ساغر صدیقی اور ساغر نظامی

1974 میں جو کلام شائع ہوا ہے وہ بہت محدود تھا۔ اگر اسے معیار مانا جائے تو بقیہ غزلوں کا کیا کہیں گے کہ کہاں سے شامل کی گئیں؟
جی بالکل، بلکہ یہاں دیکھا تو یونس ادیب نے بھی شکستِ ساغر میں مذکورہ مقطع کا حوالہ دی ہے۔ جبکہ یہ کتاب ۱۹۸۳ء کی ہے۔
ان تمام باتوں کے باوجود موصوف اپنی "تحقیق" پر بضد ہیں۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین

فرخ منظور

لائبریرین
تو پھر انہیں اپنی تحقیق پر اڑے رہنے دیں۔ پنجابی میں کہتے ہیں کہ
مرے تے مُکرے دا کوئی علاج نہیں یعنی جو مر جائے اور جو مُکر جائے اس کا کوئی علاج نہیں۔ ایک مر گیا دوسرا مُکر رہا ہے۔
 

ابن توقیر

محفلین
سکربڈ پر 67
کتاب پر 132
اس حوالے کے بعد تو موصوف کی تحقیق ہی باطل ہوجاتی ہے۔ان کی تحقیق دعوی کرتی ہے
یہ شعر ان کی وفات کے 16 برس بعد "دیوانِ ساغر صدیقی" میں 1990ء میں شامل کیا گیا۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ "محقق" ساغر پر ان کی زندگی کے اہم حوالے "شکست ساغر" کا مطالعہ کیے بغیر ہی لکھے جارہے ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ساغر صدیقی درویش صفت آدمی تھا اور یہی وجہ ہے کہ اس کا کلام بکھرا ہوا ہے، مجھے پورا یقین ہے کہ صدیقی نے اپنے کلام کی اس طرح حفاظت نہیں کی ہوگی جس طرح دیگر شعرا کرتے ہیں۔ اس میں بھی کچھ کلام نہیں کہ نظامی کی غزل پہلے کی ہے اور صدیقی کی بعد کی۔ شعرا ایک دوسرے کی زمین استعمال کرتے ہی ہیں اس میں کچھ اچنبھا نہیں، اور پھر ان دونوں غزلوں کی زمین تھوڑی مختلف بھی ہے۔

جہاں تک مقطع کی بات ہے تو یہ ضرور ہے کہ صدیقی نے نظامی کا ایک مصرعہ ہو بہو لے لیا ہے لیکن اس پر جو مصرع لگایا ہے اس نے شعر کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا ہے، "بد مستی" اور "مدہوشی" میں سجدہ کرنے میں زمین آسمان ہی کا فرق ہے، اور یہ دونوں الفاظ ان دونوں شعرا کی حالت پر بھی دال ہیں!
 

فاتح

لائبریرین
ابھی آن لائن دیکھا تو معلوم ہوا کہ ساغر نظامی کے مجموعۂ کلام "بادۂ مشرق" مطبوعہ 1935 میں یہ غزل واقعی موجود ہے اور مقطع بھی یہی ہے ورنہ یہ بحث اور تحقیق میرے لیے نئی تھی۔
آپ سب کے مراسلے پڑھنے کے بعد یہی لگتا ہے کہ ساغر صدیقی نے ساغر نظامی کی زمین (اگر اس سے پہلے کسی نے یہ زمین نہیں برتی) میں غزل لکھی ہے جو کوئی غلط بات نہیں اور مجھے ذاتی طور پر ساغر صدیقی کی غزل ہی زیادہ پسند ہے۔
مقطع میں "لاؤ" کی جگہ "آؤ" اور "بدمستی" کی بجائے "مدہوشی"کے سوا کوئی تبدیلی نہیں اور اس تبدیلی سے گو کہ شعر تو واقعی شعر بن گیا ہے ورنہ بدمستی کے ساتھ شعر اتنا عامیانہ تھا کہ کسی نے شاید ہی سنا ہو لیکن اس سب کے باوجود اسے ادبی اصطلاح میں "سرقہ" ہی کہا جائے گا۔
لیکن جیسا کہ برادرم محمد وارث نے کہا کہ "ساغر ایک درویش صفت آدمی تھا" اور اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ سرقہ کرے یہ بات بعید از قیاس لگتی ہے۔ ہم جب کسی جرم کی تفتیش کرتے ہیں تو motive یا مقصد دیکھتے ہیں اور ساغر کے حال سے معمولی سی واقفیت بھی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا مقصد نہیں تھا۔
ہو سکتا ہے کہ ساغر نے نظامی کا یہ شعر کبھی پڑھا یا سنا ہو اور بھول گیا ہو لیکن جب اس نے یہ غزل کہی تو وہ شعر تحت الشعور سے نکل کر آ گیا اورساغر نے اسے عامیانہ شعر سے ایک کمال کے شعر میں بدل دیا ہو۔ واللہ اعلم بالصواب
 
جزاکم اللہ۔
تمام احباب کا مشکور ہوں کہ اشکال دور فرمائے۔ میرا بھی یہی نقطۂ نظر ہے کہ
ساغر نے نظامی کا یہ شعر کبھی پڑھا یا سنا ہو اور بھول گیا ہو لیکن جب اس نے یہ غزل کہی تو وہ شعر تحت الشعور سے نکل کر آ گیا
مگر موصوف اپنی تحقیق پر بضد ہیں کہ چونکہ ان کی زندگی میں نہیں چھپا تو انہوں نے کہا بھی نہیں۔ بلکہ غزل پر بھی سوال اٹھا دیے۔ :)
 
Top