زیرک کی پسندیدہ غزلیں

زیرک

محفلین
آستیں میں سانپ پالے جائیں گے
نِت نئے رشتے نکالے جائیں گے
پہلے کرنا ہے انھیں بے بال و پر
یہ پرندے پھر اچھالے جائیں گے
محوِ حیرت ہوں کہ سُوئے مے کدہ
مجھ سے پہلے ہوش والے جائیں گے
کام وہ ہم سے ہی لے گا، اور پھر
اس میں پھر کیڑے بھی ڈالے جائیں گے
دوسروں کے آسرے پر یہ بتا
کب تلک خود کو سنبھالے جائیں گے
علم ہی میرا ہے بس میری اثاث
چھین کر مجھ سے وہ کیا لے جائیں گے
ان کی مانگیں میں نے گر پوری نہ کیں
وہ مرے بچے اٹھا لے جائیں گے

سہیل ثاقب
 
آج ایک نیا سلسلہ "زیرک کی پسندیدہ غزلیں" شروع کرنے جا رہا ہوں، امید ہے کہ نیا سلسلہ بھی سب احباب کو پسند آئے گا۔

جو ترے شہر میں آیا ہے اسے راضی کر
جس نے کشکول اٹھایا ہے اسے راضی کر
جو تری بزم سے جاتا ہے اسے جانے دے
جو تری بزم میں آیا ہے اسے راضی کر
تجھ پہ جادو ہے نہ آسیب نہ سایہ ہے کوئی
جس گداگر کو رُلایا ہے اسے راضی کر
میں نے مانا کہ شفا دَم میں بھی ہوتی ہے مگر
تُو نے جس جس کو ستایا ہے اسے راضی کر
آج محفل میں ترے سخت رویے کے سبب
جس کا آنسو نکل آیا ہے اسے راضی کر
جس نے راہوں میں تری پھول بچھائے تھے کبھی
جس نے ہر خار اٹھایا ہے اسے راضی کر

نامعلوم
جاسمن
بہت خوب
شاعر: حافظ الماس
 

زیرک

محفلین
نہ جانے کب وہ پلٹ آئیں، در کھلا رکھنا
گئے ہوئے کے لیے دل میں کچھ جگہ رکھنا
ہزار تلخ ہوں یادیں مگر وہ جب بھی ملے
زباں پہ اچھے دنوں کا ہی ذائقہ رکھنا
نہ ہو کہ قرب ہی پھر مرگِ ربط بن جائے
وہ اب ملے تو ذرا اس سے فاصلہ رکھنا
اتار پھینک دے خوش فہمیوں کے سارے غلاف
جو شخص بھول گیا اس کو یاد کیا رکھنا
ابھی نہ علم ہو اس کو لہو کی لذت کا
یہ راز اس سے بہت دیر تک چھپا رکھنا
کبھی نہ لانا مسائل گھروں کے دفتر میں
یہ دونوں پہلو ہمیشہ جدا جدا رکھنا
اڑا دیا ہے جسے چوم کر ہوا میں نسیمؔ
اسے ہمیشہ حفاظت میں اے خدا رکھنا

افتخار نسیم افتی
 

زیرک

محفلین
عذابِ ہجر سے انجان تھوڑی ہوتا ہے
یہ دل اب اتنا بھی نادان تھوڑی ہوتا ہے
یہ زندگی ہے بہت کچھ یہاں پہ ممکن ہے
کہ کچھ نہ ہونے کا امکان تھوڑی ہوتا ہے
یہ دل کے زخم چھپا کر جو مسکراتے ہیں
تو میرے دوست یہ آسان تھوڑی ہوتا ہے
کبھی کبھار تو بدعت بھی ہو ہی جاتی ہے
ہر ایک لمحہ ترا دھیان تھوڑی ہوتا ہے
وہ جس کے پاس محبت بھی ہو وفا بھی ہو
بھلا وہ بے سر و سامان تھوڑی ہوتا ہے
تری وفا میں کمی کچھ تو آئی ہے کہ یہ دل
بلا جواز پریشان تھوڑی ہوتا ہے
اِدھر اُدھر سے دلیلیں اٹھانی پڑ جائیں
جو اتنا کچا ہو ایمان تھوڑی ہوتا ہے

ناہید ورک
 

زیرک

محفلین
در و دیوار پہ ہجرت کے نشاں دیکھ آئیں
آؤ، ہم اپنے بزرگوں کے مکاں دیکھ آئیں
اپنی قسمت میں لکھے ہیں جو وراثت کی طرح
آؤ، اک بار وہ زخمِ دل و جاں دیکھ آئیں
آؤ، بھیگی ہوئی آنکھوں سے پڑھیں نوحۂ دل
آؤ، بکھرے ہوئے رشتوں کا زِیاں دیکھ آئیں
جس سے ٹکرا کے گرے تھے کبھی اربابِ خِرد
آؤ، نزدیک سے وہ سنگِ گراں دیکھ آئیں
وقت جاتے ہوئے کیا لکھ گیا پیشانی پر
آؤ، آشفتگئ عہدِ رواں دیکھ آئیں
ٹُوٹا ٹُوٹا ہوا دل لے کے پھِریں گلیوں میں
کچی مٹی کے کھلونوں کی دُکاں دیکھ آئیں
روشنی کے کہیں آثار تو باقی ہوں گے
آؤ، پِگھلی ہوئی شمعوں کا دُھواں دیکھ آئیں
جِن درختوں کے تلے رقصِ صبا ہوتا تھا
سُوکھے پتوں کا برسنا بھی وہاں دیکھ آئیں
اُڑ رہے ہوں گے کہیں، جُھنڈ ابابیلوں کے
آؤ، سنسان دریچوں کا سماں دیکھ آئیں
اب فرشتوں کے سِوا کوئی نہ آتا ہو گا
کون دیتا ہے خرابے میں اذاں، دیکھ آئیں
مُدتوں بعد مہاجر کی طرح آئے ہیں
روٹھ جائے نہ کھنڈر، آؤ میاں! دیکھ آئیں

قیصر الجعفری
 

زیرک

محفلین
بستی میں ہے وہ سناٹا جنگل مات لگے
شام ڈھلے بھی گھر پہنچوں تو آدھی رات لگے
مٹھی بند کئے بیٹھا ہوں کوئی دیکھ نہ لے
چاند پکڑنے گھر سے نکلا جگنو ہات لگے
تم سے بچھڑے دل کو اجڑے برسوں بیت گئے
آنکھوں کا یہ حال ہے اب تک کل کی بات لگے
تم نے اتنے تیر چلائے، سب خاموش رہے
ہم تڑپے تو دنیا بھر کے الزامات لگے
خط میں دل کی باتیں لکھنا اچھی بات نہیں
گھر میں اتنے لوگ ہیں جانے کس کے ہات لگے
ساون ایک مہینے قیصرؔ، آنسو جیون بھر
ان آنکھوں کے آگے بادل بے اوقات لگے

قیصر الجعفری
 

زیرک

محفلین
یوں بڑی دیر سے پیمانہ لیے بیٹھا ہوں
کوئی دیکھے تو یہ سمجھے کہ پئے بیٹھا ہوں
آخری ناؤ نہ آئی تو کہاں جاؤں گا
شام سے پار اترنے کے لیے بیٹھا ہوں
مجھ کو معلوم ہے سچ زہر لگے ہے سب کو
بول سکتا ہوں مگر ہونٹ سیے بیٹھا ہوں
لوگ بھی اب مِرے دروازے پہ کم آتے ہیں
میں بھی کچھ سوچ کے زنجیر دئیے بیٹھا ہوں
زندگی بھر کے لیے روٹھ کے جانے والے
میں ابھی تک تری تصویر لیے بیٹھا ہوں
کم سے کم ریت سے آنکھیں تو بچیں گی قیصرؔ
میں ہواؤں کی طرف پیٹھ کیے بیٹھا ہوں

قیصر الجعفری
 

زیرک

محفلین
پھر جو کٹتی نہیں اس رات سے خوف آتا ہے
سو ہمیں شامِ ملاقات سے خوف آتا ہے
ماند پڑتے ہوئے جذبات سے خوف آتا ہے
عمرِ آخر کی شروعات سے خوف آتا ہے
پھونکتا جاتا ہے یہ شعلۂ تخلیق مجھے
اب تو اپنے ہی کمالات سے خوف آتا ہے
موت کا ڈر بھی بڑی شے ہے، سرِ دست مگر
زندگانی کے طلسمات سے خوف آتا ہے
ق
نئی تقریبِ مواخات سے خوف آتا ہے
مجھے آئندہ فسادات سے خوف آتا ہے
اب تو مل کر یہ دعا تک بھی نہیں کر سکتے
اب تو اِس ہاتھ کو اُس ہاتھ سے خوف آتا ہے
ایسے ٹھہرے ہوئے ماحول میں رحمان حفیظ
ان گزرتے ہوئے لمحات سے خوف آتا ہے

رحمان حفیظ
 

زیرک

محفلین
ہوئے ہجرت پہ مائل پھر مکیں آہستہ آہستہ
بہت سی خواہشیں دل سے گئیں آہستہ آہستہ
ہوا اس سانحے میں غیر جانبدار نکلی، سو
دھوئیں کی ایک دو موجیں اٹھیں آہستہ آہستہ
مجھے ماہِ منور نے بہت الجھائے رکھا اور
سمندر کھا گئے میری زمیں آہستہ آہستہ
مِری آنکھیں گماں کے سحر میں ہی تھیں مگر دل میں
نمو پاتا گیا آخر یقیں آہستہ آہستہ
میں آخر کار اپنے آپ پر ایمان لے آیا
جھکائی اپنے قدموں میں جبیں آہستہ آہستہ
مجھے آئندہ کے پھیلاؤ کو ترتیب دینا ہے
سو اب ہوتا ہوں خود میں تہ نشیں آہستہ آہستہ

رحمان حفیظ
 

زیرک

محفلین
ہمارے حق میں کسی کے جفر، رمل کوئی نئیں
جو اہلِ دل کے مسائل ہیں، ان کا حل کوئی نئیں
عجیب شہر میں میرا جنم ہوا ہے جہاں
بدی کا حل کوئی نئیں، نیکیوں کا پھل کوئی نئیں
مِرے لیے نہ رکے کوئی موجِ استقبال
میں رزقِ لمحۂ حاضر ہوں، میرا کل کوئی نئیں
مرا سخن، مرا فن دوسروں کی خاطر ہے
درخت ہوں، مِری قسمت میں اپنا پھل کوئی نئیں
ہم اہلِ فکر و نظر جس میں جینا چاہتے ہیں
جہانِ گِل! تِری تقویم میں وہ پَل کوئی نئیں
میں آپ اپنے گلے لگ کے خود سے کہتا رہا
حفیظ ! چل کوئی نئیں، اے حبیب چل کوئی نئیں

رحمان حفیظ
 

زیرک

محفلین
سب گناہ و حرام چلنے دو
کہہ رہے ہیں نظام چلنے دو
ضد ہے کیا وقت کو بدلنے کی
یونہی سب بے لگام چلنے دو
بیکسی، بھوک اور مصیبت کا
خوب ہے اہتمام چلنے دو
اہلیت کیا ہے میری چھوڑ اسے
نام کافی ہے، نام چلنے دو
مفت مرتا نہیں تو راہوں میں
تجھ کو دیتے ہیں دام، چلنے دو
تم ہو زاہد تو جاؤ گھر پہ ٹِکو
مئے کدے میں تو جام چلنے دو
تیرے اجداد کے تھے آقا ہم
خود کو بھی زیر دام چلنے دو
حق کو چھوڑو، کتاب کو چھوڑو
حکمِ حاکم سے کام چلنے دو
ہم جو اترے تو پھر اندھیرا ہے
سو یہی غم کی شام چلنے دو
شاہ جائے گا، شاہ آئے گا
تم رہو گے غلام ، چلنے دو

اتباف ابرک
 

زیرک

محفلین
زاہد بدل گیا ہے سیانا بدل گیا
ڈنکے کی چوٹ پر ہے زمانہ بدل گیا
الٹا ہماری نسل نے سارا نظام یوں
اپنے بڑوں سے بچوں کا رتبہ بدل گیا
کہہ دو مسافروں سے نہ آئیں وہ لوٹ کر
رستہ یہ ان کے جاتے ہی رستہ بدل گیا
پلٹا تھا احتیاط سے ہم نے ورق ورق
جانے یہ کس مقام پہ قصہ بدل گیا
آرام، عیش خوب ہے ویران گھر میں اب
تنہائیوں سے جب ڈرے، کمرہ بدل گیا
اتنا تو گر نہ پایا کہ گالی میں دے سکوں
گالی پہ مسکرایا، ہاں اتنا بدل گیا
پلکیں بھی ڈرتے ڈرتے جھپکتا ہوں آج کل
اس بیچ گر جہان کا نقشہ بدل گیا
صیاد نے اڑا دیا پنچھی فضاؤں میں
پنچھی کو یوں لگا ہے کہ پنجرہ بدل گیا
سب کچھ بدل گیا ہے بجز ایک عذر کے
کیا کیجئے جناب زمانہ بدل گیا
ابرک ہمیں بدل کے یوں خوش یار لوگ ہیں
جیسے کوئی خراب سا پرزہ بدل گیا

اتباف ابرک
 
Top