سانحہ تعلیم القرآن راولپنڈی ، آج نیوز چینل کا خصوصی پروگرام

حسینی

محفلین
ابھی تک کوئی اہل تشعی ڈرون میں اور امریکی وار میں ہلاک نہیں ہوا۔
تو آپ کی کیا یہ خواہش ہے کہ اہل تشیع پر ڈرون حملے ہوں۔۔۔ فضول باتیں نہ کیا کریں۔
دوسری طرف یہ بات بھی مدنظر رہے۔۔۔ کہ الحمد للہ آج تک کسی اہل تشیع نے خود کش حملہ کیا ہے۔۔۔
نہ کسی نے حکومت کی رٹ کو چیلنچ کیا۔۔۔۔ نہ کسی اہل تشیع نے حکومت کے اندر حکومت بنائی ہے۔
نہ ہی کسی اہل تشیع نے پاک آرمی کو نشانہ بنایا ہے۔۔۔ اور نہ کسی شیعہ نے زندہ انسان کو جانوروں کی طرح چھری سے ذبح کیا ہے۔
نہ ہی اسکولوں کو بموں سے اڑایا ہے۔۔۔
اب سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کے اندر ہونے والی تمام تر بزدلانہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں کس گروہ تعلق رکھنے والے لوگ ملوث ہیں۔
کہ جن میں بے گناہ شہری، بچے، خواتین، فوجی جوان سب شہید ہوتے ہیں۔۔
اور ٰ میں معذرت چاہتا ہوں کسی اور بہن بھائی کا دل میری ان باتوں کو وجہ سے دکھا ہو۔۔۔ لیکن اس جملے کے بعد یہ وضاحت ضروری تھی۔
۔اور آپ نے کہا:
"حسب شیطان کا لیڈر نصرت الشیطان کا ایک حفیہ ویڈیوں میں نے دیکھی ہے جس میں کہہ رہا تھا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ اسی طرح کرین گے وہ ہم پرحملے کا ڈراما رچاتے رہے۔"
۔
بھائی جی۔۔۔ اپنی زبان اور قلم کو لگام دے۔۔۔ اور ذرا احتیاط اور تہذیب سے بات کیا کریں۔
سید المقاومہ سید حسن نصر اللہ ہمارے سروں کے تاج ہیں۔۔۔ اور تمام مقاومتی بلاک میں ان کا انتہائی احترام کیا جاتا ہے۔۔۔ اور ہمارے لیے بھی وہ انتہائی محترم ہیں۔۔۔ لہذا ان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے احتیاط کیا کریں۔۔
ورنہ ہم بھی آپ کی شخصیات کے بارے بات کر سکتے ہیں۔۔۔ لیکن آپ کے علاوہ اور بھی بہت سارے لوگوں کا دل دکھے گا۔
امید ہے ُ آپ برا نہیں مانیں گے۔
باقی آپ نے جتنے سوالات کیے ان میں سے ہر ایک الگ الگ بحث کا متقاضی ہے۔۔ جو کہ ایک ساتھ نہیں ہو سکتا۔
اس لڑی میں تکفیر کے حوالے سے ابھی تک بحث چل رہی تھی۔۔۔ لہذا اسی اک موضوع پر رہیں تو اچھا ہوگا۔
 

حسینی

محفلین
جو مجتہدین وفات پا جاتے ہیں؟ کیا ان کے دئے گئے فتاویٰ کی اہمیت ان کی وفات کے بعد ختم ہو جاتی ہے؟ میں دیکھتا ہوں کہ اس فہرست میں آپ نے خمینی صاحب کا نام نہیں لکھا۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم کسی اور مسئلے میں ہی سہی، اگر ان کو دیا گیا کوئی فتویٰ نقل کریں تو اس کی کوئی شرعی حیثیت نہ ہوگی؟ اور نہ ہی اُس کو کئی اہمیت؟

بڑا اچھا سوال کیا ہے آپ نے۔
جی مجتہد کی وفات کے بعد نئی تقلید کرنے والا شخص اس مردہ مجتہد کی تقلید نہیں کرسکتا۔
لیکن جس شخص نے اس مجتہد کی زندگی میں اس کی تقلید کی تھی وہ اس کی وفات کے بعد بھی اس کی تقلید پر باقی رہ سکتا ہے۔
اب امام خمینی کے شرعی فتاوی ان لوگوں کے لیے جو ان کی تقلید میں نہیں ہیں۔۔۔ کوئی شرعی حٰیثیت نہیں رکھتے۔
ہر شخص کے لیے اپنے مجتہد اور مرجع کے فتوی کےمطابق عمل کرنا ضروری ہے۔۔ البتہ مجتہدین کے درمیان شرعی مسائل بہت زیادہ اختلاف بھی نہی ہے۔
لیکن ان مردہ مجتہدین کے بعض فتاوی سے دیگر مجتہدین استفادہ ضرور کرتے ہیں۔۔ اور رہنمائی لیتے ہیں۔۔۔
اور بعض فتاوی سے مسائل کی اہمیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔۔ جیسے امام خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا جو فتوی دیا تھا۔
لیکن سب سے اہم بات وہی ہے کہ ان کے علاوہ کوئی بھی دوسرا شخص حتی عام علماء بھی فتوی دینے کے مجاز نہیں ہیں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
اردو صحیح بخاری کا مجھے علم نہیں کہ آن لائن کہاں پر ہے اسی لئے صرف انگریزی ہی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔

Narrated 'Aisha:

(mother of the believers) After the death of Allah 's Apostle Fatima the daughter of Allah's Apostle asked Abu Bakr As-Siddiq to give her, her share of inheritance from what Allah's Apostle had left of the Fai (i.e. booty gained without fighting) which Allah had given him. Abu Bakr said to her, "Allah's Apostle said, 'Our property will not be inherited, whatever we (i.e. prophets) leave is Sadaqa (to be used for charity)." Fatima, the daughter of Allah's Apostle got angry and stopped speaking to Abu Bakr, and continued assuming that attitude till she died. Fatima remained alive for six months after the death of Allah's Apostle.
Volume 4, Book 53, Number 325:Sahih Bukhari


یہ صحیح مسلم کی ایک لمبی روایت ہے جس میں سے صرف پہلا حصہ، جو ہماری بحث سے متعلق ہے لیا گیا ہے۔

It is narrated on the authority of Urwa b. Zubair who narrated from A'isha that she informed him that Fatima, daughter of the Messenger of Allah (may peace be upon him), sent someone to Abu Bakr to demand from him her share of the legacy left by the Messenger of Allah (may peace be upon him) from what Allah had bestowed upon him at Medina and Fadak and what was left from one-filth of the income (annually received) from Khaibar. Abu Bakr said: The Messenger of Allah (may peace be upon him) said:" We (prophets) do not have any heirs; what we leave behind is (to be given in) charity." The household of the Messenger of Allah (may peace be upon him) will live on the income from these properties, but, by Allah, I will not change the charity of the Messenger of Allah (may peace be upon him) from the condition in which it was in his own time. I will do the same with it as the Messenger of Allah (may peace be upun him) himself used to do. So Abu Bakr refused to hand over anything from it to Fatima who got angry with Abu Bakr for this reason. She forsook him and did not talk to him until the end of her life. She lived for six months after the death of the Messenger of Allah (may peace be upon him). When she died, her husband. 'Ali b. Abu Talib, buried her at night. He did not inform Abu Bakr about her death and offered the funeral prayer over her himself.
Book 019, Number 4352:Sahih Muslim

جو حدیث آپ نے حوالہ کی ہے اس کی اردو و عربی یہ ہے

صحیح بخاری
کتاب فرض الخمس
باب: خمس کے فرض ہونے کا بیان
حدیث نمبر : 3093
فقال لها أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث ما تركنا صدقة ‏"‏‏.‏ فغضبت فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فهجرت أبا بكر،‏‏‏‏ فلم تزل مهاجرته حتى توفيت وعاشت بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ستة أشهر‏.‏ قالت وكانت فاطمة تسأل أبا بكر نصيبها مما ترك رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر وفدك وصدقته بالمدينة،‏‏‏‏ فأبى أبو بكر عليها ذلك،‏‏‏‏ وقال لست تاركا شيئا كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعمل به إلا عملت به،‏‏‏‏ فإني أخشى إن تركت شيئا من أمره أن أزيغ‏.‏ فأما صدقته بالمدينة فدفعها عمر إلى علي وعباس،‏‏‏‏ فأما خيبر وفدك فأمسكها عمر وقال هما صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم كانتا لحقوقه التي تعروه ونوائبه،‏‏‏‏ وأمرهما إلى من ولي الأمر‏.‏ قال فهما على ذلك إلى اليوم‏.
ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی حیات میں) فرمایا تھا کہ ہمارا (گروہ انبیاء علیہم السلام کا) ورثہ تقسیم نہیں ہوتا ‘ ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا یہ سن کر غصہ ہو گئیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ترک ملاقات کی اور وفات تک ان سے نہ ملیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے زندہ رہی تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خیبر اور فدک اور مدینہ کے صدقے کی وراثت کا مطالبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی ایسے عمل کو نہیں چھوڑ سکتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کرتے رہے تھے۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ) پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ کا جو صدقہ تھا وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کو (اپنے عہد خلافت میں) دے دیا۔ البتہ خیبر اور فدک کی جائیداد کو عمر رضی اللہ عنہ نے روک رکھا اور فرمایا کہ یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ ہیں اور ان حقوق کے لئے جو وقتی طور پر پیش آتے یا وقتی حادثات کے لئے رکھی تھیں۔ یہ جائیداد اس شخص کے اختیار میں رہیں گی جو خلیفہ وقت ہو۔ زہری نے کہا ‘ چنانچہ ان دونوں جائدادوں کا انتظام آج تک (بذریعہ حکومت) اسی طرح ہوتا چلا آتا ہے۔
 

گرائیں

محفلین
حسینی بھائی، اپ کا بہت شکریہ کہ اپ نے ان سوالوں کے جواب دیے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کُل تو نہیں جزو ہی تھا۔ اگر ہم بحث کرنے لگیں تو ساری عمر ہی شائد گزر جائے۔ اور یہ بحث ختم نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں میرے لئے اب اس گفتگو میں شرکت کرنا ممکن نہ ہوگا۔
میں اپ سب لوگوں سے اجازت چاہوں گا۔ لیکن جاتے جاتے ایک بات ضرور کہوں گا :
اب تک کی گفتگو سے جو اندازہ میں نے لگایا ہے وہ یہ ہے کہ اہل تشیع اور ہمارے عقائد میں بہت فرق ہے۔ بلکہ بہت زیادہ۔ جیسے کہ میں پہلے اس لڑی میں کہہ چکا، جو حضرات ہمارے لئے محترم ، وہ ان کے لئے قابل نفرین۔ ایسی صورت حا ل پہلے بھی سامنے آئی تھی، جب قائد اعظم سے پوچھا گیا تھا کہ وہ الگ ملک کیوں لینا چاہتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ ہندوؤں سے ہمارا ہر چیز میں اختلاف ہے۔ وہ گائے کی پوجا کرتے ہیں، ہم گائے کھاتے ہیں۔ ہمارے ہیرو ان کے ولن وغیر وغیرہ ۔ تفصیلی بیان تو مجھے بھی یاد نہیں۔ جن حضرات کو دلچسپی ہو ، وہ ضرور گوگل چچا کی مدد سے نکال ڈالیں گے۔

اب ایسی صورت حال جو اب ہمارے سامنے آئی۔ دونوں گروہ اپنے دلائل قرآن مجید اور حدیث مبارک کی رو سے ثابت کرتے ہیں۔ دونوں کے پاس زور کے دلائل ہیں۔ مگر یہ بات یقینی ہے کہ دونوں ایک ہی معاملے میں درست نہیں ہو سکتے۔ ان میں سے ایک غلط ہے۔ کون غلط ہے، ؎یہ فیصلہ اب قارئین کا کام ہے۔۔ لیکن میں سمجھتا ہوں، اور میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ اگر یہ بات مان لی جائے کہ پہلے تین خلفا نے چوتھے خلیفہ کا حق غصب کیا وہ بھی اس صورت میں کہ اس کا حق اللہ کی طرف سے متعین کر دیا گیا تھا، اور یہ کہ اللہ کے نبی بھی غالبا یہی چاہتے ہوں گے، تو حالات کی تصویر کافی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ یعنی، اللہ تعالیٰ، نعوذباللہ ، اور اسکا پیارا رسول جو کہ انبیا کا سردار بھی ہے، قریش کے سامنے اتنے بے بس ہو گئے تھے کہ اپنی مرضی کے بندے کو قائد نہ بنوا سکے۔ دل کو نہیں لگتی یہ بات۔
جب اللہ تعالیٰ نے الیوم اکملت لکم دینکم کہا ، تو کیا یہ کہنا اتنا وقتی تھا کہ کچھ عرسہ بعد، اس کے پیارے رسول کی وفات کے بعد اس کی ساری محنت نعوذباللہ اکارت چلی گئی۔ سب مرتد ہو گئے۔ سب کے سب الا ثلاثہ۔ دل کو یہ بات بھی نہیں لگتی۔ مگر اس بات کے ساتھ شدید قسم کی جذباتی و مذہبی وابستگی ہے۔ اس پر تنقید کرنا کُھلے عام فساد کو دعوت دینا ہے۔ یہ تو سادہ باتیں تھیں جن کو میرے جیسا جاہل مسلمان دیکھتا ہے۔ باقی علمی شگوفے جو دونوں طرف کے علماء نے کھلائے ہیں وہ اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ حسینی بھائی کے تمام تر انکار کے باجود ان کی کتب کُلینی اور جامع الکافی میں ایسی روایات موجود ہیں جو سنیوں کی تکفیر کرتی ہیں۔ جو سوائے تین کے سب کے ارتداد کا اعلان کرتی ہیں اور جیسا کہ حسینی بھائی نے اپنے ایک مراسلے میں کہ ا رتداد کا مطلب علی رضی اللہ تعالیٰ کی ولایت میں ذرا سا بھی شک کرنا ہے۔ باقیوں کا میں نہیں کہتا، مگر میں شہادتین کا اقرار کرتا ہوں اور ولایت والی بات کا انکار۔ اس لحاظ سے میں مسلمان تو ہوں مگر مرتد۔ یہی بات بنتی ہے نا؟ مگر حسینی بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی شیعہ کسی کی تکفیر نہیں کر سکتا۔ فتویٰ دینامجتہد کا کام ہے اور آج تک کسی مجتہد نے ایسا فتوٰی نہیں دیا۔ اب بات سمجھ نہیں آتی۔

ایک لحاظ سے مرتد ہوں، مگر چونکہ کسی مجتہد نے نہیں کہا اس لئے نہیں ہوں۔ یہ گورکھ دھندا سمجھ نہیں آتا۔ مجھے کم از کم اپنے عقیدے کا اظہار کرنے کے لئے الفاظ کے اتنے داؤ پیچ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہاں میں نے صرف اپنی بات کی۔ باقی قارئین خود دیکھ لیں وہ کہاں کھڑے ہیں۔ اس صورت میں کہ جب اتنا بڑا بُعد ہے ہمارے عقائد میں، میں نہیں سمجھتا ان اختلا فات کو محض فروعی اختلافات کا نام دیا جائے۔ میں اگر کہوں کہ یہ دونوں دو بالکل مختلف مذاہب ہیں تو شائد بے جا نہ ہوگا۔
اس صورت حال میں کیاکِیا جائے جب کہ دونوں کے عقائد ایسے ہیں کہ دونوں کی دلآزاری ہو سکتی ہے۔ کیا پھر سے ایک نیا دو قومی نظریہ بنایا جائے؟ یا پھر مل جُل کر رہنے کی ابتدا اس اعتراف کے ساتھ کی جائے کہ زیادتیاں دونوں طرف سے ہوتی رہی ہیں۔ اگر سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا وجود ایک حقیقت ہے تو مختار فورس اور سپاہ محمد کا وجود بھی ایک حقیقت ہے۔ دونوں طرف کے لوگوں کے، متشددین کے سیاہ کارنامے ہمارے سامنے ہیں۔ اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کیا کریں گے،۔ میرے ایک محترم سینئر سے آج بات ہوئی ، وہ مجھ سے ناراض نظر آ رہے تھے۔ وہ شیعہ ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اور آپ ہم دونوں اپنے اپنے عقیدے کے قیدی ہیں۔ لیکن ہم ری کانسیلیئے شن کی ابتدا اس طرح کر سکتے ہیں کہ آپ میرے ہم عقیدہ لوگوں کی ہلاکت کی مذمت کریں۔ اور میں آپ کے۔ جب تک ہم صرف اپنے شہیدوں کا رونا روئیں گے حالات ٹھیک نہیں ہونے والے۔ یہی بات ، میں نے اُن کو یاد دلایا، میں نے ڈیڑھ سال قبل کی تھی۔ آج جب انھوں نے گِلہ کیا کہ بعض جگہ پر پائے جانے والے میرے تبصرے سیکٹیرین نویت تک پہنچ رہے تھے تو میں نے یہی بات دوبارہ کی۔

اس بحث سے میں ان الفاظ کے ساتھ نکلنا چاہوں گا کہ :
سید زیشان، حسینی بھائی، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ ایک ہاتھ سے نہیں۔ مسلسل ایک ہی طرف سے رواداری کا مطالبہ کسی کو زچ بھی کر سکتا ہے۔ میری درخوواست ہے کہ آپ جہاں تک آپ کا زور چلتا ہے، لوگوں کو سمجھائیں کہ جب تک ہم فریق مخالف کے شہیدوں کو اون نہیں کریں گے ری کانسیلیئےشن ہما کی طرح عُنقا ہی رہے گی۔ اس معاشرے میں امن، ایک خواب ہی رہے گا اور ہر طرف چنگاریاں شعلوں میں تبدیل ہوتی رہیں گی۔
میرے جیسے لوگ جو کسی کی ہلاکت کو غلط سمجھتے ہیں شائد اقلیت میں تبدیل ہوتے جاتے رہیں۔

شائد کہ ترے دل میں اُتر جائے میری بات۔
 

حسینی

محفلین
۔
۔ ہم نے دیکھا کہ حسینی بھائی کے تمام تر انکار کے باجود ان کی کتب کُلینی اور جامع الکافی میں ایسی روایات موجود ہیں جو سنیوں کی تکفیر کرتی ہیں۔ ۔ مگر حسینی بھائی یہ بھی کہتے ہیں کہ کوئی شیعہ کسی کی تکفیر نہیں کر سکتا۔ فتویٰ دینامجتہد کا کام ہے اور آج تک کسی مجتہد نے ایسا فتوٰی نہیں دیا۔ اب بات سمجھ نہیں آتی۔
۔
سب سے پہلے میں آپ کا بہت زیادہ شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ اتنے اچھے انداز میں آپ نے اس بحث میں حصہ لیا۔۔۔ اور واقعی آپ نے اپنے انداز سے مجھے متاثر کیا۔۔۔ برعکس کچھ اراکین کے کہ جن کا انداز انتہائی جارحانہ بلکہ توہین آمیز تھا۔
بس جو بنیادی نکتہ آپ نے اٹھایا ہے اور جس کے بارے بحث چل رہی تھی۔۔ اس حوالے سے صرف اتنا کہنا چاہوں گا۔۔ کہ
یقینا یہ احادیث موجود ہیں ۔۔۔ ان کے وجود سے کسی نے انکار نہین کا۔۔۔ آیا آپ اپنی احادیث میں موجود ہر بات کو عقیدہ اور فتوی سمجھتے ہیں کیا؟
لیکن بات یہ ہے کہ ساری احادیث خام مال کی حیثیت رکھتی ہیں۔۔۔ اور ممکن ہے ان کے مقابلے میں اور احادیث ہوں جو انکے بالکل برعکس بات کرتی ہوں۔۔ یا ممکن ہے یہ احادیث قرآن کی نص یا احادیث متواترہ سے ٹکراتی ہوں۔
ایسے میں اجتہاد کہا ہی اس کو جاتا ہے کہ مجتہد ان احادیث میں سے صحیح اور ضعیف وفاسد کی پہچان کرے۔۔۔ ان کو قرآن کی آیات کو سامنے رکھ کر پرکھے۔
اور (اپنی توان کے مطابق) حکم واقعی تک پہنچنے کی سعی کرے۔۔۔ اور پھر اسے لوگوں کو بتا دے۔
لہذا حدیث میں کسی بات کا ہونا ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ عقیدہ اور فتوی بھی بس یہی ہے۔۔ بس فرق ملحوظ رہے۔۔۔
شاید آپ کو معلوم ہو اصول الفقہ میں باقاعدہ پڑھایا جاتا ہے کہ اگر دو احادیث ظاہرا آپس میں ٹکرا رہی ہوں تو ان کا علاج کس طرح کیا جاتا ہے۔۔۔ اور حقیقت تک کیسے پہنچا جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

mohsin ali razvi

محفلین
1476710_600239186702676_1826941518_n.jpg
 

اوشو

لائبریرین
ابھی تک کوئی اہل تشعی ڈرون میں اور امریکی وار میں ہلاک نہیں ہوا۔
امریکی جیل گواتنابے میں صرف سنی مسلمان قید ہیں
ایران پر کاروائی کبھی نہیں ہوئی نہ ہوگی اندر سے جام سے جام لڑانے والے ہیں
حسب شیطان کا لیڈر نصرت الشیطان کا ایک حفیہ ویڈیوں میں نے دیکھی ہے جس میں کہہ رہا تھا کہ ہم اسرائیل کے ساتھ اسی طرح کرین گے وہ ہم پرحملے کا ڈراما رچاتے رہے۔
ابھی ایک ویڈیوں میں نے لوڈ کی ہے اسی جگہہ آپ لوگ دیکھیں کہ کہہ رہا ہے کہ ہم سنیوں کا قتال کرینگے اگر جبرائیل بھی آجائے تو بھی نہیں بچاسکتا۔
یہودیوں جبرائیل علیہ السلام سے بغض رکھتے ہیں کہ انہوں نے نور الاسلام نورالقرآن نورالایمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کیوں لے گئے
اسی طرح اکثر اہل تشعی کی شاعری میں نظموں میں اسی طرح کی باتیں ہوتی ہیں کہ نعوذو باللہ ،،، جبرائیل علیہ السلام نے ایمان کا پیغام لائے تو دیکھا کہ
سب کے سب یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یعنی فاطمہ رض کے گھر پر سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں وہ سوچ میں پڑ گئے کہ ایمان کس کو دینی ہے
ان لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ سارے انبیاء علیہ السلام کو نورالایمان جبرائیل السلام نے پہنچایا۔ اور فرشتے معصوم ہوتے ہیں ان میں وہ نفس ہے ہی نہیں جس سے وہ فیصلہ کرے اور سوچے۔ اللہ کا حکم بس بجالانا ہے۔ اور ان گمراہوں کو کون سمجھائے جب نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ظاہر ہوئی تھی
اس وقت علی رضی اللہ عنہا پیدا بھی نہیں ہوئے تھے اور جب 40 سال کی عمر میں نبوت ملی تو اس وقت علی رضی اللہ عنہ چھوٹے لڑکے ابی طالب کے تھے
جب بھی خلفائے اسلام اول ، دوئم اور سوئم ہوئے علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ بیعت کی، خود حسن حسین رضی اللہ عنہما عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مخافظ تھے اور وہ دونوں سامنے والے دروازے پر معمور تھے
عراق سنیوں سے لے کر شیعہ کے حوالے کردیا گیا
لیبیا بھی اسی طرح ہوگیا، شیعی حکومت و رٹ قائم ہوگئ
حج میں آپ لوگوں نے کبھی سنا کے مینا سے مکہ جاتے ہوئے مسلمان لبیک یا حسین کہے لیکن رافضیوں نے یہ کہا اس کی بھی یوٹیوب میں ویڈیوں موجود ہے
جب کہ حج تو شروع ہی ہوتا ہے لبیک الھم لبیک لبیک لاشریک لک لبیک سے،
جب اللہ کے ساتھ یہ لوگ ایسا سلوک کرسکتے ہیں تو ہم مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا نہیں کرسکتے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سانحہ-تعلیم-القرآن-راولپنڈی-،-آج-نیوز-چینل-کا-خصوصی-پروگرام.69428/page-2
انتھی

پیارے بھائی مفت میں اتنی محنت کی لکھنے پر ۔ اپنی پوسٹ میں اس آدمی کا صرف نام لکھ دیتے جس کی ویڈیو لگائی تو بھی آپ کا مطمع نظر سب لوگ سمجھ جاتے۔
 

ظفری

لائبریرین
آپ نے اچھا سوال اٹھایا ہے اور آپ کا انداز بھی اچھا ہے ورنہ میں ایسے مباحثوں میں نہیں پڑتا۔

2- جہاں تک لالچ کی بات آتی ہے تو ایک واقعہ فدک کا ہے جب رسول اللہ (ص) کی بیٹی باغِ فدک میں اپنا حصہ، جو حضور(ص) نے ان کو دیا تھا، حضرت ابوبکر سے مانگنے جاتی ہیں اور ان کو واپس لوٹایا جاتا ہے۔(تفصیلات سے مجھے سروکار نہیں کہ وہ سب کتابوں میں درج ہیں) لیکن صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق حضرت فاطمہ(س) وفات کے وقت تک حضرت ابوبکر سے ناراض رہتی ہیں۔ اس سے ہم کیا نتیجہ اخذ کریں؟ یا تو حضرت فاطمہ اس لئے ناراض تھیں کہ باغات ان کو نا ملے یعنی ایک طرح سے دنیاوی مال کے نہ ملنے کی وجہ سے ناراض تھیں؟ ایسا تو کم از کم خاتونِ جنت کے بارے میں نہیں کہا جا سکتا ہے۔ تو ظاہری بات ہے کہ ان کی ناراضگی کی وجہ کوئی اور تھی۔ اور وہ وجہ یہی تھی کہ ان کو ان کے جائز حق سے محروم رکھا گیا۔
ایک مشہور حدیث ہے (مفہوم) کہ جس نے وقت کے امام کو نہیں پہچانا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ تو حضرت فاطمہ(س) کی وفات کے وقت حضرت ابوبکر خلیفہ تھے لیکن وہ ان سے ناراض تھیں- تو کیا حضرت فاطمہ نے اپنے وقت کے امام کو پہچانا تھا؟ اور اگر وہ امام حضرت ابوبکر ہی تھے تو ان سے ناراض کیسے ہو سکتی تھیں؟

میری حتی المکان کوشش ہوتی ہے کہ میں مسلکی اختلافات ، نظریات اور عقائد جیسے موضوعات پر گفتگو کرنےسے پرہیز کروں ۔ کیونکہ ہماری بحیثیتِ مجموعی گفتگو کی تربیت ہی نہیں ہوئی ۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ تبادلہ خیالات کیسے ہوتا ہے ؟۔ اختلافات کیسے کیئے جاتے ہیں ؟۔ شائستہ اور مذہب لوگ کس طرح اختلافات رکھنے کے باوجود اچھے سماجی تعلقات رکھ سکتے ہیں ؟۔ آپ کسی کی غلطی واضع کرنے کے باوجود کیسے اس احساس میں ہوسکتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ میں ہی شاید غلطی پر ہوں ؟۔ کیونکہ جب تک آپ اس مقام پر کھڑے نہ ہوں ، گفتگو نہیں ہوسکتی ۔ ہمارا رحجان یہ ہے کہ یہاں ہر آدمی پیغمبر ہے ۔ براہِ راست وحی سے مستفید ہوتا ہے ۔ اور جو رائے اس نے قائم کرلی ہے۔ وہ حتمی ہے اور اس میں غلطی کے امکان کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ وہ " امکان" کو ہی ماننے کے لیئے تیار نہیں ہوتا ۔ اس صورتحال میں گفتگو نہیں ہو سکتی ۔ میرا تجربہ ہے کہ اس صورتحال کے برعکس اگر ، کہیں گفتگو کی نوبت اس طرح آگئی ( میں نوبت کا لفظ استعمال کررہا ہوں ) کہ فریق ، علمی دلائل اور استدلال کی بنیاد پر اس مقام پر کھڑے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کے نکتہِ نظر میں کہیں کمی ہو تو معلوم ہواکہ بہت بڑی غلط فہمیاں تھیں ۔ مگر وہ سب دور ہوگئیں ۔
اس پہلے میں مختلف مکتبِ فکر پر اپنی آراء عرصہ قبل سے دے چکا ہوں ۔حتی کہ اس میں قادیانی بھی شامل ہیں اور میرا نکتہ ِ نظر ان مراسلوں میں پوری طرح واضع ہے ۔ یہاں ایک روایت سی چل پڑی ہے کہ مسلکی اور فروعی اختلافات پر بے معنی بحث شروع ہوگئی ہے ۔ اور اختلافات کی نوعیت کیا ہے اس کا ذکر میں پچھلی سطروں میں کرچکا ہوں ۔
مگر سید ذیشان بھائی کے اس مراسلے سے مجھے تقویت پہنچی کہ میں بھی انہی کے انداز میں بلکل اسی طرح اپنا نکتہ ِ نظر وضع کرسکوں ۔ جس طرح انہوں نے ابن رضا کے مراسلے کے جواب میں اختیار کیا کہ دونوں طرف سے علمی بنیادوں پر استدلال سامنے آیا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے ان کے مراسلے کا اقتباس لیا ۔ اس لمبی تہمید کے بعد وقت کی قلت کی وجہ سے صرف ایک اختلاف پر توجہ مرکوز کررہا ہوں ۔ ان شاءاللہ باقی اختلافات یا اعتراضات پر جلد ہی تفصیل سےلکھنے کی کوشش کروں گا ۔

2 -حضرت ابوبکر کے دورِ خلافت میں باغِ فدٰق کا مسئلہ سامنے آیا اور انہوں نے اپنا نکتہ نظر اس بارے میں پیش کردیا ۔ اور وہ نکتہِ نظر قرآن کے عین مطابق تھا ۔اور قرآن نے خود اس مسئلے کو بیان کیا ہے کہ خیبر کے جتنے بھی باغات ہیں ۔ ان کا ایک "حصہ " نبی کریم ﷺکے اپنے اخراجات ، آپ کے گھر کے اخراجات اور تیسرا حصہ ان لوگوں کے لیئے مختص تھا ۔ جن سے آپ کو ان کی مدد کرنا مقصود ہوتی تھی ۔ یعنی حضور کی ذاتی ضروریات کے لیئے" یہ حصہ"مختص تھا ۔نبی کریم ﷺ جس منصب پر فائز تھے ۔ اس کے لحاظ سے یہ ضرورت پوری کی جاتی تھی ۔ اس میں‌یہ بھی کہا گیا کہ اس سے آپ اپنے عزیز و اقارب کی بھی ضروریات پوری کرسکتے ہیں‌۔ اس نیتجے میں آپ کے عزیز و اقارب کو بھی حصہ مل جاتا تھا ۔ نبی کریم ﷺ کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ یہ باغ اب کس کی ملکیت ہے ۔ اس بارے میں پھر سیدنا ابوبکر صدیق نے فیصلہ کیا کہ یہ کسی کی ملکیت نہیں ہے ۔ ان کا نکتہِ نظر یہ تھا کہ یہ باغ نبی کریم ﷺ اور ان کے خاندان کی ضرورتوں کے لیئے وقف کیا گیا تھا ۔ مگر نبی کریم ﷺ کے بعد اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس باغ سے نبی کریم ﷺ کے خاندان کی ضرورتیں‌پوری ہوتیں تھیں ۔ بلکل اُسی طرح وہ ضرورتیں اب ریاست پوری کریگی ۔
اس میں کسی کو حق سے محروم کرنا کسی بھی لحاظ سے مقصود نہیں تھا ۔ بلکہ اور اس معاملے کو اس طرح بھی سُلجھا دیا جاسکتا تھا کہ اس معاملے میں جو فصل حاصل کی جاتی ہے وہ ریاست ان کو دیدے ۔ یا پھر اس سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ ان کو دیدی جاتی ۔ یا پھر یہ باغ ہی ان کو سپرد کردیا جاتا کہ آپ خود ہی اس میں سے اپنے اخراجات پورے کرلیں ۔ اس طریقے کو اختیار کرنے میں بھی کسی کو تررد نہیں تھا ۔ میں بھی سیدذیشان کی طرح تفصیل میں‌جانا نہیں چاہتا مگر قصہ یوں تھاکہ خاندان کے کچھ افراد میں اس معاملے میں اختلافات پیدا ہوگئے ۔ اور پھر وہ اختلافات ہی اس فیصلے کی بنیاد بنے کی ریاست ہی اس معاملے کو اپنے پاس رکھ لے ۔ حضرت عمر نے اپنے دور میں محسوس کیا کہ اب وہ بزرگ حیات نہیں رہے جو اس معاملے میں اختلاف کرسکیں تو انہوں نے ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ یہ کسی سے میراث چھینے اور نہ ہی کسی کو میراث دینے کا معاملہ تھا ۔ بلکہ ایک انتظامی فیصلہ تھا ۔ جس میں انہوں نے انتظام اور بندوسبت کے لحاظ سے رائے قائم کی ۔
سید ذیشان نے صیح بخاری کی جس روایت کو کوٹ کیا ہے ۔ مسئلہ اسی سے پیدا ہوتا ہے کہ ایسا معاملہ ہوا تھا ۔یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض رہیں ۔ مگر ایک دوسری روایت جو صیح بخاری میں موجود ہے ۔ اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خاندانوں میں اختلافات کی نوعیت کیا تھی اور پھر حضرت ابوبکر کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ باغَ فدٰق ریاست اپنے پاس رکھ لے ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ چند بڑے فقہاء اور عالمِ کرام کے مطابق ، قرآن ، احادیث اور جلیل القدر کُتب ِشیعہ سے تحقیق کے بعد جو رائے سامنے آئی ہے اس کے مطابق مسئلہ فدق پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہا سے کاملً راضی ہوگئیں تھیں ۔ اور سیدنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اللہ کو گواہ بناکر اپنے راضی ہونے کا اعلان بھی کردیا تھا ۔ بلکل اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی نے بھی اللہ کو گواہ بنا کر حلفاً نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق عمر بھر فدق کے مال کی تقسیم کا وعدہ کرلیا تھا ۔ اور یہ سلسلہ تقریباً تیس سال تک خلفائے راشدین کے دور میں بشمول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ تک جاری رہا ۔
اس پر اگر کسی کو دلائل اور ثبوت درکار ہوں تو کسی اور نشت میں دینے کی کوشش کروں گا ۔
 
آخری تدوین:
Top