مظفر بخاری
محفلین
یہ خبر اخبارات میں اکثر پڑھنے میں آتی ہے کہ ایک سات بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی۔ جب میں نے زندگی میں پہلی بار یہ خبر پڑھی، مجھے یہ بھی سمجھ نہ تھی کہ آشنا کسے کہتے ہیں اور فرار ہونے کے کیا معنی ہیں۔ میں اپنے مرحوم بھائی حکیم عاشق حسین کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ عمر میں مجھ سے اتنے بڑے تھے کہ میں انہیں والد کی جگہ سمجھتا تھا۔ میں نے انہیں کہا، ’’بھائی جی! آشنا کسے کہتے ہیں؟‘‘۔
’’آشنا کے معنی ہیں دوست‘‘ انہوں نے مختصر جواب دیا۔ یہ جواب سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ سات بچوں کی ماں اگر دوست کے ساتھ نہ بھاگتی تو کیا کسی دشمن کے ساتھ بھاگتی۔ میرے ذہن میں فرار ہونے کا مطلب تھا دوڑ لگانا۔ دماغ پر زور دینے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ایک عورت نے جس کے سات بچے تھے، اپنے دوست کے ساتھ دوڑ لگائی۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ دوڑ کس نے جیتی۔ پھر میں اس الجھن میں پڑ گیا کہ دوڑ تو بچے لگایا کرتے ہیں۔ سات بچوں کی ماں کو دوڑ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ جب یہ معمہ کسی طرح حل نہ ہوا تو میں نے پھر بھائی صاحب سے مدد مانگی۔ انہوں نے خبر کی سرخی پڑھ کر نہایت جامع جواب دیا۔
کہنے لگے، ’’جب تم بڑے ہو گے، تمہیں اس خبر کی سمجھ آ جائے گی۔‘‘
’’تو کیا بڑا ہونے تک میں یہ اخبار سنبھالے رکھوں؟‘‘ میں نے احتجاج کیا۔
’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ سات بچوں کی ماں کی خبر اخباروں میں اکثر آتی رہتی ہے۔‘‘ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ ممکن ہے انہوں نے یہ بات مذاق میں کہی ہو لیکن ان کی بات بالکل صحیح ثابت ہوئی۔
اس بات کو 60 سال ہو گئے ہیں اور ان 60سالوں میں ڈیڑھ دو سو بار یہ خبر پڑھ چکا ہوں کہ سات بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے کئی بار خیال آیا کہ آشنا کے ساتھ فرار ہونے کیلئے سات بچے کیوں ضروری ہیں۔ کیا چھ یا آٹھ بچوں کی ماں کو آشنا کے ساتھ فرار ہونے کا کوئی حق نہیں۔ کبھی خیال آتا کہ شاید حکومت نے قانون بنا رکھا ہے کہ صرف وہی خاتون آشنا کے ساتھ فرار ہو سکتی ہے جس کے سات بچے ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ چند خواتین بچوں کی تعداد پوری ہونے کا انتظار کرتی رہتی ہیں اور آشنائی بھی نبھاتی رہتی ہیں۔ جونہی ساتواں بچہ پیدا ہوتا ہے وہ آشنا کو گرین سگنل دے دیتی ہیں کہ تیار ہو جاؤ۔ بھاگنے کا وقت آ گیا ہے۔
اس سلسلے میں مجھے ایک ریٹائرڈ تھانے دار نے بڑا دلچسپ واقعہ سنایا۔ بقول ان کے ایک بار یوں ہوا کہ منڈی ڈھاباں سنگھ کی ایک خاتون نے اپنے آشنا سے کہہ رکھا تھا کہ جونہی ساتواں بچہ پیدا ہوگا ، میں تمہارے ساتھ فرار ہو جاؤں گی۔ چنانچہ آشنا دن رات دعا کرتا کہ ساتواں بچہ جلد پیدا ہو۔ اس نے اپنی دعاؤں میں اﷲ تعالیٰ پر اتنا پریشر ڈالا کہ اس خاتون کے ہاں دو جڑواں بچے پیدا ہو گئے۔ گویا وہ آٹھ بچوں کی ماں بن گئی۔
کچھ عرصے کے بعد جب وہ کھیتوں میں آنے جانے کے قابل ہوگئی، آشنا نے اسے فرار ہونے کا وعدہ یاد دلایا۔ آشنا کی بات سن کر وہ بولی ’’میں کسی صورت خدائی حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔‘‘ آشنا نے حیران ہو کر خدائی حکم کی وضاحت چاہی تو جواب ملا: ’’جڑواں بچے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے مجھے اشارے سے بتایا ہے کہ میں بھاگنے کا ارادہ ترک کر دوں اگر یہ بات نہ ہوتی تو خدا مجھے دو کے بجائے ایک بچہ دیتا۔ اب میں تمہارے ساتھ فرار ہو کر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتی۔‘‘ آشنا نے اسے بہت سمجھایا کہ وہموں میں پڑ کر زندگی کا پروگرام نہیں بدلنا چاہیے۔ لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی کہ میں کسی صورت خدا کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی۔ میری نیت سات بچوں کے بعد فرار ہونے کی تھی۔ اب آٹھ ہو گئے ہیں۔ فرار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آشنا یہ سن کر مجبوراً چپ ہو رہا ۔ پھر حُسنِ اتفاق سے اس خاتون کا ایک بچہ اﷲ کو پیارا ہو گیا اور یوں اس کے بچوں کی تعداد سات ہو گئی۔ گویا بچے نے اپنی جان کی قربانی دے کر ماں کے بھاگنے کا راستہ ہموار کر دیا۔ بچے کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد اس نے اپنے خاوند، سات بچوں اور درودیوار پر حسرت بھری نگاہ ڈالی، زیورات اور قیمتی کپڑے سمیٹے اور باہر گلی میں آ گئی جہاں اُس کا آشنا انتظار کر رہا تھا۔ وہاں سے دونوں راہ فرار اختیار کر گئے۔
ساری کہانی سن کر میں نے تھانیدار صاحب سے پوچھا کہ آپ کو اس واقعے کی تفصیلات کا پتہ کیسے چلا؟ مسکرا کر کہنے لگے: ’’میں ہی تو تھا اس کا آشنا۔ بھاگنے سے پہلے میں نے دو ماہ کی چھٹی لے لی تھی۔‘‘ تب مجھے پتہ چلا کہ آشنا کوئی غیر معمولی مخلوق نہیں ہوتی بلکہ ہمارے آپ جیسے انسان ہی ہوتے ہیں۔ تاہم یہ سوال مستقبل طور پر ذہن میں اٹکا رہا کہ آشنا کے ساتھ بھاگنے کا بچوں کی تعداد سے کیا تعلق ہے۔ اگر کوئی خاتون بھاگنا چاہتی ہے تو اولین فرصت میں یہ کام کیوں نہیں کر لیتی۔ میں نے اپنی الجھن کا ذکر ناطق مرزا سے کیا کیونکہ ایسی الجھنیں وہ بڑی آسانی سے سلجھا دیتے ہیں۔ میری بات سن کر وہ علم الاعداد پر ایک کتاب لے آئے۔ ایک باب میں سات کے ہندسے کی خصوصیات لکھی تھیں۔ کہنے لگے ’’پڑھو۔ تمہیں پتہ چل جائے گا کہ بھاگنے کیلئے سات بچے کیوں ضروری ہیں۔‘‘ میں نے پڑھنا شروع کیا تو دریائے حیرت میں ڈوبتا چلا گیا۔ لکھا تھا کہ سات کا ہندسہ کوئی معمولی ہندسہ نہیں ہے۔ علم الاعداد میں اسے طلسمی ہندسہ کہا جاتا ہے۔ اس کے سحر میں مبتلا ہونے والے سے ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں جن کا تصور وہ خود بھی نہیں کر سکتا۔ مثلاً چھ سال تک ایمانداری سے سروس کرنے والا ملازم ساتویں سال لوٹ مار شروع کر دیتا ہے۔ علی ہذا القیاس، مسلسل چھ سال تک بیمار رہنے والا شخص ساتویں سال میں تندرست ہوجاتا ہے یا اﷲ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ چھ سال تک بچہ معصوم رہتا ہے ۔ساتویں سال پورا شیطان بن جاتا ہے۔ کتاب میں آگے جا کر ایک ایسا فقرہ آیا جس نے مجھ پر سات ضرب دو یعنی 14طبق روشن کر دیئے ۔ لکھا تھا ’’جو خواتین سات کے سحر میں مبتلا ہوتی ہیں، وہ شادی کے سات سال بعد یا سات بچوں کی پیدائش کے بعد اس حد تک ابنارمل ہو جاتی ہیں کہ اپنی خواہش پر اپنے جگر گوشوں کو بھی قربان کر دیتی ہیں۔‘‘ اس کے بعد ایک شعر لکھا تھا:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!
سات کے ہندسے کے طلسماتی اثرات کی وجوہات میں بڑی وجہ یہ لکھی تھی کہ اﷲ تعالیٰ کو یہ کائنات بنانے میں سات دن لگے۔ چنانچہ آج تک یہ کائنات سات کے سحر میں گرفتار ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے میں نے اچانک مرزا صاحب سے پوچھا۔’’مرزا صاحب! آپ کے کتنے بچے ہیں؟ کہنے لگے ’’چھ۔‘‘ میں نے پوچھا’’ساتواں بچہ کب ہوگا؟‘‘ بولے: ’’ مجھے پاگل سمجھتے ہو؟ ساتواں بچہ پیدا کر کے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔‘‘
کبھی کبھار ایسی خبر بھی نظر سے گزر جاتی ہے کہ چھ یا آٹھ بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی۔ اس کی وضاحت مرزا صاحب نے یوں کی کہ چھ بچوں کی ماں جلد بازی کا مظاہرہ کرتی ہے اور آٹھ بچوں کی ماں بھاگنے میں دیر کر دیتی ہے۔ منیر نیازی کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔‘‘ آٹھ بچوں کی ماں بھی شاعرانہ مزاج رکھنے کی وجہ سے بھاگنے میں دیر کر دیتی ہے۔ لیکن دراصل وہ دونوں خواتین سات ہی کے سحر کا شکار ہوتی ہیں۔ بہرحال کبھی نہ بھاگنے سے دیر سے بھاگنا بہتر ہے۔ ’’دیر آید درست آید‘‘ ایسے ہی موقعوں پر کہا جاتا ہے۔ میں یہ سن کر پھر کتاب پڑھنے لگا۔ ایک جگہ لکھا تھا ’’سات بچوں والی بات کا اطلاق صرف ان معدودے چند عورتوں پر ہوتا ہے جو بدقسمتی سے سات کے سحر کا شکار ہو جائیں۔ ایسی عورتوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ لہٰذ ا ایسے حضرات کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں جن کی شادی کو ساتواں سال ہے یا وہ سات بچوں کے باپ ہیں۔ نیک لوگوں کیلئے سات کا ہندسہ مبارک بھی ثابت ہو سکتا ہے یعنی سات بچوں کی ماں مزید سات بچے بھی پیدا کر سکتی ہے۔
’’آشنا کے معنی ہیں دوست‘‘ انہوں نے مختصر جواب دیا۔ یہ جواب سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ سات بچوں کی ماں اگر دوست کے ساتھ نہ بھاگتی تو کیا کسی دشمن کے ساتھ بھاگتی۔ میرے ذہن میں فرار ہونے کا مطلب تھا دوڑ لگانا۔ دماغ پر زور دینے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ ایک عورت نے جس کے سات بچے تھے، اپنے دوست کے ساتھ دوڑ لگائی۔ خبر میں یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ دوڑ کس نے جیتی۔ پھر میں اس الجھن میں پڑ گیا کہ دوڑ تو بچے لگایا کرتے ہیں۔ سات بچوں کی ماں کو دوڑ لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ جب یہ معمہ کسی طرح حل نہ ہوا تو میں نے پھر بھائی صاحب سے مدد مانگی۔ انہوں نے خبر کی سرخی پڑھ کر نہایت جامع جواب دیا۔
کہنے لگے، ’’جب تم بڑے ہو گے، تمہیں اس خبر کی سمجھ آ جائے گی۔‘‘
’’تو کیا بڑا ہونے تک میں یہ اخبار سنبھالے رکھوں؟‘‘ میں نے احتجاج کیا۔
’’نہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ سات بچوں کی ماں کی خبر اخباروں میں اکثر آتی رہتی ہے۔‘‘ میں یہ سن کر خاموش ہو گیا۔ ممکن ہے انہوں نے یہ بات مذاق میں کہی ہو لیکن ان کی بات بالکل صحیح ثابت ہوئی۔
اس بات کو 60 سال ہو گئے ہیں اور ان 60سالوں میں ڈیڑھ دو سو بار یہ خبر پڑھ چکا ہوں کہ سات بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی۔ یہ خبر پڑھ کر مجھے کئی بار خیال آیا کہ آشنا کے ساتھ فرار ہونے کیلئے سات بچے کیوں ضروری ہیں۔ کیا چھ یا آٹھ بچوں کی ماں کو آشنا کے ساتھ فرار ہونے کا کوئی حق نہیں۔ کبھی خیال آتا کہ شاید حکومت نے قانون بنا رکھا ہے کہ صرف وہی خاتون آشنا کے ساتھ فرار ہو سکتی ہے جس کے سات بچے ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ چند خواتین بچوں کی تعداد پوری ہونے کا انتظار کرتی رہتی ہیں اور آشنائی بھی نبھاتی رہتی ہیں۔ جونہی ساتواں بچہ پیدا ہوتا ہے وہ آشنا کو گرین سگنل دے دیتی ہیں کہ تیار ہو جاؤ۔ بھاگنے کا وقت آ گیا ہے۔
اس سلسلے میں مجھے ایک ریٹائرڈ تھانے دار نے بڑا دلچسپ واقعہ سنایا۔ بقول ان کے ایک بار یوں ہوا کہ منڈی ڈھاباں سنگھ کی ایک خاتون نے اپنے آشنا سے کہہ رکھا تھا کہ جونہی ساتواں بچہ پیدا ہوگا ، میں تمہارے ساتھ فرار ہو جاؤں گی۔ چنانچہ آشنا دن رات دعا کرتا کہ ساتواں بچہ جلد پیدا ہو۔ اس نے اپنی دعاؤں میں اﷲ تعالیٰ پر اتنا پریشر ڈالا کہ اس خاتون کے ہاں دو جڑواں بچے پیدا ہو گئے۔ گویا وہ آٹھ بچوں کی ماں بن گئی۔
کچھ عرصے کے بعد جب وہ کھیتوں میں آنے جانے کے قابل ہوگئی، آشنا نے اسے فرار ہونے کا وعدہ یاد دلایا۔ آشنا کی بات سن کر وہ بولی ’’میں کسی صورت خدائی حکم کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی۔‘‘ آشنا نے حیران ہو کر خدائی حکم کی وضاحت چاہی تو جواب ملا: ’’جڑواں بچے پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے مجھے اشارے سے بتایا ہے کہ میں بھاگنے کا ارادہ ترک کر دوں اگر یہ بات نہ ہوتی تو خدا مجھے دو کے بجائے ایک بچہ دیتا۔ اب میں تمہارے ساتھ فرار ہو کر اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں چاہتی۔‘‘ آشنا نے اسے بہت سمجھایا کہ وہموں میں پڑ کر زندگی کا پروگرام نہیں بدلنا چاہیے۔ لیکن وہ اپنی بات پر اڑی رہی کہ میں کسی صورت خدا کی ناراضگی مول نہیں لے سکتی۔ میری نیت سات بچوں کے بعد فرار ہونے کی تھی۔ اب آٹھ ہو گئے ہیں۔ فرار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آشنا یہ سن کر مجبوراً چپ ہو رہا ۔ پھر حُسنِ اتفاق سے اس خاتون کا ایک بچہ اﷲ کو پیارا ہو گیا اور یوں اس کے بچوں کی تعداد سات ہو گئی۔ گویا بچے نے اپنی جان کی قربانی دے کر ماں کے بھاگنے کا راستہ ہموار کر دیا۔ بچے کی آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد اس نے اپنے خاوند، سات بچوں اور درودیوار پر حسرت بھری نگاہ ڈالی، زیورات اور قیمتی کپڑے سمیٹے اور باہر گلی میں آ گئی جہاں اُس کا آشنا انتظار کر رہا تھا۔ وہاں سے دونوں راہ فرار اختیار کر گئے۔
ساری کہانی سن کر میں نے تھانیدار صاحب سے پوچھا کہ آپ کو اس واقعے کی تفصیلات کا پتہ کیسے چلا؟ مسکرا کر کہنے لگے: ’’میں ہی تو تھا اس کا آشنا۔ بھاگنے سے پہلے میں نے دو ماہ کی چھٹی لے لی تھی۔‘‘ تب مجھے پتہ چلا کہ آشنا کوئی غیر معمولی مخلوق نہیں ہوتی بلکہ ہمارے آپ جیسے انسان ہی ہوتے ہیں۔ تاہم یہ سوال مستقبل طور پر ذہن میں اٹکا رہا کہ آشنا کے ساتھ بھاگنے کا بچوں کی تعداد سے کیا تعلق ہے۔ اگر کوئی خاتون بھاگنا چاہتی ہے تو اولین فرصت میں یہ کام کیوں نہیں کر لیتی۔ میں نے اپنی الجھن کا ذکر ناطق مرزا سے کیا کیونکہ ایسی الجھنیں وہ بڑی آسانی سے سلجھا دیتے ہیں۔ میری بات سن کر وہ علم الاعداد پر ایک کتاب لے آئے۔ ایک باب میں سات کے ہندسے کی خصوصیات لکھی تھیں۔ کہنے لگے ’’پڑھو۔ تمہیں پتہ چل جائے گا کہ بھاگنے کیلئے سات بچے کیوں ضروری ہیں۔‘‘ میں نے پڑھنا شروع کیا تو دریائے حیرت میں ڈوبتا چلا گیا۔ لکھا تھا کہ سات کا ہندسہ کوئی معمولی ہندسہ نہیں ہے۔ علم الاعداد میں اسے طلسمی ہندسہ کہا جاتا ہے۔ اس کے سحر میں مبتلا ہونے والے سے ایسی حرکات سرزد ہوتی ہیں جن کا تصور وہ خود بھی نہیں کر سکتا۔ مثلاً چھ سال تک ایمانداری سے سروس کرنے والا ملازم ساتویں سال لوٹ مار شروع کر دیتا ہے۔ علی ہذا القیاس، مسلسل چھ سال تک بیمار رہنے والا شخص ساتویں سال میں تندرست ہوجاتا ہے یا اﷲ کو پیارا ہو جاتا ہے۔ چھ سال تک بچہ معصوم رہتا ہے ۔ساتویں سال پورا شیطان بن جاتا ہے۔ کتاب میں آگے جا کر ایک ایسا فقرہ آیا جس نے مجھ پر سات ضرب دو یعنی 14طبق روشن کر دیئے ۔ لکھا تھا ’’جو خواتین سات کے سحر میں مبتلا ہوتی ہیں، وہ شادی کے سات سال بعد یا سات بچوں کی پیدائش کے بعد اس حد تک ابنارمل ہو جاتی ہیں کہ اپنی خواہش پر اپنے جگر گوشوں کو بھی قربان کر دیتی ہیں۔‘‘ اس کے بعد ایک شعر لکھا تھا:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا!
سات کے ہندسے کے طلسماتی اثرات کی وجوہات میں بڑی وجہ یہ لکھی تھی کہ اﷲ تعالیٰ کو یہ کائنات بنانے میں سات دن لگے۔ چنانچہ آج تک یہ کائنات سات کے سحر میں گرفتار ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے میں نے اچانک مرزا صاحب سے پوچھا۔’’مرزا صاحب! آپ کے کتنے بچے ہیں؟ کہنے لگے ’’چھ۔‘‘ میں نے پوچھا’’ساتواں بچہ کب ہوگا؟‘‘ بولے: ’’ مجھے پاگل سمجھتے ہو؟ ساتواں بچہ پیدا کر کے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔‘‘
کبھی کبھار ایسی خبر بھی نظر سے گزر جاتی ہے کہ چھ یا آٹھ بچوں کی ماں آشنا کے ساتھ فرار ہو گئی۔ اس کی وضاحت مرزا صاحب نے یوں کی کہ چھ بچوں کی ماں جلد بازی کا مظاہرہ کرتی ہے اور آٹھ بچوں کی ماں بھاگنے میں دیر کر دیتی ہے۔ منیر نیازی کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں۔‘‘ آٹھ بچوں کی ماں بھی شاعرانہ مزاج رکھنے کی وجہ سے بھاگنے میں دیر کر دیتی ہے۔ لیکن دراصل وہ دونوں خواتین سات ہی کے سحر کا شکار ہوتی ہیں۔ بہرحال کبھی نہ بھاگنے سے دیر سے بھاگنا بہتر ہے۔ ’’دیر آید درست آید‘‘ ایسے ہی موقعوں پر کہا جاتا ہے۔ میں یہ سن کر پھر کتاب پڑھنے لگا۔ ایک جگہ لکھا تھا ’’سات بچوں والی بات کا اطلاق صرف ان معدودے چند عورتوں پر ہوتا ہے جو بدقسمتی سے سات کے سحر کا شکار ہو جائیں۔ ایسی عورتوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوتی۔ لہٰذ ا ایسے حضرات کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں جن کی شادی کو ساتواں سال ہے یا وہ سات بچوں کے باپ ہیں۔ نیک لوگوں کیلئے سات کا ہندسہ مبارک بھی ثابت ہو سکتا ہے یعنی سات بچوں کی ماں مزید سات بچے بھی پیدا کر سکتی ہے۔