سانحہ ماڈل ٹاون کی کہانی - عمران خان کی زبانی

الف نظامی

لائبریرین
سانحہ ماڈل ٹاؤن پنجاب پولیس کے چہرے پر ایک بدنما داغ ہے، آئی جی پنجاب سانحہ میں ملوث پولیس افسروں کو فیلڈ ڈیوٹی سے ہٹائیں اور انہیں لائن حاضر کریں۔ قاتل افسران کے ہوتے ہوئے آئی جی پنجاب جرائم پر قابو کیسے پا سکتے ہیں؟
پولیس افسروں نے ترقیوں کے لالچ میں شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کے حکم پر باپردہ خواتین سمیت نہتے شہریوں پر گولیاں برسائیں، 17جون 2014ء کے دن پولیس افسران نے ریاست کے ادارے کے کسٹوڈین کی بجائے ایک خاندان کے نجی گارڈز والا کردار ادا کیا اور قانون، اخلاقیات اور انسانی اقدار کو بری طرح پامال کیا۔
جو گولیاں عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے عوام کے ٹیکسوں سے خرید کر انہیں دی گئی تھیں وہی گولیاں قانون اور امن پسند شہریوں پر برسائی گئیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شریف برادران کے حکم پر گھناؤنا کھیل کھیلنے والے پولیس افسروں کو جب تک انسداد دہشتگردی کی عدالت بے گناہ قرار نہیں دے دیتی تب تک ایسے تمام افسران کو لائن حاضر کیا جائے۔
وکلاء ٹیم سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس
 

سیما علی

لائبریرین
آج تک ہر پاکستانی حکمران کے ساتھ یہی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ نواز شریف کو اسٹیج پر جوتا مارا گیا۔ خواجہ آصف پر دوران تقریر کالی سیاہی پھینکی گئی۔ احسن اقبال کے بازو پر فائر کیا گیا۔ لیاقت علی خان اور بینظیر کا سر عام قتل کیا گیا۔
پاکستانی عوام کو کوئی حکمران پسند نہیں آتا اور حکمرانوں کو عوام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے سوائے ان کے ووٹ کے۔
زرداری کو بھی جوتا مارا گیا-بھٹو صآحب پر لیاقت آ باد میں جوتے اور ٹماٹر پھینکے گئیے اور بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ ہتک آمیز سلوک کیا گیا——
؀افسوس صد افسوس
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
(آغا شورش کاشمیری)

صدر ایوب کی حکومت کے خاتمےپر؀

خبر آ گئی راج دھاری گئے
تماشا دکھا کر مداری گئے
شہنشہ گیا ، نورتن بھی گئے
مصاحب اٹھے ، ہم سخن بھی گئے
سیاست کو زیر و زبر کرگئے
اندھیرے اجالے سفر کرگئے
 

سیما علی

لائبریرین
ماڈل ٹاؤن سانحہ کی دوسری جے آئی ٹی سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب حکومت نے بنائی۔ جب تفتیش آخری مراحل پر تھی تو لاہور ہائی کورٹ نے اس پر اسٹے دے دیا۔ دو سال سے یہ جے آئی ٹی اسٹے آرڈر پر ہے جبکہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر اس کا فیصلہ کریں۔ نظام انصاف کی ساری برائیاں نیازی میں ڈھونڈنے سے فرصت ملے تو کسی اور کی بھی خبر لیں
LHC adjourns hearing of Model Town JIT case till Sept 9th
ویسے تو سیاست دنیا میں ایک بہت ہی مقدس پیشہ ہے مگر پاکستان کی سیاست ذرا باقی دنیا سے وکھری ٹائپ کی ہے۔کہنے کو تو پاکستانی سیاستدان سیاست عبادت سمجھ کر کرتے ہیں مگر
بد قسمتی سے اقتدار میں پہنچ کر عبادت منافقت میں بدل جاتی ہے۔ پھر ملک اور عوام کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے وہ ملک جانتا ہے یا عوام ۔پاکستان میں سیاست وہ پیشہ ہے جو تا حیات چلتا ہے۔تعلیم کی کوئی قید نہیں۔ اس میں ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی۔۔بڑی حیرت کی بات ہے کہ ہم ملازمت پیشہ لوگ ساٹھ سال کی عمر میں تھک کے چور ہوجاتے ہیں اور یہ پاکستانی سیاست داں ستر پچھتر سال میں جواں سال رہتے ہیں۔ہم نے ایک سوالنامہ بنایا اپنے سروس گروپ میں اُس میں سب کی متفقہ رائے تھی کہ سروس کلاس اپنے کام کو ایمانداری اور تندہی سے انجام دیتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ریٹائرمنٹ تک تھک چکے ہوتے ہیں۔اُسکے برعکس سیاست دان بیٹھ کر عوام کا پیسہ کھا رہے ہوتے تب ہی تب و تاب دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔۔۔۔۔
 

ثمین زارا

محفلین
ایوب خان کا انجام یاد کیجیے۔ کتوں کے گلے میں ایوب مردہ باد لکھ کر لٹکایا جاتا تھا!


ناہنجار کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ خرم دستگیر کے والد نے ایوب خان کو سپورٹ کرنے کے لیئے محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین کو کتوں کے گلے میں ڈال کر گلیوں میں گھمایا اور ان کو مادرملت کا نام دیا۔ نواز اور شہباز شریف نے بےنظیر اور نصرت بھٹو کی تصاویر فوٹوشاپ کروا کر تقسیم کیں ۔ فضل الرحمان کے والد نے پاکستان بننے اور قائد اعظم کی سرتوڑ مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ " خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کی غلطی میں شامل نہیں تھے۔"
ان سب کا انجام بھی لوگوں نے دیکھا اور انشااللہ دیکھیں گے ۔ اور بھی کئی فرعونوں کو سب جانتے ہیں ۔ ان کا ذکر خیر بھی ہونا چاہئے۔
 

ثمین زارا

محفلین
میری ادنی رائے میں تو اسٹیبلشمنٹ کو نیوٹرل ہو جانا چاہیے۔ سخت قسم کا سیاسی تصادم ایک بار ہو لینے دیں۔ پھر جو اس میں سے فاتح نکلے گا، اسٹیبلشمنٹ اس کی۔
اسٹیبلشمنٹ کو گندے انڈوں پر مسلسل نظر رکھنی چایئے اورملک کے مطابق فیصلے کرنے چاہیئں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
بس صرف ایک بار شرم سے ہی مرجائے، کیونکہ شرم تو اس کو آتی نہیں۔
ٹرمپ ڈاکٹرائن کا سونامی
آصف محمود

ٹرمپ ڈاکٹرائن نرگسیت کا دوسرا نام ہے۔ ایک عدد قائد محترم ہیں اور وہ غلطیوں سے مبرا ہیں۔ بھلے وہ بزنس مین ہوں، چائے بیچتے رہے ہوں یا محض ایک کھلاڑی رہے ہوں اور علم و مطالعے سے ان کو کبھی راوہ رسم نہ رہی ہو لیکن وہ اس بات پر قدرت رکھتے ہیں کہ دنیا کے ہر موضوع پر قوم کی رہنمائی فرما سکیں۔ حتی کہ وہ چاہیں تو دنیا کا جغرافیہ بدل دیں۔ وہ جو کرتے ہیں درست کرتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء کو بیانات نہیں مکمل انصاف چاہیے: خرم نواز گنڈاپور
انصاف کے حوالے سے جن معاملات میں پنجاب حکومت تعاون کر سکتی تھی وہ نہیں ہوا
راجہ بشارت سے کئی ملاقاتیں ہوئیں مگر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، سیکرٹری جنرل
لاہور (13 نومبر 2020ء) پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کے انصاف کے ضمن میں وزیر قانون پنجاب راجہ محمد بشارت سے گزشتہ دو سالوں میں 20 سے زائد بار ملاقات کر چکا ہوں، مگر انصاف کی فراہمی کے ضمن میں اگر کوئی پیشرفت ہوئی ہے تو وہ وزیر قانون پنجاب کے علم میں ہوگی ہمارے علم میں کچھ نہیں ہے، شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثاء محض بیانات سے مطمئن نہیں ہوں گے انہیں مکمل انصاف چاہیے۔
مستغیث جواد حامد، عوامی تحریک کے وکلاء نعیم الدین چودھری ایڈووکیٹ، سردار غضفر حسین ایڈووکیٹ، شکیل ایڈووکیٹ سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ انصاف کے حوالے سے جن معاملات میں پنجاب حکومت تعاون کر سکتی تھی وہ بھی نہیں ہوا، ہمارا کوئی گلا نہیں ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن میں صرف عوامی تحریک کے کارکن شہید اور زخمی ہوئے انصاف کے لئے تگ و دو کرنا بھی صرف عوامی تحریک کی ہی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے انصاف کے دو پہلو ہیں:

ایک حصہ عدالت سے متعلق ہے وہ مروجہ نظام انصاف کے تحت عدالت نے ہی نمٹانا ہے اس پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا

انصاف کا دوسرا حصہ حکومت سے متعلق ہے حکومت اہم پوزیشن ہولڈرز ملزمان پولیس افسروں کو کیس کے حتمی فیصلہ تک فیلڈ عہدوں سے ہٹا کر انصاف میں مددگار ہو سکتی ہے،
ملزم پولیس افسران اپنی پوزیشن پر براجمان رہتے ہوئے انصاف کے عمل پر اثر انداز ہو رہے ہیں، با رہا مطالبہ کے باوجود کسی ایک ملزم کو بھی عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔ پراسیکیوشن کے حوالے سے بھی ہمیں کسی قسم کی کوئی مدد دستیاب نہیں ہے۔
http://www.pat.com.pk/urdu/tid/50460/
 

الف نظامی

لائبریرین
"کل لاہور ہائی کورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت کرے گی سپریم کورٹ نے اس کیس پر فیصلے کے لیے 90 دن کا وقت دیا تھا لیکن سماعت کل 298 دن بعد شروع ہو رہی ہے"
 

جاسم محمد

محفلین
"کل لاہور ہائی کورٹ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی سماعت کرے گی سپریم کورٹ نے اس کیس پر فیصلے کے لیے 90 دن کا وقت دیا تھا لیکن سماعت کل 298 دن بعد شروع ہو رہی ہے"
اور آج کی سماعت میں شریف مافیا کی ہائی کورٹ نے حکومتی وکیل کو جھاڑ پلا کر کیس غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا
سانحہ ماڈل ٹائون، دوسری جے آئی ٹی کی تشکیل کیخلاف درخواست پرسماعت، چیف جسٹس کا بڑا حکم - Baaghi TV
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
بس صرف ایک بار شرم سے ہی مرجائے، کیونکہ شرم تو اس کو آتی نہیں۔
بغض عمران کا ناقابل تردید ثبوت۔ ہم انصافی شریف اور زرداری خاندان کے شدید سیاسی حریف ہیں لیکن کبھی ان کیخلاف مرنے مارنے کی بات نہیں کی۔ بلکہ الٹا سزا یافتہ مجرم اشتہاری نواز شریف کی جعلی بیماریوں پر ترس کھا کر لندن تک بھیج دیا۔ عمران خان کی جگہ آج ضیا الحق اقتدار میں ہوتا تو اب تک نواز شریف کو بھٹو کی طرح الٹا لٹکا دیا ہوتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
سانحہ ٹاؤن کے مرکزی کردار کیپٹن(ر)عثمان کو بری کر دیا گیا۔ 17 جون کو کیپٹن (ر) عثمان ڈی سی او لاہور سول ایڈمنسٹریشن کے سربراہ تھے، سانحہ کےدن وقوعہ پر موجود تھے۔ ان کے ساتھ بیرئیر ہٹانے کے اختیار پر پاکستان عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور صاحب کے ڈائیلاگ بھی ہوئے تھے۔ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پوری طرح شریک تھے۔ 2018 کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت نے ان کو سیکرٹری پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر، ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی لگا دیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پوسٹنگ کے ٹھیک ایک ماہ بعد اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو ہٹانے کا حکم دیا لیکن افسوس کے وہ صرف ایک بیان اور کاغذی کاروائی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور پھر 2021 میں کیپٹن (ر) عثمان کو کمشنر لاہور تعینات کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح کے تمام افسروں کو جو سانحہ ٹاؤن میں شریک تھے، ان کو نہ صرف اعلیٰ عہدے دیے بلکہ صدارتی ایوارڈ بھی پی ٹی آی کی حکومت نے دیئے۔

پاکستان عوامی تحریک نے انسداد دہشتگردی عدالت لاہور کی طرف سے کیپٹن(ر)عثمان کی بریت کے فیصلے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سات سال گزر جانے کے بعد بھی شہدائے ماڈل ٹاؤن کے ورثا کو انصاف کیوں نہیں ملا؟ انصاف تو دور کی بات غیر جانبدار تفتیش کا حق بھی نہیں ملا۔ 7 سال سے مدعی پارٹی سانحہ ماڈل ٹاؤن کی غیرجانبدار تفتیش کے لئے قانونی چارہ جوئی کر رہی ہے لیکن تاریخ پر تاریخ مل رہی ہے۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ 7 سال سے غیر جانبدار تفتیش التواء کا شکار کیوں ہے؟ سپریم کورٹ کے فلور پر غیر جانبدار جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ ہوا تھا اور اے ڈی خواجہ کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا جس نے ملزمان اور مدعی پارٹی دونوں سے تفتیش کی جب تفتیش مکمل ہو گئی تو جے آئی ٹی کے خلاف سٹے آرڈر آگیا جو دو سال سے چل رہا ہے۔ شہدائے ماڈل ٹاؤن کے یتیم ورثا سات سال سے انصاف کیلئے عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں ان یتیم ورثا کو انصاف کون دے گا؟
 

الف نظامی

لائبریرین
پنجاب حکومت نے pti کی سفارش پر سانحہ ماڈل کے مرکزی مجرم طارق عزیز کو dpo سرگودھا لگا دیا
پاکستان عوامی تحریک کے احتجاج ریکارڈ کروانے کے باوجود ہٹانے سے انکار
 
Top