گوگا سائیں، ذات کا چوہان، سانپوں کا شہنشہ
سارا دن جنگل میں جا کے
کالے پھنیئر، ڈھائی گھڑیے، سنگ چور اور کوڑیالے
خالی ہاتھوں سے پکڑ کر
بھر کے بوری میں
کمر پر لاد کر گھر لوٹتا تھا
رات کو وہ اینٹھ کر ان شُوکتے پٹھوں کو
اپنی چارپائی میں بنا کرتا تھا
اور اس لجلجے، پھنکارتے بستر پہ ساری شب
مزے کی نیند سوتا تھا
سویرے سانپ اس کی چارپائی سے نکل کر
گاؤں بھر میں سرسراتے، پھنپھناتے تھے
سبھوں کی چھاتیاں دھک دھک لرزتی تھیں
یہ منظر گوگا سائیں دیکھتا تھا
اور اس کے قہقہوں کی سرمئی چمگادڑیں مستی میں آ کے رقص کرتی تھیں
کئی برسوں سے یہ معمول جاری تھا
مگر پھر سانپ آخر سانپ آخر سانپ ہے آخر
سو اک شب سرپھرا پھنیئر کوئی
گم پا کے سائیں کوسہانی نیند میں
آہستگی سے آستیں سے نکلا اور پھن کاڑھ کر وہ ڈنک مارا
گوگا سائیں کرب کی شدت سے سر اپنا پٹختا، چیختا پھرتا تھا
سارے کوڑیالے، ڈھائی گھڑیے، سنگ چور، افعی
بھڑوں کی طرح گوگا سائیں کے پیچھے لگے تھے
منتروں کے شبد اس کی جیبھ سے برفانی قلموں کی طرح لٹکے ہوئے تھے
اور گوگا سائیں کا سارا بدن ڈنکوں کی نیلی سوئی سے گودا ہوا تھا
آج کل دن رات گوگا سائیں، سانپوں کا شہنشہ، ذات کا چوہان
اپنے جھونپڑے کے ایک کونے میں
پڑا دیوار کو تکتا ہے
گر رسی کا سایہ بھی سرکتا ہے
تو دس دس گز کلیجہ گوگا سائیں کا اچھلتا ہے
سارا دن جنگل میں جا کے
کالے پھنیئر، ڈھائی گھڑیے، سنگ چور اور کوڑیالے
خالی ہاتھوں سے پکڑ کر
بھر کے بوری میں
کمر پر لاد کر گھر لوٹتا تھا
رات کو وہ اینٹھ کر ان شُوکتے پٹھوں کو
اپنی چارپائی میں بنا کرتا تھا
اور اس لجلجے، پھنکارتے بستر پہ ساری شب
مزے کی نیند سوتا تھا
سویرے سانپ اس کی چارپائی سے نکل کر
گاؤں بھر میں سرسراتے، پھنپھناتے تھے
سبھوں کی چھاتیاں دھک دھک لرزتی تھیں
یہ منظر گوگا سائیں دیکھتا تھا
اور اس کے قہقہوں کی سرمئی چمگادڑیں مستی میں آ کے رقص کرتی تھیں
کئی برسوں سے یہ معمول جاری تھا
مگر پھر سانپ آخر سانپ آخر سانپ ہے آخر
سو اک شب سرپھرا پھنیئر کوئی
گم پا کے سائیں کوسہانی نیند میں
آہستگی سے آستیں سے نکلا اور پھن کاڑھ کر وہ ڈنک مارا
گوگا سائیں کرب کی شدت سے سر اپنا پٹختا، چیختا پھرتا تھا
سارے کوڑیالے، ڈھائی گھڑیے، سنگ چور، افعی
بھڑوں کی طرح گوگا سائیں کے پیچھے لگے تھے
منتروں کے شبد اس کی جیبھ سے برفانی قلموں کی طرح لٹکے ہوئے تھے
اور گوگا سائیں کا سارا بدن ڈنکوں کی نیلی سوئی سے گودا ہوا تھا
آج کل دن رات گوگا سائیں، سانپوں کا شہنشہ، ذات کا چوہان
اپنے جھونپڑے کے ایک کونے میں
پڑا دیوار کو تکتا ہے
گر رسی کا سایہ بھی سرکتا ہے
تو دس دس گز کلیجہ گوگا سائیں کا اچھلتا ہے