زندگی کا سفر 100 روپے کے نوٹ پرختم !!!

تلمیذ

لائبریرین
باعث حیرت ہے یہ بات کہ آپ بھی یہ سوچتے ہیں کہ ایسا بےوجہ ہوتا ہے۔ مکافات عمل کا سبق کیوں بھول جاتے ہیں ہم۔۔۔ یہ دنیا اک کھیتی ہے۔ جو بویا جائے سو کاٹا جائے کی مثال ہے۔
میں سو فیصدی آپ سے متفق ہوں نین جی، کہ مکافات عمل ایک حقیقت ہے۔ اور اس کے بے شمار مظاہر مشاہدے میں آئے ہیں۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ اللہ تعالے سے ڈر کر رہنا چاہئے۔ لیکن میں اس سلسلے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات کچھ خوش نصیب بندے قدرت کی اس تعزیر سے بچ بھی جاتے ہیں۔ اور پوری زندگی انکی رسی دارز رہتی ہے۔ اس کے بر عکس قدرت کے اس گورکھ دھندے کی سمجھ بھی نہیں آتی کہ بعض اوقات ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جن کی پوری زندگی صراط مستقیم پر گزرتی ہے لیکن وہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر زد میں آ جاتے ہیں۔ اور انہیں ایسی آزمائشوں کا سامنا کرناپڑ جاتا ہے جن کی کوئی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ مثلا خود تو ان کی زندگی کا قرینہ ہمیشہ مثبت اقدار کی بنیاد پر رہتا ہے لیکن ان کی اولاد بری نکل کر ا ن کے لئے سوہان روح بن جاتی ہے۔ یا جانی اور مالی نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں وغیرہ۔ ( گو کہ اس سلسلے میں قران شریف میں' ولنبلو ونکم ' سے شروع ہونے والی آیات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے)
تاہم، میں نے بہت پہلے کہیں پڑھا تھا (یاد نہیں کہاں) کہ بعض اوقات ایک نسل سے سرزد ہونے والی فروگذاشتوں کا خمیازہ اگلی نسل کے افراد کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اورخود کچھ غلط نہ کرنے کے باوجود پچھلی نسل کے اعمال کے نتیجے میں مکافات عمل سے گزرنا ان کا مقدر ہوجاتا ہے۔ پتہ نہیں، اس میں کتنی حقیقت ہے۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔
محترم سید زبیر @زبیرمرزا صاحب جناب نایاب ، جناب محمود احمد غزنوی
جناب فارقلیط رحمانی فلک شیر جی ، حسان خان
 

زبیر مرزا

محفلین
سبحان اللہ تلمیذ سر آپ نے دریا کو کوزے میں بند کرکے پیش کردیا -سر آپ سے ایک شکایت ہے اتنا عمدہ لکھتے ہیں لیکن
خودکوئی دھاگہ شروع نہیں کرتے - حق ہے ہمارا آپ کی تحریرں پڑھنے کا - حوصلہ افزائی میں آپ پیش پیش ہوتے لیکن خود
آپ پس منظرمیں چھپے رہتے ہیں یہ جو کچھ باتیں آپ کہہ جاتے ہے لگتا ہے یہ بھی نادانستہ اور بے ساختہ ادا ہوجاتی ہیں
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں سو فیصدی آپ سے متفق ہوں نین جی، کہ مکافات عمل ایک حقیقت ہے۔ اور اس کے بے شمار مظاہر مشاہدے میں آئے ہیں۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ اللہ تعالے سے ڈر کر رہنا چاہئے۔ لیکن میں اس سلسلے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات کچھ خوش نصیب بندے قدرت کی اس تعزیر سے بچ بھی جاتے ہیں۔ اور پوری زندگی انکی رسی دارز رہتی ہے۔ اس کے بر عکس قدرت کے اس گورکھ دھندے کی سمجھ بھی نہیں آتی کہ بعض اوقات ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جن کی پوری زندگی صراط مستقیم پر گزرتی ہے لیکن وہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر زد میں آ جاتے ہیں۔ اور انہیں ایسی آزمائشوں کا سامنا کرناپڑ جاتا ہے جن کی کوئی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ مثلا خود تو ان کی زندگی کا قرینہ ہمیشہ مثبت اقدار کی بنیاد پر رہتا ہے لیکن ان کی اولاد بری نکل کر ا ن کے لئے سوہان روح بن جاتی ہے۔ یا جانی اور مالی نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں وغیرہ۔ ( گو کہ اس سلسلے میں قران شریف میں' ولنبلو ونکم ' سے شروع ہونے والی آیات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے)
تاہم، میں نے بہت پہلے کہیں پڑھا تھا (یاد نہیں کہاں) کہ بعض اوقات ایک نسل سے سرزد ہونے والی فروگذاشتوں کا خمیازہ اگلی نسل کے افراد کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اورخود کچھ غلط نہ کرنے کے باوجود پچھلی نسل کے اعمال کے نتیجے میں مکافات عمل سے گزرنا ان کا مقدر ہوجاتا ہے۔ پتہ نہیں، اس میں کتنی حقیقت ہے۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لئے۔
محترم سید زبیر @زبیرمرزا صاحب جناب نایاب ، جناب محمود احمد غزنوی
جناب فارقلیط رحمانی فلک شیر جی ، حسان خان

شدت سے انتطار رہے گا۔

میری بھی عجب عادت ہے۔ جو لکھتا ہوں تو کہیں کا کہیں نکل جاتا ہوں۔ جب آغاز مراسلہ کیا تھا۔ تو ذہن میں اک بات یہ بھی تھی کہ آزمائش اور مصیبت کو بھی اک دو سطروں میں اپنے مراسلے میں لکھوں گا۔ مگر قلت وقت کے باعث سب ذہن سے محو ہوگیا۔

کچھ لوگ جو کبھی کہیں حالات کی زد پر آجاتے ہیں۔ ان سے آزمائش مقصود ہوسکتی ہے۔ اب اگر یہی آزمائش اپنے رب کے قریب کر دے تو آزمائش اور سرخروئی مقدر اور گر اپنے رب سے دور کر دے تو ذلت اور رسوائی کا حقدار۔۔۔ ولیوں کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر ولی والی مثال بھی نئی نہیں کہ اہل علم کے آگے چند حروف جوڑ کر نئے سرے سے اس کو بیان کروں۔ اور لمحوں نے خطا کی ہے صدیوں نے سزا پائی ہے والے مقولے سے بھی صد متفق ہوں۔

سر آپ کا مطالعہ اور عملی تجربہ وسیع ہے۔ اس کے مقابلے میں میرا مطالعہ تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور سوچ کے دھارے بھی اک تالاب ہی کی شکل ٹھہرے رہتے ہیں۔ یعنی کبھی کوئی تٖغیر آیا بھی تو کنارے تک پہنچتے پہنچتے دم توڑ جاتا ہے۔

لیکن جب میں نے اس موضوع پر لکھنے کی جسارت کی تھی تو ذہن میں یہ خاص لوگ یا عام ڈگر سے ہٹ کر واقعات نہ تھے۔ پسر نوح کا تذکرہ نہ تھا۔ اور نہ آذر سے ہی کوئی بات منسوب کرنی تھی۔ وہ کیا فرماتے ہیں سعدی شیرازی
پسر نوح بابداں بنشست خاندان نبوتش گم شد
سگ اصحاب کہف روزے چند پئے نیکاں گرفت مردم شد

یعنی عمومی برائیاں کیوں جنم لیتی ہیں۔ اس شعر میں خوب سمو دیا گیا۔ تو معاشرے میں اٹھنا بیٹھنا اور معیت کا اثر جو ہے اس پر بات کرنا مقصود نہ تھا۔
بات کرنا مقصد تھا ان رویوں پر جو جانے انجانے ہم میں سماتے جاتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہماری Productivity میں کمی کا باعث بنے۔ اس سے جان چھڑا لی جائے۔ اب یہ جان عارضی طور پر چھڑائی جائے یا مستقل۔ مغرب کا طرز فکر یہ ہے کہ بچے کو ڈے کئیر سنٹر بھیج دیا جائے۔ اور شام کو واپسی پر لے لیا جائے۔ وہی والدین جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو اولاد کی توجہ مانگتے ہیں۔ کیوں۔۔۔ جب بچے کو ان کی توجہ کی ضرورت تھی تو وہ سڑتا رہا۔۔۔ اور آج جب وہ اس معاشرے میں کام میں مصروف ہے۔ تو وہ توجہ کیوں دے ان لوگوں کو جن کے پاس اس کو توجہ دینے کے لیے وقت نہ تھا۔ یہ مجموعی طرز فکر اک بےحسی لایا ساتھ میں۔ آہستہ آہستہ یہ مزاج میں ڈھلتی گئی۔ اور اب معیوب نہیں سمجھی جاتی۔ میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہی طرز فکر یہی عمل کی راہ اشرافیہ یا آپ کہہ سکتے ہیں کہ امراء نے اپنا لی ہے۔ اور ان کی دیکھا دیکھی چند کوے بھی ہنس کی چال چلنے کے شوق پورا کرنے کی دھن میں ہیں۔ اس سے معاشرے میں جہاں اک بےحسی کا عنصر بڑھ گیا ہے۔ وہیں رشتوں کی قدر اور ان سے جڑے اقدار کی پاسداری بھی آخری دموں پر ہے۔

بقیہ بشرطیکہ فرصت پھر سہی۔ گر موضوع گرم رہا :)
 

تلمیذ

لائبریرین
واہ جی واہ، کیاموتی پروئے ہیں، نین جی۔ ماشأ اللہ! زبیر مرزا جی ذرا توجہ فرمائیں،تحریرتو یہ ہوتی ہے۔
مغرب کے ثقافتی رویے ان کے اپنے معاشرے میں کھپ جاتے ہیں اور انہوں نے اس چلن کو قبول بھی کر لیا ہواہے ۔لیکن ہمارے ہاں انکااطلاق کئی قسم کی مشکلات سے دو چار کرتا ہے۔ ان معمر والدین کا مسئلہ ہی لے لیجئے۔ ان کی اولادچاہےانہیں نظر انداز کر کےاپنی زندگی مزے سے گزار رہی ہو لیکن رشتے داروں، ملنے جلنے والوں اور معاشرے کی نظر میں تو راندے جاتے ہیں وہ۔ اور زندگی کے آخر میں جب انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے تو وقت بیت چکا ہوتا ہے اور وہ خود اپنی اولاد کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اور یہ چکر اسی طرح چلتا رہتاہے۔ تاوقتیکہ چند لوگوں پر اللہ کی رحمت ہو جائے اور ان کے نصیب میں آخری عمر کا سکون لکھا گیا ہو۔
گذشتہ دنوں ایکسپریس میں رئیس فاطمہ نے اس موضوع پر ایک دو کالم لکھے تھے، میں کوشش کروں گا کہ ان کو ڈھونڈھ کر ان کے ربط یہاں پیش کروں گا۔

نین جی، فرصت ملنے پر اور خیالات کے مجتمع ہونےپراپنی تحریر جاری رکھئے۔ سنجید ہ موضوعات پر آپ کی جادو بھری تحاریر پر لطف ہونے کے ساتھ ہمارے علم میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ جزاک اللہ!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ جی واہ، کیاموتی پروئے ہیں، نین جی۔ ماشأ اللہ! زبیر مرزا جی ذرا توجہ فرمائیں،تحریرتو یہ ہوتی ہے۔
مغرب کے ثقافتی رویے ان کے اپنے معاشرے میں کھپ جاتے ہیں اور انہوں نے اس چلن کو قبول بھی کر لیا ہواہے ۔لیکن ہمارے ہاں انکااطلاق کئی قسم کی مشکلات سے دو چار کرتا ہے۔ ان معمر والدین کا مسئلہ ہی لے لیجئے۔ ان کی اولادچاہےانہیں نظر انداز کر کےاپنی زندگی مزے سے گزار رہی ہو لیکن رشتے داروں، ملنے جلنے والوں اور معاشرے کی نظر میں تو راندے جاتے ہیں وہ۔ اور زندگی کے آخر میں جب انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے تو وقت بیت چکا ہوتا ہے اور وہ خود اپنی اولاد کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ اور یہ چکر اسی طرح چلتا رہتاہے۔ تاوقتیکہ چند لوگوں پر اللہ کی رحمت ہو جائے اور ان کے نصیب میں آخری عمر کا سکون لکھا گیا ہو۔
گذشتہ دنوں ایکسپریس میں رئیس فاطمہ نے اس موضوع پر ایک دو کالم لکھے تھے، میں کوشش کروں گا کہ ان کو ڈھونڈھ کر ان کے ربط یہاں پیش کروں گا۔

نین جی، فرصت ملنے پر اور خیالات کے مجتمع ہونےپراپنی تحریر جاری رکھئے۔ سنجید ہ موضوعات پر آپ کی جادو بھری تحاریر پر لطف ہونے کے ساتھ ہمارے علم میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ جزاک اللہ!

آپ کی طرف سے اسے سند پذیرائی ملی اور کیا چاہیے۔ وگرنہ آخری لائن سے تو شدید قسم کا غیر متفق ہوں۔ :)
 

عمر سیف

محفلین
والدین کی تربیت اور بچوں کے ساتھ رویا ہی فیصلہ کرتا ہے کہ بچے آگے چل کر ان کے فرمانبردار ہونگے یا نافرمان۔
اولڈ ایج اور ڈے کئیر سینٹر مغرب میں تو بہت عام بات ہوگی پر مشرق میں ابھی مضبوط قدم نہیں جما سکی۔ ہم اپنی چال بھول کر ہنس کی چال چلنے کو زیادہ فوقیت دینے لگتے ہیں۔
دور جیسا بھی رہا ہو، بچے ہر دور میں فرمانبردار اور نافرمان رہے ہیں ایسی بہت سے مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔
اللہ ہمیں والدین کا فرمانبردار بنائے آمین۔
 

سید زبیر

محفلین
محترم تلمیذ صاحب ، آپ کی ذرہ نوازی کہ آپ نے عزیزم نیرنگ خیال کی تحریر پر تبصرہ کے لیے مجھے ٹیگ کیا ، سر ! مجھے تو بقول میری بیگم کے خربوزے کی پہچان بھی نہیں ہے ، جب بھی خربوزہ خریدا پھیکا نکلا ، وہ الگ بات ہے کہ شادی سے قبل میں میٹھے خربوزے خریدتا تھا ۔ شائد اس لیے کہ والدہ ماجدہ کو والد مرحوم کے لائے ہوئے خربوزے پھیکے لگتے تھے تو جس شخص کو خربوزے کی پہیچان نہ ہو وہ ایسے گھمبیر مسئلہ پر کیا بولے ۔​
نیرنگ خیال کی نیرنگیاں ہیں لا جواب ، نہ جانے وہ ایسی پر اثر تحریر کیسے لکھ لیتا ہے ۔ ایسے موضوع کہاں سے لاتا ہے ویسے بالمشافہ گفتگو میں تو بونگے پن کی حد تک بھولا لگتا ہے ۔ اس کی تحریر پر آپ کا تبصرہ ، انتہائی مدلل ہے ۔ میں تو صرف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ کچھ تو لکھیں ورنہ آپ کے تبصرے کے بعد کچھ لکھنے کےلیے بچا نہیں​

میں سو فیصدی آپ سے متفق ہوں نین جی، کہ مکافات عمل ایک حقیقت ہے۔ اور اس کے بے شمار مظاہر مشاہدے میں آئے ہیں۔ اس لئے ہمیں ہمیشہ اللہ تعالے سے ڈر کر رہنا چاہئے۔ لیکن میں اس سلسلے میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض اوقات کچھ خوش نصیب بندے قدرت کی اس تعزیر سے بچ بھی جاتے ہیں۔ اور پوری زندگی انکی رسی دارز رہتی ہے۔ اس کے بر عکس قدرت کے اس گورکھ دھندے کی سمجھ بھی نہیں آتی کہ بعض اوقات ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جن کی پوری زندگی صراط مستقیم پر گزرتی ہے لیکن وہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر زد میں آ جاتے ہیں۔ اور انہیں ایسی آزمائشوں کا سامنا کرناپڑ جاتا ہے جن کی کوئی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ مثلا خود تو ان کی زندگی کا قرینہ ہمیشہ مثبت اقدار کی بنیاد پر رہتا ہے لیکن ان کی اولاد بری نکل کر ا ن کے لئے سوہان روح بن جاتی ہے۔ یا جانی اور مالی نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں
اس سلسلے میں عرض ہے کہ جیسا کہ ہمیں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی حیات طیبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اولاد کی گمراہی ماوں کی تربیت کی وجہ سے تھی اسی طرح بچے پر ماں کی تربیت جتنا اثر ہوتا ہے اتنا ہی باپ کی کمائی کا بھی اثر ہوتا ہے ۔​
تاہم، میں نے بہت پہلے کہیں پڑھا تھا (یاد نہیں کہاں) کہ بعض اوقات ایک نسل سے سرزد ہونے والی فروگذاشتوں کا خمیازہ اگلی نسل کے افراد کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ اورخود کچھ غلط نہ کرنے کے باوجود پچھلی نسل کے اعمال کے نتیجے میں مکافات عمل سے گزرنا ان کا مقدر ہوجاتا ہے۔ پتہ نہیں، اس میں کتنی حقیقت ہے۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ رب کریم کے عدل و انصاف سے یہ بعید ہے کہ وہ والدین کی سزا اولاد کو دے ۔ ہاں یہ بات قوموں کی حد تک بالکل درست ہے کہ من حیث القوم جو غلطیاں ہوتی ہیں ، اس کی سزا اس قوم کی تنزلی کی صورت میں آنے والی نسل کو بھی ملتا ہے ۔​
اس کے علاوہ زمانے کی رفتار سے جو ذہنی ارتقا ہوتا ہے اس کے مثبت اور منفی پہلو بھی ہوتے ہیں ۔ ہمارے بچپنے میں ہم نے جو ماحول ، بزرگوں کی محفلیں ، رشتوں کا احترم دیکھا وہ آج نا پید ہے اسی طرح جو ماحول ہمارے بزرگوں نے دیکھا ہوگا وہ یقیناً اُس ماحول سے مختلف ہوگا ۔ میرا خیال ہے یہ ذہنی ارتقا ہے ۔زمانہ تیز رفتاری سے مشینی دور میں داخل ہوگیا ۔ نئی نسل بہت مصروف ہے ، وہ ہماری طرح گلیوں کے نکڑ پر محلے سے لے کر فلمی دنیا پر تبصرے نہیں کرتی ، بلا شبہ اگر وہ تیز نہیں چلے گی تو پیچھے رہ جائے گی ۔ ہم اُن کے ساتھ دوڑ نہیں سکتے ، وہ کسی حد تک ہم سے زیادہ حقیقت پسند ہے ، ہم روائت کے عادی ہو چکے ہیں گزشتہ ساٹھ سالوں سے دیکھ رہے ہیں کہ بزرگوں سے کیسے کلام کیا جاتا ہے گو کہ وہ اُس معیار کا نہیں جو ہمارے بزرگوں کا تھا جبکہ یہ بچے بچیس ، تیس سال سے بھاگ دوڑ میں مبتلا ہیں ، سکول ، یونیورسٹی ، تعلیم ، ملازمت ان کے یہ مسائل ہمارے دور سے کہیں زیادہ ہیں ۔ یہ سب عناصر بھی انسانی روئیوں کو بد ل ڈالتے ہیں۔​
اس کے باوجود باپ کی کمائی اور ماں کی تربیت کا مقام ان سب سے بالا ہے​
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت شکریہ، کہ آپ نے اپنے بیش بہا خیالات کا اظہار فرمایا محترم سید زبیر صاحب۔ انہی کو جاننے کے لئے آپ کو ٹیگ کیا تھا۔ یہ زندگی کے ایسے حقائق ہیں جنہیں تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔ پھر بھی مجموعی طور پرمستثنیات کو چھوڑ کر موجودہ نئی نسل کا بزرگوں کے ساتھ رویہ کچھ اتنا قابل تحسین نہیں رہا اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ ہمارے بچوں کے ساتھ اں کی اولاد کیا کرے گی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اولاد کےسنورنے میں والد کی نسبت والدہ کا زیادہ حصہ ہونے سے میں کلی طور پر متفق ہوں۔ البتہ اپنی دانش کو جانچنے کےلئے آپ نے جو خربوزوں کی خریداری کو معیار بنا یا ہے اسے میں صرف آپ کی کسر نفسی سمجھتا ہوں :) ۔ مشک کی مہک بھی کہیں چھپتی ہے، صاحب۔
عزیزم نیرنگ خیال کے جوہر رفتہ رفتہ کھلتے جارہے ہیں۔ محفل کے نوجوانوں میں ان اوصاف کو دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہوتی ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال کی نیرنگیاں ہیں لا جواب ، نہ جانے وہ ایسی پر اثر تحریر کیسے لکھ لیتا ہے ۔ ایسے موضوع کہاں سے لاتا ہے ویسے بالمشافہ گفتگو میں تو بونگے پن کی حد تک بھولا لگتا ہے ۔ اس کی تحریر پر آپ کا تبصرہ ، انتہائی مدلل ہے ۔ میں تو صرف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ کچھ تو لکھیں ورنہ آپ کے تبصرے کے بعد کچھ لکھنے کےلیے بچا نہیں​

سر جو اصل میں نظر آتے ہیں وہی ہیں۔۔۔ یہ تحریریں تو ہم کسی سے لکھوا لاتے ہیں۔ :)

عزیزم نیرنگ خیال کے جوہر رفتہ رفتہ کھلتے جارہے ہیں۔ محفل کے نوجوانوں میں ان اوصاف کو دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہوتی ہے۔

سر جوہر نہیں کھل رہے۔۔ محفل کے علم دوست ماحول میں سیکھنے کا عمل جاری ہے جو روز بروز کچھ بہتری لاتا ہے۔ جس کو آپ محسوس کرتے ہیں :)
 

سید زبیر

محفلین
سر جو اصل میں نظر آتے ہیں وہی ہیں۔۔۔ یہ تحریریں تو ہم کسی سے لکھوا لاتے ہیں۔ :)

بہت ہی عزیز نیرنگ خیال ! یہ میں نے نہ جانے کس ترنگ میں لکھ دیا ، محسوس نہیں کرنا ، پلیز
آپ زمانے کی نیرنگیوں کو کس انداز سے بیان کرتے ، انتہائی قابل تعریف انداز ، اور آپ کے احساسات
اللہ آپ کو خوش رکھے (آمین)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت ہی عزیز نیرنگ خیال ! یہ میں نے نہ جانے کس ترنگ میں لکھ دیا ، محسوس نہیں کرنا ، پلیز
آپ زمانے کی نیرنگیوں کو کس انداز سے بیان کرتے ، انتہائی قابل تعریف انداز ، اور آپ کے احساسات
اللہ آپ کو خوش رکھے (آمین)

ارے محسوس کرنا۔۔۔ مجھے تو بہت اچھا لگا۔۔۔ قسم سے۔۔۔۔ لطف آگیا۔۔۔ میں تو سند کے طور پر نیلم کو پڑھوانا چاہ رہا تھا کہ آ کر دیکھو۔۔۔ کیسے کیسے لوگ ہماری معصومیت کے گواہ ہیں :)
 

سید زبیر

محفلین
بہت شکریہ، کہ آپ نے اپنے بیش بہا خیالات کا اظہار فرمایا محترم سید زبیر صاحب۔ انہی کو جاننے کے لئے آپ کو ٹیگ کیا تھا۔ یہ زندگی کے ایسے حقائق ہیں جنہیں تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں۔ پھر بھی مجموعی طور پرمستثنیات کو چھوڑ کر موجودہ نئی نسل کا بزرگوں کے ساتھ رویہ کچھ اتنا قابل تحسین نہیں رہا اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ ہمارے بچوں کے ساتھ اں کی اولاد کیا کرے گی، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اولاد کےسنورنے میں والد کی نسبت والدہ کا زیادہ حصہ ہونے سے میں کلی طور پر متفق ہوں۔ البتہ اپنی دانش کو جانچنے کےلئے آپ نے جو خربوزوں کی خریداری کو معیار بنا یا ہے اسے میں صرف آپ کی کسر نفسی سمجھتا ہوں :) ۔ مشک کی مہک بھی کہیں چھپتی ہے، صاحب۔
عزیزم نیرنگ خیال کے جوہر رفتہ رفتہ کھلتے جارہے ہیں۔ محفل کے نوجوانوں میں ان اوصاف کو دیکھ کر طبیعت بہت خوش ہوتی ہے۔


محترم تلمیذ صاحب ! ذرہ نوازی ہے آپ کی ورنہ
من آنم کہ من دانم
اللہ کریم آپ کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔(آمین)
 

mfdarvesh

محفلین
بہت اچھی تحریر ہے
ویسے پوسٹ آفس اب کمپیوٹرائز ہو گیا ہے کافی حد تک، پینشن اب کافی آسانی سے مل جاتی ہے :)
 
Top