ساغر صدیقی اور ساغر نظامی

محمد بلال اعظم

لائبریرین

اوشو بھائی مجھے اُس کتاب کا نام یاد نہیں۔ بہت طویل عرصہ پہلے پڑھی تھی۔ ہو سکتا ہے بلال اعظم صاحب کو یاد ہو۔ محمد بلال اعظم صاحب سے درخواست ہے کہ اس سلسلے میں مدد فرمایئں۔


کتاب کا نام "شکستِ ساغر" ہے۔
راشد اشرف بھائی نے سکربڈ پہ اپلوڈ بھی کی ہوئی ہے۔
پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بھائی یہ تو سکرائب کا اکاؤنٹ مانگ رہا ہے :( مرا تو اکاؤنٹ نہیں ہے.
آپ میل کرسکتے ہیں؟
28 ایم بی کی فائل اپلوڈ کرنا بہتر مشکل ہے۔۔۔ البتہ میں کوشش کروں گا۔ آپ اپنا ای میل ایڈریس مکالمہ میں ارسال کر دیں۔
ویسے راشد اشرف بھائی سے بھی رابطہ کر لیجیے گا۔۔۔۔ اُن کے پاس شاید جی میل میں اپلوڈڈ ہی ہو۔
 

آصف اثر

معطل
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں​
یہاں ساغر نے اپنے چھپے درد کو حدود سے ماؤرا کردیا ہے۔ساغر سے پہلی بار میٹرک کے دِ نوں میں تعارف ہوا ۔ جب ایک دوست لاہور سے ہوکر آیا تو بڑے ہی عجیب انداز میں ”آؤ اک سجدہ کرے عالم مدہوشی میں۔۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ ساغر ؔ کو خدا یاد نہیں“پڑھتا۔ بس اسی وقت سے ساغر کے گروِیدہ ہوگیے۔بعد میں ان کی داستانِ الم سن اور پڑھ کر دلی ہمدردی پیدا ہوئی۔
 
سچی بات ہے کہ صدیقی کے مقابلے میں نظامی کی غزل بالکل بے مزہ ہے.
ساغر صدیقی کی کلیات آج کل مستقل مطالعہ میں ہے. اور یقیناً بار بار پڑھے جانے کے قابل ہے. :)
 
آج فیس بک پر ایک گروپ میں ایک صاحب نے یہ بات کہی ہے کہ یہ غزل ساغر صدیقی کی وفاتر سے قبل شائع ہونے والے کسی مجموعہ کا حصہ نہیں ہے۔ 1990 میں جو کلیات ساغر چھپی، اس میں شامل ہے۔
اس لیے ان کا کہنا یہ ہے کہ مذکورہ مقطع بھی ساغر صدیقی کا نہیں، بلکہ ساغر نظامی کا مقطع ہی تھوڑے رد و بدل کے ساتھ اس غزل میں جوڑ دیا گیا ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ غزل میں رنگ ساغر کا ہی ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ان کی وفات سے پہلے کسی مجموعہ کا حصہ تھی یا نہیں۔ اگر کسی کے پاس ایسا کوئی نسخہ ہو تو ضرور کنفرم کریں۔
اور یہ بھی کہ آیا ساغر کی کتنی ایسی غزلیں ہیں جو ان کی وفات کے بعد طبع ہوئیں۔

آپ احباب کی کیا رائے ہے؟
کوشش کرتا ہوں کہ ان کی مکمل پوسٹ یہاں شئر کر سکوں۔
 
بسم الله الرحمن الرحيم

السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
احباب گرامی۔۔۔!!!
ایک منفرد تحقیقی سلسلے کی دوسری پوسٹ کے ساتھ شعیب احمد شاہد اور اسمٰعیل سیال نورانی آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ہمارا مقصد زباں زدِ خاص و عام کلام کی مفصل تحقیق کی بنا پر درست ماخذ کی نشاندہی کرنا ہے۔اور عوام الناس تک کارآمد معلومات پہنچانا ہے۔
آج کا زیرِ بحث شعر کچھ یوں ہے

آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

(دیوانِ ساغر صدیقی 1990ء ،ناشر: عبدالرشید، صفحہ نمبر 116)

ہمیں اکثر یہ مشہور و معروف شعر ساغر صدیقی سے منسوب ملتا ہے لیکن جن اہلِ ذوق نے ساغر نظامی کو پڑھا ہے ان کا ماننا ہے کہ یہ شعر ساغر نظامی کا ہے ناکہ ساغر صدیقی کا۔
اور ساغر نظامی کا شعر یوں ہے کہ

لاؤ اک سجدہ کروں عالمِ بد مستی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

(مجموعہء کلام "بادہء مشرق" 1935ء، ناشر: ادبی مرکز میرٹھ، صفحہ نمبر 515، " یہ کتاب انہوں نے خود مرتب کی")

انہی باتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تحقیق کی گئی اور چند نکات اخذ کیے گئے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں

ساغر صدیقی، مختصر تعارف

نام محمد اختر اور تخلص ساغر تھا۔ ساغر صدیقی نام سے شہرت پائی ۔1928ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے۔گھر میں بہت تنگ دستی تھی اس لیے ان کی تعلیم واجبی سی ہوئی۔15 بر س کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے۔ شروع میں قلمی نام "ناصر حجازی" تھا لیکن جلد ہی بدل کر ساغر صدیقی ہوگئے۔ترنم بہت اچھا تھا۔لطیف گورداس پوری سے اصلاح لینے لگے۔1947ء میں وہ لاہور آگئے۔ ان کا کلام مختلف پرچوں میں چھپنے لگا۔ انھوں نے متعدد فلموں کے گانے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔18 جولائی 1974ء کو لاہور میں انتقال کرگئے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:229

ان کی زندگی میں ان کا پہلا مطبوعہ کلام "زہرِ آرزو"،
1960ء میں ،"غمِ بہار" 1964ء میں، "لوحِ جنوں" 1970ء میں، "شیشہء دل" اور "شبِ آگہی" 1972ء میں لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچا اور ان کی حیات میں ہی نعتیہ کلام سے مزیّن مجموعہ "سبز گنبد" چھپا۔ ان کی شاہکار تخلیق " مقتلِ گل" 1974ء میں شائع ہوئی اور موصوف اسی سن میں ملکِ عدم کے راہی ہوئے۔

(مقتلِ گل، دیباچہء مقتلِ گل منجانب مدیر "ادبی دنیا، لاہور" محمد عبداللہ قریشی)

انکی وفات کے بعد 1990ء میں "دیوانِ ساغر صدیقی" چھپی۔ جس میں انکا تمام کلام یکجا کر دیا گیا.

ساغر نظامی، مختصر تعارف

ساغر نظامی کا اصلی نام صمد یار خان تھا۔ 21 دسمبر 1905 کو محلہ بالائی قلعہ، علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی اور 14، 15 برس کی عمر میں کلامِ موزوں زباں پر آنے لگا۔ علامہ سیماب اکبر آبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ساغر صاحب بڑے متحرک انسان تھے۔ خالی بیٹھنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ جب بالغ ہوئے تو 1923ء میں ایک رسالہ "پیمانہ" نکالا اور پہلی کتاب رباعیات پر مشتمل "شبابیات" کے نام سے 1925ء میں شائع ہوئی۔ انہیں 1969 میں بھارت سرکار کی جانب سے "پدمابھوشن" اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ 27 فروری 1984ء کو ہڈیوں کے کینسر نے انہیں جانِ آفریں کے سپرد کر دیا.

تصانیف
نظم :-
شبابیات 1925ء، صبوحی 1932ء، بادہء مشرق 1935ء، رنگ محل 1943ء، موجِ ساحل 1948ء، ،شکنتلا 1961ء، انار کلی 1963ء، نہرونامہ 1967ء، مشعلِ آزادی (حصہ اول) 1967ء۔
نثر:-
تہذیب کی سرگزشت 1927ء، سمندر کی دیوی 1927ء، کہکشاں 1934ء، مشائخ مارہرہ 1935ء۔

(بحوالہ "ساغر نظامی فن اور شخصیت"،1985ء ناشر: ساغر نظامی میموریل اکیڈمی نئی دہلی)

مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ساغر نظامی کی کتاب "بادہء مشرق"، جو کہ 1935ء کی تخلیق ہے، میں مذکورہ شعر موجود ہے جبکہ 1974ء تک ساغر صدیقی نے جو ِ موزوں کلام کہا، وہ ان کے زیرِ سایہ طبع ہو چکا تھا۔ یہ شعر ان کی وفات کے 16 برس بعد "دیوانِ ساغر صدیقی" میں 1990ء میں شامل کیا گیا۔ 55 برس پہلے ساغر نظامی نے یہ شعر اپنی کتاب میں شامل کر لیا تھا۔

جب ساغر نظامی نے اپنی کتاب میں یہ شعر شامل کیا تو اس وقت ساغر صدیقی کی عمر صرف سات برس تھی۔
میں یقینی طور پہ کہتا ہوں کہ سات سال کا بچہ عالمِ مدہوشی میں بالکل نہیں ہوگا، نہ ہی اسے لوگ اتنا جانتے ہوں گے کہ لوگ الزام لگائیں کہ بھئی شراب کہ نشے میں تو ساغر صدیقی خدا کو بھول بیٹھا ہے۔
(ازراہِ تفنن کہا لیکن یہ حقیقت ہے )

بعض احباب یہ کہتے ہیں کہ چلو مان لیتے ہیں کہ یہ شعر نظامی کا ہی ہے لیکن دوسرا شعر زیادہ سلیس اور لطیف معلوم ہوتا ہے۔ بھئی شعر کا اچھا برا ہونا اور بات ہے لیکن کسی دوسرے سے منسوب کرنا اور الفاظ کو بدل کر پڑھنا اہل فراست اور خوش ذوق لوگوں کا شیوہ نہیں۔
اس تحقیق سے حتمی اور منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ یہ شعر ساغر نظامی کا ہی ہے اور آپ لوگوں سے ملتمس ہیں کہ اس کو تصحیح کے ساتھ پڑھا جائے اور ساغر نظامی سے ہی منسوب کیا جائے۔

اس ضمن میں کسی قسم کا سوال ہو تو یقیناً پوچھئے، آپ کو تشفی بخش جواب دیا جائے گا۔ آپ لوگوں کی مثبت اراء سے ہماری حوصلہ افزائی یقیناً ہوگی اور سیکھنے کو بہت کچھ نیا بھی ملے گا۔ ان شاء الله عزوجل۔۔۔!!
Ismail Sial Noorani
 

ابن توقیر

محفلین
اس تحقیق کو پڑھنے کے بعد تو صورتحال کافی دلچسپ ہوگئی ہے،اساتذہ کے تبصروں کا انتظار رہے گا۔یہ صورتحال تفصیلی تحقیق چاہ رہی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
1974 میں جو کلام شائع ہوا ہے وہ بہت محدود تھا۔ اگر اسے معیار مانا جائے تو بقیہ غزلوں کا کیا کہیں گے کہ کہاں سے شامل کی گئیں؟
 
Top