عادل ـ سہیل
محفلین
ستارے سیارے اور اُن کی چال ::: پہلا حصہ :::
ستارے اور سیارے اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں ، اللہ کا فرمان ہے ( اَلا یَعلمُ مَن خَلَقَ و ھُوَ اللَطِیفُ الخَبیر ) ( کیا جِس نے تخلیق کی ہے ( وہ اپنی مخلوق کے بارے میں ) نہیں جانتا اور(جبکہ) وہ (خالق) باریک بین اور مکمل خبر رکھنے والا بھی ہو ) سورت المُلک / آیت ١٤،
آئیے دیکھتے ہیں اکیلے ، لا شریک خالق نے اپنی اِس مخلوق کے بارے میں کیا بتا یا ہے ، اِس مخلوق کے کیا خواص ہیں اور یہ مخلوق کیا کرسکتی ہے اور کیا نہیں ، اور اِس مخلوق کو بنانے کی کیا حکمت ہے ؟
::: ستاروں ، سیاروں کی تخلیق کی حکمتیں :::
::: (١) رات کے اندھیرے میں راستے جاننا :::
( وَبِالنَّجمِ ہُم یَہتَدُونَ ) ( اور وہ (انسان) ستاروں کے ذریعے راستہ پاتے ہیں) سورت النحل / آیت ١٦ ،
( وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النُّجُومَ لِتَہتَدُواْ بِہَا فِی ظُلُمَاتِ البَرِّ وَالبَحرِ ) ( اور وہ(اللہ) ہی ہے جِس نے تُم لوگوں کے لیے ستاروں کو بنایا تا کہ تم اُن کے ذریعے خشکی اور پانی کے اندھیروں میں (راستوں)کی ہدایت پا سکو ) سورت الانعام / آیت ٩٧
::: (٢) سالوں (دِنوں وغیرہ) کی گنتی اور حِساب سیکھنا :::
اور فرمایا ( ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمسَ ضِیَآء ً وَالقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّہُ ذالِکَ اِلاَّ بِالحَقِّ یُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَومٍ یَعلَمُونَ ) ( وہ ( اللہ ) ہی ہے جِس نے سورج کو چمک دار اور چاند کو روشن بنایا اور چاند کی مزلیں مُقرر کِیں تا کہ تُم لوگ سالوں کی گنتی اور حِساب سیکھ سکو) سورت یُونُس / آیت ٥
::: (٣) دِن کی روشنی میں اللہ کا فضل (عِلم ، معاش وغیرہ ) کی تلاش کرنے کی سہولت :::
سورج اور چاند کو روشنی اور گرمی اور ٹھنڈک دی گئی ، اور خالق نے دونوں کو یہ صِفات اِنسانوں کی سہولت کے لیے دِیں،
(وَجَعَلنَا اللَّیلَ وَالنَّہَارَ آیَتَینِ فَمَحَونَآ آیَۃَ اللَّیلِ وَجَعَلنَآ آیَۃَ النَّہَارِ مُبصِرَۃً لِتَبتَغُوا فَضلاً مِّن رَّبِّکُم وَلِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالحِسَابَ وَکُلَّ شَیء ٍ فَصَّلنَاہُ تَفصِیلاً) ( اور ہم نے رات اور دِن کو دو نشانیاں بنایا ، پھر ہم نے رات کو بے روشنی کر دِیا اور دِن کو روشن واضح بنایا اِس لیے کہ تُم لوگ اپنے رب کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اِس لیے کہ تُم لوگ سالوں کی گنتی اور حِساب سیکھ سکو اور ہر ہر چیز کو ہم نے بہت اچھی طرح تفصیل سے بیان کر دِیا ہے) سورت الاِسراء (بنی اِسرائیل ) / آیت ١٢
::: (٤) دُنیا کے آسمان کی سجاوٹ اور شیطانوں کے لیے مار :::
( فَقَضَاہُنَّ سَبعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَومَینِ وَاَوحَی فِی کُلِّ سَمَآء ٍ اَمرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفظاً ذَلِکَ تَقدِیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (پس اللہ نے دو دِن میں سات آسمان بنا دئیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے )سے زینت دی اور(اُن کے ذریعے) نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غالب اور دانا کی ہے) سورت فصلت / آیت ١٢
( وَلَقَد زَ یَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلنَاہَا رُجُوماً لِّلشَّیَاطِینِ وَاَعتَدنَا لَہُم عَذَابَ السَّعِیرِ) (بیشک ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے ) سے سجایا اور انہیں شیطانوں کے لیے مار بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا جلانے والا عذاب تیار کر دیا ) سورت المُلک / آیت ٥
(اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنیَا بِزِینَۃٍ الکَوَاکِبِO وَحِفظاً مِّن کُلِّ شَیطَانٍ مَّارِدٍ O لَا یَسَّمَّعُونَ اِلَی المَلَاِ الاَعلَی وَیُقذَفُونَ مِن کُلِّ جَانِبٍ O دُحُوراً وَلَہُم عَذَابٌ وَاصِبٌ O اِلَّا مَن خَطِفَ الخَطفَۃَ فَاَتبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ) ( ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروںکی زینت سے آراستہ کیا O اور(ستاروں کے ذریعے) حفاظت کی ہر سر کش شیطان سےO (اب وہ شیاطین)عالم بالا کے فرشتوںکی باتوں کو سننے کے لیے کان بھی نہیں لگا سکتے بلکہ ہر طرف سے اُنہیں مارا جاتا ہے O اُنہیںبھگانے کے لیے اور اُن کے لیے دائمی عذاب ہےO مگر جو کوئی (اللہ کی مشیت سے ) ایک آدھ بات اُچک کر بھاگتا ہے تو فوراً ہی اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے O ) سورت الصافات / آیات ٦ تا ١٠
(وَحَفِظنَاہَا مِن کُلِّ شَیطَانٍ رَّجِیمٍ O اِلاَّ مَنِ استَرَقَ السَّمعَ فَاَتبَعَہُ شِہَابٌ مُّبِینٌ)( اور ہم نے آسمان کو ہر دُھتکارے ہوئے شیطان سے اِسے محفوظ کِیا ہاں کبھی کوئی چوری چوری کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے تو اُسکے پیچھے کُھلا (واضح طور پر ) دھکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے ) سورت الحِجر / آیت ١٧،١٨ ،
اِن آخری تین آیات میںاللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی کہ کبھی آسمانوں کی طرف جانے والے شیاطین وہاں کے فرشتوں کی کوئی بات سن پاتے ہیں ، اِس خبر سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ یہ نجومی لوگ ستاروں کی چالوں یا زائچوں یا دیگر ایسے '''شیطانی عُلوم''' کے نام پر اپنے اِن دوست شیطانوں کی لائی ہوئی خبر ہی لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور جب وہ خبر سچی ہو جاتی ہے تو وہی شیاطین اُن لوگوں کے دِلوں میں اپنی طرف سے پھیلائے ہوئے اِن عُلوم کی سچائی اور قدر و منزلت بڑھاتے ہیں ، اور اُنہیں اللہ کی راہ سے دُور ہی دُور لیے جاتے ہیں ، میں نے جو کچھ عُلوم کو نام لیے بغیر ''' شیطانی عُلوم ''' تو اِس پر کِسی پڑہنے والے کو غُصہ کرنے سے پہلے یہ مضمون اور اِس موضوع ''' شیطانی عُلوم ''' سے متعلق دیگر مضامین کا مطالعہ کر لینا چاہیے ، پھر بھی اگر کوئی شک یا غُصہ رہے تو میں ہر سوال کے جواب کے لیے حاضر ہوں، اِنشاء اللہ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین
مُبارک کی روشنی میں اور سلف الصالح کے فہم کے مُطابق جواب حاضر کِیا جائے گا۔
::: (٥) سب کے سب ستارے سیارے اللہ کے حُکم کے پابند ہیں :::
(اِنَّ رَبَّکُمُ اللَّہُ الَّذِی خَلَقَ السَمَاوَاتِ وَالاٌّ رضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی الَّیلَ النَّہَارَ یَطلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمسَ وَالقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِاَمرِہِ اَلاَ لَہُ الخَلقُ وَالاٌّ مرُ تَبَارَکَ اللَّہُ رَبُّ العَالَمِینَ O ادعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعًا وَخُفیَۃً اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ المُعتَدِینَ ) ( بے شک تُم سب کا رب اللہ ہے جِس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ دِن میں بنایا اور پھر عرش پر استوا فرمایا ، دِن کو رات سے اِس طرح چُھپا دیتا ہے کہ رات دِن کو بہت تیزی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اللہ کے حُکم کے پابند ہیں کیا اللہ کے لیے ہی نہیں تخلیق کرنا اور( پھر اپنی مخلوق کا ) اِنتظام کرنا بزرگی والا ہے اللہ جو سب جہانوں کو پالنے والا ہے (لہذا ) تُم لوگ اپنے رب کو عاجزی ( و اِنکساری ) اور آہستگی ( چیخ چیخ کر نہیں بلکہ ادب کے ساتھ) پُکارو ( اور یاد رکھو ) کہ بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) سورت الأعراف / آیت ٥٤ ، ٥٥
پہلی آیت مبارکہ ہمارے موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ اِس بات کے بہت سے دلائل میں سے ایک ہے کہ ''' اللہ تعالیٰ ہر جگہ مُوجُود نہیں بلکہ اپنی تما تر مخلوق سے الگ عرش سے اُوپر ہے ''' اِ سلامی عقیدے کے اِس بُنیادی موضوع پر میری ایک کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' مکمل ہے الحمدُ للہ اور پڑھنے کے خواہش مند کو اِنشاء اللہ برقی کتاب e-book اِرسال کی جاسکتی ہے ۔
اِن ستاروں کا ذِکر فرمانے کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے صِرف اُسی سے ہی دُعا کرنا کا حُکم دِیا ہے جو اِس بات پر اِنکار ہے کہ یہ ستارے کِسی کا کوئی فائدہ یا نقصان کر سکتے ہیں ، اور دُعا کا ادب بھی سیکھایا ہے کہ عاجزی اور آہستگی سے دُعا کی جائے اور پھر یہ فرما کر کہ اللہ حُدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا یہ سمجھایا ہے کہ ستاروں سیاروں وغیرہ سے خیر و شر کی توقع رکھنا اللہ کی حُدود سے خارج ہونا ہے ۔
::: (٦) ستاروں سیاروں میں سب سے اہم اور مرکزی سورج بھی خُود کچھ نہیں کر سکتا:::
( لاَ الشَّمسُ یَنبَغِی لَہَآ اَن تدرِکَ القَمَرَ وَلاَ اللَّیلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسبَحُونَ)( نہ ہی سورج کی یہ جُرات ہے کہ وہ ( اللہ کی مُقرر کردہ حُدُود سے نکل کر ) چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دِن سے آگے نکل سکتی ہے ، اور یہ سب کے سب آسمان میں تیرتے پِھر رہے ہیں) سورت یاسین /آیت ٤٠
(٧) ::: ستاروں سیاروں میں دوسرا اہم اور مرکزی چاند بھی اپنی مرضی سے اپنی چال تک بھی نہیں بدل سکتا :::
( وَالقَمَرَ قَدَّرنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالعُرجُونِ القَدِیمِ )( اور ہم نے چاند کی منزلیں طے کر دِیں یہاں تک کہ وہ ( ہماری مُقرر کردہ منزلوں پر پابند رہتے ہوئے) کھجور کی خشک ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے) سورت یاسین /آیت٣٩
یہاں تک ذِکر کیے گئے ، اللہ تعالیٰ کے فرامین سے بڑی وضاحت سے پتہ چل جاتا ہے کہ ستاروں سیاروں کو بنانے کی کیا حکمتیں ہیں ، اِن میں کہیں اِشارۃً بھی اایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ اللہ کی یہ مخلوق کِسی بھی دوسری مخلوق اور خاص طور پر اِنسان پر کِسی قِسم کو کوئی اثر رکھتا ہے یا کوئی فائدہ یا نقصان دے سکتا ہے ،چہ جائیکہ ان سے بھی کمزور چیز حروف اور ارقام کو کسی فائدے یا نقصان کا باث سمجھا جائے جی ہاں عملی طور پر یہ ہوتا ہے کہ کچھ حروف و ارقام کو خاص ترتیب سے لکھنے کی بنا پر کچھ کام واقع ہو جاتے ہیں ، کیوں ، اور کیسے اس کی تفصیل """جادُو """ والے مضامین میں بیان کی جا چکی ہے ، و للہ الحمد ۔،
اگلے حصے میں اِنشاء اللہ ستاروں کی چال کے بارے میں بات ہو گی ۔
السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہُ
طلبگارِ دُعا ، عادِل سہیل ظفر
ستارے اور سیارے اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں ، اللہ کا فرمان ہے ( اَلا یَعلمُ مَن خَلَقَ و ھُوَ اللَطِیفُ الخَبیر ) ( کیا جِس نے تخلیق کی ہے ( وہ اپنی مخلوق کے بارے میں ) نہیں جانتا اور(جبکہ) وہ (خالق) باریک بین اور مکمل خبر رکھنے والا بھی ہو ) سورت المُلک / آیت ١٤،
آئیے دیکھتے ہیں اکیلے ، لا شریک خالق نے اپنی اِس مخلوق کے بارے میں کیا بتا یا ہے ، اِس مخلوق کے کیا خواص ہیں اور یہ مخلوق کیا کرسکتی ہے اور کیا نہیں ، اور اِس مخلوق کو بنانے کی کیا حکمت ہے ؟
::: ستاروں ، سیاروں کی تخلیق کی حکمتیں :::
::: (١) رات کے اندھیرے میں راستے جاننا :::
( وَبِالنَّجمِ ہُم یَہتَدُونَ ) ( اور وہ (انسان) ستاروں کے ذریعے راستہ پاتے ہیں) سورت النحل / آیت ١٦ ،
( وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النُّجُومَ لِتَہتَدُواْ بِہَا فِی ظُلُمَاتِ البَرِّ وَالبَحرِ ) ( اور وہ(اللہ) ہی ہے جِس نے تُم لوگوں کے لیے ستاروں کو بنایا تا کہ تم اُن کے ذریعے خشکی اور پانی کے اندھیروں میں (راستوں)کی ہدایت پا سکو ) سورت الانعام / آیت ٩٧
::: (٢) سالوں (دِنوں وغیرہ) کی گنتی اور حِساب سیکھنا :::
اور فرمایا ( ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمسَ ضِیَآء ً وَالقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّہُ ذالِکَ اِلاَّ بِالحَقِّ یُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَومٍ یَعلَمُونَ ) ( وہ ( اللہ ) ہی ہے جِس نے سورج کو چمک دار اور چاند کو روشن بنایا اور چاند کی مزلیں مُقرر کِیں تا کہ تُم لوگ سالوں کی گنتی اور حِساب سیکھ سکو) سورت یُونُس / آیت ٥
::: (٣) دِن کی روشنی میں اللہ کا فضل (عِلم ، معاش وغیرہ ) کی تلاش کرنے کی سہولت :::
سورج اور چاند کو روشنی اور گرمی اور ٹھنڈک دی گئی ، اور خالق نے دونوں کو یہ صِفات اِنسانوں کی سہولت کے لیے دِیں،
(وَجَعَلنَا اللَّیلَ وَالنَّہَارَ آیَتَینِ فَمَحَونَآ آیَۃَ اللَّیلِ وَجَعَلنَآ آیَۃَ النَّہَارِ مُبصِرَۃً لِتَبتَغُوا فَضلاً مِّن رَّبِّکُم وَلِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالحِسَابَ وَکُلَّ شَیء ٍ فَصَّلنَاہُ تَفصِیلاً) ( اور ہم نے رات اور دِن کو دو نشانیاں بنایا ، پھر ہم نے رات کو بے روشنی کر دِیا اور دِن کو روشن واضح بنایا اِس لیے کہ تُم لوگ اپنے رب کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اِس لیے کہ تُم لوگ سالوں کی گنتی اور حِساب سیکھ سکو اور ہر ہر چیز کو ہم نے بہت اچھی طرح تفصیل سے بیان کر دِیا ہے) سورت الاِسراء (بنی اِسرائیل ) / آیت ١٢
::: (٤) دُنیا کے آسمان کی سجاوٹ اور شیطانوں کے لیے مار :::
( فَقَضَاہُنَّ سَبعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَومَینِ وَاَوحَی فِی کُلِّ سَمَآء ٍ اَمرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفظاً ذَلِکَ تَقدِیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (پس اللہ نے دو دِن میں سات آسمان بنا دئیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے )سے زینت دی اور(اُن کے ذریعے) نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غالب اور دانا کی ہے) سورت فصلت / آیت ١٢
( وَلَقَد زَ یَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلنَاہَا رُجُوماً لِّلشَّیَاطِینِ وَاَعتَدنَا لَہُم عَذَابَ السَّعِیرِ) (بیشک ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے ) سے سجایا اور انہیں شیطانوں کے لیے مار بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا جلانے والا عذاب تیار کر دیا ) سورت المُلک / آیت ٥
(اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنیَا بِزِینَۃٍ الکَوَاکِبِO وَحِفظاً مِّن کُلِّ شَیطَانٍ مَّارِدٍ O لَا یَسَّمَّعُونَ اِلَی المَلَاِ الاَعلَی وَیُقذَفُونَ مِن کُلِّ جَانِبٍ O دُحُوراً وَلَہُم عَذَابٌ وَاصِبٌ O اِلَّا مَن خَطِفَ الخَطفَۃَ فَاَتبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ) ( ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروںکی زینت سے آراستہ کیا O اور(ستاروں کے ذریعے) حفاظت کی ہر سر کش شیطان سےO (اب وہ شیاطین)عالم بالا کے فرشتوںکی باتوں کو سننے کے لیے کان بھی نہیں لگا سکتے بلکہ ہر طرف سے اُنہیں مارا جاتا ہے O اُنہیںبھگانے کے لیے اور اُن کے لیے دائمی عذاب ہےO مگر جو کوئی (اللہ کی مشیت سے ) ایک آدھ بات اُچک کر بھاگتا ہے تو فوراً ہی اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے O ) سورت الصافات / آیات ٦ تا ١٠
(وَحَفِظنَاہَا مِن کُلِّ شَیطَانٍ رَّجِیمٍ O اِلاَّ مَنِ استَرَقَ السَّمعَ فَاَتبَعَہُ شِہَابٌ مُّبِینٌ)( اور ہم نے آسمان کو ہر دُھتکارے ہوئے شیطان سے اِسے محفوظ کِیا ہاں کبھی کوئی چوری چوری کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے تو اُسکے پیچھے کُھلا (واضح طور پر ) دھکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے ) سورت الحِجر / آیت ١٧،١٨ ،
اِن آخری تین آیات میںاللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی کہ کبھی آسمانوں کی طرف جانے والے شیاطین وہاں کے فرشتوں کی کوئی بات سن پاتے ہیں ، اِس خبر سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ یہ نجومی لوگ ستاروں کی چالوں یا زائچوں یا دیگر ایسے '''شیطانی عُلوم''' کے نام پر اپنے اِن دوست شیطانوں کی لائی ہوئی خبر ہی لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور جب وہ خبر سچی ہو جاتی ہے تو وہی شیاطین اُن لوگوں کے دِلوں میں اپنی طرف سے پھیلائے ہوئے اِن عُلوم کی سچائی اور قدر و منزلت بڑھاتے ہیں ، اور اُنہیں اللہ کی راہ سے دُور ہی دُور لیے جاتے ہیں ، میں نے جو کچھ عُلوم کو نام لیے بغیر ''' شیطانی عُلوم ''' تو اِس پر کِسی پڑہنے والے کو غُصہ کرنے سے پہلے یہ مضمون اور اِس موضوع ''' شیطانی عُلوم ''' سے متعلق دیگر مضامین کا مطالعہ کر لینا چاہیے ، پھر بھی اگر کوئی شک یا غُصہ رہے تو میں ہر سوال کے جواب کے لیے حاضر ہوں، اِنشاء اللہ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین
مُبارک کی روشنی میں اور سلف الصالح کے فہم کے مُطابق جواب حاضر کِیا جائے گا۔
::: (٥) سب کے سب ستارے سیارے اللہ کے حُکم کے پابند ہیں :::
(اِنَّ رَبَّکُمُ اللَّہُ الَّذِی خَلَقَ السَمَاوَاتِ وَالاٌّ رضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی الَّیلَ النَّہَارَ یَطلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمسَ وَالقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِاَمرِہِ اَلاَ لَہُ الخَلقُ وَالاٌّ مرُ تَبَارَکَ اللَّہُ رَبُّ العَالَمِینَ O ادعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعًا وَخُفیَۃً اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ المُعتَدِینَ ) ( بے شک تُم سب کا رب اللہ ہے جِس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ دِن میں بنایا اور پھر عرش پر استوا فرمایا ، دِن کو رات سے اِس طرح چُھپا دیتا ہے کہ رات دِن کو بہت تیزی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اللہ کے حُکم کے پابند ہیں کیا اللہ کے لیے ہی نہیں تخلیق کرنا اور( پھر اپنی مخلوق کا ) اِنتظام کرنا بزرگی والا ہے اللہ جو سب جہانوں کو پالنے والا ہے (لہذا ) تُم لوگ اپنے رب کو عاجزی ( و اِنکساری ) اور آہستگی ( چیخ چیخ کر نہیں بلکہ ادب کے ساتھ) پُکارو ( اور یاد رکھو ) کہ بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) سورت الأعراف / آیت ٥٤ ، ٥٥
پہلی آیت مبارکہ ہمارے موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ اِس بات کے بہت سے دلائل میں سے ایک ہے کہ ''' اللہ تعالیٰ ہر جگہ مُوجُود نہیں بلکہ اپنی تما تر مخلوق سے الگ عرش سے اُوپر ہے ''' اِ سلامی عقیدے کے اِس بُنیادی موضوع پر میری ایک کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' مکمل ہے الحمدُ للہ اور پڑھنے کے خواہش مند کو اِنشاء اللہ برقی کتاب e-book اِرسال کی جاسکتی ہے ۔
اِن ستاروں کا ذِکر فرمانے کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے صِرف اُسی سے ہی دُعا کرنا کا حُکم دِیا ہے جو اِس بات پر اِنکار ہے کہ یہ ستارے کِسی کا کوئی فائدہ یا نقصان کر سکتے ہیں ، اور دُعا کا ادب بھی سیکھایا ہے کہ عاجزی اور آہستگی سے دُعا کی جائے اور پھر یہ فرما کر کہ اللہ حُدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا یہ سمجھایا ہے کہ ستاروں سیاروں وغیرہ سے خیر و شر کی توقع رکھنا اللہ کی حُدود سے خارج ہونا ہے ۔
::: (٦) ستاروں سیاروں میں سب سے اہم اور مرکزی سورج بھی خُود کچھ نہیں کر سکتا:::
( لاَ الشَّمسُ یَنبَغِی لَہَآ اَن تدرِکَ القَمَرَ وَلاَ اللَّیلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسبَحُونَ)( نہ ہی سورج کی یہ جُرات ہے کہ وہ ( اللہ کی مُقرر کردہ حُدُود سے نکل کر ) چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دِن سے آگے نکل سکتی ہے ، اور یہ سب کے سب آسمان میں تیرتے پِھر رہے ہیں) سورت یاسین /آیت ٤٠
(٧) ::: ستاروں سیاروں میں دوسرا اہم اور مرکزی چاند بھی اپنی مرضی سے اپنی چال تک بھی نہیں بدل سکتا :::
( وَالقَمَرَ قَدَّرنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالعُرجُونِ القَدِیمِ )( اور ہم نے چاند کی منزلیں طے کر دِیں یہاں تک کہ وہ ( ہماری مُقرر کردہ منزلوں پر پابند رہتے ہوئے) کھجور کی خشک ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے) سورت یاسین /آیت٣٩
یہاں تک ذِکر کیے گئے ، اللہ تعالیٰ کے فرامین سے بڑی وضاحت سے پتہ چل جاتا ہے کہ ستاروں سیاروں کو بنانے کی کیا حکمتیں ہیں ، اِن میں کہیں اِشارۃً بھی اایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ اللہ کی یہ مخلوق کِسی بھی دوسری مخلوق اور خاص طور پر اِنسان پر کِسی قِسم کو کوئی اثر رکھتا ہے یا کوئی فائدہ یا نقصان دے سکتا ہے ،چہ جائیکہ ان سے بھی کمزور چیز حروف اور ارقام کو کسی فائدے یا نقصان کا باث سمجھا جائے جی ہاں عملی طور پر یہ ہوتا ہے کہ کچھ حروف و ارقام کو خاص ترتیب سے لکھنے کی بنا پر کچھ کام واقع ہو جاتے ہیں ، کیوں ، اور کیسے اس کی تفصیل """جادُو """ والے مضامین میں بیان کی جا چکی ہے ، و للہ الحمد ۔،
اگلے حصے میں اِنشاء اللہ ستاروں کی چال کے بارے میں بات ہو گی ۔
السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہُ
طلبگارِ دُعا ، عادِل سہیل ظفر