میں نے جب گھر چھوڑا تو کبھی والد صاحب مجھے ضد کر کے چھوڑنے آجاتے بس اڈے تک۔ اور پھر میں دیکھتا رہتا۔ جب تک بس نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوجاتی تھی۔ وہ وہیں کھڑے رہتے ۔ میں بےنیاز تھا۔ اولاد کی جدائی کے درد سے۔ ان کو کہتا۔ بابا آپ کیوں آتے ہیں۔ آپ گھر بیٹھیں۔ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا کہ آپ یوں کھڑے رہیں۔ یہاں مٹی ہے۔ آپ کی طبیعت خراب ہوجائے گی۔ لیکن بابا کے لبوں پر ایک ہلکی سی مسکان ابھر آتی۔ بیٹا چند منٹ کی تو بات ہے۔ ابھی تمہاری بس چلی جائے گی۔ تو میں بھی گھر لوٹ جاؤں گا۔ پھر بابا نے مجھے چھوڑنے آنا چھوڑ دیا۔ بس وہی دروازے سے مل کر کہتے ۔ پہنچتے ہی فون کر دینا۔ اور صبح میرے فون کرنے سے پہلے ہی خود فون کر لینا۔ اور میں اس محبت کو سمجھ ہی نہیں پایا کبھی۔ پھر ایک دن میں اپنی اولاد کو چھوڑنے بس اڈے تک آگیا۔ بٹیا شیشے سے دیکھ دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی تھی۔ اور میں کھڑا دیکھ رہا تھا کہ شیشے میں بٹیا نہیں میں بیٹھا ہوں۔ اور باہر میرا باپ کھڑا ہے۔ میری آنکھوں میں نمی بڑھنے لگی۔ میں وہاں سے ہٹنا چاہتا تھا۔ لیکن جب تک بس نگاہوں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ میں ایک قدم ہل نہیں سکا۔ اس بار جب گھر گیا تو والد صاحب نے کہا میں تمہیں چھوڑنے جاؤں گا اڈے تک۔ میرا دل کانپ گیا۔ بابا بس کے باہر کھڑے تھے۔ اور میرا دل بھی۔ جب بس چلنے لگی تو بابا دوسری طرف دیکھنے لگے۔ میں کرب میں ڈوب گیا۔ اپنی بیٹی کو میں گھر چھوڑ آیا تھا کہ مجھے جاتا دیکھ کر روئے گی۔ اور اپنے باپ کو ساتھ لے آیا ۔ کتنے سالوں سے میں ان کو رلا رہا ہوں۔ کتنے ہی سالوں سے۔
دوسرا المیہ محبتوں کے اظہار کا رہا۔ اس بات کا احساس مجھے اس دن ہوا ۔ جب ایک دن میں اور بٹیا رانی سونے کے لیے لیٹے تھے۔ تو اس نے مجھ سے لپٹ کر کہا۔ پاپا آئی لو یو۔ وقت سمٹ گیا۔ اور میں اس کیفیت طرب کو بیان نہیں کر سکتا۔ اس کےبعد اس نے عادت بنا لی۔ وہ روز مجھے سونے سے پہلے یہی یاددہانی کرواتی۔ کہ پاپا آئی لو یو۔ میری دو سال کی بیٹی سمجھتی ہے۔ کہ ماں باپ سے محبت ہےتو ان کو بتانا بھی ہے۔ اور میں جس کی جوانی کا سورج ڈھلنے لگا ہے۔ اس بات سے بےخبر۔ کبھی نہیں کہا۔ کہ بابا مجھے آپ سے محبت ہے۔ ایسی کیا چیز تھی جس نے مجھے مدتوں یہ کہنے سے روکے رکھا۔ آخر ایسا کیا تھا کہ میں کبھی یہ کہہ ہی نہیں پایا۔ جبکہ یہ بات تو مجھ پر واضح تھی کہ میں اپنے بابا سے بہت محبت کرتا ہوں۔ آج جب اس یوم مزدور پر آپ کی سالگرہ ہے۔ تو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بابا میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں۔ آج میں یہ آپ کو کہنا چاہتا ہو ں کہ جو مزدوری آپ نے تاعمر ہمارے لیے کی ہے۔ اور ابھی تک کر رہے ہیں۔ میں اس کے کسی ایک لمحے کی قیمت بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ لیکن میری دعا یہی ہے کہ اللہ آپ کا سایہ تاعمر میرے سر پر سلامت رکھے۔ مجھے فرمانبردار اور محبتوں کو پہچاننے والا بنائے۔ اور میرے لیے ایسے اسباب پیدا کرے کہ میں آپ کے پاس رہوں۔ آپ کی خدمت کروں۔
آج میرے بابا کی سالگرہ ہے۔۔۔ اللہ سبحان و تعالیٰ ان کو صحت دے۔ اور ان کا سایہ سدا میرے سر پر قائم و دائم رکھے۔ آمین
یہی تحریر میرے بلاگ پر