سانحہ تعلیم القرآن راولپنڈی ، آج نیوز چینل کا خصوصی پروگرام

ابن رضا

لائبریرین
شکریہ ابن رضا بھائی۔ دوسری روایت کا ترجمہ بھی لگا دیں تو بہت ممنون ہونگا۔ :)

جی محترم صحیح مسلم کی جس روایت کا آپ نے حوالہ دیا اس کی اردو یہ ہے

صحیح مسلم
سیر و سیاحت اور لشکر کشی
باب: مال ”فے“ کیسے تقسیم ہو گا جب کہ لڑائی کی نوبت نہ آئی ہو۔
حدیث نمبر : 1148
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مالوں میں سے اپنا ترکہ مانگنے کو بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اور فدک میں دئیے تھے اور جو کچھ خیبر کے خمس میں سے بچتا تھا، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اسی مال میں سے کھائے گی اور میں تو اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کو اس حال سے کچھ بھی نہیں بدلوں گا جس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ غرضیکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کیا، تو سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو غصہ آیا اور انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی۔ (نووی علیہ الرحمۃ نے کہا کہ یہ ترک ملاقات وہ نہیں جو شرع میں حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے)۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں (بعض نے کہا کہ آٹھ مہینے یا تین مہینے یا دو مہینے یا ستر دن بہرحال رمضان کی تین تاریخ 11 ہجری کو انہوں نے انتقال کیا) جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو) اور ان پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اور جب تک سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اس وقت تک لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے (بوجہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے) محبت کرتے تھے، جب وہ انتقال کر گئیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ میری طرف سے پھر گئے ہیں، تب تو انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزر چکے تھے انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلایا اور یہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آئے کیونکہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم اکیلے ان کے نہ پاس جاؤ؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا کریں گے؟ اللہ کی قسم میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا (جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں) پھر کہا کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! ہم نے آپ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو دیا (یعنی خلافت) پہچان لیا ہے۔ اور ہم اس نعمت پر رشک نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی (یعنی خلافت اور حکومت)، لیکن آپ نے اکیلے اکیلے یہ کام کر لیا؟ اور ہم سمجھتے تھے کہ اس میں ہمارا بھی حق ہے کیونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت رکھتے تھے۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے برابر باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی، تو کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ مجھے اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت (یعنی فدک اور نضیر اور خمس خیبر وغیرہ کا) اختلاف ہوا، تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا اور میں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے وہی کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اچھا آج دوپہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے، تو منبر پر چڑھے اور خطبہ پڑھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر سے بیعت کرنا اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا؟ وہ بھی کہا اور پھر مغفرت کی دعا کی۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر سے بیعت کرنا اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رشک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے، بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت کے معاملہ میں ہمارا بھی حصہ ہے جو کہ اکیلے اکیلے بغیر صلاح کے یہ کام کر لیا گیا، اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے جب انہوں نے صحیح معاملہ اختیار کیا مسلمان پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل ہوئے۔
 

سید ذیشان

محفلین
میری حتی المکان کوشش ہوتی ہے کہ میں مسلکی اختلافات ، نظریات اور عقائد جیسے موضوعات پر گفتگو کرنےسے پرہیز کروں ۔ کیونکہ ہماری بحیثیتِ مجموعی گفتگو کی تربیت ہی نہیں ہوئی ۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ تبادلہ خیالات کیسے ہوتا ہے ؟۔ اختلافات کیسے کیئے جاتے ہیں ؟۔ شائستہ اور مذہب لوگ کس طرح اختلافات رکھنے کے باوجود اچھے سماجی تعلقات رکھ سکتے ہیں ؟۔ آپ کسی کی غلطی واضع کرنے کے باوجود کیسے اس احساس میں ہوسکتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ میں ہی شاید غلطی پر ہوں ؟۔ کیونکہ جب تک آپ اس مقام پر کھڑے نہ ہوں ، گفتگو نہیں ہوسکتی ۔ ہمارا رحجان یہ ہے کہ یہاں ہر آدمی پیغمبر ہے ۔ براہِ راست وحی سے مستفید ہوتا ہے ۔ اور جو رائے اس نے قائم کرلی ہے۔ وہ حتمی ہے اور اس میں غلطی کے امکان کی گنجائش نہیں ہے ۔ بلکہ وہ " امکان" کو ہی ماننے کے لیئے تیار نہیں ہوتا ۔ اس صورتحال میں گفتگو نہیں ہو سکتی ۔ میرا تجربہ ہے کہ اس صورتحال کے برعکس اگر ، کہیں گفتگو کی نوبت اس طرح آگئی ( میں نوبت کا لفظ استعمال کررہا ہوں ) کہ فریق ، علمی دلائل اور استدلال کی بنیاد پر اس مقام پر کھڑے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ان کے نکتہِ نظر میں کہیں کمی ہو تو معلوم ہواکہ بہت بڑی غلط فہمیاں تھیں ۔ مگر وہ سب دور ہوگئیں ۔
اس پہلے میں مختلف مکتبِ فکر پر اپنی آراء عرصہ قبل سے دے چکا ہوں ۔حتی کہ اس میں قادیانی بھی شامل ہیں اور میرا نکتہ ِ نظر ان مراسلوں میں پوری طرح واضع ہے ۔ یہاں ایک روایت سی چل پڑی ہے کہ مسلکی اور فروعی اختلافات پر بے معنی بحث شروع ہوگئی ہے ۔ اور اختلافات کی نوعیت کیا ہے اس کا ذکر میں پچھلی سطروں میں کرچکا ہوں ۔
مگر سید ذیشان بھائی کے اس مراسلے سے مجھے تقویت پہنچی کہ میں بھی انہی کے انداز میں بلکل اسی طرح اپنا نکتہ ِ نظر وضع کرسکوں ۔ جس طرح انہوں نے ابن رضا کے مراسلے کے جواب میں اختیار کیا کہ دونوں طرف سے علمی بنیادوں پر استدلال سامنے آیا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے ان کے مراسلے کا اقتباس لیا ۔ اس لمبی تہمید کے بعد وقت کی قلت کی وجہ سے صرف ایک اختلاف پر توجہ مرکوز کررہا ہوں ۔ ان شاءاللہ باقی اختلافات یا اعتراضات پر جلد ہی تفصیل سےلکھنے کی کوشش کروں گا ۔

2 -حضرت ابوبکر کے دورِ خلافت میں باغِ فدٰق کا مسئلہ سامنے آیا اور انہوں نے اپنا نکتہ نظر اس بارے میں پیش کردیا ۔ اور وہ نکتہِ نظر قرآن کے عین مطابق تھا ۔اور قرآن نے خود اس مسئلے کو بیان کیا ہے کہ خیبر کے جتنے بھی باغات ہیں ۔ ان کا ایک "حصہ " نبی کریم ﷺکے اپنے اخراجات ، آپ کے گھر کے اخراجات اور تیسرا حصہ ان لوگوں کے لیئے مختص تھا ۔ جن سے آپ کو ان کی مدد کرنا مقصود ہوتی تھی ۔ یعنی حضور کی ذاتی ضروریات کے لیئے" یہ حصہ"مختص تھا ۔نبی کریم ﷺ جس منصب پر فائز تھے ۔ اس کے لحاظ سے یہ ضرورت پوری کی جاتی تھی ۔ اس میں‌یہ بھی کہا گیا کہ اس سے آپ اپنے عزیز و اقارب کی بھی ضروریات پوری کرسکتے ہیں‌۔ اس نیتجے میں آپ کے عزیز و اقارب کو بھی حصہ مل جاتا تھا ۔ نبی کریم ﷺ کے بعد یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ یہ باغ اب کس کی ملکیت ہے ۔ اس بارے میں پھر سیدنا ابوبکر صدیق نے فیصلہ کیا کہ یہ کسی کی ملکیت نہیں ہے ۔ ان کا نکتہِ نظر یہ تھا کہ یہ باغ نبی کریم ﷺ اور ان کے خاندان کی ضرورتوں کے لیئے وقف کیا گیا تھا ۔ مگر نبی کریم ﷺ کے بعد اب یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح اس باغ سے نبی کریم ﷺ کے خاندان کی ضرورتیں‌پوری ہوتیں تھیں ۔ بلکل اُسی طرح وہ ضرورتیں اب ریاست پوری کریگی ۔
اس میں کسی کو حق سے محروم کرنا کسی بھی لحاظ سے مقصود نہیں تھا ۔ بلکہ اور اس معاملے کو اس طرح بھی سُلجھا دیا جاسکتا تھا کہ اس معاملے میں جو فصل حاصل کی جاتی ہے وہ ریاست ان کو دیدے ۔ یا پھر اس سے جو آمدنی ہوتی ہے وہ ان کو دیدی جاتی ۔ یا پھر یہ باغ ہی ان کو سپرد کردیا جاتا کہ آپ خود ہی اس میں سے اپنے اخراجات پورے کرلیں ۔ اس طریقے کو اختیار کرنے میں بھی کسی کو تررد نہیں تھا ۔ میں بھی سیدذیشان کی طرح تفصیل میں‌جانا نہیں چاہتا مگر قصہ یوں تھاکہ خاندان کے کچھ افراد میں اس معاملے میں اختلافات پیدا ہوگئے ۔ اور پھر وہ اختلافات ہی اس فیصلے کی بنیاد بنے کی ریاست ہی اس معاملے کو اپنے پاس رکھ لے ۔ حضرت عمر نے اپنے دور میں محسوس کیا کہ اب وہ بزرگ حیات نہیں رہے جو اس معاملے میں اختلاف کرسکیں تو انہوں نے ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ یہ کسی سے میراث چھینے اور نہ ہی کسی کو میراث دینے کا معاملہ تھا ۔ بلکہ ایک انتظامی فیصلہ تھا ۔ جس میں انہوں نے انتظام اور بندوسبت کے لحاظ سے رائے قائم کی ۔
سید ذیشان نے صیح بخاری کی جس روایت کو کوٹ کیا ہے ۔ مسئلہ اسی سے پیدا ہوتا ہے کہ ایسا معاملہ ہوا تھا ۔یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ناراض رہیں ۔ مگر ایک دوسری روایت جو صیح بخاری میں موجود ہے ۔ اگر اس کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خاندانوں میں اختلافات کی نوعیت کیا تھی اور پھر حضرت ابوبکر کو یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ باغَ فدٰق ریاست اپنے پاس رکھ لے ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلوں کہ چند بڑے فقہاء اور عالمِ کرام کے مطابق ، قرآن ، احادیث اور جلیل القدر کُتب ِشیعہ سے تحقیق کے بعد جو رائے سامنے آئی ہے اس کے مطابق مسئلہ فدق پر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہا سے کاملً راضی ہوگئیں تھیں ۔ اور سیدنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اللہ کو گواہ بناکر اپنے راضی ہونے کا اعلان بھی کردیا تھا ۔ بلکل اسی طرح حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی نے بھی اللہ کو گواہ بنا کر حلفاً نبی کریم ﷺ کے طریقے کے مطابق عمر بھر فدق کے مال کی تقسیم کا وعدہ کرلیا تھا ۔ اور یہ سلسلہ تقریباً تیس سال تک خلفائے راشدین کے دور میں بشمول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ تک جاری رہا ۔
اس پر اگر کسی کو دلائل اور ثبوت درکار ہوں تو کسی اور نشت میں دینے کی کوشش کروں گا ۔

بہت اچھے انداز میں آپ نے اپنا مدعا پیش کیا۔ فدک کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر سیدہ فاطمہ (س) راضی تھیں تو ان کو رات کے اندھیرے میں دفن کرنے کی اور حضرت ابوبکر کو نہ بلانے کو کوئی وجہ نہیں تھی۔

باقی اس معاملے پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اگر کوئی اس واقعے میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ کتابیں پڑھ لے۔ میں نے اپنا مراسلہ اس لئے لکھا کہ آج کل بہت systematic طریقے سے اہل تشیع کے خلاف کیمپین جاری ہے جس میں طرح طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں۔ تو یہ ضروری تھا کہ میں اپنا نقطہ نظر اچھے طریقے سے واضح کروں۔ اگر کسی کا دل دکھا ہو تو اس کے لئے معذرت۔ اب میں اس معاملے میں اور لکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اگر کوئی مزید شیعہ نقطہ نظر جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس انگریزی کتاب کا مطالعہ کرے۔

جہاں تک گرائیں بھائی کی بات ہے کہ اختلافات اس حد تک ہیں کہ یہ دو مختلف دین بن جاتے ہیں نا کہ فرقے تو اس سے میں شدید اختلاف کرتا ہوں۔ ہم سب مسلمان ہیں اور اختلافات اس حد تک نہیں ہیں کہ اس طرح کی باتیں کی جائیں۔ ہاں اگر اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں تب تو دو بھائی بھی ایکدوسرے کا خون کر بیٹھتے ہیں۔ میرے لئے اہل سنت میرے بھائیوں کی طرح، بلکہ ان سے بڑھ کر ہیں، اور میں ان کو جنت کا حق دار سمجھتا ہوں۔ باقی ہر کسی کو میری رائے سے اختلاف کا حق ہے۔

واسلام
 

ظفری

لائبریرین
بہت اچھے انداز میں آپ نے اپنا مدعا پیش کیا۔ فدک کے بارے میں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر سیدہ فاطمہ (س) راضی تھیں تو ان کو رات کے اندھیرے میں دفن کرنے کی اور حضرت ابوبکر کو نہ بلانے کو کوئی وجہ نہیں تھی۔
شکریہ کہ آپ نے میرے مراسلے کا خیر مقدم کیا ۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ صرف میرانقطہ ءنظر ہے ۔ اور یہ نقطہ ء نظر ِ خیر میرا سیکڑوں کتابیں تو پڑھ کر نہیں البتہ دونوں اطراف سے ذمہ دار اور اعلیٰ پائے کے علمہِ کرام کی رائے کے بعد قائم ہوا ہے ۔ میرا غیر ضروری بحث میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں کہ آپ نے اپنا نقطہ ء نظر پہلے مراسلے ہی میں وضع کردیا تھا ۔ میں نے اپنی طرف سے حق بجانب سمجھا کہ میں بھی اپنا حق استعمال کرلوں ۔ باقی آپ کی آخری سطر آپ کے نقطہ ِ نظر کی انتہا کو ظاہر کررہی ہے کہ آپ اس سے آگے جانا نہیں چاہتے اور نہ ہی میں چاہتا ہوں کہ بحث کوروایتی انداز سے آگے بڑھا جائے ۔ کیونکہ میں نے گفتگو یا بحث کی شرائط کو کو اپنے پہلے مراسلے میں تمہید کے طور پر پیش کردیا تھا ۔
باقی اس معاملے پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اگر کوئی اس واقعے میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ کتابیں پڑھ لے۔ میں نے اپنا مراسلہ اس لئے لکھا کہ آج کل بہت systematic طریقے سے اہل تشیع کے خلاف کیمپین جاری ہے جس میں طرح طرح کی باتیں کہی جاتی ہیں۔ تو یہ ضروری تھا کہ میں اپنا نقطہ نظر اچھے طریقے سے واضح کروں۔ اگر کسی کا دل دکھا ہو تو اس کے لئے معذرت۔ اب میں اس معاملے میں اور لکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اگر کوئی مزید شیعہ نقطہ نظر جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے تو اس انگریزی کتاب کا مطالعہ کرے۔
آپ اس طرح لکھنے سے کسی کا دل نہیں دُکھا ۔ بلکہ آپ نے احسن طریقے سے اپنا مدعا بیان کیا ۔مگر ایک معاملے میں مختلف آراء ہیں اور اس پر گفتگو ہو تو فطری طور پر مختلف آراء بھی سامنے آئیں گی ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کو علمی انداز اور دلائل و ثبوت کیساتھ پیش کرنا چاہیئے کہ بات صرف عقائد تک محدود نہیں رہے بلکہ وہ حقیقت بھی تاریخ کیساتھ واضع ہو کہ عقائد کی وجوہ کیا ہیں ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ ایسی ابحاث سے پرہیز ہی کرنا چاہئے جہاں دلائل یا استدلال سے زیادہ جذبات موجود ہوں ۔( خواہ اس کا رحجان کسی بھی جانب سے ہو ) ۔ آپ نے تفصیل کیساتھ تمام نکات پر لکھا ہے ۔ میں نے بھی اسی انداز کو اپناتے ہوئے ایک نکتہ کو لیکر بحث میں حصہ لینے کی کوشش کی ۔ باقی اس میں کوئی شک نہیں کہ میں کچھ عرصہ سے اس مہم کو دیکھ رہا ہوں کہ اہلِ تشیع کے خلاف اس قسم کی باتیں کی جا رہیں ہیں ۔ اور میں اس کے سخت خلاف ہوں۔ اس بارے میں کسی اور دھاگہ پر میں اپنا نقطہ ء نظر بھی پیش کرچکا ہوں ۔ عموماً درمیانے درجے کی سُنی ویب سائیٹ پر لوگ اس قسم کا مواد وہاں پیش کرتے ہیں ۔ اور پھر وہ وہاں سے لاکر یہاں ڈمپ کردیتے ہیں ۔ اور یہی حال میں نے کچھ اہلِ تشیع کی سائیٹ پر بھی دیکھا ہے ۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ یہاں ایسا نہیں ہوتا ۔ جب تک لوگ علمی بحث جاری رکھتے ہیں دھاگہ کھلا رہتا ہے اس کے بعد اگر لوگ اس دائرے سے باہر آتے ہیں تو دھاگہ مقفل کردیا جاتا ہے ۔ اور کبھی کبھی تو لوگوں کو معطل کرنے کی بھی نوبت آجاتی ہے ۔ چونکہ آپ بہت حد تک قلبی طور پر اپنےنکات سے بہت قریب ہیں تو میرا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں آپ کےنقطہ ء نظرکو باری باری لیکر ان پر اپنےنقطہ ء نظرکی آڑ میں تنقید کروں ۔
جہاں تک گرائیں بھائی کی بات ہے کہ اختلافات اس حد تک ہیں کہ یہ دو مختلف دین بن جاتے ہیں نا کہ فرقے تو اس سے میں شدید اختلاف کرتا ہوں۔ ہم سب مسلمان ہیں اور اختلافات اس حد تک نہیں ہیں کہ اس طرح کی باتیں کی جائیں۔ ہاں اگر اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں تب تو دو بھائی بھی ایکدوسرے کا خون کر بیٹھتے ہیں۔ میرے لئے اہل سنت میرے بھائیوں کی طرح، بلکہ ان سے بڑھ کر ہیں، اور میں ان کو جنت کا حق دار سمجھتا ہوں۔ باقی ہر کسی کو میری رائے سے اختلاف کا حق ہے۔

واسلام
اس فکر کے میں بھی خلاف ہوں ۔میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ وہ تمام نکات جس پر آپ نے اپنی رائے دی ۔ اس کا تعلق ایمانیات سے نہیں بنتا ۔ وہ ایک الگ مسئلہ ہے ۔ اسے آپ کوئی بھی نام دے سکتے ہیں ۔ مگر اس کی بنیاد پر جنت اور دوزخ کا فیصلہ نہیں ہوگا ۔ یعنی ان اختلافا ت سے آپ ایک نیا دین نہیں بنا سکتے ۔
 
آخری تدوین:

ظفری

لائبریرین
ظفری بھائی، آپ اپنا سلسلہ جاری رکھیں۔ انسان کو ہر وقت سیکھتے رہنا چاہیے۔ :)
دراصل آپ سے ایک اچھی انڈراسٹینڈنگ کی بنیاد پر ہی میں نے یہاں کچھ لکھنے کی جسارت کی ۔ اور آپ دیکھیں کہ صرف آپ کے ہی مراسلے کو اقتباس کے طور پر استعمال کیا ۔لیکن میں سمجھتا ہوں نقطہ ء نظر بڑی حد تک واضع ہونے کے باوجود دونوں فریق ( خواہ کوئی بھی ہو ) کسی بھی وجہ سے بات ماننے کو تیار نہیں تو پھر ایسے موضوعات کو لیکر کیوں ایک دوسرے کی دل شکنی اور عقائد کو ٹھیس پہنچائی جائے ۔ میرا خیال ہے مجھے یہ سلسلہ یہیں موقوف کردینا چاہیئے ۔ :)
 
آخری تدوین:

ابن رضا

لائبریرین
دراصل آپ سے ایک اچھی انڈراسٹینڈنگ کی بنیاد پر ہی میں نے یہاں کچھ لکھنے کی جسارت کی ۔ اور آپ دیکھیں کہ صرف آپ کے ہی مراسلے کو اقتباس کے طور پر استعمال کیا ۔لیکن میں سمجھتا ہوں نکتہِ نظر بڑی حد تک واضع ہونے کے باوجود دونوں فریق ( خواہ کوئی بھی ہو ) کسی بھی وجہ سے بات ماننے کو تیار نہیں تو پھر ایسے موضوعات کو لیکر کیوں ایک دوسرے کی دل شکنی اور عقائد کو ٹھیس پہنچائی جائے ۔ میرا خیال ہے مجھے یہ سلسلہ یہیں موقوف کردینا چاہیئے ۔ :)
اور ظفری بھائی میں حسبِ معمول اردو سے قلبی میلان رکھنے کے سبب کچھ املاء کی اغلاط کی نشاندہی کرنا بھی فرض سمجھتا ہوں بصد معذرت و احترام

واضع ، واضح
ایک نکات، ایک نکتہ
نکتہ نظر ، نقطہ ء نظر
 

ظفری

لائبریرین
اور ظفری بھائی میں حسبِ معمول اردو سے قلبی میلان رکھنے کے سبب کچھ املاء کی اغلاط کی نشاندہی کرنا بھی فرض سمجھتا ہوں بصد معذرت و احترام

واضع ، واضح
ایک نکات، ایک نکتہ
نکتہ نظر ، نقطہ ء نظر
شکریہ ابن رضا بھائی ۔ میری اس غلطی پر مجھے بارہا جھاڑ پڑچکی ہے ۔ میری کئی تصانیف اس وجہ سے التواء میں پڑی ہوئیں ہیں ۔ ( مذاق ) ۔
میرا خیال ہے کہ میرا تدوین کا آپشن ابھی تک متحرک ہے ۔ میں ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ ایک بار پھر شکریہ ۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
ابن رضا بھائی ایک بات سمجھائیں کہ نکتہ اور نقطہ کے مابین کیا فرق ہے ۔ مہربانی ہوگی ۔ پردیس میں رہ کر تو میں اپنی اردو سے بھی گیا ۔ :)
بطورطالب علم میری رائے میں:
نقطہ بنیادی طور پر ایک مرکز، ایک محور یا خط کی انتہا یا centren of a circle کو کہا جاتا ہے۔
اور نکتہ ایک لطیف بات یا ایسی باریکی کو کہا جاتا ہے جسے ہر کوئی نہ سمجھ سکے بلکہ غور سے مشاہدہ کرنے پر ادراک حاصل ہو سکے۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
عراق کے شہر بغداد میں سنیوں کے قتل عام کے بعد علماؤں نے فیصلہ کیا کہ مسجدیں اس وقت تک کے لئے بند کردی جائیں جب تک حالات ٹھیک نہ ہوجاتے
اور انہوں نے اپنی تقریر میں موسی علیہ السلام کے زمانے کی مثال دی ہے کوئی اچھی عربی جاننے والا اس خطبے کا ترجمہ اس لڑی میں
پیش کرے ، جزاک اللہ
http://www.dailymotion.com/video/x18knph
 
Top