سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

مہوش علی

لائبریرین
قرآن: شھاب ثاقب کچھ اور نہیں بلکہ شیاطین کو مارنے کا ذریعہ ہیں
meteor.jpg


قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ زلزلہ اللہ کی نشانی ہے جس سے وہ گمراہ قوموں کو تباہ کرتا ہے۔ مگر جدید سائنس نے ثابت کیا کہ زلزلہ زمین میں موجود ٹیکٹونک سلوں کی حرکت کی وجہ سے آتا ہے اور جو قوم بھی ان سلوں پر آباد ہوتی ہے، وہ تباہی کا شکار ہوتی ہے، چاہے وہ کافر قوم ہو یا پھر مسلمان قوم ہو۔

اسی طرح قران دعویٰ کرتا ہے کہ شھاب ثاقب اور کچھ نہیں بلکہ فقط اللہ کی طرف سے شیاطین کو مارنے کا ذریعہ ہیں۔
اب کون ہے جو اس ماڈرن دنیا میں ایسے دعویٰ کو قبول کرے گا؟
مزید کہانی یہ ہے کہ شیاطین (یا پھر جن) وغیرہ ایک دوسرے کے کندھوں پر سوار ہو کر دنیا کے آسمان تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر اللہ کی بتائی ہوئی باتیں سن لیتے ہیں اور پھر ایک دوسرے کے نیچے موجود جن تک پہنچاتے جاتے ہیں۔ چنانچہ اللہ انہی شیاطین (جنات) سے اللہ کے احکامات کو بچانے کے لیے ان شھاب ثاقب کو مارتا ہے۔

سورۃ 37، آیت 6 تا 10:
بے شک ہم نے دنیا کے پہلے آسمان کو ستاروں اور سیاروں کی زینت سے آراستہ کر دیا۔ اور (انہیں) ہر سرکش شیطان سے محفوظ بنایا۔ وہ (شیاطین) عالمِ بالا کی طرف کان نہیں لگا سکتے اور اُن پر ہر طرف سے (انگارے) پھینکے جاتے ہیں۔ اُن کو بھگانے کے لئے اور اُن کے لئے دائمی عذاب ہے۔ مگر جو (شیطان) ایک بار جھپٹ کر (فرشتوں کی کوئی بات) اُچک لے تو شہاب ثاقب (عربی آیت: شِهَابٌ ثَاقِبٌ) اُس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔

سورۃ 67: آیت 15:
ہم نے تمہارے قریب کے آسمان (یعنی زمین کے 7 آسمانوں میں سے پہلے آسمان) کو چراغوں (ستاروں) سے آراستہ کیا ہے اور اُنہیں شیاطین کو مار بھگانے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔

سورۃ 72، آیت 8 تا 10:
(جن کہتے ہیں)اور یہ کہ ہم (جنوں) نے آسمان کو ٹٹولا تو دیکھا کہ وہ پہرے داروں سے پٹا پڑا ہے اور شہابوں (عربی: شُهُبًا) کی بارش ہو رہی ہے۔ اور یہ کہ پہلے ہم (جن) سن گن لینے کے لیے آسمان میں بیٹھنے کی جگہ پا لیتے تھے، مگر اب جو چوری چھپے سننے کی کوشش کرتا ہے وہ اپنے لیے گھات میں ایک شہاب ثاقب (عربی: شِهَابًا) لگا ہوا پاتا ہے۔

Sunan Ibn Majah » The Book of the Sunnah - كتاب المقدمة »
It was narrated from Abu Hurairah that:
The Prophet said: "When Allah decrees a matter in heaven, the angels beat their wings in submission to his decree (with a sound) like a chain beating a rock. Then "When fear is banished from their hearts, they say: 'What is it that your Lord has said?' They say: 'The truth. And He is The Most High, The Most Great." He said: 'Then the eavesdroppers (from among the jinn) listen out for that, one above the other, so (one of them) hears the words and passes it on to the one beneath him. The Shihab (shooting star) may strike him before he can pass it on to the one beneath him and the latter can pass it on to the soothsayer or sorcerer, or it may not strike him until he has passed it on. And he ads one hundred lies to it, and only that word which was overheard from the heavens is true."

Sahih Muslim » The Book on Salutations and Greetings (Kitab As-Salam)
'Abdullah. Ibn 'Abbas reported:
A person from the Ansar who was amongst the Companions of Allah's Messenger (ﷺ) reported to me: As we were sitting during the night with Allah's Messenger (ﷺ), a meteor shot gave a dazzling light. Allah's Messenger (ﷺ) said: What did you say in the pre-Islamic days when there was such a shot (of meteor)? They said: Allah and His Messenger know best (the actual position), but we, however, used to say that that very night a great man had been born and a great man had died, whereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: (These meteors) are shot neither at the death of anyone nor on the birth of anyone. Allah, the Exalted and Glorious, issues Command when He decides to do a thing. Then (the Angels) supporting the Throne sing His glory, then sing the dwellers of heaven who are near to them until this glory of God reaches them who are in the heaven of this world. Then those who are near the supporters of the Throne ask these supporters of the Throne: What your Lord has said? And they accordingly inform them what He says. Then the dwellers of heaven seek information from them until this information reaches the heaven of the world. In this process of transmission (the jinn snatches) what he manages to overhear and he carries it to his friends. And when the Angels see the jinn they attack them with meteors. If they narrate only which they manage to snatch that is correct but they alloy it with lies and make additions to it.​

یاد رہے کہ قرآن ستارے اور meteor میں کوئی فرق نہیں کرتا۔
meteor کا نظریہ فقط ماڈرن سائنس نے پیش کر کے بتلایا ہے کہ یہ "ٹوٹے ہو ستارے" ہوتے ہیں جو کہ زمین کی کشش کے سبب جب زمین کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی رفتار کی وجہ سے چنگاریاں اڑانے لگتے ہیں۔

مسلمانوں کی 1300 سالہ تاریخ میں (سائنس کی ترقی سے قبل) "جمیع" مسلمان شہاب ثاقب کو دیکھ کر کہتے تھے شیطان (جن) کو سزا ملی ہے۔
لیکن عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ آج کے مسلمان شھاب ثاقب کو دیکھ کر یہ نہیں کہتے، مگر پھر بھی تیار نہیں ہیں کہ قرآن کی اس غلطی کو تسلیم کریں، اسے دیومالائی قصہ مانیں، اس کھل کر انکار کریں کہ meteor کا شیطان سے کوئی تعلق نہیں ۔​
 
آخری تدوین:

آصف

محفلین
آپکو پھر اپنے مذہب اور اسکی 1400 سالہ تاریخ کا علم نہیں۔
آپکا معاملہ مذہب کے ساتھ نہیں 1400 میں مختلف لوگوں کے اعمال سے متعلق ہے؟؟؟

میں سعودی مفتیان ہی نہیں، بلکہ 1400 سالوں سے اس مذہب کے ماننے والے مسلمانوں کی مثال دے رہی ہوں

یعنی کے آپ پھر مذہب اسلام سے نہیں 1400 سال میں پیش آنے والے وقعات سے پریشان ہیں

یہی تو مذہب کے منافقانہ رویے ہیں۔ ایک طرف "لکم دینکم ولی دین" کے دعوے، اور دوسری طرف ارتداد کے نام پر لوگوں کا قتل، مذہب پر تنقید کے جرم میں سزائیں، مذہب پر تنقید پر پابندیاں۔

مذہب اسلام کے خلاف آپ کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے ہاں 1400سال کے دوران لوگوں نے آپ کی طرح اپنی سمجھ کے حساب سے جو کچھ کیا ہے اس کے بارے میں کافی دلائل رکھتی ہیں۔
منافقانہ رویے کی یہ بڑی ہی بے تکی دلیل ہے۔ آپ کہیں کہ قرآن لکم دینکم ولی دین کے بعد کہتا ہے کہ جو اپنے مذہب سے پھر جائے اسے قتل کر دو، بتائیں کہ اس میں لکھا ہے کہ جو مذہب اسلام پر تنقید کرے اسے سزا دو، یا اس پر پابندی لگا دو۔
اب آپ کے پاس ہر سوال کا جواب سعودی مفتی ہے تو اس پر بندہ کیا بحث کر سکتا ہے؟؟

بیشک۔مسلمان اور یہودی اور صابی (یعنی ستارہ پرست) اور نصرانی جو بھی اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ (المائدہ)

آپ کو مذہب اسلام کی سمجھ ہی نہیں آئی تو اس میں اسلام کا قصور نہیں۔ سعودی مفتیوں کا ضروری کہا جا سکتا ہے۔ یا ایسے تمام مفتیوں وعلماء کا جنہو ں نے اپنی روزی روٹی کیلئے مسلمانوں کو دینِ خالص سے دور رکھا۔


میں تو شروع سے "دلیل" کے نام پر مذہب سے ریفرنسز نکال کر دکھا رہی ہوں۔
مثلآ؟؟؟؟ یہی کے سعودی مفتی کہتے ہیں زمین چپٹی ہے؟؟ یہ دلائل ہیں آپ کی نظر میں۔
حسرت ہی رہے گی کہ آپ لوگوں کے افعال کے علاوہ مذہب اسلام سے کوئی خاص دلیل پیش کریں !!!!
 

مہوش علی

لائبریرین
سب سے پہلے تو بہت شکریہ کہ آپ نے مجھ تک معلومات پہنچائی ان کو پڑھنے کے بعد ایک گزارش ہے کہ میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں ۔۔ میں نے مان لیا ہے نیند تھالس سپیسز ہے ۔۔مگر اس کو مکمل ماننے کے لیے مجھے جوابات چاہیے ۔۔ ماشاء اللہ آپ کا طریقہ کار اچھا ہے بتانے کا ۔۔

کچھ چیزیں ہیں جو کہ آپکے سوالات کے حوالے سے میرے ذہن میں ہیں۔ شاید یہ کچھ مدد کر سکیں۔
  • ایک سوال جو میرے ذہن میں بار بار پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ: سپیز کی بنیاد : ری پروڈکشن پر رکھی گئی ہے . یعنی وہ نوع جو آپس میں ری پرو ڈیوس کر سکتے ہیں . اس لحاظ سے نیند تھالس کا انسان سے انٹر بریڈ کرنا اور سائنس دانوں کا دعوی کرنا کہ یہ Hybridization سے وجود میں آئے ایک اور مخمصے کا شکار کر دیا ہے . آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے . اگر یہ واقعی سچ ہے تو مجھے اس کے سارے حقائق جاننے ہیں کیونکہ ہم سائنس کی وہ باتیں تو مان رہیں جو ہمارے آنے سے پہلے کی تھیں اب چونکہ ہضم نہیں ہو رہی تو نہ مانیں ... مان لینا چاہے مگر تمام سولات کو دور کرنے کے بعد . اس ضمن میں پہلا سوال تو میرا اوپر ہی لکھا جا چکا ہے ... سپیز کی درجہ بندی ری پرو ڈکشن کی بنیاد پر ہوئی . اگر نہیں تو کس بنیاد پر ہے َ ؟ اگر ری پرو ڈکشن نہیں تو دو سپیسز کی انٹر بریڈنگ کا سوال ؟؟
درجہ بندیوں کے اصولوں کو اتنا لچک دار ہونا چاہیے کہ وہ استثنائی صورتحال کو اپنے اندر سما سکیں۔
یہ درجہ بندی کوئی "پتھر پر لکیر" نہیں ہے اور میرے خیال میں اسکے لیے اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر ماڈرن سائنسی حقائق ماضی کی درجہ بندیوں میں نہیں سما رہے تو ان درجہ بندیوں کے اصولوں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ نئے سائنسی حقائق کو فقط اس لیے مسترد کر دیا جائے کہ وہ پہلے سے بنائی گئی درجہ بندیوں کے اندر نہیں سماتے۔
چنانچہ یہ چیز موضوع کے حوالے سے ایک "نان ایشو" ہے۔

تیسرا سوال یہ ہے کہ : سائنس دان کہتے ہیں کہ نیند تھالس اس وجہ سے ختم ہوگئے کیونکہ وہ افزائش نسل نہیں کر سکے تھے .
مجھے نہیں علم کہ آپ "افزائش نسل" کے نتیجے پر کیسے پہنچی ہیں۔
بلا شک و شبہ کسی سائنسدان نے بھی یہ نہیں کہا ہے کہ ان میں "افزائش نسل" کی اہلیت ختم ہو گئی تھی۔
بلکہ انکی نسل کے خاتمے کی وجہ وہی بیان کی جا رہی ہے جو کہ آج بہت سی مخلوقات کے خاتمے کی وجہ ہے، یعنی "ماڈرن انسان" کی بڑھتی ہوئی آبادی۔

سوالنمبر4:نیندر تھالس کی نوع کا جینیاتی مواد خوردبینی جانوروں سے لیا گیا اور اس بات کا ذکر آپ کے دئے گئے لنک میں موجود ہے . کیا بیکٹریا اور فنجائی کے اندر نامیاتی بدلاؤ سے ان سے لیے گئے انزائمز نے کوئی کیمیائی تبدیلی ڈی این میں نہیں کی ہوگی ََ؟
میرے خیال میں اسکا جواب بھی اسی آرٹیکل میں موجود ہے کہ سائنسدانوں کی اس ٹیم نے اس مسئلے پر کیسے قابو پایا۔
نیز یہ مسئلہ اس نیدرتھال کی ہڈیوں کے ساتھ پیش آیا جو کہ رومانیہ میں ملی تھیں۔ جبکہ جرمنی کے ادارے "ماکس پلانک" کی ٹیم کئی نیندرتھالوں کی ہڈیوں کے ڈی این اے پر کام کر رہی ہے (لنک


پانچواں سوال : ڈی این اے کو mtDNA سے لیا گیا جو کہ ڈی این اے کا ایک جزو ... اس جزو سے ڈی این اے کی sequencing کی گئی .. ایک نامکمل چیز کیسے مکمل کو پیدا کر سکتی .. اس بات پر سائنس دان خود معترض ہیں اور ان کے لنک میں اوپر بھی دے چکی ہوں . ان کے مطابق اس سے کبھی بھی ایک مکمل Genome نہیں بنایا جا سکتا ہے

مجھے نہیں علم کہ آپ کیسے یہ کہہ رہی ہیں کہ mtDNA فقط ڈی این اے کا ایک جزو ہے۔۔۔ جہاں تک میں نے بیالوجی پڑھی ہے تو mtDNA اپنی جگہ مکمل ہے جبکہ نیوکلیئر ڈی این اے اپنی جگہ مکمل ہے۔ انکے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان میں کوئی ایک بھی دوسرے کا جزو ہے۔

آپکے دوسرے بیان کا بھی مجھے علم نہیں کہ یہ بات کہاں ہے کہ سائنسدانوں نے فقط mtDNA پر کام کیا ہے جبکہ "نیوکلیئر ڈی این اے" کی
sequencing نہیں کی گئی؟

اس لنک پر آپ اس حوالے سے پڑھ سکتی ہیں:

http://humanorigins.si.edu/evidence/genetics/ancient-dna-and-neanderthals/sequencing-neanderthal-dna
اس لنک کے مطابق سائنسدانوں کی 2 ٹیموں کو پہلی کامیابیاں 2005 اور 2006 میں ہی ہو گئی تھیں کہ وہ نیوکلئر ڈی این اے کی sequencing کریں۔
پھر سن 2010 میں ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ نے نیندرتھال نیوکلئر ڈی این اے کے حوالے سے نیندرتھال کے گنوم کی مکمل اور کامیاب ڈرافٹ sequencing کی۔
اس مرتبہ انہوں نے 3 مختلف علاقوں سے ملنے والی نیندرتھال کی ہڈیوں سے ڈی این اے حاصل کیا، اور پھر انہوں نے اس دفعہ وہ طریقے کار استعمال کیے کہ جس سے انسانی contamination کے مسائل تقریباً ختم ہو گئے۔
مجھے کوئی سائنسی رپورٹ نظر نہیں آئی ہے جنہوں نے ماکس پلانک ادارے کی اس 2010 والی رپورٹ کو چیلنج کیا ہو یا کوئی اور علمی تنقید کی ہو۔

A high-quality Neandertal genome sequence
اگر چہ کہ ماکس پلانک ادارے والے سن 2010 تک genome sequence بنا چکے تھے، مگر انکی ریسرچ یہاں سے اور آگے بڑھی جب سن 2010 میں ہی انکو ایک اور نیندرتھال کی ایڑی سے بہتر حالت میں ڈی این اے ملا۔ اس دفعہ اور زیادہ ایکوریسی کے ساتھ انہوں نے نیوکلئر ڈی این اے سے high-quality Neanderthal genome sequence تیار کیا۔ اسکے متعلق تفصیلات انہوں نے اپنے ویب سائیٹ پر مہیا کر دی ہیں۔
لنک


چھٹا سوال : اس جزو کی سیکیونسنگ کا کوئی سادہ سا لنک دے دیں یا کوئی وڈیو کہ کیسے سیکونسنگ کی گئی ہوسکے تو اس کا کوڈ پورا بتادیں اور نیند تھالس سپیشز کے ڈی این اے کا کوڈ بھی اور اس انسان کا کاوڈ بھی جس س سے انٹر بریڈ نگ کی گئی ہے .
ماکس پلانک ادارہ اس ضمن میں مدد کر سکتا ہے (لنک)۔ یا پھر شاید یہ ادارہ بھی (لنک
سوالنمر9 : اگر ہم سچ جاننے کی جستجو رکھتے ہیں اس سلسلے میں ہمیں اس کی کمپیوٹرائزڈ تصویر کے بجائے ایک کلون بنا کر دکھانا چاہیے ... ایک مشابہت سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ایک کلون وجود میں نہیں آجاتا تب تک تو اس ڈی این اے کے مواد پر بھروسہ کرنا پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے ... کیونکہ کلوننگ ہی بتا سکتی ہے کہ یہ ڈی این اے کتنا ٹھیک ہے .. سو وہ کلون کیوں نہیں بنایا گیا ... سائنس دان ہونے کے ناطے اگر میرے پاس یہ سط ذرائع ہوتے تو میں سب سے پہلے اس تیار شدہ ڈی این اے کا کلون بناتی کہ جو مفروضہ میں نے بنایا وہ کتنا ٹھیک ہے . ایک تجربہ سے دوسرا مفروضہ بنا کر ایک مکمل تصویر میں دنیا کو ضرور دیکھتی تاکہ باریک بینیوں میں جانے کے بجائے اس کلون کی دیکھ ساری دنیا یقین کر لیتی .

اگر نیندرتھال کا کلون بنانا اتنا ہی آسان ہوتا تو ماکس پلانک ادارے والے یقیناً ایسا ہی کرتے۔
مگر جانوروں کے مقابلے میں انسانی کلون بنانا انتہائی مشکل کام ہے۔ اسکی وجوہات آپ کو اس لنک پر مل جائیں گی۔

http://www.livescience.com/32083-cloning-people-biology.html

Since the 1950s when researchers cloned a frog, scientists have cloned dozens of animal species, including mice, cats, sheep, pigs and cows.
In each case, researchers encountered problems that needed to be overcome with trial and error, said Dr. Robert Lanza, chief scientific officer at the biotech company Advanced Cell Technology, which works on cell therapies for human diseases, and has cloned animals.
With mice, researchers were able to use thousands of eggs, and conduct many experiments, to work out these problems, Lanza said. "It’s a numbers game," he said.
But with primates, eggs are a very precious resource, and it is not easy to acquire them to conduct experiments, Lanza said.
In addition, researchers can't simply apply what they've learned fromcloning mice or cows to cloning people.
For instance, cloning an animal requires that researchers first remove the nucleus of an egg cell. When researchers do this, they also remove proteins that are essential to help cells divide, Lanza said. In mice, this isn't a problem, because the embryo that is ultimately created is able to make these proteins again. But primates aren't able to do this, and researchers think it may be one reason that attempts to clone monkeys have failed, Lanza said.
ویسے مجھے کیوں لگتا ہے کہ اگر کلون بن بھی جائے، تب بھی مسلمان یقین نہیں کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ پھر کوئی نئی ڈیمانڈ کر دیں۔ شاید یہ میری بدگمانی ہو۔

جبکہ میرا ماننا یہ ہے کہ کلون کے بغیر ہی سائنس نے genome sequence کے ذریعے یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ثابت کر دی ہے کہ انسانوں اور نیندرتھال کے مابین انٹربریڈنگ ہوئی ہے اور ہم فقط 6 ہزار سال قبل تشریف لانے والے جناب آدم کی اولاد نہیں، بلکہ آج سے 28 ہزار سال پہلے ختم ہو جانے والے نیندرتھال کی اولاد بھی ہیں۔
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
منافقانہ رویے کی یہ بڑی ہی بے تکی دلیل ہے۔ آپ کہیں کہ قرآن لکم دینکم ولی دین کے بعد کہتا ہے کہ جو اپنے مذہب سے پھر جائے اسے قتل کر دو، بتائیں کہ اس میں لکھا ہے کہ جو مذہب اسلام پر تنقید کرے اسے سزا دو، یا اس پر پابندی لگا دو۔
اب آپ کے پاس ہر سوال کا جواب سعودی مفتی ہے تو اس پر بندہ کیا بحث کر سکتا ہے؟؟

آصف صاحب
آپ مجھ پر ناحق ہی الزام لگا رہے ہیں۔
یہ میں نہیں ہوں بلکہ پیغمبر اسلام ہیں جنہوں نے صحیح حدیثوں میں ارتداد کی سزا قتل بتلائی ہے۔
اور یہ میں نہیں ہوں بلکہ سعودی مفتی حضرات ہیں جو قتل کی سزا دے رہے ہیں۔
اور فقط سعودی مفتی تنہا نہیں ہیں بلکہ 1400 سال کے مسلمان اور تابعین اور صحابہ انکے ساتھ شامل ہیں، اور حتیٰ کہ پیغمبر اسلام بھی۔

چنانچہ مجھے آپکا یہ الزام قبول نہیں۔
اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آج آپ کو حدیث قبول نہیں، تو الزام قرآن پر چلا جائے گا کہ اسکے دعوے صاف صاف آیات کے دعوے کے برخلاف اسکی آیات صاف صاف نہیں بلکہ الجھی الجھی ہیں اس لیے 1400 سال تک کے "جمیع" مسلمان گمراہ ہو کر حدیث کے پیچھے بھاگتے رہے۔

مثلآ؟؟؟؟ یہی کے سعودی مفتی کہتے ہیں زمین چپٹی ہے؟؟ یہ دلائل ہیں آپ کی نظر میں۔
حسرت ہی رہے گی کہ آپ لوگوں کے افعال کے علاوہ مذہب اسلام سے کوئی خاص دلیل پیش کریں !!!!

آصف صاحب:
آپ میرے دلائل میں غیر منصفانہ طور پر ڈنڈی مار رہے ہیں۔
میرے دلائل تو قرآن کی ان درجن بھر آیات پر مشتمل ہیں جہاں قرآن زمین کو فرش جیسا چپٹا بیان کر رہا ہے۔
پھر ثانوی دلائل اسلام کے 1400 سال کے مفسرین اور علماء ہیں جو کہ قرآن کی انہی صاف صاف (یا الجھی الجھی) آیات کی وجہ سے زمین کو گول نہیں بلکہ چپٹی کہتے آئے۔
اسکے بعد جا کر کہیں سعودی مفتی حضرات کی باری آئی کہ انہوں نے بھی قرآن کی انہی صاف صاف (یا الجھی الجھی) آیات کی وجہ سے آج بھی زمین کے گول ہونے کا انکار کیا ہے۔

حسرت ہی رہی کہ قرآن نے کوئی ایک تو صاف آیت پیش کی ہوتی کہ زمین گول ہے۔
اسکے مقابلے میں صاف صاف آیات ہیں کہ زمین فرش کی طرح ہیں اور انہی صاف صاف آیات کی وجہ سے پچھلے 1400 سالہ کے مسلمان بمع اس صدی کے سعودی مفتی اعظم زمین کو چپٹی کہنے پر مصر ہیں۔
 
آخری تدوین:
سب سے پہلے تو بہت شکریہ کہ آپ نے مجھ تک معلومات پہنچائی ان کو پڑھنے کے بعد ایک گزارش ہے کہ میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں ۔۔ میں نے مان لیا ہے نیند تھالس سپیسز ہے ۔۔مگر اس کو مکمل ماننے کے لیے مجھے جوابات چاہیے ۔۔ ماشاء اللہ آپ کا طریقہ کار اچھا ہے بتانے کا ۔۔



  • ایک سوال جو میرے ذہن میں بار بار پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ: سپیز کی بنیاد : ری پروڈکشن پر رکھی گئی ہے . یعنی وہ نوع جو آپس میں ری پرو ڈیوس کر سکتے ہیں . اس لحاظ سے نیند تھالس کا انسان سے انٹر بریڈ کرنا اور سائنس دانوں کا دعوی کرنا کہ یہ Hybridization سے وجود میں آئے ایک اور مخمصے کا شکار کر دیا ہے . آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے . اگر یہ واقعی سچ ہے تو مجھے اس کے سارے حقائق جاننے ہیں کیونکہ ہم سائنس کی وہ باتیں تو مان رہیں جو ہمارے آنے سے پہلے کی تھیں اب چونکہ ہضم نہیں ہو رہی تو نہ مانیں ... مان لینا چاہے مگر تمام سولات کو دور کرنے کے بعد . اس ضمن میں پہلا سوال تو میرا اوپر ہی لکھا جا چکا ہے ... سپیز کی درجہ بندی ری پرو ڈکشن کی بنیاد پر ہوئی . اگر نہیں تو کس بنیاد پر ہے َ ؟ اگر ری پرو ڈکشن نہیں تو دو سپیسز کی انٹر بریڈنگ کا سوال ؟؟


  • دوسرا سوال میرا یہ ہے کہ چالیس ہزار سال میں فوسلز کے معدنی ذخائر بن جاتے ہیں مگر یہ ہر جاندار کی ہاف لائف پر منحصر ہوتا ہے اس لحاظ سے نیند تھالس کے فوسلز کی ہاف لائف کیا ہے َ ؟ تاکہ ان کی ریڈیو میڑنگ کے بارے میں اندازہ میں خود لگا سکوں اور جان سکوں ان کی عمر کیا ہے ََ؟؟

  • تیسرا سوال یہ ہے کہ : سائنس دان کہتے ہیں کہ نیند تھالس اس وجہ سے ختم ہوگئے کیونکہ وہ افزائش نسل نہیں کر سکے تھے . ان کی افزائش نسل کا دورانینہ 28 ہزار سال ہے ... یہ بھی ایک لمبا عرصہ ہے . کیا وجو ہات تھیں کہ وہ ختم ہوگئے ؟ کس وجہ سے سروائو نہیں کر سکے . پھر یہ اگر ان کی انٹر بریڈنگ کو درجہ بندی کے تصور سے ہٹا کر دیکھا جائے تو بھی وہ پہلے کون سے انسان تھے جن سے انہوں نے انٹر بریڈنگ کی .. اور ان انسانوں کا ڈی این اے میرے خیال میں 90 فیصد تک تو ایک جیسا ہونا چاہیے .. اس ضمن میں مجھے آپ اب بتائیں .

  • سوالنمبر4:نیندر تھالس کی نوع کا جینیاتی مواد خوردبینی جانوروں سے لیا گیا اور اس بات کا ذکر آپ کے دئے گئے لنک میں موجود ہے . کیا بیکٹریا اور فنجائی کے اندر نامیاتی بدلاؤ سے ان سے لیے گئے انزائمز نے کوئی کیمیائی تبدیلی ڈی این میں نہیں کی ہوگی ََ؟

  • پانچواں سوال : ڈی این اے کو mtDNA سے لیا گیا جو کہ ڈی این اے کا ایک جزو ... اس جزو سے ڈی این اے کی sequencing کی گئی .. ایک نامکمل چیز کیسے مکمل کو پیدا کر سکتی .. اس بات پر سائنس دان خود معترض ہیں اور ان کے لنک میں اوپر بھی دے چکی ہوں . ان کے مطابق اس سے کبھی بھی ایک مکمل Genome نہیں بنایا جا سکتا ہے

  • چھٹا سوال : اس جزو کی سیکیونسنگ کا کوئی سادہ سا لنک دے دیں یا کوئی وڈیو کہ کیسے سیکونسنگ کی گئی ہوسکے تو اس کا کوڈ پورا بتادیں اور نیند تھالس سپیشز کے ڈی این اے کا کوڈ بھی اور اس انسان کا کاوڈ بھی جس س سے انٹر بریڈ نگ کی گئی ہے .

  • سوال نمبر7: آپ نے جو لنک دیا اس میں بیکٹریا کا انزائم استعمال کیا گیا .. وہ کیوں گیا ؟ اور اس سے 0.18% ڈی این اے کی مشابہت انسان سے تھے جو کہ 1 فیصد بھی نہیں ہے . اس طریقے کے مطابق سادہ امینو ایسڈ کو جوڑ کر ( وہ بھی mt DNA) کے امینو ایسڈ ... کو انٹروڈیوس بیکٹریا کے اندر کروا کے جینٹک انجیرنگ کروائی گئی ؟؟ اگر ایسا ہے تو اس میں ہم نے کون سا خام مواد ڈالا جس سے ہم مکمل ایک جینم حاصل کر سکیں ؟؟

  • سواسلنبر 8: اگر انسان کی نیندر تھالس سے انٹر بریڈنگ ہوئی تو کوڈنگ کیسے ہوئی ڈی این اے کی ؟ اس ڈی این اے کا کوڈ کیا ہے ؟ اور اگر میوٹیشن ہوجائیں تو یہ بھی خطرہ کہ نیندر تھالس سے انسان پیدا ہی نہ ہوں ... جو کہ دو مختلف انواع میں متوقع بھی ہے . اس کے بعد اگر میو ٹیش دو انواع پیدا ہونے کا خطرہ ہوا ا.. ایک تو پرائیمیٹس کے آرڈر کی Family Hominidae کے جتنے بھی جانوروں کے ڈی این اے ہوں گے ان سے مشابہ ہونے چاہیے . اس سلسلے میں مجھے وضاحت درکار ہے

  • سوالنمر9 : اگر ہم سچ جاننے کی جستجو رکھتے ہیں اس سلسلے میں ہمیں اس کی کمپیوٹرائزڈ تصویر کے بجائے ایک کلون بنا کر دکھانا چاہیے ... ایک مشابہت سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ایک کلون وجود میں نہیں آجاتا تب تک تو اس ڈی این اے کے مواد پر بھروسہ کرنا پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے ... کیونکہ کلوننگ ہی بتا سکتی ہے کہ یہ ڈی این اے کتنا ٹھیک ہے .. سو وہ کلون کیوں نہیں بنایا گیا ... سائنس دان ہونے کے ناطے اگر میرے پاس یہ سط ذرائع ہوتے تو میں سب سے پہلے اس تیار شدہ ڈی این اے کا کلون بناتی کہ جو مفروضہ میں نے بنایا وہ کتنا ٹھیک ہے . ایک تجربہ سے دوسرا مفروضہ بنا کر ایک مکمل تصویر میں دنیا کو ضرور دیکھتی تاکہ باریک بینیوں میں جانے کے بجائے اس کلون کی دیکھ ساری دنیا یقین کر لیتی .

  • سوالنمبر 10 : ایک م. ڈی این اے نے مجھے یہ بتایا کہ یہ صرف بتایا کہ یورپ کے لوگ میں مرد یا عورت میں سے کوئی ماں باپ ہوگا،، اگر میں ایسا سوچوں کہ نیدر تھالس نے یورپ کی کسی عورت کے ساتھ انٹربریڈنگ کی تو کیا یہ مٖفروضہ ٹھیک ہوگا ... اس صورت میں یہ کہا جا سکستا ہے کہ نیند تھالس افریقہ سے ہوں گے کیوںکہ وہاں کے مکین یا حالات اس کے بر عکس کی کسی یورپی نیندر تھالس نے افریقی انسان سے انٹر بریڈ کیا ہے .. مگر انٹر بریڈنگ کے اس تناظر میں سائنس کا پورا نامن کلیچر کا کیا ہوگا جس میں ''نوع '' کو افزائسش نسل کی بنیاد پر ایک منفرد درجہ دیا گیا اور اگر ایسا ہے تو پھر نیندر تھالس آپس میں بریڈ کرسکتے ہں کسی اور ''نوع؛'' کے ساتھ نہیں .. اس سے ہمارا سائنس کا کنگ ڈم متاثر ہوگا... اگر نہیں ہوگا تو کیسے َََ؟؟؟

  • سوالنمبر11:امینو ایسڈ میں چار بنیادی پالی مرز ہوتے ہیں .. اس ڈی این کو ری انجنیر کرنے کے لیے ہم نے سائیٹو سائن اور اور تھائمائن کی 13 فیصد فریگمنٹ کیوں لیا اور باقی دو پالیمز ہونے چاہیے تھے ڈی این کے ،، یعنی ایڈانائن اور گوا نائن ... جس کا ذکر اس لنک میں نہیں ہے ، یہی لکھا گیا ہے کہ ایک اور پالمر 51 فیصد لیا گیا ... وہ کونسا پالیمر تھا ؟ اور اس کے بعد 13 او51 کو جمع کرو باقی کچھ 100-64 ٓ برابر 34 .. باقی 34 فیصد کیا ڈلا گیا ... اس کے بعد اس کو ہم نے اس میں سے دونوں ایکس اور وائے کروموسومز نکال کر یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ میل ہے ... ... ایک نامکمل پالیمرز کی چین سے یہ فیصلہ کیسے ہوگیا ؟ اور اسکی الیلز ا مشرقی ایشیا اور امریکہ سے ملتی ہے .. جینیناتی مواد کی کیس خصوصیت سے یہ پتا چلایا گیا؟ کیا ان کی تصویر بنا کر .. اگر ایک تصویر یا ایک سمپل تھا اس نے دو جگہوں کی دلیل کیسے دے دی َ ؟


  • سوالنبر 12: جنیم کے پروپورشن کا ٹیبل سمجھ نہیں آرہا ..الیل شئیرنگ کے ٹیبل کی وضاحت کردیں مجھے سمجھ نہیں آئی اسکی .


  • سوالنمر 13:کل میں نے ایک لنک شئیر کیا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا ان کا اوورل اور نیزل ٹریک انسانوں سے مختلف ی ہے اور اب جو لنک دیا ہے آپ نے اس میں بتایا گیا ہے کہ ان کا وذڈم دانت انسانوں جیسا ہے اور ان میں مولرز بھی تھے ، تو ان میں انسزر اور کینائین بھی تھے کیونکہ انسان میں تو یہ تینوں قسموں کے دانت ہوتے ہیں .

  • سوالنمر 14 :اس لنک میں یہ بھی بتایا گیا کہ سائنس دان ابھی تک مکمل یقین نہیں رکھتے ان کو اور معلومات درکار ہیں .. انہوں نے پورا جنیوم تیار کر لیا ہے پھر کس قسم کی معلومات درکار ہیں ؟؟؟

  • سوالنبر 15ؒ: ان چار پالیمرز پر پورا ڈی این اے مشتمل ہے ان کی آپس مین اوور لیپنگ یا بدلاؤ آگیا ہے ... اس کے بعد ڈی این اے اصلی حالت میں نہیں ... کیمیائی عمل کا ایک اصول ہے کہ تخریب کے تعمیر نہیں کی جاسکتی ہے اور کی جائے تو بھی وہ اصل حالت میں نہیں ہوتی .. اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے .
  • سوالنمر 16ؒ :اس لنک میں یہ لکھا ہوا کہ جینم مکمل طور پر آلود ہو چکا ہے کہ اس کی تفریق تک ممکن نہیں رہی اس لیے ڈی این اے کی اصل حالت کیا تھی سائنس دان یہ جان نہیں سکے اور اتنا جان سکے کہ کچھ جینز ان کے انسانوں سے ملتے ہیں ... اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیونکہ میری تو وہی بات ہے جب اصل پورا نہیں ہے اور اس اصل کی خامیاں کہاں کہاں ہیں یہ بھی معلوم نہں ہو رہا تو نقل کیسے یعنی ری انجنیر کیسے کیا جاسکتا ہے اور اگر ری انجنیر نہیں ہو سکتا تو ان کی درجہ بندی کیسے ؟

بہت ہی دلچسپ سوال ہیں۔
سائنس سائنس کرنے والے جواب نہ دے سکیں گے کہ ان کا انداز ہی غیر سائنسی ہے
لگتا ہے کہ اپ مائکیرو بیالوجی اور بائیو کسیمٹری اور مالیکولیر بائیولوجی کی معلومات رکھتے ہیں
میں اپ کے سوال پر مزید سوال کروں گا۔ اگرچہ یہ میری فیلڈ نہیں ہے
 

مہوش علی

لائبریرین
بہت ہی دلچسپ سوال ہیں۔
سائنس سائنس کرنے والے جواب نہ دے سکیں گے کہ ان کا انداز ہی غیر سائنسی ہے
لگتا ہے کہ اپ مائکیرو بیالوجی اور بائیو کسیمٹری اور مالیکولیر بائیولوجی کی معلومات رکھتے ہیں
میں اپ کے سوال پر مزید سوال کروں گا۔ اگرچہ یہ میری فیلڈ نہیں ہے

خان صاحب،
اس دنیا میں سائنس کی فیلڈ اتنی زیادہ وسیع ہو چکی ہے کہ ہر ہر فیلڈ کی گہرائی پر عبور حاصل کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ طریقہ کار یہی ہے کہ انسان سائنس کے مختلف شعبوں کا بنیادی علم رکھتا ہے، اور اسکے بعد بہت زیادہ گہرائی والے تحقیقی سوالات کے حوالے سے وہ اس فیلڈ کے ماہرین کی رائے پر انحصار کرتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں اس فیلڈ میں صرف کر دی ہوتی ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ نور سعدیہ بہن کو بائیالوجی اور بائیو کیمسٹری میں ہم سے کچھ زیادہ شدھ بدھ ہو۔ مگر جب انکا موازنہ ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین سے ہو گا، تو انکے سامنے نور سعدیہ بہن کی علمی حیثیت کم ہو گی۔

ماکس پلانک انسٹیٹیوٹ کے ماہرین کی تحقیق کو اگر کوئی چیلنج کر سکتا ہے، تو وہ انکے برابر کے علمی حیثیت کا کوئی ماہر یا کوئی ادارہ ہی کر سکتا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
یہ آپ نے مجھے موضوع ِ ذات کیوں بنا ڈالا۔۔ میں نے کوئی دعوٰی نہیں کیا کہ میں سائنس میں سدھ بدھ رکھتی ۔۔میں نے ادب کی ڈگری لی ہوئی ۔۔ سائنس سے میرا اللہ واسطے کا بیر ہے ۔۔ اس دھاگے میں غلطی سے تبصرہ ہوا ہے ۔ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے ، مگر اب میں آپ کی اس بحث سے دور ہوں ۔۔۔ آپ کی باتیں آپ کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔!!

آپ نے جو '' کہنا'' کھل کر کہیں ۔۔مگر ''علمیت '' پر بات نہ کریں ۔۔۔ آپ کے سامنے میری حیثیت نہیں ہے ، آپ کسی ادارے سے ملا رہیں ہیں ۔۔۔ میں اس بحث سے ، اور ہر قسم کے جوابات سے بالکل دور ہوں ۔۔اور جناب محمود غزنوی صاحب کی بات سے پورا پورا تفاق ہے مجھے ۔۔۔۔ !!

میں رائے دے کر اپنی راہ '' علیحدہ '' کرلی ہے ۔۔۔ اب مجھے کوئی جاہل کہے یا عالم ۔۔۔ فرق نہیں پڑتا ۔ مگر یہ جو اوپر کسی نے دعوٰی کیا ہے کہ فلاں فلاں پڑھ رکھا ہے ، غلط کہا ہے ۔۔سو کوئی بھی جذبات میں مجھے موضوع گفتگو نہ بنائے ۔اختلاف ِ رائے ہوگیا ، مجھے رائے سے اختلاف ہے ، اب میں آپ کے دماغ میں ، یا میرے دماغ میں کوئی کچھ نہیں ڈال سکتا ۔۔ اپنی اپنی رائے ہے سب کی ۔۔۔ سب آزاد ہیں رائے دینے میں ۔
 

ثاقب عبید

محفلین
اللہ تعالی نے سورۃ آل عمران کی آیت 5 میں اس مرض یا پریشانی کی تشخیص کردی ہے جس کی محترمہ شکار ہیں۔ ترجمہ پیش ہے۔

’’وہ وہی خدا ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں۔ ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلاف اس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘

’’یہاں کسی کو شبہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں تو ان پر ایمان کیسے لایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعے سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ متشابہات کی تاویل سے۔ اور جب آیات محکمات میں غور وفکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے، جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے اس کو لے آتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لاکر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔‘‘ (مولانا مودودی)
 

ثاقب عبید

محفلین
درحقیقت اس موضوع پر بحث لاحاصل ہے۔ اس لئے کہ سائنس نے اپنا ناطہ مذہب سے توڑ کر بالکل الگ ڈگر اختیار کرلی ہے جو اگر چہ صحیح اصولوں پر مبنی نظر آتی ہے مگر جو لوگ اس پر چل رہے ہیں وہ مذہب بیزار ہیں اس لئے جب بھی ایسا کوئی اختلافی نکتہ سامنے آتا ہے وہ فورا ’’مذہب‘‘ کو نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں اور کچھ لوگ تو اس غایت کو پورا کرنے کیلئے سائنسی بد دیانتوں کے بھی مرتکب ہوجاتے ہیں اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں نہیں تو کم از کم اس انداز سے ہی سہی پیش کریں گے کہ مذہب کی حقانیت میں شبہ ہونے لگے۔ ملحدین کی جانب سے اس طرح کے اعتراضات کچھ پہلی بار نہیں اٹھائے گئے ہیں لیکن مسئلہ ہمیشہ کی طرح وہی ہے کہ ان کا جواب دینے والا مشکل سے ہی ملتا ہے۔ چنانچہ لوگ ان کے پروپیگنڈے میں آکر گمراہ ہوتے جارہے ہیں اور مذہب سے دور بھاگنے لگے ہیں۔ جو لوگ اپنا ایمان اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور انہیں آخرت کی فکر ہے ان کیلئے یہی آیات کافی ہیں۔ وہ ان موشگافیوں سے دور ہی رہتے ہیں جو گمراہی کی طر ف لے جاتے ہیں۔ اسلام یہودیت اور عیسائیت کی طرح نرا مذہب نہیں ہے یہ خدا کی نازل کردہ کتاب کا بنایا ہوا نظام حیات ہے مگر ملحدین سبھی مذاہب کو ایک لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ یہ محترمہ بھی انہی کی باتوں سے متاثر نظر آتی ہیں اگر وہ واقعی مسلمان ہیں تو انہیں اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے اور اس قسم کے معاملات پر اپنے ناقص علم پر بھروسہ کرتے ہوئے فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔

قرآن انسانوں کو ایک خدا پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی تلقین کیلئے اترا ہے، یہ بتانے کیلئے نہیں کہ زمین گول ہے۔ زبردستی کھینچ تان کر مبہم الفاظ سے اپنی من پسند تاویل کرنا بھی لاحاصل ہے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ قرآن نے زمین کو چپٹا بتایا ہے۔ چاہے زمین گول ہو مگر ہم جو اس پر رہتے ہیں ہماری نظروں کے سامنے وہ گول نظر نہیں آتی بلکہ فرش کی طرح سیدھی ہی معلوم ہوتی ہے۔ اب آپ کا اصرار ہے کہ اب سائنس چونکہ زمین کو گول بتارہی ہے اس لئے قرآن اس کی تصدیق کرے! حالانکہ چودہ سو سال پہلے نہ لوگوں کو اس بارے میں کچھ معلوم تھا نہ اس بات کا کوئی اشارہ ہی ملتا تھا اس لئے یہ انہیں یہ بتاکر کیا فائدہ ہوگا کہ زمین گول ہے؟ اسی طرح یہ نکتہ کہ حضرت آدم سے پہلے بھی انسان موجود تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حضرت آدم چھ ہزار سال پہلے پیدا کئے گئے مگر کون سے؟ خدا کے یہاں تو ایک دن ہمارے پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوتا ہے (دیکھئے سورہ معارج) پھر آپ کا کیوں اصرار ہے کہ قرآن میں نیندر تھال کا ذکر کیا جائے، کیا قرآن اس قسم کی لغو بات بتانے کیلئے اتارا گیا ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ انسان ہی ہوں اور ان کی شکل مسخ ہوگئی ہو جیسا کہ قرآن میں اصحاب سبت کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے عبرت دلائی گئی ہے کہ جب انہوں نے خدا کی نافرمانی کی تو ان کی شکلیں مسخ کردی گئیں اور وہ بندر بنادئیے گئے۔ ہر چیز کی تاویل ممکن ہے مگر جو اسلام کا سائنس سے ٹکراؤ کرانے پر تلا ہوا ہو اور مذہب کو غلط ثابت کرنا چاہتا ہو اس کے ساتھ حجت کرنا لاحاصل ہے۔ محترمہ قرآن کی آیت کا بار بار حوالہ دے رہی ہیں کہ قرآن میں ہر بات کھول کھول کر بیان کردی گئی ہے مگر انہیں اس میں ابہام نظر آتا ہے۔ وہ جس مرض یا پریشانی کا شکار ہیں اس کی تشخیص سورہ آل عمران کی چھٹی آیت میں کی گئی ہے مگر ان کی توجہ اس پر نہیں، وجہ ظاہر ہے۔ جو لوگ سیدھی عقل والے ہیں اور حق و باطل میں سے فرق کرلیتے ہیں ان کیلئے یہی آیات ہدایت کا موجب ہوتی ہیں اور جو لوگ کج روی کا شکار ہیں وہ انہی آیات سے مزید گمراہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چاہے نیندر تھال ہو یا نہ ہو، چاہے پچھلے انسانوں کے قد ہم سے زیادہ ہوں یا کم یا برابر، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ قرآن کی حقانیت ثابت ہے اور رہے گی چاہے اس قسم کے ٹیڑھی سوچ رکھنے والے فلسفیوں سے دنیا بھرجائے اور وہ کتنی ہی موشگافیاں کریں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اللہ تعالی نے سورۃ آل عمران کی آیت 5 میں اس مرض یا پریشانی کی تشخیص کردی ہے جس کی محترمہ شکار ہیں۔ ترجمہ پیش ہے۔
’’وہ وہی خدا ہے جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں۔ ایک محکمات جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دوسری متشابہات۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کو معنی پہنانے کی کوشش کیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلاف اس کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمارا ان پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘

’’یہاں کسی کو شبہ نہ ہو کہ جب وہ لوگ متشابہات کا صحیح مفہوم جانتے ہی نہیں تو ان پر ایمان کیسے لایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک معقول آدمی کو قرآن کے کلام اللہ ہونے کا یقین محکمات کے مطالعے سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ متشابہات کی تاویل سے۔ اور جب آیات محکمات میں غور وفکر کرنے سے اس کو یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی کتاب ہے تو پھر متشابہات اس کے دل میں کوئی خلجان پیدا نہیں کرتے، جہاں تک ان کا سیدھا سادھا مفہوم اس کی سمجھ میں آجاتا ہے اس کو لے آتا ہے اور جہاں پیچیدگی رونما ہوتی ہے وہاں کھوج لگانے اور موشگافیاں کرنے کے بجائے وہ اللہ کے کلام پر مجمل ایمان لاکر اپنی توجہ کام کی باتوں کی طرف پھیر دیتا ہے۔‘‘ (مولانا مودودی)

پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو احساس نہیں، مگر یہ بذاتِ خود قرآن کا تضاد ہے۔
ایک طرف قرآن دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے آیات کھول کھول کر بیان کر دی ہیں، تو دوسری طرف خود ہی اپنی تردید کرتا ہے کہ نہیں اس قرآن میں متشابہات ہیں۔

دوسری بات یہ کہ اللہ کو قرآن میں یہ متشابہات شامل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟
بالکل کوئی وجہ موجود نہیں، بالکل کوئی ضرورت موجود نہ تھی۔

تیسری بات، ۔۔۔ان متشابہہ آیات سے گمراہ کون ہوا؟
اگر قرآن کے سائنسی دعوے متشابہہ آیات ہیں، تو ان سے گمراہ ہونے والوں کی صف اول صحابہ پر مشتمل ہے، پھر تابعین پر، پھر 1400 سال کے مسلمانوں کے جم غفیر پر۔ اور اگر حدیث کو ساتھ لیا جائے تو پھر ان متشابہات کی گمراہی کا الزام پیغمبر اسلام پر بھی آئے گا کیونکہ حدیث میں غلط سائنسی مفروضات بیان کیے گئے ہیں۔
معذرت اگر آپ کو میری صاف اور سیدھی بات ناگوار گذری ہو، میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں، بلکہ سچائی کی تلاش ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنے ضمیر کے ساتھ انصاف کرنا ہے، چاہے اسکی وجہ سے مذہب کی ناموس پر سوالیہ نشان ہی کیوں نہ اٹھتا ہو۔

اب آپ کا اصرار ہے کہ اب سائنس چونکہ زمین کو گول بتارہی ہے اس لئے قرآن اس کی تصدیق کرے! حالانکہ چودہ سو سال پہلے نہ لوگوں کو اس بارے میں کچھ معلوم تھا نہ اس بات کا کوئی اشارہ ہی ملتا تھا اس لئے یہ انہیں یہ بتاکر کیا فائدہ ہوگا کہ زمین گول ہے؟

آپ بالکل غلطی پر ہیں۔ اسلام سے بہت قبل ہی عقل رکھنے والے انسانوں نے پتا چلا لیا تھا کہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول کرہ کی شکل کی ہے۔
مگر اسلام نے وہی سائنسی مفروضات پیش کیے جو کہ اُس وقت کے جاہل عربی معاشرے میں رائج تھے۔

اسی طرح یہ نکتہ کہ حضرت آدم سے پہلے بھی انسان موجود تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ حضرت آدم چھ ہزار سال پہلے پیدا کئے گئے مگر کون سے؟ خدا کے یہاں تو ایک دن ہمارے پچاس ہزار سالوں کے برابر ہوتا ہے (دیکھئے سورہ معارج)
یہ غیر متعلقہ ہے۔ اول تو اس دعوے کا کوئی ثبوت نہیں۔ دوسرا یہ کہ یہ بات اس دنیا کی نہیں ہو رہی ہے بلکہ اللہ کے ہاں کی ہو رہی ہے۔

پھر آپ کا کیوں اصرار ہے کہ قرآن میں نیندر تھال کا ذکر کیا جائے، کیا قرآن اس قسم کی لغو بات بتانے کیلئے اتارا گیا ہے؟
اول تو یہ کسی بھی حوالے سے لغو بات نہیں بلکہ انسان کی "اوریجن" کی بات ہے۔
دوسرا قرآن کا دعویٰ ہے کہ تمام بنی آدم جو موجود ہیں وہ آدم کی اولاد ہیں۔ مگر نیندرتھال کا ڈی این اے اس دعوے کو غلط ثابت کر رہا ہے۔

قرآن کی حقانیت ثابت ہے اور رہے گی چاہے اس قسم کے ٹیڑھی سوچ رکھنے والے فلسفیوں سے دنیا بھرجائے اور وہ کتنی ہی موشگافیاں کریں۔
قرآن کی حقانیت کا کوئی ایک بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔
ایسی ہی حقانیت کے دعوے ہر ہر مذہب والے اپنی اپنی کتاب کے متعلق کر رہے ہیں۔
 

ثاقب عبید

محفلین
آپ کے پاس اب بحث برائے بحث کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں۔ مسئلہ قرآن میں نہیں آپ کے دل میں ہے اس لئے آپ کو اتنے سارے تضادات نظر آرہے ہیں۔ قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ خدا نے ان لوگوں کیلئے آیات صاف کھول کر بیان کردی ہیں جو ’’سمجھتے ہیں‘‘ ۔ ’’قد فصلنا الآیت لقوم یفقہون‘‘ ایک بات خوب سمجھ لینے کی ہے کہ سچائی تک وہ لوگ کبھی نہیں پہنچ سکتے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ اس لئے ادھر ادھر جھانکنے کے بجائے اپنی طرف نظر کرکے اپنے اپنے دلوں کی کھوٹ دور کرنے کی ضرورت ہے اور جس کا دل کھلا ہو اور سیدھی سوچ رکھتا ہو اسے یہ اختلافات سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی ان شاء اللہ۔

چاہے آپ کو میری باتیں اس وقت سمجھ میں نہ آئیں، مگر ممکن ہے کہ بعد میں سمجھ آجائیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ کے پاس اب بحث برائے بحث کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں۔ مسئلہ قرآن میں نہیں آپ کے دل میں ہے اس لئے آپ کو اتنے سارے تضادات نظر آرہے ہیں۔ قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے کہ خدا نے ان لوگوں کیلئے آیات صاف کھول کر بیان کردی ہیں جو ’’سمجھتے ہیں‘‘ ۔ ’’قد فصلنا الآیت لقوم یفقہون‘‘ ایک بات خوب سمجھ لینے کی ہے کہ سچائی تک وہ لوگ کبھی نہیں پہنچ سکتے جن کے دلوں میں کجی ہے۔ اس لئے ادھر ادھر جھانکنے کے بجائے اپنی طرف نظر کرکے اپنے اپنے دلوں کی کھوٹ دور کرنے کی ضرورت ہے اور جس کا دل کھلا ہو اور سیدھی سوچ رکھتا ہو اسے یہ اختلافات سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی ان شاء اللہ۔

چاہے آپ کو میری باتیں اس وقت سمجھ میں نہ آئیں، مگر ممکن ہے کہ بعد میں سمجھ آجائیں۔

شکریہ۔
آپکے مراسلے میں مجھے کوئی نئی دلیل نظر نہیں آئی ہے۔ اسکا مطلب ایک بار پھر یہ ہو جائے گا کہ صحابہ اور تابعین بھی قرآن کو "سمجھنے" والے نہیں تھے۔ صحیح حدیث میں تو کوئی متشابہات نہیں ہیں۔ مگر صحیح حدیث بذات خود سائنس سے ٹکرا رہی ہے۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
قرآن کے 7 آسمان اور 7 زمینیں

(القرآن 41:12) پھر دو دن میں سات آسمان بنائے اور ہر آسمان میں اس (کے کام) کا حکم بھیجا اور ہم نے دنیا کے آسمان (پہلے آسمان) کو چراغوں (یعنی ستاروں) سے مزین کیا اور (شیطانوں سے) محفوظ رکھا۔

(القرآن 65:12) اللہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور انہی کی برابر (سات) زمینیں اور اللہ کا حکم ان کے عین درمیان (یعنی اوپر والی ساتویں زمین کی سطح پر) اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ سب کچھ کرسکتا ہے۔

مسلمان 7 آسمانوں اور 7 زمینوں کے متعلق کیا کہتے ہیں؟

اس حوالے سے پچھلے 1400 سالوں سے مسلمانوں کا جواب یہ ہے کہ : "۔۔۔ قرآن پر آنکھیں بند کر کے ایمان لاؤ ۔۔۔۔۔ اور کوئی سوال نہ پوچھو ۔۔۔۔ سائنس کو قرآن کے مقابلے میں ٹھکرا دو ۔۔۔۔"

اسلام سوال جواب ویب سائیٹ (لنک) براہ راست سعودی مفتی حضرات چلا رہے ہیں اور یہ مسلمانوں کا مقبول ترین ویب سائیٹ ہے۔ ان سے جب 7 زمینوں اور 7 آسمانوں والی قرآنی آیت کے متعلق پوچھا گیا، تو انکا جواب یہ تھا:

ابن کثیر نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:
اس آیت میں اللہ اپنی عظیم قدرت اور عظیم طاقت و شان و شوکت کا مظاہرہ کر رہا ہے، تاکہ ہم اس شریعت اور مذہب کی تعظیم کر سکیں جو اللہ نے ہمارے لیے مقرر فرمائی ہے۔۔۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے آپ کو وہاں تک محدود کر لیں جہاں تک شریعت نے اجازت دی ہے اور اس سے آگے قدم نہ بڑھائیں۔ قرآن اور صحیح سنت سے ثابت ہے کہ آسمانوں کی تعداد 7 ہے اور زمینوں کی تعداد بھی 7 ہے۔۔۔ ہمیں اسی 7 آسمانوں اور 7 زمینوں پر ایمان لا کر یقین کرنا ہے، چاہے یہ ماڈرن سائنس سے ثابت ہو پائے یا نہ ہو پائے۔۔۔

یہاں پر مسلمان مکمل طور پر عاجز نظر آتے ہیں کہ ان 7 آسمانوں اور 7 زمینوں کے سوال کا کوئی بھی جواب دے سکیں۔ چنانچہ آخری حربہ وہی ہے کہ مذہب پر "اندھے" ہو کر ایمان لاؤ۔ ۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
اس دنیا میں سائنس کی فیلڈ اتنی زیادہ وسیع ہو چکی ہے کہ ہر ہر فیلڈ کی گہرائی پر عبور حاصل کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ طریقہ کار یہی ہے کہ انسان سائنس کے مختلف شعبوں کا بنیادی علم رکھتا ہے، اور اسکے بعد بہت زیادہ گہرائی والے تحقیقی سوالات کے حوالے سے وہ اس فیلڈ کے ماہرین کی رائے پر انحصار کرتا ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگیاں اس فیلڈ میں صرف کر دی ہوتی ہیں۔

ماشاءاللہ۔۔۔ آپ کی یہ اپروچ قابل تحسین ہے۔۔۔ تو کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ مذہب کی فیلڈ میں آپ کن ماہرین مذہب کی رائے پر انحصار کرتی ہیں؟ ان کے اسماء گرامی بتا دیں۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ماشاءاللہ۔۔۔ آپ کی یہ اپروچ قابل تحسین ہے۔۔۔ تو کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ مذہب کی فیلڈ میں آپ کن ماہرین مذہب کی رائے پر انحصار کرتی ہیں؟ ان کے اسماء گرامی بتا دیں۔۔۔
شکریہ الشفاء صاحب
یہ عام فیشن ہے کہ "دلیل" پر غور نہ کیا جائے، بلکہ دلیل دینے والے کی ذات کو نشانہ ہدف بنایا جائے کہ اسکا علم محدود ہے اس لیے اسکی دلیل قابل قبول نہیں۔ کیا میرا خدشہ بے بنیاد ہے کہ آپکے اس سوال کا رخ بھی اسی جانب ہے؟ بہرحال آپکے سوال کی طرف چلتے ہیں۔

1) سب سے پہلے، آپ قرآن کے اس دعوے کا کیا کریں گے کہ:
(القرآن 41:3) (یہ قرآن) ایسی کتاب ہے جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں

2) پھر قرآن کی تفسیر کر رہے ہیں صحابہ و تابعین۔
کیا آپکو علم ہے کہ ان صحابہ و تابعین کے قرآن کی آیات کے متعلق "سائنسی نظریات" کیا ہیں؟

3) اور جناب رسولخدا (ص) کی حدیث سے بہتر کیا کوئی قرآن کی تفسیر ہے؟ کیا میں آپ کو حدیثِ رسول دکھاؤں؟
ایک جھلک میں اوپر دکھلا چکی تھی، مگر آپ لوگوں نے غور نہیں فرمایا۔

قرآن کہتا ہے کہ یہ شھابِ ثاقب اور کچھ نہیں سوائے اسکے کہ جب کوئی جن یا شیطان آسمانوں پر کچھ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے، تو فرشتے اس پر آگ کے شعلے پھینکتے ہیں۔
کیا واقعی اس 21 ویں صدی میں بھی آپ شہابِ ثاقب کو دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ اللہ نے شیطان کو انگارہ مارا ہے؟
اور حدیث تو قرآن سے بھی آگے بڑھ گئی۔
حدیث نے تو ایسا نظریہ دیا کہ جسے پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ شیطاطین یا جناب ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہو کر سیڑھی بنا کر آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔

Sunan Ibn Majah » The Book of the Sunnah -
It was narrated from Abu Hurairah that:
The Prophet said: "When Allah decrees a matter in heaven, the angels beat their wings in submission to his decree (with a sound) like a chain beating a rock. Then "When fear is banished from their hearts, they say: 'What is it that your Lord has said?' They say: 'The truth. And He is The Most High, The Most Great." He said: 'Then the eavesdroppers (from among the jinn) listen out for that, one above the other, so (one of them) hears the words and passes it on to the one beneath him. The Shihab may strike him before he can pass it on to the one beneath him and the latter can pass it on to the soothsayer or sorcerer, or it may not strike him until he has passed it on. And he ads one hundred lies to it, and only that word which was overheard from the heavens is true."
یہ ایک "صحیح" حدیث ہے. Link

4) اور کس مفسر ، کس عالم کی بات آپ کو کرنی ہے؟ دنیا کا کوئی مفسر کوئی عالم قرآن و حدیث کے ان سائنسی تضادات کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ وہ سب کے سب عاجز ہیں۔
مثلا 7 آسمانوں اور 7 زمینوں کے حوالے سے میں نے اوپر سعودی مفتی حضرات کے صاف اور واضح الفاظ آپکی خدمت میں پیش کیےجہاں وہ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ سائنس جو مرضی کہتی پھرے، مگر ہمیں دلیل کے بغیر سائنس کو رد کرنا ہے کیونکہ قرآن غلط نہیں ہو سکتا اور یہ سائنس ہی غلط ہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
ماشاءاللہ۔۔۔ آپ کی یہ اپروچ قابل تحسین ہے۔۔۔ تو کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ مذہب کی فیلڈ میں آپ کن ماہرین مذہب کی رائے پر انحصار کرتی ہیں؟ ان کے اسماء گرامی بتا دیں۔۔۔
شکریہ الشفاء صاحب
یہ عام فیشن ہے کہ "دلیل" پر غور نہ کیا جائے، بلکہ دلیل دینے والے کی ذات کو نشانہ ہدف بنایا جائے کہ اسکا علم محدود ہے اس لیے اسکی دلیل قابل قبول نہیں۔ کیا میرا خدشہ بے بنیاد ہے کہ آپکے اس سوال کا رخ بھی اسی جانب ہے؟ بہرحال آپکے سوال کی طرف چلتے ہیں۔

1) سب سے پہلے، آپ قرآن کے اس دعوے کا کیا کریں گے کہ:
(القرآن 41:3) (یہ قرآن) ایسی کتاب ہے جس کی آیات کھول کر بیان کی گئی ہیں

2) پھر قرآن کی تفسیر کر رہے ہیں صحابہ و تابعین۔
کیا آپکو علم ہے کہ ان صحابہ و تابعین کے قرآن کی آیات کے متعلق "سائنسی نظریات" کیا ہیں؟

3) اور جناب رسولخدا (ص) کی حدیث سے بہتر کیا کوئی قرآن کی تفسیر ہے؟ کیا میں آپ کو حدیثِ رسول دکھاؤں؟
ایک جھلک میں اوپر دکھلا چکی تھی، مگر آپ لوگوں نے غور نہیں فرمایا۔

قرآن کہتا ہے کہ یہ شھابِ ثاقب اور کچھ نہیں سوائے اسکے کہ جب کوئی جن یا شیطان آسمانوں پر کچھ سن گن لینے کی کوشش کرتا ہے، تو فرشتے اس پر آگ کے شعلے پھینکتے ہیں۔
کیا واقعی اس 21 ویں صدی میں بھی آپ شہابِ ثاقب کو دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ اللہ نے شیطان کو انگارہ مارا ہے؟
اور حدیث تو قرآن سے بھی آگے بڑھ گئی۔
حدیث نے تو ایسا نظریہ دیا کہ جسے پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ شیطاطین یا جناب ایک دوسرے کے اوپر کھڑے ہو کر سیڑھی بنا کر آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔

Sunan Ibn Majah » The Book of the Sunnah -
It was narrated from Abu Hurairah that:
The Prophet said: "When Allah decrees a matter in heaven, the angels beat their wings in submission to his decree (with a sound) like a chain beating a rock. Then "When fear is banished from their hearts, they say: 'What is it that your Lord has said?' They say: 'The truth. And He is The Most High, The Most Great." He said: 'Then the eavesdroppers (from among the jinn) listen out for that, one above the other, so (one of them) hears the words and passes it on to the one beneath him. The Shihab may strike him before he can pass it on to the one beneath him and the latter can pass it on to the soothsayer or sorcerer, or it may not strike him until he has passed it on. And he ads one hundred lies to it, and only that word which was overheard from the heavens is true."
یہ ایک "صحیح" حدیث ہے. Link

4) اور کس مفسر ، کس عالم کی بات آپ کو کرنی ہے؟ دنیا کا کوئی مفسر کوئی عالم قرآن و حدیث کے ان سائنسی تضادات کا کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ وہ سب کے سب عاجز ہیں۔
مثلا 7 آسمانوں اور 7 زمینوں کے حوالے سے میں نے اوپر سعودی مفتی حضرات کے صاف اور واضح الفاظ آپکی خدمت میں پیش کیےجہاں وہ کھل کر کہہ رہے ہیں کہ سائنس جو مرضی کہتی پھرے، مگر ہمیں دلیل کے بغیر سائنس کو رد کرنا ہے کیونکہ قرآن غلط نہیں ہو سکتا اور یہ سائنس ہی غلط ہے۔

سوال گندم جواب چنا۔۔۔
والسلام۔۔۔
 

x boy

محفلین
میرا سوال؟
مہوش سسٹر، کس مذہب سے تعلق رکھتی ہیں اگر کس مذہب کو نہیں مانتی تویہ لڑی ان کے کام کی نہیں،،،،،،
میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کے قرآن الکریم ہمیں سب باتیں بتاتی ہیں عبادات کی کامل تفسیر نبی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کردی، لیکن کائنات کے بارہ میں جوباتیں بتائیں ہیں وہ مسلمانوں کے لئے کافی ہے باقی خود تلاش کرے،،،،،
مثلا ،،،، انسان کا ذکر کیا ہے جلد، آنکھیں ، کان ، ناک، مغز، خون، دل، گردہ ، تلی، پتہ ، معدہ ، آنتیں، کھانا، پاخانہ، پانی ، پیشاب، نطفہ، معدنیات، لحمیات، نطفہ حیات، بیضاء، ماہواری، تغیر غرض کہ لاکھوں پوشیدہ انسان کے باہر اور اندر کی چیزیں انسان کے لئے چھوڑدیا،،، اسی طرح اگر اللہ اوپر کی باتیں کرتے ہیں انسان کے سر کے اوپر کائنات میں جوکچھ بھی ہے اس بارہ میں ہے اگر نیچے کی بات کرتے ہیں تو پاؤں کے نیچے یعنی زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب،اگر شمال ، جنوب ، مشرق اورمغرب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے دائیں بائیں آگے پیچھے جو کچھ بھی ہے وہ سب کچھ اب انسان کی عقل کے اوپر منحصر ہے کی وہ کیا حاصل کرتا ہے کیا کس چیز پر اس کی جستجوہے اور ایک انسان کامل طور پر ہر چیزکا ماہرنہیں ہوسکتا،،
بہت باتیں ارتقاء کے بارہ میں سنی ہےاب یہ بھی پڑھ لیں،
کسی بھی شے میں سے اگر کچھ بھی نکال دیا جائے تو وہ مکمل نہیں رہتی، اسی طرح نظریہ ارتقاء کا اگر علمی جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت سے gaps دکھائی دیتے ہیں، جن کے جوابات پیش کرنے سے ارتقاء کے حامی معذور ہیں، نظریہ ارتقاء کے حوالے سے "غائب" درمیانی کڑیوں کا جائزہ لینے سے یہ سمجھ آتی ہے کہ یہ نظریہ باطل ہے اور فقط جھوٹ پر مبنی ذہنی اختراع ہی ہے.

ً جوڑوں والے اور بغیر جوڑوں والے جانوروں کی درمیانی کڑی موجود نہیں ۔فقری اور غیر فقری جانوروں کی درمیانی کڑی بھی مفقود ہے۔ مچھلیوں اور ان حیوانات کے درمیان کی کڑی بھی مفقود ہے جو خشکی اور پانی کے جانور کہلاتے ہیں اسی طرح رینگنے والے جانوروں اور پرندوں اور رینگنے والے ممالیہ جانوروں کی درمیانی کڑیاں بھی مفقود ہیں ۔اس نظریہ کی یہ دشواری ہے جو سو سال سے زیر بحث چلی آرہی ہے۔بعض نظریہ ٴ قائلین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ درمیانی کڑی کاکام جب پورا ہو چکتا ہے تو وہ از خود غائب ہوجاتی ہے اس جواب میں جتنا وزن یا معقولیت ہے اس کا آپ خو د اندازہ کرسکتے ہیں۔
جب زمینی پرتوں اور رکازی ریکارڈ کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ جاندار ایک ساتھ نمودار ہوئے تھے۔ زمین کی وہ قدیم ترین پرت، جس سے جاندار مخلوقات کے رکاز دریافت ہوئے ہیں، وہ ’’کیمبری‘‘ (Cambrian) ہے جس کی عمر 52 سے 53 کروڑ سال ہے۔کیمبری عصر (Cambrain Period) کی پرتوں سے ملنے والے جانداروں کے رکازات پہلے سے کسی بھی جدِ امجد کی غیر موجودگی میں، اچانک ہی متعدد انواع کے ظاہر ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ پیچیدہ مخلوقات سے تشکیل پایا ہوا یہ وسیع و عریض اور خوبصورت منظر نامہ اتنی تیزی سے، اور اتنے معجزانہ انداز میں ابھرتا ہے کہ سائنسی اصطلاح میں ا سے ’’کیمبری دھماکہ‘‘ (Cambrian Explosion) کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس پرت سے دریافت ہونے والے بیشتر جانداروں میں بہت ترقی یافتہ اور پیچیدہ اعضاء مثلاً آنکھیں، گلپھڑے اور نظام دورانِ خون وغیرہ موجود تھے۔ رکازی ریکارڈ میں ایسی کوئی علامت نہیں جو یہ بتا سکے کہ ان جانداروں کے بھی آباؤ اجداد تھے۔ Earth Sciences نامی جریدے کے مدیر رچرڈ مونسٹارسکی، جاندار انواع کے اس طرح اچانک ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’نصف ارب سال پہلے نمایاں طور پر پیچیدہ ساخت والے جانور، جیسے کہ ہم آج دیکھتے ہیں، اچانک ظاہر ہوگئے۔ یہ موقع یعنی زمین پر کیمبری عصر کا آغاز (تقریباً 55 کروڑ سال پہلے)، ایک ایسے ارتقائی دھماکے کی مانند ہے جس نے زمین کے سمندروں کو اوّلین پیچیدہ جانداروں سے بھر دیا تھا۔ جانداروں کے وسیع فائلم (Phyla) ، جن کا آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں، ابتدائی کیمبری عصر میں بھی موجود تھے اور ایک دوسرے سے اتنے ہی جداگانہ اور ممتاز تھے جتنے کہ آج ہیں ‘‘۔ زمین اچانک ہی ہزاروں مختلف جانوروں کی انواع سے کس طرح لبریز ہوگئی تھی؟ جب اس سوال کا جواب نہیں مل سکا تو ارتقائی ماہرین، کیمبری عصر سے قبل 2 کروڑ سال پر محیط ایک تخیلاتی عصر پیش کرنے لگے جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ کس طرح سے زندگی ارتقاء پذیر ہوئی اور یہ کہ ’’کچھ نامعلوم واقعہ ہوگیا‘‘۔ یہ عصر (Period) ’’ارتقائی خلاء‘‘ (Evolutionary Gap) کہلاتا ہے۔ اس دوران میں حقیقتاً کیا ہوا تھا؟ اس بارے میں بھی اب تک کوئی شہادت نہیں مل سکی ہے اور یہ تصور بھی نمایاں طور سے مبہم اور غیر واضح ہے۔ 1984 ء میں جنوب مغربی چین میں چنگ ژیانگ کے مقام پر وسطی ینان کی سطح مرتفع سے متعدد پیچیدہ غیر فقاری جانداروں (Invertebrates) کے رکازات برآمد ہوئے۔ ان میں ٹرائلوبائٹس (Trilobites) بھی تھے، جو اگرچہ آج معدوم ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنی ساخت کی پیچیدگی کے معاملے میں کسی بھی طرح سے جدید غیر فقاریوں سے کم نہیں تھے۔ سویڈن کے ارتقائی ماہر معدومیات (Evolutionary Paleontologist) اسٹیفن بنگسٹن نے اس کیفیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے: ’’اگر زندگی کی تاریخ میں کوئی واقعہ، انسانی تخلیق کی دیو مالا سے مماثلت رکھتا ہے، تو وہ سمندری حیات کی یہی اچانک تنوع پذیری (diversification) ہے جب کثیر خلوی جاندار؛ ماحولیات (ecology) اور ارتقاء میں مرکزی اداکار کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ ڈاروِن سے اختلاف کرتے ہوئے اس واقعے نے اب تک ہمیں پریشان (اور شرمندہ) کیا ہوا ہے‘‘۔ ان پیچیدہ جانداروں کا اچانک اور آباؤاجداد کے بغیر وجود میں آجانا واقعتاً آج کے ارتقاء پرستوں کے لئے اتنی ہی پریشانی (اور شرمندگی) کا باعث ہے، جتنا ڈیڑھ سو سال پہلے ڈاروِن کے لئے تھا۔ رکازی ریکارڈ کی شہادتوں میں یہ امر بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جاندار اجسام کسی ابتدائی شکل سے ترقی یافتہ حالت میں ارتقاء پذیر نہیں ہوئے بلکہ اچانک ہی ایک مکمل حالت کے ساتھ زمین پر نمودار ہوگئے۔ درمیانی (انتقالی) شکلوں کی عدم موجودگی صرف کیمبری عصر تک ہی محدود نہیں۔ فقاریوں (ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں) کے مبینہ تدریجی ارتقاء کے ثبوت میں بھی آج تک اس طرح کی کوئی درمیانی شکل دریافت نہیں کی جاسکی۔ چاہے وہ مچھلی ہو، جل تھلئے (amphibians) ہوں، ہوّام ہوں، پرندے ہوں یا ممالیہ ہوں۔ رکازی ریکارڈ کے اعتبار سے بھی ہر جاندار نوع کا اچانک اپنی موجودہ، پیچیدہ اور مکمل حالت میں آنا ہی ثابت ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جاندار انواع، ارتقاء کے ذریعے وجود میں نہیں آئیں۔۔۔ انہیں تخلیق کیا گیا ہے.
 
مدیر کی آخری تدوین:

زیک

مسافر
یہ ساری بحث ہی لغو ہے۔۔۔قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے۔اس کا موضوع ہے انسان اور خدا کاباہمی تعلق۔ اس زندگی اور اگلی زندگی کا باہمی تعلق۔
اگرچہ آپ کی بنیادی بات سے متفق ہوں مگر جب مذہبی مسلمانوں، عیسائیوں اور ہندوؤں کو سائنس کی شدید مخالفت اپنے مذہب کی بنیاد پر کرتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ ان کے مذہب کا سائنس سے کوئی تو ٹکراؤ ہو گا جس کی بنا پر یہ مخالفت اتنی مقبول ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
کسی بھی شے میں سے اگر کچھ بھی نکال دیا جائے تو وہ مکمل نہیں رہتی، اسی طرح نظریہ ارتقاء کا اگر علمی جائزہ لیا جائے تو اس میں بہت سے gaps دکھائی دیتے ہیں، جن کے جوابات پیش کرنے سے ارتقاء کے حامی معذور ہیں، نظریہ ارتقاء کے حوالے سے "غائب" درمیانی کڑیوں کا جائزہ لینے سے یہ سمجھ آتی ہے کہ یہ نظریہ باطل ہے اور فقط جھوٹ پر مبنی ذہنی اختراع ہی ہے.

ً جوڑوں والے اور بغیر جوڑوں والے جانوروں کی درمیانی کڑی موجود نہیں ۔فقری اور غیر فقری جانوروں کی درمیانی کڑی بھی مفقود ہے۔ مچھلیوں اور ان حیوانات کے درمیان کی کڑی بھی مفقود ہے جو خشکی اور پانی کے جانور کہلاتے ہیں اسی طرح رینگنے والے جانوروں اور پرندوں اور رینگنے والے ممالیہ جانوروں کی درمیانی کڑیاں بھی مفقود ہیں ۔اس نظریہ کی یہ دشواری ہے جو سو سال سے زیر بحث چلی آرہی ہے۔بعض نظریہ ٴ قائلین اس کا یہ جواب دیتے ہیں کہ درمیانی کڑی کاکام جب پورا ہو چکتا ہے تو وہ از خود غائب ہوجاتی ہے اس جواب میں جتنا وزن یا معقولیت ہے اس کا آپ خو د اندازہ کرسکتے ہیں۔
جب زمینی پرتوں اور رکازی ریکارڈ کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ جاندار ایک ساتھ نمودار ہوئے تھے۔ زمین کی وہ قدیم ترین پرت، جس سے جاندار مخلوقات کے رکاز دریافت ہوئے ہیں، وہ ’’کیمبری‘‘ (Cambrian) ہے جس کی عمر 52 سے 53 کروڑ سال ہے۔کیمبری عصر (Cambrain Period) کی پرتوں سے ملنے والے جانداروں کے رکازات پہلے سے کسی بھی جدِ امجد کی غیر موجودگی میں، اچانک ہی متعدد انواع کے ظاہر ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔ پیچیدہ مخلوقات سے تشکیل پایا ہوا یہ وسیع و عریض اور خوبصورت منظر نامہ اتنی تیزی سے، اور اتنے معجزانہ انداز میں ابھرتا ہے کہ سائنسی اصطلاح میں ا سے ’’کیمبری دھماکہ‘‘ (Cambrian Explosion) کا نام دے دیا گیا ہے۔ اس پرت سے دریافت ہونے والے بیشتر جانداروں میں بہت ترقی یافتہ اور پیچیدہ اعضاء مثلاً آنکھیں، گلپھڑے اور نظام دورانِ خون وغیرہ موجود تھے۔ رکازی ریکارڈ میں ایسی کوئی علامت نہیں جو یہ بتا سکے کہ ان جانداروں کے بھی آباؤ اجداد تھے۔ Earth Sciences نامی جریدے کے مدیر رچرڈ مونسٹارسکی، جاندار انواع کے اس طرح اچانک ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’نصف ارب سال پہلے نمایاں طور پر پیچیدہ ساخت والے جانور، جیسے کہ ہم آج دیکھتے ہیں، اچانک ظاہر ہوگئے۔ یہ موقع یعنی زمین پر کیمبری عصر کا آغاز (تقریباً 55 کروڑ سال پہلے)، ایک ایسے ارتقائی دھماکے کی مانند ہے جس نے زمین کے سمندروں کو اوّلین پیچیدہ جانداروں سے بھر دیا تھا۔ جانداروں کے وسیع فائلم (Phyla) ، جن کا آج ہم مشاہدہ کرتے ہیں، ابتدائی کیمبری عصر میں بھی موجود تھے اور ایک دوسرے سے اتنے ہی جداگانہ اور ممتاز تھے جتنے کہ آج ہیں ‘‘۔ زمین اچانک ہی ہزاروں مختلف جانوروں کی انواع سے کس طرح لبریز ہوگئی تھی؟ جب اس سوال کا جواب نہیں مل سکا تو ارتقائی ماہرین، کیمبری عصر سے قبل 2 کروڑ سال پر محیط ایک تخیلاتی عصر پیش کرنے لگے جس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ کس طرح سے زندگی ارتقاء پذیر ہوئی اور یہ کہ ’’کچھ نامعلوم واقعہ ہوگیا‘‘۔ یہ عصر (Period) ’’ارتقائی خلاء‘‘ (Evolutionary Gap) کہلاتا ہے۔ اس دوران میں حقیقتاً کیا ہوا تھا؟ اس بارے میں بھی اب تک کوئی شہادت نہیں مل سکی ہے اور یہ تصور بھی نمایاں طور سے مبہم اور غیر واضح ہے۔ 1984 ء میں جنوب مغربی چین میں چنگ ژیانگ کے مقام پر وسطی ینان کی سطح مرتفع سے متعدد پیچیدہ غیر فقاری جانداروں (Invertebrates) کے رکازات برآمد ہوئے۔ ان میں ٹرائلوبائٹس (Trilobites) بھی تھے، جو اگرچہ آج معدوم ہوچکے ہیں لیکن وہ اپنی ساخت کی پیچیدگی کے معاملے میں کسی بھی طرح سے جدید غیر فقاریوں سے کم نہیں تھے۔ سویڈن کے ارتقائی ماہر معدومیات (Evolutionary Paleontologist) اسٹیفن بنگسٹن نے اس کیفیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے: ’’اگر زندگی کی تاریخ میں کوئی واقعہ، انسانی تخلیق کی دیو مالا سے مماثلت رکھتا ہے، تو وہ سمندری حیات کی یہی اچانک تنوع پذیری (diversification) ہے جب کثیر خلوی جاندار؛ ماحولیات (ecology) اور ارتقاء میں مرکزی اداکار کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ ڈاروِن سے اختلاف کرتے ہوئے اس واقعے نے اب تک ہمیں پریشان (اور شرمندہ) کیا ہوا ہے‘‘۔ ان پیچیدہ جانداروں کا اچانک اور آباؤاجداد کے بغیر وجود میں آجانا واقعتاً آج کے ارتقاء پرستوں کے لئے اتنی ہی پریشانی (اور شرمندگی) کا باعث ہے، جتنا ڈیڑھ سو سال پہلے ڈاروِن کے لئے تھا۔ رکازی ریکارڈ کی شہادتوں میں یہ امر بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جاندار اجسام کسی ابتدائی شکل سے ترقی یافتہ حالت میں ارتقاء پذیر نہیں ہوئے بلکہ اچانک ہی ایک مکمل حالت کے ساتھ زمین پر نمودار ہوگئے۔ درمیانی (انتقالی) شکلوں کی عدم موجودگی صرف کیمبری عصر تک ہی محدود نہیں۔ فقاریوں (ریڑھ کی ہڈی والے جانداروں) کے مبینہ تدریجی ارتقاء کے ثبوت میں بھی آج تک اس طرح کی کوئی درمیانی شکل دریافت نہیں کی جاسکی۔ چاہے وہ مچھلی ہو، جل تھلئے (amphibians) ہوں، ہوّام ہوں، پرندے ہوں یا ممالیہ ہوں۔ رکازی ریکارڈ کے اعتبار سے بھی ہر جاندار نوع کا اچانک اپنی موجودہ، پیچیدہ اور مکمل حالت میں آنا ہی ثابت ہوتا ہے۔ بالفاظِ دیگر جاندار انواع، ارتقاء کے ذریعے وجود میں نہیں آئیں۔۔۔ انہیں تخلیق کیا گیا ہے.

یقینی طور پر سائنس ابھی تک اس قابل نہیں ہوئی ہے کہ وہ کائنات کے ہر ہر اسرار سے پردہ اٹھا سکے۔
لیکن اہل مذہب کا یہ طریقہ واردات انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں جہاں وہ پہلے سائنس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے نظام کائنات کے متعلق سارے سوالات کے جوابات نہیں دیے، اور پھر اس بنیاد پر ان "سائنسی فیکٹ" کا بھی انکار کر دیتے ہیں کہ جنکو سائنس بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت کر چکی ہے۔

قرآن اور حدیث میں بیان کردہ سائنس بالکل ابتدائ نوعیت کی primitive سائنس ہے۔
مگر اس primitive سائنس میں بھی مذہب نے اُس وقت کے جاہل عرب معاشرے کی طرح شدید غلطیاں کی ہوئی ہیں۔
آجکی ماڈرن سائنس قرآن اور حدیث میں بیان کردہ اس primitive نوعیت کے سائنسی دعوؤں کو مکمل طور پر ثبوتوں سے غلط ثابت کر چکی ہے۔
 

x boy

محفلین
یقینی طور پر سائنس ابھی تک اس قابل نہیں ہوئی ہے کہ وہ کائنات کے ہر ہر اسرار سے پردہ اٹھا سکے۔
لیکن اہل مذہب کا یہ طریقہ واردات انصاف کے تقاضوں کے مطابق نہیں جہاں وہ پہلے سائنس پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے نظام کائنات کے متعلق سارے سوالات کے جوابات نہیں دیے، اور پھر اس بنیاد پر ان "سائنسی فیکٹ" کا بھی انکار کر دیتے ہیں کہ جنکو سائنس بغیر کسی شک و شبہ کے ثابت کر چکی ہے۔

قرآن اور حدیث میں بیان کردہ سائنس بالکل ابتدائ نوعیت کی primitive سائنس ہے۔
مگر اس primitive سائنس میں بھی مذہب نے اُس وقت کے جاہل عرب معاشرے کی طرح شدید غلطیاں کی ہوئی ہیں۔
آجکی ماڈرن سائنس قرآن اور حدیث میں بیان کردہ اس primitive نوعیت کے سائنسی دعوؤں کو مکمل طور پر ثبوتوں سے غلط ثابت کر چکی ہے۔

ابھی تک میرے سوال کا جواب نہیں ملا؟
کیا آپ اسلامی ہیں؟
آپ کے لئے جواب مندرجہ ذیل ہے میرے سوال ک کا جواب آنا باقی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

11846599_873082712778501_7363002940791916187_n.jpg
 
آخری تدوین:
Top