ریاض الدین کاملؔ
جب سے وہ میرے خواب کی تعبیر بن گئے
میرے لئے اندھیرے بھی تنویر بن گئے
تھا ناز اپنے حسن پہ ہم کو بہت مگر
دیکھا انھیں تو حیرتِ تصویر بن گئے
ان کے نگاہِ شوخ کے انداز پر نثار
برچھی کبھی بنے تو کبھی تیر بن گئے
پوچھا جو حالِ یار تو آنکھیں چھلک پڑیں
قطرے گرے جو اشک کے تحریر بن گئے
یاروں بہت قریب تھی منزل مری مگر
چھالے ہی میرے پاؤں کی زنجیر بن گئے
پھولوں میں تھی گذرتی کبھی اپنی زندگی
کانٹے ہی اب تو دامنِ تقدیر بن گئے
کاملؔ جو لوگ ہم پہ اٹھاتے تھے انگلیاں
وہ بھی اسیرِ زلف گرہ گیر بن گئے
/////
جنونِ عشق میں دیکھو کہیں ایسا نہ کر لینا
تم اپنے دامنِ احساس کو میلا نہ کر لینا
زلیخا آپ ہیں یہ سچ ہے لیکن میں نہیں یوسف
غلط فہمی میں اپنے آپ کو رسوا نہ کر لینا
نمک پاش اپنی فطرت سے نہ ہر گز باز آئیں گے
تم اپنے زخمِ دل کو چھیڑ کر گہرا نہ کر لینا
زمانے کی نگاہوں سے گرے تو اٹھ نہ پاؤگے
بلندی پر پہونچ کے اپنا قد اونچا نہ کر لینا
غلامی نفس کی بربادیوں کا پیش خیمہ ہے
کہیں ویران اپنے زیست کی دنیا نہ کر لینا
اٹھا کر انگلی دانستہ کسی مجبور کی جانب
غرور و کبر میں نقصان تم اپنا نہ کر لینا
خدا کے واسطے تم چند سکوں کے لئے کاملؔ
کسی مکّار سے معیار کا سودا نہ کر لینا
/////
زیست کے پورے سبھی ارکان کر
ہاں مگر مرضی خدا کی جان کر
بڑھ رہا ہے خواہشوں کا دائرہ
اے خدا مشکل میری آسان کر
اجنبی کی طرح تیرے گاؤں سے
ہم ہوئے رخصت تجھے پہچان کر
جانتے ہیں خاک میں مل جائیں گے
چل رہے ہیں پھر بھی سینہ تان کر
پل میں تولہ پل میں ماشہ ہے مزاج
روٹھ جاتے ہیں وہ اکثر مان کر
خود کی خا طرتو ُجیا تو کیا جیا
دوسروں پر زندگی قربان کر
خیروبرکت کا اگر طالب ہے تو
احترام و خدمتِ مہمان کر
کہہ رہی ہے چار دن کی زندگی
زندگی کے بعد کا سامان کر
موم کی مانند کاملؔ ہو گیا
سنگ دل بھی درد میرا جان کر
/////
مانا کے مخالف یہ زمانے کی ہوا ہے
لیکن مرے ہمراہ میری ماں کی دعا ہے
میں بھول گیا اپنے ہر اک رنج و الم کو
جب سے ترے حالات کے بارے میں سنا ہے
نادم ہو گناہوں پہ تو اپنے ارے ناداں
ہے وقت ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے
ہاتھوں میں کبھی جس کے تھا میزانِ صداقت
افسوس وہی اب صفِ مجرم میں کھڑا ہے
کیا میرا بگاڑے گی یہ حالات کی آندھی
جب سر پہ مرے سایہ فگن فضلِ خدا ہے
رت رنگ بدلتی رہی آئے گئے موسم
میں پھول ہوں ایسا جو خزاں میں بھی کھلا ہے
ہوتا ہے گماں دیکھ کے مقبولیت اس کی
اردو کو ولیؔ، میرؔ کی غالبؔ کی دعا ہے
ہم کیسے بھلائیں چھ دسمبر کا سانحہ
ہر چشم ہے خونبار ہر اک زخم ہرا ہے
دشمن کے بھی دکھ درد کا احساس ہو جس کو
کاملؔ وہی انسان زمانے میں بڑا ہے
////
کاغذ پہ دل کے مشق کتابت نہیں کرتے
ہم عقل کے اندھوں کی امامت نہیں کرتے
قرآن سے ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں ملتا
جو طاق پہ رکھتے ہیں تلاوت نہیں کرتے
دشمن کا بھلا چاہنا سنّت ہے مگر ہم
خود اپنے رفیقوں کی عیادت نہیں کرتے
ہر حال میں اﷲ سے راضی بہ رضا ہیں
’’ہم اپنے مقدر کی شکایت نہیں کرتے ‘‘
مقبول کبھی ان کی عبادت نہیں ہوتی
ماں باپ کی جو لوگ اطاعت نہیں کرتے
نظروں کو سدا رکھتے ہیں میزان کی صورت
مکّاروں کی ہم لوگ حمایت نہیں کرتے
رہ رہ کے بدلتا ہے مزاج آپکا توبہ
دیوانے محبت میں تجارت نہیں کرتے
دنیا میں کئی لوگ تو مظلوم کے حق میں
ہمدردی دکھاتے ہیں عنایت نہیں کرتے
تا عمر زمانے میں بھٹکتے ہیں وہ کاملؔ
جو اپنے اصولوں کی حفاظت نہیں کرتے
/////
بیٹھے ہیں اس طرح سے وہ آنسو نکال کر
رکھّا ہے جیسے گل کوئی خوشبو نکال کر
تصویر دیکھتی تھی وہ عہد شباب کی
صندوق میں رکھے ہوئے گھنگرو نکال کر
مل جائے گا تمہارے ہر اک مسئلے کا حل
سوچیں اگر نئے نئے پہلو نکال کر
بھٹکا ہوا تھا میں مجھے رستہ دکھا دیا
اﷲ نے اندھیرے میں جگنو نکال کر
اسکو زمانے والوں نے مجرم سمجھ لیا
عزّت بچارہی تھی جو چاقو نکال کر
جی نہ سکے گا چین سے پچھتا ئے گا بہت
اپنے حسین دل سے مجھے تو نکال کر
کہنے سے پہلے سوچ لیں بیٹھے ہیں کتنے لوگ
تنقید و تبصرے کے ترازو نکال کر
میں نے کہا کہ موتی کو دیکھا بھی ہے کبھی
آنکھوں سے اس نے رکھدیئے آنسو نکال کر
کاملؔ گماں سے آگے زمانہ نکل گیا
اڑتے ہیں لوگ خواب میں بازو نکال کر
/////
فطرت کا اس کی آج پتہ سب کو چل گیا
واعظ کا خود بیاں کے مخالف عمل گیا
پنہاں روش میں اپنی زمانے کی ہے روش
جب ہم نے خود کو بدلا زمانہ بدل گیا
نکلا تھا آفتاب جو میرے مکان سے
سنتا ہوں تیرے درپہ وہ پہنچا تو ڈھل گیا
دشمن تھا جس کی جان کا فرعونِ نامراد
گھر میں اسی کے دیکھو وہی بچہ پل گیا
ہم ظالموں کے بیچ کوئی نیک ہے ضرور
جس کی دعا سے قہرِ خدا آکے ٹل گیا
ناسور بن نہ جائے کہیں زخمِ زندگی
میں تو سمجھ رہا تھا کہ کانٹا نکل گیا
آمادہ دشمنی پہ جو رہتا تھا ہر گھڑی
بغض و حسد کی آگ میں وہ خود ہی جل گی
جو کام آج کرنا ہے کر لیجئے ابھی
پچھتاؤگے جو آج بھی کل میں بدل گیا
جھک جھک کے مشکلیں مجھے کرنے لگیں سلام
جس وقت گرتے گرتے میں کاملؔ سنبھل گیا
/////
میں سمجھتا تھا جسے غیر نہیں بھائی ہے
سر پہ تلوار اسی نے میرے لٹکائی ہے
جائیں تو جائیں کدھر جان پہ بن آئی ہے
دائیں جانب ہے کنواں بائیں طرف کھائی ہے
پیش کیوں کرتے ہو شیشے کے مشابہ خود کو
ہم نے یہ زندگی ہیرے کی طرح پائی ہے
مشورے میں مرے کیا خامی نظر آئی تمہیں
تم نے تجویز میری کس لئے ٹھکرائی ہے
جس طرح تو دبے پاؤں چلی آتی تھی کبھی
وہ ہی ترکیب تری یاد نے اپنائی ہے
آئینہ ٹوٹ کے بکھرے تو تعجّب کیسا
سحر انگیز صنم آپ کی انگڑائی ہے
مٹ نہیں سکتی مٹانے سے زبانِ اردو
میرؔ و غالبؔ سے نئی اس نے جلا پائی ہے
تیری آواز میں آواز ملاؤں کیسے
خود غرض تو ہے تو پیاری مجھے سچّائی ہے
کہکشاں اس کے قدم چوم رہی ہے کاملؔ
آج بھی فہم و فراست میں وہ اونچائی ہے