جب خالق ہونے کا دعویدار اپنی خلقت کے متعلق وہ شدید غلطیاں کر رہا ہو جو کہ زمانہ جاہلیت کے عرب بھی کرتے تھے، تو پھر یقیناً ایسے کے متعلق خالق ہونے کا دعویٰ درست نہیں۔
اہل مذہب کو سامنے کی بات تو نظر نہیں آتی ہے مگر دعوے کرتے ہیں وہ تدبر و تفکر کے۔
درحقیقت انہوں نے تدبر و تفکر پر پہرے لگا رکھے ہیں اور کسی صورت اجازت نہیں دیتے کہ انسان بذاتِ خود مذہب کی حقانیت جانچنے کےلیے تدبر و تفکر کرے۔
اور جب انسان ایمانداری کے ساتھ تحقیق کی راہ پر نکلتا ہے تو اُس وقت اسکا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بلک وہ فقط منصف ہوتا ہے اور اُسے فقط دلیل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ابتک سائنس اور مذہب کی بحث کے دوران جو دلائل میرے سامنے آئے ہیں، وہ مذہب میں کمزوریوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور مذہب سائنس کے سوالات کا جواب دینے سے عاجز ہے۔
تو اس کا مطلب سیدھی طرح سے شفاف طریق سے آپ ملحد ہیں اور آپ کا سارا غصہ اسلام ہی کیوں ہے؟ سائنس کے ایک دو پیچ پڑھ لینے سے آپ نے کائنات سر نہیں کرلیا ابھی قیامت تک کائنات کو پھیلنا ہے پھر ایک دم سب کچھ رک جانا ہے عربی میں قیامہ کا مطلب ہی یہی ہے کہ کائنات اپنا کام چھوڑ دیگی ، سب کچھ رک جائے گا، مٹی آپس میں ملنے سے انکار کردیگا، اندر کی چیزیں باہر پھینگ دیگا،، پہاڑ آزاد ہوجائنگے، انسان صرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہوگا کہ اس زمین کو ہوکیا گیا ہے،،،
1960ء میں ایک برطانوی سائنس دان پیٹرہِگز اور بلجیم کے ماہرطبیعات فرانکوئس اینگلرٹ اور علم طبیعیات کے بعض دوسرے محققین کائنات اور اس کی ابتدا پر تحقیقات میں مصروف تھے اور یہ جاننا چاہتے تھے کہ جب کائنات کا وجود نہیں تھا اور فضا میں صرف مختلف قسم کی توانائی کی لہریں تھیں، تو کس طرح اس توانائی سے ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات نہ صرف پیدا ہوئے بلکہ مستحکم ہوئے۔ ان میں کمیت (mass) پیدا ہوئی، یہ آپس میں جڑے، جس کے نتیجے میں ایٹم تشکیل ہوا اور اس طرح مادہ پیدا ہوا جس سے کائنات وجود میں آئی۔ عموماً ہوتا یوں ہے کہ برقی قوت کے زیراثر پروٹون تو پیدا ہوجاتے ہیں، لیکن اگر ان میں کمیت پیدا نہ ہو تو چندلمحات میں معدوم ہوجاتے ہیں، لہٰذا یہ بالکل غیرمستحکم ہوتے ہیں لیکن اگر ان میں کمیت پیدا ہوجائے تو یہ بڑے طویل عرصے تک قائم رہتے ہیں۔ ان معلومات کی بنیاد پر محققین نے یہ نظریہ قائم کیا کہ ایٹمی ذرّات، یعنی پروٹون اور دوسرے ذرّات میں کمیت پیدا ہونے کی وجہ ایک اور ذرّہ ہے۔ یہ ابتداے کائنات میں ایک پل کے لیے پیدا ہوا اور ایٹمی ذرّات کو کمیت دے کر خود معدوم ہوگیا اور ایٹمی ذرّات مستحکم ذرّات بن گئے۔
پروفیسر ہِگز اور ان کے ساتھی محققین نے اس ذرّے کو ’ہِگز بوسَن‘ کے نام سے موسوم کیا اور عام اصطلاح میں اسے ’خدائی ذرّہ‘ کا نام دیا گیا اور یہی ذرّہ سائنس دانوں کی نگاہ میں کائنات کی وجۂ تخلیق قرار پایا۔ یہ تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی ذرّہ 1960ء سے سائنس دانوں کی تحقیق کی آماج گاہ رہا ہے۔اس ذرّے کی تلاش کے لیے ہِگز اور الگرٹ نے ایک تجرباتی منصوبہ اور طریقۂ عمل تشکیل دیا۔ فرانس اور سوئٹزرلینڈ کی سرحد پر سرن (Cern) کے علاقے میں کثیراخراجات کرکے (27کلومیٹر طویل ) ایک سرنگ نُما تجربہ گاہ بنائی گئی جس میں توانائی کو مادے میں تبدیل کرنے اور اس مقصد کے لیے ’ہِگز بوسَن‘ ذرّے یا تخیلاتی عنصر کو حاصل کرنے اور اس کے ذریعے پروٹونز میں کمیت پیدا کرکے ان میں استحکام پیدا کرنے اور مادہ حاصل کرنے کے لیے مختلف آلات نصب کیے گئے۔ اس سرنگ کو لارج ہڈرون کولائڈر (Large Hadron Collider) کا نام دیا گیا۔ گذشتہ چندبرسوں سے اپنے پروگرام کے مطابق مختلف تجربات کیے گئے اور 2012ء میں وہ ہِگزبوسَن نامی تخیلاتی لطیف عنصر یا ادنیٰ ایٹمی (sub-atomic) ذرّہ، جسے کائنات کی تخلیق کی وجہ قرار دیا جاتا ہے اور کائنات کا بنیادی جز سمجھا جاتا ہے، کا مشاہدہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔اس کامیابی کا اعلان سوئٹزرلینڈ کے سرِن ہال میں ایک پُرہجوم کانفرنس میں کیا گیا۔
اس ذرّے کے بارے میں تحقیقات کرنے والے سائنس دانوں کے مختلف مشاہدات اور تاثرات میں ایک مشاہدہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب ہِگز بوسَن بھاری توانائی لے کر آیا تو تمام عناصر اس کی وجہ سے آپس میں جڑنے لگے تو اس سے ماس یا کمیت پیدا ہوگئی۔ تجربے کے دوران میں پروٹونز نے 27 کلومیٹر لمبی سرنگ کے ایک سیکنڈ میں 11ہزار سے زیادہ چکر لگائے۔
دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایسا ذرّہ ہے جس کا وزن 125.3 گیگاالیکٹرون ولٹس (volts) تھا۔ یہ ذرّہ ہرایٹم کے مرکزے میں موجود پروٹونز سے 133گنا بھاری تھا۔ایک خیال یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ نیا دریافت شدہ ہِگزبوسَن ہی ہے۔ یہ اس صدی کی سب سے بڑی دریافتوں میں سے ایک اہم دریافت ہوگی۔
سال 2013ء کا ’رائل سویڈیش اکیڈمی آف سائنس‘ کا نوبل انعام برطانیہ کی ایڈنبرا یونی ورسٹی کے طبیعیات کے 84سالہ اعزازی پروفیسر پیٹر ہِگز (Peter Higgs) اور بلجیم کے 80سالہ پروفیسر فرانکوئس اینگلرٹ (Francois Englert) نے مشترکہ طور پر حاصل کیا ہے۔ یہ نوبل انعام 1.2 ملین ڈالر کا ہے جو انھیں ’ہِگزبوسَن‘ یا ’خدائی ذرّہ‘ کی صبرآزما 50 سالہ تحقیقات پر دیا گیا ہے۔ اس انعام کے ہمراہ تعریفی بیان میں کہا گیا ہے: یہ اس طریقۂ عمل کے نظری اکتشاف پر دیا گیا ہے جس سے ادنیٰ ایٹمی ذرّوں میں وزن کے ظہور یا پیدایش کی تشریح ہوتی ہے۔ اُس تجربے سے یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ اس میں ایک بنیاhiggs bosonدی ذرّے کی پیدایش کی نشان دہی ہوئی جو اٹلاس اور سی ایم ایس تجربات کے ذریعے سرن (سوئٹزرلینڈ) کی تجربہ گاہ میں ایک بڑے ہڈرون تصادمی آلے میں وقوع پذیر ہوا۔
اس بگز بوسن کے متعلق پیش کی گئی معلومات کے نتیجہ میں سائنس دانوں کا دعویٰ ہے کہ ’ہِگزبوسَن‘ نے کائنات کی تخلیق کے وقت پروٹونز اور نیوٹرونز کو جوڑ دیا تھا اور ان کے اندر ایک کمیت پیدا ہوگئی تھی جس کے بعد کبیر دھماکا ہوا (بگ بینگ) اس وقت ایک سوہزار ملین ڈگری سنٹی گریڈ تپش پیدا ہوئی اور کائنات تیز روشنی سے بھرگئی۔ یہ کائنات کی ابتدا تھی۔
کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے۔ پھر ہم نے (اللہ نے) انھیں جدا کیا۔۔۔ کیا وہ ہماری خلّاقی کو نہیں مانتے؟۔۔۔ (الانبیاء ۲۱:۳۰۔۳۲)
اسی علیحدگی کو سائنس بِگ بینگ کا نام دیتی ہے، اور سکڑے ہوئے سے پھیلنے کے عمل کی تصدیق بھی سائنس ہی کرتی ہے.
1922ء میں ایک روسی ماہر ریاضیات الگزینڈر فریڈمین نے ریاضی کے معادلوں (mathemetical equations) کے نتائج سے واضح کیا کہ کائنات جامد شے نہیں ہے بلکہ وسعت پذیر ہے۔ 1927ء میں جارجس لماٹری نے کائنات میں ستاروں کے جھرمٹوں کا زمین سے دُور ہوتے جانے کا مشاہدہ کیا اور وضاحت کی کہ ایسا ہونا دراصل کائنات کی وسعت پذیری کے باعث ہے۔ اسی فاضل امریکی ماہرطبیعیات نے 1931ء میں یہ خیال بھی پیش کیا کہ جب مستقبل میں کائنات پھیلتی جارہی ہے تو لازم ہے کہ ماضی میں یہ سکڑی ہوئی تھی اور اس آخری حد تک سکڑی ہوئی تھی کہ جس کے بعد اس کا سکڑنا ممکن نہ تھا۔ لہٰذا یہ ایک نقطے کی مانند تھی اور یہ کہ اس حالت سے قبل کائنات کا کوئی وجود نہ تھا۔ وقت اور زماں اور مکان کا بھی وجود نہ تھا۔ یوں یہ کائنات بے وجودی کی کیفیت میں تھی اور اس حالت سے وجود پذیر ہوئی۔ 1924ء تا 1939ء میں ایک امریکی ماہرفلکیات ایڈون حبل کے مشاہدات نے لماٹری کے خیالات پر مہرتصدیق ثبت کردی۔
اسلام میں دیگراقوام اور اہل مذاہب کے حقوق:
ملحدین سیکولر اور دیگر لادین لوگوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ بڑے زوروشور سے کیا جاتا ہے کہ اسلام اور اس کے ماننے والے دوسرے مذہب والوں کو برداشت کرنے کے روادار نہیں، یہ ایک گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے،اس کا حقیقت سے کوئی و اسطہ نہیں، یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی عالمی سازش کا ایک حصہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام دین ِرحمت ہے، اس کا دامنِمحبت ورحمت ساری انسانیت کو محیط ہے۔ اسلام نے اپنے پیرو کاروں کوسخت تاکید کی ہے سرکش ظالم وجابر اور فسادی قسم کے لوگوں کے علاوہ دیگر اقوام اور اہل مذاہب کے لوگ جو امن پسند لوگ ھے ان کے ساتھ مساوات، ہمدردی، غم خواری ورواداری کا معاملہ کریں، اور اسلامی نظامِ حکومت میں ان کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی، بھید بھاؤ،امتیاز کا برتاؤ نہ کیا جائے۔ ان کی جان ومال، عزت وآبرو، اموال و جائداد اور انسانی حقوق کی حفاظت کی جائے۔ ارشاد قرآنی ہے:
لَایَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (الممتحنہ:۸)
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ان لوگوں سے جو لڑے نہیں دین کے سلسلہ میں اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان کے ساتھ کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک، بے شک اللہ چاہتا ہے انصاف والوں کو۔
اس آیت کریمہ کی تفسیرمیں اہل علم لوگ فرماتے ھے کہ مکہ میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو آپ مسلمان نہ ہوئے اور مسلمان ہونے والوں سے ضد اور پرخاش بھی نہیں رکھی نہ دین کے معاملہ میں ان سے لڑے، نہ ان کو ستانے اورنکالنے میں ظالموں کے مددگار بنے، اس قسم کے غیر مسلموں کے ساتھ بھلائی اور خوش خلقی سے پیش آنے کو اسلام نہیں روکتا، جب وہ تمہارے ساتھ نرمی اور رواداری سے پیش آتے ہیں تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور دنیا کو دکھلادو کہ اسلامی اخلاق کا معیار کس قدر بلند ہے،اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر غیر مسلموں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرپیکار ہے تو تمام غیرمسلموں کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیں ایسا کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔(حاشیہ: ترجمہ شیخ الہند:ص:۷۲۹)
دیگر مذاہب والوں کے ساتھ تعاون اور عدم تعاون کا اسلامی اصول یہی ہے کہ ان کے ساتھ مشترک سماجی وملکی مسائل ومعاملات میں، جن میں شرعی نقطہ ٴ نظر سے اشتراک وتعاون کرنے میں کوئی ممانعت نہ ہو ان میں ساتھ دینا چاہیے۔
دیگر مذاہب یا اقوام کے کچھ لوگ اگر مسلمانوں سے سخت عداوت اور دشمنی بھی رکھتے ہوں تب بھی اسلام نے ان کے ساتھ رواداری کی تعلیم دی ہے:ارشاد ربانی ہے:
اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَینَہ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ
(سورہٴ فصلت:۲۴)
بدی کا بدلہ نیکی سے دو پھر جس شخص کے ساتھ تمہاری عداوت ہے وہ تمہارا گرم جوش حامی بن جائے گا۔
کفار مکہ کے ساتھ حسن سلوک:
وہ کونسا ظلم تھا جوکفار ومشرکین نے مکہ مکرمہ میں سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اور صحابہٴ کرام کے ساتھ روا نہ رکھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو جادوگر، شاعر اور کاہن کہاگیا، آپ صلى الله عليه وسلم کو جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئیں، آپ صلى الله عليه وسلم پر پتھروں اور سنگریزوں کی بارش کی گئی، آپ صلى الله عليه وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ صلى الله عليه وسلم کا گلا گھونٹا گیا، نماز کی حالت میں آپ صلى الله عليه وسلم پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی، آپ صلى الله عليه وسلم کے قتل کے منصوبے تیار کیے گئے۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں آپ صلى الله عليه وسلم کومحصور رکھا گیا۔جس میں ببول کے پتے کھاکر گزارہ کرنے کی نوبت آئی، طائف میں آپ کو سخت اذیت پہنچائی گئی، لوگوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کو گالیاں دیں اور اتنا زدوکوب کیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے نعلین مبارک خون سے لبریز ہوگئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیاگیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو وہاں بھی سکون واطمینان سے رہنے نہیں دیاگیا۔ اور طرح طرح کی یورشیں جاری رکھی گئیں، یہودیوں کے ساتھ مل کر رحمت ِ عالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند مہم چھیڑ دی گئی۔ فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کو موت اپنے سامنے نظر آرہی تھی ان کو خطرہ تھا کہ آج ان کی ایذا رسانیوں کا انتقام لیا جائے گا،سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا: اے قریشیو! تم کو کیا توقع ہے،اس وقت میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟ انھوں نے جواب دیا: ہم اچھی ہی امید رکھتے ہیں، آپ کریم النفس اور شریف بھائی ہیں اور کریم اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں آپ نے ارشاد فرمایا:
”میں تم سے وہی کہتا ہوں جو یوسف عليه السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا، آج تم پر کوئی الزام نہیں؛ جاؤ تم سب آزاد ہو“(زاد المعارج:۱/۴۲۴)
کیا انسانی تاریخ اس رحم وکرم کی کوئی مثال پیش کرسکتی ہے؟
یہودیوں کے ساتھ حسن سلوک:
یہودیوں کے مختلف قبائل مدینہ میں آباد تھے، نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ ہجرت فرماجانے کے بعد، ابتداءً یہود غیر جانب داراور خاموش رہے لیکن اس کے بعد وہ اسلام اور نبی رحمت صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کے تئیں اپنی عداوت اور معاندانہ رویہ زیادہ دنوں تک نہ چھپا سکے۔ انہوں نے سرکارِ دوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی خفیہ سازشیں کیں، بغاوت کے منصوبے بنائے، آپ صلى الله عليه وسلم کے کھانے میں زہر ملایا آپ صلى الله عليه وسلم کو شہید کرنے کی تدبیریں سوچیں، اسلام اور مسلمانوں کو زَک پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، اس کی ایک وجہ یہودیوں میں حسد، تنگ دلی، اورجمود وتعصب کا پایاجانا تھا۔ دوسرے ان کے عقائد باطلہ، اخلاق رذیلہ اور گندی سرشت تھی۔ لیکن قربان جائیے رحمت ِ عالم صلى الله عليه وسلم پر کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ نہایت اعلیٰ اخلاق کامظاہرہ کیا۔
مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد سرکارِدوعالم صلى الله عليه وسلم نے یہودیوں کے ساتھ ایک اہم معاہدہ کیا تاکہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خوش گوار تعلقات قائم ہوں، اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ رواداری کا برتاؤ کریں اور مشکلات میں ایک دوسرے کی مدد کریں، معاہدہ کی چند دفعات یہ تھیں۔
۱- تمام یہودیوں کو شہریت کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انھیں حاصل تھے۔
۲- مسلمان تمام لوگوں سے دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔
۳- اگر کوئی مسلمان کسی یثرب والے کے ہاتھ مارا جائے تو بہ شرط منظوری ورثاء قاتل سے خوں بہا لیا جائے گا۔
۴- باشندگان مدینہ میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو اس کے اہل وعیال سے اس کی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔
۵- موقع پیش آنے پر یہودی مسلمانوں کی مدد کریں گے، اور مسلمان یہودیوں کی ۔
۶- حلیفوں میں سے کوئی فریق اپنے حلیف کے ساتھ دروغ گوئی نہیں کرے گا۔
۷- مظلوموں اور ستم رسیدہ شخص کی خواہ کسی قوم سے ہو مدد کی جائے گی۔
۸- یہود پر جو بیرونی دشمن حملہ آور ہوگا تو مسلمانوں پر ان کی امداد لازمی ہوگی۔
۹- یہود کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔
۱۰- مسلمانوں میں سے جو شخص ظلم یا زیادتی کرے گا تو مسلمان اسے سزادیں گے۔
۱۱- بنی عوف کے یہود ی مسلمانوں میں ہی شمار ہوں گے۔
۱۲- یہودیوں اور مسلمانوں میں جس وقت کوئی قضیہ پیش آئیگا تو اس کا فیصلہ رسول الله کریں گے۔
۱۳- یہ عہد نامہ کبھی کسی ظالم یاخاطی کی جانب داری نہیں کریگا۔ (سیرة ابن ہشام: ص:۵۰۱- تا- ۵۰۴)
آپ نے ملاحظہ فرمایا اس معاہدے میں کس فیاضی اور انصاف کے ساتھ یہودیوں کو مساویانہ حقوق دیے گئے ہیں۔
سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اس معاہدے کے مطابق یہودیوں کے ساتھ برتاؤ کرتے رہے لیکن یہودیوں نے اس معاہدے کی پاس داری نہیں کی، مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کی مدد کی اور اسلام اور مسلمانوں کے ہمیشہ درپے آزار رہے۔
عیسائیوں کے ساتھ حسن سلوک:
عیسائیوں کے ساتھ بھی سرورعالم صلى الله عليه وسلم نے مثالی رواداری برتی۔ مکہ مکرمہ اور یمن کے درمیان واقع ”نجران“ کا ایک موقر وفد آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو مسجد میں ٹھہرایا انھوں نے سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مذہبی معاملات میں گفتگو کی عیسائیوں کے ساتھ اس موقع پر ایک تاریخی معاہدہ ہوا، جس میں عیسائیوں کو مختلف حقوق دینے پر اتفاق کیاگیا ہے۔معاہدہ کی دفعات درج ذیل ہیں:
(۱) ان کی جان محفوظ رہے گی۔
( ۲) ا ن کی زمین جائداد اور مال وغیرہ ان کے قبضے میں رہے گا۔
(۳) ان کے کسی مذہبی نظام میں تبدیلی نہ کی جائے گی۔ مذہبی عہدے دار اپنے اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے۔
(۴) صلیبیوں اور عورتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے گا۔
(۵) ان کی کسی چیز پر قبضہ نہ کیاجائے گا۔
(۶) ان سے فوجی خدمت نہ لی جائے گی۔
(۷) اور نہ پیداوار کا عشر لیا جائے گا۔
(۸) ان کے ملک میں فوج نہ بھیجی جائے گی۔
(۹) ان کے معاملات اور مقدمات میں پوراانصاف کیا جائے گا۔
(۱۰) ان پر کسی قسم کا ظلم نہ ہونے پائے گا۔
(۱۱) سود خواری کی اجازت نہ ہوگی۔
(۱۲) کوئی ناکردہ گناہ کسی مجرم کے بدلے میں نہ پکڑا جائے گا۔
(۱۳) اور نہ کوئی ظالمانہ زحمت دی جائے گی۔ (دین رحمت:۲۳۹، بحوالہ: فتوح البلدان بلاذری)
مذکورہ بالا جو حقوق اسلام نے دیگر اقوام اور رعایا کو عطا کیے ہیں ان سے زیادہ حقوق تو کوئی اپنی حکومت بھی نہیں دے سکتی۔
جو غیر مسلم اسلامی حکومت میں رہتے ہیں اس کے متعلق اسلامی نقطہ ٴ نظر یہ ہے کہ وہ اللہ ورسول کی پناہ میں ہیں اسی لیے ان کو ذمی کہا جاتاہے اسلامی قانون یہ ہے کہ جو غیر مسلم (ذمی) مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہو تو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتواس کا دفع کرنا ضروری ہے۔ (المبسوط للسرخسی:۱/۸۵)
منافقین کے ساتھ حسن سلوک:
مدینہ منورہ میں ایک طبقہ ان مفاد پرستوں کا بھی پیدا ہوگیا تھا جو زبان سے ایمان لے آیا تھا مگر دل ایمان ویقین سے یکسر خالی تھے، یہ لوگ اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر کو دیکھ کر بظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہوگئے تھے، مسلمانوں کے تئیں سخت کینہ، بغض اور حسد رکھتے تھے، ان کا سربراہ عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا، یہ مدینہ کا بااثر آدمی تھا اور سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے مدینہ کے لوگ اس کو حکمراں بنانے کی تیاری کررہے تھے۔ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کی ہجرت کے بعد اس کی آرزو خاک میں مل گئی۔ اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے باوجود دل سے کافر ہی رہا، منافقین نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کی تمام ترکوششیں کیں، نبی رحمت صلى الله عليه وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں، کافروں اور یہودیوں سے مل کر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے منصوبے تیار کیے،ان سب شرارتوں اور عداوتوں کے باوجود سرکاردوعالم صلى الله عليه وسلم اور مسلمانوں نے ان کے ساتھ بھی حسن اخلاق اور رواداری ہی کا معاملہ فرمایا عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ بھی سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم نے پڑھائی۔ ان کے لڑکے کی درخواست پر اپنا جبہ مبارکہ اس کے کفن کے لیے مرحمت فرمایا۔
اسلامی حکومت میں غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے حقوق:
اسلام تمام افراد بشر اور طبقات انسانی کے لیے رحمت ورافت کا پیکر بن کر آیا تھا، اس لیے اس نے غیر مسلم اقوام اور رعایا کے ساتھ مثالی رحم وکرم، مساوات وہمدردی، اور رواداری کا معاملہ کیا ہے اور ان کو انسانی تاریخ میں پہلی بار وہ سماجی اور قومی حقوق عطا کیے جو کسی مذہب یا تمدن والوں نے دوسرے مذہب وتمدن والوں کو کبھی نہیں دیئے۔ جوغیر مسلم اسلامی ریاست میں قیام پذیر ہوں اسلام نے ان کی جان، مال، عزت وآبرو اور مذہبی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔اور حکمرانوں کو پابند کیا ہے کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مساوی سلوک کیا جائے۔ ان غیر مسلم رعایا(ذمیوں) کے بارے میں اسلامی تصوریہ ہے کہ وہ اللہ اور رسول کی پناہ میں ہیں۔ا س بناء پر اسلامی قانون ہے کہ جو غیر مسلم، مسلمانوں کی ذمہ داری میں ہیں ان پر کوئی ظلم ہوتو اس کی مدافعت مسلمانوں پر ایسی ہی لازم ہے جیسی خود مسلمانوں پر ظلم ہوتو اس کا دفع کرنا ضروری ہے۔(مبسوط سرخسی:۱/۸۵)
اگر کوئی مسلمان ذمی پرظلم کرتا ہے تو یہ مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ سخت ہے ۔(درمختار مع ردالمحتار:۵/۳۹۶)
جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہی حقوق ذمیوں کو بھی حاصل ہوں گے، نیز جو واجبات مسلمانوں پر ہیں وہی واجبات ذمی پر بھی ہیں۔ ذمیوں کا خون مسلمانوں کے خون کی طرح محفوظ ہے اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح محفوظ ہے۔(درمختار کتاب الجہاد)
اسلام نے طے کیا ہے کہ جو شخص اس غیرمسلم کو قتل کرے گا جس سے معاہدہ ہوچکا ہے وہ جنت کی بوسے بھی محروم رہے گا جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک پہنچتی ہے۔(حدیث شریف:ابن کثیر:۲/۲۸۹)
ذمیوں کے اموال اور املاک کی حفاظت بھی اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
سرکار دوعالم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے: سنو جو کسی معاہد (غیرمسلم) پر ظلم کرے، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا،یا طاقت سے زیادہ اس کو مکلف کرے گا یا اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے گا تو میں قیامت کے دن اس کی طرف سے دعوے دار بنوں گا۔(مشکاة شریف:ص:۳۵۴)
غیرمسلم رعایا کو اتنی آزادی حاصل تھی کہ ان کے تعلیمی ادارے آزاد ہوتے اوران کے شخصی قوانین کے لیے عدالتیں بھی آزاد رہیں۔
ذمیوں کو جو حقوق اسلام میں عطا کیے گئے ہیں وہ معاہدئہ اہل نجران کے ضمن میں تفصیل سے بیان کئے جاچکے ہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے والوں کے سلسلہ میں اسلامی ہدایات:
مکہ مکرمہ میں مسلمانوں پر کفار مظالم کے پہاڑ توڑرہے تھے،ان کا جینا دوبھر کردیا تھا ہر طرح سے ا ن کو پریشان کیا جارہا تھا، مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ چلے جانے کے بعد بھی سکون میسر نہ آیا، اور کفار یہود اور منافقین کی مشترکہ سازشوں کا شکارر ہے۔ مدینہ کو تاخت وتاراج کرنے اور مسلمانوں کو ملیا میٹ کرنے کے ارادے سے ایک لشکر جرار نے مدینہ پر چڑھائی کردی اس انتہائی مجبوری کی حالت میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہ گیا تھا کہ تلوار کا مقابلہ تلوار سے کیاجائے چناں چہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت دی اور فرمایا:حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں،اس واسطہ کہ ان پر ظلم ہوا۔اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے وہ لوگ، جن کو نکالاگیا ان کے گھروں سے اور دعویٰ کچھ نہیں سوائے اس کے،کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔(سورہ حج:آیت:۳۹)
جہاد کی اجازت ظلم وستم کے مقابلہ کے لیے دی گئی اور برسرپیکار لوگوں کے سلسلہ میں بے نظیر رواداری اور حسن اخلاق کی تعلیم بھی دی گئی جو کسی بھی دوسرے مذہب میں نہیں ملتی چناں چہ اس سلسلہ میں ہدایات درج ذیل ہیں:
(۱) جنگ میں خود پیش قدمی سے روکا(بقرہ:۱۹۱)
(۲) ظلم وزیادتی کی ممانعت کی (بقرہ:۱۹۰)
(۳) جنگ کی بس اس وقت تک اجازت دی جب تک فتنہ وفساد فرونہ ہوجائے(حج:۱۳۹)
(۴) دشمن کے قاصدوں کو امن دیا (ہدایہ ونہایہ:۳/۴۷)
(۵) دشمن کی عورتوں، بچوں،معذوروں ، کو مارنے سے منع کیا(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)
(۶) سرسبز کھیتوں اور پھل دار درختوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائی(تاریخ ابن خلدون:۲/۴۸۹)
(۷) عبادت گاہوں کو ڈھانے اور تارک الدنیا عابدوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل کرنے سے روکا (ایضاً)
(۸) اسیران جنگ کو تکلیف پہنچانے کی ممانعت فرمائی۔
(۹) دشمن اپنے کو کم زور دیکھ کر صلح کی درخواست کرے تو اسے قبول کرنے کی ہدایت فرمائی۔
(۱۰) پناہ میں آنے والے غیر مسلم کو امن دینے اور عافیت سے رکھنے کی تاکید فرئی۔ (سورئہ توبہ:۳۶)
(۱۱) محض مال غنیمت کے لیے جہاد کرنے سے روکا۔(ابوداؤد:۱/۳۴۸)
(۱۲) لوٹ کے مال کو حرام قرار دیا۔ (تاریخ ابن خلدون)
(۱۳) معاہدہ کرنے والے ذمیوں کی جان ومال کی پوری حفاظت کا مسلمانوں کو پابند فرمایا۔ (دین رحمت:۲۳۹،بحوالہ فتوح البلدان)