فرحت کیانی
لائبریرین
زندگی تُو نے مجھے قبر سے کم دی ہے جگہ
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے!!!!
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار سے سر لگتا ہے!!!!
بہت شکریہضبط نے کہا:
بہت خوبمحب علوی نے کہا:کہاں کے عشق و محبت کہاں کے ہجر و وصال
یہاں تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
شکریہ ضبط اور کوشش کریے گا اگر پوری نظم لکھ سکیں پلیزضبط نے کہا:زندگی پہ گلزار صاحب کی ایک نظم یاد آگئی
زندگی کیا ہے جاننے کے لیے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے
آج تک کوئی بھی رہا تو نہیں ۔۔
آگے بھی ہے پر ابھی اتنی ہی یاد ہے۔
ضبط نے کہا:یہ نظم میں پہلے بھی محفل پہ پوسٹ کر چکا ہوں۔
فرحت کی فرمائش پر دوبارہ۔
[align=right:75eb5b758d]
زندگی کیا ہے، جاننے کے لیے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے
آج تک کوئی بھی رہا تو نہیں
ساری وادی اُداس بیٹھی ہے
موسمِ گُل نے خودکشی کر لی
کس نے بارود بُویا باغوں میں
آؤ ہم سب پہن لیں آئینے
سارے دیکھیں گے اپنا ہی چہرہ
سب کو سارے حسیں لگیں گے یہاں
ہے نہیں جو دِکھائی دیتا ہے
آئینے پر چھپا ہوا چہرہ
تجربہ آئینے کا ٹھیک نہیں
ہم کو غالب نے یہ دُعا دی تھی
تم سلامت رہو ہزار برس
یہ برس تو فقط دنوں میں گیا
لب میرے میر نے بھی دیکھے ہیں
پنکھڑی اِک گُلاب کی سی ہے
بات سُنتے تو غالب ہوجاتے
ایسے بکھرے ہیں رات دن جیسے
موتیوں والا ہار ٹوٹ گیا
تم نے مجھ کو پیرو کے رکھا تھا ۔۔۔[/align:75eb5b758d]
شکریہ فرحت اور سمائلی بہت پسند آیا۔فرحت کیانی نے کہا:ضبط نے کہا:یہ نظم میں پہلے بھی محفل پہ پوسٹ کر چکا ہوں۔
فرحت کی فرمائش پر دوبارہ۔
[align=right:eec836a113]
زندگی کیا ہے، جاننے کے لیے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے
آج تک کوئی بھی رہا تو نہیں
ساری وادی اُداس بیٹھی ہے
موسمِ گُل نے خودکشی کر لی
کس نے بارود بُویا باغوں میں
آؤ ہم سب پہن لیں آئینے
سارے دیکھیں گے اپنا ہی چہرہ
سب کو سارے حسیں لگیں گے یہاں
ہے نہیں جو دِکھائی دیتا ہے
آئینے پر چھپا ہوا چہرہ
تجربہ آئینے کا ٹھیک نہیں
ہم کو غالب نے یہ دُعا دی تھی
تم سلامت رہو ہزار برس
یہ برس تو فقط دنوں میں گیا
لب میرے میر نے بھی دیکھے ہیں
پنکھڑی اِک گُلاب کی سی ہے
بات سُنتے تو غالب ہوجاتے
ایسے بکھرے ہیں رات دن جیسے
موتیوں والا ہار ٹوٹ گیا
تم نے مجھ کو پیرو کے رکھا تھا ۔۔۔[/align:eec836a113]
بہت خوب
اور بہت شکریہ
خوش رہیے
شمشاد نے کہا:کیا خیال ہے اس سے آگے ایسے اشعار لکھے جائیں جن میں لفظ “ زندگی “ آتا ہو۔
کیوں نہیں۔۔ بہت اچھا خیال ہےضبط نے کہا:اچھا خیال ہے۔ پھر اس دھاگے کو شعر و شاعری میں موؤ کروا دیں۔
ضبط نے کہا:شکریہ فرحت اور سمائلی بہت پسند آیا۔فرحت کیانی نے کہا:ضبط نے کہا:یہ نظم میں پہلے بھی محفل پہ پوسٹ کر چکا ہوں۔
فرحت کی فرمائش پر دوبارہ۔
[align=right:05bccbd6ff]
زندگی کیا ہے، جاننے کے لیے
زندہ رہنا بہت ضروری ہے
آج تک کوئی بھی رہا تو نہیں
ساری وادی اُداس بیٹھی ہے
موسمِ گُل نے خودکشی کر لی
کس نے بارود بُویا باغوں میں
آؤ ہم سب پہن لیں آئینے
سارے دیکھیں گے اپنا ہی چہرہ
سب کو سارے حسیں لگیں گے یہاں
ہے نہیں جو دِکھائی دیتا ہے
آئینے پر چھپا ہوا چہرہ
تجربہ آئینے کا ٹھیک نہیں
ہم کو غالب نے یہ دُعا دی تھی
تم سلامت رہو ہزار برس
یہ برس تو فقط دنوں میں گیا
لب میرے میر نے بھی دیکھے ہیں
پنکھڑی اِک گُلاب کی سی ہے
بات سُنتے تو غالب ہوجاتے
ایسے بکھرے ہیں رات دن جیسے
موتیوں والا ہار ٹوٹ گیا
تم نے مجھ کو پیرو کے رکھا تھا ۔۔۔[/align:05bccbd6ff]
بہت خوب
اور بہت شکریہ
خوش رہیے