شعیب
محفلین
سائنس کی ایک اہمیت اور بھی ہے جسے ہم روحانی اہمیت کہہ سکتے ہیں ۔ اس اہمیت کا دار و مدار اس پر ہے کہ سائنس کس حد تک انسانی عقل اور سوجھ بوجھ کے دریچے کھولتی ہے یا نئے رشتے پیدا کرنے میں کہاں تک معاون بنتی ہے ۔ ان نئے نئے پیدا کئے رشتوں سے ایک نئی قوت کا احساس ہوتا ہے ۔ عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ سائنس کا اصل مقصد ہماری سوجھ بوجھ اور علم میں اضافہ کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی ہمیں ایک نئی قوت کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن جو جذبہ اسان کو بھر پور عمل کے لئے تیار کرتا ہے وہ سائنس ہی سے پیدا ہوتا ہے اس اعتبار سے جو لوگ زندگی میں عملی زندگی پر زور دیتے ہیں وہ صحیح معنوں میں سائنسداں کہے جاسکتے ہیں ویسے اس میں شک نہیں کہ علم کے ساتھ عمل کا پہلو ہر انسان کے ساتھ وابستہ ہے لیکن عمل سے لگاؤ اور اس کی شدت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے تو سائنسداں ایک حد تک سائنٹفک نظریہ رکھتا ہے کیونکہ وہ سائنس ہی کے ذریعہ زندگی کے سب کام کاج کے بارے میں سوچتا سمجھتا ہے ۔
پرانے زمانے میں سائنسی عمل کو شخصی ملکیت سمجھا جاتا تھا ۔ آج کل اس کے معنی خاصے بدل گئے ہیں ۔ آج ہر سائنسی کھوج ہر سائنسی عمل اور ہر سائنسی معلومات بنی نوع انسان کا حق بن چکی ہے، سائنس کی ہر کھوج، ہر نتیجہ ہر منزل، ہر تجربہ دنیا کے کیلئے ہے ۔ آج کی سائنس کسی ایک سرکار یا کسی ایک ادارے کی جاگیر نہیں ۔ یہ تو علم کا بہتا دریا ہے جو چاہے دو گھونٹ پی لے اور اگر آدمی علم اور عقل رکھتا ہو اور عمل کو زندگی کا اصول بنانے کا قائل ہو تو اس بہتے دریا سے لگاتار پیتا جائے اور اپنی سوجھ بوجھ اور کھوج سے علم کے ایسے چشمے تلاش کرتا جائے جو اس کے شوق کی پیاس بجھا سکیں اور دوسروں کو بھی پیاس بجھانے کی دعوت دے سکیں ۔
سائنس ہماری مالی اور سماجی ترقی میں بڑا ہاتھ بٹاسکتی ہے ۔ ویسے بھی کتنے موضوعات ایسے ہیں جو دراصل ہماری روزانہ زندگی کے موضوعات ہماری زندگی سے الگ تصور نہیں کئے جاسکتے ۔ اگر ایسے موضوعات کے متعلق ہمیں بالکل معلومات نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ ہم اپنی روزانہ زندگی کے گونا گوں پہلوؤں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے ۔ چنانچہ ہمارے ارد گرد جس زاویے جس ڈھنگ سے سائنس کا عمل یا اس کا رشتہ ہماری سماجی یا گھریلو زندگی سے جڑتا ہے اس کا علم ہمارے لئے ایک حد تک ضروری ہے ۔ سائنسی معلومات پڑھے لکھے لوگوں کے لئے اتنی ہی ضروری ہیں جتنی ان کے لئے زندگی کی دوسری باتوں کا علم ۔
موجودہ دور سائنس کا دور کہے یا مادہ کا اس میں ٹھوس نتیجوں اور حقیقتوں کو اہمیت حاصل ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سورج ایک سیارہ ہے جو سائنسی نظریہ کے مطابق ہزاروں سیاروں میں سے ایک سیارہ ہے ۔ ان دنوں نئی کھوج کی بدولت سورج اور دوسرے سیاروں کے متعلق نئی نئی باتیں اور معلومات سامنے آرہی ہیں ۔ کچھ سیارے ایسے بھی ہیں جن کی روشنی کو سطح زمین تک پہنچنے میں کئی ہزار سال کا عرصہ درکار ہے ۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق جاری ہے ۔ آئے دن نئی معلومات موصول ہورہی ہیں ۔ کیوں کہ آج کا سائنسداں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے میں منہمک ہے ۔
ایک لگا بندھا تصور یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دوسرے کرّوں پر بھی کچھ انسان و حیوان آباد ہیں ۔ سائنس کی کھوج جاری ہے اور آئندہ دنوں میں کئی نئی باتیں معلوم کرنے کے وسیلے کئے جائیں گے کہ آیا دوسرے کرّوں پر کوئی انسانی مخلوق آباد ہے اور ان کروں پر فضا کی کیفیت کرّہ زمین کی طرح ہے یا نہیں کیا شمسی توانائی کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے یا نہیں ۔
ایک اور خیال لگ بھگ تین سو برسوں سے انسان کے ذہن پر مسلط ہے کہ مادہ اور توانائی دو الگ الگ اشیا ہیں، ہاں ان کے درمیان ایک رشتہ ضرور ہے ۔ آج کے ایٹمی دور میں سائنس نے اس خیال کو ایک دم بدل دیا ہے اور یہ ماننے پر مجبور کردیا ہے کہ مادہ توانائی ایک ہی شے کے دو مختلف روپ ہیں ۔ آج کل یہ خیال بھی ماند پڑگیا ہے کہ مادہ صرف قدرت کی ہی دین ہے ۔ آج مادہ کو ریڈیائی اشعاع (ریڈیشن) سے پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ خلا کی طرف دھیان لے جائیے تو آج کا دور منوانے پر مصر ہے کہ خلا کا پھیلاؤ دن بدن بڑھ رہا ہے خلا کی طرف کئی اڑانیں پچھلے برسوں میں کی گئیں جیسے چاند کی طرف زہرہ کی طرف اور اب اسکائی لیب ہر ایک کی زبان پر ہے ۔
آج سائنس میں وقت اور خلا کے بارے میں دن بدن نئی نئی باتیں نئی رائیں نئے خیال ابھر رہے ہیں ۔ آج کے مشہور سائنسداں آئین سٹائن نے وقت اور خلاء کے بارے میں نئے نئے خیالات دیئے ہیں خاص طور پر اس کے نظریہ انسانیت نے ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کائنات میں ہر شئے اضافی ہے یعنی آپ کسی شے کو دیکھ کر یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ آپ جو کچھ دیکھ یا سمجھ رہے ہیں وہی درست ہے وہ شے اس کے مختلف بھی ہوسکتی ہے جو کچھ آپ کو نظر آرہی ہے نئے نئے تصورات سائنسی انکشاف اور تحقیق کی روشنی میں یہ بہت ضروری ہے کہ سائنسی معلومات کو عام فہم زبان میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے سائنس پرانی توہمات کی جگہ نئی ٹھوس حقیقتوں کو جگہ دیتی ہے ۔ گھسے پٹے خیالات کی جگہ تازہ اور آزمائے ہوئے خیالات کو جنم دیتی ہے اور لطف یہ ہے کہ سائنس سب کچھ منطق اور ناپ تول سے دیتی ہے ۔ آئندہ دنوں میں سائنس مزید نئے تصورات اور نئے خیالات کو نئے انکشافات دے گی ۔
شکریہ ۔ روزنامہ منصف حیدرآباد سنڈے ایڈیشن
پرانے زمانے میں سائنسی عمل کو شخصی ملکیت سمجھا جاتا تھا ۔ آج کل اس کے معنی خاصے بدل گئے ہیں ۔ آج ہر سائنسی کھوج ہر سائنسی عمل اور ہر سائنسی معلومات بنی نوع انسان کا حق بن چکی ہے، سائنس کی ہر کھوج، ہر نتیجہ ہر منزل، ہر تجربہ دنیا کے کیلئے ہے ۔ آج کی سائنس کسی ایک سرکار یا کسی ایک ادارے کی جاگیر نہیں ۔ یہ تو علم کا بہتا دریا ہے جو چاہے دو گھونٹ پی لے اور اگر آدمی علم اور عقل رکھتا ہو اور عمل کو زندگی کا اصول بنانے کا قائل ہو تو اس بہتے دریا سے لگاتار پیتا جائے اور اپنی سوجھ بوجھ اور کھوج سے علم کے ایسے چشمے تلاش کرتا جائے جو اس کے شوق کی پیاس بجھا سکیں اور دوسروں کو بھی پیاس بجھانے کی دعوت دے سکیں ۔
سائنس ہماری مالی اور سماجی ترقی میں بڑا ہاتھ بٹاسکتی ہے ۔ ویسے بھی کتنے موضوعات ایسے ہیں جو دراصل ہماری روزانہ زندگی کے موضوعات ہماری زندگی سے الگ تصور نہیں کئے جاسکتے ۔ اگر ایسے موضوعات کے متعلق ہمیں بالکل معلومات نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ ہم اپنی روزانہ زندگی کے گونا گوں پہلوؤں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے ۔ چنانچہ ہمارے ارد گرد جس زاویے جس ڈھنگ سے سائنس کا عمل یا اس کا رشتہ ہماری سماجی یا گھریلو زندگی سے جڑتا ہے اس کا علم ہمارے لئے ایک حد تک ضروری ہے ۔ سائنسی معلومات پڑھے لکھے لوگوں کے لئے اتنی ہی ضروری ہیں جتنی ان کے لئے زندگی کی دوسری باتوں کا علم ۔
موجودہ دور سائنس کا دور کہے یا مادہ کا اس میں ٹھوس نتیجوں اور حقیقتوں کو اہمیت حاصل ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سورج ایک سیارہ ہے جو سائنسی نظریہ کے مطابق ہزاروں سیاروں میں سے ایک سیارہ ہے ۔ ان دنوں نئی کھوج کی بدولت سورج اور دوسرے سیاروں کے متعلق نئی نئی باتیں اور معلومات سامنے آرہی ہیں ۔ کچھ سیارے ایسے بھی ہیں جن کی روشنی کو سطح زمین تک پہنچنے میں کئی ہزار سال کا عرصہ درکار ہے ۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق جاری ہے ۔ آئے دن نئی معلومات موصول ہورہی ہیں ۔ کیوں کہ آج کا سائنسداں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے میں منہمک ہے ۔
ایک لگا بندھا تصور یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دوسرے کرّوں پر بھی کچھ انسان و حیوان آباد ہیں ۔ سائنس کی کھوج جاری ہے اور آئندہ دنوں میں کئی نئی باتیں معلوم کرنے کے وسیلے کئے جائیں گے کہ آیا دوسرے کرّوں پر کوئی انسانی مخلوق آباد ہے اور ان کروں پر فضا کی کیفیت کرّہ زمین کی طرح ہے یا نہیں کیا شمسی توانائی کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے یا نہیں ۔
ایک اور خیال لگ بھگ تین سو برسوں سے انسان کے ذہن پر مسلط ہے کہ مادہ اور توانائی دو الگ الگ اشیا ہیں، ہاں ان کے درمیان ایک رشتہ ضرور ہے ۔ آج کے ایٹمی دور میں سائنس نے اس خیال کو ایک دم بدل دیا ہے اور یہ ماننے پر مجبور کردیا ہے کہ مادہ توانائی ایک ہی شے کے دو مختلف روپ ہیں ۔ آج کل یہ خیال بھی ماند پڑگیا ہے کہ مادہ صرف قدرت کی ہی دین ہے ۔ آج مادہ کو ریڈیائی اشعاع (ریڈیشن) سے پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ خلا کی طرف دھیان لے جائیے تو آج کا دور منوانے پر مصر ہے کہ خلا کا پھیلاؤ دن بدن بڑھ رہا ہے خلا کی طرف کئی اڑانیں پچھلے برسوں میں کی گئیں جیسے چاند کی طرف زہرہ کی طرف اور اب اسکائی لیب ہر ایک کی زبان پر ہے ۔
آج سائنس میں وقت اور خلا کے بارے میں دن بدن نئی نئی باتیں نئی رائیں نئے خیال ابھر رہے ہیں ۔ آج کے مشہور سائنسداں آئین سٹائن نے وقت اور خلاء کے بارے میں نئے نئے خیالات دیئے ہیں خاص طور پر اس کے نظریہ انسانیت نے ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کائنات میں ہر شئے اضافی ہے یعنی آپ کسی شے کو دیکھ کر یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ آپ جو کچھ دیکھ یا سمجھ رہے ہیں وہی درست ہے وہ شے اس کے مختلف بھی ہوسکتی ہے جو کچھ آپ کو نظر آرہی ہے نئے نئے تصورات سائنسی انکشاف اور تحقیق کی روشنی میں یہ بہت ضروری ہے کہ سائنسی معلومات کو عام فہم زبان میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے سائنس پرانی توہمات کی جگہ نئی ٹھوس حقیقتوں کو جگہ دیتی ہے ۔ گھسے پٹے خیالات کی جگہ تازہ اور آزمائے ہوئے خیالات کو جنم دیتی ہے اور لطف یہ ہے کہ سائنس سب کچھ منطق اور ناپ تول سے دیتی ہے ۔ آئندہ دنوں میں سائنس مزید نئے تصورات اور نئے خیالات کو نئے انکشافات دے گی ۔
شکریہ ۔ روزنامہ منصف حیدرآباد سنڈے ایڈیشن