زیست بے رنگ تھی تجدیدِ وفا سے پہلے

زیست بے رنگ تھی تجدیدِ وفا سے پہلے
میں تغافل میں جو تھا، شوقِ لقا سے پہلے
میں وہ احسان فراموش ہوں جس کا مالک
تھام لیتا ہے اُسے لغزشِ پا سے پہلے

کیا یہ کم لُطف و کرم ہے کہ وہ سُن لیتا ہے
میرا ہر حرفِ دُعا عرضِ دُعا سے پہلے

جب بھی گھیرا ہے مجھے گردشِ حالات نے، وہ
مُلتفت مجھ پہ ہُوا رنج و بلا سے پہلے

پیش کرتا ہوں جو اشکوں کا میں نذرانہ اُسے
بخش دیتا ہے مجھے آہ و بکا سے پہلے

اُس کے دربار میں پہنچا تو یہ احساس ہوا
میں شناسا ہی نہ تھا جُود و سخا سے، پہلے

لَوٹنا پڑتا نہ در در سے مجھے خالی ہاتھ
مانگ لیتا جو رضا اپنے خدا سے، پہلے

واہ ،ابن رضا بھائی ،کیا کہنے !
مابدولت نے جس مصرعے کو بھی لیکر داد دینی چاہی تو اگلے مصرعے کو زیادہ اثرانگیز پایا۔
 

ابن رضا

لائبریرین
واہ رضا صاحب ایک دم سندر ۔
اشعار اچھے ہیں لیکن مطلع کچھ ہلکا ہے ، دوسرے مصرع میں "جو تھا" کچھ جچ نہیں رہا
پسند آوری کے لیے ممنون ہوں
مطلعِ کے مصرع ثانی کی کمزوری کا اعلان میں گذشتہ ایک مراسلے میں کر چکا ہوں ابھی زیرِ غور ہے. مناسب پیش رفت پر تدوین کردی جائے گی. خوش رہیے
 

اوشو

لائبریرین
سبحان اللہ
خوبصورت کلام جناب
ایک ایک شعر لاجواب
داد قبول فرمائیے محترم
شاد آباد رہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ ابن رضا بھائی !

کیا ہی خوبصورت کلام ہےا ور کیا لاجواب افکار ہیں۔

ہر ہر شعر اپنی مثال آپ ہے۔

اس خوبصورت کلام پر خاکسار کی جانب سے ڈھیروں داد اور مبارکباد!

اللہ اپنا لطف و کرم فرمائے آپ پر۔
 
Top