فقط ہم تم ہی بدلے ہیں
چلو پھر لوٹ جائیں ہم جہاں پہ کچھ نہیں بدلا
نہ ماہ و سال ہیں بدلے نہ ماضی حال ہیں بدلے
وہاں پہ لوٹ جائیں ہم جہاں معلوم ہو کے بس
نہیں کچھ اور ہے بدلا فقط ہم تم ہی بدلے ہیں
وہی مٹی وہی خوشبو وہی سوندھی فضائیں ہیں
وہی گلزار منظر تو وہی من چاہی راہیں ہیں
وہی بچپن وہی بوڑھے وہی سب ہیں جواں قصّے
مگر اب تم نہیں ہو وہ مگر اب میں نہیں ہوں وہ
وہی بادل وہی بارش وہی کشتی ہے کاغذ کی
وہی دھوپیں وہی سائے وہی دن رات من بھائے
وہی رونق وہی خوشیاں وہی جینے کی چاہت ہے
مگر بے کار ہے سب کچھ اگر ہم، ہم نہیں ہیں وہ
سبھی کچھ پھر خیالوں میں یہاں کیوں جی رہا ہوں میں
جو گھاؤ بھر چکا کب کا یونہی پھر سی رہا ہوں میں
سبھی کچھ وہ پرانا ہے سبھی کچھ پھر سہانا ہے
اگر ہے کچھ نیا تو بس نہیں ہو تم , نہیں ہیں ہم
گیا وہ لوٹ آئے پھر یہاں ایسا نہیں ہوتا
ہے رستہ ایک طرفہ یہ کوئی واپس نہیں ہوتا
مگر کب کوئی ہے سمجھا مگر کب کوئی ہے مانا
سبھی مڑ مڑ کے ہیں تکتے سبھی یہ آس ہیں مرتے
چلو پھر لوٹ جائیں ہم جہاں پہ کچھ نہیں بدلا
اتباف ابرک