ناصر علی مرزا
معطل
سانحہ پشاور کے ذمہ دار کون؟
مسعود انور
سانحہ پشاور پر پوری قوم غم زدہ ہے اور متحد بھی۔ حتیٰ کہ اوئے نواز کہنے والے عمران خان بھی نواز شریف کے پہلو میں بیٹھے نظر آئے۔ دیگر پارٹیوں نے بھی اپنے احتجاجی و دیگر پروگرام فوری طور پر منسوخ کردیے۔ یہ سب دیکھنے میں کسی بھی قوم کے لیے ایک اچھا نقطہ آغاز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسکول کے معصوم بچوں کی قربانیاں رنگ لے آئیں اور ملک سے احمقانہ سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر کیا سب کچھ ایسا ہی ہے؟ چلیں ایک آسان سا سوال کہ کیا اس خونیں واقعے کے ذمہ دار یہی چھ دہشت گرد تھے جنہیں مار دیا گیا یا ان کو لانچ کرنے والے تھے، جن میں مولوی فضل اللہ بھی شامل ہے۔ اگر یہ خوف ناک واقعہ کسی اور ملک میں رونما ہوا ہوتا تو پھر کیا ہوتا۔ یقینا وہاں کی حزب اختلاف اور حزب اقتدار اس واقعے پر ایک موقف کا مظاہرہ کرتیں مگر کیا صرف اتنا ہی ہوتا۔
یہ رواں برس اپریل کا واقعہ ہے کہ سیﺅل سے 476 طلبہ کو لے کر ایک اسکول کی انتظامیہ قریبی جزیرے پر پکنک منانے جارہی تھی کہ راستے میں بجرا ڈوب گیا۔ اس حادثے میں 304 طلبہ جاں بحق ہوگئے اور صرف 172 افراد کو بچایا جاسکا۔ دیکھنے میں اس حادثے کا تعلق اسکول انتظامیہ یا حکومت کی غفلت سے نہیں تھا۔ مگر اس حادثے پر کوریا کے وزیر اعظم نے معافی مانگتے ہوئے استعفا دے دیا۔ اس اسکول کی وائس پرنسپل نے اس کا اتنا اثر لیا کہ ایک ماہ کے بعد اس نے خودکشی کرلی۔ اب پشاور میں ہونے والے حادثے کو دیکھیں۔ یہ پورے کا پورا واقعے security lapse تھا۔ اس حادثے کی ذمہ داری سے انٹیلی جنس ایجنسیاں، سیکورٹی کے ادارے، صوبائی انتظامیہ اور وفاقی حکومت کس طرح اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہیں۔ مگر ان میں سے کس کس نے اب تک ندامت کا اظہار کیا ہے؟ ہر شخص بڑھکیں مار رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ شمالی وزیرستان میں چھپے دہشت گردوں کا کیا دھرا ہے۔ یہ ڈیڑھ برس پہلے کی بات ہے کہ شمالی وزیرستان کے طالبان نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں جیل توڑ کر اپنے ساتھی چھڑا لیے۔ اس موقعے پر میں نے ایک مضمون’ڈیرہ جیل پر حملہ‘ لکھا تھا۔ اس سے چند اقتباسات اور پھر سے چند سوال۔
”پنجاب سے متصل خیبر پختونخوا کے سرحدی شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملے کو کئی روز گزر چکے ہیں مگر اب تک رننگ کمنٹری کے علاوہ کچھ پتا نہیں چل سکا کہ اتنا بڑا واقعہ کس طرح رونما ہوگیا۔ نہ تو حکومت ہی کچھ بتانے پر آمادہ ہے اور نہ ہی میڈیا اس پر حکومتی بیانات اور حزب مخالف کے مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ بتانے پر راضی ہے۔ 29 جولائی کی شب دو سو کے قریب دہشت گردوں نے ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ آور ڈبل کیبن گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس تھے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ان دہشت گردوں نے سب سے پہلے علاقے کی بجلی اُڑائی، اس کے بعد جیل پر تین اطراف سے راکٹوں اور بموں سے حملہ کردیا۔ حملے میں ان دہشت گردوں کو صرف بیرونی دیوار اڑانی پڑی جب کہ دیگر دو اندرونی دیواروں کے یا تو دروازے کھلے ہوئے تھے یا کھول دیے گئے تھے۔
یہ تو وہ صورت حال ہے جو اخبارات میں رپورٹ ہوچکی ہے۔ اب ذرا اس پوری صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ دو سو سے زائد افراد جو جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے جس میں راکٹ، راکٹ لانچر، دیواروں کو دھماکے سے اڑانے والا بارودی مواد، خودکش جیکٹیں، دستی بم اور دیگر ہلکا اور بھاری اسلحہ و گولہ بارود شامل ہے، کے ساتھ شمالی وزیرستان سے صوبے کے آخری شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان پہنچتے ہیں۔ یہ تمام افراد 14 سے 25 ڈبل کیبن گاڑیوں اور درجنوں موٹرسائیکلوں کے کانوائے کی صورت میں آئے تھے۔ راستے میں متعدد چیک پوسٹیں موجود ہیں۔ ان چیک پوسٹوں پر خاصہ دار بھی متعین ہیں اور فوجی بھی۔ جہاںقبائلی علاقہ نہیں ہے جیسا کہ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان وغیرہ، وہاں پر پولیس موجود ہے مگر اتنے بڑے کانوائے کو کسی ایک جگہ بھی روک کر نہیں پوچھا گیا کہ بھائی کہاں جارہے ہو؟
چلیں یہ سب پولیس کی وردیوں میں تھے تو بھی کاو نٹر چیکنگ تو کی جانے چاہیے تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ اس علاقے میں کارروائی پولیس نہیں کرتی اور فوج کرتی ہے۔ پھر قبائلی علاقے میں پولیس کی موجودگی چہ معنی دارد؟ یہ سب لوگ ایک طویل جلوس کی صورت میں چار سے پانچ گھنٹے کا سفر کرکے ڈیرہ اسمٰعیل خان گئے اور ایک کامیاب کارروائی بھی کرڈالی۔ یہ کارروائی پلک جھپکتے میں مکمل نہیں ہوگئی۔ چار گھنٹے تک اطمینان کے ساتھ انہوں نے اپنے ایک ایک ساتھی کو ڈھونڈا، ساتھ لیا اور پھر دوبارہ شمالی وزیرستان کی طرف چل پڑے۔ اب تو پورے جہاں کو پتا چل چکا تھا کہ کیا واردات ہوچکی ہے۔ رات کے اندھیرے میں یہ طویل قافلہ پوری ہیڈ لائٹ جلائے پھر سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑی راستوں پر چار گھنٹے کا سفر کرکے بغیر بال بیکا ہوئے اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچ چکا تھا۔ راستے میں ایک مرتبہ بھی کسی چیک پوسٹ پر ان کو نہیں روکا گیا۔ فوج کیا کررہی تھی؟ فضائیہ کیا کررہی تھی؟ اس نے راستے میں اس قافلے کو روکنے، اپنی اگلی چیک پوسٹوں کو آگاہ کرنے، ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے بجائے لکیر پیٹنے کو ترجیح دی اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کرفیو لگا دیا۔“
ڈیرہ جیل پر حملے میں شمالی وزیرستان کے عناصر نے پوری طاقت استعمال کی۔ اگر ڈیرہ جیل پر حملے سے واپسی کے سفر میں جس میں چار پانچ گھنٹے لگے، ان سب کو تہہ تیغ کردیا ہوتا تو آج ضرب عضب اور ضرب خیبر نہ ہورہا ہوتا اور نہ یہ سانحہ پشاور ہوتا۔ جب سوات کا آپریشن کیا گیا تو دہشت گرد عناصر کے خاتمہ کے بجائے ان کو فرار کرانے کے پروگرام پر عمل کیا گیا۔ اسی مولوی فضل اللہ کو اس کے ساتھیوں سمیت ختم کردیا ہوتا تو پھر آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار ہنگامی طور پر کابل جاتے اور افغان حکومت کو بتاتے کہ ان کی چھتری تلے بیٹھ کر مولوی فضل اللہ افغانستان سے پاکستان میںکیا کارنامے سرانجام دے رہا ہے۔
اگر پاکستان میں دہشت گردی روکنے میں سب لوگوں کو اتنی ہی دلچسپی ہے تو کوئی سیاسی پارٹی بلیک واٹر کے بارے میں سوال کیوں نہیں کرتی۔ اگر یہ سب لوگ پشاور میں معصوم بچوںکے خون پر اتنے ہی رنجیدہ ہیں تو یو ایس ایڈ کے کردار کے بارے میں بات کیوں نہیں کی جاتی۔ اگر یہ سب لوگ اتنے ہی ملک کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو واقعے کے بارے میں اصل حقائق قوم کو کیوں نہیں بتائے جارہے۔ یہاں تو شروع ہی اس طرح کیا گیا کہ دہشت گرد ایف سی یا فوج کی وردی میں ملبوس تھے۔ اگر ایسا ہی تھا تو مارے جانے والے دہشت گرد کیوں عام سے شلوار قمیض میں ملبوس ہیں۔ کیا مارے جانے کے بعد ان کے لباس تبدیل کردیے گئے۔ اگر یہ فوجی وردی میں بھی ہوتے تو یہ شکل سے فوجی معلوم ہورہے تھے؟۔ یہ تو شکل سے ہی ایک مخصوص ذہنیت کے گروپ کے لوگ معلوم ہورہے تھے۔
اصل بات کسی حادثہ کا رونما ہونا نہیں ہے، اصل بات اُس حادثے میں نااہلی کے ذمہ داروں کا تعین ہوتا ہے۔ آخر کیوں پوری دنیا میں اس بارے میں قومیں حساس ہوتی ہیں اور ذمہ داران گھروں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب تک یہ کلچر فروغ نہیں پائے گا۔ ہم اسی طرح کے حادثات کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اس سانحے پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کا محاسبہ ہونا چاہیے، صوبائی حکومت کا محاسبہ ہونا چاہیے اور وفاقی حکومت کا بھی۔ اور کم از کم ان کے اعلیٰ ترین عہدے داران کو گھر بھیج کر ان پر مقدمہ ضرور چلایا جانا چاہیے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
مسعود انور
مسعود انور
سانحہ پشاور پر پوری قوم غم زدہ ہے اور متحد بھی۔ حتیٰ کہ اوئے نواز کہنے والے عمران خان بھی نواز شریف کے پہلو میں بیٹھے نظر آئے۔ دیگر پارٹیوں نے بھی اپنے احتجاجی و دیگر پروگرام فوری طور پر منسوخ کردیے۔ یہ سب دیکھنے میں کسی بھی قوم کے لیے ایک اچھا نقطہ آغاز ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسکول کے معصوم بچوں کی قربانیاں رنگ لے آئیں اور ملک سے احمقانہ سیاست کا خاتمہ ہوگیا۔ مگر کیا سب کچھ ایسا ہی ہے؟ چلیں ایک آسان سا سوال کہ کیا اس خونیں واقعے کے ذمہ دار یہی چھ دہشت گرد تھے جنہیں مار دیا گیا یا ان کو لانچ کرنے والے تھے، جن میں مولوی فضل اللہ بھی شامل ہے۔ اگر یہ خوف ناک واقعہ کسی اور ملک میں رونما ہوا ہوتا تو پھر کیا ہوتا۔ یقینا وہاں کی حزب اختلاف اور حزب اقتدار اس واقعے پر ایک موقف کا مظاہرہ کرتیں مگر کیا صرف اتنا ہی ہوتا۔
یہ رواں برس اپریل کا واقعہ ہے کہ سیﺅل سے 476 طلبہ کو لے کر ایک اسکول کی انتظامیہ قریبی جزیرے پر پکنک منانے جارہی تھی کہ راستے میں بجرا ڈوب گیا۔ اس حادثے میں 304 طلبہ جاں بحق ہوگئے اور صرف 172 افراد کو بچایا جاسکا۔ دیکھنے میں اس حادثے کا تعلق اسکول انتظامیہ یا حکومت کی غفلت سے نہیں تھا۔ مگر اس حادثے پر کوریا کے وزیر اعظم نے معافی مانگتے ہوئے استعفا دے دیا۔ اس اسکول کی وائس پرنسپل نے اس کا اتنا اثر لیا کہ ایک ماہ کے بعد اس نے خودکشی کرلی۔ اب پشاور میں ہونے والے حادثے کو دیکھیں۔ یہ پورے کا پورا واقعے security lapse تھا۔ اس حادثے کی ذمہ داری سے انٹیلی جنس ایجنسیاں، سیکورٹی کے ادارے، صوبائی انتظامیہ اور وفاقی حکومت کس طرح اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دے سکتی ہیں۔ مگر ان میں سے کس کس نے اب تک ندامت کا اظہار کیا ہے؟ ہر شخص بڑھکیں مار رہا ہے۔
کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ شمالی وزیرستان میں چھپے دہشت گردوں کا کیا دھرا ہے۔ یہ ڈیڑھ برس پہلے کی بات ہے کہ شمالی وزیرستان کے طالبان نے ڈیرہ اسمٰعیل خان میں جیل توڑ کر اپنے ساتھی چھڑا لیے۔ اس موقعے پر میں نے ایک مضمون’ڈیرہ جیل پر حملہ‘ لکھا تھا۔ اس سے چند اقتباسات اور پھر سے چند سوال۔
”پنجاب سے متصل خیبر پختونخوا کے سرحدی شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملے کو کئی روز گزر چکے ہیں مگر اب تک رننگ کمنٹری کے علاوہ کچھ پتا نہیں چل سکا کہ اتنا بڑا واقعہ کس طرح رونما ہوگیا۔ نہ تو حکومت ہی کچھ بتانے پر آمادہ ہے اور نہ ہی میڈیا اس پر حکومتی بیانات اور حزب مخالف کے مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ بتانے پر راضی ہے۔ 29 جولائی کی شب دو سو کے قریب دہشت گردوں نے ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جیل پر حملہ کردیا۔ یہ حملہ آور ڈبل کیبن گاڑیوں کے علاوہ موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور پولیس کی وردیوں میں ملبوس تھے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ان دہشت گردوں نے سب سے پہلے علاقے کی بجلی اُڑائی، اس کے بعد جیل پر تین اطراف سے راکٹوں اور بموں سے حملہ کردیا۔ حملے میں ان دہشت گردوں کو صرف بیرونی دیوار اڑانی پڑی جب کہ دیگر دو اندرونی دیواروں کے یا تو دروازے کھلے ہوئے تھے یا کھول دیے گئے تھے۔
یہ تو وہ صورت حال ہے جو اخبارات میں رپورٹ ہوچکی ہے۔ اب ذرا اس پوری صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ دو سو سے زائد افراد جو جدید ترین اسلحہ سے لیس تھے جس میں راکٹ، راکٹ لانچر، دیواروں کو دھماکے سے اڑانے والا بارودی مواد، خودکش جیکٹیں، دستی بم اور دیگر ہلکا اور بھاری اسلحہ و گولہ بارود شامل ہے، کے ساتھ شمالی وزیرستان سے صوبے کے آخری شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان پہنچتے ہیں۔ یہ تمام افراد 14 سے 25 ڈبل کیبن گاڑیوں اور درجنوں موٹرسائیکلوں کے کانوائے کی صورت میں آئے تھے۔ راستے میں متعدد چیک پوسٹیں موجود ہیں۔ ان چیک پوسٹوں پر خاصہ دار بھی متعین ہیں اور فوجی بھی۔ جہاںقبائلی علاقہ نہیں ہے جیسا کہ ٹانک اور ڈیرہ اسمٰعیل خان وغیرہ، وہاں پر پولیس موجود ہے مگر اتنے بڑے کانوائے کو کسی ایک جگہ بھی روک کر نہیں پوچھا گیا کہ بھائی کہاں جارہے ہو؟
چلیں یہ سب پولیس کی وردیوں میں تھے تو بھی کاو نٹر چیکنگ تو کی جانے چاہیے تھی۔ سب کو معلوم ہے کہ اس علاقے میں کارروائی پولیس نہیں کرتی اور فوج کرتی ہے۔ پھر قبائلی علاقے میں پولیس کی موجودگی چہ معنی دارد؟ یہ سب لوگ ایک طویل جلوس کی صورت میں چار سے پانچ گھنٹے کا سفر کرکے ڈیرہ اسمٰعیل خان گئے اور ایک کامیاب کارروائی بھی کرڈالی۔ یہ کارروائی پلک جھپکتے میں مکمل نہیں ہوگئی۔ چار گھنٹے تک اطمینان کے ساتھ انہوں نے اپنے ایک ایک ساتھی کو ڈھونڈا، ساتھ لیا اور پھر دوبارہ شمالی وزیرستان کی طرف چل پڑے۔ اب تو پورے جہاں کو پتا چل چکا تھا کہ کیا واردات ہوچکی ہے۔ رات کے اندھیرے میں یہ طویل قافلہ پوری ہیڈ لائٹ جلائے پھر سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑی راستوں پر چار گھنٹے کا سفر کرکے بغیر بال بیکا ہوئے اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں پہنچ چکا تھا۔ راستے میں ایک مرتبہ بھی کسی چیک پوسٹ پر ان کو نہیں روکا گیا۔ فوج کیا کررہی تھی؟ فضائیہ کیا کررہی تھی؟ اس نے راستے میں اس قافلے کو روکنے، اپنی اگلی چیک پوسٹوں کو آگاہ کرنے، ہیلی کاپٹر استعمال کرنے کے بجائے لکیر پیٹنے کو ترجیح دی اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں کرفیو لگا دیا۔“
ڈیرہ جیل پر حملے میں شمالی وزیرستان کے عناصر نے پوری طاقت استعمال کی۔ اگر ڈیرہ جیل پر حملے سے واپسی کے سفر میں جس میں چار پانچ گھنٹے لگے، ان سب کو تہہ تیغ کردیا ہوتا تو آج ضرب عضب اور ضرب خیبر نہ ہورہا ہوتا اور نہ یہ سانحہ پشاور ہوتا۔ جب سوات کا آپریشن کیا گیا تو دہشت گرد عناصر کے خاتمہ کے بجائے ان کو فرار کرانے کے پروگرام پر عمل کیا گیا۔ اسی مولوی فضل اللہ کو اس کے ساتھیوں سمیت ختم کردیا ہوتا تو پھر آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا کہ پاکستانی فوج کے سپہ سالار ہنگامی طور پر کابل جاتے اور افغان حکومت کو بتاتے کہ ان کی چھتری تلے بیٹھ کر مولوی فضل اللہ افغانستان سے پاکستان میںکیا کارنامے سرانجام دے رہا ہے۔
اگر پاکستان میں دہشت گردی روکنے میں سب لوگوں کو اتنی ہی دلچسپی ہے تو کوئی سیاسی پارٹی بلیک واٹر کے بارے میں سوال کیوں نہیں کرتی۔ اگر یہ سب لوگ پشاور میں معصوم بچوںکے خون پر اتنے ہی رنجیدہ ہیں تو یو ایس ایڈ کے کردار کے بارے میں بات کیوں نہیں کی جاتی۔ اگر یہ سب لوگ اتنے ہی ملک کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو واقعے کے بارے میں اصل حقائق قوم کو کیوں نہیں بتائے جارہے۔ یہاں تو شروع ہی اس طرح کیا گیا کہ دہشت گرد ایف سی یا فوج کی وردی میں ملبوس تھے۔ اگر ایسا ہی تھا تو مارے جانے والے دہشت گرد کیوں عام سے شلوار قمیض میں ملبوس ہیں۔ کیا مارے جانے کے بعد ان کے لباس تبدیل کردیے گئے۔ اگر یہ فوجی وردی میں بھی ہوتے تو یہ شکل سے فوجی معلوم ہورہے تھے؟۔ یہ تو شکل سے ہی ایک مخصوص ذہنیت کے گروپ کے لوگ معلوم ہورہے تھے۔
اصل بات کسی حادثہ کا رونما ہونا نہیں ہے، اصل بات اُس حادثے میں نااہلی کے ذمہ داروں کا تعین ہوتا ہے۔ آخر کیوں پوری دنیا میں اس بارے میں قومیں حساس ہوتی ہیں اور ذمہ داران گھروں کو بھیج دیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں جب تک یہ کلچر فروغ نہیں پائے گا۔ ہم اسی طرح کے حادثات کا شکار ہوتے رہیں گے۔ اس سانحے پر انٹیلی جنس ایجنسیوں کا محاسبہ ہونا چاہیے، صوبائی حکومت کا محاسبہ ہونا چاہیے اور وفاقی حکومت کا بھی۔ اور کم از کم ان کے اعلیٰ ترین عہدے داران کو گھر بھیج کر ان پر مقدمہ ضرور چلایا جانا چاہیے۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
مسعود انور