پیپلزپارٹی نے ابھی تک بے نظیر شہادت کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی، سینیٹر صفدر عباسی
کراچی (ٹی وی رپورٹ) پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینیٹر صفدر عباسی نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ابھی تک بینظیر بھٹو کی شہادت کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی ہے۔ وہ جیو کے پروگرام میرے مطابق میں ڈاکٹر شاہد مسعود سے گفتگو کر رہے تھے۔ پروگرام میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اعتزاز احسن اور مسلم لیگ کے رہنما ایاز امیر بھی شریک تھے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ محترمہ آج زندہ ہوتیں تو افتخار چوہدری ضرور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ۔ جبکہ ایاز امیر کا کہنا تھا کہ محترمہ زندہ ہوتی تو کیا ہوتا یہ کہنا مشکل ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام میرے مطابق میں شہید بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستان اور نئے عالمی منظر نامے کے تناظر میں خطے میں کھیلے جانے والے امریکی کھیل کے حوالے سے ڈاکٹر شاہد مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو کے دیرینہ ساتھی سینیٹر صفدر عباسی کا کہنا تھا کہ محترمہ کی شہادت کے ایک سال بعد ان کی کمی اب بھی محسوس ہوتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایسی متحرک شخصیت کی صرف طبعی موجودگی کی ہی نہایت اہمیت تھی۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے آخری ڈھائی ماہ نہایت اہم اور تمام سیاسی زندگی کا نچوڑ تھے۔ 18 اکتوبر کو ان کی واپسی کے بعد انہوں نے جس طرح سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا قابل ستائش ہے،ان کی مشرف کے ساتھ جو بھی مفاہمت تھی وہ پاکستان میں صاف اور شفاف انتخابات کے حوالے سے تھی ان کا مطمعٴ نظر یہ تھا کہ ایک موقع ہمیں ملا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کی واپسی اسی طرح ممکن ہو گی۔افتخار چوہدری کی بحالی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا عوام سے وعدہ تھا ، ان کا خیال تھا کہ ایوان میں ان کے جانے تک اتنی اکثریت ہو جائے گی کہ اداروں کی بحالی ممکن ہو سکتی پارلیمنٹ کی بالا دستی بھی قائم ہو اور عدلیہ کو بھی آزادی ہو اور جسٹس افتخار چوہدری بھی بحال ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ محترمہ ہوتیں تو بھوربن اعلامیے پر ضرور عمل ہوتا۔محترمہ کی میثاق جمہوریت کی کمٹمنٹ پر عمل کے لیے پیپلز پارٹی کو سوچنا پڑے گا،محترمہ کے قتل کی سرکاری ایف آئی آر کٹی ہے جب کہ پارٹی کی طرف سے آج تک پارٹی یا ان کی فملی کی طرف سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔مجھے ایک ہی زخم یاد پڑتا ہے جس میں دماغ باہر نکلا ہوا تھا اور سر کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچا تھا، ڈاکٹر کی رپورٹ بھی جو سامنے آئی تھی یہی تھی۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر چوہدری اعتزاز احسن نے پروگرام ''میرے مطابق''میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ صفدر عباسی صاحب درست فرما رہے ہیں، ہوا یوں کہ 18اکتوبر کے سانحہ کی ایف آئی بھی ذرا مشترک ہے کیونکہ یہ ایف آئی آر محترمہ نے خود درج کرائی تھی ایک سندھ کی عبوری حکومت نے کرائی تھی اور ایک محترمہ نے جسمیں سردار لطیف کھوسہ صا حب نے انکی معاونت کی سانحہ کارساز کے180 شہدا کی ایف آئی آر کٹانے کے لیے محترمہ نے خود ایک درخواست دی اور سندھ حکومت کی جانب سے کرائی گئی ایف آئی آر کو رد کیا۔ سیشن جج نے اجازت دی کہ سانحہ18اکتوبر کی ایف آئی آر درج کی جائے محترمہ کے اپنے دستخط کے تحت ۔اس کے بعد حکومت ہائی کورٹ میں معاملہ لے گئی اور سیشن جج کے حکم کو ہائی کورٹ نے معطل کردیا، اسکے بعد پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت آگئی تو محترمہ کی اپنی حکومت بعد از شہادت تو پھر ایف آئی آر پر دیا جانے والا ہائی کورٹ کا حکم واپس لیا گیا۔ لیکن لیاقت باغ والے حادثے میں محترمہ خود شہید ہوئیں اس واقعے میں جہاں تک مجھے اطلاعات ملی تھیں کہ لیاقت باغ والے سانحہ پر روزنامچہ میں کچھ رپورٹس درج کی گئیں ہیں لیاقت باغ والے متعلقہ تھانے میں،میں تو 18اکتوبر کی کرائی گئی ایف آئی آر کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اس پر بہت حیران ہوتا ہوں، اگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو افتخار چوہدری ضرور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ،میری نگاہ میں محترمہ نے کبھی اپنی تحریری لفظ سے انکار نہیں کیا میں نے ان میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی کہ وہ وعدہ کریں اور پھر جائیں۔پروگرام میرے مطابق میں سینیئر صحافی ایاز امیر کا کہنا تھا کہ محترمہ ہوتیں تو کیا ہوتا یہ کہنا بہت مشکل ہے، ان کا تجربہ، ذہانت اور قابلیت ان کا انداز گفتگو وہ یقیناً جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں اس سے بہت مختلف ہوتا۔ زرداری صاحب اورمحترمہ میں ایک رشتہ ضرور تھا لیکن کہاں یہ اور کہاں وہ ، کم از کم یہ شرمندگیاں نہ ہوتیں جو ابھی دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کسی بیرونی وفود سے ملاقاتوں پر یہ پتہ نہیں چلتا کہ موجودہ قیادت کی جانب سے کس طرح کے الفاظ کی ادائیگی ہو گی، اس پورے جیوڈیشل ایشو اور افتخار چوہدری صاحب کے حوالے سے ان کا انداز مختلف تھا، انہوں نے دیکھا کہ ہوائیں کس طرف کی ہیں اور پھر چیف جسٹس صاحب کے گھر کے سامنے کہا کہ جھنڈا یہاں پر لہرایا جائے گا اور یہ بحال ہوں گے ۔جہاں تک آصف زرداری صاحب کا بھی تعلق ہے کہ مارچ اپریل تک تو ان کے رویے سے بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ اس چیز سے ہٹیں گے، زیادہ متحرک تو وہ لگ رہے تھے ظاہر اور باطن کی تبدیلی کا ہمیں بعد میں پتہ چلا۔
کراچی (ٹی وی رپورٹ) پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینیٹر صفدر عباسی نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ابھی تک بینظیر بھٹو کی شہادت کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی ہے۔ وہ جیو کے پروگرام میرے مطابق میں ڈاکٹر شاہد مسعود سے گفتگو کر رہے تھے۔ پروگرام میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اعتزاز احسن اور مسلم لیگ کے رہنما ایاز امیر بھی شریک تھے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ محترمہ آج زندہ ہوتیں تو افتخار چوہدری ضرور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ۔ جبکہ ایاز امیر کا کہنا تھا کہ محترمہ زندہ ہوتی تو کیا ہوتا یہ کہنا مشکل ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام میرے مطابق میں شہید بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستان اور نئے عالمی منظر نامے کے تناظر میں خطے میں کھیلے جانے والے امریکی کھیل کے حوالے سے ڈاکٹر شاہد مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو کے دیرینہ ساتھی سینیٹر صفدر عباسی کا کہنا تھا کہ محترمہ کی شہادت کے ایک سال بعد ان کی کمی اب بھی محسوس ہوتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایسی متحرک شخصیت کی صرف طبعی موجودگی کی ہی نہایت اہمیت تھی۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے آخری ڈھائی ماہ نہایت اہم اور تمام سیاسی زندگی کا نچوڑ تھے۔ 18 اکتوبر کو ان کی واپسی کے بعد انہوں نے جس طرح سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا قابل ستائش ہے،ان کی مشرف کے ساتھ جو بھی مفاہمت تھی وہ پاکستان میں صاف اور شفاف انتخابات کے حوالے سے تھی ان کا مطمعٴ نظر یہ تھا کہ ایک موقع ہمیں ملا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کی واپسی اسی طرح ممکن ہو گی۔افتخار چوہدری کی بحالی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا عوام سے وعدہ تھا ، ان کا خیال تھا کہ ایوان میں ان کے جانے تک اتنی اکثریت ہو جائے گی کہ اداروں کی بحالی ممکن ہو سکتی پارلیمنٹ کی بالا دستی بھی قائم ہو اور عدلیہ کو بھی آزادی ہو اور جسٹس افتخار چوہدری بھی بحال ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ محترمہ ہوتیں تو بھوربن اعلامیے پر ضرور عمل ہوتا۔محترمہ کی میثاق جمہوریت کی کمٹمنٹ پر عمل کے لیے پیپلز پارٹی کو سوچنا پڑے گا،محترمہ کے قتل کی سرکاری ایف آئی آر کٹی ہے جب کہ پارٹی کی طرف سے آج تک پارٹی یا ان کی فملی کی طرف سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔مجھے ایک ہی زخم یاد پڑتا ہے جس میں دماغ باہر نکلا ہوا تھا اور سر کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچا تھا، ڈاکٹر کی رپورٹ بھی جو سامنے آئی تھی یہی تھی۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر چوہدری اعتزاز احسن نے پروگرام ''میرے مطابق''میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ صفدر عباسی صاحب درست فرما رہے ہیں، ہوا یوں کہ 18اکتوبر کے سانحہ کی ایف آئی بھی ذرا مشترک ہے کیونکہ یہ ایف آئی آر محترمہ نے خود درج کرائی تھی ایک سندھ کی عبوری حکومت نے کرائی تھی اور ایک محترمہ نے جسمیں سردار لطیف کھوسہ صا حب نے انکی معاونت کی سانحہ کارساز کے180 شہدا کی ایف آئی آر کٹانے کے لیے محترمہ نے خود ایک درخواست دی اور سندھ حکومت کی جانب سے کرائی گئی ایف آئی آر کو رد کیا۔ سیشن جج نے اجازت دی کہ سانحہ18اکتوبر کی ایف آئی آر درج کی جائے محترمہ کے اپنے دستخط کے تحت ۔اس کے بعد حکومت ہائی کورٹ میں معاملہ لے گئی اور سیشن جج کے حکم کو ہائی کورٹ نے معطل کردیا، اسکے بعد پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت آگئی تو محترمہ کی اپنی حکومت بعد از شہادت تو پھر ایف آئی آر پر دیا جانے والا ہائی کورٹ کا حکم واپس لیا گیا۔ لیکن لیاقت باغ والے حادثے میں محترمہ خود شہید ہوئیں اس واقعے میں جہاں تک مجھے اطلاعات ملی تھیں کہ لیاقت باغ والے سانحہ پر روزنامچہ میں کچھ رپورٹس درج کی گئیں ہیں لیاقت باغ والے متعلقہ تھانے میں،میں تو 18اکتوبر کی کرائی گئی ایف آئی آر کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اس پر بہت حیران ہوتا ہوں، اگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو افتخار چوہدری ضرور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ،میری نگاہ میں محترمہ نے کبھی اپنی تحریری لفظ سے انکار نہیں کیا میں نے ان میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی کہ وہ وعدہ کریں اور پھر جائیں۔پروگرام میرے مطابق میں سینیئر صحافی ایاز امیر کا کہنا تھا کہ محترمہ ہوتیں تو کیا ہوتا یہ کہنا بہت مشکل ہے، ان کا تجربہ، ذہانت اور قابلیت ان کا انداز گفتگو وہ یقیناً جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں اس سے بہت مختلف ہوتا۔ زرداری صاحب اورمحترمہ میں ایک رشتہ ضرور تھا لیکن کہاں یہ اور کہاں وہ ، کم از کم یہ شرمندگیاں نہ ہوتیں جو ابھی دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کسی بیرونی وفود سے ملاقاتوں پر یہ پتہ نہیں چلتا کہ موجودہ قیادت کی جانب سے کس طرح کے الفاظ کی ادائیگی ہو گی، اس پورے جیوڈیشل ایشو اور افتخار چوہدری صاحب کے حوالے سے ان کا انداز مختلف تھا، انہوں نے دیکھا کہ ہوائیں کس طرف کی ہیں اور پھر چیف جسٹس صاحب کے گھر کے سامنے کہا کہ جھنڈا یہاں پر لہرایا جائے گا اور یہ بحال ہوں گے ۔جہاں تک آصف زرداری صاحب کا بھی تعلق ہے کہ مارچ اپریل تک تو ان کے رویے سے بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ اس چیز سے ہٹیں گے، زیادہ متحرک تو وہ لگ رہے تھے ظاہر اور باطن کی تبدیلی کا ہمیں بعد میں پتہ چلا۔