انتہائی دردناک۔
ماموں کے شادی کارڈ کا آرڈر دینے کیلئے ہم بازار آئے ہوئے تھے تو یکایک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی ۔ میرے سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک جوان لڑکی کھڑی تھی جس کے پاؤں میں جوتے نہیں تھے اور لباس بے حال تھا ۔۔۔۔ اسکا یہ حال دیکھ کر میں بہت اداس ہوگیا اور باہر نکل آیا لیکن وہ بی بی اس بارش میں بھی خوش باش بارش کے پانی کے ساتھ چھیڑ خوانی کر رہی تھی اور چھپڑ سے باہر باربار ہاتھ نکال کر بارش سے ہاتھ بھگوتی اور کھلکھلاتی پھر چلو بنا کر پانی بھرتی اور اپنی سکھیوں پر پھینکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں خوش دیکھ کر یقین ہوگیا کہ دولت کا خوشی سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔واہ!
ایسے ناداروں کو بھی اللہ نے مسکراہٹ کے حسین تحفے سے محروم نہیں کیا۔
سبحان اللہ!
میاں احساس احساس کی بات ہے ۔۔۔۔۔پتہ نہیں ۔۔کیا ہے مگر میری سوچ ذرا کچھ مختلف ہے ۔۔میں انہیں اس حال میں دیکھتا ہوں تو افسوس اور دل گرفتگی تو اپنی جگہ خیر مگر ایک خیال اور آتا ہے اور تمام احساسات پر حاوی ہو جاتا ہے۔۔اور وہ یہ کے اللہ رحیم و کریم ہے تو وہ عادل بھی ہے ۔۔۔وہ ظلم نہیں کر سکتا ۔۔اگر وہ کسی کو بہت کچھ دے دیتا ہے تو یہ اس کا کرم بھی ہے اور جسے دیا ہے اور اس کی آزمائش بھی اور جسے نہیں دیا اس کے لیے شاید اس کا بہتر اجر ہے اور دوسرا خیال یہ آتا ہے کہ اس حال میں لوگ جو ہوتے ہیں وہ ہم سے زیادہ دولت مند ہوتے ہیں مطمئن ہوتے ہیں نہ کچھ کھونے کا ڈر نہ کوئی فارملیٹیز کے جھنجھٹ ۔۔ جہاں جگہ ملی پڑ گئے جو ملا کھا لیا۔۔اس میں کتنی آسانیاں ہیں ذرا سوچیں۔بچے رئیل لائف سے اتنا کچھ سیکھ جاتے ہیں کہ نصابی کتابوں کی ضرورت ہی نہیں معاشرہ اور افراد کے رویے انہیں وہ کچھ سکھا دیتے ہیں جو ہمارے بچے کئے درجے پڑھ کے سیکھتے ہیں بلکے بہت کچھ نہیں بھی سیکھ پاتے۔
اب دیکھیں پہلے جو ہاتھ ساری رات پنکھا جھلتے تھے اب اے سی لگنے کے بعد کتنا دشوار لگے گا یہ سوچ کر کہ اگر پھر پنکھا جھلنا پڑ گیا ۔۔۔پہلے کئی کئی کلو میٹر چلنے پر نہیں تھکتے تھا مگر اب گاڑی آگئی تو دکان تک جاتے ہوئے تھک جاتے ہیں۔۔مسجد میں اللہ سے رابطے کی تجدید کے لیے جاتے ہیں مگر نماز پڑھتے ہوئے سامنے موبائیل رکھ لیتے ہیں کے کسی کی کال نہ آجائے اور اسے نماز کے بعد فوری جواب دینے میں دیر نہ ہو جائے۔۔
لب لباب یہ کہ۔۔خوشی یہ نہیں کے یہ نہیں ملا یا کاش یہ مل جاتا بلکے جو ہے اس میں اللہ کا شکر ادا کریں اور سدھار کے لیے کوشش کرتے رہیں کیونکہ اجر نتیجے میں نہیں کوشش میں ہوتا ہے ۔
ایسی تصویر کھینچنے والے کی ہمت کو سلام ہے۔
جس شخص نے یہ خبر آگے بڑھائی ہے، اول اول تو یہ خبر اُسی کے لئے تھی۔
اس کے لیے تو تھی ہی۔۔۔۔ ہم سب کے لیے بھی ہے۔
اختلاف ہو سکتا ہے لیکن میرا نقطہء نظر یہ ہے کہ ہم میں سے کئی لوگ سوئے ہوتے ہیں۔ ہمارے گرد آسائشیں ہوں، ہم کھاتے پیتے ہوں تو ہمیں سب لوگ "رجے" نظر آتے ہیں۔
ایسی تصاویر دیکھ کے دل بہت زیادہ دکھتا ہے۔ شدید تکلیف ہوتی ہے۔( میرے جیسے انسان کے لیے ایسی تصاویر مسلسل اذیت دیتی ہیں۔۔۔۔۔)
لیکن ۔۔۔۔
ہم جاگتے ہیں، اٹھتے ہیں اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کے لیے کوشش شروع کرتے ہیں۔
یہ دن ان کے لیے تو امتحان ہیں ہی کہ جن کے پاس وسائل نہیں، روزگار نہیں ہیں لیکن یہ دن ہمارے لیے بھی امتحان لائے ہیں۔
آئیے اوپر والا ہاتھ بنیں۔
آئیے اپنے وسائل(مادی و غیر مادی) سے ایسے لوگوں میں آسانیاں بانٹیں۔
جب ہم اللہ کے سامنے پیش ہوں تو اللہ ہمیں یہ نہ کہیں کہ میرے بندے! میں بھوکا تھا، تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا اور جب ہم کہیں کہ یا اللہ! تو تو اس سے پاک ہے، بے نیاز ہے۔ پھر اللہ ہمارے سامنے یہی تصویر لے آئے اور ہم پچھتائیں کہ ہم امتحان میں پاس نہ ہو سکے۔ اللہ کرے کہ ایسا نہ ہو۔
اللہ سب کو آسانیاں دے۔ سب کی مشکلات دور فرمائے۔ آمین!
ثم آمین!
آمین!متفق ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ بساط بھر کوشش کرکے کچھ نہ کچھ کرتے رہیں۔