زر نگار

الف عین

لائبریرین
محمد فرید خاں تنویرؔ

اس طرح انسان ہے بے بس قضا کے سامنے
ایک چھوٹا سی دیا جیسے ہوا کے سامنے
کیا زمانہ آ گیا پہچان بھی باقی نہیں
اجنبی بن کر کھڑاہوں آشنا کے سامنے
حادثے سے بچ گیا، بچنا مرا دشوار تھا
ٹل گئی آئی بلا ، ماں کی دعا کے سامنے
حکم پر سردار کے سارا قبیلہ کٹ گیا
ہو گئی ویران بستی اک انا کے سامنے
سر کٹا کے کر بلا والوں نے ثابت کر دیا
حق کبھی جھکتا نہیں جور و جفا کے سامنے
کون کہتا ہے نہیں ہوتی دعائیں اب قبول؟
شرط ہے پہلے کرے توبہ خدا کے سامنے
فکرو فن کی بات اور تنویرؔ نادانوں کے ساتھ
کیوں دکھاتے ہو گہر پارے گدا کے سامنے
 

الف عین

لائبریرین
حضرت پیر غلام سالم ناگپوری (مرحوم)

یوں مری چشم تمنا ترا آنچل دیکھے
فصل گل جیسے کڑی دھوپ میں بادل دیکھے
کاش اکدن وہ گلے آکے ملے مجھ سے اور
دل کی آنکھوں سے مرے سینے کی ہلچل دیکھے
2جانے کیا اس کو نظر آتا ہے سناٹے میں
ایک ٹک ایک نظر ہوکے وہ پاگل دیکھے
آج دنیا میں کوئی ایسا نہیں آتا نظر
بند آنکھوں سے جو حالات کے ہر پل دیکھے
ہم کو سچاّئی کا نقسان بتانے والے
توبھی کس درجہ کا مکاّر ہے ، چل چل دیکھے
جس کی دنیا میں مصیبت کا اندھیرا ہو سدا
’’وہ تری آنکھ کا کس آنکھ سے کاجل دیکھے ‘‘
اْس کے ا نجام سے اللہ بچائے سبکو
دین کی راہ میں دنیا کے جو دلدل دیکھے
کوئی دودن میں ہو دینا کے ستم سے بیزار
کوئی تاعمر ستم اور مسلسل دیکھے
کمسنی ہو کہ جوانی ہو کہ پیری باب
ہم نے سالمؔ کو تو ہرعمر میں بیکل دیکھے
 

الف عین

لائبریرین
بختیار قیسیؔ

بن کے مہتاب و آفتاب آئے
کتنے ٹکڑوں میں میرے خواب آئے
سازو آہنگ پر شباب آئے
رقص میں ساغرِ شراب آئے
کوئی تو ہو جو ان کی محفل سے
کامیاب اٹھے کامیاب آئے
سطح بینوں کو کچھ خبر ہی نہیں
کتنے طوفان زیرِ آب آئے
ان پہ نیند یں حرام ٹھیری ہیں
جن کے حصّے میں صرف خواب آئے
جو جہاں کو دبائے رکھتے تھے
لوگ مٹّی میں ان کو داب آئے
وہ توآزادی تھی جو آئی تھی
اب ضرورت ہے انقلاب آئے
بٹ گئیں دوسروں میں تعبریں
میرے حصّے میں صرف خواب آئے
تیری زلفوں کے سامنے ساقی
کیا گھٹا اٹّھے کیا سحاب آئے
قیسیؔ یکساں ہے ، موج دریا ہو
یامرے سامنے شراب آئے


/////

گلچیں سے الجھنے کی جسارت نہیں کرتے
اب خار بھی پھولوں کی حفاظت نہیں کرتے
یہ بات الگ ہے کہ بغاوت نہیں کرتے
لیکن ترے ظلموں کی حمایت نہیں کرتے
دل جوئی بھی ازراہ مرّوت نہیں کرتے
تھوڑی سی بھی وہ ہم پہ عنایت نہیں کرتے
بڑھتے نہیں آلام جہاں ذہن سے آگے
یہ زہر مرے خوں میں سرایت نہیں کرتے
بے لوث محبتّ کا صلہ مانگنے والے
اس دور میں بے لوث محبتّ نہیں کرتے
کچھ لوگ حدوں سے بھی گزر جاتے ہیں اپنی
کچھ ہوتے ہیں وہ بھی جو محبتّ نہیں کرتے
سر میں کوئی سودا ہی نہیں نفع و زیاں کا
ہم دوستی کرتے ہیں تجارت نہیں کرتے
ملتے ہیں تو دشمن سے بھی مل لیتے ہیں کھل کر
ہم بغض نہیں رکھتے سیاست نہیں کرتے
کچھ اور بڑھالیتے ہیں تکلیف وہ اپنی
محسوس جو تکلیف میں راحت نہیں کرتے
سچ بولنے والوں کا ہے انجام نظر میں
سچ بول کے ہم اپنی فضیحت نہیں کرتے
حد تیرے تغافل کی کوئی ہے کہ نہیں ہے
مانا ترے دیوانے شکایت نہیں کرتے
دل دیکھ کے وہ درد دیا کرتے ہیں یارو
ضائع کسی پر بھی عنایت نہیں کرتے

قیسیؔ ہمیں اسلام کی تعلیم ملی ہے
انسان ہے انسان سے نفرت نہیں کرتے

////

نابینوں کے کانوں تماشائے نظر سیکھ
آواز سے تصویر بنا نے کا ہنر سیکھ
کس طرح جھپک سکتی ہیں تاروں کی نگاہیں
آمجھ سے ملا آنکھ یہ اعجازِ نظر سیکھ
پھونکوں سے کوئی شمع بجھادی تو کیا کیا
پھونکوں سے چراغوں کو جلانے کا ہنر سیکھ
گھر بیٹھ کے دشواریِ منزل کی نہ کر فکر
کس طرح سے طے ہو گی کٹھن راہگزر سیکھ
کس طرح مہہِ نو کو ملا مرتبۂ بدر
تاروں سے نہیں چاند سے مل طرزِ قمر سیکھ
راتیں یہ پہاڑ ایسی نہ کٹ پائنیگی قیسیؔ
فرہاد سے مل تیشہ چلانے کا ہنر سیکھ
 

الف عین

لائبریرین
عبدالجباّرسحر

وہ مسافرہوں مری سمت سفر کوئی نہیں
زندگی کا بوجھ کاندھوں پر ڈگر کوئی نہیں
سچ کو تنہا کر گیا آخر سیاست کاہنر
جھوٹ والے سب اُدھر ہیں اور اِدھر کوئی نہیں
راہ گم ہے دور منزل اور اندھا راستہ
چل رہے ہیں ساتھ سامان سفر کوئی نہیں
آ مصیبت زندگی کی میں نبھاؤنگا تجھے
فکرمت کر کیا ہوا جو تیرا گھر کوئی نہیں
اب کہاں وہ جلوہ آرائی کہاں وہ شوق دید
شہرمیں اب اہل دل اہل نظر کوئی نہیں
آپ ہی کے پاس ہیں دل لینے کے سارے ہنر
ہم کو بھی تسلیم ہم سابے ہنر کوئی نہیں
کھوکھلے نعرے بدل سکتے نہیں تقدیر کو
رہنمائے با عمل اپنا سحرؔ کوئی نہیں

////

جذ بوں کو کبھی نذر سیاست نہیں کرتے
ہم لوگ دکھاوے کی محبّت نہیں کرتے
رکھتے ہیں یقین اپنا سدا عزم و عمل پر
ہم کاغذی کردار کی زحمت نہیں کرتے
افسوس جواں ہوکے مرے دور کے بچے
ماں باپ کے خوابوں کی حفاظت نہیں کرتے
دنیا میں منافق کی طرح چہرہ بدل کر
ہم کھوکھلے وعدوں کی سیاست نہیں کرتے
ہیں مصلحت اندیش جو سنسد میں پہنونچ کر
گھر اپنا بھراکرتے ہیں خدمت نہیں کرتے
اس درجہ ہیں مجبور ترے شہر میں کچھ لوگ
سہہ لیتے ہیں ہر ظلم شکایت نہیں کرتے
ایواں میں ترے جھوٹ کا ہے دبدبہ ایسا
سچ بولنے کی لوگ جسارت نہیں کرتے
جباّر سحرؔ کہدو یہ ارباب ہوس کو
حق والے ضمیروں کی تجارت نیہں کرتے

////

کاش اک ایسا انقلاب آئے
ان کی آنکھوں میں میرا خواب آئے
کبھی بدلے ہیں ہم نہ بدلیں گے
آئے سو بار انقلاب آئے
اس طرح دل پہ آئے زخم وفا
جس طرح شاخ پر گلاب آئے
جو اندھیرا ہے سو اندھرا ہے
لاکھ دن نکلے آفتاب آئے
حسن بے پردہ کی نمائش پر
دیکھنے والوں کو حجاب آئے
دل شکستہ چلے ہیں محفل سے
اب شراب آئے یا شباب آئے
ان کے کوچے میں ہم جو پہنچے سحرؔ
شور اٹھا خانماں خراب آئے


////

گھر مرے دل میں کرگئے شاید
دردبن کر اترگئے شاید
فصلیں لالچ کی کاٹنے والے
بانجھ دھرتی کو کرگئے شاید
وہ غریبوں کا خون پی پی کر
موت سے پہلے مرگئے شاید
دل میں جذبہ نہیں مرّوت کا
جیتے جی لوگ مرگئے شاید
وقت نے کر دیا ہے سنجیدہ
تجربوں سے سنور گئے شاید
ٹیس چبھتی نہیں ذراسی بھی
"زخم سب دل کے بھر گئے شاید‘‘
کوئی غمخواربن کے آتا نہیں
اہل دل اے سحرؔ گئے شاید
 

الف عین

لائبریرین
خضرناگپوری

بازار محبّت کی تو اپنی ہی ہوا ہے
بکتی ہی نہیں جو کبھی و جنسِ وفا ہے
دشمن کو بھی ڈالے نہ خدا شک کے مر ض میں
اس کے لٹے دنیا میں دوا ہے نہ دعا ہے
سنتا ہی نہیں وہ بُتِ بے مہر کسی کی
معلوم نہیں کونسی مٹی کا بنا ہے
پیری میں جوانی کے خیالات ارے توبہ
راحت کا زمانہ بھی بڑا دردبھرا ہے
کونین کی تعمیر میں مصروف ہے دن رات
وہ شخص جو جینے کی سزا کاٹ رہا ہے
دل توڑ کے جاتے ہو تو کچھ غم نہیں جاؤ
پھولو پھلو سرسبز رہو میری دعا ہے
اوقات میں رہنا ہی یہاں خضرؔہے بہتر
یہ وقت دغاباز ترا ہے نہ مرا ہے

////

بہ عنوانِ خلوصِ دل کہیں ایسا نہ کر لینا
تماشابن کے اپنے آپ کو رسوانہ کر لینا
تقاضا ابرباراں کا ہے پی لے جھوم کر واعظ
پھر اس کے بعد سو توبہ سر میخانہ کر لینا
بہت نازک زمانہ ہے ضمیر اپنا سلامت رکھ
کہیں نا سمجھی میں ایمان کا سودانہ کر لینا
ضرورت مطلبی دنیا سے ہے ہشیار رہنے کی
کوئی مطلب سے آتا ہو تو دل دریانہ کر لینا
زمانہ سیدھا چلنے والوں ہی سے الٹا چلتا ہے
تو سیدھاچل کے اپنے کام کو الٹانہ کر لینا
وہی دنیا تماشا دیکھو اب ہے میری دیوانی
کہ جو آساں سمجھتی تھی مجھے دیوانہ کر لینا
یہ دنیا ہے یہاں ولیوں یہ بھی اٹھ جاتی ہے انگلی
کرے طعنہ زنی کوئی تو دل چھوٹانہ کر لینا
یہاں تو یاروں کی یاری میں بھی ہے خضرؔ عیاری
سبق تو اچھاّ ہے دشمن سے بھی یارانہ کر لینا


/////

آپ حد سے گزرگئے شاید
پستیوں میں اترگئے شاید
غم،خوشی بے اثر ہیں دونوں ہی
اپنے جذبات مر گئے شاید
ہے پریشاں خیال د لجمعی
ٹوٹ کر ہم بکھر گئے شاید
ساتھ چلنے لگے زمانے کے
ہم زمانے سے ڈر گئے شاید
دیکھ کر حالتِ مریضِ غم
وہ بھی دل تھام کر گئے شاید
کیا کہوں میں نواز شِ احباب
یہ بھی کچھ آپ پر گئے شاید
آپ کو کیا کہوں مرے دل کا
خون ارمان کر گئے شاید
بزم رنداں ہے خضرؔ گم صم سی
واعظ معتبر گئے شاید


////

کیا کرے گا دوسروں کو جان کر
پہلے اپنے آپ کی پہچان کر
یہ زمانہ لا ابالی کا نہیں
پھونک کر پی چھاچھ پانی چھان کر
کیوں الجھتے جارہے ہو بار بار
دل میں آخر آئے ہو کیا ٹھان کر
روکھا روکھا جارہا ہے یار کیوں
مدّتوں بعد آیا ہے جل پان کر
بھول کر وعدہ شب مہتاب کا
تم تو سو جاتے ہو لمبی تان کر
دشمنوں نے میرا چمکا یانصیب
چل رہا ہوں خضرؔ میں یہ مان کر
 

الف عین

لائبریرین
نذیر ضامنؔ ناگپوری

دوستوں کی بھیڑ ہے دشمن مگر کوئی نہیں
ہو بھرسہ مند ایسا خاص کر کوئی نہیں
آپ ہر گز یہ نہ سمجھیں جلوہ گر کوئی نہیں
دیدنی ہے سارا منظر دیدہ ور کوئی نہیں
رہنمائی پر ہوں جسکی رہنما کُل متفّق
آج ملّت کا اب ایسا راہ برکوئی نہیں
زندگی میں اُس کے مرنے کی دُعا مانگیں ہیں لوگ
اور مر جائے تو اُس کا نوحہ گر کوئی نہیں
ڈالیاں بارِ وفا سے جنکی سجدہ ریز تھیں
آج اُن شاخوں پہ چاہت کا ثمر کوئی نہیں
اک نگاہِ لُطف کے صدقے ھے دم اٹکا ہوا
مرض وہ لاحق ہے جسکا چارہ گر کوئی نہیں
اُن کی نسبت سے اے ضامنؔ کچھ تو خبریں ہیں اہم
کچھ میں سچّائی ہے لیکن معتبر کوئی نہیں

/////

جو اُنسیت ہمیں آسائش و طرب سے ہے
خدا کے دین سے دُوری اِسی سبب سے ہے
مرے لبوں پہ ترا پاک نام جب سے ہے
مرا حریف یہ عالم تمام تب سے ہے
بڑھی ہوئی ہے کجی ظلمت و ذلالت کی
جہاں میں آج بھی کچھ روشنی ادب سے ہے
زمین آج بھی ہابیل کا لہو مانگے !!
یہ خلفشار اُس اوّل لہو لہب سے ہے
میں شوقِ دیدلئے آج بھی بھٹکتا ہوں
میں کیا بتاؤں کہ دل بیقرار کب سے ہے
ہے جس کے نقشِ کفِ پا کی آرزو سب کو
مرے وجود کا رشتہ اُسی نسب سے ہے
وہی ہے مردِ مجاہد حقیقتاً ضامنؔ
ترے حضور جو لرزاں ترے غضب سے ہے
 

الف عین

لائبریرین
خلیل صادقؔ

تجھ کو دیکھے کہ ادا ئیں تری چنچل دیکھے
’’وہ تری آنکھ کا کس آنکھ سے کاجل دیکھے ‘‘
مضطرب دل کی ہو کس طرح عیاں بیتابی
کون سینے میں دھڑکتی ہوئی ہلچل دیکھے
اف یہ مستانہ روی یہ ترے جلووں کا ہجوم
چشمِ گستاخ سے کیا کیا ترا پاگل دیکھے
ان کی پر کیف نگاہوں سے ذراسی پی لی
ہم نے جب چھائے ہوئے پیار کے بادل دیکھے
ہائے یہ حسن نظر ہے کہ ٹھہرتی ہی نہیں
جسمِ گلنار پہ دیکھے کوئی ململ دیکھے
ہوش کھو بیٹھے وہ رکھ پائے نہ دل پر قابو
جو ترے رخ سے سرکتا ہوا آنچل دیکھے
غم کے طوفان سے صادقؔ کو گزر جانے دے
زندگی کون تیری روز کی کل کل دیکھے


////



قبائے زیست جو تارِ محبت سے رفو ہوتی
ہماری چاک دامانی نہ رسوا کو بکو ہوتی
اگر وہ دیکھتے اک بار بھی مئے پاش نظروں سے
نہ پھر بادہ کشوں کو خواہشِ جام و سبو ہوتی
اشاروں سے بھلا کیا مدعائے دل بیاں ہو گا
اکیلے میں جو تم ملتے تو کوئی گفتگو ہوتی
تمھاری آمدِ پر لطف کا اعجاز ہے ورنہ
بڑی بے کیف بزمِ آرزوئے رنگ و بو ہوتی
امید و حسرت و ارمان پہ قائم ہے یہ دنیا
نہ ہوتی آرزو تو آرزو کی آرزو ہوتی
سفر اس دارِ فانی کا بہت دشوار ہو جاتا
تمھیں پانے کی اس دل میں اگر نہ جستجو ہوتی
تھے جتنے پیچ و خم گیسوئے ہستی کے سنور جاتے
کرم فرما جو صادقؔ پر نگاہِ یار تو ہوتی

/////

جرم سب ان کے سر گئے شاید
دن ہمارے سنور گئے شاید
سہمی سہمی ہوئی نظر توبہ
اپنے سائے سے ڈر گئے شاید
حسن کا جن کے خوب چرچا تھا
وہ حسینوں پہ مر گئے شاید
آج محفل میں کیوں اندھیرا ہے
ان کے گیسو بکھر گئے شاید
پڑھ لیا کرتے تھے جو چہروں کو
اب وہ اہل نظر گئے شاید
اُڑ رہے تھے جو کل بلندی پر
آسماں سے اتر گئے شاید
راستے ہی میں تھک کے بیٹھ گئے
اب وہ عزمِ سفر گئے شاید
ناز تھا جن پہ اہلِ دنیا کو
لوگ ایسے گزر گئے شاید
اپنی شہرت کے واسطے صادقؔ
مجھ کو بدنام کر گئے شاید

////

اس طرح عالمِ شباب آئے
لیکے سوغات ماہتاب آئے
سارے عالم میں بے نظیر ہیں وہ
حسن کا ان کے کیا جواب آئے
عمر بھر پا سکے نہ وہ فرصت
عاشقی کے جنھیں نصاب آئے
دیکھنے کو ترس گئی آنکھیں
وہ نہ آئے نہ ان کے خواب آئے
ایک انسان ان گنت حالات
’’جان کے ساتھ سو عذاب آئے ‘‘
کانٹے بونا ہی جنکی عادت ہو
ان کے حصّے میں کیا گلاب آئے
اپنے پیش آئے اجنبی کی طرح
جب کبھی ہم پہ دن خراب آئے
یہ بھی تہذیب ہے کوئی تہذیب
دیکھنے سے جسے حجاب آئے
ہم بڑے خوش نصیب ہیں صادقؔ
بزمِ الفت سے کامیاب آئے

////

چلمنِ شرم و حیا رخ سے اٹھا دی جائے
اب نہ جذبات کے شعلوں کو ہوا دی جائے
پیار کرنا ہے اگر جرم تو دنیا والو
میں بھی مجرم ہوں جو جی چاہے سزادی جائے
رکھ کے مرہم کوئی مظلوم کے زخموں پہ نیا
داستاں ظلم و تشدد کی دبادی جائے
دوستوں کے لئے کرتے ہیں دعا سب لیکن
بات تو جب ہے کہ دشمن کو دعا دی جائے
ہر طرف دوستو نفرت کے اندھیروں کا ہے راج
لو محبت کے چراغوں کی بڑھا دی جائے
اپنی عادت سے نہ بعض آئیں گے ہر گز یہ کبھی
بے وفاؤں کو نہ ترغیب وفا دی جائے
اک نئے دور کا کرنا ہے ہمیں اب آغاز
عہدِ ماضی کی ہر اک بات بھلا دی جائے
اجنبی شہر بھی ہے رات کا سنّاٹا بھی
کس کے دروازے پہ اب جاکے صدا دی جائے
ان کی ہر بات زمانے سے جدا ہے صادقؔ
ان کی تمثیل کسی اور سے کیا دی جائے

////

سونہ یوں غفلت کی چادر تان کر
جاگ اپنے آپ پر احسان کر
کامیابی کی تمنا ہے اگر
دل میں پیدا جذ بۂ ایمان کر
ابنِ آدم چھوڑ کر شیطانیت
اب تو اپنے آپ کو انسان کر
خواہشاتِ نفس کو جو دے ہوا
ایسی چیزوں کا نہ تو ارمان کر
کیا بتائے گا وہ منزل کا پتہ
رک گیا جو خود کو منزل جان کر
یہ گزر جائے تو پھر آتا نہیں
وقت کی تو قدر اے نادان کر
ہو گئے بیماریوں میں مبتلا
جو بہت پیتے تھے پانی چھان کر
پھر نئے انداز سے دھوکہ دیا
ہم بہت پچھتا ئے دل کی مان کر
ساتھ برسوں جو مرے صادقؔ رہے
بن گئے کیوں اجنبی پہچان کر
 

الف عین

لائبریرین
ڈاکٹر زینت اﷲ جاوید


یاروں نے محبت کا کچھ قرض اتارا ہے
کانٹے بھی نکالے ہیں خنجر سے بھی مارا ہے
امواجِ تلاطم کو الزام نہیں دینا
سازش یہ ہوا کی ہے دریا کا اشارہ ہے
انسان کی خدمت سے خالق کی عبادت کی
دنیا بھی سنواری ہے عقبٰی بھی سنوارا ہے
ہم عمر دو روزہ بھی مِل جُل کے گزاریں گے
میں دل کا سہارا ہوں ، دل میرا سہارا ہے
ہم کشتئی جاں لے کر صحرا میں بھٹکتے ہیں
بیکار کی باتیں ہیں دریا نہ کنارا ہے
تتلی بھی نہیں دیکھی جگنو بھی نہیں دیکھے
بیٹے نے مرے بچپن رو رو کے گزارا ہے
سایا بھی نہیں اپنا ہم خود بھی نہیں اپنے
کس وقت کے مارے نے بے وقت پکارا ہے

////

یہ کسی ایک کی ہوتی نہیں ہرجائی ہے
بوئے گل سے مری برسوں کی شناسائی ہے
چڑھ کے دیوار پہ یہ قد نہیں بڑھنے والا
آپ شہرت جسے کہتے ہیں وہ رسوائی ہے
سیر دنیا کی کرادیتا ہے سبکو لیکن
دل کی قسمت میں وہی گوشۂ تنہائی ہے
کیوں چراغوں کو ہواؤں میں کھلا رکھا تھا
آپ نے اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے
آج بھی دل کو ترے شہر سے چاہت ہے وہی
آج بھی لؤ میں وہی لذتِ پروائی ہے
ہم تو بنیاد کے پتھر ہی رہیں گے صاحب
اپنے حصہ میں نمائش ہے نہ رعنائی ہے
آئینہ یوں تو سمندر نہیں لیکن جاویدؔ
اس کے ٹھرے ہوئے پانی میں بھی گہرائی ہے

/////

یاروں نے محبت کا کچھ قرض اتارا ہے
کانٹے بھی نکالے ہیں خنجر سے بھی مارا ہے
امواجِ تلاطم کو الزام نہیں دینا
سازش یہ ہوا کی ہے دریا کا اشارہ ہے
انسان کی خدمت سے خالق کی عبادت کی
دنیا بھی سنواری ہے عقبٰی بھی سنوارا ہے
ہم عمر دو روزہ بھی مِل جُل کے گزاریں گے
میں دل کا سہارا ہوں ، دل میرا سہارا ہے
ہم کشتئی جاں لے کر صحرا میں بھٹکتے ہیں
بیکار کی باتیں ہیں دریا نہ کنارا ہے
تتلی بھی نہیں دیکھی جگنو بھی نہیں دیکھے
بیٹے نے مرے بچپن رو رو کے گزارا ہے
سایا بھی نہیں اپنا ہم خود بھی نہیں اپنے
کس وقت کے مارے نے بے وقت پکارا ہے

////

یہ کسی ایک کی ہوتی نہیں ہرجائی ہے
بوئے گل سے مری برسوں کی شناسائی ہے
چڑھ کے دیوار پہ یہ قد نہیں بڑھنے والا
آپ شہرت جسے کہتے ہیں وہ رسوائی ہے
سیر دنیا کی کرادیتا ہے سبکو لیکن
دل کی قسمت میں وہی گوشۂ تنہائی ہے
کیوں چراغوں کو ہواؤں میں کھلا رکھا تھا
آپ نے اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے
آج بھی دل کو ترے شہر سے چاہت ہے وہی
آج بھی لؤ میں وہی لذتِ پروائی ہے
ہم تو بنیاد کے پتھر ہی رہیں گے صاحب
اپنے حصہ میں نمائش ہے نہ رعنائی ہے
آئینہ یوں تو سمندر نہیں لیکن جاویدؔ
اس کے ٹھرے ہوئے پانی میں بھی گہرائی ہے
 

الف عین

لائبریرین
رجب عمرؔ


سامنے حُسن بے حجاب آئے
میری آنکھوں میں کیسے خوب آئے
بند کر دی گئی کتابِ عشق
جب بھی مہرو وفا کے باب آئے
جان لیوا ہے یہ سکوت کہ اب
دل کی موجوں میں اضطراب آئے
اپنا دامن ہنوز خالی ہے
یوں تو کہنے کو انقلاب آئے
پھر پڑھیں ہم سبق صداقت کا
درس گاہوں میں وہ نصاب آئے
تجھ سے ناراض ہے عمرؔ ساقی
تیرے حصّے میں کیوں شراب آئے
 

الف عین

لائبریرین
ڈاکٹر رفیق سحرؔ


جو بے خودی میں کوئی محوِ جستجو ہو گا
رُخ حبیب نگاہوں کے روبرو ہو گا
سکوتِ شام کے شیشے پہ آئیگی جو خراش
ترے خیال کا چہرہ لہو لہو ہو گا
صدائیں دیتی ہیں خاموشیاں یہ مقتل کی
جیالے سو گئے ، کیا شورِ ہاؤ ہُو ہو گا
بھرے گا رنگ جو بے کیف زندگی میں وہی
کتابِ زیست کے عنواں کی آبرو ہو گا
خبر نہ تھی ہمیں رُسوا بھی اسطرح ہونگے
ہمارے عشق کا چرچا بھی کوُ بہ کوُ ہو گا
چلو کہ آج مٹا دے نہ کیوں سحرؔ خود کو
ہمیں نہ ہوں گے تو کیا خونِ آرزو ہو گا

/////

سمجھا لوگوں نے جنھیں امن کے خوگر آئے
اپنے ہاتھوں میں لئے آج وہ پتھّر آئے
رقص کرنے لگا ذہنوں میں تباہی کا سماں
جب بھی بستی میں اجالوں کے پیمبر آئے
کانپ اٹھتی ہے جسے دیکھ کے وحشت بھی یہاں
اب نہ خوابوں میں وہی قتل کے منظر آئے
اپنے لہجے کی حرارت سے جوپتھر کے جگر
موم کر دے کوئی ایسا تو سخنور آئے
جن کے ہونٹوں پہ دعائیں تو ہیں تاثیر نہیں
اُن کے کوُزے میں بھلا خاک سمندر آئے
چوم سکتی ہے قدم فتح و ظفر اب بھی مگر
کاش اسلاف کے ہم میں بھی وہ جوہر آئے
آج جو زخم ملے اپنوں سے حیرت کیوں ہے
زندگی میں یہ مواقع بھی تو اکثر آئے
ہم کو جو بات سنانی تھی سنادی اے سحرؔ
خوف کیا ہم پہ اگر طنز کے پتھّرآئے
 

الف عین

لائبریرین
رحمت اﷲ راشدؔ احمد آبادی

وہ میری تباہی کا سبب ڈھونڈ رہا ہے
جو شخص مری گود میں پروان چڑھا ہے
جگنو کی چمک ہے نہ ستاروں کی ضیا ہے
انسان مگر اپنا سفر کاٹ رہا ہے
ہر شخص گناہوں میں یہاں ڈوبا ہوا ہے
ڈرا پنے بڑوں کا نہ کوئی خوفِ خدا ہے
کب ہم پہ اثر گردشِ عالم کا پڑا ہے
’’کہدو یہ ہوا کچھ نہیں ، دو دن کی ہوا ہے ‘‘
وہ آدمی رہتا ہے بشاشت سے ہر اک پل
ماں باپ کی جس آدمی کے ساتھ دعا ہے
پھولوں کی طرف ہاتھ بڑھانا تو سمبھل کر
کانٹوں سے ہر اک پھول گلساں کا گھرا ہے
سر اپنا کٹانے کو ہے تیار ہر اک پل
ہر شخص ترے شہر کا پابند وفا ہے
ہے آگ اگر عشق تو شعلے بھی اٹھیں گے
مجھ کو مرے محبوب کی آنکھوں نے کہا ہے
تو خود کو سمجھ لے تو بڑی بات ہے راشدؔ
ورنہ یہاں ہر رنگ میں انسان رنگا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ظہیر عالم​

آ گیا تو خاطر مہمان کر
جوبھی ہے وہ زیب دستر خوان کر
خود غرض دنیا کو اپنا مان کر
آخرت کا اپنی مت نقصان کر
عمر بھر گنتا رہا لوگوں کے عیب
کیا ملا چھلنی سے پانی چھان کر
عاجزی کو بے بسی کہتے ہیں لوگ
چلئے اب چلتے ہیں سینہ تان کر
تو دھنی ہے تو یہ سکے مت بتا
اپنی خوشیوں میں سے خوشیاں دان کر
اپنے دل کو تو خدا کا گھر بنا
مردہ جذبوں کا نہ قبرستان کر
وقت کا سور ج تو کب کا ڈھل چکا
سو رہے ہیں لوگ لمبی تان کر
تو ہی میرا ہے تو پھر کیا پوچھنا
مطمئن ہوں تجھکو اپنا مان کر


////

حادثے پر کتر گئے شاید
حوصلے دل کے مر گئے شاید
خود میں ڈوبے تویوں ہوا محسوس
ہم کنوئیں میں اتر گئے شاید
سخت لہجے میں گفتگو ہم سے
دن تمہارے بھی بھرگئے شاید
ناز کرتی تھیں جن پہ تلواریں
شاخ گل سے وہ ڈر گئے شاید
آندھیوں کی مراد بھر آئی
آشیانے بکھر گئے شاید
جب محبّت کی قدر ہوتی تھی
وہ زمانے گزر گئے شاید
آئے تھے پھول بانٹنے والے
آگ ہاتھوں پہ دھر گئے شاید
جو اندھیروں میں چھپ کے بیٹھے ہیں
وہ اجالوں سے ڈرگئے شاید


////

یہ اپنے اصولوں سے بغاوت نہیں کرتے
بنجارے کسی سے کبھی نفرت نہیں کرتے
اپنوں سے بھی اظہار ضرورت نہیں کرتے
یہ کام کبھی صاحب غیرت نہیں کرتے
یہ اہل ہوس کرتے ہیں بیوہ پہ نوازش
مقتول کے بچّوں سے مبّحت نہیں کرتے
دید تیے اگر جھوٹی تسلّی بھی ہمیں وہ
ان آنکھوں سے آنسو کبھی ہجرت نہیں کرتے
بچوّں نے بھی ماں باپ کا دکھ بانٹ لیا ہے
بھوکے بھی اگر ہوں تو شکایت نہیں کرتے
اس دور کے انسانوں کی حس مرگئی شاید
اب لوگ کسی بات پہ حیرت نہیں کرتے
یہ اہل سیاست ہیں ہمیں اس سے غرض کیا
یہ وہ ہیں دلوں پر جو حکومت نہیں کرتے
ہم اپنا ضمیر اپنی انا بیچ چکے ہیں
سچ یہ ہے کہ سچ کہنے کی جرأت نہیں کرتے
عالم کوئی ان سے بھی محبّت نہیں کرتا
جو لوگ پڑوسی سے محبّت نہیں کرتے





////




احسان گنا ہوں کا میرے پیچھے پڑا ہے
دن رات جو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے
انسان کبھی جرم پہ آمادہ نہ ہو گا
گر اتنا سمجھ لے کہ کوئی دیکھ رہا ہے
کچھ لوگ اسی بات پہ ناراض ہیں مجھ سے
شہرت کی بلندی پہ میرا نام لکھا ہے
جوگی ہیں ہمیں آتا ہے جینے کا سلیقہ
پرجہ سے شکایت ہے نہ راجہ سے گِلا ہے
کہنے کو زمیں پاؤں کے نیچے تو ہے لیکن
سچ پوچھو تو ہر آدمی پانی پہ کھڑا ہے
 

الف عین

لائبریرین
نظیرؔ نخشب ناگپوری

ہر جگہ ظاہر نہ تو مکان کر
غم زدہ چہروں لا بجہ ادجہام لر
شوق سے قربان اپنی جان کر
خیرو شر پہلے مگر پہچان کر
عیش و عشرت میں گزار اپنی مگر
کچھ پڑوسی کا بھی اپنے دھیان کر
گھر سے نکلا ہوں تلاشِ رزق میں
یا خدا منزل مری آسان کر
کچھ سبب تھا، ترک رشتہ کر دیا
مطمئن ہوں بات دل کی مان کر
شاعری مین بے لگامی کفر ہے
دیکھ بحروں کو ذرا اوزان کر
بے خبر آرائشِ ہستی کا ساتھ
آخرت کا بھی وئی ساما ن کر
کر دیا گمراہ نخشب زعم نے
’’رک گیا تھا خود کو منزل جان کر‘‘
 

الف عین

لائبریرین
امر اﷲ عنبرؔ خلیقی

چارہ گر کام کر گئے شاید
’’زخم سب دل کے بھر گئے شاید‘‘
گردنوں میں تناؤ کیوں کم ہے
بام سے وہ اترگئے شاید
شب کی تاریکیوں میں کوئی نہیں
لوگ سوئے سحر گئے شاید
فکر کی ہے، دین کی پرواز
قوم کے بال و پر گئے شاید
کیوں ہے حالات سے یہ بے خوفی
تقویٰ سے خوف مر گئے شاید
جس خبر سے ملے نجات کی راہ
اس سے ہی بے خبر گئے شاید
جن سے عنبرؔ عروج فکری تھا
آج وہ ہی ہنر گئے شاید
 

الف عین

لائبریرین
شمیم اقبال

یورشِ غم سے ڈر گئے شاید
جو تھے کم ظرف مرگئے شاید
وہ نظر پھیر کر گئے شاید
دے کے دردِ جگر گئے شاید
الجھنیں ختم ہو گئیں اپنی
ان کے گیسو سنور گئے شاید
دل کے رشتے کی ڈور الجھی ہے
وہ گرہ ڈال کر گئے شاید
منزلیں کھو گئیں دھند لکوں میں
اشک آنکھوں میں بھر گئے شاید
سر بلندی عطا ہوئی جن کو
ان کے نیزوں پہ سر گئے شاید
جن سے زیروزبر ہوء صدیاں
قافلے وہ گزر گئے شاید
کچھ مداوانہ ہو سکا غم کا
نالے سب بے اثر گئے شاید
اب نہ ٹیسیں نہ درد کا احسا س
’’زخم سب دل کے بھر گئے شاید‘‘

آؤ اقبالؔ اب چلیں ہم بھی
سارے احباب گھر گئے شاید
 

الف عین

لائبریرین
اسرارالحق فیّاضیؔ

طوفان ہے ، آندھی ہے ، تلاطُم ہے ، بلا ہے
وہ کرب جو احساس کے پردے میں چھپا ہے
بُجھنا تو مقدر ہے چراغوں کا ازل سے
جلنے کاشرف صرف جہنّم کو ملا ہے
دونوں کی پسند ہے مرے افکار پہ روشن
دولت میں ہے شیطان، قناعت میں خدا ہے
اِس دَورِ ترقی میں اُجالوں کی کمی ہے
انسان اندھیروں کی طرف لوٹ رہا ہے
بے وجہ نہیں آیا ہے ظالم کوپسینہ
حسرت سے کوئی سو ئے فلک دیکھ رہا ہے
کھاتا ہوں ، کھلاتا ہوں پرندوں کو بھی دانہ
سرپر مرے معصوم پرندوں کی دعا ہے
اچھّائی کو فرسودگی اب کہتی ہے دنیا
یہ مغربی تہذیب کے چشمے کی عطا ہے


////

اب وہ اثر نہیں ہے کسی کی پُکار میں
ایماں کا آفتاب ہے گویا اُتار میں
شدّت پسند ہو گئے بیزار آدمی
ہیں مُبتلا ہزاروں ہوس کے بخار میں
رفتارِ اسپ عمر رواں سست پڑ گئی
گرمی کہاں سے لاؤ گے اُترے خُمار میں
یہ انقلابِ دَورِ مُہذّب تو دیکھئے
نوکر بتائے باپ کو بیٹا ہزار میں
محفوظ رہ نہ پائے گا شہر اماں بھی اب
بھونچال گھر بنا چُکا دل کے دیار میں
دنیا کی ہر برائی چلی آئی اپنے گھر
کس پر اٹھائیں انگلی، کہاں بیٹھیں چار میں

////

ہے یہ دشمن جان کی، یہ جان کر
روز مئے پیتا ہے میکش چھان کر
زخم پر رکھ دے مرے تازہ گلاب
ہے مسیحِ عشق کا فرمان، کر
شاتھ میں لے کر بہاریں آئے گا
گھر سے نکلا ہے جو دل میں ٹھان کر
حوصلون کو قوّتِ پرواز دے
دور ہے منزل، سفر آسان کر
ناقدوں کے حق میں کر دل سے دعا
تجربہ اُستاد ہے یہ مان کر
آنکھ سے بارش سوالوں کی نہ کر
آہٹوں کی سمت اپنا کان کر
ناریل کے پیڑ سے کیا ہو بھلا!
سائے کی حسرت نہ اے نادان کر

//////

عزم و ہمّت سے اُٹھا، جذ بۂ کامل سے اُٹھا
بوجھ ہستی کا گراں بار تھا مشکل سے اٹھا
اُس کے کھانے سے ہوا ہو گئی برکت ساری
جب بھی مفلس کسی زردار کی محفل سے اٹھا
ایک بچّہ بھی ڈرا سکتا ہے تجھ کو ناداں
خوف اﷲ کا جس روز ترے دل سے اٹھا
جانے کیا جان کے سچّائی بیاں کر ڈالی
جل گئی نوکِ زباں ، شعلہ مرے دل سے اٹھا
شعر کہتا نہیں واہ وائی کا مقصد رکھ کر
بات اچھی لگے کوئی تو اٹھا دل سے اٹھا
کیا ضروری ہے کہ یہ کام کریں موسیٰ ہی
تو بھی شیطان کو انساں کے مقابل سے اٹھا
جھوٹ کے پیڑ اکھڑ جاتے ہیں اک جھٹکے میں
بار سچاّئی کا اے حقؔ کسی باطل سے اٹھا ؟
 

الف عین

لائبریرین
صمد قیصرؔ


ہم ایسے نقیبوں کی حمایت نہیں کرتے
حق بات جو کہنے کی جسارت نہیں کرتے
تنہائی شب میں بھی جو ہیں محوِ ریاضت
وہ لو گ دکھاوے کی عبادت نہیں کرتے
محفوظ کیا رہ پائے گا محلوں کا تقدّس
جو اپنے اساسوں کی حفاظت نہیں کرتے
راضی بہ رضا رہنا ہی شیوہ ہے ہمارا
’’ہم اپنے مقدّر کی شکایت نہیں کرتے ‘‘
جو ڈرتے ہیں دنیا کے مصائب سے الم سے
قیصرؔ وہی نادان محبت نہیں کرتے


////

جانِ جاناں نہ رہا، جان پہ بن آئی ہے
زندگی پیار کی ہم کو نہ ذرا بھائی ہے
خوفِ دوزخ سے نہ جنّت کی طلب میں سجدہ
میری بے لوث عبادت تری شیدائی ہے
ٹوٹ کر رہ گئی ہر شاخِ شجر آندھی میں
اب چمن میں یہ صبا کس کے لیے آئی ہے ؟
منتشر ہونے پہ اعداء کا تسلّط ہو گا
کیوں نہ یہ بات مری قوم سمجھ پائی ہے
اُف یہ مجبور محبت کاپشیماں ہونا!
’’اب تیرا دوُر سے دیدار بھی رسوائی ہے ‘‘
قا بلِ ناز ہے یہ میرا مقدّر قیصرؔ
دولتِ غم مرے ورثہ میں چلی آئی ہے



////

گردش میں غریبوں کا ہر وقت ستار ا ہے
کہنے کو ہیں سب اپنے ، پر کون ہمارا ہے ؟
تزئینِ بہاراں میں یہ خون ہمارا ہے
برباد گلستاں کو ہم نے ہی سنوارا ہے
یوں امن کی بستی میں طوفاں نہ بپا ہوتا
’’کچھ اپنوں کی سازش ہے کچھ اُن کا اشارا ہے ‘‘
ہر ایک قدم میرا بڑھتا ہوا رُک جائے
دورانِ سفر مجھ کو پھر کس نے پکارا ہے
آکاش میں اُڑنے کی حسرت ہی رہی قیصرؔ
آزاد پرندہ کا، پنجرہ میں گزارا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ریاض الدین کاملؔ

جب سے وہ میرے خواب کی تعبیر بن گئے
میرے لئے اندھیرے بھی تنویر بن گئے
تھا ناز اپنے حسن پہ ہم کو بہت مگر
دیکھا انھیں تو حیرتِ تصویر بن گئے
ان کے نگاہِ شوخ کے انداز پر نثار
برچھی کبھی بنے تو کبھی تیر بن گئے
پوچھا جو حالِ یار تو آنکھیں چھلک پڑیں
قطرے گرے جو اشک کے تحریر بن گئے
یاروں بہت قریب تھی منزل مری مگر
چھالے ہی میرے پاؤں کی زنجیر بن گئے
پھولوں میں تھی گذرتی کبھی اپنی زندگی
کانٹے ہی اب تو دامنِ تقدیر بن گئے
کاملؔ جو لوگ ہم پہ اٹھاتے تھے انگلیاں
وہ بھی اسیرِ زلف گرہ گیر بن گئے

/////

جنونِ عشق میں دیکھو کہیں ایسا نہ کر لینا
تم اپنے دامنِ احساس کو میلا نہ کر لینا
زلیخا آپ ہیں یہ سچ ہے لیکن میں نہیں یوسف
غلط فہمی میں اپنے آپ کو رسوا نہ کر لینا
نمک پاش اپنی فطرت سے نہ ہر گز باز آئیں گے
تم اپنے زخمِ دل کو چھیڑ کر گہرا نہ کر لینا
زمانے کی نگاہوں سے گرے تو اٹھ نہ پاؤگے
بلندی پر پہونچ کے اپنا قد اونچا نہ کر لینا
غلامی نفس کی بربادیوں کا پیش خیمہ ہے
کہیں ویران اپنے زیست کی دنیا نہ کر لینا
اٹھا کر انگلی دانستہ کسی مجبور کی جانب
غرور و کبر میں نقصان تم اپنا نہ کر لینا
خدا کے واسطے تم چند سکوں کے لئے کاملؔ
کسی مکّار سے معیار کا سودا نہ کر لینا

/////

زیست کے پورے سبھی ارکان کر
ہاں مگر مرضی خدا کی جان کر
بڑھ رہا ہے خواہشوں کا دائرہ
اے خدا مشکل میری آسان کر
اجنبی کی طرح تیرے گاؤں سے
ہم ہوئے رخصت تجھے پہچان کر
جانتے ہیں خاک میں مل جائیں گے
چل رہے ہیں پھر بھی سینہ تان کر
پل میں تولہ پل میں ماشہ ہے مزاج
روٹھ جاتے ہیں وہ اکثر مان کر
خود کی خا طرتو ُجیا تو کیا جیا
دوسروں پر زندگی قربان کر
خیروبرکت کا اگر طالب ہے تو
احترام و خدمتِ مہمان کر
کہہ رہی ہے چار دن کی زندگی
زندگی کے بعد کا سامان کر
موم کی مانند کاملؔ ہو گیا
سنگ دل بھی درد میرا جان کر

/////

مانا کے مخالف یہ زمانے کی ہوا ہے
لیکن مرے ہمراہ میری ماں کی دعا ہے
میں بھول گیا اپنے ہر اک رنج و الم کو
جب سے ترے حالات کے بارے میں سنا ہے
نادم ہو گناہوں پہ تو اپنے ارے ناداں
ہے وقت ابھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے
ہاتھوں میں کبھی جس کے تھا میزانِ صداقت
افسوس وہی اب صفِ مجرم میں کھڑا ہے
کیا میرا بگاڑے گی یہ حالات کی آندھی
جب سر پہ مرے سایہ فگن فضلِ خدا ہے
رت رنگ بدلتی رہی آئے گئے موسم
میں پھول ہوں ایسا جو خزاں میں بھی کھلا ہے
ہوتا ہے گماں دیکھ کے مقبولیت اس کی
اردو کو ولیؔ، میرؔ کی غالبؔ کی دعا ہے
ہم کیسے بھلائیں چھ دسمبر کا سانحہ
ہر چشم ہے خونبار ہر اک زخم ہرا ہے
دشمن کے بھی دکھ درد کا احساس ہو جس کو
کاملؔ وہی انسان زمانے میں بڑا ہے

////

کاغذ پہ دل کے مشق کتابت نہیں کرتے
ہم عقل کے اندھوں کی امامت نہیں کرتے
قرآن سے ان لوگوں کو کچھ بھی نہیں ملتا
جو طاق پہ رکھتے ہیں تلاوت نہیں کرتے
دشمن کا بھلا چاہنا سنّت ہے مگر ہم
خود اپنے رفیقوں کی عیادت نہیں کرتے
ہر حال میں اﷲ سے راضی بہ رضا ہیں
’’ہم اپنے مقدر کی شکایت نہیں کرتے ‘‘
مقبول کبھی ان کی عبادت نہیں ہوتی
ماں باپ کی جو لوگ اطاعت نہیں کرتے
نظروں کو سدا رکھتے ہیں میزان کی صورت
مکّاروں کی ہم لوگ حمایت نہیں کرتے
رہ رہ کے بدلتا ہے مزاج آپکا توبہ
دیوانے محبت میں تجارت نہیں کرتے
دنیا میں کئی لوگ تو مظلوم کے حق میں
ہمدردی دکھاتے ہیں عنایت نہیں کرتے
تا عمر زمانے میں بھٹکتے ہیں وہ کاملؔ
جو اپنے اصولوں کی حفاظت نہیں کرتے

/////

بیٹھے ہیں اس طرح سے وہ آنسو نکال کر
رکھّا ہے جیسے گل کوئی خوشبو نکال کر
تصویر دیکھتی تھی وہ عہد شباب کی
صندوق میں رکھے ہوئے گھنگرو نکال کر
مل جائے گا تمہارے ہر اک مسئلے کا حل
سوچیں اگر نئے نئے پہلو نکال کر
بھٹکا ہوا تھا میں مجھے رستہ دکھا دیا
اﷲ نے اندھیرے میں جگنو نکال کر
اسکو زمانے والوں نے مجرم سمجھ لیا
عزّت بچارہی تھی جو چاقو نکال کر
جی نہ سکے گا چین سے پچھتا ئے گا بہت
اپنے حسین دل سے مجھے تو نکال کر
کہنے سے پہلے سوچ لیں بیٹھے ہیں کتنے لوگ
تنقید و تبصرے کے ترازو نکال کر
میں نے کہا کہ موتی کو دیکھا بھی ہے کبھی
آنکھوں سے اس نے رکھدیئے آنسو نکال کر
کاملؔ گماں سے آگے زمانہ نکل گیا
اڑتے ہیں لوگ خواب میں بازو نکال کر

/////

فطرت کا اس کی آج پتہ سب کو چل گیا
واعظ کا خود بیاں کے مخالف عمل گیا
پنہاں روش میں اپنی زمانے کی ہے روش
جب ہم نے خود کو بدلا زمانہ بدل گیا
نکلا تھا آفتاب جو میرے مکان سے
سنتا ہوں تیرے درپہ وہ پہنچا تو ڈھل گیا
دشمن تھا جس کی جان کا فرعونِ نامراد
گھر میں اسی کے دیکھو وہی بچہ پل گیا
ہم ظالموں کے بیچ کوئی نیک ہے ضرور
جس کی دعا سے قہرِ خدا آکے ٹل گیا
ناسور بن نہ جائے کہیں زخمِ زندگی
میں تو سمجھ رہا تھا کہ کانٹا نکل گیا
آمادہ دشمنی پہ جو رہتا تھا ہر گھڑی
بغض و حسد کی آگ میں وہ خود ہی جل گی
جو کام آج کرنا ہے کر لیجئے ابھی
پچھتاؤگے جو آج بھی کل میں بدل گیا
جھک جھک کے مشکلیں مجھے کرنے لگیں سلام
جس وقت گرتے گرتے میں کاملؔ سنبھل گیا

/////

میں سمجھتا تھا جسے غیر نہیں بھائی ہے
سر پہ تلوار اسی نے میرے لٹکائی ہے
جائیں تو جائیں کدھر جان پہ بن آئی ہے
دائیں جانب ہے کنواں بائیں طرف کھائی ہے
پیش کیوں کرتے ہو شیشے کے مشابہ خود کو
ہم نے یہ زندگی ہیرے کی طرح پائی ہے
مشورے میں مرے کیا خامی نظر آئی تمہیں
تم نے تجویز میری کس لئے ٹھکرائی ہے
جس طرح تو دبے پاؤں چلی آتی تھی کبھی
وہ ہی ترکیب تری یاد نے اپنائی ہے
آئینہ ٹوٹ کے بکھرے تو تعجّب کیسا
سحر انگیز صنم آپ کی انگڑائی ہے
مٹ نہیں سکتی مٹانے سے زبانِ اردو
میرؔ و غالبؔ سے نئی اس نے جلا پائی ہے
تیری آواز میں آواز ملاؤں کیسے
خود غرض تو ہے تو پیاری مجھے سچّائی ہے
کہکشاں اس کے قدم چوم رہی ہے کاملؔ
آج بھی فہم و فراست میں وہ اونچائی ہے
 

الف عین

لائبریرین
ظفر علی راہیؔ

کوئی آئے تو یہاں اور یہ ہلچل دیکھے
امن کا شہر بنا کس طرح مقتل دیکھے
جو ہو نابینا تو پھر اس کی بصارت کیسی
’’وہ تری آنکھ کا کس آنکھ سے کاجل دیکھے ‘‘
پرچمِ امن کا اس کو بھی گماں ہو جائے
تیرا لہراتا ہوا جو کوئی آنچل دیکھے
دید کی پیاس نہ بجھ پائے کسی بھی صورت
تیری تصویر جو دیکھے وہ مسلسل دیکھے
قحط کے دور میں قلت رہے جو پانی کی
ہر کوئی سر کو اٹھا ئے ہوئے بادل دیکھے
تشنگی اور بھی بڑھ جائے گی سوکھے لب کی
کوئی پیاسا جو کسی کاندھے پہ چھاگل دیکھے
جس کو خوش حالی کا کرنا ہو نظارہ راہیؔ
آکے جنگل میں رچایا ہوا منگل دیکھے

/////

وہ حشر کے میدان میں بے خوف کھڑا ہے
جوراہِ صداقت پہ ہر اک لمحہ چلا ہے
آسودگی کیوں مجھ کو نہ آجائے میسر
ماں باپ کی ہر لمحہ مرے ساتھ دعا ہے
بے گانہ ہے دنیا سے کہاں خود کا اسے ہوش
جو عشق میں اس شوخ کے دیوانہ ہوا ہے
بارود کی اس درجہ ہوئی عام تجارت
ہر شخص زمانے کا مصیبت میں پڑا ہے
انسانوں نے انسانوں پہ ڈھائے تھے مظالم
اور آج مساجد میں بھی بم پھٹنے لگا ہے
خود بن کے رہا کرتا تھا دنیا میں جو چھوٹا
وہ آج زمانے کی نگاہوں میں بڑا ہے
انسانوں کے حالات درندوں سے ہیں بدتر
انسان کا انسان لہو چاٹ رہا ہے
اﷲ مسلمانوں کی تو کرنا حفاظت
ہر ایک قدم پر یہاں طوفان بپا ہے
راہیؔ کا زمانے میں کہاں ہے کوئی رہبر
منزل کی طرف آج اکیلا ہی چلا ہے
 

الف عین

لائبریرین
غریب پرورؔ سمندر

حق بیاں ، حق آشنا اور حق نِگر کوئی نہیں
’’دوست سب ہیں اپنے لیکن معتبر کوئی نہیں ‘‘
یوں تو ہیں لاکھوں عمر، ویسا عمرؓ کوئی نہیں
جلوہ گاہیں ،ہیں سلامت جلوہ گر کوئی نہیں
مر گئے کچھ جل گئے ، کچھ چل دئے گجرات سے
پوچھ اس سے حال اس کا جس کے گھر کوئی نہیں
زر پرستی چھین لیتی ہے محبت اور خلوص
جانتے سب ہیں ، عمل پیرا مگر کوئی نہیں
سننے والے اٹھ چکے بس بولنے والے بچے
سب یہاں اہلِ ہنر ہیں ، بے ہنر کوئی نہیں
آئینہ رکھا ہے پرورؔ سامنے حالات کا
اہلِ علم و فن تو ہیں ، اہلِ نظر کوئی نہیں



////


قسمت سے زرومال جسے ہاتھ لگا ہے
کم ظرف سمجھتا ہے وہی سب کا خدا ہے
ناقدرئی انصاف کا جو زہر پیا ہے
آمادہ بغاوت پہ وہی آج ہوا ہے
وہ شخص جو قدرت کی نگاہوں کا ہے محور
ساحل کو سفینے کی طرف لے کے چلا ہے
کٹ کٹ کے سر صحنِ چمن پھول گرے ہیں
طوفانی ہواؤں کا گذر برق نما ہے
کرتا ہے مرے حق میں دعا کوئی تو پرورؔ
طوفاں نے مجھے گھیر کے بھی چھوڑ دیا ہے
 
Top