شاعرہمہ صفات..... حضرت جلیل سازؔ
(یہ مقالہ ۲۰/ ویں ماہانہ شعری نشست مورخہ ۲۵/اگست ۲۰۰۷ء کو پڑھا گیا)
از : ڈاکٹر محمد اظہر حیات
(ریڈر۔ صدر شعبہ اردو، یشودا گرلز آرٹس اینڈ کامرس کالج، ناگپور)
حضرت جلیل سازؔ وسطِ ھند کے معتبر شعراء میں شمار کیے جاتے ہیں ۷/ اگست ۲۰۰۷ء کو جب ان کی رحلت ہوئی تو وہ اپنی زندگی کے ۷۶ سرد گرم موسم دیکھ چکے تھے ۔ وہ جئے اور بھر پور جئے ۔ زندگی کے نشیب و فراز سے گذرے ، قسمت کی ستم ظریفیاں جھیلیں ، تقدیر کی یاوری کے لطف اٹھائے ۔ ناگپور میں بے شمار ادبی علمی چپقلش کے روح رواں رہے ۔ سماجی و ثقافتی سرگرمیاں برپا کیں اور اس کے محور و مرکز رہے ۔
جلیل سازؔ مرحوم کہنہ مشق شاعر تھے ۔ انھوں نے دشتِ ادب میں عرصۂ دراز تک سیّاحی کی۔ اس طویل سفر میں انھوں نے محض شاعری نہیں کی بلکہ شاعروں کی ایک نسل کی ادبی و شعری تربیت بھی کی۔ اس اعتبار سے وہ ایک ایسے مرکز و سر چشمہ تھے جہاں سے تشنگانِ شعر و ادب حسبِ استعداد سیراب ہوتے ۔ وہ دنیائے ادب میں استادی و شاگردی کے رشتے کی قدر کرتے تھے ۔ یہ روایت ناگپور میں ان کے دم سے زندہ بھی تھی۔
جلیل سازؔ کو میں تب سے جانتا ہوں جب میں ۷ یا ۸ برس کا تھا۔ مجھے خوب یاد ہے ڈھیلا ڈھالا سفید قمیض پائیجامہ پہنے لمبے لمبے پیروں سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے جلدی جلدی چلتے وہ ہمارے گھر کے سامنے سے جاتے آتے تھے ۔وہ ہمارے گھر کے قریب مومن بنکر کو آپریٹیو سوسائٹی میں معمولی تنخواہ پر کلرک تھے ۔ اس لیے ان کا آنا جانا روز کا معمول تھا۔ کبھی کبھار میرے والد صاحب کو سلام بھی کر دیتے اور والد صاحب بڑے تپاک سے ان کے سلام کا جواب دیتے ۔ ایک روز میں نے والد صاحب سے پوچھ لیا ابّاجی یہ کون صاحب ہیں ؟ انھوں نے کہا ان کا نام جلیل سازؔ ہے ۔ اچھے شاعر ہیں ۔
’’اچھے شاعر ہیں ‘‘ میرے تحت ا لشعور میں چپک کر رہ گیا۔ گویا ۷۔۸ سال کی عمر میں میرا ان کا تعارف ہو گیا۔ اس کے بعد تو جلیل سازؔ صاحب سے میری ملاقات ہر رہ گذر پر ہونے لگی۔
قریبی رشتہ داروں میں شادیاں ہوتیں وہ سربراہی کرتے نظر آتے ۔ مشاعرہ ہوتا تو وہاں کرسئی صدارت پر جلوہ افروز ہوتے ۔ تعلیمی جلسوں میں مہمانانِ خصوصی کے صف میں ہوتے اور کبھی سیاسی پارٹی کے جلسوں میں تقریر کرتے نظر آتے گویا ہر جگہ جلیل سازؔ کا نام سننے کو ملتا۔
۱۹۶۹ء میں جب وہ ناگپور کارپوریشن کے وارڈ الیکشن میں کھڑے ہوئے تو دیگر بچوں کے ساتھ میں بھی گلی گلی ’’ساز صاحب کو ووٹ دو‘‘ کے نعرے لگاتے پھرتا رہا۔ ہم نے ان کے لیے خوب محنت کی نتیجہ آیا ساز صاحب کثیر ووٹوں سے وارڈ کے ممبر منتخب ہو گئے ۔ پھر وہ پانچ سال تک ہمارے وارڈ کے معزز ممبر ر ہے ۔مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے صرف آٹھویں کلاس تک ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کی تحریر پڑھ کر یا ان کی تقریر سن کر یا ان سے گفتگو کر کے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ ڈگریاں رکھتے ہونگے ۔
سازؔ صاحب ہمہ جہت صلاحیتوں کے مالک تھے ۔ ان کی شخصیت پر کشش اور جاذب نظر تھی وہ بلا کے معاملہ فہم تھے ۔ سنجیدگی اور متانت ان کے بشرے سے ظاہر ہوتی تھی۔ ان کا قد ایسا تھا کہ سیکڑوں میں الگ پہچانے جاتے تھے ۔ مطالعہ وسیع تھا اور حافظہ غضب کاپایا تھا، غالبؔ، اقبالؔ، جگرؔ، فیضؔ، سیمابؔ، ساحرؔ اور شکیل ؔبدایونی کے بے شمار اشعار انہیں ازبر تھے ۔وہ اکثر کہتے تھے میاں خوش بختی اور اکتساب علم بزرگون کی صحبت کا فیض ہوتا ہے جو مجھے نصیب ہوا۔
ایک زمانے میں سازؔ صاحب کی تحریر کر دہ ’بدائی، ،’’چلی میکے سے دلہن دے کے صد رنج ومحن‘‘ کیمقبولیت کا یہ عالم تھا کہ جب تک یہ پڑھی نہ جاتی تب تک دلہن وداع ہی نہیں ہوتی تھی۔ اس کے پڑھنے والوں کی مخصوص جماعت ہوتی جو پرسوز ترنم کے ساتھ اس وداعی کو پڑھتے تو سارا ماحول غمگین ہو جاتا اور گھر ماتم کدہ بن جاتا کیا مرد کیا عورتیں ، بچے بوڑھے دھاڑیں مار مار کر روتے تھے ۔ ایک روز میں نے سازؔ صاحب سے پوچھا حضرت آپ نے یہ وداعی گیت کس عالم میں لکھا تھا کہنے لگے عالم والم تو کچھ نہیں تھا بلکہ یہ تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی وکیل پرویز کی شادی کے موقع پر اسکی بیوی کے میکے والوں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ مجھے بھی گمان نہیں تھا کہ یہ گیت اسقدر مقبول ہو جائے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ وداعی گیت زبان و بیان کے اعتبار سے ایسا مرصّع اور پر اثر ہے کہ اگر سازؔ صاحب صرف یہ گیت لکھ کر ہی چلے جاتے تو ناگپور کی ادبی تاریخ میں اپنا نام درج کرا جاتے ۔
سازؔ صاحب کے کاموں پر غور کرو تو احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ صرف یہی کام کر جاتے تو امر ہو جاتے ۔ دیکھئے انھوں نے لڑکیوں کے لیے ڈاکٹر ذاکر حسین کے نام سے ایک ڈی ایڈ کالج کی بنیاد رکھی جسکے ذریعے سیکڑوں نہیں ہزاروں بچیوں نے ڈی ایڈ کیا اور برسر روزگار ہوئیں ۔ آج ۳۰۔۳۵ سال قبل لڑکیوں کے لیے کالج کھولنا گناہ کے برابر سمجھا جاتا تھا۔ سماج میں کالج کے معنی محض عیاشی کا اڈّہ گردانہ جاتا تھا۔ سازؔ صاحب نے سماج کے ان طعنوں کی پرواہ بھی نہ کی اور ڈی ایڈ کالج قائم کر دیا جو آج بھی شان سے جاری ہے ۔ اگر ہم کہیں کہ سازؔ صاحب صرف یہی کام کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتے تو اہل ناگپور ان کے احسان کو کبھی نہ بھولتے ۔
ان میں انتظامی صلاحیتیں بھی خوب تھیں وہ بیک وقت ڈی ایڈ کالج کے صدر کے ساتھ مجیدیہ گرلز اسکول ناگپور کی مجلس انتظامیہ کے صدر، اور یعقوبیہ مدرسہ مومن پورہ کے سکریٹری بھی تھے ۔ اس کے علاوہ شہر کی بے شمار ادبی و سماجی سرگرمیوں سے وابستہ تھے ۔
سازؔ صاحب سادہ مزاج، مخلص اور ملنسار تھے ۔ ان میں غرور نام کو نہیں تھا۔ وہ ہر خاص و عام سے یکساں پیش آتے ۔ محلّے کے لڑکوں سے ایسی بات کرتے گویا وہ ان کے ہم راز ہوں ۔ ان کا ذہن ہمیشہ ادبی، علمی، تعلیمی و سیاسی سر گرمیاں کرنے پر آمادہ ہوتا۔ در اصل ناگپور میں بیشتر سماجی و ثقافتی سرگرمیاں ان کے دم سے رواں دواں تھیں ۔رمضان کا مہینہ آتا۔ مومن پورہ میں گہماگہمی اور چہل پہل اپنے شباب پر ہوتی اس عالم میں نوجوان لڑکوں کی ٹولی ’’قصیدہ‘‘ پڑھنے نکلتی۔ فلمی دھن اورطرز پر حالاتِ حاضرہ پر چوٹیں ہوتیں ۔ بیشترقصیدے سازؔصاحب کے تحریر کر دہ ہوتے جو رات میں پڑھے جاتے اور راتوں رات پورے شہر میں مشہور ہو جاتے ۔انہوں نے دلہوں کے لیے سہرے بھی خوب لکھے ۔ اگر ان سہروں ، قصیدوں ، وطن کے گیتوں اور قومی نظموں کویک جا کر دیا جائے تو سازؔ صاحب کی شاعری کے حوالے سے سماجی منظر نامہ بھی مرتب ہو سکتا ہے ۔
انھیں اردو اور اردو کے لکھنے والوں سے والہانہ محبت تھی۔ وہ شہر کے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کرتے ۔ میری کتاب ’’حافظ ولایت اﷲ حافظ حیات و خدمات‘‘ شائع ہوئی تو میں نے اسکی ایک جلد ان کی خدمت میں پیش کی۔ فوراً جیب سے ۱۰۰ روپیے نکالے اور مجھے عنایت کیے میں نے کہا حضرت اس کی ضرورت نہیں ہے کہنے لگے دیکھو جب کبھی کوئی مصنف یا شاعر کتاب دے تو اس کا ھدیہ ضرور دیا کرو۔ ہاں ایک زمانہ تھا کہ میری مالی حالت اس قدر خستہ تھی کہ مجھے کتابیں مانگ کر پڑھنی پڑتی تھیں مگر اب تو اﷲ کا فضل و کرم ہے ۔ میں نے کہا حضرت اسکی قیمت تو صرف ۴۰ روپیے ہے کہنے لگے میں قیمت کب دے رہا ہوں ۔ ھدیہ قبول کرو۔ اور زبردستی میری جیب میں سو کا نوٹ ڈال دیا۔
مہاراشٹر اردو اکادیمی کے زیر اہتمام اردو طنز و مزاح پر ایک سیمینار تھا۔ بڑے بڑے اشتہارات شہر میں چسپاں تھے ۔ شفیقہ فرحت، زہرہ موڈک، ڈاکٹر شیخ رحمن آکولوی اس میں شامل تھے ۔ سازؔ صاحب اس کے کنوینر تھے ۔ میں نے سازؔ صاحب سے سر راہ یوں ہی کہہ دیا کہ سازؔ صاحب میں بھی طنز و مزاح لکھتا ہوں آپ مجھے بھول گئے کہنے لگے ہاں باباتمہارا نام رہ گیا۔ لیکن تم اپنی تحریر ضرور پڑھوگے اور پھر شام میں میرے نام علیحدہ سے ایک دعوت نامہ خود لے کر آئے اور اصرار کیا کہ تمھیں اس سیمینار میں ضرور شرکت کرنی ہے ۔
سازؔ صاحب کا مجموعۂ کلام ’’نگاہ‘‘ ۲۰/ اگست ۲۰۰۶ء کو منظرِ عام پر آیا۔اجراء کی تقریب ہندی مور بھون سیتا بلڈی میں تزک و احتشام سے منعقد کی گئی۔ کامریڈ اے بی بردھن کے ہاتھوں اجراء ہوا۔ محترم شمیم فیضی دہلی سے ، شگوفہ کے مدیر مصطفٰے کمال حیدر آباد سے اور ہارون بی۔ اے مالیگاؤں سے اور عبدالاحد ساز بمبئی سے بطور خاص تشریف لائے تھے ۔ اسی دن کثیرالاشاعت مراٹھی روزنامہ ’’دیش انّتی‘‘ میں ساز صاحب کی شخصیت اور شاعری پر میں نے ڈاکٹر کرن دھوڑ کے تعاون سے ایک مضمون مراٹھی میں لکھا جو اسی دن شائع ہوا۔ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہنے لگے جو کام اردو والے نہ کر سکے مراٹھی والوں نے کر دکھایا۔
سازؔ صاحب کی شخصیت کو ان کی شاعری سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی زندگی کا بنظر غائر جائزہ لیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کی شاعری دراصل ان کی شخصیت کا آئینہ ہے ۔ ان کے کلام میں عصری آگہی کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ان کی غزلوں میں گردوپیش کی زندگی کا گہرا مشاہدہ ملتا ہے ۔ وہ فلسفی نہیں تھے اور نہ ہی فلسفیانہ شاعری کرتے تھے ۔ سیدھی سادی زبان میں بات کہتے ۔ سماجی زندگی کی ناہمواری، استحصال، جبروستم، فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہمارے سماج و معاشرے کی بے بسی ان کی شاعری کا موضوع تھے ۔
میرے ان دعووٗں کو پرکھنا ہو تو ان کے مجموعہ کلام ’’نگاہ‘‘ پر نظر ڈالیے جہاں پر غزل میں ایسے اشعار ضرور مل جائیں گے جو نگاہ کے ذریعے دل میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ تاہم اشعار ملاخطہ فرمائیے :
بساط یہ ہے کہ بس ایک مشتِ خاک ہیں ہم
کمال یہ ہے کہ کون و مکاں پہ چھائے ہیں
تمھیں خوشی کی تمنّا تھی، سو ملی تم کو
خدا نے بخشی متاعِ غمِ حیات مجھے
ملو تو سازؔ خلوص اور سادگی سے ملو
نہیں پسند یہ بے جا تکلّفات مجھے
الگ یہ بات کہ میں ہنس نہیں پایا ہوں برسوں سے
مری تقدیر لیکن مجھ پہ اکثر مسکراتی ہے
کوئی آئے گا آکر زندگی میں رنگ بھر دے گا
یہی امید ہر انسان کو جینا سکھاتی ہے
انہیں سمٹتی ہوئی زندگی کا علم نہیں
بڑے گھروں میں جو سوتے ہیں پاؤں پھیلا کر
میں اپنے عہد سے آنکھیں چرا نہیں سکتا
تری یہ ضد کہ فقط میری سمت دیکھا کر
عشق وہ چیز ہے واعظ تجھے معلوم نہیں
ہوش مندوں کو یہ دیوانہ بنا دیتا ہے
’’نگاہ‘‘ میں ایسے اشعار کی تعداد بے شمار ہے جسے سنبھال کر رکھا جانا چاہئے ۔
سازؔصاحب نے منہ پھٹ ؔ ناگپوری کے نام سے بھی طنز و ظرافت کے پیرائے میں دل کے پھپھولے پھوڑے ہیں ۔ اب ناگپور کے ادبی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ سازؔ صاحب کے مزاحیہ کلام کو سنجیدگی سے یکجا کر کے کتابی صورت میں شائع کروائیں ۔ سازؔ صاحب اس معاملہ میں قدرے سست واقع ہوئے تھے ۔۷/اگست ۲۰۰۷ء کو سازؔ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئے ۔ مگر سازؔ کے نغمات ہنوز زندہ ہیں اور آئندہ بھی زندہ رہیں گے ۔ بقول سازؔ مرحوم :
یہ زندگی ہے سفر، صرف چند سانسوں کا
طویل اس کی مگر داستان کتنی ہے
حضرت پیر غلام سالم’عرف سالمؔ ناگپوری ،کے شعری محاسن
از ۔ عالیجناب وکیل نجیب صاحب
۲۸ /جولائی ۲۰۰۷ ء کو حضرت سالم ؔ بھی ہم سے جدا ہوکر عالمِ ارواح کی سمت روانہ ہو گئے ۔ناگپور کے ادبی ماحول سے ایک اور ادبی و علمی شخصیت نے اپنا تعلق توڑ لیا۔حضرت شارقؔ جمال ، جناب شاہدؔ کبیر ، پروفیسر سیّد یونس ؔ کے بعد سالمؔ ناگپوری کا انتقال ایک ایسا ادبی المیہ تھا جسنے شہر ناگپور کی ادبی محفلوں کو سونا کر دیا۔(یہاں میں نے جلیل سازؔ کا نام شامل نہیں کیا ہے کیوں کہ سازؔ صاحب کا انتقال جناب سالمؔ کے بعد ہوا ہے )۔
حضرت سالمؔ ناگپوری نعت کے ایک شعر کے حوالے سے پوری دنیائے اردو ادب میں ہمیشہ ہمیشہ یاد کئے جائیں گے ۔نعت کا وہ شعر اِس طرح ہے کہ
اک نام مصطفے ٰ ہے جو بڑھ کر گھٹا نہیں ورنہ ہر اک عروج میں پنہاں زوال ہے
جو لوگ حضرت سالمؔ ناگپوری کو قریب سے جانتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت نام و نمود کی تمنّا اور شہرت وناموری کی آرزو کے بغیر نہایت خاموشی سے ادب کی خدمت کرتے رہے ۔نہ ستائش کی تمنّا تھی اور نہ ہی کبھی صلے کی پرواہ کی۔اچھّے خاصے آسودہ حال زندگی گزارنے والے چند شعراء گھس پیٹھ کر کے یا خوشامد و چاپلوسی سے سرکاری وظائف حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن سالمؔ ناگپوری صاحب کنجِ تنہائی میں صرف اور صرف خدا کے بھروسے اپنی زندگی کے دن گزارتے رہے اور بلآخر۲۸ /جولائی کو اس عالم بقا کی طرف کوچ کر گئے ۔
حضرت سالمؔ ناگپوری نے اپنے پیچھے تلامذہ کی کثیر تعداد بھی نہیں چھوڑی کہ اُنکے لیے ان کی زندگی میں یا بعد از مرگ کچھ کرتے لہٰذاناگپور کی سر زمین پر نمودار ہونے والا ادب کا یہ جیّد عالم ایک طرح سے گُمنامی کے کٹہرے میں روپوش ہو گیا۔ویسے بھی ناگپور کی ادبی فضا میں یہ ہوتا آیا ہے کہ ’’ جو چلا گیا اسے بھول جا‘‘ اور اسی روایت کو بر قرار رکھا جاتا ہے ۔جناب شارقؔ جمال ، جناب شاہدؔ کبیر اور جناب پروفیسر سیّد یونس ؔصاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا۔میں اس کمیٹی کے اراکین کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اس ماہانہ شعری نشست میں آعلیٰ پیمانے پر نہ سہی چھوٹے پیمانے پر ہی مرحومین کو یاد تو کر لیا جاتا ہے ۔
جہاں تک جناب سالمؔ ناگپوری کی شاعری کا تعلق ہے تو مو صوف نے ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی اور خوبصورت شاعری کی۔حمد، نعتیں ،منقبت،تضمینات،قومی گیت ،مرثیے نوحے ،قطعات،رباعیات،نظمیں ،پوربی زبان کے پچرے اور رمضانُ المبارک میں پڑھے جانے والے قصیدے ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور دادو تحسین سے نوازے گئے ۔رہی بات غزل کی تو پچھلی کئی دہائیوں سے غزل تمام ہی شعراء کی پسندیدہ صنف رہی ہے لہٰذا جناب سالمؔ نے بھی غزلیہ شاعری میں بہت سی یادگار غزلیں کہی ہیں ۔
غزل کا دامن بہت وسیع ہے ۔بس یہ سمجھ لیجئے کہ ادب کا ایک سمندر ہے بلکہ سار سمندروں کا ایک سمندر ہے جس سے ہرشاعر اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ،اپنی ضرورت کے مطابق،اپنی استطاعت کے مطابق کچھ نہ کچھ لیتا رہتا ہے اور قارئین و سامئین کو دیتا رہتا ہے ۔ آج اردو دنیا میں غزل گو شعراء کی تعدادشمار کی جائے تو لاکھوں سے تجاوز کر جائے گی۔اردو کا کوئی اخبارہو یا رسالہ اردو غزلوں سے سجا ہوا نظر آتا ہے ۔ہر شاعر اس صنف میں طبع آزمائی کرنے میں لگا ہوا ہے حسرت سے کہ برسوں سے جاری اس کی طغیانی میں کسی طرح کی کمی نہیں ہونے پا رہی ہے ۔چھوٹے بڑے مشاعرے ہو رہے ہیں ۔دوان شائع ہورہے ہیں ۔گوشے اور نمبر شائع ہورہے ہیں ۔کیا بھارت، کیا پاکستان، کیا سعودی عربیہ، کیا عرب امارات، کیاامریکہ کیا روس، کیا انگلینڈ کیا فرانس، دنیا کا ہر وہ ملک جہاں چند ایک بھی اردو بولنے والے ہیں شاعری ہورہی ہے ۔اور زیادہ تر شعراء غزل گوئی میں اپنی ذہنی اور کچھ حد تک جسمانی توانائی خرچ کرتے رہتے ہیں پھر بھی غزل کے دامن کی تنگی کبھی محسوس نہیں کی جاتی۔اردو کی سب سے سہل اور سب سے آسان صنف بن کر رہ گئی ہے غزل۔
جہاں تک اساتذہ کا تعلق ہے انھوں نے غزل میں نئی بات کہنے کی کوشش کی ہے ۔صرف ردیف اور قافیے ہی برت کر الگ نہی بدلے گئے ہیں ۔ایسے ہی غزل گو اساتذہ میں حضرت سالمؔناگپوری کا بھی شمار ہوتا ہے ۔ جوہر جسے انگریزی م ATOM کہاجاتا ہے ایک زمانے تک یہ محسوس کیا جاتا رہا کہ کسی بھی عنصرکا یہ نا قابل تقسیم ذرّہ ہے ۔لیکن سائنس دانوں نے اپنے تجربات سے یہ بات ثابت کر دی کہ جوہر کو بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ جوہر تین دیگر چھوٹے ذرّات سے مل کر بنا ہو تا ہے جسے علمِ کیمیا کی زبان میں الیکٹروننیوٹرون اور پروٹون کہا جا تا ہے اور جب یہ ذرّات ایٹم سے الگ ہو جا تے ہیں تو زبردست توانائی پیدا ہو تی ہے اور جوہر اپنا وجود کھو دیتا ہیجناب سالمؔناگپوری حالانکہ سائنس داں نہیں تھے لیکن لفظ جوہر کی اہمیت سے واقف تھے اسی لئے آپ نے اپنے ایک شعر میں کیا خوبصورت بات کہی ہے ملا حظہ فرمائیں
داغِ دل ، زخمِ جگر ،خونِ تمنّا ، شبِ غم جوہرِعشق کی تقسیم ہے ان چاروں میں
عشق ایک جوہر ہے اور یہ جوہر ایسا ہے کہ اگر اس کا اشقاق کیا جائے تو یہ اپنے اجزاء میں تقسیم ہو جائے گااور اس کے اجزاء ہیں داغِ دل، زخمِ جگر، خونِ تمنّا اور شبِ غم۔ سائنس کے اس عمل سے استفادہ کرتے ہوئے غزل کے اس شعر میں حضرت سالمؔ نے لفظ جوہر نہایت خوبصورت طریقے سے برتا ہے ۔ویسے جوہر اپنے اندر معانی کا جہان رکھتا ہے اور اسے الگ الگ مفہو م میں خوبصورت طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے ۔
جس طرح جوہر کے تین اجزاء ہوتے ہیں جنہیں جوہر کو توڑ کر الگ الگ کیا جا سکتا ہے اسی طرح ایک زمانے تک یہ تصوّر رہا کہ جانداروں کا جسم بھی چار عناصر سے مل کر بنا ہے ۔خاک ، آگ ،پانی اور ہوا۔مرنے کے بعد جاندار کا جسم انھیں چار اجزاء میں تقسیم ہو جا تا ہے جیسا کہ جنابِ چکبست نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے
زندگی کیا ہے ؟ عناصر میں ظہورِ ترتیب موت کیا ہے انہیں اجزاء کا پریشاں ہونا
یہ تصوّر سراسر مادّیت پرستی کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔یہاں پر روح کا کوئی تصوّر نہیں ہے ۔روح کا کہیں وجود نہیں ہے ۔لیکن اسلامی نظریے کے مطابق انسان کا جسم اسی وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک روح اس میں موجود ہوتی ہے ۔روح جسم سے الگ ہو گئی تو جسم پھر مٹّی کا ڈھیر ہے ۔اس روح کا تعلق ایک ایسی دنیا سے ہے جہاں کبھی نہ فنا ہونے والی زندگی کی شروعات ہو گی۔روح کی موجودگی کو ہندو دھرم کے لوگ بھی مانتے ہیں ۔جسم کے ختم ہوتے ہی آتما کسی اور جاندار میں منتقل ہو جاتی ہے ۔لیکن اسلام نے یہ بتایا ہے کہ مرنے کے بعد ہر انسان کی روح عالمِ ارواح میں چلی جاتی ہے جہاں وہ قیامت تک رہے گی اور قیامت کے بعد پھر سے تمام انسانوں کو ان کی اصلی شکل و صورت میں زندہ کیا جائیگا۔روح ان کے جسم میں داخل کر دی جائے گی اور اعما ل کے حساب سے انہیں جنّت یا جہنّم میں داخل کیا جائیگا۔ جہاں انہیں ہزاروں لاکھوں سال تک رہنا ہے ۔اسی بات کو جناب سالمؔ ناگپوری نے کیسی خوبصورتی سے اپنے ایک شعر میں بیان کیا ہے
شروع ہو گی اسی دن سے حقیقی زندگی سالم ؔ ہماری روح جس دن جسمِ خاکی سے جدا ہو گی
زندگی ایک امتحان گاہ ہے جیسا جو عمل کرے گا اسی حساب سے بعد از مرگ اسے اپنی زندگی گزارنی ہو گی اور وہی زندگی اصل زندگی ہے ۔یہ زندگی تو عارضی ہے ۔فانی ہے ۔غزل کو محبوب سے بات چیت کی صنف کہا جاتا ہے ۔ابتدا ء میں شاعروں نے غزل کو اسی طرح برتا ہے لیکن اب تو غزل ہر مضمون کو اپنے اندر سمو لیتی ہے ۔لیکن آج بھی جب غزل کے اشعار میں حسن و عشق کی بات ہو تی ہے تو شعر دل میں سوزوگداز کی کیفیات پیدا کر دیتا ہے ۔دیکھئے جناب سالمؔ نے غزل کا کیا خوبصورت شعر کہا ہے
نظر جو آتے کہیں وہ ہم کو یہ عرض کرتے سلام کر کے
ہمیں سے پردہ ،ہمیں سے دوری،ہمارے دل میں قیام کر کے
قدیم اور جدید شعراء نے اپنی غزل کے اشعار میں ۔’’ تصویر ‘‘ کو نہایت خوبصورتی سے استعمال کیا ہے مثلاً .
تیری صورت سے نہیں ملتی کسی کی صورت ہم جہاں میں تری تصویر لئے پھرتے ہیں
یا
تصویر تری دل میرا بہلا نہ سکے گی
یا
چند تصویر بتاں چند حسینوں کے خطوط بعد مرنے کے مرے دل سے یہ ساماں نکلا
جناب سالمؔ ناگپوری نے تصویر کو اپنی غزل کے ایک شعر میں نئے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے .ملاحظہ فرمائیں .
رخ بدل سکتے نہیں آنکھ چرا سکتے نہیں کتنے مجبور نظر آتے ہو تصویر میں تم
آج کل پوری دنیا میں مسلمانوں پر مصیبتیں نازل ہو رہی ہیں .ہم دیکھ رہے ہیں عراق میں مسلمان مسلمان سے بر سرِ پیکار ہے افغانستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے .پاکستان بھی اس سے بچا ہوا نہیں ہے .فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے ہو کسی سے پو شیدہ نہیں .لبنان اور روس سے الگ ہونے والے ممالک چیچینیا اور ازبکستان بھی انھیں حالات سے دو چار ہیں .اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتّحاد و اتّفاق نہیں ہے ااا اسلام نے مسلمانوں میں اتّحاد و اتّفاق پر بہت زور دیا ہے اور قرآن شریف نے تنبیہ کی ہے کہ ’’ اگر تم نے آپس میں اتّحاد نہ رکھا تو تمھاری ہوا اکھڑجائے گی‘‘ اتّحاد کی قوت مسلمانوں میں موجود نہیں ہے اس لئے جگہ جگہ مسلمانوں کی ہوا اکھڑتی جا رہی ہے . جناب سالمؔ ناگپوری نے بھی اپنے ایک شعر میں اسی عالمگیرحقیقت کو بیان کیا ہے
رہو یاروں جو مل کر لائق فضل خدا تم ہو اگر الجھے رہے یو نہی تو آپ اپنی قضا تم ہو
حضرت سالمؔ کی مکمل زندگی ایک گوشہ نشین شاعر کی زندگی تھی.سردار گلی میں آپ کا مکان آپ کی تمام تر کاوشوں کا مرکز تھا.حضرت نہ تو کسی پان کے ٹھیلے پر نہ ہی کسی ہوٹل میں اور نہ ہی کسی دوکان میں بیٹھ کر وقت گزاری کرتے تھے .اذان ہوتی تو تکیہ دیوان شاہ کی مسجد میں چلے جاتے نماز ادا کر کے پھر سے اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتے . حضرت کی آخر آخر عمر میں کسی سے ایسی دوستی بھی نہیں تھی جس کے ساتھ چہل قدمی کرتے یا کھلے ماحول میں اپنا وقت گزارنے کے لئے نکل پڑتے .یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ قناعت پسند اور وضعدار آدمی تھے .قناعت پسند کہنا اس لئے بھی صحیح ہے کہ چاہے شاعری کا معاملہ ہو یا کاروبار یا اولاد کی تعلیم و تربیت کا ، ہر معاملہ میں آپ نے رضائے خداوندی کو فوقیت و اوّلیت دی. یہی وجہ ہے کہ آبائی مکان وقت کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے کمروں میں تقسیم ہوتا چلا گیا.ان کمروں سے حاصل ہونے والا کرایہ ہی گزر بسر کے لئے ایک بڑا سہارا تھا. آپ کا کوئی بھی بچّہ اونچی تعلیم حاصل نہیں کر سکا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو جہاں adjust ہوا وہیں کا ہو کر رہ گیا.قناعت پسندی کو پسند کیا اور اچھی چیزوں کی آرزو کو تو بالائے طاق رکھ دیا اور اسی مفہوم کو ادا کرتے ہوئے انہوں نے یہ شعر کہا ہے جو ان کے حسب حال ہے
وہ بزم ہے بزم غیر فانی،تجھے مناسب ہے فکر فردا یہ انجمن تو فنا ہے سالمؔ، یہاں پہ کیا ہو گا نام کر کے
جناب سالمؔ ناگپوری نے اچھا خاصہ شعری سرمایہ چھوڑا ہے جسکا کتابی شکل میں شائع ہوکر منظر عام پر آنا اسلئے ضروری ہے کہ نئے شعراء کو ہمارے بزرگوں کی شاعری کا انداز معلوم ہو سکے . ان موضوعات کا علم ہو سکے جنہیں انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے ان سب سے بھی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے . لیکن فی زمانہ کتاب شائع کرانا بھی کچھ لوگوں کے لئے جوئے شیر لانے سے کم دقّت کا کام نہیں ہے . ہمارے یہاں ایسے ادارے نہیں ہیں جو یہ کام انجام دے سکیں . لے دے کے ایک مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی تھی لیکن اس کی لاش بھی ممبئی کے اکادمی کے دفتر کے سرد خانے میں رکھی ہوئی ہے .ہمیں سیکو لر پارٹیوں کی حکومت سے بڑی امیدیں ہوئیں ہیں لیکن در حقیقت مسلمانوں کے تابوت میں کیل ٹھوکنے کا کام یہی کرتی ہیں . لہٰذا یہ امید کرنا کہ حضرت سالمؔ کا مجموعہ کلام زیور طباعت سے آراستہ ہو ماضی قریب میں ایسا ممکن نظر نہیں آتا.
جناب ارشدالقادری صاحب کی صحبت میں رہنے والا ناگپور شہر کا یہ ایک بڑا شاعر جس نے ابتدائی دنوں جناب خلیل جونپوری سے اپنے کلام پر اصلاح لی تھی شاعری کی باریکیوں کو سمجھا تھا بلآخر ۲۸ / جولائی ۲۰۰۷ء کو اپنے مالک حقیقی سے جا ملا. مومن پورہ ، جہاں ان کے دن رات گزرے ، جہاں انھوں نے اپنی شاعری کو پروان چڑھایا . جہاں انہوں نے مشاعروں میں اپنے اثر انگیز کلام سے دادو تحسین پائی، اسی بستی سے بہت دور یہاں صدر میں حضرت سالمؔ کو یاد کرنے کے لئے اس شعری نشست کا انعقاد ہوا اس کے لئے بانیانِ مشاعرہ یقینًااہل اردو زبان کے شکریہ کے مستحق ہیں ۔