سانپوں کا شہنشہ ۔۔۔ ایک سیاسی نظم

زیف سید

محفلین
گوگا سائیں، ذات کا چوہان، سانپوں کا شہنشہ
سارا دن جنگل میں جا کے
کالے پھنیئر، ڈھائی گھڑیے، سنگ چور اور کوڑیالے
خالی ہاتھوں سے پکڑ کر
بھر کے بوری میں
کمر پر لاد کر گھر لوٹتا تھا

رات کو وہ اینٹھ کر ان شُوکتے پٹھوں کو
اپنی چارپائی میں بنا کرتا تھا
اور اس لجلجے، پھنکارتے بستر پہ ساری شب
مزے کی نیند سوتا تھا
سویرے سانپ اس کی چارپائی سے نکل کر
گاؤں بھر میں سرسراتے، پھنپھناتے تھے
سبھوں کی چھاتیاں دھک دھک لرزتی تھیں

یہ منظر گوگا سائیں دیکھتا تھا
اور اس کے قہقہوں کی سرمئی چمگادڑیں مستی میں آ کے رقص کرتی تھیں

کئی برسوں سے یہ معمول جاری تھا
مگر پھر سانپ آخر سانپ آخر سانپ ہے آخر
سو اک شب سرپھرا پھنیئر کوئی
گم پا کے سائیں کوسہانی نیند میں
آہستگی سے آستیں سے نکلا اور پھن کاڑھ کر وہ ڈنک مارا
گوگا سائیں کرب کی شدت سے سر اپنا پٹختا، چیختا پھرتا تھا
سارے کوڑیالے، ڈھائی گھڑیے، سنگ چور، افعی
بھڑوں کی طرح گوگا سائیں کے پیچھے لگے تھے
منتروں کے شبد اس کی جیبھ سے برفانی قلموں کی طرح لٹکے ہوئے تھے
اور گوگا سائیں کا سارا بدن ڈنکوں کی نیلی سوئی سے گودا ہوا تھا

آج کل دن رات گوگا سائیں، سانپوں کا شہنشہ، ذات کا چوہان
اپنے جھونپڑے کے ایک کونے میں
پڑا دیوار کو تکتا ہے
گر رسی کا سایہ بھی سرکتا ہے
تو دس دس گز کلیجہ گوگا سائیں کا اچھلتا ہے
 
زیف صاحب بہت عمدہ گوگا سائیں ساکن سیالکوٹ واقعی سپیروں کا سردار ہے اور اس کے نام کا استعارہ اور سانپوں کی تشبیہات بہت خوبصورتی سے لگائی گئی ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب علامتی نظم ہے زیف صاحب۔

اپنے بچپن میں بہت سے تماشے دیکھے سانپوں کے اور انہی موصوف کے نام سے، ویسے میں نے ان کا نام گُگّا پیر سنا تھا۔
 

زیف سید

محفلین
خوب علامتی نظم ہے زیف صاحب۔

اپنے بچپن میں بہت سے تماشے دیکھے سانپوں کے اور انہی موصوف کے نام سے، ویسے میں نے ان کا نام گُگّا پیر سنا تھا۔

جناب وارث صاحب، نظم کی پسندیدگی کا شکریہ۔ میں نے بھی ’گگا پیر‘ ہی سن رکھا ہے لیکن چوں کہ نظم میں ایک تاریخی یا روایتی کردار کو ہو بہو پیش نہیں کیا گیا بلکہ اسے فکشنالائز کیا گیا ہے، اس لیے میں نے مناسب یہی سمجھا کہ نام تھوڑا سا بدل دیا جائے۔

زیف
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے زیف، پسند آئی، علامتیں خوب ہیں،ب بلکہ ’ایک سیاسی نظم‘ کہنے کی ضرورت بھی نہیں۔
 

زیف سید

محفلین
اچھی نظم ہے زیف، پسند آئی، علامتیں خوب ہیں،ب بلکہ ’ایک سیاسی نظم‘ کہنے کی ضرورت بھی نہیں۔

آپ درست فرما رہے ہیں۔ “سیاسی نظم“ عنوان کا حصہ نہیں ہے، میں نے یہاں چند دوستوں کو نظم سنائی تو انہیں اس کا “مقصد“ سمجھنے میں دشواری پیش آئی۔ کہیں اشاعت کے لیے بھیجی تو اسے نکال دوں گا۔

پسندیدگی کا شکریہ۔

زیف
 
Top