سانحہ پشاور کے ذمہ دار کون؟

سانحہ پشاور (حفاظتی یا انتظامی کوتاہی ) کے ذمہ دار کون؟

  • وفاقی حکومت

  • صوبائی حکومت

  • آرمی

  • انٹیلیجنس ادارے

  • پولیس

  • مقامی انتظامیہ

  • دیگر


نتائج کی نمائش رائے دہی کے بعد ہی ممکن ہے۔
سانحہ پشاور کے ذمہ دار کون؟

مسعود انور

سانحہ پشاور پر پوری قوم غم زدہ ہے اور متحد بھی۔ حتیٰ کہ اوئے نواز کہنے والے عمران خان بھی نواز شریف کے پہلو میں بیٹھے نظر آئے۔ دیگر پارٹیوں نے بھی اپنے احتجاجی و دیگر پروگرام فوری طور پر منسوخ کردیے۔ یہ سب دیکھنے میں کسی بھی قوم کے لیے ایک اچھا نقطہ آغاز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسکول کے معصوم بچوں کی قربانیاں رنگ لے آئیں اور ملک سے احمقانہ سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر کیا سب کچھ ایسا ہی ہے؟ چلیں ایک آسان سا سوال کہ کیا اس خونیں واقعے کے ذمہ دار یہی چھ دہشت گرد تھے جنہیں مار دیا گیا یا ان کو لانچ کرنے والے تھے، جن میں مولوی فضل اللہ بھی شامل ہے۔ اگر یہ خوف ناک واقعہ کسی اور ملک میں رونما ہوا ہوتا تو پھر کیا ہوتا۔ یقینا وہاں کی حزب اختلاف اور حزب اقتدار اس واقعے پر ایک موقف کا مظاہرہ کرتیں مگر کیا صرف اتنا ہی ہوتا۔
یہ رواں برس اپریل کا واقعہ ہے کہ سیﺅل سے 476 طلبہ کو لے کر ایک اسکول کی انتظامیہ قریبی جزیرے پر پکنک منانے جارہی تھی کہ راستے میں بجرا ڈوب گیا۔ اس حادثے میں 304 طلبہ جاں بحق ہوگئے اور صرف 172 افراد کو بچایا جاسکا۔ دیکھنے میں اس حادثے کا تعلق اسکول انتظامیہ یا حکومت کی غفلت سے نہیں تھا۔ مگر اس حادثے پر کوریا کے وزیر اعظم نے معافی مانگتے ہوئے استعفا دے دیا۔ اس اسکول کی وائس پرنسپل نے اس کا اتنا اثر لیا کہ ایک ماہ کے بعد اس نے خودکشی کرلی۔ اب پشاور میں ہونے والے حادثے کو دیکھیں۔ یہ پورے کا پورا واقعے security lapse تھا۔ اس حادثے کی ذمہ داری سے انٹیلی جنس ایجنسیاں، سیکورٹی کے ادارے، صوبائی انتظامیہ اور وفاقی حکومت کس طرح اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہیں۔ مگر ان میں سے کس کس نے اب تک ندامت کا اظہار کیا ہے؟ ہر شخص بڑھکیں مار رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ شمالی وزیرستان میں چھپے دہشت گردوں کا کیا دھرا ہے۔ یہ ڈیڑھ برس پہلے کی بات ہے کہ شمالی وزیرستان کے طالبان نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں جیل توڑ کر اپنے ساتھی چھڑا لیے۔ اس موقعے پر میں نے ایک مضمون’ڈیرہ جیل پر حملہ‘ لکھا تھا۔ اس سے چند اقتباسات اور پھر سے چند سوال۔
”پنجاب سے متصل خیبر پختونخوا کے سرحدی شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملے کو کئی روز گزر چکے ہیں مگر اب تک رننگ کمنٹری کے علاوہ کچھ پتا نہیں چل سکا کہ اتنا بڑا واقعہ کس طرح رونما ہوگیا۔ نہ تو حکومت ہی کچھ بتانے پر آمادہ ہے اور نہ ہی میڈیا اس پر حکومتی بیانات اور حزب مخالف کے مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ بتانے پر راضی ہے۔ 29 جولائی کی شب دو سو کے قریب دہشت گردوں نے ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ آور ڈبل کیبن گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس تھے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ان دہشت گردوں نے سب سے پہلے علاقے کی بجلی اُڑائی، اس کے بعد جیل پر تین اطراف سے راکٹوں اور بموں سے حملہ کردیا۔ حملے میں ان دہشت گردوں کو صرف بیرونی دیوار اڑانی پڑی جب کہ دیگر دو اندرونی دیواروں کے یا تو دروازے کھلے ہوئے تھے یا کھول دیے گئے تھے۔
یہ تو وہ صورت حال ہے جو اخبارات میں رپورٹ ہوچکی ہے۔ اب ذرا اس پوری صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ دو سو سے زائد افراد جو جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے جس میں راکٹ، راکٹ لانچر، دیواروں کو دھماکے سے اڑانے والا بارودی مواد، خودکش جیکٹیں، دستی بم اور دیگر ہلکا اور بھاری اسلحہ و گولہ بارود شامل ہے، کے ساتھ شمالی وزیرستان سے صوبے کے آخری شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان پہنچتے ہیں۔ یہ تمام افراد 14 سے 25 ڈبل کیبن گاڑیوں اور درجنوں موٹرسائیکلوں کے کانوائے کی صورت میں آئے تھے۔ راستے میں متعدد چیک پوسٹیں موجود ہیں۔ ان چیک پوسٹوں پر خاصہ دار بھی متعین ہیں اور فوجی بھی۔ جہاںقبائلی علاقہ نہیں ہے جیسا کہ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان وغیرہ، وہاں پر پولیس موجود ہے مگر اتنے بڑے کانوائے کو کسی ایک جگہ بھی روک کر نہیں پوچھا گیا کہ بھائی کہاں جارہے ہو؟
چلیں یہ سب پولیس کی وردیوں میں تھے تو بھی کاو نٹر چیکنگ تو کی جانے چاہیے تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ اس علاقے میں کارروائی پولیس نہیں کرتی اور فوج کرتی ہے۔ پھر قبائلی علاقے میں پولیس کی موجودگی چہ معنی دارد؟ یہ سب لوگ ایک طویل جلوس کی صورت میں چار سے پانچ گھنٹے کا سفر کرکے ڈیرہ اسمٰعیل خان گئے اور ایک کامیاب کارروائی بھی کرڈالی۔ یہ کارروائی پلک جھپکتے میں مکمل نہیں ہوگئی۔ چار گھنٹے تک اطمینان کے ساتھ انہوں نے اپنے ایک ایک ساتھی کو ڈھونڈا، ساتھ لیا اور پھر دوبارہ شمالی وزیرستان کی طرف چل پڑے۔ اب تو پورے جہاں کو پتا چل چکا تھا کہ کیا واردات ہوچکی ہے۔ رات کے اندھیرے میں یہ طویل قافلہ پوری ہیڈ لائٹ جلائے پھر سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑی راستوں پر چار گھنٹے کا سفر کرکے بغیر بال بیکا ہوئے اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچ چکا تھا۔ راستے میں ایک مرتبہ بھی کسی چیک پوسٹ پر ان کو نہیں روکا گیا۔ فوج کیا کررہی تھی؟ فضائیہ کیا کررہی تھی؟ اس نے راستے میں اس قافلے کو روکنے، اپنی اگلی چیک پوسٹوں کو آگاہ کرنے، ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے بجائے لکیر پیٹنے کو ترجیح دی اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کرفیو لگا دیا۔“
ڈیرہ جیل پر حملے میں شمالی وزیرستان کے عناصر نے پوری طاقت استعمال کی۔ اگر ڈیرہ جیل پر حملے سے واپسی کے سفر میں جس میں چار پانچ گھنٹے لگے، ان سب کو تہہ تیغ کردیا ہوتا تو آج ضرب عضب اور ضرب خیبر نہ ہورہا ہوتا اور نہ یہ سانحہ پشاور ہوتا۔ جب سوات کا آپریشن کیا گیا تو دہشت گرد عناصر کے خاتمہ کے بجائے ان کو فرار کرانے کے پروگرام پر عمل کیا گیا۔ اسی مولوی فضل اللہ کو اس کے ساتھیوں سمیت ختم کردیا ہوتا تو پھر آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار ہنگامی طور پر کابل جاتے اور افغان حکومت کو بتاتے کہ ان کی چھتری تلے بیٹھ کر مولوی فضل اللہ افغانستان سے پاکستان میںکیا کارنامے سرانجام دے رہا ہے۔
اگر پاکستان میں دہشت گردی روکنے میں سب لوگوں کو اتنی ہی دلچسپی ہے تو کوئی سیاسی پارٹی بلیک واٹر کے بارے میں سوال کیوں نہیں کرتی۔ اگر یہ سب لوگ پشاور میں معصوم بچوںکے خون پر اتنے ہی رنجیدہ ہیں تو یو ایس ایڈ کے کردار کے بارے میں بات کیوں نہیں کی جاتی۔ اگر یہ سب لوگ اتنے ہی ملک کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو واقعے کے بارے میں اصل حقائق قوم کو کیوں نہیں بتائے جارہے۔ یہاں تو شروع ہی اس طرح کیا گیا کہ دہشت گرد ایف سی یا فوج کی وردی میں ملبوس تھے۔ اگر ایسا ہی تھا تو مارے جانے والے دہشت گرد کیوں عام سے شلوار قمیض میں ملبوس ہیں۔ کیا مارے جانے کے بعد ان کے لباس تبدیل کردیے گئے۔ اگر یہ فوجی وردی میں بھی ہوتے تو یہ شکل سے فوجی معلوم ہورہے تھے؟۔ یہ تو شکل سے ہی ایک مخصوص ذہنیت کے گروپ کے لوگ معلوم ہورہے تھے۔
اصل بات کسی حادثہ کا رونما ہونا نہیں ہے، اصل بات اُس حادثے میں نااہلی کے ذمہ داروں کا تعین ہوتا ہے۔ آخر کیوں پوری دنیا میں اس بارے میں قومیں حساس ہوتی ہیں اور ذمہ داران گھروں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب تک یہ کلچر فروغ نہیں پائے گا۔ ہم اسی طرح کے حادثات کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اس سانحے پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کا محاسبہ ہونا چاہیے، صوبائی حکومت کا محاسبہ ہونا چاہیے اور وفاقی حکومت کا بھی۔ اور کم از کم ان کے اعلیٰ ترین عہدے داران کو گھر بھیج کر ان پر مقدمہ ضرور چلایا جانا چاہیے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
مسعود انور
 
ہمارے ملک میں دہشت گردی کی چار بڑی وجوہات ہیں۔
حکومت کوان چاروں وجوہات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنانا ہو گی،

ہمارے ملک میں دہشت گردی کی پہلی وجہ مذہب کی غلط تشریح ہے، دنیا کے تمام مذاہب پرامن ہیں، ہم اسلام کے پیرو کار ہیں، اسلام کا مطلب سلامتی ہے اور سلامتی امن کے بغیر نہیں ہوتی مگر ہمارے علماء کرام بدقسمتی سے اسلام کی اصل اسپرٹ معاشرے تک نہیں پہنچا سکے، ہم نے اسلام کو امن اور سلامتی کے بجائے نفاق، فرقہ پرستی اور قتال کا ذریعہ بنا دیا،دنیا میں آج تک کوئی مذہبی ریاست قائم نہیں رہ سکی، دنیا میں صرف وہ معاشرے قائم رہتے ہیں جن میں جمہوریت پہلے آتی ہے اور مذہب بعد میں لیکن ہمارے معاشرے میں مذہب کو جمہوریت، قانون، آئین اور سماجی اخلاقیات چاروں پر فوقیت حاصل ہے اور ترتیب کی یہ خرابی ہے۔
جس کی وجہ سے آج اسلام کے نام پر بننے والا ملک اسلام ہی کے نام پر ٹوٹ رہا ہے، حکومت کو فوری طور پر یہ ترتیب بدلنا ہوگی، حکومت مذہب کو اجتماعی کے بجائے انفرادی حق ڈکلیئر کرے، ملک میں کسی کے عقائد پر انگلی اٹھانا قتل جتنا بڑا جرم ہونا چاہیے، ہمارے نام صرف نام ہونے چاہئیں، ان سے فرقے کی شناخت نہیں ہونی چاہئیں، حکومت کو نقوی، جعفری، کاظمی، صدیقی، بریلوی اور فاروقی تمام تخلص، تمام سابقوں اور لاحقوں پر پابندی لگا دینی چاہیے، کوئی شخص کسی سرکاری دستاویز میں فرقے کی نشاندہی کرنے والا سابقہ یا لاحقہ نہ لکھوا سکے، پورے شہر میں صرف ایک وقت اذان ہو، یہ اذان اگر قومی نشریاتی رابطے سے ہو تو سونے پرسہاگہ ہو گا، مساجد سے لاؤڈ اسپیکر اتروا دیے جائیں۔
جمعہ کے لیے علماء کرام سے 52 خطبے تیار کروائے جائیں اور یہ خطبے بھی تربیتی ہونے چاہئیں اختلافی نہیں، امام حضرات جمعہ کو ان خطبوں میں سے کوئی ایک خطبہ دے سکیں، یہ ان سے باہر ایک لفظ نہ بول سکیں، مساجد صرف سرکاری اجازت سے قائم ہو سکیں،مؤذن اور امام کا فیصلہ حکومت کرے، مدارس رجسٹر کرائے جائیں اور سلیبس سرکار فراہم کرے، ملک بھر سے تمام اختلافی مواد ضبط کر لیا جائے، انٹر نیٹ پر جس مولوی کا اختلافی بیان ملے اسے عمر قید دے دی جائے، توہین رسالت کا فیصلہ ریاست کرے،جو شخص یہ فیصلہ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرے، اسے پھانسی دی جائے اور ملک میں مذہبی جلوسوں اور اجتماعات پرپابندی لگا دیں،
دہشت گردی کی دوسری وجہ اسلحہ ہے، یہ ملک اسلحے کا ڈپو بن چکا ہے، حکومت فوری طور پر اسلحے پر پابندی لگا دے، ملک میں ڈنڈے اور چاقو کے علاوہ کوئی اسلحہ نہیں ملنا چاہیے۔
حکومت اسلحے پر پابندی بھی لگائے اور کڑی سزا بھی تجویز کرے، ملک میں جب تک اسلحہ موجود ہے، آپ دہشت گردی نہیں روک سکیں گے، خواہ آپ ہر ماہ دس ہزار لوگوں کو پھانسی کیوں نہ دیں،

تیسری وجہ نوجوان ہیں، ہمارے ملک میں نوجوان 40فیصد ہیں، ملک میں ان لوگوں کے لیے کوئی ایکٹویٹی نہیں، کھیل کے میدان نہیں ہیں، سینما گھر اور چائے خانے نہیں ہیں، حکومت فوری طور پر نوجوانوں کو مصروف رکھنے کی پالیسی بنائے، کھیل کے میدان بنائیں، پانچ سے بیس سال تک کے بچوںکے لیے کھیل لازمی قرار دیے جائیں اور جو بچہ جسمانی کھیل نہ کھیلتا ہو اسے ڈگری نہیں ملنی چاہیے۔
ہمارے نوجوان جسمانی لحاظ سے مصروف ہوں گے تو ملک میں شدت پسندی میں کمی آئے گی اور شدت کی کمی دہشت گردی کے خاتمے کا باعث بنے گی

اور آخری وجہ ہم چالیس سال سے حالت جنگ میں ہیں، ہماری تیسری نسل جنگی حالات میں پرورش پا رہی ہے،آپ دنیا کی کوئی قوم بتائیے جو چالیس سال حالت جنگ میں رہی ہو اور وہ اس کے باوجود نارمل بھی ہو، ہم جنگ کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ چکے ہیں، ہم متوازن اور نارمل نہیں رہے چنانچہ ریاست فوری طور پر تمام محاذ بند کرنے کا اعلان کر دے کیونکہ ہم جب تک یہ محاذ بند نہیں کریں گے ہمارے ملک میں گڈ طالبان موجود رہیں گے اورجب تک یہ لوگ موجود رہیں گے، ہمارے ملک سے دہشت گردی ختم نہیں ہو گی خواہ ہم کچھ بھی کر لیں۔
ہم فیصلے کی گھڑی تک پہنچ چکے ہیں، ہم نے اب عفریت کو قتل کرنا ہے یا پھر اس عفریت نے ہمیں نگلنا ہے، آپ یقین کیجیے ہم نے اگر اس عفریت کو نہ مارا تو یہ ایک دو سال میں ہمیں کھا جائے گا چنانچہ فیصلہ کیجیے کیونکہ ہم ،،اب یا کبھی نہیں،، کی منزل تک پہنچ چکے ہیں، ہم نے فیصلہ نہ کیا تو عفریت کامیاب ہو جائے گا اور ہم مری ہوئی داستانوں میں ایک داستان بن کر رہ جائیں گے۔
جاوید چوہدری
 
دہشت گردی کی روک تھام اور بچاؤ اب پوری قوم کی ذمہ داری بن چکی ہے۔ کسی ایک یا دو اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانا درست نہیں ہوگا۔
 
یہاں صرف مذکورہ واقعہ کے حوالے سے بات کی گئی ہے
لیکن یہ واقعہ بھی تو ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر کے تسلسل میں ہوا ہے نا سر۔
کل کو اللہ نا کرے کوئی اور ہو سکتا ہے پرسوں کوئی اور۔ ادارے اور قوم تو یہی رہے گی۔ اور ذمہ داریاں بھی یہی
 
پرویز مشرف نے سانحہ پشاور کا ذمہ دار امریکا کو قرار دے دیا کہتے ہیں کہ امریکا اپنی غلطیاں تسلیم کرے جن کی وجہ سے طالبان منظم ہوئے سانحہ پشاور امریکا کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے

امریکی ٹی وی چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کہا کہ یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ امریکا نے اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کی،،افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیئے پشاور میں اسکول پر حملہ کوئی گمراہی یا اسلام کا مسئلہ نہیں بلکہ غلط امریکی پالیسیوں کا تسلسل ہےانہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کی قبائلی ایجنسیوں میں گزشتہ پندرہ سال سے جو ہو رہا ہے یہ سب اسی کی وجہ سے ہواان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں حکومتی رٹ کمزور ہوئی جس پر طالبان کا حوصلہ بڑھا وہ دوبارہ سے فعال ہوئے اور انہوں نے خود کو منظم کرلیا ایک سوال کے جواب میں پرویز مشرف نے کہا کہ ان کی کبھی بھی طالبان کے ساتھ ہمدریاں نہیں رہیں، امریکا کو پاکستان کی وہاں مدد کرنی چاہیئے جہاں اس کی ضرورت ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/18-Dec-2014/347916
 
چارسدہ (بیورو رپورٹ) آرمی پبلک سکول پر حملے میں دہشت گردوں کو ”اندرونی“ معاونت حاصل ہونے کا معاملہ سامنے آ گیا ہے اور انکشاف ہوا ہے کہ سکول کے لیب اسسٹنٹ دہشت گردوں کی معاونت کر رہا تھا۔ عینی شاہد طلباءکا کہنا ہے کہ لیب اسسٹنٹ دہشت گردوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے جن کی سربراہی میں دہشت گرد سکول میں داخل ہوئے اور قتل و غارت شروع کر دی۔ ان خیالات کا اظہار شہید طالب علم رضوان سریر کے نماز جنازہ کے بعد ان کے بھائی سلمان سریراور ان کے سکول میٹ نے چارسدہ پریس کلب کے صحافیوں سے بات چیت کر تے ہوئے کیا۔ http://dailypakistan.com.pk/national/18-Dec-2014/174214
 
سانحہ پشاور کا اصل ذمہ دار بھارت ہے‘ بدلہ لیں گے
ملتان‘ خانیوال (وقائع نگار خصوصی‘ خبرنگار‘ خبریں رپورٹر‘ نمائندہ خبریں) جماعت الدعوة کے مرکزی امیر حافظ محمد سعید نے کہا کہ سانحہ پشاور کا اصل ذمہ دار بھارت ہے جس سے بدلہ لیںگے۔ -

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یقینا دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی اسلحہ استعمال ہو رہا ہے کیونکہ بھارتی دہشت گرد افغانستان سے آکر یہاں دہشت گردی کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالم اسلام اور چین سمیت تمام امن پسند ممالک کو ساتھ لیکر چلے اور عالم اسلام کی قوت سے بھارت کی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں حافظ محمد سعید نے کہا کہ قندھار سے لیکر پاکستان تک بھارت کے 22 قونصلیت دہشت گردی کے مراکز ہیں -

http://ns.channel-5.tv/detail.aspx?id=15033
 
سانحہ پشاور ملکی تاریخ کا المناک ترین واقعہ ہے۔اس دہلادینے والے سانحہ کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ سیکورٹی کے بہتر انتظامات سے اس واقعے کو روکا جاسکتا تھا۔قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی بعض ناقدین نے انگلیاں اٹھائیں کہ آپریشن ضرب عضب جس علاقے میں جاری ہے اس کے نزدیک ترین کینٹ علاقے میں سیکورٹی کی صورتحال کا یہ عالم ہے تو ملک کے دیگر علاقوں میں کیا ہوگا؟خیبر پختونخواہحکومت کی جانب سے بھی کہا گیا کہ کسی بھی حساس ادارے یا وزارت داخلہ کی جانب سے اس قسم کے کسی واقعے سے پیشگی مطلع نہیں کیا گیا تھا کہ بہتر اقدامات کئے جاتے۔اس طرح کی تنقید بھی دردناک سانحے کے بعد سامنے آئی۔

مگر میں اس سے اتفاق نہیں کرتا اور اسی لئے گزشتہ کالم میں بھی لکھ چکا ہوں کہ ایسے سفاک خودکش حملہ آوروں کو روکنا ممکن نہیں ہوتا۔کیونکہ جو شخص مرنے کا ذہن بنا کر آیا ہے اسے کیسے روکا جاسکتا ہے؟مگر گزشتہ رات وزارت داخلہ کے سینئر افسر ہاتھوں میں کاغذوں کا پلندہ تھامے کچھ چشم کشاء حقائق سے پردہ اٹھا رہے تھے۔وزارت داخلہ کے سینئر افسر کی معلومات سے بھرپور باتیں سن پر میں ششدر رہ گیا۔

موصوف افسر کہنے لگے کہ خیبر پختونخوا حکومت آرمی ا سکول پر حملے سے پہلے ہی آگاہ تھی۔ مگر بدقسمتی سے ٹھوس اقدامات کرنے میں بری طرح سے ناکام رہی کہ اس حملے کو روکا جاسکتا۔وزارت داخلہ نے حملے سے دس روز قبل خیبر پختونخواپولیس کو خصوصی مراسلے کے ذریعے آگاہ کیا تھا کہ دہشتگرد آرمی پبلک ا سکول وارسک روڈ پشاور کینٹ کو نشانہ بنائیں گے ۔ مگر حیران کن طور پر آئی جی خیبر پختونخوا مراسلے کی وصولی پر ستخط کرنے کے باوجود مکمل طور پر ایسی کسی اطلاع کے حوالے سے لاعلم تھے۔موصوف مراسلہ دکھاتے ہوئے کہنے لگے کہ وزارت داخلہ کے نیشنل کرائس منیجمنٹ سیل نے دس روز قبل آئی جی خیبر پختونخوا کو آگاہ کیا تھا ۔(Most Immediate) مراسلہ میں واضح لکھا تھا کہ دہشتگرد پشاور کے آرمی پبلک اسکول جووارسک روڈ پر واقعہ ہے اس کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ اس لئے سیکورٹی بڑھا دی جائے مگر اس پر خیبر پختونخوا حکومت نے سنجیدگی کا مظاہر ہ نہ کرتے ہوئے کوئی اقدامات نہیں کئے۔موصوف سیکریٹری کے مطابق پشاور دھماکے کے بعد دو روز قبل وزیراعظم کی زیر صدارت گورنر ہاؤس پشاور کے اجلاس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار نے آئی جی خیبر پختونخواکو کہا کہ آپ کو دس روز قبل ایک مراسلے کے ذریعے براہ راست مطلع کیا گیا تھا کہ دہشت گرد پشاور کے آرمی ا سکول وارسک روڈ کو نشانہ بناسکتے ہیں۔مگر آپ نے نہ صرف اقدامات نہیں کئے بلکہ پولیس کی طرف سے آدھا گھنٹہ بعد رسپانس سامنے آیا۔
جس پر آئی جی خیبر پختونخوا کہنے لگے کہ انہیں ایسا کوئی مراسلہ موصول نہیں ہوا۔مگر وزیر داخلہ نے زور دے کر کہا آپ کو بھیجے گئے مراسلے کی ایک کاپی یہ ہے اور اجلاس میں موجود شرکا کو دکھادی۔جس پر آئی جی خاموش ہوگئے۔
اجلاس ختم ہونے کے بعد آئی جی اپنے دفتر گئے اورا سٹاف کو ہدایت کی کہ وزارت داخلہ کا مراسلہ تلاش کریں۔جس پر آئی جی آفس میں تعینات پولیس سروس آف پاکستان کے افسر نے بتایا کہ نہ صرف آئی جی آفس سے مراسلہ مل گیا بلکہ اس پر آئی جی کے دستخط تھے اور لکھا گیا تھا کہ (Seen & File)۔یہ ہیں ہماری غفلتیں کہ اہم ترین معلومات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ خیبر پختونخواحکومت کی جانب سے پیشگی اقدامات کرکے سانحہ کو اگر روکا نہیں بھی جاسکتا تھاتو کم از کم نقصان کوکم ضرور کیا جاسکتا تھا ۔
صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت آن لائن ایف آئی آر،ایس ایم ایس جیسی سروسز تو متعارف کرا رہی ہے مگر دہشتگردی اور سانحہ پشاور جیسے اقدامات کو روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدام کیوں نہیں کررہی۔ جس علاقے میں واقعہ پیش آیا وہاں سے متعلقہ تھانہ میچھی گیٹ صرف آدھا کلومیٹر دورہے مگر پولیس نے آدھا گھنٹہ بعد رسپانس دیا۔جبکہ جس تھانہ میں ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے وہ کا ؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے زیر انتظام ہے اور وہ بھی صرف 2 کلومیٹر ہے مگر فوری کوئی کارروائی نہیں کی گئی کہ حملہ آوروں کو مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا۔اور حکومت کی غفلت کے سبب ہی وزارت داخلہ کی پیشگی اطلاعات کے باوجود متعلقہ تھانوں کوا سکول کی سیکورٹی سخت کرنے کے احکامات جاری نہیں گئے گئے۔یہ فوج کے ہر اول دستے ہی تھے جنہوں نے فوری کارروائی کرکے دہشتگردوں کو اسکول کے جونئیر حصے میں داخل ہونے سے روکا۔
حقائق منظر عام پر لانے کا ہر گز مقصد یہ نہیں ہوتا کہ واقعہ کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈال کر سب دودھ کے دھلے بن جائیں۔صوبائی حکومت کی ضرور یہ ذمہ داری تھی کہ وزارت داخلہ کی جانب سے دی گئی ہر اطلاع کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حتی الاامکان کوشش کرکے مثبت اقدامات اٹھاتی۔صوبائی و وفاقی حکومت کے اختلافات کو اس طرح نہ لیا جائے کہ اس کا خمیازہ کئی سو جانوں کو بھگتنا پڑے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=263936
 
پرویز مشرف نے سانحہ پشاور کا ذمہ دار امریکا کو قرار دے دیا کہتے ہیں کہ امریکا اپنی غلطیاں تسلیم کرے جن کی وجہ سے طالبان منظم ہوئے سانحہ پشاور امریکا کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے

امریکی ٹی وی چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کہا کہ یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ امریکا نے اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کی،،افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیئے پشاور میں اسکول پر حملہ کوئی گمراہی یا اسلام کا مسئلہ نہیں بلکہ غلط امریکی پالیسیوں کا تسلسل ہےانہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کی قبائلی ایجنسیوں میں گزشتہ پندرہ سال سے جو ہو رہا ہے یہ سب اسی کی وجہ سے ہواان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں حکومتی رٹ کمزور ہوئی جس پر طالبان کا حوصلہ بڑھا وہ دوبارہ سے فعال ہوئے اور انہوں نے خود کو منظم کرلیا ایک سوال کے جواب میں پرویز مشرف نے کہا کہ ان کی کبھی بھی طالبان کے ساتھ ہمدریاں نہیں رہیں، امریکا کو پاکستان کی وہاں مدد کرنی چاہیئے جہاں اس کی ضرورت ہے۔
http://www.nawaiwaqt.com.pk/national/18-Dec-2014/347916
اگر یہی باتیں ہم کہیں تو سارے لبرل انتہا پسند دہشت گردوں کی حمایت کے الزام لئے ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ اپنے من پسند لیڈر کی باتوں پر غور کریں۔
 

arifkarim

معطل
پرویز مشرف نے سانحہ پشاور کا ذمہ دار امریکا کو قرار دے دیا کہتے ہیں کہ امریکا اپنی غلطیاں تسلیم کرے جن کی وجہ سے طالبان منظم ہوئے سانحہ پشاور امریکا کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے
اور پاکستان اپنی 1947 سے لیکر 2014 تک کی جانے والی دانستہ اور غیر دانستہ غلطیاں کب تسلیم کر رہا ہے سابق جنرل صاحب؟ :grin:

امریکی ٹی وی چینل سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے کہا کہ یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ امریکا نے اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کی،،افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیئے
جی بالکل اور پاکستان کو 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد دو قومی نظریہ کی ناکامی تسلیم کر لینی چاہئے تھی جو اسنے آج تک نہیں کی! :ROFLMAO:

پشاور میں اسکول پر حملہ کوئی گمراہی یا اسلام کا مسئلہ نہیں بلکہ غلط امریکی پالیسیوں کا تسلسل ہےانہوں نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کی قبائلی ایجنسیوں میں گزشتہ پندرہ سال سے جو ہو رہا ہے یہ سب اسی کی وجہ سے ہواان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں حکومتی رٹ کمزور ہوئی جس پر طالبان کا حوصلہ بڑھا وہ دوبارہ سے فعال ہوئے اور انہوں نے خود کو منظم کرلیا ایک سوال کے جواب میں پرویز مشرف نے کہا کہ ان کی کبھی بھی طالبان کے ساتھ ہمدریاں نہیں رہیں، امریکا کو پاکستان کی وہاں مدد کرنی چاہیئے جہاں اس کی ضرورت ہے۔
جی بالکل۔ اصل مسئلہ تو یہودیت، عیسائیت، بدھمت اور ہندومت سے ہے۔ :sleep:
تمام دہشت گردوں کا تعلق اسلام کے علاوہ ہر دوسرے دین سے ہوتا ہے۔ یہ یہود و ہنود خوامخواہ ہی اسلام کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔ :mrgreen:
کیا پاکستان کے قبائیلی علاقے پاکستان حکومت کی مرہون منت ہیں یا امریکہ کی؟ اگر وفاقی حکومت کا انپر کنٹرول نہیں رہا تو یہ علاقے افغانستان کو واپس کر دیں جن سے لیئے تھے۔ :biggrin:

ملتان‘ خانیوال (وقائع نگار خصوصی‘ خبرنگار‘ خبریں رپورٹر‘ نمائندہ خبریں) جماعت الدعوة کے مرکزی امیر حافظ محمد سعید نے کہا کہ سانحہ پشاور کا اصل ذمہ دار بھارت ہے جس سے بدلہ لیںگے۔ -
جی بالکل۔ اور سانحہ پشاور کا ذمہ دار میں ہوں۔ لے لیں بدلہ :whistle:

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یقینا دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی اسلحہ استعمال ہو رہا ہے کیونکہ بھارتی دہشت گرد افغانستان سے آکر یہاں دہشت گردی کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ عالم اسلام اور چین سمیت تمام امن پسند ممالک کو ساتھ لیکر چلے اور عالم اسلام کی قوت سے بھارت کی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔
ماشاءاللہ۔ جیسے دہشت گردوں کو خود اسلحہ بنانا نہیں آتا۔ اس کام کیلئے بھی ہندو سازشیوں کی ضرورت ہی کام آئی ;)

اگر یہی باتیں ہم کہیں تو سارے لبرل انتہا پسند دہشت گردوں کی حمایت کے الزام لئے ہمارے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ اپنے من پسند لیڈر کی باتوں پر غور کریں۔
لبرل انتہاء پسند بچوں کے اسکول میں گھس کر انکا جان بوجھ کر قتل عام نہیں کرتے، گلے نہیں کاٹتے تاکہ اپنے نام نہاد مسلکی ایجنڈے کو ہوا دی جا سکے۔ :p
 
اور پاکستان اپنی 1947 سے لیکر 2014 تک کی جانے والی دانستہ اور غیر دانستہ غلطیاں کب تسلیم کر رہا ہے سابق جنرل صاحب؟ :grin:


جی بالکل اور پاکستان کو 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد دو قومی نظریہ کی ناکامی تسلیم کر لینی چاہئے تھی جو اسنے آج تک نہیں کی! :ROFLMAO:



لبرل انتہاء پسند بچوں کے اسکول میں گھس کر انکا جان بوجھ کر قتل عام نہیں کرتے، گلے نہیں کاٹتے تاکہ اپنے نام نہاد مسلکی ایجنڈے کو ہوا دی جا سکے۔ :p

دو قومی نظریہ کی ناکامی!!!!!، کیا بنگلہ دیش ،انڈیا میں ضم ہوگیا ، یا اس نے اپنی بطور مسلم ملک اپنی اسلامی شناخت برقرار رکھی؟

ہاں لبرل انتہا پسند تو ایٹم بم گرا کر پورے پورے شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ہیں۔( ان شہروں میں کیا سکول نہیں تھے؟ ) یا اسلامی ممالک جیسے عراق اور افغانستان میں لاکھوں انسانوں کی موت کا سامان کرتے ہیں-
لنگڑے لولے ،نامعقول جواز تو سب کے پاس ہوتے ہیں
اور ظلم کی مذمت کی جانی چاہیے اور اس کو جہاں تک ہو سکے روکنا چاہیے، چاہے کوئی بھی کرے نہ کہ حمایت اور طرفداری کی جائے
 
اسامی خالی ہے...ذراہٹ کے…یاسر پیر زادہ

’’مجھے فرانس کا تاج کوڑے دان میں گرا ہوا ملا اورمیں نے اسے تلوار کی نوک سے اچک لیا!‘‘نپولئین بونا پارٹ ‘ 15اگست 1769ء تا 5مئی 1821ء۔
آج پاکستان میں اگر کسی دودھ پیتے بچے سے بھی پوچھا جائے کہ وہ کون سے ایسے دس اقدامات ہیں جو کئے جائیں تو دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اُس اعلیٰ سطحی کمیٹی سے پہلے ان اقدامات کی فہرست بنانے میں کامیاب ہو جائے گا جو اب تک سر جوڑ کر بیٹھی ہے ۔مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ملک میں کسی کو دہشت گردی کا علاج معلوم نہیں ‘ مسئلہ یہ ہے کہ اس عفریت پر براہ راست ہاتھ ڈالنے کی کسی میں ہمت نہیں ‘ اسی لئے کمیٹی اور ورکنگ گروپ کی خوشنما اصطلاحات تراشی جا رہی ہیں ‘ سفارشات مرتب کی جار ہی ہیں ‘ سب کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں ‘ اجلاس پر اجلاس بلائے جا رہے ہیں‘پاور پوائنٹ پریزنٹیشنز دی جا رہی ہیں‘ مقصد یہ ہے کہ اس تمام دھما چوکڑی کے نتیجے میں جو لولے لنگڑے اقدامات دہشت گردوں کے خلاف کئے جائیں ان کی ذمہ داری کسی فرد واحد پر نہ آئے تاکہ کوئی ذاتی حیثیت میں دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر نہ آ جائے۔ اسے سیاسی حکمت عملی کا مغالطہ کہا جاسکتاہے اور اس قسم کی طفلانہ سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ٗ مگر نہیں ٗ ماتم کرکے تو ہم نڈھال ہو چکے ہیں ‘ اب تو یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ کوئی جوان رعنا اپنے خیمے سے نکلے اور تلوار سونت کر اپنے بچوں کے قاتلوں کو للکارے ۔ افسوس کہ اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا ‘ ہر انسان کی طرح جوان رعنا کو بھی زندگی سے پیارہے ‘ مگر اسے شاید یہ ادراک نہیں کہ یہ حکمت عملی کسی کام نہیں آئے گی کیونکہ جن لوگوں سے ہمیں پالا پڑا ہے وہ پہلے بھی مسلمانوں کی تاریخ میں ظاہر ہو چکے ہیں، وہ اپنے علاوہ ہرکسی کو واجب القتل کافر سمجھتے ہیں،چاہے کوئی صالح مسلمان ہی ہوکیونکہ ان کے نزدیک اگر وہ ان میں سے نہیں تو مسلمان ہی نہیں ‘ ان لوگوں سے حضرت علیؓ نے نہروان کے مقام پر جنگ لڑی اور انہیں شکست دی ‘ یہ گروہ ہر دو چار سو سال بعد ظاہر ہوتا ہے اور پھر مسلمانوں کے سردار کا فرض ہو جاتا ہے کہ ان کا قلع قمع کرے ‘ کیا اس وقت اٹھارہ کروڑ قبیلے کا سردار اپنا یہ فرض نبھانے کے موڈ میں ہے ؟

تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہوا کہ کروڑوں کے قبیلے نے ہزاروں کے لشکر سے شکست کھائی ہو ‘ اگر وہ ہمارے بچوں کو قتل کر رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اب بھی کہیں نہ کہیں کوئی غلطی کر رہے ہیں ‘ وہ غلطی کیا ہے !غلطی یہ ہے کہ ہم میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو ہمیں اس دشمن کو پہچاننے اور اس کا نام لینے سے باز رکھتے ہیں،یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ماضی میں ہر دہشت گرد حملے کا ذمہ دار غیرملکی ایجنسیوں کو ٹھہرایا تاکہ ان کے محبوب دہشت گردوں کا تاثر عوام کی نظروں میں اسلام کے سچے سپاہی کے طور پر برقرار رہے، ان لوگوں کی سفاکی کا عالم یہ ہے کہ معصوم بچوں کے قتل پر نوحے تو لکھ رہے ہیں مگر ان کے قلم سے دو لفظ ان دہشت گردوں کے خلاف نہیں نکلے جنہیں یہ ماضی میں اپنا ہیرو اور مجاہد بناکر پیش کرتے رہے۔ ایک صاحب کی تو عینک کالی ہو چکی ہے یہ لکھتے لکھتے کہ یہ سب بھارت کروا رہا ہے ‘ انہیں یہ جان کر خوشی ہو گی کہ اس ملک میں دہشت گردی کے جرم میں پھانسی پانے کے بعد ’’بھارتی ایجنٹوں‘‘ کو کلمے میں لپیٹ کر دفن کیا جاتا ہے اور اس’’ہندو‘ ‘کی نماز جنازہ بھی پڑھائی جاتی ہے۔

پشاور میں 132بچوں اور ان کے 9اساتذہ کا قتل عام کرکے دہشت گردوں سے ایک بھیانک غلطی سرزرد ہوئی ہے، ا ن عذر خواہوں کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں مل رہی جو دہشت گردوں کے لئے معاشرے میں ہمدردی کی راہ ہموار کرتے تھے، اب ضروری ہے کہ اس المیے کو زندہ رکھا جائے تاکہ قوم مزید کنفیوژن کا شکا ر نہ ہو

۔کیا ہی اچھا ہو اگر وزیر اعظم جمعہ کو نماز مغرب کے بعدآرمی پبلک اسکول پشاور میں شہدا کی یاد میں شمعیں روشن کریں اورپورا پشاور وہاں امڈ آئے ،اور صرف پشاور میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے تمام 106اضلاع میں بیک وقت کروڑوں لوگ نماز جمعہ کے بعد شہید ہونے والوں کے لئے قران خوانی کریں اور شام کو ان کی یاد میں شمعیں روشن کی جائیں، لاہور کا مینار پاکستان، کراچی میں مزار قائد، راولپنڈی کا لیاقت باغ اور کوئٹہ کا ایوب اسٹیڈیم کروڑوں لوگوں کی مشعلوں سے روشن ہو جائے

!پشاور کے اسکول میں شہید ہونے والے ایک بچے، محمد طاہر، کا تعلق ننکانہ صاحب سے تھا، اتوار کے روز کمشنر لاہور ڈویژن راشد محمود لنگڑیال نے ننکانہ میں اس بچے کی یاد میں ایک پروقار تقریب منعقد کروائی، اس تقریب میں ضلع کی تمام سیاسی قیادت، فوجی افسران، جج صاحبان، میڈیا کے نمائندے اور شہر کے لوگوں نے بھرپور شرکت کی، طاہر کی والدہ، والد اور بہن اس تقریب کے مہمان خصوصی تھے ٗ ان کے جگر کا ٹکڑا تو واپس نہیں آسکتا تھا مگر راشد لنگڑیال نے ننکانہ کے سب سے بڑے چوک کا نام محمد طاہر شہید کے نام پر رکھا اور اس کا افتتاح شہید کی والدہ سے کروایا ، ایک اسکول کو طاہر شہید کے نام سے موسوم کیا ٗ اس کے نام پر اسکالر شپ کا اجرا کیا گیا ٗ ننکانہ کے جس اسکول میں وہ پہلے پڑھتا تھا اس کے کیمپس کا نام محمد طاہر شہید کیمپس رکھا، اس کی چھوٹی بہن کی تعلیم کے لئے اسکالر شپ کا انتظام کیا اور شہید کے والد کو پندرہ لاکھ کا چیک پیش کیا جو اس نے نہایت پس و پیش کے بعد قبول کیا۔ کیا پورے ملک میں ایسی 142تقریبات نہیں ہوسکتیں، یقیناً پشاور میں بھی کوئی ’’راشد لنگڑیال‘‘ ہوگا ! کیا یہ سب کرنے سے بھی ڈر لگتاہے ؟

اس وقت پاکستان کو ایسے شخص کی ضرورت ہے جو اپنے اور خاندان کے لوگوں کی جان کی پرواہ کئے بغیر ان دہشت گردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کا نام لے کر انہیں پکارے ‘ قوم کو اس عفریت سے نجات دلائے ‘ وہ تمام دلیرانہ اقدامات کرے جن کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمارے لیڈرا ن کے ہاتھ کانپتے ہیں ‘ ان تمام قاتلوں کو پھانسی پر لٹکائے جن کے لئے معاشرے کے ایک مخصوص طبقے میں نرم گوشہ پایا جاتا ہے اور جو انتہا پسندوں کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے‘ دہشت گردوں کی عذر خواہی پیش کرنے والوں کی نہ صرف زبانیں بند کرے بلکہ ان پر غداری کے مقدمے چلائے ‘ مدرسوں کو پابند کرے کہ وہ خود ثابت کریں کہ ان کا نصاب انتہا پسندی سے پاک ہے‘ ان کے معلم شدت پسندوں کے ہمدرد نہیں ہیں اور ان کا کیمپس دہشت گردوں کو مدد فراہم کرنے میں ملوث نہیں ‘ ریاست مدرسوں کی چھان بین نہ کرے بلکہ یہ ذمہ داری مدرسے پر عائد کی جائے کہ وہ ریاست سے کلین چٹ حاصل کرے …اس وقت جو شخص یہ تمام کام کرنے کا بیڑا اٹھائے گا وہ تاریخ میں امر ہو جائے ‘ یہ اسامی فی الوقت خالی ہے ‘ اسے کوئی بھی پُر کر سکتا ہے ‘ موزوں ترین امیدوار خود وزیر اعظم ہیں ۔
پاکستان کا تاج کوڑے دان میں گرا پڑا ہے ‘ کوئی ہے جو آگے بڑھ کر اسے اٹھا لے !
 
نائن الیون کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے نام پہ ایک جنگ ہمارے خطے میں چھیڑ دی۔ لیکن اِس آگ لگانے کے پیچھے امریکہ کا اصل حدف کیا تھا؟ کیا وہ حدف دہشتگردوں سے زیادہ اسلامی تہذیب اور ھمارا دو قومی نظریہ تھے؟
ان تمام حقائق پہ مشتمل ایک فکرانگیز بیان۔
 

عثمان

محفلین
"سانحہ پشاور کے ذمہ دار کون ؟"؟
طالبان!
ماسوائے طالبان اپالوجسٹ کے ہر فرد کو اس حقیقت کا علم ہے۔
 
Top