محمد عدنان اکبری نقیبی
لائبریرین
ان بچوں کے والدین اور اساتذہ کو تعلیم کی ضرورت ہے ان بچوں کو نہیں ۔
قابلِ دکھ بات بھی ہے اور زندگی کی حقیقت بھی۔۔۔
قابلِ دکھ بات بھی ہے اور زندگی کی حقیقت بھی۔۔۔
ہمیں چاہیے کہ یہ وقت آنے سے قبل ہی اس کی تیاری کرلیں۔۔۔
جس طرح اولاد کو نئی زندگی ان کی مرضی سے گزارنے کا حق ہے اسی طرح والدین کو بھی اپنے بڑھاپے کے لیے انتظامات کرنے کا حق ہے۔۔۔
ہم جوش میں آکر ساری جمع پونجی اولاد پر لگا دیتے ہیں، اپنے بڑھاپے کے لیے کچھ نہیں بچاتے، پھر اولاد کی بے وفائی اور اپنی بے بسی پر آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہیں۔۔۔
دنیا میں خدا کے سوا کسی پر بھروسہ کرنا عقلمندی نہیں۔۔۔
بہتر ہے جس طرح اولاد پر خرچ کرتے ہیں اسی طرح اپنے مستقبل کے لیے بھی تھوڑا تھوڑا بچاتے رہیں۔۔۔
تاکہ بڑھاپے میں اولاد کے محتاج نہ رہیں !!!
ہم بھی تانگے میں کم و بیش ایسے ہی انداز میں سکول جا چکے ہیں ۔ان بچوں کے والدین اور اساتذہ کو تعلیم کی ضرورت ہے ان بچوں کو نہیں ۔
انتہائی افسوس ناک۔ اگر بچے سنبھال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہیں؟لاہور: میاں بیوی میں طلاق ہوگئی۔ دونوں کے 3 بچے تھے۔ طلاق کے بعد دونوں نے شادیاں کر لیں۔ بچوں کو باپ رکھنے کو تیار ہے نہ ماں۔ عدالتوں میں رُل رہے ہیں کہ ہم کدھر جائیں؟
اس کیس کی آج لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس انوار الحق پنوں کی عدالت میں سماعت تھی۔ بچے وقتی طور پر پھپھو کے پاس تھے۔ پھپھو کا کہنا تھا کہ میں بھی بچوں کو کیسے رکھوں۔ میرے خود اتنے ذرائع نہیں کہ اخراجات برداشت کر سکوں۔ بچے رو رہے تھے۔ ماں بھی نہیں رکھتی۔باپ نے بھی اپنانے سے انکار کردیا۔ ہمیں مار دیا جائے۔
عدالت نے بچوں کے والد جمیل کو اگلی سماعت پر صبح طلب کیا ہے۔ نہیں آتا تو گرفتار کرکے پیش کیا جائے۔
انتہائی افسوس ناک۔