زہر پیالہ : شفیع عقیل دی پنجابی نظماں اردو ترجمے دے نال

الف نظامی

لائبریرین
لوک تے میں
لوکیں دُوجیاں کولوں ڈردے
میں خود توں پیا ڈردا
میری ذات دا دشمن سجّݨ
میرے اندر وَسدا


لوگ اور میں
لوگ دوسروں سے ڈرتے ہیں
مگر میں اپنے آپ سے ڈر رہا ہوں
کیونکہ میری ذات کا دشمن اور دوست
دونوں میرے اندر بس رہے ہیں
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
ویلے دیاں ڈیݨاں
دن تے راتاں ، دُھپّاں چھاواں
موسم آوندے جاندے
صدیاں توں ایہہ ڈَیݨاں وانگوں
اِک دوجے نوں کھاندے


وقت کی ڈائنیں
دن اور راتیں ، دھوپ اور چھاوں
اور یہ آتے جاتے موسم
صدیوں سے ڈائنوں کی طرح
ایک دوسرے کو کھاتے چلے جا رہے ہیں
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
سُکّا دریا
اِک دُوجے نوں کَنڈھے ویکھݨ
دِل وِچ کرن وچاراں
آپݨے آپ چ پاݨی ڈُبّا
کوݨ لیہاوے ساراں؟


سُوکھا دریا
سوکھے دریا کے کنارے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں
اور دل میں سوچ رہے ہیں کہ
پانی تو خود اپنے آپ میں ڈوب گیا ہے
اب اس کی خبر کون لائے کہ وہ کہاں ہے؟
 

الف نظامی

لائبریرین
اِک وہم
لیکھ دَا پَلّا پھڑی میں گھُمّاں
دِل آساں پرچاوے
جس پَل مینوں بھُلّی پایا
شید کِتے مِل جاوے


ایک وہم
میں اپنے مقدر کا دامن تھامے ہوئے گھوم رہا ہوں
اور میرا دل یہ کہہ کر میری اُمیدوں کو بہلا رہا ہے
کہ جس لمحے نے مجھے بھٹکا دیا تھا
شائد وہ پھر کہیں مل جائے ، شائد وہ پھر میری گرفت میں آجائے
 

الف نظامی

لائبریرین
سَنگل
ہتھّاں پَیراں بَدّھے سَنگل
اوڑک نُوں ٹُٹ جاوݨ
ذہن دے سَنگل توڑ ، اے نَسلاں
بندی خانے پاوݨ


زنجیریں
ہاتھوں اور پاوں میں بندھی ہوئی زنجیریں
آخر کار ٹوٹ جایا کرتی ہیں
تجھے چاہیے کہ ذہن کی زنجیریں توڑے کیونکہ یہ کئی نسلوں کو
قید کر دیتی ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
سچ تے جھُوٹھ
لوکیں کہندے سُورج سچ اے
چمکے جو اسماناں
اَنھّاں آکھے جھوٹھ اے سُورج
کِنّہوں میں سچ جاناں؟


سچ اور جھوٹ
لوگ کہتے ہیں کہ سورج ایک سچائی ہے
جو آسمانوں پر چمکتا ہے
مگر ایک اندھا کہتا ہے کہ سُورج جھوٹ ہے۔ روشنی فریب ہے۔
اب کوئی مجھے بتائے کہ میں ان میں سے کس کی بات کو سچ مانوں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
لمّے پَندھ
کوݨ کِسے دَا دردی بَݨ دا
کوݨ کِسے سنگ چَلّے
لمّے پندھ نہ مُکّݨ جوگے
سَبھناں دے دُکھ پَلّے


طویل راستے
کون کسی کا ہمدرد بن سکتا ہے؟
اور کون کسی کا ساتھ دے سکتا ہے؟
یہ طویل راستے تو ختم ہونے والے نہیں ہیں
اور سب کی جھولیوں میں دُکھ بھرا ہوا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
ماضی دے بَدّل
ماضی بَدّل بݨ کے اُٹھیا
سوچاں دا مینہ وَرھیا
ذہن تے دل وِچ چانن ہویا
یاد دا سُورج چڑھیا


ماضی کے بادل
ماضی بادل کے رُوپ میں اُٹھا ہے
سوچوں کی بارش شروع ہو گئی ہے
اور ذہن اور دل میں روشنی ہو گئی ہے
یاد کا سُورج اس طرح طلوع ہوا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
دنیا داری
روز میں دھوتے کپڑے پاوَاں
آپݨا آپ شنگاراں
دل تے ذہن کدی نہ دھوواں
سوچ دی میل نہ لاہوَاں


دنیا داری
میں ہر روز دُھلے ہوئے کپڑے پہنتا ہوں
اور اپنے آپ کو سنوارتا ہوں
لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ میں اپنے دل اور ذہن کو کبھی نہیں دھوتا
اور اپنی سوچ کا میل نہیں اُتارتا
 

الف نظامی

لائبریرین
واء ورولا
کِدھیاں راہوَاں بھُلّیاں سَدھراں
جَھلّیاں وانگوں گُھمّݨ
کون گواچا ، خورے کِنّہوں
جنگلاں ، شہراں ، لَبھّݨ


بگولا
یہ کس کی راستہ بھٹکی ہوئی اُمیدیں ہیں
جو پاگلوں کی طرح گھومتی پھر رہی ہیں
ان کا کون کھو گیا ہے؟ کون بچھڑ گیا ہے؟ نہ جانے
یہ کسے جنگلوں اور شہروں میں تلاش کرتی پھر رہی ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
پتھر سوچݨ
پتھر ، بندے ویکھ کے سوچݨ
ایہہ زندہ یا موئے؟ *
اَسیں تے لیکھ دی سُولی ٹَنگّے
ایہہ کیوں پتھر ہوئے؟ *


* موئے ، ہوئے : (ان الفاظ کا تلفظ روئے جیسا ہے)

پتھر سوچتے ہیں
پتھر انسانوں کو دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ
یہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں؟
ہم تو اپنے مقدر کی سُولی پر ٹنگے ہوئے ہیں
مگر یہ انسان ہوتے ہوئے پتھر کیوں ہو گئے ہیں؟
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
لیکھ دا پَینڈا
تدبیراں دے بھارے پتھر
چُک چُک کے میں تَھکیّا
فیر وی لیکھ دا لمّاں پَینڈا
اجے نہ میتھوں مُکّیا


تقدیر کا سفر
میں تدبیروں کے بھاری پتھر
اُٹھا اُٹھا کے تھک چُکا ہوں
لیکن اس کے باوجود تقدیر کا طویل سفر
ابھی تک مجھ سے ختم نہیں ہو سکا
 

الف نظامی

لائبریرین
وچھڑے چہرے
کَدی کَدی اوہ وِچھڑے چہرے
راہوَاں وِچ مِل جاوݨ
اَکھاں ، گلہاں ، بُلہہ سب اوہو
فیر وِی بَدلے جاپݨ


بچھڑے ہوئے چہرے
کبھی کبھی وہ بچھڑے ہوئے چہرے
راستوں میں مِل جاتے ہیں
ان کی آنکھیں ، گال اور لب سب وہی ہوتے ہیں
لیکن پھر بھی وہ بدلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
اِک سوچ
آپݨے وِچّوں باہر نِکل کے
اِک دُوجے تک آیئے
آپݨے کولوں اَگّے لنگھیئے
اِنج دونویں مل جایئے


ایک سوچ
کیا ہی اچھا ہو جو دونوں اپنے اپنے اندر سے باہر آ کر
ایک دوسرے تک پہنچ جائیں
خود کو چھوڑ کر آگے نکل جائیں
اور اس طرح دونوں آپس میں مل جائیں
 

الف نظامی

لائبریرین
تُوں تے میں
میریاں سوچَاں ، تیریاں یاداں
آس دی لمی ڈور
تُوں پَرچَھاواں ، ہتھ نہ آویں
لیکھاں تے نئیں زور


تو اور میں
میری سوچوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور تیری یادیں ہیں
آس کی ڈوری اس قدر طویل ہے کہ کہیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی
تو ایک سایہ ہے جو میرے ہاتھ نہیں آتا
اور قسمت پر میرا بس نہیں چل رہا یا یہ میری مجبوری ہے
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
میرا دِل
میرا دل اِک بچے وانگوں
رُسّے ، مَنّے ، رووے
سَدھراں وانگ کھڈاوݨے توڑے
آپے توڑ کے جوڑے


میرا دل
میرا دل ایک ننھے بچے کی طرح ہے
جو کبھی رُوٹھتا ہے ، کبھی مان جاتا ہے اور کبھی پھر رونے لگتا ہے
وہ اپنی خواہشوں کو کھلونوں کی طرح توڑ دیتا ہے
اور توڑنے کے بعد خود ہی انہیں دوبارہ جوڑنے لگتا ہے
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
آس پرچھَاواں
ماضی وَل جَد ویکھاں ، سوچاں
آس نِرا پَرچھاواں
اُڈدے پنچھی ہَتھ نہ آوندے
میں کیوں نہسدا جاواں؟


آس سایہ ہے
جب میں اپنے ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
یہ تمنائیں تو محض سائے ہیں
اُڑتے ہوئے پنچھی کبھی ہاتھ نہیں آیا کرتے
پھر میں ان کے پیچھے کیوں بھاگتا جا رہا ہوں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
سوچ اُڈاری
اُچّیاں کَندھاں ، بھِیڑے بُوہے
بندہ آپ بݨاوے
سوچ اُڈاری اُس دی ویکھو
خود نُوں ڈَکّی جاوے


سوچ کی پرواز
اونچی اونچی دیواریں اور بند دروازے
انسان خود ہی بنا رہا ہے
ذرا اُس کی سوچ کی پرواز دیکھو کہ
اس طرح اپنے ہاتھوں خود کو قیدی بنائے جا رہا ہے
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اِکّو دُکھ
آوندے جاندے لوکِیں لکھّاں
اِکّو دُکھ دے مارے
جیہڑی بازی کھیڈ نہ سَکّے
اوسے دے وِچ ہارے


ایک ہی دُکھ
آنے جانے والے لوگ لاکھوں کی تعداد میں ہیں
مگر ان سب کا دُکھ ایک ہی ہے
جو بازی وہ کھیل نہیں سکے
اسی میں سب کے سب ہار گئے ہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
نیکی کارن
اِک نیکی دے کارن ایتھے
کیہہ کُجھ جَرنا پَیندا
کِنّی واری آپݨے اندر
آپ ای مرنا پَیندا


نیکی کی خاطر
صرف ایک نیکی کرنے کی خاطر انسان کو یہاں
کیا کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے
نہ جانے کتنی بار اپنے اندر ہی اندر
خود ہی مرنا پڑتا ہے
 
Top