the intellectual and practical activity encompassing the systematic study of the structure and behavior of the physical and natural world through observation and experiment.
کل میں نے ایک مراسلے میں سوال کیا تھا کہ " پرویز ہود بھائی" کو بھائی کیوں کہا جاتا ہے اور کہیں اس کی بیوی بھی اُسے ہودبھائی تو نہیں کہتی؟ لیکن افسوس ہے آزادی اظہارِ رائے کے علمبرداروں پر کہ میرے اس مراسلے کو حذف کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں دینِ اسلام کی انتہائی معتبر ہستیوں کے اقوال کا مذاق اور ان ہستیوں پر طنز وتنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں تب کبھی کسی نے وہ مراسلے حذف نہیں کیے، لیکن جب میں نے ایک سڑک چھاپ کے بارے میں ایک عمومی سوال کیا جو کسی کے ذہن میں بھی آ سکتا ہے۔ تو مراسلہ ہی غائب کر دیا گیا کیوں ؟ کیا یہی معیار ہے یہاں اظہارِ رائے کی آزادی کا، کہ خود جو مرضی لکھ دو، لیکن دوسرے کو کچھ نہ بولنے دو۔
پرویز ہود بھائی والا مراسلہ غیر متعلقہ ہونے کی وجہ سے حذف ہوا ہے، دیگر مراسلے ذاتیات اور غیر شائشتہ ہونے کہ وجہ سے۔
یہاں پر ذایتات اور اخلاق سے گری ہوئی باتوں کی قطعاً اجازت نہیں ہے اور ایسے مراسلے بغیر وارننگ کے حذف ہو جاتے ہیں، مسلسل اس طرح کا رویہ اختیار کرنے پر اکثر صارفین معطل بھی ہو جاتے ہیں۔
یہی تعریف میں اپنی دوسری یا تیسری کلاس سے مختلف الفاظ میں پڑھتا آرہا ہوں ۔
میرے نقطہ ء نظر سے تو اس میں سائنس کی تعریف اور اس کی حد بھی شامل اور واضح ہے کہ یہ تجربات اور مشاہدات کے منظم عقلی تجزیوں تک محیط اور "یہیں" محدود ہے ۔(بشرطیکہ آپ اسے تسلیم کریں ۔۔۔)
پرویز ہود بھائی والا مراسلہ غیر متعلقہ ہونے کی وجہ سے حذف ہوا ہے، دیگر مراسلے ذاتیات اور غیر شائشتہ ہونے کہ وجہ سے۔
یہاں پر ذایتات اور اخلاق سے گری ہوئی باتوں کی قطعاً اجازت نہیں ہے اور ایسے مراسلے بغیر وارننگ کے حذف ہو جاتے ہیں، مسلسل اس طرح کا رویہ اختیار کرنے پر اکثر صارفین معطل بھی ہو جاتے ہیں۔
ہود بھائی کا اس لڑی کے شروع کے مراسلوں میں ذکر آیا تھا، اس لیے پوچھا تھا۔ اِسی لڑی میں پاکستان کے ایک مایہ ناز سائنس دان کو سڑک چھاپ کہا جاتا ہے لیکن آپ وہ مراسلہ حذف نہیں کرتے، کیا وہ کسی کی ذات پر حملہ نہیں شمار ہوتا؟
دوسرا میرے دھریت اور ملحدین کے بارے اُٹھائے گئے سوال کو بھی آپ نے حذف کر دیا کیوں؟ وہ کسی کی ذات پر حملہ نہیں تھا۔ اور اس لڑی میں دین اور لادین پر بحث ہو رہی ہے اس لیے میرا سوال غیر متعلقہ بھی نہیں تھا؟
یہی تعریف میں اپنی دوسری یا تیسری کلاس سے مختلف الفاظ میں پڑھتا آرہا ہوں ۔
میرے نقطہ ء نظر سے تو اس میں سائنس کی تعریف اور اس کی حد بھی شامل اور واضح ہے کہ یہ تجربات اور مشاہدات کے منظم عقلی تجزیوں تک محیط اور "یہیں" محدود ہے ۔(بشرطیکہ آپ اسے تسلیم کریں ۔۔۔)
آکسفرڈ ڈکشنری کی درج بالا تعریف کا مکمل اردو ترجمہ کچھ یوں ہو گا کہ "مشاہدے اور تجربے کے ذریعے طبعی اور قدرتی دنیا کی ساخت اور رویے کے منظم مطالعے پر محیط عقلی اور عملی سرگرمی"۔
صد فیصد بجا کہا آپ نے سائنس بالکل محدود ہے مشاہدات و تجربات کے ذریعے منظم مطالعے پر۔۔۔ لیکن اس کے دائرہ کار میں دنیا میں موجود ہر طبعی و قدرتی شے آ جاتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ "دنیا" کا لفظ کائنات میں موجود ہر شے کا احاطہ کرتا ہے۔
آکسفرڈ ڈکشنری کی درج بالا تعریف کا مکمل اردو ترجمہ کچھ یوں ہو گا کہ "مشاہدے اور تجربے کے ذریعے طبعی اور قدرتی دنیا کی ساخت اور رویے کے منظم مطالعے پر محیط عقلی اور عملی سرگرمی"۔
صد فیصد بجا کہا آپ نے سائنس بالکل محدود ہے مشاہدات و تجربات کے ذریعے منظم مطالعے پر۔۔۔ لیکن اس کے دائرہ کار میں دنیا میں موجود ہر طبعی و قدرتی شے آ جاتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ "دنیا" کا لفظ کائنات میں موجود ہر شے کا احاطہ کرتا ہے۔
جب آپ منظم کہتے ہیں تو آپ کسی اصول اور ضابطے کے تابع ہوجاتے ہیں اور ضابطہ بھی کسی نظام کی حدود کے تعین اور توضیح کا نام ہوتا ہے ۔خواہ مخواہ لفظوں میں الجھ کر توآپ اپنے آپ کوہی مطمئن نہیں کر سکتے چہ جائیکہ سائنس کا علم حاصل کریں ۔۔۔
جب آپ منظم کہتے ہیں تو آپ کسی اصول اور ضابطے کے تابع ہوجاتے ہیں اور ضابطہ بھی کسی نظام کی حدود کے تعین اور توضیح کا نام ہوتا ہے ۔خواہ مخواہ لفظوں میں الجھ کر توآپ اپنے آپ کوہی مطمئن نہیں کر سکتے چہ جائیکہ سائنس کا علم حاصل کریں ۔۔۔
حضور، اس تعریف میں منظم کی حدود پہلے ہی موجود ہیں کہ "systematic study through observation and experiment" یعنی "تجربے اور مشاہدے کے ذریعے" کی جانے والی سرگرمی۔ اس میں لفظوں میں الجھنا کیسا
حضور، اس تعریف میں منظم کی حدود پہلے ہی موجود ہیں کہ "systematic study through observation and experiment" یعنی "تجربے اور مشاہدے کے ذریعے" کی جانے والی سرگرمی۔ اس میں لفظوں میں الجھنا کیسا
یہاں آپ سے بہت بڑی چُوک ہورہی ہے۔ جو قوانین ِ قدرت ختمی قرار دئیے گیے ہیں وہ یا تو کلاسیکی میکینکس کے ہے یا کوانٹم کے۔ آپ کلاسکیکی فزکس کے قوانین کوانٹم پیمانے پر لاگو نہیں کرسکتے۔ اور یہی بات یہاں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ قوانین قدرت ہر شے کے لیے ہر جگہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔ جب یہ بات تسلیم کی جاتی ہے تو پھر سائنس اپنے ان قوانین اور محال قوانین میں قید ہوکر رہ جاتا ہے۔ جب یہ حدود لگتی ہیں تو پھر ان حدود سے باہر جھانکنے کے لیے آپ سائنس سے کسی طور بھی مدد نہیں لے سکتے۔ فاتح کے پیش کردہ آکسفورڈ تعریف کو بھی ذہن میں رکھیے۔
نیوٹن کے اخذ کردہ قوانین روشنی اور برقی مقناطیسی لہروں پر تجربات کے دوران پورے نہیں اتر رہے تھے۔ ایسے میں آئن اسٹائن کے نظریے کا آنا کیوں کا نہیں کب کا سوال تھا۔ اگر آئن اسٹائن نہ بھی آتا تو کسی اور ماہر طبیعات نے یہ معمہ حل کر دینا تھا۔
جب نیوٹن کے قوانین روشنی اور برقناطیسی لہروں کی وجہ سے معذور ہوسکتے تھے تو آج بھی اور تاقیامت ایسے قوانین موجود رہیں گے جنہیں معلوم کرنا انسان پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا پائے گا۔ کیوں کہ انسان بھی کچھ حدود میں مقید ہے۔
لیکن اس میں ایک بہت بڑا سقم ہے کہ اگر بعینہ یہی دلیل دے کر آپ سے پوچھا جائے کہ جب چھوٹے سے چھوٹی چیز بھی بغیر خالق کے نہیں بن سکتی تو اتنی پیچیدہ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق بشمول انسان کا اتنا پیچیدہ دماغ بنانے والی ہستی بغیر خالق کے کیسے بن گئی ؟
آپ پہلے اپنے خالق کو تسلیم کرلیں دوسری باتوں پر بعد میں سوچیے۔ اس خالق کائنات کو کس نے وجود دیا تو یہ آپ اور میرے چھوٹے سے ذہن میں (جو ابھی تک مریخ اور بحرارضی میں ٹھامک ٹھویاں ماررہاہے )کیسے آسکتا ہے؟؟
آپ پہلے زمین اور کائنات کے اسرار ورموز تو سمجھیے پھر اس کے خالق کی خلقت میں غور وفکر کریں۔ عجیب بات ہے کہ کائنات کے ان اسرار میں تو ہم نظریات بھی بناکر انہیں تسلیم کرلیتے ہیں لیکن جب بات خالق کی آتی ہے تو مختلف حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ جب تک آپ اپنے خالق کو تسلیم نہیں کریں گے آپ کا یہ سوال عبث ہے۔ بصورت ِ دیگر آپ وجود باری تعالیٰ کے منکر ہوں گے جو سراسر بے وقوفی ہے۔ کیوں کہ آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کائنات ایک محدود نظام ہے (اگرچہ ان حدود کا احاطہ ہمارے بس کی بات نہیں)۔اور کسی نظام کے خالق کا ہونا عین حقیقت ہے۔ وگرنہ نظام یا تو وجود ہی میں نہیں آئے گا اور یا چلے گانہیں۔
قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ وَمَا تُغْنِي الآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ (سورۃ یونس۔ آیت101)
'' اِن سے کہو'' آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو'' اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں۔''
یہی وہ سوال ہے جو ان سائنسدانوں کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیے کافی ہے ۔ لیکن اپنی عقل کے چھوٹے پن اور محدودیت کو تسلیم کرنے کے باوجود وہ ان حدود سے صرف نظر کرتے ہیں۔ تاکہ اپنا الو سیدھا رکھ سکے۔
اس تعریف میں منظم کی حدود پہلے ہی موجود ہیں کہ "systematic study through observation and experiment" یعنی "تجربے اور مشاہدے کے ذریعے" کی جانے والی سرگرمی۔
”مشاہدہ“، ”تجربہ“،”عقل“، ”عمل“۔۔۔ کیا خوب الفاظ ہیں۔
آپ ربِ تعالیٰ کے معاملے میں مشاہدہ نہیں کرنا چاہتے، تجربہ کرنا آپ کو گوارا نہیں، نتیجتاً عقل کی کھسوٹی پر پرکھنا ممکن نہیں تو پھر ماننا کیسا؟
آپ پہلے صدقِ دل سے یہ دعا تو کریں کہ اگر اس کائنات کا کوئی خالق ہے تو
آپ ابھی تک اس ”دنیا“میں موجود اشیاء کا احاطہ نہیں کرپائے تو جو چیزیں اس ”دنیا“ سے ماورا ہیں ان کے متعلق آپ سائنس سے کیسے مدد حاصل کرسکتے ہیں؟حالاں کہ سائنس ”محدود “ اور ”تجربات “کا محتاج ہے۔
آپ پہلے اپنے خالق کو تسلیم کرلیں دوسری باتوں پر بعد میں سوچیے۔ اس خالق کائنات کو کس نے وجود دیا تو یہ آپ اور میرے چھوٹے سے ذہن میں (جو ابھی تک مریخ اور بحرارضی میں ٹھامک ٹھویاں ماررہاہے )کیسے آسکتا ہے؟؟
آپ پہلے زمین اور کائنات کے اسرار ورموز تو سمجھیے پھر اس کے خالق کی خلقت میں غور وفکر کریں۔ عجیب بات ہے کہ کائنات کے ان اسرار میں تو ہم نظریات بھی بناکر انہیں تسلیم کرلیتے ہیں لیکن جب بات خالق کی آتی ہے تو مختلف حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ جب تک آپ اپنے خالق کو تسلیم نہیں کریں گے آپ کا یہ سوال عبث ہے۔ بصورت ِ دیگر آپ وجود باری تعالیٰ کے منکر ہوں گے جو سراسر بے وقوفی ہے۔ کیوں کہ آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کائنات ایک محدود نظام ہے (اگرچہ ان حدود کا احاطہ ہمارے بس کی بات نہیں)۔اور کسی نظام کے خالق کا ہونا عین حقیقت ہے۔ وگرنہ نظام یا تو وجود ہی میں نہیں آئے گا اور یا چلے گانہیں۔
واہ کیا خوب کہی آپ نے، کج بحثی اور اٹکل پچو میں آپ کا ثانی کوئی نہیں ہو گا۔
جو دلیل آپ دوسروں کو کائنات کے کسی خالق کو ماننے کے لیے دیتے ہیں بعینہ وہی دلیل آپ کو دی جائے تو آپ کہتے ہیں کہ پہلے زمین اور کائنات کے رموز سمجھیے پھر خالق کی خلقت پر غور و فکر کریں۔ خود اپنی اس نصیحت پر عمل کیوں نہیں کرتے کہ پہلے زمین اور کائنات کے رموز سمجھیے پھر اس کے خالق پر غور و فکر کر لیجیے گا۔ حد ہوتی ہے بھائی
”مشاہدہ“، ”تجربہ“،”عقل“، ”عمل“۔۔۔ کیا خوب الفاظ ہیں۔
آپ ربِ تعالیٰ کے معاملے میں مشاہدہ نہیں کرنا چاہتے، تجربہ کرنا آپ کو گوارا نہیں، نتیجتاً عقل کی کھسوٹی پر پرکھنا ممکن نہیں تو پھر ماننا کیسا؟
آپ پہلے صدقِ دل سے یہ دعا تو کریں کہ اگر اس کائنات کا کوئی خالق ہے تو
ہاہاہاہا یہ تو لطیفہ ہو گیا کہ اگر کسی ملحد کے سامنے خدا کی ذات کی دلیل پیش کرنی ہو تو اسے کہو چل بیٹا پڑ جا سجدے میں اور خدا سے پوچھ کہ وہ ہے کہ نہیں۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
دعا کس سے مانگے وہ ملحد؟ خدا سے؟ جس شے کو وہ مانتا نہیں وہ اس سے مانگ کیسے سکتا ہے؟؟؟؟
بھائی لوگو، مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔
اس ساری گفتگو کا مقصود کیا ہے؟
ایک صاحب نے سائنس پر یا مذہب پر یا دونوں پر ایک مضمون شائع کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مضمون کا تجزیہ کیا جاتا۔ محاسن و معائب پر بات ہوتی۔ مختلف رائیں دی جاتیں۔ صاحبِ مضمون اگر دیکھ لیتا تو بے تابانہ فورم میں شمولیت اختیار کر کے اپنا دفاع کرتا یا سمائیلیز بنا بنا کے "آپ کا شکریہ، عنایت، محبت" وغیرہ لکھتا۔
لیکن ہوا کیا؟ فاتح بھائی کے ایک دو مراسلوں کے علاوہ، اور ان کی بابت بھی مجھے حق الیقین حاصل نہیں، تمام لوگوں نے اپنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے شروع کر دیے اور مضمون کے متن کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ آصف اثر صاحب نے غالباً کسی وجدانی لہر میں آ کر زیک بھائی کو ضمیر کی قسم دے کر واقعی مضمون "پڑھنے" کی بابت پوچھا۔ زیک بھائی نے جو جواب ارسال کیا وہ اپنی جگہ کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ مضمون کی بابت کوئی نکتہ اٹھاتے تو شاید یہ کج بحثی فائدہ مند ہونے کی راہ پر چل نکلتی۔
ذیل میں میں نے وہ تمام مراسلے جمع کرنے کی کوشش کی ہے جو اس مضمون کے مخالفین (؟) نے ارسال کیے ہیں۔ طوالت کی اور تکرار کی معذرت، مگر انھیں ایک نظر پھر پڑھیے اور آخر میں دیے گئے تمام سوالات کے مفصل جوابات تحریر کیجیے۔ نیگیٹو مارکنگ نہ ہونے کی ضمانت دی جاتی ہے۔
ٹیگ کرنے پر شکریہ عارف لیکن میں سائنس کو الگ مضمون کے طور پر پڑھتا ہوں اور اسے مذہبی نظریات کے ساتھ گڈ مڈ نہیں کرتا۔ ورنہ تو مجھے امام احمد رضا خان بریلوی کی فتاویٰ رضویہ جلد 27 کا رسالہ "فوزِ مبین در ردِّ حرکتِ زمین" بھی پڑھ کر زمین کو ساکن اور باقی سب سیاروں اور ستاروں کو زمین کے گرد گھومتا ہوا ماننا پڑے گا۔
چلیے اب بتا دیتا ہوں اپنی رائے اس مضمون پر۔ صاحب مضمون نے وہی ہر تیسرے سڑک چھاپ کے انداز میں سائنس میں مذہب کو گھسیڑنے اور اور پڑھنے والوں کے سروں پر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ اس پر طرہ یہ یہ ارسال بھی آپ جیسے گھامڑ اور کج بحث نے کیا ہے جو سائنس کا نام لے کر مذہبی چورن بیچ رہا ہے۔
سائنٹفک تھیوری اور روایتی تھیوریز میں کافی فرق ہے۔ سائنسی تھیوریز سائنسی طریقہ سے حاصل ہوتی ہیں۔ کاش اس قسم کے مضامین لکھنے والے لوگ پہلے عام تھیوری اور سائنسی تھیوری کی تعریف ہی پڑھ لیا کریں۔
سائنس کے مطابق قوانین قدرت اٹل ہیں۔ مذہب پرستوں کے نزدیک یہ قوانین قدرت خدا نے بنائے ہیں اور وہ جب چاہے معجزاتی رنگ میں انکے ساتھ کھلواڑ کر سکتا ہے۔اسلامی لاجک۔
سائنس کی طرف عجلت میں لپکنے سے قبل کم از کم یہی سیکھ لینا تھا کہ Rational اور Irrational اعداد آخر ہوتے کیا ہیں ! نیز ریاضی میں لامحدود اور لامتناہی کا کیا تصور ہے۔
بہرحال توقع کے عین مطابق سائنس کے عنوان کے نیچے وہی مذہب پرستی ریسکائیکل کی گئی ہے۔
آپ کو اعتراض اس بات پر ہے کہ میں نے سائنس کیا ہے کیا نہیں کے متعلق یہ کیوں لکھا کہ میں مذہبی نظریات اور سائنس کو الگ الگ پڑھتا ہوں اور اس پر آپ مجھ پر معترض ہیں کہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر بات کا رخ کسی اور طرف موڑ رہا ہوں۔ عرض ہے کہ میں نے بات کا رخ کسی اور طرف نہیں موڑا بلکہ صاحبِ مضمون کا ایجنڈا ہی ڈسکس کیا ہے۔ اگر اسے سائنسی مضمون مانا جائے اور مذہب کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ کام تو فاضل مصنف اول تا آخر اس مضمون میں کیے چلے جا رہے ہیں۔
ایک ایسے مضمون کے متعلق قاری سے یہ کہنا کہ اسے صرف سائنسی مضمون کے طور پر پڑھا جائے اور مذہب کا ذکر بیچ میں نہ لایا جائے جس مضمون کے کی ورڈز درج ذیل ہوں، چہ معنی دارد
خدا
مذہب
مقدس کتابیں
انجیل
قرآن
فرشتے
روح
برزخ
یوم حشر
جنت
جہنم
اس سب کے بعد گفتگو بھی صاحب مضمون کے اسی ایجنڈے پر پر ہونی تھی نا کہ سائنس نامی کسی شے پر جو مصنف کا مطمع نظر ہی نہیں لگ رہی اس مضمون میں۔
نیوٹن کے اخذ کردہ قوانین روشنی اور برقی مقناطیسی لہروں پر تجربات کے دوران پورے نہیں اتر رہے تھے۔ ایسے میں آئن اسٹائن کے نظریے کا آنا کیوں کا نہیں کب کا سوال تھا۔ اگر آئن اسٹائن نہ بھی آتا تو کسی اور ماہر طبیعات نے یہ معمہ حل کر دینا تھا۔
اس کتاب سے جسے صاحب مضمون کے بقول آج تک کوئی پوری طرح سمجھ ہی نہیں پایا اور نہ کبھی سمجھ پائے گا، انسان کے لیے زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں رہنمائی حاصل کرنا کیسے ممکن ہے؟
نیوٹن کے قوانین آج بھی کام کرتے ہیں اور غلط ثابت نہیں ہوئے بس دائرہ کار کچھ محدود ہوا ہے۔
دوسری بات یہ کہ سائنس میں تبدیلی آ سکتی ہے مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ آج کے سائنسی نظریات اور قوانین کی کوئی حیثیت نہیں اور یہ غلط سلط نظریات کے برابر ہیں بالکل غلط ہے۔
شکریہ عاطف، لیکن درج بالا نکات کےمتعلق "ثابت" کا لفظ کہنا غلط ہے کیونکہ عقلی و منطقی و سائنسی دلیلوں سے تو ان نکات کو ثابت کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ان کو تو ہم محض اس لیے مانتے چلے آ رہے کہ ہمارے ماں باپ نے اور ان کو ان کے ماں باپ نے اور ان کو ان کے ماں باپ نے (الخ)یہی بتایا۔
یہی جاننا چاہ رہا تھا جو آپ نے بتا دیا کہ یہ نکات وہ ہیں کہ سائنس کے برعکس جن کو تبدیل کرنے کی مذہب کبھی اجازت نہیں دے گا خواہ جس قدر بھی تحقیق اور علم کے بعد ان نکات کو تبدیل کرنے کی بات کی جائے ۔
یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ مذہب کو علم حاصل کرنے یا جاننے کی جستجو یعنی سائنس سے تب تک کوئی سروکار نہیں جب تک سائنس دان اپنی حد سے تجاوز نہ کریں اور ایک الگ مذہب نہ بنا لیں۔
یہاں میرا پہلا سوال تو یہ ہے کہ سائنس کی حدود کا تعین کس نے اور کب کیا؟
دوسرا سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ کیا صرف تب ہی مذہب کو سائنس سے سروکار ہو گی جب سائنس دان اپنا کوئی الگ مذہب بنا لیں۔ کیا ایسا کوئی مذہب بنایا گیا ہے؟
آپ کی بات میں وزن ہے اور بہت ہی اچھی دلیل دی آپ نے کہ چھوٹے سے چھوٹی چیز بھی بغیر خالق کے نہیں بن سکتی تو اتنی پیچیدہ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق بشمول انسان کا اتنا پیچیدہ دماغ خود بخود کیسے بن گیا، اسے بنانے اور چلانے کے لیے کسی خالق کی ضرورت ہے۔ لیکن اس میں ایک بہت بڑا سقم ہے کہ اگر بعینہ یہی دلیل دے کر آپ سے پوچھا جائے کہ جب چھوٹے سے چھوٹی چیز بھی بغیر خالق کے نہیں بن سکتی تو اتنی پیچیدہ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق بشمول انسان کا اتنا پیچیدہ دماغ بنانے والی ہستی بغیر خالق کے کیسے بن گئی ؟
اس صورت میں کیا آپ کے پیش کردہ مصرع کو تبدیل کیا جاءے گا کہ۔۔۔۔ کوئی تو ہے جو خدا کی ہستی بنا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو نظامِ یزداں چلا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو اسے بھی آخر بنا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو بنانے والے خدا کو بھی پھر بنا رہا ہے۔ کئی خدا ہیں
آکسفرڈ ڈکشنری کی درج بالا تعریف کا مکمل اردو ترجمہ کچھ یوں ہو گا کہ "مشاہدے اور تجربے کے ذریعے طبعی اور قدرتی دنیا کی ساخت اور رویے کے منظم مطالعے پر محیط عقلی اور عملی سرگرمی"۔
صد فیصد بجا کہا آپ نے سائنس بالکل محدود ہے مشاہدات و تجربات کے ذریعے منظم مطالعے پر۔۔۔ لیکن اس کے دائرہ کار میں دنیا میں موجود ہر طبعی و قدرتی شے آ جاتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ "دنیا" کا لفظ کائنات میں موجود ہر شے کا احاطہ کرتا ہے۔
حضور، اس تعریف میں منظم کی حدود پہلے ہی موجود ہیں کہ "systematic study through observation and experiment" یعنی "تجربے اور مشاہدے کے ذریعے" کی جانے والی سرگرمی۔ اس میں لفظوں میں الجھنا کیسا
واہ کیا خوب کہی آپ نے، کج بحثی اور اٹکل پچو میں آپ کا ثانی کوئی نہیں ہو گا۔
جو دلیل آپ دوسروں کو کائنات کے کسی خالق کو ماننے کے لیے دیتے ہیں بعینہ وہی دلیل آپ کو دی جائے تو آپ کہتے ہیں کہ پہلے زمین اور کائنات کے رموز سمجھیے پھر خالق کی خلقت پر غور و فکر کریں۔ خود اپنی اس نصیحت پر عمل کیوں نہیں کرتے کہ پہلے زمین اور کائنات کے رموز سمجھیے پھر اس کے خالق پر غور و فکر کر لیجیے گا۔ حد ہوتی ہے بھائی
ہاہاہاہا یہ تو لطیفہ ہو گیا کہ اگر کسی ملحد کے سامنے خدا کی ذات کی دلیل پیش کرنی ہو تو اسے کہو چل بیٹا پڑ جا سجدے میں اور خدا سے پوچھ کہ وہ ہے کہ نہیں۔ ہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا
دعا کس سے مانگے وہ ملحد؟ خدا سے؟ جس شے کو وہ مانتا نہیں وہ اس سے مانگ کیسے سکتا ہے؟؟؟؟
المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے "سائنس دان" بھی ٹیکنالوجی کے مضمرات سے پوری طرح باخبر نہیں، عامی تو عامی رہے۔ میں ایک آن لائن مضمون پر اس قدر غیرمتعلقہ باتیں اندھا دھند کرتا جاؤں تو مجھے یقین رکھنا چاہیے کہ وہ وقت دور نہیں جب شرمندگی میرا مقدر بنے گی۔ شاید میں خود کچھ عرصے بعد یہ سب پڑھ کے کھسیا جاؤں۔ زیادہ بری بات یہ ہوگی کہ کوئی اور ان باتوں کا حوالہ دے کر مجھے احمق ثابت کر دے۔
مندرجہ بالا تمام باتیں میری رائے میں کسی دانشمندانہ مباحثے سے دور دور تک علاقہ نہیں رکھتیں۔ ایک دوسرے کو رگیدنے کی غرض سے کیے گئے اپنے یہ ارشادات اگر آپ ترجمہ کر کے کسی سنجیدہ علمی فورم پر ارسال فرمائیں تو فوراً سے پہلے مثمن محذوف ہو جائیں گے۔
آمدم بر سرِ مطلب، یہ بتائیے کہ صاحبِ مضمون کی فکر پر آپ کو اعتراض کیا ہے؟ کیا سائنس کی بابت ان کا فہم ناقص ہے؟ کیا انھوں نے کسی سائنسی حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے؟ کیا انھوں نے کسی نظریے کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے؟ کیا سائنس اور مذہب کا جو باہمی اور انسان سے تعلق انھوں نے بتایا ہے اس کو آپ خلافِ عقل سمجھتے ہیں؟
ایک عرض میں بھی کر دوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔
کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ہمارے لادین دوستوں کے ساتھ شاید یہی معاملہ ہے۔ اہلِ مذہب کا سوادِ اعظم عقل کے استعمال کو کبیرہ گناہ سمجھتا ہے۔ پھر سمجھنا ایک طرف، اس رویے پر اس سختی سے کاربند ہے کہ گویا سوچی پیا تے بندہ گیا۔ لیکن عوام تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اور سائنس کے برعکس مذہب میں عوام عام پائے جاتے ہیں۔ ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت کی تعمیم اگر یوں کر دی جائے کہ اہلِ مذہب تمام احمق اور خرد دشمن ہیں تو اس سے بڑی خرد دشمنی اور کوئی نہیں۔
غیر متفق، مضحکہ خیز وغیرہ کے ٹھپوں لیے کلو والا شاپر لے لوں یا بڑا؟
آپ کی بات میں وزن ہے اور بہت ہی اچھی دلیل دی آپ نے کہ چھوٹے سے چھوٹی چیز بھی بغیر خالق کے نہیں بن سکتی تو اتنی پیچیدہ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق بشمول انسان کا اتنا پیچیدہ دماغ خود بخود کیسے بن گیا، اسے بنانے اور چلانے کے لیے کسی خالق کی ضرورت ہے۔ لیکن اس میں ایک بہت بڑا سقم ہے کہ اگر بعینہ یہی دلیل دے کر آپ سے پوچھا جائے کہ جب چھوٹے سے چھوٹی چیز بھی بغیر خالق کے نہیں بن سکتی تو اتنی پیچیدہ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق بشمول انسان کا اتنا پیچیدہ دماغ بنانے والی ہستی بغیر خالق کے کیسے بن گئی ؟
اس صورت میں کیا آپ کے پیش کردہ مصرع کو تبدیل کیا جاءے گا کہ۔۔۔۔ کوئی تو ہے جو خدا کی ہستی بنا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو نظامِ یزداں چلا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو اسے بھی آخر بنا رہا ہے ۔ کوئی تو ہے جو بنانے والے خدا کو بھی پھر بنا رہا ہے۔ کئی خدا ہیں
آپ نے جو کئی خداؤں والا مفروضہ پیش کیا ہے ، ہمارے خیال میں آپ خود بھی بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ پریکٹیکل یا قابل عمل نہیں ہے۔۔۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کہاں کام کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ آپ جس ادارے میں بھی کام کرتے ہیں اس کا ایک ہی سربراہ ہو گا۔۔۔ بلکہ دنیا کی کسی بھی تنظیم یا ادارے یا حکومتی نظام کو دیکھا جائے تو اس کا سربراہ ایک ہی ہوتا ہے اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔۔۔ مثال کے طور پر اگر امریکہ کے دو صدر بنا دیے جائیں یا پاکستان کے دو یا دو سے زیادہ وزیر اعظم بنا دیے جائیں یا ہر سیاسی جماعت کے ایک ایک رکن کو کراچی کا ناظم بنا دیا جائے تو صورت حال کیا ہو گی، ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ لہذا اس کائنات کا انتظام و انصرام فرمانے والا بھی ایک ہی ہونا ضروری ہے۔ اور وہ اللہ سبحانہ وتعالٰی ہے۔۔۔
آپ کا دوسرا سوال کہ
جب چھوٹے سے چھوٹی چیز بھی بغیر خالق کے نہیں بن سکتی تو اتنی پیچیدہ کائنات اور اس میں بسنے والی مخلوق بشمول انسان کا اتنا پیچیدہ دماغ بنانے والی ہستی بغیر خالق کے کیسے بن گئی ؟
کسی چیز کے بننے کا مطلب ہے اس کا وقوع پزیر ہونا۔ اور وقوع پزیری کے لئے زمان و مکان کا ہونا ضروری ہے کہ وہ چیز کسی وقت میں اور کسی جگہ پر بنی یا واقع ہوئی۔۔۔تو جب ایک ہستی ہر چیز کی خالق ہو بشمول زمان و مکان کے ، تو اس ہستی پر بننے ، بنائے جانے یا وقوع پزیر ہونے کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ زمان و مکان تو خود اس کی مخلوق ہے اور وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ لہٰذا وہ ہر چیز سے پہلے یعنی ہمیشہ سے ہے اور بذاتہ قائم ہے۔ اور ایسی ہی ہستی الٰہ ہونے کے لائق ہے۔ جس کو مسلمان اللہ کے نام سے پکارتے ہیں۔۔۔
نہ تھا کچھ تو ،،، خدا تھا
کچھ نہ ہوتا تو،،، خدا ہوتا۔۔۔
بھائی ، افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ دوسروں کے علاوہ اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتے ہیں ۔ یعنی خود اپنے آپ سے مخلص نہیں ہیں ۔ ایسے میں کوئی بھی مکالمہ تحصیل ِ لاحاصل ہے ۔انگریزی کہاوت کے مطابق آپ گھوڑے کو صرف پانی تک لے جاسکتے ہیں اسے پانی پینے پر مجبور نہیں کرسکتے ۔ بھائی آپ نے مقابل تک اپنی بات پہنچادی ۔ کام ختم ۔ کسی کو قائل کئے تک بحث کرناآپ کا کام نہیں ہے ۔ یہ توانائی اور وقت کہیں اور استعمال کریں ۔ خدا کا وجود انسانی حواسِ خمسہ سے مکتسب علم کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے لئے ایک اور احساس کی ضرورت ہے ۔ حواسِ خمسہ تو کسی نہ کسی سطح پر جانوروں میں بھی موجود ہیں ۔ ان حواس سے مکتسب علم کو بنیاد بنا کر ہر حیوان نے اپنا اپنا سائنسی نظام بھی قائم کیا ہوا ہے جو ظاہر ہے کہ انسانی سائنسی نظام سے پست تر ہے لیکن ان دونوں کی بنیادی نوعیت تو ایک ہی ہے ۔ انسان ان جانوروں سے اسی ایک ’’ روحانی حس‘‘ کی بدولت ممتاز ہے کہ جس کی مدد سے وہ اپنے خالق کو پہچانتا ہے ۔ اب یہ حس آپ کسی شخص میں براہین و دلائل کے ذریعے پیدا نہیں کرسکتے ۔ این سعادت بزورِ حجت نیست ۔ میرا ساری عمر کا تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے ۔ آپ بھی اپنی سی کر دیکھئے ۔
آپ نے جو کئی خداؤں والا مفروضہ پیش کیا ہے ، ہمارے خیال میں آپ خود بھی بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ پریکٹیکل یا قابل عمل نہیں ہے۔۔۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کہاں کام کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ آپ جس ادارے میں بھی کام کرتے ہیں اس کا ایک ہی سربراہ ہو گا۔۔۔ بلکہ دنیا کی کسی بھی تنظیم یا ادارے یا حکومتی نظام کو دیکھا جائے تو اس کا سربراہ ایک ہی ہوتا ہے اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔۔۔ مثال کے طور پر اگر امریکہ کے دو صدر بنا دیے جائیں یا پاکستان کے دو یا دو سے زیادہ وزیر اعظم بنا دیے جائیں یا ہر سیاسی جماعت کے ایک ایک رکن کو کراچی کا ناظم بنا دیا جائے تو صورت حال کیا ہو گی، ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ لہذا اس کائنات کا انتظام و انصرام فرمانے والا بھی ایک ہی ہونا ضروری ہے۔ اور وہ اللہ سبحانہ وتعالٰی ہے۔۔۔
میں نے کئی خداؤں کا مفروضہ پیش نہیں کیا تھا بلکہ آپ کے پیش کردہ مصرع پر طبع آزمائی کی تھی۔
رہی بات مفروضوں والی تو تو مفروضہ تو کوئی بھی قابل عمل نہیں ہوتا جب تک اسے تجربات سے نہ گزارا جائے۔ اور کائنات کے حوالے سے یہ خدا کی موجودگی والا مفروضہ واحد مفروضہ نہیں، ایسے کئی مفروضے موجود ہیں مثلاً ہم سب کمپیوٹر سمیولیشنز ہیں اور اس سمیولیشنز کو بنانے والے کئی ذہین پروگرامرز ہیں جنہوں نے یہ کائنات ایک گیم کے طور پر بنا رکھی ہے۔ پھر یہ بھی مفروضہ موجود ہے کہ وہ گیم ڈیزائنرز خود بھی سمیولیشنز ہیں جنہیں کسی اور ذہین ڈیزائنرز نے بنایا ہوا ہے اور انہیں کسی اور نے و علی ہٰذا القیاس۔ جتنے جی چاہے مفروضے بنا لیں کون روک سکتا ہے ۔ کون سا ان مفروضوں کو ثابت کرنا پڑتا ہے خواہ وہ ایک خدا کا مفروضہ ہو یا بے شمار خداؤں کا
آپ نے پوچھا کہ میں جس ادارے میں کام کرتا ہوں وہں سربراہ ایک ہے یا نہیں تو عرض ہے کہ میں جہاں کام کرتا ہوں وہاں کے دو سربراہان ہیں، میں اور میرا بزنس پارٹنر۔
کسی چیز کے بننے کا مطلب ہے اس کا وقوع پزیر ہونا۔ اور وقوع پزیری کے لئے زمان و مکان کا ہونا ضروری ہے کہ وہ چیز کسی وقت میں اور کسی جگہ پر بنی یا واقع ہوئی۔۔۔تو جب ایک ہستی ہر چیز کی خالق ہو بشمول زمان و مکان کے ، تو اس ہستی پر بننے ، بنائے جانے یا وقوع پزیر ہونے کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ زمان و مکان تو خود اس کی مخلوق ہے اور وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ لہٰذا وہ ہر چیز سے پہلے یعنی ہمیشہ سے ہے اور بذاتہ قائم ہے۔ اور ایسی ہی ہستی الٰہ ہونے کے لائق ہے۔ جس کو مسلمان اللہ کے نام سے پکارتے ہیں۔۔۔
نہ تھا کچھ تو ،،، خدا تھا
کچھ نہ ہوتا تو،،، خدا ہوتا۔۔۔
حضرت، ہمیں تو یہ معمہ حل کئے ایک عرصہ ہو گیا بشکریہ ریچرڈ ڈاکنز۔ ہم نے تو یہ سوال ایمانی لاجک پر چلنے والے بند دماغوں کیلیے کیا تھا جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ خدا کی ہستی پر ایمان نہ لانے والے دائمی عذاب کا مزہ چکھیں گے۔ اس ضمن میں یہ سوال عین فطری اور منطقی ہے کہ جس ہستی کا نا قابل تردید اثبوت آج تک کوئی دے نہیں سکا، اس پر ایمان کیونکر لایا جائے۔