بھائی لوگو، مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔
اس ساری گفتگو کا مقصود کیا ہے؟
ایک صاحب نے سائنس پر یا مذہب پر یا دونوں پر ایک مضمون شائع کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس مضمون کا تجزیہ کیا جاتا۔ محاسن و معائب پر بات ہوتی۔ مختلف رائیں دی جاتیں۔ صاحبِ مضمون اگر دیکھ لیتا تو بے تابانہ فورم میں شمولیت اختیار کر کے اپنا دفاع کرتا یا سمائیلیز بنا بنا کے "آپ کا شکریہ، عنایت، محبت" وغیرہ لکھتا۔
لیکن ہوا کیا؟ فاتح بھائی کے ایک دو مراسلوں کے علاوہ، اور ان کی بابت بھی مجھے حق الیقین حاصل نہیں، تمام لوگوں نے اپنے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے شروع کر دیے اور مضمون کے متن کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ آصف اثر صاحب نے غالباً کسی وجدانی لہر میں آ کر زیک بھائی کو ضمیر کی قسم دے کر واقعی مضمون "پڑھنے" کی بابت پوچھا۔ زیک بھائی نے جو جواب ارسال کیا وہ اپنی جگہ کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ حالانکہ اگر وہ مضمون کی بابت کوئی نکتہ اٹھاتے تو شاید یہ کج بحثی فائدہ مند ہونے کی راہ پر چل نکلتی۔
ذیل میں میں نے وہ تمام مراسلے جمع کرنے کی کوشش کی ہے جو اس مضمون کے مخالفین (؟) نے ارسال کیے ہیں۔ طوالت کی اور تکرار کی معذرت، مگر انھیں ایک نظر پھر پڑھیے اور آخر میں دیے گئے تمام سوالات کے مفصل جوابات تحریر کیجیے۔ نیگیٹو مارکنگ نہ ہونے کی ضمانت دی جاتی ہے۔
پیارے لوگو، انٹرنیٹ گروؤں کا ایک مقولہ ہے:
المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے "سائنس دان" بھی ٹیکنالوجی کے مضمرات سے پوری طرح باخبر نہیں، عامی تو عامی رہے۔ میں ایک آن لائن مضمون پر اس قدر غیرمتعلقہ باتیں اندھا دھند کرتا جاؤں تو مجھے یقین رکھنا چاہیے کہ وہ وقت دور نہیں جب شرمندگی میرا مقدر بنے گی۔ شاید میں خود کچھ عرصے بعد یہ سب پڑھ کے کھسیا جاؤں۔ زیادہ بری بات یہ ہوگی کہ کوئی اور ان باتوں کا حوالہ دے کر مجھے احمق ثابت کر دے۔
مندرجہ بالا تمام باتیں میری رائے میں کسی دانشمندانہ مباحثے سے دور دور تک علاقہ نہیں رکھتیں۔ ایک دوسرے کو رگیدنے کی غرض سے کیے گئے اپنے یہ ارشادات اگر آپ ترجمہ کر کے کسی سنجیدہ علمی فورم پر ارسال فرمائیں تو فوراً سے پہلے مثمن محذوف ہو جائیں گے۔
آمدم بر سرِ مطلب، یہ بتائیے کہ صاحبِ مضمون کی فکر پر آپ کو اعتراض کیا ہے؟ کیا سائنس کی بابت ان کا فہم ناقص ہے؟ کیا انھوں نے کسی سائنسی حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے؟ کیا انھوں نے کسی نظریے کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے؟ کیا سائنس اور مذہب کا جو باہمی اور انسان سے تعلق انھوں نے بتایا ہے اس کو آپ خلافِ عقل سمجھتے ہیں؟
ایک عرض میں بھی کر دوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔
کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ہمارے لادین دوستوں کے ساتھ شاید یہی معاملہ ہے۔ اہلِ مذہب کا سوادِ اعظم عقل کے استعمال کو کبیرہ گناہ سمجھتا ہے۔ پھر سمجھنا ایک طرف، اس رویے پر اس سختی سے کاربند ہے کہ گویا سوچی پیا تے بندہ گیا۔ لیکن عوام تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اور سائنس کے برعکس مذہب میں عوام عام پائے جاتے ہیں۔ ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت کی تعمیم اگر یوں کر دی جائے کہ اہلِ مذہب تمام احمق اور خرد دشمن ہیں تو اس سے بڑی خرد دشمنی اور کوئی نہیں۔
غیر متفق، مضحکہ خیز وغیرہ کے ٹھپوں لیے کلو والا شاپر لے لوں یا بڑا؟
وہ مضمون اس لڑی کا موضوع ہے اس کی بنیادی خامی یہ ہے کہ وہ سائنسی ہونے کا دعوی کرتا ہے مگر اصل میں مذہبی ہے۔ مضمون نگار مذہب اور اعتقاد کو سائنس، تجربے اور مشاہدے پر فوقیت دیتا ہے۔ اگر آپ کا مذہب ینگ ارتھ کریئشنزم سکھاتا ہے تو علیم احمد کے حساب سے جیالوجی، فلکیات اور حیاتیات سب کو رد کریں اور اپنے اعتقاد پر قائم رہیں۔
فاتح کا سوال بھی عین فطری اور منطقی ہے کہ جب یہ وسیع اور قدیم کائنات بغیر کسی خالق کے وجود میں آ نہیں سکتی تو اس عظیم خالق کا پیدا کرنے والا کون ہے۔ اس سوال کا کوئی مذہبی و فلسفیانہ جواب موجود نہیں۔ البتہ سائنس میں اس کا جواب بگ بینگ سے پہلے کے تناظر میں ایک عرصہ سے موجود ہے۔ اس کی تائید دور حاضر کے ماہر فلکیات و طبیعات اسٹیفن ہاکنگز کر چکے ہیں۔
بھائی ، افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگ دوسروں کے علاوہ اپنے آپ سے بھی جھوٹ بولتے ہیں ۔ یعنی خود اپنے آپ سے مخلص نہیں ہیں ۔ ایسے میں کوئی بھی مکالمہ تحصیل ِ لاحاصل ہے ۔انگریزی کہاوت کے مطابق آپ گھوڑے کو صرف پانی تک لے جاسکتے ہیں اسے پانی پینے پر مجبور نہیں کرسکتے ۔ بھائی آپ نے مقابل تک اپنی بات پہنچادی ۔ کام ختم ۔ کسی کو قائل کئے تک بحث کرناآپ کا کام نہیں ہے ۔ یہ توانائی اور وقت کہیں اور استعمال کریں ۔ خدا کا وجود انسانی حواسِ خمسہ سے مکتسب علم کے ذریعے ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے لئے ایک اور احساس کی ضرورت ہے ۔ حواسِ خمسہ تو کسی نہ کسی سطح پر جانوروں میں بھی موجود ہیں ۔ ان حواس سے مکتسب علم کو بنیاد بنا کر ہر حیوان نے اپنا اپنا سائنسی نظام بھی قائم کیا ہوا ہے جو ظاہر ہے کہ انسانی سائنسی نظام سے پست تر ہے لیکن ان دونوں کی بنیادی نوعیت تو ایک ہی ہے ۔ انسان ان جانوروں سے اسی ایک ’’ روحانی حس‘‘ کی بدولت ممتاز ہے کہ جس کی مدد سے وہ اپنے خالق کو پہچانتا ہے ۔ اب یہ حس آپ کسی شخص میں براہین و دلائل کے ذریعے پیدا نہیں کرسکتے ۔ این سعادت بزورِ حجت نیست ۔ میرا ساری عمر کا تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے ۔ آپ بھی اپنی سی کر دیکھئے ۔
بہت بہت شکریہ ۔ بہت خوب ۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ بین کے جتنے سرآپ کا گلا نکال سکتا ہے اتنے تو نکال کر دکھادیں کیا خبر کسی سر سے آگ لگ جائے مگر لگتا ہے گئی بھینس پانی میں ۔ آگ کا کیا اثر ہوگا۔
آپ کا تجربہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے ۔
سچ کہا حکیم نے کہ
خرد کیونکر بتائے کیا بتائے
اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
کیا واقعی؟ تو پھر سنہ 1633 میں گیلیلیو کو صرف اس بات پر کیوں سزا سنائی گئی کہ اسنے اپنی دور بین سے مشاہدہ کر کے یہ ثابت کر دیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے؟ اسی طرح مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے نامور فلاسفروں، مفکروں اور سائنسدانوں سے جو غیر اسلامی نتائج اخذ کر کے جیل اور موت کی سزا کاٹ کر اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں۔
جب آپ اور ہم اچھی طرح جانتے اور مانتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا لکڑی کا چرخہ یا چکی بغیر کسی چلانے والے کے نہیں چل سکتی یا ایک علاقے کا یا ایک چھوٹے سے گھر کا نظام یا صرف اردو محفل کا نظام بھی بغیر کسی ناظم ، منتظم یا چلانے والے کے نہیں چل سکتا تو پھر سوچیں کہ اتنی بڑی دنیا ، اس میں بسنے والی مخلوقات اور اتنی وسیع کائنات کا پورا نظام بغیر کسی کے انتظام و انصرام سے کیسے چل سکتا ہے؟؟؟
اس کائنات کا تمام تر نظام اٹل قوانین قدرت کے اصولوں پر چلتا ہے نہ کہ ہمہ وقت نگرانی کرنے والے کی قوت سے۔ سائنس کے مطابق کائنات میں 4 بنیادی قوتیں کام کر رہی ہیں، جنکی بنیاد پر تمام مادہ بشمول لہریں اور ذرات حرکت کرتے ہیں۔ ان میں کشش ثقل، برقی مقناطیسیت، قوی جوہری اور نحیف جوہری قوتیں شامل ہیں۔ یہ بنیادی قوتیں پوری کائنات میں یکساں کام کرتی ہیں اور بگ بینگ سے لیکر ابتک یہی کائنات کی ’’مالک‘‘ ہیں۔ سائنس نے پچھلے کچھ سو سال کے دوران انہی قوتوں پر دسترس حاصل کر کے بجلی، مواصلات اور دوسرے سیاروں تک سواری حاصل کی ہے۔ کسی غیر مرئی قوت سے تقویت پاکر یہ سب حاصل نہیں کیا ہے۔
اسکی ایک چھوٹی سی مثال آپ یہیں محفل پر عام استعمال ہونے والے جمیل نوری نستعلیق فانٹ کی دیکھ لیں۔ خاکسار اسکا خالق ہے، مطلب اسمیں موجود تمام تر کوڈنگ کےاصولوں کو شامل کرنے کا ذمہ دار ہے۔ البتہ جب آپ اس فانٹ میں متن ٹائپ کرتے ہیں تو میں اسکو آپکے سسٹم پر بیٹھ کر خود نہیں چلاتا۔ بلکہ یہ اپنے آپ پہلے سے موجود ہدایات کے مطابق چلتا چلا جاتا ہے۔ اب آپ مجھے کہیں کہ میرا تخلیق کردہ فانٹ اچانک چینی یا جاپانی لکھنا شروع ہو گیا ہے تو میں اسے جذبہ ایمانی سے سرشار افراد کی طرح ’’معجزہ‘‘ نہیں ’’بگ‘‘ تصور کروں گا ۔
سائنس کی کوئی تحقیقی حدود متعین نہیں البتہ اخلاقی حدود ضرور موجود ہیں جیسے انسانوں پر تجربات، ان کی کلوننگ، بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال وغیرہ۔
یہاں آپ سے بہت بڑی چُوک ہورہی ہے۔ جو قوانین ِ قدرت ختمی قرار دئیے گیے ہیں وہ یا تو کلاسیکی میکینکس کے ہے یا کوانٹم کے۔ آپ کلاسکیکی فزکس کے قوانین کوانٹم پیمانے پر لاگو نہیں کرسکتے۔ اور یہی بات یہاں سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ قوانین قدرت ہر شے کے لیے ہر جگہ ایک جیسے نہیں ہوتے۔
قوانین قدرت پوری کائنات میں یکساں کام کرتے ہیں۔ صرف شدید ماحول والے اجسام جیسے بلیک ہولز وغیرہ کے اندر قوانین قدرت فیل ہو جاتے ہیں کہ وہاں کشش ثقل کی شدت کیوجہ سے زمان و مکاں کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔
جب نیوٹن کے قوانین روشنی اور برقناطیسی لہروں کی وجہ سے معذور ہوسکتے تھے تو آج بھی اور تاقیامت ایسے قوانین موجود رہیں گے جنہیں معلوم کرنا انسان پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا پائے گا۔ کیوں کہ انسان بھی کچھ حدود میں مقید ہے۔
آپ پہلے زمین اور کائنات کے اسرار ورموز تو سمجھیے پھر اس کے خالق کی خلقت میں غور وفکر کریں۔ عجیب بات ہے کہ کائنات کے ان اسرار میں تو ہم نظریات بھی بناکر انہیں تسلیم کرلیتے ہیں لیکن جب بات خالق کی آتی ہے تو مختلف حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ جب تک آپ اپنے خالق کو تسلیم نہیں کریں گے آپ کا یہ سوال عبث ہے۔ بصورت ِ دیگر آپ وجود باری تعالیٰ کے منکر ہوں گے جو سراسر بے وقوفی ہے۔ کیوں کہ آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کائنات ایک محدود نظام ہے (اگرچہ ان حدود کا احاطہ ہمارے بس کی بات نہیں)۔اور کسی نظام کے خالق کا ہونا عین حقیقت ہے۔ وگرنہ نظام یا تو وجود ہی میں نہیں آئے گا اور یا چلے گانہیں۔
آپ اس مسئلہ کی جڑ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بالفرض اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ اس کائنات کو تخلیق کرنے والے اور چلانے والی ضرورت ہے تو اس خالق کی تعداد کا تعین کیسے ہوگا؟ اور یہاں پھر وہی سوال آئے گا اس عظیم خالق یا خالقین کا اپنا خالق کون ہے؟
یہی وہ سوال ہے جو ان سائنسدانوں کے چودہ طبق روشن کرنے کے لیے کافی ہے ۔ لیکن اپنی عقل کے چھوٹے پن اور محدودیت کو تسلیم کرنے کے باوجود وہ ان حدود سے صرف نظر کرتے ہیں۔ تاکہ اپنا الو سیدھا رکھ سکے۔
سائنسدانوں کو اپنا الو سیدھا کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ یہ کام کسی ذاتی فائدے کیلئے بلکہ تمام انسانیت کی بھلائی کرتے ہیں۔ اپنے من پسند الو سیدھا کرنا مذہب پرستوں کا شیوہ ہے۔
”مشاہدہ“، ”تجربہ“،”عقل“، ”عمل“۔۔۔ کیا خوب الفاظ ہیں۔
آپ ربِ تعالیٰ کے معاملے میں مشاہدہ نہیں کرنا چاہتے، تجربہ کرنا آپ کو گوارا نہیں، نتیجتاً عقل کی کھسوٹی پر پرکھنا ممکن نہیں تو پھر ماننا کیسا؟
آپ پہلے صدقِ دل سے یہ دعا تو کریں کہ اگر اس کائنات کا کوئی خالق ہے تو
آپ ابھی تک اس ”دنیا“میں موجود اشیاء کا احاطہ نہیں کرپائے تو جو چیزیں اس ”دنیا“ سے ماورا ہیں ان کے متعلق آپ سائنس سے کیسے مدد حاصل کرسکتے ہیں؟حالاں کہ سائنس ”محدود “ اور ”تجربات “کا محتاج ہے۔
آمدم بر سرِ مطلب، یہ بتائیے کہ صاحبِ مضمون کی فکر پر آپ کو اعتراض کیا ہے؟ کیا سائنس کی بابت ان کا فہم ناقص ہے؟ کیا انھوں نے کسی سائنسی حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے؟ کیا انھوں نے کسی نظریے کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے؟ کیا سائنس اور مذہب کا جو باہمی اور انسان سے تعلق انھوں نے بتایا ہے اس کو آپ خلافِ عقل سمجھتے ہیں؟
ایک عرض میں بھی کر دوں۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔
جی بالکل! ہم سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کو خلاف عقل سمجھتے ہیں۔ سائنس کی بنیاد انگنت مشاہدات، تجربات اور معائنہ پر ہے۔ جبکہ مذاہب ایمانیات، معجزات اور من گھڑت داستانوں پر قائم ہیں۔
کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ہمارے لادین دوستوں کے ساتھ شاید یہی معاملہ ہے۔ اہلِ مذہب کا سوادِ اعظم عقل کے استعمال کو کبیرہ گناہ سمجھتا ہے۔ پھر سمجھنا ایک طرف، اس رویے پر اس سختی سے کاربند ہے کہ گویا سوچی پیا تے بندہ گیا۔ لیکن عوام تو ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اور سائنس کے برعکس مذہب میں عوام عام پائے جاتے ہیں۔ ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت کی تعمیم اگر یوں کر دی جائے کہ اہلِ مذہب تمام احمق اور خرد دشمن ہیں تو اس سے بڑی خرد دشمنی اور کوئی نہیں۔
ہم لادین نہیں، خلاف اندھے اعتقاد ہیں۔ مذہب ہمیں یہ نہیں کہتا کہ دماغ بند کر کے ایمان لاؤ ۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ پڑھو، سمجھو، تجزیہ کرو اور پھر اگر دلیل میں وزن ہو، تب ایمان لاؤ۔ ہمارے ہاں مذہبی عقیدت مندوں کا عام وطیرہ ہے کہ بچپن سے ہمیں مذہبی طور پر برین واش کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ ہم جوانی تک مکمل اسلامائز ہو چکے ہوں۔ حالانکہ سچا مذہب کبھی بھی اس طرح کام نہیں کرتا، خاص کر کے جب وہ دین فطرت کا داعی بھی ہو۔ اگر دین فطری ہے تو اور ہر انسان اسے قبول کرے گا، بشرطیکہ اسے انتخاب کرنے کا حق دیا جائے۔ آجکل کتنے مسلمان بچے ہیں جن کے ماں باپ انہیں یہ حق انتخاب عطا کر تے ہیں؟ دین میں کوئی جبر نہیں والی آیت پر آج تک کتنوں نے حقیقی عمل کیا ہے؟
آپ نے جو کئی خداؤں والا مفروضہ پیش کیا ہے ، ہمارے خیال میں آپ خود بھی بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ پریکٹیکل یا قابل عمل نہیں ہے۔۔۔ ہمیں نہیں معلوم کہ آپ کہاں کام کرتے ہیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ آپ جس ادارے میں بھی کام کرتے ہیں اس کا ایک ہی سربراہ ہو گا۔۔۔ بلکہ دنیا کی کسی بھی تنظیم یا ادارے یا حکومتی نظام کو دیکھا جائے تو اس کا سربراہ ایک ہی ہوتا ہے اور یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔۔۔ مثال کے طور پر اگر امریکہ کے دو صدر بنا دیے جائیں یا پاکستان کے دو یا دو سے زیادہ وزیر اعظم بنا دیے جائیں یا ہر سیاسی جماعت کے ایک ایک رکن کو کراچی کا ناظم بنا دیا جائے تو صورت حال کیا ہو گی، ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ لہذا اس کائنات کا انتظام و انصرام فرمانے والا بھی ایک ہی ہونا ضروری ہے۔ اور وہ اللہ سبحانہ وتعالٰی ہے۔۔۔
اگر خدا کا وجود جسمانی نہیں ، اسکا ذہن دماغی نہیں، تو پھر آپکو اس چیز کی فکر کیوں لاحق ہے کہ خدا ایک ہے یا کھربوں؟ خدا کو صرف ایک ماننے والے خود آمریت پسندی کی عکاسی کرتے ہیں۔
کسی چیز کے بننے کا مطلب ہے اس کا وقوع پزیر ہونا۔ اور وقوع پزیری کے لئے زمان و مکان کا ہونا ضروری ہے کہ وہ چیز کسی وقت میں اور کسی جگہ پر بنی یا واقع ہوئی۔۔۔تو جب ایک ہستی ہر چیز کی خالق ہو بشمول زمان و مکان کے ، تو اس ہستی پر بننے ، بنائے جانے یا وقوع پزیر ہونے کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ زمان و مکان تو خود اس کی مخلوق ہے اور وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ لہٰذا وہ ہر چیز سے پہلے یعنی ہمیشہ سے ہے اور بذاتہ قائم ہے۔ اور ایسی ہی ہستی الٰہ ہونے کے لائق ہے۔ جس کو مسلمان اللہ کے نام سے پکارتے ہیں۔۔۔
نہ تھا کچھ تو ،،، خدا تھا
کچھ نہ ہوتا تو،،، خدا ہوتا۔۔۔
یہاں پرپھر وہی سوال دہرایا جائے گا کہ اس عظیم ہستی کا خالق کون ہے؟ کیونکہ اگر اس سوال کا جواب نہ ہوتا تو وہ ہمیں کبھی بھی اس سوال کو کرنے کی قوت عطا نہ کرتا!
صرف شدید ماحول والے اجسام جیسے بلیک ہولز وغیرہ کے اندر قوانین قدرت فیل ہو جاتے ہیں کہ وہاں کشش ثقل کی شدت کیوجہ سے زمان و مکاں کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔
اسی طرح مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے نامور فلاسفروں، مفکروں اور سائنسدانوں سے جو غیر اسلامی نتائج اخذ کر کے جیل اور موت کی سزا کاٹ کر اس دنیا سے کوچ کر چکے ہیں۔
صرف شدید ماحول والے اجسام جیسے بلیک ہولز وغیرہ کے اندر قوانین قدرت فیل ہو جاتے ہیں کہ وہاں کشش ثقل کی شدت کیوجہ سے زمان و مکاں کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔
زمان و مکان کا وجود اس کائنات میں صرف ہماری زمین پر پایا جاتا ہے جو کہ اس پوری کائنات کے سامنے ذرے کی حیثیت رکھتی ہے ،اس ذرے کو تو بقول آپ کے 4 بنیادی قوتیں چلا رہی ہیں جبکہ باقی پوری کائنات جہاں زمان و مکان کا وجود ہی نہیں انھیں کون چلا رہا ہےِ؟
زمان و مکان کا وجود اس کائنات میں صرف ہماری زمین پر پایا جاتا ہے جو کہ اس پوری کائنات کے سامنے ذرے کی حیثیت رکھتی ہے ،اس ذرے کو تو بقول آپ کے 4 بنیادی قوتیں چلا رہی ہیں جبکہ باقی پوری کائنات جہاں زمان و مکان کا وجود ہی نہیں انھیں کون چلا رہا ہےِ؟
حضرت، یہ زمان و مکاں صرف ہمارے نظام شمسی تک محدود نہیں۔ آسمان پر نظر آنے والے کھربوں ستارے، کہکشائیں اسکا حصہ ہیں۔ مطلب جو ایندھن ہمارے ستارے سورج کو روشن کرتا ہے، وہی دیگر ستاروں میں بھی ہے۔ یہ سب معلومات جدید دوربینوں اور دیگر سائنسی آلات سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مرہون منت ہیں۔ تفصیل کیلئے بگ بینگ سے لیکر اب تک کی کائنات کا یہ خاکہ دیکھیں:
اس بحث میں میں کودنا نہیں چاہتا، ۔ہر شخص کو اپنا نظریہ دوسروں کو بتانا بالکل درست ہے، لیکن تھوپنا غلط۔ آپ متفق نہیں تو مت ہوں، لیکن مضمون نگار یا سائنس دانوں کو یا مولویوں کو برا بھلا کہنے کی اجازت کس نے دی ہے؟
بہر حال میں تو یہی کہنے آیا تھا کہ علیم احمد نے جس کتاب کا ذکر کیا ہے، کیا یہ مضمون اس کا پیش لفظ ہے؟ اگر مکمل کتاب ہو تو مکمل کتاب کی فائل آصف اثر مجھے بزم اردو لائبریری کے لئے ارسال کر نے کا انتظام کریں۔
حضرت، یہ زمان و مکاں صرف ہمارے نظام شمسی تک محدود نہیں۔ آسمان پر نظر آنے والے کھربوں ستارے، کہکشائیں اسکا حصہ ہیں۔ مطلب جو ایندھن ہمارے ستارے سورج کو روشن کرتا ہے، وہی دیگر ستاروں میں بھی ہے۔ یہ سب معلومات جدید دوربینوں اور دیگر سائنسی آلات سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی مرہون منت ہیں۔ تفصیل کیلئے بگ بینگ سے لیکر اب تک کی کائنات کا یہ خاکہ دیکھیں:
نظام شمسی کی بات کہاں سے لے آئے آپ؟ آپ نے پڑھا نہیں کہ۔۔۔ زمان و مکان صرف ہمارے سیارے زمین پر پائے جاتے ہیں، مریخ بلکہ چاند اور سورج سمیت باقی ساری کائنات زمان اور مکان سے آزاد ہے۔
عارف، آپ کو اب بھی اندازہ نہیں ہوا اپنے دوستوں کے سائنسی علم کا؟ کس سے سر کھپا رہے ہیں؟ میں نے تو چھوڑ دیا ایسے لوگوں کے مراسلوں کا جواب دینا ہی۔ آپ بھی یہی کریں ورنہ جو "شراب پینےو الے گلاس" آپ نے بنائے ہیں اپنے جواب میں ان کی بنیاد پر آپ کو اگلے مراسلے میں شرابی گناہ گار بھی کہہ دیا جائے گا۔ توبہ کریں
اس بحث میں میں کودنا نہیں چاہتا، ۔ہر شخص کو اپنا نظریہ دوسروں کو بتانا بالکل درست ہے، لیکن تھوپنا غلط۔ آپ متفق نہیں تو مت ہوں، لیکن مضمون نگار یا سائنس دانوں کو یا مولویوں کو برا بھلا کہنے کی اجازت کس نے دی ہے؟
اعجاز صاحب، یہ کام صاحب مضمون کے شاگردِ عظیم نے شروع کیا تھا میری جانب سے یہ کہنے پر کہ میں نہیں پڑھتا ایسے مضامین جن میں سائنس اور مذہب کو گڈمڈ کیا گیا ہو۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ مضمون کو پڑھے بغیر رائے دی جارہی ہے اور دلچسپی کی بات یہ کہ یہ مضمون لکھا گیا ہی ایسے جاہل” سائنسدانوں“ کے لیے ہے جو ”سائنس، سائنس“ کی رِٹ لگا کر شترمرغ کی طرح ریت میں سر دھنسانے کی ناکام کوشش کررہے ہوتے ہیں۔یہی وہ انتہا پسندانہ سوچ ہے جو اس قوم کو ابھی تک چاٹ رہی ہے۔”فوزِ مبین در ردِ حرکتِ زمین “استادِ محترم سے ایک بار گفتگو میں زیرِ بحث آئی تھی۔جس پر انہوں نے سختی سے رد کیا تھا۔ باقی چوں کہ یہاں پر ”سائنس کیا ہے؛سائنس کیا نہیں؟“ کا ذکر کیا گیا ہےلہذا گفتگو بھی اسی کے متعلق کی جائے ۔ اپنی عادت سے مجبور ہوکر بات کا رُخ کسی اور جانب نہ موڑاجائے۔باقی اگرکوئی فاضل مصنف کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار ہو تو وہ اپنے بڑے”سائنسدان“ جناب پرویز ہود بھائی سےرجوع کر سکتے ہیں۔
عارف، آپ کو اب بھی اندازہ نہیں ہوا اپنے دوستوں کے سائنسی علم کا؟ کس سے سر کھپا رہے ہیں؟ میں نے تو چھوڑ دیا ایسے لوگوں کے مراسلوں کا جواب دینا ہی۔ آپ بھی یہی کریں ورنہ جو "شراب پینےو الے گلاس" آپ نے بنائے ہیں اپنے جواب میں ان کی بنیاد پر آپ کو اگلے مراسلے میں شرابی گناہ گار بھی کہہ دیا جائے گا۔ توبہ کریں
بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اٹل قوانین قدرت کس نے بنائے ہیں؟؟؟
تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اتنے زبردست اور متنوع نظام کہ جو کائنات کی ہر چیز میں موجود ہیں اور ہر چیز کو نہایت مدبّرانہ طریقے سے اس کے کام کی نوعیت کے مطابق چلائے جا رہے ہیں، اور آج کی جدید سائنس کی پوری عمارت انہی قوانین کی بنیادوں پر ٹکی ہوئی ہے، اور ہمارے جینیئس سائنسدان آج بھی انہی قوانین قدرت پر تحقیق کر کے قابل تعریف کارنامے سر انجام دے رہے ہیں۔ اور سائنس کی دنیا میں انہی قوانین قدرت کے بل بوتے پر روز ایک نیا انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ کیا ایسے عظیم الشان قوانین بغیر کسی کے بنائے ہوئے خود بخود بن سکتے ہیں؟؟؟ نہیں، ہر گز نہیں ، عقل بھی اس کا انکار کرتی ہے۔۔۔۔ بلکہ ایسے قوانین ، نظام یا سسٹمز بغیر کسی ایسے زبردست پلانر ، ڈیزائنر اور انجینئر کے نہیں بن سکتے کہ جو نہ صرف ہر چیز کا علم رکھنے والا ہو بلکہ ہر چیز پر اس طرح حاوی ہو کہ کائنات کی کوئی چیز اس کے بنائے ہوئے قوانین سے سرمُو ہٹنے کی جراءت ہی نہ کر سکے۔ اور ایسی زبردست حکمت ، قوت ، علم اور قدرت والی ایک ہی ذات ہے کہ جو رب العالمین ہے اور جس کو ہم " اللہ" سبحانہ وتعالٰی کا نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ یا آپ اسے کسی اور نام سے جانتے ہوں کہ سب اچھے اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔ اور کائنات کی ہر شے اسی کی حمد و ثنا میں لگی ہوئی ہے اور ہر طرف اسی کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں۔ اور اسی کا امر ہر چیز کا روح رواں ہے۔۔۔
بہ ہر سُو جلوہ دلدار دیدم
بہ ہر چیز جمال یار دیدم۔۔۔
آپ بھی یہی کریں ورنہ جو "شراب پینےو الے گلاس" آپ نے بنائے ہیں اپنے جواب میں ان کی بنیاد پر آپ کو اگلے مراسلے میں شرابی گناہ گار بھی کہہ دیا جائے گا۔ توبہ کریں
ویسے اس جام کو پی کر نہ صرف اپنے نظامِ شمسی بلکہ مختلف کہکشاؤں کی بھی سیر کی جاسکتی ہے، نیز معقول مقدار میں پینے سے قبل از بِگ بینگ تک سفر کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سارے واقعے کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اٹل قوانین قدرت کس نے بنائے ہیں؟؟؟
تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اتنے زبردست اور متنوع نظام کہ جو کائنات کی ہر چیز میں موجود ہیں اور ہر چیز کو نہایت مدبّرانہ طریقے سے اس کے کام کی نوعیت کے مطابق چلائے جا رہے ہیں، اور آج کی جدید سائنس کی پوری عمارت انہی قوانین کی بنیادوں پر ٹکی ہوئی ہے، اور ہمارے جینیئس سائنسدان آج بھی انہی قوانین قدرت پر تحقیق کر کے قابل تعریف کارنامے سر انجام دے رہے ہیں۔ اور سائنس کی دنیا میں انہی قوانین قدرت کے بل بوتے پر روز ایک نیا انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ کیا ایسے عظیم الشان قوانین بغیر کسی کے بنائے ہوئے خود بخود بن سکتے ہیں؟؟؟ نہیں، ہر گز نہیں ، عقل بھی اس کا انکار کرتی ہے۔۔۔۔ بلکہ ایسے قوانین ، نظام یا سسٹمز بغیر کسی ایسے زبردست پلانر ، ڈیزائنر اور انجینئر کے نہیں بن سکتے کہ جو نہ صرف ہر چیز کا علم رکھنے والا ہو بلکہ ہر چیز پر اس طرح حاوی ہو کہ کائنات کی کوئی چیز اس کے بنائے ہوئے قوانین سے سرمُو ہٹنے کی جراءت ہی نہ کر سکے۔ اور ایسی زبردست حکمت ، قوت ، علم اور قدرت والی ایک ہی ذات ہے کہ جو رب العالمین ہے اور جس کو ہم " اللہ" سبحانہ وتعالٰی کا نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ یا آپ اسے کسی اور نام سے جانتے ہوں کہ سب اچھے اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔ اور کائنات کی ہر شے اسی کی حمد و ثنا میں لگی ہوئی ہے اور ہر طرف اسی کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں۔ اور اسی کا امر ہر چیز کا روح رواں ہے۔۔۔
بہ ہر سُو جلوہ دلدار دیدم
بہ ہر چیز جمال یار دیدم۔۔۔
ماہر فلکیات کارل ساگن کا اس ضمن میں اقتباس ہے: ’’یہ کائنات کافی وسیع ہے۔اگر صرف ہم (زمینی حیات) ہی پوری کائنات میں ہے تو پھر یہ خلا کا سراسر ضیاع ہے‘‘
یہ حیاتیاتی کنڈیشینز کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی اگر کائنات میں کھرب ہا کھرب کہکشائیں بھی ہوں اور انکے آگے سے کھربوں ستارے، سیارے، تب بھی یہ زندگی کی پیدائش اور ارتقاء کا متحمل نہیں ہو سکتے جب تک انکا ماحول ہماری زمین جیسا نہ ہو۔ اگر کائنات میں کوئی سیارہ بالکل ہماری زمین جیسا ہو، تو عین ممکن ہےکہ وہاں زندگی کے اثرات بھی پائے جائیں۔ یعنی زندگی کی پیدائش از خود کیمیائی و دیگر مادی اصولوں کا نتیجہ ہے۔ کسی خالق کا کوئی عمل دخل ضروری نہیں۔
بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اٹل قوانین قدرت کس نے بنائے ہیں؟؟؟
تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اتنے زبردست اور متنوع نظام کہ جو کائنات کی ہر چیز میں موجود ہیں اور ہر چیز کو نہایت مدبّرانہ طریقے سے اس کے کام کی نوعیت کے مطابق چلائے جا رہے ہیں، اور آج کی جدید سائنس کی پوری عمارت انہی قوانین کی بنیادوں پر ٹکی ہوئی ہے، اور ہمارے جینیئس سائنسدان آج بھی انہی قوانین قدرت پر تحقیق کر کے قابل تعریف کارنامے سر انجام دے رہے ہیں۔ اور سائنس کی دنیا میں انہی قوانین قدرت کے بل بوتے پر روز ایک نیا انقلاب برپا ہو رہا ہے۔ کیا ایسے عظیم الشان قوانین بغیر کسی کے بنائے ہوئے خود بخود بن سکتے ہیں؟؟؟ نہیں، ہر گز نہیں ، عقل بھی اس کا انکار کرتی ہے۔۔۔۔ بلکہ ایسے قوانین ، نظام یا سسٹمز بغیر کسی ایسے زبردست پلانر ، ڈیزائنر اور انجینئر کے نہیں بن سکتے کہ جو نہ صرف ہر چیز کا علم رکھنے والا ہو بلکہ ہر چیز پر اس طرح حاوی ہو کہ کائنات کی کوئی چیز اس کے بنائے ہوئے قوانین سے سرمُو ہٹنے کی جراءت ہی نہ کر سکے۔ اور ایسی زبردست حکمت ، قوت ، علم اور قدرت والی ایک ہی ذات ہے کہ جو رب العالمین ہے اور جس کو ہم " اللہ" سبحانہ وتعالٰی کا نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگ یا آپ اسے کسی اور نام سے جانتے ہوں کہ سب اچھے اچھے نام اسی کے لئے ہیں۔ اور کائنات کی ہر شے اسی کی حمد و ثنا میں لگی ہوئی ہے اور ہر طرف اسی کے جلوے بکھرے ہوئے ہیں۔ اور اسی کا امر ہر چیز کا روح رواں ہے۔۔۔
بہ ہر سُو جلوہ دلدار دیدم
بہ ہر چیز جمال یار دیدم۔۔۔
قبلہ، آپ پھر وہی دلیل لے آئے جس کے جواب میں آپ کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ اگر اتنے زبردست اور متنوع نظام کہ جو کائنات کی ہر چیز میں موجود ہیں اور ہر چیز کو نہایت مدبّرانہ طریقے سے چلانے والی کوئی ہستی ضرور ہے تو اس زبردست اور مدبر تر ہستی کو جس نے زمان بھی بنا ڈالا اور مکان بھی، بنانے والا کوئی تو ہو گا، وہ کون ہے اور پھر اسے بنانے والے کو کس نے بنایا۔
ویسے اس جام کو پی کر نہ صرف اپنے نظامِ شمسی بلکہ مختلف کہکشاؤں کی بھی سیر کی جاسکتی ہے، نیز معقول مقدار میں پینے سے قبل از بِگ بینگ تک سفر کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سارے واقعے کا مشاہدہ بھی کیا جا سکتا ہے۔