ساتویں جماعت کے طالبعلم کی ٹیچر کے عشق میں خود کشی

عباس اعوان

محفلین
آپ کے خیال میں دوسرے ملکوں میں اس کا رواج ہے؟ وہاں بھی تو بچے کارنامے سر انجام دینے کے بعد ہی بتاتے ہیں
کارنامے تو ساری دنیا میں دکھائے جاتے ہیں۔
میری بات والدین کی اس موضوع پر بچوں سے بات چیت اور تربیت پر تھی جو کہ پاکستان میں مفقود ہے۔
یہاں ہانگ کانگ میں سکول میں یہ لازمی طور پر پڑھایا جاتا ہے، باقی والدین کی تربیت کے بارے میں میں لا علم ہوں کہ وہ کہاں تک ہوتی ہے۔
 
خود کُشی کرنے والا پھر کسی اور طریقے پر غور کر لے گا۔
جی بالکل ۔۔ لیکن کسی اور طریقے میں یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے کچھ دن پہلے ایک طالبہ نے خود کشی کرنے کے لیے یونیورسٹی کی چھت سے چھلانگ لگائی تو ٹانگ تُڑوا بیٹھی ۔ اب بے چاری 6 مہینے بستر پہ بیٹھ کے خود کو کو سے گی ۔:D
محتاجی اور بے بسی کا یہ عالم شاید اسے زندگی کے بارے میں اپنا نظریہ تبدیل کرنے میں مدد دے ۔
 
جی بالکل ۔۔ لیکن کسی اور طریقے میں یہ بھی ہو سکتا ہے جیسے کچھ دن پہلے ایک طالبہ نے خود کشی کرنے کے لیے یونیورسٹی کی چھت سے چھلانگ لگائی تو ٹانگ تُڑوا بیٹھی ۔ اب بے چاری 6 مہینے بستر پہ بیٹھ کے خود کو کو سے گی ۔:D
محتاجی اور بے بسی کا یہ عالم شاید اسے زندگی کے بارے میں اپنا نظریہ تبدیل کرنے میں مدد دے ۔
صرف اُسے ہی تبدیل ہونے کی مجبوری کیوں ؟ وہ دنیاوی ناخدا مجبور کیوں نہیں ہوتے کبھی جن کی وجہ سے سر پِھرے اس اقدام تک پہنچتے ہیں !!
 
صرف اُسے ہی تبدیل ہونے کی مجبوری کیوں ؟ وہ دنیاوی ناخدا مجبور کیوں نہیں ہوتے کبھی جن کی وجہ سے سر پِھرے اس اقدام تک پہنچتے ہیں !!
اگر دنیاوی نا خدا سے آپ کی مراد میڈیا اور فحاشی ہے تو میں اور آپ یا اُن بچوں کے والدین جو وکٹم ہوتے ہیں کچھ نہیں کر سکتے ۔۔ ہم اُن کا کچھ نہیں بگا ڑ سکتے ۔ ان کو مجبور کرنے کے لیے پورے کے پورے سسٹم کو بدلنا پڑے گا۔ حکومت سے لے کے معاشرتی رویوں تک سب کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی جو کہ بہر حال ناممکن نظر آتا ہے ۔۔ اور جو ممکن ہے وہ یہ ہے کہ بقول وارث سر کہ ہم کم از کم اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پہ کریں کہ وہ اتنے مضبوط ہو جائیں کہ اپنا بھلا بُرا سمجھنے لگ جائیں ۔ اور پھر آپ جانتی ہیں کہ شمع سے شمع جلتی ہے ۔۔
 
اگر دنیاوی نا خدا سے آپ کی مراد میڈیا اور فحاشی ہے تو میں اور آپ یا اُن بچوں کے والدین جو وکٹم ہوتے ہیں کچھ نہیں کر سکتے ۔۔ ہم اُن کا کچھ نہیں بگا ڑ سکتے ۔ ان کو مجبور کرنے کے لیے پورے کے پورے سسٹم کو بدلنا پڑے گا۔ حکومت سے لے کے معاشرتی رویوں تک سب کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت پڑے گی جو کہ بہر حال ناممکن نظر آتا ہے ۔۔ اور جو ممکن ہے وہ یہ ہے کہ بقول وارث سر کہ ہم کم از کم اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پہ کریں کہ وہ اتنے مضبوط ہو جائیں کہ اپنا بھلا بُرا سمجھنے لگ جائیں ۔ اور پھر آپ جانتی ہیں کہ شمع سے شمع جلتی ہے ۔۔
دنیاوی ناخدا وہ ہیں جن کی مرضی انسان کی زندگی پر اُس سے بھی زیادہ چلتی ہے۔ اقدار اور ان کے پاسبان یا تو بدلتے وقت کے ساتھ لچک دکھائیں یا پھر میڈیا کو بین کر دیا جائے اور پہلے کی طرح رہیں۔
ہر ہر کہانی ڈرامے فلم میں یہی دکھایا جاتا ہے اور اس کو حقیقی زندگی میں اس قدر برا سمجھا جاتا ہے۔ یہ تضاد معاشرے کی جڑ ہے اور اس تضاد کی۔بنیاد میرے ملک کا بچہ نہیں بلکہ میرے ملک کا بڑا ہے۔
 
دنیاوی ناخدا وہ ہیں جن کی مرضی انسان کی زندگی پر اُس سے بھی زیادہ چلتی ہے۔ اقدار اور ان کے پاسبان یا تو بدلتے وقت کے ساتھ لچک دکھائیں یا پھر میڈیا کو بین کر دیا جائے اور پہلے کی طرح رہیں۔
ہر ہر کہانی ڈرامے فلم میں یہی دکھایا جاتا ہے اور اس کو حقیقی زندگی میں اس قدر برا سمجھا جاتا ہے۔ یہ تضاد معاشرے کی جڑ ہے اور اس تضاد کی۔بنیاد میرے ملک کا بچہ نہیں بلکہ میرے ملک کا بڑا ہے۔
آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ یا تو ہم لبرل ہو جائیں یا پھر ٹی وی ڈرامے اور فلمیں دیکھنا بند کر دیں ؟؟
 

لاریب مرزا

محفلین
بہت افسوسناک خبر ہے۔ جہاں تک ہمارا خیال ہے اتنے شدید اقدام کے پیچھے جذباتیت کے علاوہ کچھ اور وجوہات بھی رہی ہوں گی۔ جیسا کہ کسی قسم کی کوئی محرومی، گھر میں والدین اور بچوں یا بہن بھائیوں میں دوستانہ رویوں کا فقدان یا کچھ اور وجہ۔۔ ورنہ اس عمر میں ہم نے لڑکوں کو کھیل کود، لڑائی جھگڑوں کے شوقین اور بہت حد تک لاپرواہ پایا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کم از کم امریکہ کی حد تک گن کا خودکشی میں بڑا کردار ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ پستول بندوق وغیرہ کے عام نہ ہونے کی صورت میں خودکشی کا ریٹ کم ہوتا
لیکن زیک خود کشی پر گن کنٹرول کا اثر ہوتا تو ہوگا لیکن منطقی طور پر شاید اتنا بڑا نہ ہو کیوں کہ اصل بات نفسیاتی کیفیت کے فیصلے پرمنحصرہے ۔میری رائے میں ۔
جب کیفیات کی بے اعتدالی ،شدت یا دباؤ میں ایسا فیصلہ ہی کرلیا جائے تو اسلحے کے علاوہ اور ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن عین ممکن ہے یہ میرا خیال ہی ہو۔واللہ اعلم
شاید بر وقت اور مناسب تعلیم وتربیت اس کا واحد حتمی تدارک ہو۔
 

زیک

مسافر
لیکن زیک خود کشی پر گن کنٹرول کا اثر ہوتا تو ہوگا لیکن منطقی طور پر شاید اتنا بڑا نہ ہو کیوں کہ اصل بات نفسیاتی کیفیت کے فیصلے پرمنحصرہے ۔میری رائے میں ۔
جب کیفیات کی بے اعتدالی ،شدت یا دباؤ میں ایسا فیصلہ ہی کرلیا جائے تو اسلحے کے علاوہ اور ذرائع اختیار کیے جاسکتے ہیں ۔ لیکن عین ممکن ہے یہ میرا خیال ہی ہو۔واللہ اعلم
شاید بر وقت اور مناسب تعلیم وتربیت اس کا واحد حتمی تدارک ہو۔
بات کامیابی اور ناکامی کی ہے۔ گن سے خودکشی اکثر کامیاب ہوتی ہے اور دوسرے طریقوں سے اکثر ناکام۔

https://www.hsph.harvard.edu/magazine/magazine_article/guns-suicide/
 
اللہ پاک والدین کو صبر عطا کریں۔ آمین۔

معاملات بالآخر ہمارے بڑوں کی تعلیم و تربیت پر ہی آ کر ہی ختم ہوتے ہیں۔ وہ معاملات کو آج بھی ان نظریات کے مطابق دیکھتے ہیں جیسے ان کے ادوار میں تھے۔ ہر آئے دن ایسا واقعہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں تربیت کا بہت فقدان ہے اور اب بھی ان واقعات سے ہم کچھ سبق نہیں لے رہے۔ ہمارے ہاں ہر نسل اپنی آنے والی نسل کی تربیت اس طرح کرنا چاہتی ہے جیسے ان کی ان کے بڑوں نے کی تھی لیکن وقت کی تبدیلیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے تربیت کے تقاضوں کو شائد بہت کم لوگ سمجھ رہے ہیں۔

یہ تضاد معاشرے کی جڑ ہے اور اس تضاد کی۔بنیاد میرے ملک کا بچہ نہیں بلکہ میرے ملک کا بڑا ہے۔
یہ تضاد اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک معاشرے کا وہ طبقہ جو ان معاملات کو صحیح سمجھتا ہے، بذریعہ ٹیکنالوجی باقی معاشرے کی سوچ پر حاوی ہے اور یہ کام ایک سرمایہ کار کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے۔
 
Top