سائنسی شاعری

سیما علی

لائبریرین
سو عافیت اسی میں ہے
کہ ہم اندھیرے میں رہیں
اور اپنے اپنے نیوٹرونز سے
تعلقات ٹھیک رکھیں
تابکار نفرتوں کی زد میں ایک بار آگئے
تو پھر محبتوں کا اختیار ختم سمجھو۔!! (چین ری ایکشن)’’خودکلامی‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
جان!
تمہیں شاید نہ خبر ہو
بعض محبتیں
اپنے بلڈ گروپ میں
’’او۔منفی‘‘ ہوتی ہیں! ’’مجبوری کی ایک بات ‘‘(خود کلامی)
 

سیما علی

لائبریرین
پروین شاکرنے سائنس کے اس تھیم کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنا یا ہے اور اپنی ایک نظم کا عنوان اس سائنسی اصطلاح کو بنایا ہے۔
سارے عناصر
اپنی پہلے سے تعین کردہ ہیت میں
کہیں سے جمع ہوتے ہیں
پھر اس کے بعد بے حد خامشی سے
واپسی کے طے شدہ رستوں پہ اک دن چل نکلتے ہیں
ازل سے زندگی کا دائرہ
یونہی سفر میں ہے۔۔۔!’’دی مِسِنگ لِنک‘‘(خود کلامی)
 

سیما علی

لائبریرین
پانی دیکھا،نہ زمیں دیکھی،نہ موسم دیکھا
بے ثمر ہونے کا الزام شجر پر رکھا (خودکلامی)

بائیولوجیکل سائنس
پروین شاکر
 

سیما علی

لائبریرین
میں اپنے سورج سے
ہزاروں نوری سال کے فاصلے پر ہوں
کائنات کی بے اندازہ وسعت میں
اِک اور ہی بولی بولتے ہیں
وہ ویولینتھ
جس پر میرا اور ان کا رابطہ قائم تھا (خودکلامی)
 

شمشاد

لائبریرین
دعویٰ بہت سُنا ہے ریاضی میں آپ کا
طولِ شبِ فراق ذرا ناپ دیجیے
خلیل بھائی بنتِ افتخار نے جیسے لکھا ہے، وہ بھی غلط ہے اور جو آپ نے لکھا ہے، وہ بھی غلط ہے۔

ریختہ پر اکبر الہ آبادی کی پوری غزل ہے :

اپنی گرہ سے کچھ نہ مجھے آپ دیجئے
اخبار میں تو نام مرا چھاپ دیجئے

دیکھو جسے وہ پانیر آفس میں ہے ڈٹا
بہر خدا مجھے بھی کہیں چھاپ دیجئے

چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں
اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے

دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو
طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے


سنتے نہیں ہیں شیخ نئی روشنی کی بات
انجن کی ان کے کان میں اب بھاپ دیجئے

اس بت کے در پہ غیر سے اکبرؔ نے کہہ دیا
زر ہی میں دینے لایا ہوں جان آپ دیجئے
 
Top