ابن رضا
لائبریرین
شکریہ ابن رضا بھائی۔ دوسری روایت کا ترجمہ بھی لگا دیں تو بہت ممنون ہونگا۔
جی محترم صحیح مسلم کی جس روایت کا آپ نے حوالہ دیا اس کی اردو یہ ہے
صحیح مسلم
سیر و سیاحت اور لشکر کشی
باب: مال ”فے“ کیسے تقسیم ہو گا جب کہ لڑائی کی نوبت نہ آئی ہو۔
حدیث نمبر : 1148
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مالوں میں سے اپنا ترکہ مانگنے کو بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اور فدک میں دئیے تھے اور جو کچھ خیبر کے خمس میں سے بچتا تھا، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اسی مال میں سے کھائے گی اور میں تو اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کو اس حال سے کچھ بھی نہیں بدلوں گا جس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ غرضیکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کیا، تو سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو غصہ آیا اور انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی۔ (نووی علیہ الرحمۃ نے کہا کہ یہ ترک ملاقات وہ نہیں جو شرع میں حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے)۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں (بعض نے کہا کہ آٹھ مہینے یا تین مہینے یا دو مہینے یا ستر دن بہرحال رمضان کی تین تاریخ 11 ہجری کو انہوں نے انتقال کیا) جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو) اور ان پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اور جب تک سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اس وقت تک لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے (بوجہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے) محبت کرتے تھے، جب وہ انتقال کر گئیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ میری طرف سے پھر گئے ہیں، تب تو انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزر چکے تھے انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلایا اور یہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آئے کیونکہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم اکیلے ان کے نہ پاس جاؤ؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا کریں گے؟ اللہ کی قسم میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا (جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں) پھر کہا کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! ہم نے آپ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو دیا (یعنی خلافت) پہچان لیا ہے۔ اور ہم اس نعمت پر رشک نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی (یعنی خلافت اور حکومت)، لیکن آپ نے اکیلے اکیلے یہ کام کر لیا؟ اور ہم سمجھتے تھے کہ اس میں ہمارا بھی حق ہے کیونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت رکھتے تھے۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے برابر باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی، تو کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ مجھے اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت (یعنی فدک اور نضیر اور خمس خیبر وغیرہ کا) اختلاف ہوا، تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا اور میں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے وہی کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اچھا آج دوپہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے، تو منبر پر چڑھے اور خطبہ پڑھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر سے بیعت کرنا اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا؟ وہ بھی کہا اور پھر مغفرت کی دعا کی۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر سے بیعت کرنا اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رشک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے، بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت کے معاملہ میں ہمارا بھی حصہ ہے جو کہ اکیلے اکیلے بغیر صلاح کے یہ کام کر لیا گیا، اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے جب انہوں نے صحیح معاملہ اختیار کیا مسلمان پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل ہوئے۔