمِ پریشاں سے
برائی مے پرستی کی کروں یہ ہو نہیں سکتا ازل سے پائی ہے میکشؔ طبیعت میں نے رندانہ
میکشؔ اکثر اشعار میں میکشی، میکدہ اور شراب سے خوب فائدہ اٹھاتے تھے .ایک جگہ کہا ہے ؂
یہ میکدہ ہے مگر ہوش مند آتے ہیں یہاں سمجھ کے کرو جس کسی سے بات کرو
کیفؔ بھوپالی نے میکشؔ کے کلام پر تبصرہ ان الفاظ میں کیا ہے .’’ میکشؔ کے کلام کی یہ خصوصیت مجھے بے حد پسند ہے کہ وہ پیچیدگیوں سے پاک و صاف اور آمد سے لبریز ہوتا ہے .‘‘ کیفؔ مرحوم کے دعوے پر بطور دلیل یہ اشعار دیکھئے .
آب و تابِ آئینہ کم ہو گئی تو کیا ہوا رفتہ رفتہ رنگ اڑجاتا ہے ہر تصویر کا
جو بھی کر نا ہے آج کر لیجے کل یہ دنیا رہی رہی نہ رہی
اب درد محبت مری رگ رگ میں رواں ہے صرف ایک جگہ ہو تو بتاؤں کہ یہاں ہے
میں خوب سمجھتا ہوں دو عالم کی حقیقت آرام سے انسان یہاں ہے نہ وہاں ہے
اک روز رہا تھا ترے جلوؤں کی فضا میں آنکھوں میں ابھی تک وہی رنگین سماں ہے
غزل کے یہ اشعار دیکھئے .
تم اپنی آنکھوں میں کیفِ شراب بھر لینا ہمارے آنے سے پہلے یہ کام کر لینا
تمھارے جلوؤں سے کھیلے گا میرا ذوقِ نظر نقاب الٹنے سے پہلے ذرا سنور لینا
الجھ رہے ہیں جو کانٹے ذرا ادھر دیکھو پھر اپنے دامنِ رنگیں میں پھول بھر لینا
ہے کارِ عشق جہاں میں محال اے میکشؔ
بہت ہی سو چ کے یہ کام اپنے سر لینا
یہ مختلف اشعار ملاحظہ فرمائیے .
مجھے نہ دیکھ میں نبّاض ہوں زمانے کا میں تیرے رُخ سے تری بات کو سمجھتا ہوں
یہ دیکھنا ہے کدھر ٹوٹتے ہیں پر وانے میں دل جلاتا ہوں اپنا تو آفتاب جلا
زخموں کی تعداد نہ پو چھو چھوٹا گھر مہمان بہت ہیں
یوں توکہنے کو ایک کانٹا ہوں خاص نسبت ہے پھر بھی پھول کے ساتھ
نارِ دوزخ حرام ہے مجھ پر ہے محبت مجھے رسول کے ساتھ
جنابِ میکشؔ نے اپنی زندگی میں ہی ’ بادہ نو، کے نام سے اپنا مجموعہ کلام ترتیب دے دیا تھا.مگر افسوس ان کی زندگی میں وہ زیورِ طباعت سے آراستہ نہ ہو سکا وہ یہ حسرت لیے ۹! جنوری ۱۹۸۷ءبروز جمعہ ۸ بجے شب اس دنیائے فانی سے رحلت کر گئے .دوسرے دن مومن پورہ قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی.
ہو گا جس دنِ نہ یہ میکشِ خوش نوا سونی ہو جائے گی بزمِ شعرو سخن
 

الف عین

لائبریرین
عبدالحفیظ پاگل....... نام کے پاگل

از : ڈاکٹر محمد اظہر حیات
(ریڈرصدر شعبہ اردو، یشودا گرلز آرٹس اینڈ کامرس کالج، ناگپور)​
(یہ مقالہ ۲۴! ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۶! جنوری ۲۰۰۸ء کو پڑھا گیا)
اب سے تقریباً ۳۰۔۳۵ سال قبل کی بات ہے مومن پورہ میں ایک گوشت کی دکان پر میں کھڑا تھا۔ کسی نے زور سے آواز لگائی ’’پاگل صاحب آپ کی قمیض جل رہی ہے ۔‘‘ پاگل صاحب نے فوراً اپنی انگلیوں میں پھنسی بیڑی کو پیروں تلے دبادیا اور دامن جھٹکتے ہوئے کہنے لگے :’’یار گریبی میں آٹا گیلا ہو گیا۔‘‘ پاگل انصاری سے پہلی بار میں یوں متعارف ہوا۔اس واقعہ کے بعد اکثر مشاعروں میں ان سے کلام سنتا۔ دوسروں کے ساتھ مجھے بھی لطف آتا ان کے اشعار سن کر مجھے ان کی شخصیت میں دلچسپی سی پیدا ہو گئی۔ وہ میرے ہم محلہ تھے اکثر ان سے ملاقات ہوتی۔ پر گندہ کھچڑی بال، ڈھیلا ڈھالا قمیض پائجامہ اور سلیپر پہنے انگلیوں میں بیڑی دبائے اور گاہے بگاہے دھواں اڑاتے وہ روایتی انداز کے غریب شاعر نظر آتے بلکہ سچ تو یہ اسمِ بامسمّٰی نظر آتے ۔
پاگلؔ انصاری کا پورا نام عبدالحفیظ انصاری تھا۔ ۱۹۱۶ء میں وہ ناگپور میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاش کے جھمیلے میں پڑ گئے ۔ شعر و سخن کا فطری مزاج پایا تھا اس لیے غزلوں سے ہی شاعری کا آغاز کیا مگر بعد میں ہزلوں کی طرف مائل ہو گئے اور آخر تک ہزل کہتے رہے ۔ ابتداء میں مرحوم مولانا ناطقؔ گلاؤٹھوی سے مشورۂ سخن کرتے رہے مگر اس کے بعد کسی کو اپنا کلام نہیں دکھا یا بلکہ شہر کے بیشتر شعراء ان سے مشورۂ سخن کرتے رہے ۔ پاگلؔ صاحب کی اہلیہ کا نام قمر النساء تھا جن کی وفات ۱۹۹۲ء میں ہوئی۔ ان کے تین بیٹیاں اور تین بیٹے تھے ۔نور محمد ان کے بڑے صاحبزادے تھے جن کا انتقال دوسال قبل ہوا۔ خلیل تابش اور شکیل احمد بقید حیات ہیں ۔
عبدالحفیظ کو معاشی بحران نے پاگل بنا دیا تھا۔ شاید اسی لیے انھوں نے اپنا تخلّص ہی پاگلؔ کر لیا تھا۔ کہا ہے ؂
پاگل ترے نصیب میں آرام ہے کہاں
اک دن بھی جب کہ چین کی روٹی نہیں ملی
پاگل صاحب شروع سے غربت کے شکار رہے ۔ لیکن اس غربت و افلاس میں بھی ہمیشہ ہنستے رہے اور دوسروں کو ہنساتے رہے ۔ اﷲ پر یقین، توکل اور قناعت ان کی طبیعت کا خاصّہ تھا۔ کہتے ہیں ؂
ارے پاگل خدا پر رکھ بھروسہ
تجھے کیوں فکر ہے شام و سحر کی
ایک جگہ اﷲ کی عنایت کا ذکر کس طرح کیا ہے ملاحظہ کیجئے :
مجھ سے سڑے گلے ہوئے مٹی کے پینڈ پر
اﷲ میاں کی خاص عنایت ہے زندگی
اکثر اشعار میں وہ اپنی غربت و پریشانی کا ذکر کرتے تھے ۔ یہ ااشعار دیکھئے جس میں طنز زیادہ ہے ۔ اسے سن کر ہمیں شاعر سے ہمدردی ہو جاتی ہے :
روز اول سے پاؤں ہے بھاری
زندگی پیٹ لے کے آئی ہے
اب تو خدا ہی حافظ ہے اپنی زندگی کا
چھو ہو گیا زمانہ سارا ہنسی خوشی کا
روز اول سے شاید اﷲ میاں سے ہم نے
بیمہ کرا لیا تھا غربت کی زندگی کا
وہ غالبؔ کے اس شعر کی تشریح و تفسیر معلوم ہوتے تھے جس میں غالبؔ اہلِ کرم کا تماشہ دیکھنے کے لیے فقیروں کا بھیس اختیار کرتے تھے ۔ پاگل بھی در حقیقت نام کے ہی پاگل تھے ۔ان کا کلام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فرزانوں سے بڑھ کر فرزانہ تھے ۔زمانے پر ان کی گہری نظر تھی۔روز مرّہ کی باتوں میں بھی وہ نکتہ پیدا کرنے کا ہنر جانتے تھے ۔ یہ اشعار دیکھئے ۔
کردار جانور کا کرتے ہیں ہم ادا یوں
کھاتے ہیں گھاس لیکن لیتے ہیں نام گھی کا
دنیا سیدھے سادوں کے لیے ذلّت کا باعث ہے
یہ دنیا اس کی ہے جس نے اِ دھر مارا اُدھر دیکھا
یہ شعر دیکھیے ۔
رونا تو سبھی روتے ہیں اس دور میں لیکن
رکھتا ہے کوئی اپنے بھی عیبوں پہ نظر کیا
میری بربادیوں پر ہنسنے والوں
خبر لینا ذرا اپنے بھی گھر کی
پاگل صاحب وضع دار، منکسر المزاج اور شریف النفس شاعر تھے ۔ اس لیے لوگ ان کی عزت کرتے تھے اور انہیں پاگل صاحب کہتے تھے وہ مشاعروں میں دور دور مدعو کیے جاتے تھے ۔ تحت میں کلام سناتے مگر اس انداز میں کہ سامعین ٹوٹ کر داد دیتے تھے ۔ کلام سن کر محفل زعفران زار ہو جاتی مگر پاگل صاحب بڑی سنجیدگی سے اپنے بکھرے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے اور کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھتے ۔ ایک مشاعرے میں انہوں نے جب یہ قطعہ سنایا تو سامعین لوٹ پوٹ ہو گئے ؂
میں یہ سمجھا کہ انھیں مجھ سے محبت ہو گی
وہ یہ سمجھے کہ مری جیب میں پیسہ ہو گا
جب پڑیں جیب پہ نظریں تو وہ ہنس کر بولے
تم ہی بتلاؤ بھلا ایسے سے کیسا ہو گا
دنیا کے تجربات و حوادث نے انہیں سنجیدہ بنا دیا تھا۔ اس سنجیدگی میں وہ مزاح کا پہلو نکال لیتے تھے اور مزاح میں طنز کی آمیزش کر کے سنجیدگی پیدا کر دیتے تھے ۔ یہ متفرق اشعار ملاخطہ کیجئے :
اب تک دل و جگر میں نشتر سا چبھ رہا ہے کہہ دینا مجھ کو پاگل یک بارگی کسی کا
انوکھے قسم کی فرمائش ہوتی ہے روزانہ محبت آجکل ایک نوکری معلوم ہوتی ہے
بھروسہ کیا کرے کوئی کسی کے عہدوپیماں کا زمانے کی فضا منہ چوپڑی معلوم ہوتی ہے
مجھے وعدوں ہی وعدوں پر ٹلایا محبت کی، مگراس نے اُدھر کی
ذخیرہ عیب کا ہو گا بر آمد تلاشی لیں اگر اہل ہنر کی
پاگلؔ صاحب کے کلام میں خالص مزاح کی بھی کمی نہیں تھی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اسی خوبی کی وجہ سے جانے اور مانے جاتے تھے ۔ لیکن یہاں بھی وہ مزاح کو مزاح کے معیار سے گرنے نہیں دیتے تھے ۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں :
تو مجھ کو قتل کرتا ہے توکر ،لیکن بتا پاگلؔ شب وعدہ تیری زلفوں کی جھالر کون دیکھے گا
سڑکیں سدھر گئی ہیں گلیاں سدھر گئی ہیں سدھرا نہیں اگر تو میدان شاعری کا
آؤ ملنے کو تو دَلنے لگا دیتے ہیں ہے یہ پھٹکار تو کوئی نہ پھٹکتا ہو گا
وفا کی راہ میں پھسلن بہت ہے ضمانت ضبط ہو جاتی ہے سر کی
تعجب ہے ،نہ ہوں بولو نہ ہاں کچھ یہ تم ہو یا کوئی گڑیا ربر کی
آج ہوٹل میں تری یاد جو آئی مجھ کو چائے میں بھیگا ہوا میں نے بٹر چھوڑ دیا
توبہ توبہ عشق کی دھن میں یہ کیا سمجھے تھے ہم تھا وہ انجن کا دھواں جس کو گھٹا سمجھے تھے ہم
غیر تمہارا کون ہے لگتا ا بّا ہے یا چاچا ماما
اس کے آگے انڈے انڈے میرے آگے بیگن بیگن
ایک روز پاگل صاحب سے میں نے مجموعہ کلام شائع کرنے کے لیے کہا تو انتہائی سادگی اور سنجیدگی سے کہنے لگے بھائی! کلام تو بہت ہے ۔ ترتیب دیا رکھا ہے ۔ پھر وہ خلاء میں دیکھنے لگے ۔ کچھ روز قبل میں نے ان کے صاحبزادے شکیل احمد سے کلام کے متعلق کہا تو انھوں نے بتایا کہ ابّا کے انتقال کے بعد دو شاعر حضرات اظہارِ تعزیت کے لیے آئے اور امّاں سے مجموعہ کلام شائع کرانے کے لیے ڈائری لے گئے مگر آج تک نہ مجموعہ کلام منظر عام پر آیا اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ وہ لوگ کون تھے ۔
یہ بات قابلِ ذکر اور شکر ہے کہ جب میں نے پا گلؔ صاحب پر مقالہ لکھنے کا ارادہ کیا اور ان کے کلام کی جستجو میں کچھ لوگوں سے ذکر کیا تو بہت جلد مجھے حضرت کی چھ ھزلیں اور کئی متفرق اشعار مل گئے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاگل ؔصاحب لوگوں کے ذہن و دل میں اب بھی محفوظ ہیں ۔
۹!نومبر ۱۹۷۹ء کی صبح جب پاگل ؔانصاری کی وفات کا علم ہوا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ اردو طنز و مزاح کی چھوٹی سی دیوار کے بیچ سے ایک اینٹ کھسک گئی ہے ۔ ناگپور کے ادبی حلقوں میں رنج و غم کی فضا چھا گئی۔ بعد نماز عصر مومن پورہ قبرستان میں تجہیز و تکفین عمل میں آئی۔
دوسرے روز یعنی ۱۰! نومبر کی شب اسلامیہ اسکول، مومن پورہ میں نواب غازیؔ مرحوم کی یاد میں ایک سیمینار اور مشاعرہ منعقد کیا گیا۔ ناظم مشاعرہ ثقلین حیدر نے بڑے ہی پر سوز اور جذباتی انداز میں پاگلؔ صاحب کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’’شاعر امیر ہو یا غریب، شاعر غزل گو ہو یا ہزل گو، شاعر غازی ہو یا پاگل، شاعر شاعر ہوتا ہے ۔ تخلیق کار ہوتا ہے اور تخلیق کار عظیم ہوتا ہے ۔ اس کا نقصان قوم کا نقصان ہوتا ہے ۔ ادب کا نقصان ہوتا ہے ۔ پاگلؔ انصاری کی وفات ہمارے سماج کا نقصان ہے ۔ اردو ادب کا نقصان ہے ۔‘‘سامعین پر ایک سکتہ طاری ہو گیا۔ انھیں پاگلؔ انصاری کی موت کھلنے لگی۔
اگر پاگل ؔصاحب زندہ ہوتے اور ثقلین حیدر کی یہ باتیں سنتے تو ہر گز وہ یہ نا کہتے ؂
موت پر مفلس کی، تھا اس کا پڑوسی بے خبر
اہلِ زر کوئی مرا تو شہر بھر ماتم ہوا
سچ تو یہ ہے کہ پاگل معاشی طور پر مفلس ضرور تھے لیکن وہ شعروسخن کی دولت سے مالامال تھے ۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
 

الف عین

لائبریرین
وسط ہند کے اکبر ثانی
غزل کے مزاج داں ....... نظیر احمد نظیر
از : ڈاکٹر محمد اظہر حیات​

مجھے ذہن پر بہت زیادہ زور ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوئی مرحوم نظیر احمد نظیر کو ذہن کے قرطاس پر وا کرنے میں ۔کشادہ پیشانی ، ذہانت کی نشانی، کالے گھنے گھنگوریالے بال۔ فارغ البال، شرافت کی چمک روشن آنکھوں پر۔ پان کی لالی پتلے لبوں پر، صحت مند نکلتا قد، کبھی کرتہ پاجامہ میں ملبوس تو کبھی پنٹ شرٹ زیب تن۔مومن پورہ میں ہوں یا کسی مشاعرہ گاہ یا ادبی نشستوں میں ۔ قدوقامت کی وجہ سے الگ پہچانے جاتے ۔ نرم دم گفتگو گرم دم جستجو۔مشاعرے میں کلام سناتے تو سامعین و ناظرین ہمہ تن گوش ہوتے اور ’’تجھ کو دیکھیں کہ تجھ سے بات کریں ‘‘ کی تصویر ہوتے ۔
ناظرین کرام!
آپ کے ذہن پر جو تصویر ابھری ہے وہی تو نظیر احمد نظیر ہیں جن کی شاعری بے نظیر ہے ۔نظیر یکم جولائی ۱۹۳۴ء کو ناگپور میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک خوشحال گھرانے کے چشم و چراغ تھے ۔ ان کے والد کا نام بشیر احمد اور دادا کا نام کریم بخش تھا۔ دادا مسجد بقر قصاب میں عمر بھر امامت کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ نظیر صاحب ابھی صرف ایک سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، چار سال کی عمر کو پہنچے تو والدہ کے دستِ شفقت سے محروم ہو گئے ۔ چچا رفیق احمد نے ان کی پرورش کی۔ نظیر صاحب نے ۱۹۵۷ء میں انجمن ہائی اسکول، صدر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ کچھ دنوں بعد ہی انہیں ناگپور الیکٹریسٹی بورڈ میں ملازمت مل گئی۔ نظیر صاحب کی شادی کامٹی کے مولا شریف کی صاحبزادی محترمہ قمر جہاں سے ہوئی۔ ان کا سسرال بھی کامٹی کا متمول خاندان تھا۔ زندگی خوب گذر رہی تھی کہ نظیرؔ صاحب کو کینسر جیسے موذی مرض نے آن گھیرا اور وہ ۲ سال تک موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ۷! اپریل ۱۹۸۲ء کو اس جہانِ فانی سے رحلت کر گئے ۔ مومن پورہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
مرحوم کی اہلیہ قمر جہاں ماشاء اﷲ بقیدِ حیات ہیں اور اپنے اکلوتے بیٹے بشر نظیف کے ساتھ زندگی گذار رہی ہیں ۔ بشر صاحب بھی M.S.E.B. میں برسرِ روزگار ہیں ۔ بیٹی نظرت فردوس، انیق احمد صاحب سے بیاہی گئی ہیں جو ائیر انڈیا میں انجینیر ہیں اور فی الحال دبئی میں مقیم ہیں اور بال بچّوں کے ساتھ خوش و خرّ م ہیں ۔
مرحوم نظیرؔ صاحب ملنسار، منکسر المزاج اور باغ و بہار طبیعت کے مالک تھے ۔ ایک روز اسٹیشن سے ایک شخص کو گھر لے آئے ۔ اسے نہلایا دھلایا، اپنے کپڑے پہنائے اور کھانا کھلا کر روانہ کیا۔ پوچھا گیا، کون تھے تو کہنے لگے بیچارہ ضرورت مند مسافر تھا اپنے ابو کے اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے بشر صاحب کی آنکھوں میں کچھ شرمندگی کا احساس میں نے محسوس کیا۔ شاید وہ سوچ رہے ہوں کہ ان کے ابّو کو کوئی پاگل نہ سمجھے ! اس نفسہ نفسی کے دور میں یہ حرکت پاگل پن کے زمر ے میں آ سکتی ہے لیکن بشر بھائی تمھیں کیا معلوم کہ تمھارے ابّو کتنے عظیم تھے ۔ ان میں انسانی ہمدردی کتنی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ ان کے اندر کتنا اخلاص تھا۔ جس میں ریا کاری نام کو نہ تھی۔ میں تو کہوں گا کہ نظیرؔ صاحب بے نظیر انسان تھے ۔ ایسی باتیں تو پرانے وقتوں کی معلوم ہوتی ہیں ۔ مگر نظیر ؔصاحب تو ہمارے ہی عہد کے انسان تھے ۔ اچھّے تھے نیک تھے ۔ اسی لیے تو اﷲ نے انہیں بہت جلد بلا لیا۔
نظیرؔ صاحب کی شاعری کا آغاز طالب علمی کے زمانے سے ہی ہو چکا تھا۔ کلام پر اصلاح آذر ؔسیمابی سے حاصل کی۔ شاعری ان کے مزاج اور مذاق میں رچی بسی تھی۔ انھوں نے نعت،منقبت، رباعی، قطعہ، نظم اور غزل سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے لیکن غزل کا خاص میدان تھا۔ زندگی میں اپنے کلام کا مجموعہ ’’عکسِ احساسات‘‘ کے عنوان سے ترتیب دیا تھا افسوس کہ اب تک شرمندۂ طباعت نہ ہو سکا۔
نظیر صاحب شاعری میں روایا ت کے پاسدار تھے لیکن شاعری میں مضامین کا تنّوع اور اظہار خیال میں جدّت کا رجحان پایا جاتا تھا۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے پہلا تاثر یہی ہوتا ہے کہ وہ آسان و سہل انداز میں ایسے اشعار کہنا جانتے تھے جس کو سن کر سامع سر دھنتا ہے اور جو سنتے ہی دل میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
جمالیاتی احساس ان کی غزلوں کا خاصّہ ہے ۔ اس کے اظہار کے لیے انھوں نے کہیں بھی معیار سے سمجھوتا نہیں کیا۔
مجروح ؔسلطان پوری نے ان کی شاعری پر تبصرہ کچھ یوں کیا ہے :
’’نظیرؔ صاحب غزل کو عشق و محبت کے دائرہ سے باہر ذرا کم ہی پسند کرتے ہیں ۔ غزل کے مزاج داں ہیں جبھی تو بات ندرت و ذہانت کی آمیزش کے ساتھ ساتھ پورے طور پر غزل کے رنگ و آہنگ میں ڈوبی ہوئی کہتے ہیں ۔‘‘
مجروح ؔصاحب نے یہ رائے ۲۱! مارچ ۱۹۸۲ء کو نظیرؔ صاحب کے مجموعہ کلام کے مسودے پر دی تھی۔ کیسا جچا تلا تبصرہ ہے نظیرؔصاحب کی شاعری پر اس کے بعد مزید کچھ کہنا محض بات کو الفاظ بدل کر دہرا نا ہی ہو گا۔
نظیر احمد نظیرؔ فطری شاعر تھے ۔ شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ شب و روز شاعروں کی صحبت میں گذرتے تھے ۔ ان کا گھر اردو شاعری کا آما جگاہ معلوم ہوتا۔ کیا مقامی شعراء اور کیا بیرونی شعراء اکثر نظیرؔ صاحب کے دسترخوان کے خوشہ چیں ہوتے ۔ مجروح ؔسلطان پوری، شعری ؔبھوپالی اور کاملؔ بہزادی کا اکثر آنا جانا رہتا۔ ان کے صاحبزادے بشر نظیف کا کہنا ہے کہ ابّو کے انتقال کے بعد ان کے شاعر دوستوں نے آج تک پلٹ کر نہیں دیکھا کہ ان کے مرحوم دوست کے بچے کس حال میں ہیں ۔
’’عکس احساسات‘‘ میں سے کچھ متفرق اشعار پیش ہیں جس سے نظیر ؔصاحب کی شاعری کے مزاج اور اسلوب کا اندازہ ہو گا :
غم سے پائی اگر ذرا بھی نجات آپ فوراً ہی یاد آئے ہیں
حشر کے طالبو! مبارک ہو مدتوں میں وہ مسکرائے ہیں
یہ عالمِ شباب یہ دل کی تباہیاں ایسا بہار میں نہ کوئی آشیاں لُٹے
رُخ پریشاں آنکھ میں ہیں سرخ ڈورے کس لیے
رات بھر شاید تصوّر میں تمھارے ہم رہے
تمھاری یاد بھی شاید اس مقصد سے آتی ہے
اگر تھوڑا سا باقی ہو تو مٹ جائے سکوں وہ بھی
اس قدر باغباں کی نگہہ بانیاں گل ترسنے لگے ناز و انداز کو
نظیرؔ اگر ہوں لاکھ غم زباں سے اف نہ کیجیے اسی بس ایک بات پر وفا کا انحصار ہے
اُدھر ہے ظلم و بے رخی ادھر ہے ضبط و انکسار وہ حسن کا شعار ہے یہ عشق کا وقار ہے
کیا مری سانس کی آس باقی نہیں
دیکھتا ہوں فسردہ میں دمساز کو
نظیرؔ آج بساطِ جہاں سے اٹھا ہے ہر ایک بزم میں رنج و الم کی بات چلی
آخر میں ہم دعا کرتے ہیں کہ اﷲ تعالٰی نظیر احمد نظیرؔ کو کروٹ کروٹ جنّت سے نوازے اور ان کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کر دے ، آمین!
 

الف عین

لائبریرین
ڈاکٹر منشاء الرحمان خا ں منشاءؔ​

آنکھوں کے ہوتے جو کوئی صاحب نظر نہ ہو
اہلِ جہاں کی نظروں میں وہ معتبر نہ ہو
زندہ حقیقتوں سے نہیں ہوتا آشنا
خود آپ اپنی ذات سے جو با خبر نہ ہو
کردار کی بلندیاں ہوتی نہیں نصیب
پہلو میں جب تلک دلِ پاکیزہ تر نہ ہو
بس ایک در پہ جو کرے سجدہ گزاریاں
رسوا کسی بھی حال میں وہ در بدر نہ ہو
خواب و خیال میں جو رہے رات دن مگن
نخلِ حیات اس کا کبھی بار ور نہ ہو
اخلاصِ دل سے اس کو مزیّن تو کیجئے
ممکن نہیں کہ حرفِ دعا با اثر نہ ہو
سیرِ جہاں کی آرزو لے کر چلو مگر
’’گھر ہی پہ ختم زیست کا سارا سفر نہ ہو
ہوتا ہے منشائؔ قابلِ تحسین وہ کلام
بازی گریِ لفظ کا جس میں گزر نہ ہو
 
Top