مشتاق احسنؔ
پناہ مانگنے خانہ خراب آئے گا
میری زمین پر وہ آفتاب آئے گا
نوشتہ میرے مقدر کا ڈھونڈتے پھرتے
کہیں نہ جائے گا ،میری جناب آئے گا
مجھے سنبھال کے رکھنا کہ قیمتی شئے ہوں
میں ٹوٹ جاؤں تو اک انقلاب آئے گا
یہ عین حق ہے کہ اک روز وہ مرے حق میں
جو میرا دوست ہے بن کر عذاب آئے گا
ابھی تو رات ہے چھیڑو نہ پھول بننے دو
کلی پہ دن چڑھے کافی شباب آئے گا
انھیں منانے کی کوشش نہ کیجئے احسنؔ
وہ منہ پھلائے ہیں الٹا جواب آئے گا
/////
میں تو صدا لگا چکا اُس کے دیار میں
اب دیکھنا ہے کتنا اثر ہے پُکار میں
ہر ہر قدم سنبھال کے رکھّا، بہ احتیاط
اُلجھا کبھی نہ گردشِ لیل و نہار میں
جتنا کہ صبح و شام کی رنگت میں ہے تضاد
اُتنا ہے فرق آپ کے قول و قرار میں
ہر دم اسے پرکھنے کی کوشش نہ کیجئے
انساں سمجھ میں آتا ہے بس ایک بار میں
دورِ خزاں تو چین سے آکر گزر گیا
یہ کیسی آگ لگ گئی فصلِ بہار میں
ہے بات گھر کی گھر میں رہے تب تو ٹھیک ہے
اچھّا نہیں ہے عام کریں اس کو چار میں
احسن ؔکسی کے وعدے پہ مت کیجئے یقین
کتنے ہی خواب ٹوٹ چکے انتظار میں
////
تم عمل کیے جاؤ تم کو کس نے روکا ہے
ہم تو خواب دیکھیں گے یہ ہمارا حصّہ ہے
آشیاں کو جلتے تو ہر نظر نے دیکھا ہے
کتنے جل چُکے ارماں کیا کسی نے سونچا ہے
حسرتیں زمانے کی پال کر کروگے کیا
وہ ہی فصل کاٹوگے بیج جس کا بویا ہے
اُس سے غیر اچھّے ہیں ہنس کے مل تو لیتے ہیں
بھائی نے مجھے اکثر گھور کر ہی دیکھا ہے
نہ زبان شیریں ہے نہ بیان سنجیدہ
مقتدی پریشاں ہیں یہ امام کیسا ہے
رات دن کے سجدے ہیں مسجددوں میں جھگڑے ہیں
بے اثر دعاؤں کا حشر یہ ہی ہوتا ہے
باغباں کی محنت ہوں اور خدا کی رحمت ہوں
خار دار شاخوں پر تب گلاب کھِلتا ہے
دوسروں کی عینک سے خود کو دیکھیے احسنؔ
آپ اپنی نظروں سے تو سبز سبز دکھتا ہے
////
غیر میں اپنوں میں کچھ پہچان کر
ہر کسی کو گھر میں نہ مہمان کر
کون کس کے کام آتا ہے یہاں
اپنی مشکل خود میاں آسان کر
یاد کرنا موت کو تو ٹھیک ہے
جیتے جی مرنے کا نہ ارمان کر
بازوؤں میں زور جب ہوتا نہیں
کیوں نکل پڑتے ہو سینہ تان کر
جھوٹ کہہ کر اُس نے بازی مارلی
ہم ہوئے بدنام غلطی مان کر
اس کو خالص گھر خدا کا رہنے دے
جنگ کا مسجد کو نہ میدان کر
جن کو کرنا ہے کریں وہ شوق سے
دیکھ احسنؔ تو نہ جھوٹی شان کر
////
پڑھ کے دو چار کیا کتاب آئے
اُن کے حصّے میں دس خطاب آئے
میرے لب پر سوال کیا آیا
جو جواب آئے لا جواب آئے
اک تصوّر میں کٹ گئیں راتیں
نیند آئی نہ کوئی خواب آئے
اُن کو محشر میں مل گئی راحت
کر کے اپنا جو احتساب آئے
آپ نظریں جھکاکے چلیے جناب
اُن کے چہرے پہ کیوں نقاب آئے
قبر سے کہہ رہا تھا اک منکر
ہائے پرچے بڑے خراب آئے
ہم نے احسن ؔ روش نہیں بدلی
لاکھ دنیا میں انقلاب آئے
////
فتنوں کو دبا دیتے ہیں شہرت نہیں کرتے
ہم سنتے ہیں سب ، رائی کو پربت نہیں کرتے
کیا لوگ تھے کل رات کیا کرتے تھے سجدے
ہم لوگ تو دن میں بھی عبادت نہیں کرتے
پردہ کیے لوگوں پہ تو مٹ جاتے ہیں ہم لوگ
ماں باپ جو زندہ ہیں تو خدمت نہیں کرتے
اے کاش کہ مل جائے اسے رشد و ہدایت
ہم اس لیے کافر پہ بھی لعنت نہیں کرتے
اپنوں نے کیا ظلم تو خود اپنے اکابر
چُپ رہتے ہیں ظالم کی مذمّت نہیں کرتے
جو کام ہے جس وقت کا کرتے ہیں وہی ہم
بیمار کو بستر پہ نصیحت نہیں کرتے
لٹ جاتے ہیں مٹ جاتے ہیں پر اپنے وطن سے
ہم لوگ وفادار ہیں ہجرت نہیں کرتے
خاموشی کو ترجیح دیا کرتے ہیں احسنؔ
ہم سچّے ہیں اس بات پہ حجّت نہیں کرتے
////
دل میں حق بات جب اترتی ہے
تب کہیں عاقبت سنورتی ہے
عزم جن کے جواں نہیں ہوتے
ان کی دنیا کہاں سنورتی ہے
فقر و فاقہ میں گاؤں کی بیٹی
شہر جانے کی بات کرتی ہے
کیوں برہنہ بدن ہیں یہ بچے
تم سے ممتا سوال کرتی ہے
ہوتے ہوتے گناہ ہوتے ہیں
مرتے مرتے نگاہ مرتی ہے
زندگی میری ہر نفس احسنؔ
دوستوں کے کرم سے ڈرتی ہے