ابن رضا
لائبریرین
زیست بے رنگ تھی تجدیدِ وفا سے پہلے
میں تغافل میں رہا، شوقِ لقا سے پہلے
میں وہ احسان فراموش ہوں جس کا مالک
تھام لیتا ہے اُسے لغزشِ پا سے پہلے
کیا یہ کم لُطف و کرم ہے کہ وہ سُن لیتا ہے
میرا ہر حرفِ دُعا عرضِ دُعا سے پہلے
جب بھی گھیرا ہے مجھے گردشِ حالات نے، وہ
مُلتفت مجھ پہ ہُوا رنج و بلا سے پہلے
پیش کرتا ہوں جو اشکوں کا میں نذرانہ اُسے
بخش دیتا ہے مجھے آہ و بکا سے پہلے
اُس کے دربار میں پہنچا تو یہ احساس ہوا
میں شناسا ہی نہ تھا جُود و سخا سے، پہلے
لَوٹنا پڑتا نہ در در سے مجھے خالی ہاتھ
مانگ لیتا جو رضا اپنے خدا سے، پہلے
آخری تدوین: