ستارے سیارے اور اُن کی چال ::: پہلا حصہ ::: ستارے اور سیارے اللہ سبحانہُ و تعالیٰ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہیں ، اللہ کا فرمان ہے ( اَلا یَعلمُ مَن خَلَقَ و ھُوَ اللَطِیفُ الخَبیر ) ( کیا جِس نے تخلیق کی ہے ( وہ اپنی مخلوق کے بارے میں ) نہیں جانتا اور(جبکہ) وہ (خالق) باریک بین اور مکمل خبر رکھنے والا بھی ہو ) سورت المُلک / آیت ١٤،
آئیے دیکھتے ہیں اکیلے ، لا شریک خالق نے اپنی اِس مخلوق کے بارے میں کیا بتا یا ہے ، اِس مخلوق کے کیا خواص ہیں اور یہ مخلوق کیا کرسکتی ہے اور کیا نہیں ، اور اِس مخلوق کو بنانے کی کیا حکمت ہے ؟ ::: ستاروں ، سیاروں کی تخلیق کی حکمتیں ::: ::: (١) رات کے اندھیرے میں راستے جاننا ::: ( وَبِالنَّجمِ ہُم یَہتَدُونَ ) ( اور وہ (انسان) ستاروں کے ذریعے راستہ پاتے ہیں) سورت النحل / آیت ١٦ ، ( وَہُوَ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ النُّجُومَ لِتَہتَدُواْ بِہَا فِی ظُلُمَاتِ البَرِّ وَالبَحرِ ) ( اور وہ(اللہ) ہی ہے جِس نے تُم لوگوں کے لیے ستاروں کو بنایا تا کہ تم اُن کے ذریعے خشکی اور پانی کے اندھیروں میں (راستوں)کی ہدایت پا سکو ) سورت الانعام / آیت ٩٧ ::: (٢) سالوں (دِنوں وغیرہ) کی گنتی اور حِساب سیکھنا :::
اور فرمایا ( ہُوَ الَّذِی جَعَلَ الشَّمسَ ضِیَآء ً وَالقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالحِسَابَ مَا خَلَقَ اللَّہُ ذالِکَ اِلاَّ بِالحَقِّ یُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَومٍ یَعلَمُونَ ) ( وہ ( اللہ ) ہی ہے جِس نے سورج کو چمک دار اور چاند کو روشن بنایا اور چاند کی مزلیں مُقرر کِیں تا کہ تُم لوگ سالوں کی گنتی اور حِساب سیکھ سکو) سورت یُونُس / آیت ٥ ::: (٣) دِن کی روشنی میں اللہ کا فضل (عِلم ، معاش وغیرہ ) کی تلاش کرنے کی سہولت :::
سورج اور چاند کو روشنی اور گرمی اور ٹھنڈک دی گئی ، اور خالق نے دونوں کو یہ صِفات اِنسانوں کی سہولت کے لیے دِیں، (وَجَعَلنَا اللَّیلَ وَالنَّہَارَ آیَتَینِ فَمَحَونَآ آیَۃَ اللَّیلِ وَجَعَلنَآ آیَۃَ النَّہَارِ مُبصِرَۃً لِتَبتَغُوا فَضلاً مِّن رَّبِّکُم وَلِتَعلَمُوا عَدَدَ السِّنِینَ وَالحِسَابَ وَکُلَّ شَیء ٍ فَصَّلنَاہُ تَفصِیلاً) ( اور ہم نے رات اور دِن کو دو نشانیاں بنایا ، پھر ہم نے رات کو بے روشنی کر دِیا اور دِن کو روشن واضح بنایا اِس لیے کہ تُم لوگ اپنے رب کا فضل حاصل کرنے کی کوشش کرو اور اِس لیے کہ تُم لوگ سالوں کی گنتی اور حِساب سیکھ سکو اور ہر ہر چیز کو ہم نے بہت اچھی طرح تفصیل سے بیان کر دِیا ہے) سورت الاِسراء (بنی اِسرائیل ) / آیت ١٢ ::: (٤) دُنیا کے آسمان کی سجاوٹ اور شیطانوں کے لیے مار ::: ( فَقَضَاہُنَّ سَبعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَومَینِ وَاَوحَی فِی کُلِّ سَمَآء ٍ اَمرَہَا وَزَیَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَحِفظاً ذَلِکَ تَقدِیرُ العَزِیزِ العَلِیمِ ) (پس اللہ نے دو دِن میں سات آسمان بنا دئیے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے )سے زینت دی اور(اُن کے ذریعے) نگہبانی کی یہ تدبیر اللہ غالب اور دانا کی ہے) سورت فصلت / آیت ١٢ ( وَلَقَد زَ یَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلنَاہَا رُجُوماً لِّلشَّیَاطِینِ وَاَعتَدنَا لَہُم عَذَابَ السَّعِیرِ) (بیشک ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے ) سے سجایا اور انہیں شیطانوں کے لیے مار بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا جلانے والا عذاب تیار کر دیا ) سورت المُلک / آیت ٥ (اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاء الدُّنیَا بِزِینَۃٍ الکَوَاکِبِO وَحِفظاً مِّن کُلِّ شَیطَانٍ مَّارِدٍ O لَا یَسَّمَّعُونَ اِلَی المَلَاِ الاَعلَی وَیُقذَفُونَ مِن کُلِّ جَانِبٍ O دُحُوراً وَلَہُم عَذَابٌ وَاصِبٌ O اِلَّا مَن خَطِفَ الخَطفَۃَ فَاَتبَعَہُ شِہَابٌ ثَاقِبٌ) ( ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروںکی زینت سے آراستہ کیا O اور(ستاروں کے ذریعے) حفاظت کی ہر سر کش شیطان سےO (اب وہ شیاطین)عالم بالا کے فرشتوںکی باتوں کو سننے کے لیے کان بھی نہیں لگا سکتے بلکہ ہر طرف سے اُنہیں مارا جاتا ہے O اُنہیںبھگانے کے لیے اور اُن کے لیے دائمی عذاب ہےO مگر جو کوئی (اللہ کی مشیت سے ) ایک آدھ بات اُچک کر بھاگتا ہے تو فوراً ہی اس کے پیچھے دہکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے O ) سورت الصافات / آیات ٦ تا ١٠ (وَحَفِظنَاہَا مِن کُلِّ شَیطَانٍ رَّجِیمٍ O اِلاَّ مَنِ استَرَقَ السَّمعَ فَاَتبَعَہُ شِہَابٌ مُّبِینٌ)( اور ہم نے آسمان کو ہر دُھتکارے ہوئے شیطان سے اِسے محفوظ کِیا ہاں کبھی کوئی چوری چوری کچھ سننے کی کوشش کرتا ہے تو اُسکے پیچھے کُھلا (واضح طور پر ) دھکتا ہوا شعلہ لگ جاتا ہے ) سورت الحِجر / آیت ١٧،١٨ ، اِن آخری تین آیات میںاللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی کہ کبھی آسمانوں کی طرف جانے والے شیاطین وہاں کے فرشتوں کی کوئی بات سن پاتے ہیں ، اِس خبر سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ یہ نجومی لوگ ستاروں کی چالوں یا زائچوں یا دیگر ایسے '''شیطانی عُلوم''' کے نام پر اپنے اِن دوست شیطانوں کی لائی ہوئی خبر ہی لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور جب وہ خبر سچی ہو جاتی ہے تو وہی شیاطین اُن لوگوں کے دِلوں میں اپنی طرف سے پھیلائے ہوئے اِن عُلوم کی سچائی اور قدر و منزلت بڑھاتے ہیں ، اور اُنہیں اللہ کی راہ سے دُور ہی دُور لیے جاتے ہیں ، میں نے جو کچھ عُلوم کو نام لیے بغیر ''' شیطانی عُلوم ''' تو اِس پر کِسی پڑہنے والے کو غُصہ کرنے سے پہلے یہ مضمون اور اِس موضوع ''' شیطانی عُلوم ''' سے متعلق دیگر مضامین کا مطالعہ کر لینا چاہیے ، پھر بھی اگر کوئی شک یا غُصہ رہے تو میں ہر سوال کے جواب کے لیے حاضر ہوں، اِنشاء اللہ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین
مُبارک کی روشنی میں اور سلف الصالح کے فہم کے مُطابق جواب حاضر کِیا جائے گا۔ ::: (٥) سب کے سب ستارے سیارے اللہ کے حُکم کے پابند ہیں ::: (اِنَّ رَبَّکُمُ اللَّہُ الَّذِی خَلَقَ السَمَاوَاتِ وَالاٌّ رضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوَی عَلَی العَرشِ یُغشِی الَّیلَ النَّہَارَ یَطلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمسَ وَالقَمَرَ وَالنُّجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِاَمرِہِ اَلاَ لَہُ الخَلقُ وَالاٌّ مرُ تَبَارَکَ اللَّہُ رَبُّ العَالَمِینَ O ادعُوا رَبَّکُم تَضَرُّعًا وَخُفیَۃً اِنَّہُ لاَ یُحِبُّ المُعتَدِینَ ) ( بے شک تُم سب کا رب اللہ ہے جِس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ دِن میں بنایا اور پھر عرش پر استوا فرمایا ، دِن کو رات سے اِس طرح چُھپا دیتا ہے کہ رات دِن کو بہت تیزی سے آ لیتی ہے اور سورج اور چاند اور ستارے اللہ کے حُکم کے پابند ہیں کیا اللہ کے لیے ہی نہیں تخلیق کرنا اور( پھر اپنی مخلوق کا ) اِنتظام کرنا بزرگی والا ہے اللہ جو سب جہانوں کو پالنے والا ہے (لہذا ) تُم لوگ اپنے رب کو عاجزی ( و اِنکساری ) اور آہستگی ( چیخ چیخ کر نہیں بلکہ ادب کے ساتھ) پُکارو ( اور یاد رکھو ) کہ بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا) سورت الأعراف / آیت ٥٤ ، ٥٥
پہلی آیت مبارکہ ہمارے موضوع کی دلیل کے ساتھ ساتھ اِس بات کے بہت سے دلائل میں سے ایک ہے کہ ''' اللہ تعالیٰ ہر جگہ مُوجُود نہیں بلکہ اپنی تما تر مخلوق سے الگ عرش سے اُوپر ہے ''' اِ سلامی عقیدے کے اِس بُنیادی موضوع پر میری ایک کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' مکمل ہے الحمدُ للہ اور پڑھنے کے خواہش مند کو اِنشاء اللہ برقی کتاب e-book اِرسال کی جاسکتی ہے ۔
اِن ستاروں کا ذِکر فرمانے کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے صِرف اُسی سے ہی دُعا کرنا کا حُکم دِیا ہے جو اِس بات پر اِنکار ہے کہ یہ ستارے کِسی کا کوئی فائدہ یا نقصان کر سکتے ہیں ، اور دُعا کا ادب بھی سیکھایا ہے کہ عاجزی اور آہستگی سے دُعا کی جائے اور پھر یہ فرما کر کہ اللہ حُدود سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا یہ سمجھایا ہے کہ ستاروں سیاروں وغیرہ سے خیر و شر کی توقع رکھنا اللہ کی حُدود سے خارج ہونا ہے ۔ ::: (٦) ستاروں سیاروں میں سب سے اہم اور مرکزی سورج بھی خُود کچھ نہیں کر سکتا::: ( لاَ الشَّمسُ یَنبَغِی لَہَآ اَن تدرِکَ القَمَرَ وَلاَ اللَّیلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسبَحُونَ)( نہ ہی سورج کی یہ جُرات ہے کہ وہ ( اللہ کی مُقرر کردہ حُدُود سے نکل کر ) چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دِن سے آگے نکل سکتی ہے ، اور یہ سب کے سب آسمان میں تیرتے پِھر رہے ہیں) سورت یاسین /آیت ٤٠ (٧) ::: ستاروں سیاروں میں دوسرا اہم اور مرکزی چاند بھی اپنی مرضی سے اپنی چال تک بھی نہیں بدل سکتا ::: ( وَالقَمَرَ قَدَّرنَاہُ مَنَازِلَ حَتَّی عَادَ کَالعُرجُونِ القَدِیمِ )( اور ہم نے چاند کی منزلیں طے کر دِیں یہاں تک کہ وہ ( ہماری مُقرر کردہ منزلوں پر پابند رہتے ہوئے) کھجور کی خشک ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے) سورت یاسین /آیت٣٩ یہاں تک ذِکر کیے گئے ، اللہ تعالیٰ کے فرامین سے بڑی وضاحت سے پتہ چل جاتا ہے کہ ستاروں سیاروں کو بنانے کی کیا حکمتیں ہیں ، اِن میں کہیں اِشارۃً بھی اایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ اللہ کی یہ مخلوق کِسی بھی دوسری مخلوق اور خاص طور پر اِنسان پر کِسی قِسم کو کوئی اثر رکھتا ہے یا کوئی فائدہ یا نقصان دے سکتا ہے ،چہ جائیکہ ان سے بھی کمزور چیز حروف اور ارقام کو کسی فائدے یا نقصان کا باث سمجھا جائے جی ہاں عملی طور پر یہ ہوتا ہے کہ کچھ حروف و ارقام کو خاص ترتیب سے لکھنے کی بنا پر کچھ کام واقع ہو جاتے ہیں ، کیوں ، اور کیسے اس کی تفصیل """جادُو """ والے مضامین میں بیان کی جا چکی ہے ، و للہ الحمد ۔،
اگلے حصے میں اِنشاء اللہ ستاروں کی چال کے بارے میں بات ہو گی ۔
السلام علیکم ورحمۃُ اللہ و برکاتہُ
طلبگارِ دُعا ، عادِل سہیل ظفر
سابقہ یعنی پہلے حصے میں بات رکی تھی کہ """ یہاں تک ذِکر کیے گئے ، اللہ تعالیٰ کے فرامین سے بڑی وضاحت سے پتہ چل جاتا ہے کہ ستاروں سیاروں کو بنانے کی کیا حکمتیں ہیں ، اِن میں کہیں اِشارۃً بھی اایسی کوئی بات نہیں ملتی کہ اللہ کی یہ مخلوق کِسی بھی دوسری مخلوق اور خاص طور پر اِنسان پر کِسی قِسم کو کوئی اثر رکھتا ہے یا کوئی فائدہ یا نقصان دے سکتا ہے ، چہ جائیکہ ان سے بھی کمزور چیز حروف اور ارقام کو کسی فائدے یا نقصان کا باث سمجھا جائے جی ہاں عملی طور پر یہ ہوتا ہے کہ کچھ حروف و ارقام کو خاص ترتیب سے لکھنے کی بنا پر کچھ کام واقع ہو جاتے ہیں ، کیوں ، اور کیسے اس کی تفصیل """جادُو """ والے مضامین میں بیان کی جا چکی ہے ، و للہ الحمد ۔""" اب سابقہ سے پیوستہ یہ کہ :::::
یہ بات تو تھی اِن ستاروں سیاروں کی ذات کے اثر پذیر ہونے کی اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اِن کی چال اور منزلیں جنہیں بُرج بھی کہا جاتا ہے ، اور ان کی عجیب و ریب قوتیں تصور کی جاتی ہیں ، اُن کے بارے میں خالق و مالک اللہ سُبحانہُ و تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے ؟ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ابھی ابھی ذِکر کی گئی آیات میں سے حکمت ٢ اور حِکمت ٧ میں ذِکر کی گئی آیات کو بھی ذہن میں رکھیے اور مزید یہ ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ( تَبَارَکَ الَّذِی جَعَلَ فِی السَّمَآء ِ بُرُوجاً وَجَعَلَ فِیہَا سِرَاجاً وَقَمَراً مُّنِیراً) ( بزرگی ہے اللہ کی جِس نے آسمان میں بُرج بنائے اور آسمان میں چراغ (سورج) بنایا اور چمکتا ہوا چاند بنایا) سورت الفُرقان / آیت٦١ (وَلَقَد جَعَلنَا فِی السَّمَاء ِ بُرُوجاً وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ )( اور یقینا ہم نے آسمان میں بُرج بنائے اور آسمان کو دیکھنے والوں کے لیے سجایا ) سورت الحِجر /آیت ١٦ ( وَالسَّمَاء ذَاتِ البُرُوجِ )( اور قَسم ہے آسمان کی جو بُرجوں والا ہے ) سورت البُروج ، پہلی آیت، اللہ تعالیٰ کے فرامین میں ''' بُروجا اور بُروج ''' کی تفسیر میں صحابہ اور تابعین کے دو قول پائے جاتے ہیں ،(١) بُروج سے مُراد بہت بڑے ستارے ہیں جو دیگر ستاروں کی نسبت بہت واضح ہوتے ہیں (٢) بُرج بلند اور کھلے محل کو کہا جاتا ہے ، لہذا ''' بُرُوج ''' سے مُراد آسمان کی حفاظت کرنے والے فرشتوں کی رہائش گاہیں ہیں ،
لُغوی اعتبار سے کِسی بھی اونچی، صاف واضح طور پر نظر آنے والے چیز کو بُرج کہا جاتا ہے ،اِسی لیے کِسی چیز کے کھلے اظہار کو ''' التبرُّج ''' کہا جاتا ہے ، اونچی عمارتوں ، مِنار وں یا مِنار نُما عِمارتوں کو ''' بُرج '' اِسی بنیاد پر کہا جاتا ہے ،
مندرجہ بالا دونوں قول اپنی اپنی جگہ درست ہیں ، جیسا کہ اللہ نے فرمایا ( وَلَقَد زَ یَّنَّا السَّمَآء َ الدُّنیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلنَاہَا رُجُوماً لِّلشَّیَاطِینِ وَاََعتَدنَا لَہُم عَذَابَ السَّعِیرِ)(بیشک ہم نے دُنیا کے آسمان کو چراغوں (یعنی ستاروں سے ) سے سجایا اور انہیں شیطانوں کے لیے مار بنا دیا اور شیطانوں کے لیے ہم نے دوزخ کا جلانے والا عذاب تیار کر دیا ) سورت المُلک / آیت ٥
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے پہلے عرب میں اور غیر عرب میں ستاروں اور اُن کی چالوں کا عِلم موجود تھا یعنی ''' عِلمِ نُجُوم''' اور ستاروں کی چال کو جاننے کے لیے اِس عِلم سے متعلق لوگوں نے کچھ بُرج تصور کر کے اُن کو نام بھی دے رکھے تھے جو آج تک اِستعمال ہو رہے ہیں ، یہ نام ، حمل ،ثور ،جوزاء ،سرطان ،اسد ،سنبلۃ ،میزان ،عقرب ، قوس ،جدی ،دلو ،حوت ہیں ، قطع نظر اِس کے کہ بُرجوں کے یہ نام کہاں سے اور کیسے آئے ؟ کِسی بھی مُسلمان کے لیے اتنا ہی بہت کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان میں بُرج بنانے کا ذِکر فرمایا لیکن اُن بُرُوج (بُرجوں) کا ستاروں کی چال کے ساتھ متعلق ہونے کا کوئی ذِکر فرمایا نہ ہی بُروج ،ستاروں سیاروں ، اور اُن کی منزلوں ، کا اِنسانی زندگی یا کِسی بھی اور مخلوق پر اثر انداز ہونے کا ذِکر فرمایا نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے ایسی کوئی خبر ملتی ہے ،جی ہاں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے جو خبر ملتی ہے وہ اِس عقیدے اور خیال کی نفی کرتی ہے کہ ستارے سیارے بُروج ، ستاروں کی چالیں یہ سب کِسی بھی اور پر کوئی اثر رکھتی ہیں یا کوئی نفع و نقصان پہنچاسکتی ہیں ، یا اِنسانی شخصیات ، اُن کا مِزاج ، اُن کی صلاحیات اِن بُروج کے مُطابق ہوتی ہیں، یہ سب خیالات شیطان کی وحی ہیں جو اس نے اپنے دوستوں کی طرف کی اور اُس وقت سے اب تک اُس کے پیروکار جِنات میں سے اور انسانوں میں سے ، اِن خیالات کو پھیلائے جا رہے ہیں اور لوگوں کا اِیمان لوٹ رہے ہیں ،
::: آئیے اب دیکھتے ہیں """ علم نجوم """ قبل از اسلام کیا تھا اور اسلام میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس کو کس حد میں رکھا :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے عرب میں اور غیر عرب میں ستاروں اور اُن کی چالوں کا عِلم موجود تھا یعنی ''' عِلمِ نجوم''' اور لوگ اِسے تین طرح سے استعمال کرتے تھے ::: ::: (١) تاریخ کا حساب رکھنے کے لیے::: اللہ تعالیٰ کے وہ فرامین جِن کا ذِکر اِس مضمون کے آغازمیں کِیا گیا ہے ، کے مُطابق یہ کام تو یقینا جائز بلکہ مطلوب ہے ، ::: (٢) موسم کا اندازہ کرنے کے لیے ::: اور اِن میں سے کچھ ایسے تھے جو یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ موسم میں تغیرات یہ ستارے خود کرتے ہیں ،،،،، جبکہ یہ عقیدہ یا خیال سراسر شرک ہے ، ،،،، اور کچھ یہ سمجھتے تھے کہ ستارے خود نہیں کرتے بلکہ اِن کی چالوں اور مختلف بُرجوں میں پہنچنے کی وجہ سے آسمان میں ایسی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں جو موسم کو بدل دیتی ہیں ، اور اِس سوچ کے پیش نظر وہ ستاروں سیاروں کی چالوں کا حِساب رکھتے تھے ، گو کہ یہ بات کوئی یقینی نہیں لیکن چونکہ یہ شرکیہ سوچ نہیں اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مُخالفت میں داخل ہوئے بغیر اِنسانوں کے فائدے والا کوئی اندازہ قائم ہو سکتا ہے ، لہذا اِس میں کوئی حرج نہیں ، ::: (٣) شیطان کی وحی پر عمل کرتے ہوئے اِن ستاروں سیاروں اُن کی چالوں اور بُرجوں کے حساب اور زائچے بنا بنا کر آنے والے وقت کی خبریں بناتے اور لوگوں کو وہ سب باطل عقائد سِکھاتے جِن کا پچھلے پیرا گراف میں ذِکر کیا گیا ہے ، اور جب اُن کی خبریں سچی نہ ہوتِیں تو کہتے ہم تو اندازہ کرتے ہیں جو کبھی نادرست بھی ہو ہی جاتا ہے ، اور آج کے مسلمانوں میں بھی ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں ''' عِلم نجوم ، ستاروں کی چال کا عِلم ہے ہم اندازہ کرتے ہیں اگر کبھی وہ غلط ہو جائے تو جیسے اللہ کا حُکم ''' کوئی اِن سے پوچھے تو ''' جب اللہ کے حُکم سے ہی ہونا ہے جو ہونا ہے تو پھر اِن کاموں میں کیوں سر کھپاتے ہو جو اللہ کے حُکم کے خِلاف ہیں ؟''' ،
اُن پہلے ''' عِلم نُجوم ''' والوں میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو ستاروں سیاروں کو اتنا زیادہ طاقتور اور بارسوخ مانتے تھے اور اپنے اِرد گِرد والوں کو بھی یہ ہی سِکھاتے تھے یہاں تک کہ واضح طور پر اُنکی بدنی عِبادت کرتے تھے ، جِیسا کہ اِبراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں اور ملکہ سبا کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ، اور آج کے مسلمانوں میں بھی ایسے پائے جاتے ہیں جو اُن کے خیال کے مُطابق ستاروں کی خاص چالوں اور بُرجوں کی خاص حرکات یا بُرجوں کے خاص اوقات میں خاص عمل ادا کرتے ہیں اور نام صدقہ و خیرات کا دیتے ہیں ، اِنا لِلِّہِ و اِنَّا اِلیہِ راجِعُون، ٫ اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدُود میں رہتے ہوئے حاصل کیا جانے والا عِلم ''' رحمانی عُلوم ''' میں شُمار ہوتا ہے ، اور اُن حدود میں رہتے ہوئے اُس پر عمل اللہ کے ہاں مُقبُول ہوتا ہے ، اِنشاء اللہ ،
٫ اللہ سبحانہُ و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقرر کردہ حُدُود سے باہر ہو کر حاصل کیا جانا والا عِلم ''' شیطانی عُلوم ''' میں سے ہوتا ہے اور اُس پر عمل اللہ کی ناراضگی اور عذاب کا سبب ہوتا ہے ، اب تک جو آیات بیان کی گئی وہ سب اِس بات کی واضح دلیل ہیں کہ وہ ''' عِلمِ نُجوم ''' جو ''' ستاروں سیاروں کی چال ''' ''' بُرجوں ''' اور ''' منزلوں ''' وغیرہ کو بُنیاد بنا کر اللہ کی اِن مخلوقات کو وہ کُچھ بنا کر پیش کرتا ہے جو وہ نہیں ہیں اور اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتے ہوئے اُن کو اللہ کا شریک بناتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ اِس کلام کا کُفر یعنی اِنکار کرواتا ہے ، عقیدہ بھی اللہ کے قُران کا اِنکار ، اور عملی طور پر بھی اللہ کے قُران کا اِنکار ، یہ بات میری ذاتی سوچ یا سمجھ کی بنا پر نہیں کہی جا رہی بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فتویٰ ہے ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( مَن اَتَی عَرَّافاً اَو کَاہِناً فَصَدَّقَہ ُ فِیمَا یَقُولُ فَقَد کَفَرَ بِمَا اُنزلَِ عَلیَ مُحمَدٍ (صلی اللہ علیہ وسلم) ) ( جو کِسی (غیب کی خبر بتانے ) کے دعویٰ دار یا نجومی کے پاس گیا ، اور اُس کی کہی ہوئی بات کو دُرُست مانا ، تو اُس دُرُست ماننے والے نے جو کچھ مُحمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) پر نازل کِیا گیا اُس کا کفر کیا ) المستدرک الحاکم / حدیث ١٥ ، اِمام الحاکم ، اور اِمام الالبانی نے کہا حدیث صحیح ہے ، صحیح الترغیب و الترھیب ۳۰۴۷
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے ( لَیسَ مِنَا مَن سَحرَ ( اَو سُحِرَ لَہ ُ) اَو تَکہَّنَ اَو تُکھِّنَ لَہ ُ اَو تَطیَرَ اَو تُطِیِرَ لَہ ُ) ( جِس نے جادُو کِیا (یا جِس کے لیے جادُو کِیا گیا ) یا جِس نے (کِسی بھی ذریعے سے ) غیب جاننے کی کوشش کی یا جِس کے لیے یہ کوشش کی گئی ، یا جِس نے (کِسی بھی ذریعے سے ) شگون لیا یا جِس کے لیے شگون لیا گیا ، وہ ( اِن سب کاموں سے کوئی بھی کام کرنے والا ) ہم میں سے نہیں ) سلسلہ الصحیحۃ / حدیث ٢٦٥٠ ، اِس حدیث کی شرح میری زیرِ تیاری کتاب ''' وہ ہم میں سے نہیں ''' میں مل سکتی ہے ، وہاں کاہن ، عرّاف ، طیرہ وغیرہ کی تعریف اور فرق بیان کیا گیا ہے ،
مزید وضاحت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی اِس روایت میں ہو جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ( مَن اَقتَبَسَ عِلمَاً مِن النُّجُومِ اَقتَبَسَ شُعبَۃً مِن السَّحرِ ز َادَ مَا ز َادَ) ( جِس نے عِلمِ نُجُوم میں سے کوئی حصہ لیا ( سیکھا یا سوال کر کے کچھ جانا ) تو اُس نے جادُو کا حصہ لیا اور جتنا (علمِ نُجُوم میں سے) زیادہ کرے گا اُتنا ہی ( جادُو کے کُفرکا گناہ اُس پر ) زیادہ ہو گا ) سنن ابن ماجہ / حدیث ٣٩٠٥ / کتاب الطب /باب ٢٢ باب فی النجوم ، سنن البیہیقی الکُبریٰ ، حدیث
١٦٢٨٥ / کتاب القسامہ / باب ٢١ ما جا فی کراہیۃ اقتباس علم النجوم ، اِمام الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دِیا ، الصحیحہ ٧٩٣،
اِس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بالکل وضاحت سے ''' عِلمِ نُجُوم ''' کو جادُو قرار دِیا ہے ، اور جادُو کو اللہ تعالیٰ نے کُفر قرار دِیا ہے ، اِس روایت کے عِلاوہ دو اور روایات بھی ''' المشکاۃ المصابیح / کتاب الطب و الرقی / باب ٢الکہانہ ''' میں ہیں جو اِس مندرجہ بالا روایت سے کہیں زیادہ الفاظ والی ہیں ، لیکن فی الحال مجھے اُن کی صحت کا پتہ نہیں لگ سکا اِس لیے اُنہیں ذِکر نہیں کر رہا ہوں ،
اُن میں سے ایک روایت کو اِمام شمس الدین محمد الذہبی نے اِسی مندرجہ بالا حدیث کو نقل کرنے کے بعدعلی رضی اللہ عنہُ کے الفاظ کے طور پر نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ''' علی(رضی اللہ عنہُ ) بن ابی طالب نے فرمایا ::: کاہن (نجومی ، دست شناس ، زائچے بنانے والا ، فال نکالنے والا وغیرہ ) جادُو گر ہے ، اور جادُ گر کافر ہے :::''' الکبائر/ الکبیرۃ ٤٦ ، اللہ تعالیٰ کے فرامین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن ارشادات سے صاف طور پر یہ طے پاتا ہے کہ جائز ''' عِلمِ نُجُوم ''' تاریخ کا حِساب رکھنے اور سالوں کی گنتی کرنے تک محدود ہے ، اِس کے عِلاوہ جو کچھ بھی ''' عِلمِ نُجُوم ''' یا ''' مخفی عُلوم ''' کے طور پر کِسی بھی ڈھنگ میں جو کچھ سیکھا سیکھایا ، پڑھا پڑھایا ، کِیا کروایا جاتا ہے سب کچھ ''' جادُو ''' کے زُمرے میں آتا ہے ، اور '''جادُو''' حرام ہے ، اور جادُو گر کافر ہے جِسے قتل کرنے کا حُکم دِیا گیا ہے ، ان موضوعات کو """ جادُو """ سے متعلق مضامین میں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں ،
خاص طور پر ابھی ذِکر کی گئی دو احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کہانت ( علمِ نُجوم ، ہاتھ دیکھنے دِکھانے ، قیافہ شناسی اور اِس جیسے دیگر عُلوم) کو اور شُگون لینے کو جادُو قرار دِیا ہے ،
اِس کے عِلاوہ معاویہ بن الحکم السلمی رضی اللہ عنہُ کی ایک حدیث جِس میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کا ذِکر فرماتے ہیں ، بہت ہی فائدوں اور احکامات والی حدیث ہے ، اُس میں بھی شگون ، زائچے ، کہانت وغیرہ کے بارے میں بھی بڑی وضاحت ہے ، طوالت کے ڈر سے اُسے یہاں نقل نہیں کر رہا ہوں ، اِنشاء اللہ کِسی وقت ایک الگ مضمون کے طور پر شرح کے ساتھ پیش کروں گا ، گو کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ارشادات کے بعد کِسی بھی مسلمان کو کِسی اور دلیل یا حُجت کی حاجت نہیں ہوتی ، لیکن کُچھ دِلوں اور دماغوں پر منطق و فلسفے کا اثر زیادہ ہوتا ہے ایسے لوگوں کے لیے صرف اتنا ہی عرض کرتا ہوں کہ اپنے اِرد گِرد پھیلے ہوئے اَن گِنت ایسے نجومیوں ، قیافہ شناسوں ، دست شناسوں یعنی ہاتھ کی لیکریں دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والوں ، فالیں نکال نکال کر مستقبل کا حال بتانے والوں ، اور اِسی قبیل کے دیگر لوگوں کا ذاتی حال ملاحظہ فرمائیے ، من پسند شادیاں کروانے والے ، خاوندوں کو بیویوں کا اور بیویوں کو خاوندوں کا محبوب بنانے والوں کی اپنی ازدواجی زندگی کا حال کیا ہوتا ہے ؟لوگوں کو مستقبل کے خبریں دے کر اُنہیں ہدایات دینے والے ، رزق اور اولاد میں برکت کے وظیفے اور چارٹس وغیرہ بیچنے والے خود معاشی اور معاشرتی طور پر کِس حال میں رہتے ہیں ؟ کیوں اُن کے ستارے اور اُن کے بُرج اُن کی زندگیاں نہیں بدل پاتے ؟ کیوں وہ اپنے ستاروں اور بُرجُوں کے عُروج کے وقت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتے ؟ اور جُوں کے تُوں ہی زندگی بسر کرتے کرتے آخر کار مر ہی جاتے ہیں ، فاعتبروا یا اَولیٰ الاَبصار ::: پس عبرت حاصل کرو اے عقل والو ،
جو لوگ حقیقت جانے بغیر ، یا حق بات سامنے آنے کے بعد بھی پھر کِسی فلسفے ، منطق وغیرہ کا شِکار ہو کر اِس قِسم کے ''' مخفی عُلوم ''' جو در حقیقت ''' شیطانی عُلوم ''' ہیں کے دھوکے میں آ کر اِن پر عمل پیرا ہوتے ہیں ، یا اِن کی تشہیر اور نشر کا سبب
بنتے ہیں ، وہ بے چارے یقینا یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ اللہ نے اس کا کیا انجام مقرر فرمایا ہے ، ملاحظہ فرمایے ، ( وَیَتَعَلَّمُونَ مَا یَضُرُّہُم وَلاَ یَنفَعُہُم وَلَقَد عَلِمُوا لَمَنِ اشتَرَاہُ مَا لَہُ فِی الآخِرَۃِ مِن خَلاَقٍ وَلَبِئسَ مَا شَرَوا بِہِ اََنفُسَہُم لَو کَانُوا یَعلَمُونَ O وَلَو اََنَّہُم آمَنُوا واتَّقَوا لَمَثُوبَۃٌ مِّن عِندِ اللَّہِ خَیْْرٌ لَّو کَانُوا یَعلَمُونَ ) ( اور لوگ وہ کُچھ سیکھتے ہیں جو اُن کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان دیتا ہے اوریہ بھی جانتے ہیں کہ جو کوئی اِس (عِلم ) کو خریدے (سیکھے ) گا اُس کے لیئے آخرت میں کوئی خیر نہیں اور کیا ہی بُرا ہے وہ ( آخرت کا وہ اجر) جِس کے بدلے اِنہوں نے اپنی جانیں بیچ دی ہیں اگر یہ جانتے ہوتے O اور اگر وہ اِیمان لاتے ( یعنی واقعتا اللہ کی بات پر یقین و اِیمان رکھنے والے ہوتے ) اور اللہ ( کی نافرمانی اور عذاب )سے بچتے تو یقینا اللہ کی طرف سے اُن کو بہترین خیر والا اجر ملتا اگر یہ جانتے ہوتے) سورت البقرہ / آیت ١٠١، ١٠٢ ،
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہاروت اور ماروت کا قصہ بیان فرماتے ہوئے بتایا ہے کہ جِن لوگوں نے اُن دو فرشتوں سے جادُو سیکھا اُن کے لیئے آخرت کی خیر میں کوئی حصہ نہیں ، بلکہ شدید عذاب ہے ، دُنیا کا حاصل کرنے کے لیے آخرت کا عذاب خرید لیا ، اور اپنی جانوں کے عوض خرید لیا کہ اب آخرت میں اُن کی جانیں صِرف عذاب ہی بھگتیں گی ، اللہ تعالیٰ ہر مُسلمان کو دُنیا اور آخرت کے ہر عذاب اور رسوائی سے محفوظ رکھے،
ہمارے جو مُسلمان بھائی بہن اِن عُلوم کی کِسی بھی قِسم کی تشہیر یا اشاعت کا باعث بنتے ہیں اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے دو فرمان سناتا چلوں کہ (مَن دَلَّ علی خَیرٍ فَلَہُ مِثلُ اََجرِ فَاعِلِہِ)( جِس نے خیرکا راستہ بتایا تو راستہ بتانے والے کو اُس خیر پر عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملتا ہے ) صحیح مُسلم ، حدیث ١٨٩٣ / کتاب الاِمارۃ / باب ٣٨ ، ( کُلُّ بَنِی آدم خَطاءٌ وخَیرُ الخَطائِینَ التَّوَّابُونُ) ( آدم (علیہ السلام )کی ساری اولاد خطاء کرنے والی ہے اور سب سے اچھے خطاء کار وہ ہیں جو توبہ کر لیتے ہیں) مستدرک الحاکم حدیث ٧٦١٧، حدیث حسن صحیح الجامع الصغیر حدیث ١٤١٥
ہم سب کی کوشش ہونی چاہیے کہ ہم خیر پر عمل کرنے والے ،اُسکی راہ بتانے والے ہوں برائی اور گناہ کی نہیں ، اگر اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے ہمیں کوئی جھجھک نہیں تو اللہ اِس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ ہم اُسکی تابع فرمانی کرتے ہوئے کِسی شرم کا شکار نہ ہوں، اور اللہ کی طرف توبہ کریں ، حق بات کو قُبُول کریں اور اُس پر عمل کریں اُسکی تشہیر و اشاعت کریں۔
اپنی بات کا اختتام اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان پر کرتا ہوں ( وَ مَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَ لَا لِمُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسوُلَہُ اَمراً اَن یَکُونَ لَھُم الخِیرَۃُ مَن اَمرِھِم وَ مَن یَعصِ اللّٰٰہَ وَ رَسُولَہُ فَقَد ضَلَّ ضَلٰلاً مُبِیناً)( اور جب اللہ اور اُسکا رَسُول کوئی فیصلہ کر دیں تو کِسی ایمان والے اور کِسی ایمان والی عورت کے لیئے( اللہ اور اُس کے رَسُول کے فیصلے کے عِلاوہ) کوئی اختیار باقی رہتا ہے ، اور جِس نے اللہ اور اُس کے رَسُول کی نا فرمانی کی تو یقینا کُھلی گُمراہی میں جا پڑا ) سُورہ الاَحزاب/آیت ٣٦ ۔
السلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہ۔
طلبگارِ دُعا ، عادِل سُہیل ظفر ۔
شکریہ بھائی عادل ۔ سہیل آپ نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جن کی اس وقت بہت ضرورت ہے ........آج کل علم نجوم ہر اخبار اور رسالے کا لازمی جز بن چکا ہے ....جس کی وجہ سے اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی ان توہمات پر یقن کر لیتے ہیں .......آپ کا بہت شکریہ ....آپ نے قرآن و حدیث سے ان شرکیہ علوم کی اصلیت کھول کر بیان کی ......اللہ سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے........آمین
ستارے تو ان دنوں اس قدر چال باز ہو گئے ہیں کہ لوگ اخبارات میں ان کا کالم دیکھتے ہوئے پوچھے جائیں تو کہتے ہین کہ ارے نہیں یار مین ان پر یقین بالکل نہیں رکھتا۔ (ہاں دیکھتے ریگولر ہیں)
سوال:
کسی نے ایک عالم سے علمِ جفر و علمِ نجوم کے بارے میں سوال پوچھا۔ کہ۔۔۔اس بندہ کو شوق حصولِ علم جفر ہوا۔(علم جفر سیکھنے کا شوق پیدا ہوا) نقوش و ادعیات مرتبہ قاعدہ جفر زيادہ تر اثرات بروج و کواکب(برجوں او ر ستاروں و سیاروں) کے مبنی اور محتوی ہیں لہذا تھوڑا حصہ علم نجوم کا بھی معلوم کرنا لازمی ہوا۔اوقات و ساعات سبعہ سیارہ و منازل و بروج سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ٹھہرا،
پس "کچھ لوگوں" نے یک دم سرے سے علم نجوم ہی کو کل کفر ٹھہرایا۔اور بوجوہ ایں(اس وجہ سے) کہ احوالِ مغیبات(مستقبل کے حالات غیبیہ) نجوم و جفر سے دریافت ہوتے ہیں۔لہذا علم جفر کو اس کا چھوٹا بھائی بتایا اور ایک حدیث مشکوٰۃ کی ثبوتِ کفر میں پیش کی کہ کاہن و ساحر و منجم(نجومی) یک حکم (ایک ہی حکم)رکھتے ہیںاور علم نجوم سیکھنا اور سکھانا دونوں ہی کفر ہیں۔
میں کہتا ہوں کہ علم نجوم کل کفر ہو نہيں سکتا کیونکہ علماء و فضلاء و حکماء و مفسرین و محدثین کو تھوڑی واقفیت حقیقت اشیاء و جزئیات امور علم نجوم کی بھی ضرور ہے۔تا استدلال و تردید مذاہب باطلہ کی وہ بخوبی کرسکیں اور اس کی حقیقت و ماہیت و افعال و خواص سمجھیں اور بتائیں چنانچہ تمثیل و تطبیق میں مولانا روم علیہ الرحمۃ دفتر اول مثنوی معنوی میں فرماتےہیں۔
1۔۔۔۔ ہر کرابا اخترے پیوستگی ست ۔۔۔۔ مردر ابا اخترے خودہمتگی ست
2 ۔۔۔۔ طالعش گر زہرہ باشد باطرب ۔۔۔۔ میل کلی دار دآں عشق و طلب
3 ۔۔۔ دربود مریخی و خونریز خو ۔۔۔۔ جنگ و بہتان و خصومت جویداد
ترجمہ:1۔۔جس شخص کو ستاروں سے وابستگی ہے مرد کو ستاروں سے خود ہی ہمت لڑانی چاہیے۔
2۔عیش و عشرت رکھتے ہوئے ،جس کا طالع زہرہ ستارہ ہے وہ مکمل رجحان عشق کی جستجو کی طرف رکھتا ہے۔
3۔اگر اس کا طالع ستارہ مریخ ہے تو وہ خونریزی کی عادت اور لڑائی جھگڑا اور بہتان تراشی ڈھونڈتا رہتا ہے۔
اگر بے وجود ہوتا اور ضلالت کی بات تھی۔تو مولانا نے اس پر کیوں واقفیت حاصل کی؟اور مزید برآں(اس پر مزید یہ کہ) دوسرے مسلمانوں کے واقفیت عامہ کیلئے کیوں رقم فرمایا۔علم نجوم اور احکام نجوم جو منجمین(نجومی) پیشنگوئیاں کہہ کر کماتے پھرتے یہ دونوں دو چیز ہے۔یہ البتہ ضرور ہے اور بیشک ہم اس پر معمل(عمل پیرا) ہیں کہ احکام نجوم پر ہم ایمان نہیں رکھتے کہ بالیقین یہی ہو کے رہے گا۔ستاروں کو فاعل حقیقی ہم ہرگز نہیں مانتے،مصدر خیر وشر ستاروں کو ہم کبھی نہیں جانتے مگر ہاں تاثیرات ان کے بیشک مانتے ،افعال اثر خوب یا خراب جو اللہ نے ان میں دے کر متعین بکار عالم کیا ہے وہ بیشک بمرضی اللہ پاک یوماً و لیلاً جاری ہوا کرتا۔
تفسیر مولانا عبدالحق حقانی میں بہ تفسیر سورہ فاتحہ آیۃ اھدنا الصراط المستقیم دربیان و تشریح افراط و تفریط فی العبادات و افراط و تفریط فی العلوم ،کے آخر عبارت میں صاف درج و مستنبط ہے کہ علم نجوم و طلسم و نیرنجات و کیمیا وغیرہ علوم و دیگر فنو ن کا افراط منع و یکدم تفریط بھی ناجائز حالت درمیانی بہتر اور اسی کو حکمت کہتے اور حکم وجہ کمال انسان اور مصداق صراط مستقیم۔(تفسیر حقانی)
جلد اول مولانا مفسر دہلوی شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ کے درج ہے سوالات عشرہ جو شاہ بخارا نے ان کو لکھا تھا اس کے جواب سوال ہفتم میں علم منطق و علم انگریزی و علم فارسی و علم فقہ و علم نجوم و رمل و علم قیافہ و سحر کے بارے میں یہ تحریر کہ جو حکم صاحب آلہ کا وہی حکم آلہ کا اور تحصیل علم(علم حاصل کرنے)کی وجہ سے گنہگار نہیں ہوسکتا الخ۔۔۔ اور اسی دفتر اول فتاوی میں بحصہ آخر مرقوم کہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ایک شخص کو حفظ حرمت و عزت کے لئے انگشتری نقرئی پر اسم عزیز بقاعدہ تکسیر علم جفر کندہ کرانے کو بوقت شرف قمر فرمایا۔پس علم جفر اگر بحکم کفریہ تھا تو اس علم کے قاعدہ میں اسم الہی کا کیوں نقش بنایا اور علم نجوم بحکم کفر تھا تو اس کی ساعت اور اہل نجوم سے تحقیق کرلینے کو کیوں اجازت دیا؟؟؟اور بقول منکر ان سعد و نحس ستارگان کوئی چیز نہیں تو تخصیص شرف قمر کیا چیز ٹھہری؟ اور مولانا محدث ہو کر خود ان دونوں علوم کفریہ کوسیکھا و جانا۔اور دوسرے اہل اسلام کو کیوں بتایا؟؟
اب آپ کی خدمت عالی میں بیّنو توجروا (بیان کرو اجر دئیے جاؤ گے) کی عرض و تصدیع ہے کہ دربارہ امر متذکرہ جو کچھ بحکم آیات و حدیث ثابت و مستنبط ہوتا ہو اس سے مطلع فرمائیں۔تاکہ معترضان پر الزام بدیہ جو عائد ہو رہا ہے بطریق احسن دفع کردیا جائے۔
----------------------------------------------------------------------------------------------
سوال کا جواب:
علم جفر و علم نجوم اور طلسم کے بارے میں سوال کا جواب۔۔۔۔
فہرست
علم جفر ایک نہایت نفیس فن اور حضرات اہلبیت علیہم الرضوان کا علم ہے
کتاب"جفر جامع" میں امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ نے ما کان ومایکون تحریر فرما دیا
علم جفر میں لکھی گئی اسلاف کی تصانیف کا تذکرہ
نجوم کے دو ٹکڑے ہیں۔علم و فن تاثیر
علم نجوم کے متعلق قرآن مجید سے استنباط
نجوم کا فن تاثیر باطل ہے
حرکات فلکیہ مثل حرکات نبض علامات ہیں
قرآن مجید سے تائید
نبض کا اختلاف سے اعتدال سے طبیعت کے انحراف پر دلیل ہے
علم تکیسر علم جفر سے جدا دوسرا فن ہے۔
طلسم و نیر نجات سراسر ناجائز ہیں
نیرنج شعبدہ ہے اور شعبدہ حرام ہے
طلسم تصاویر سے خالی نہیں اور تصویر حرام ہے
----------------------------------------------------------------------------------------------
جفر بیشک نہایت نفیس جائز فن ہے۔حضرات اہلبیت کرام رضوان اللہ تعالی علیہم کا علم ہے ۔امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم نے اپنے خواص پر اس کا اظہار فرمایا اور سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ اسے معرض کتابت میں لائے۔کتاب مستطاب جفر جامع تصنیف فرمائی۔علامہ سید شریف رحمۃ اللہ تعالی علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں:امام جعفر صادق نے جامع میں ماکان وما یکون تحریر فرما دیا۔(شرح المواقف المقصد الثانی منشورات الشریف الرضی قم ایران 22-6)
سیدنا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رضی اللہ عنہ نے "الدرالمکنون و الجوھرالمصئون" میں اس علم شریف کا سلسلہ سیدنا آدم و سیدنا شیث وغیرہما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے قائم کیا اور اس کے طرق واوضاع اور ان میں بہت غیوب کی خبریں دیں۔( الدرالمکنون و الجوھرالمصئون)
عارف باللہ سیدی امام عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے ایک رسالہ اس کے جواب میں لکھا۔اس کا انکار نہ کرے گا مگر ناواقف یا گمراہ متعسف۔
نجوم کے دو ٹکڑے ہیں۔علم و فنِ تاثیر
اول کی طرف تو قرآن عظیم میں ارشاد ہے۔
الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ [٥٥:٥] ،وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ [٣٦:٣٨]وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ [٣٦:٣٩]،لَا الشَّمْسُ يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ۚ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [٣٦:٤٠] ، وَجَعَلْنَا اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا آيَةَ اللَّيْلِ وَجَعَلْنَا آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً لِتَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ وَلِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ وَكُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَاهُ تَفْصِيلًا [١٧:١٢]،وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ [٨٥:١] ، تَبَارَكَ الَّذِي جَعَلَ فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَجَعَلَ فِيهَا سِرَاجًا وَقَمَرًا مُنِيرًا [٢٥:٦١]،فَلَا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ [٨١:١٥]،الْجَوَارِ الْكُنَّسِ [٨١:١٦]،وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [٣:١٩١]،أَلَمْ تَرَ إِلَىٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَهُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلًا [٢٥:٤٥]،ثُمَّ قَبَضْنَاهُ إِلَيْنَا قَبْضًا يَسِيرًا [٢٥:٤٦]،الی غیر ذلک من آیات کثیرہ۔
سورج اور چاند حساب سے ہیں،اور سورج چلتا ہے اپنے ایک ٹھہراؤ کے لیے (ف۴۹) یہ حکم ہے زبردست علم والے کا (ف۵۰) ،اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کیں (ف۵۱) یہاں تک کہ پھر ہوگیا جیسے کھجور کی پرانی ڈال (ٹہنی) (ف۵۲) ،سورج کو نہیں پہنچتا کہ چاند کو پکڑے (ف۵۳) اور نہ رات دن پر سبقت لے جائے (ف۵۴) اور ہر ایک، ایک گھیرے(مرکز مدار) میں تیر رہا ہے، اور ہم نے رات اور دن کو (اپنی قدرت کی)دو نشانیاں بنایا (ف۳۲) تو رات کی نشانی مٹی ہوئی رکھی(یعنی اسے مدھم کردیا) (ف۳۳) اور دن کی نشانیاں دکھانے والی(روشن) (ف۳۴) کہ اپنے رب کا فضل(رزق حلال) تلاش کرو (ف۳۵) اور (ف۳۶) برسوں کی گنتی اور حساب جانو (ف۳۷) اور ہم نے ہر چیز خوب اچھی طرح تفصیل سے بیان کردیا (ف۳۸)، قسم آسمان کی، جس میں برج ہیں،بڑی برکت والا ہے وہ(اللہ تعالی) جس نے آسمان میں برج بنائے (ف۱۱۲) اور ان میں چراغ رکھا (ف۱۱۳) اور چمکتا چاند،تو قسم ہے ان (تاروں)(ف۱۶) کی جو الٹے پھریں،سیدھے چلیں تھم رہیں،اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے ہیں (ف۳۷۸) (پھر عرض کرتے ہیں)اے رب ہمارے! تو نے یہ بیکار نہ بنایا (ف۳۷۹) پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے،کیا آپ نے اپنے پرودگار کے(بے شمار نشانات قدرت میں سے اس نشانی کو)نہیں دیکھا (ف۸۳) کہ کس طرح سایہ کو پھیلا دیتا ہے (ف۸۴) اور اگر چاہتا تو اسے ٹھہرا ہوا کردیتا (ف۸۵) پھر ہم نےاس کے وجود پر سورج کو دلیل ٹھہرا دیا، پھر ہم آہستہ آہستہ اسے(سایہ کو) اپنی طرف سمیٹتے رہتے ہیں۔ (ف۸۶)،پس آیات مذکور کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات قرآنیہ ہیں (جو علم نجوم کی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔)
اور اس کا فن تاثیر باطل ہے۔ تدبیر عالم سے کواکب کے متعلق کچھ نہیں کہا گیا نہ ان کیلئے کوئی تاثیر ہے غایت درجہ حرکات فلکیہ مثل حرکات بنض علامات ہیں کما قال اللہ تعالی
وَعَلَامَاتٍ ۚ وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ [١٦:١٦]
اور علامتیں (ف۲۵) اور ستارے سے وہ راہ پاتے ہیں (ف۲۶)
نبض کا اختلاف اعتدال سے طبیعت کے انحراف پر دلیل ہوتا ہے مگر وہ انحراف اس کے اثر نہیں بلکہ یہ اختلاف اس کے سبب سے ہے اس علامت ہی کی وجہ سے کبھی اس کی طرف اکابر نے نظر فرمائی۔
فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ [٣٧:٨٨]،فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ [٣٧:٨٩]
پھر اس نے ایک نگاہ ستاروں کو دیکھا (ف۸۶) ، پھر کہا میں بیمار ہونے والا ہوں (ف۸۷)
زمانہ قحط میں امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ باران کیلئے دعا کرو اور منزل قمر کا لحاظ کرلو۔امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم سے منقول ہے۔
لا تسافروا والقمر فی العقرب۔سفر نہ کرو جبکہ چاند برج عقرب میں ہو۔
اگرچہ علماء سے اس کی یہ تاویل فرمائی ہے کہ عقرب ایک منزل تھی اور قمر ایک راہزن کا نام تھا۔کہ اس منزل میں تھا۔علم تکسیر ،علم جفر سے جدا دوسرا فن ہے اگرچہ جفر میں تکسیر کا کام پڑتا ہے۔یہ بھی اکابر سے منقول ہے۔امام حجۃ الاسلام غزالی و امام فخر الدین رازی و شیخ اکبر محی الدین ابن عربی و شیخ ابو العباس یونی وشاہ محمد غوث گوالیاری وغیرہم رحمہم اللہ تعالی اس فن کے مصنف و مجتہد گزرے ہیں اس میں شرف قمر وغیرہ ساعات کا لحاظ اگر اسی علامت کے طور پر ہو جس کی طرف ارشاد فاروقی نے اشارہ فرمایا تو لاباس بہ ہے اور پابندی اوہام منجمین(نجومی) کے طور پر ہو تو ناجائز۔
مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْمَاءً سَمَّيْتُمُوهَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُكُمْ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ بِهَا مِنْ سُلْطَانٍ ۚ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ [١٢:٤٠]
وہ تو نہیں مگر نرے نام (فرضی نام) جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے تراش لیے ہیں (ف۱۰۶) اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اتاری، حکم نہیں مگر اللہ کا اس نے فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو (ف۱۰۷) یہ سیدھا دین ہے (ف۱۰۸) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (ف۱۰۹)
یہی ٹھیک دین ہے ، لیکن زیادہ تر لوگ(اس حقیقت کو) نہیں مانتے ۔
طلسم و نیر نجات سراسر ناجائز ہیں نیز نج تو شعبدہ ہے اور شعبدہ حرام کما فی الدرالمختار وغیرہ من الاسفار(جیسا کہ درمختار وغیرہ بڑی بڑی کتابوں میں مذکور ہے۔)
اور طلسم تصاویر سے خالی نہیں۔اور تصویر حرام۔(حدیث میں ہے۔)
روزقیامت سب لوگوں سے زیادہ سخت عذاب اس کو ہوگا کہ جس نے کسی نبی کو شہید کیا یا اسے کسی نبی نے مار ڈالا اور تصویریں بنانے والوں کو ۔(المعجم الکبیر حديث10497،10515)واللہ تعالی اعلم۔
شکریہ بھائی عادل ۔ سہیل آپ نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جن کی اس وقت بہت ضرورت ہے ........آج کل علم نجوم ہر اخبار اور رسالے کا لازمی جز بن چکا ہے ....جس کی وجہ سے اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی ان توہمات پر یقن کر لیتے ہیں .......آپ کا بہت شکریہ ....آپ نے قرآن و حدیث سے ان شرکیہ علوم کی اصلیت کھول کر بیان کی ......اللہ سب کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے........آمین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، جزاک اللہ خیرا ، بھائی فاروقی ، اللہ تعالی آپ کی دعا قبول فرمائے اور ہم سب کو ہر قسم کی ضد اور جہالت سے محفوظ رکھتے ہوئے اس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے زندگیاں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، و السلام علیکم ۔
ستارے تو ان دنوں اس قدر چال باز ہو گئے ہیں کہ لوگ اخبارات میں ان کا کالم دیکھتے ہوئے پوچھے جائیں تو کہتے ہین کہ ارے نہیں یار مین ان پر یقین بالکل نہیں رکھتا۔ (ہاں دیکھتے ریگولر ہیں)
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، بھائی ابن سعید ، صحیح فرمایا ، ستارے ہیں تو چال باز ، اللہ کے حکم سے چالیں چلتے ہیں جن میں اللہ نے ہمارے لیے کوئی نفع و نقصان ہونے کی خبر نہیں دی ، لیکن ان کی چالوں کی چال میں انسانوں کو کوئی اللہ کی ناراضگی کی راہ ہر چلا رہا ہے ، اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے ، و السلام علیکم۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ، رضا بھائی کے مراسلے کے جواب میں اتنا ہی عرض کروں گا کہ :::
میرے بھائی اگر کسی کا کوئی عمل قران اور صحیح حدیث کے خلاف ہے تو اس کے عمل پر وہی حکم لگے گا جو اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں ہے ، عربی کی ایک کہاوت ہے """ لا یُعرف الحق بالرجال ، بل الرجال یُعرفون بالحق ::: حق لوگوں کی شخصیات پر نہیں پرکھا جاتا بلکہ لوگوں کی شخصیات حق پر پرکھی جاتی ہیں """
اور کہا گیا ، لکھا گیا ، بتایا گیا ، قسم کی روایات پر اگر دین سیکھا جائے تو بس ،،،،،،،،،،،،،،، جن مقدس شخصیات کے نام سے یہ علوم منسوب کیے جاتے ہیں ہمیں کہیں صحیح ثابت شدہ روایات میں ان کی پاکیزہ زندگیوں میں ان علوم کی کوئی پرچھائیں بھی نظر نہیں آتی ، و السلام علیکم۔
عائشہ عدد ابجد 386 بنت سکینہ بیگم عدد ابجد 176
برج جدی ستارہ زحل
رشید عدد ابجد 514 بن روشن آرا عدد ابجد =758
برج حوت ستارہ مشتری
تاریخ پیدائش: 21 مارچ سے 20 اپریل تک نام کا پہلا حرف: ا۔ع۔ل۔ی حکم سیارہ: مریخ عنصر: آگ موافق پتھر: ہیرا،یاقوت، نیلم، پکھراج موافق دن: منگل موافق عدد: 6 موافق رنگ: سرخ، گلابی، قرمزی، عنابی موافق پھول: گلاب موافق دھات: لوہا، تانبا موافق برج: ثور، جوازا، دلو، حوت گوار برج: سرطان، میزان، جدی غیر جانبدار برج: سنبلہ، عقرب -
برج جدی
یہ دائرئہ بروج کا دسواں برج ہے اور خاکی تکون کا تیسرا رکن۔ ماہیت کے اعتبار سے منقلب۔ انسانی جسم میں جوڑ اور گھٹنے اس سے منسوب ہیں۔ مادی خواہشات، جاہ طلب اور عاقبت اندیشی اس کا خاصہ ہیں۔ برج جدی کے زیراثر پیدا ہونے والے افراد اعلیٰ درجے کے منتظم اور قائدانہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ اچھی دماغی قوتوں کے مالک، نکتہ رس اور عمدہ سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ محنت اور استقامت کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں۔ ان میں ترقی کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت ہوتی ہے اور ان کی موقع شناسی انہیں اکثر اونچے عہدوں پر پہنچا دیتی ہے۔ وہ کسی کا محکوم اور پابند بن کر رہنا پسند نہیں کرتے۔ جوکام بھی کریں اس میں وہ خود ہی راہ بر اور سربراہ بننا چاہتے ہیں اور اس میں کسی اور کی رہبری یا بالادستی پیدا ہو جائے تو اس کام سے ان کی دل چسپی تقریباً ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
برج جدی کا طر ہامتیاز
جدی شخصیت کے مالک افراد(خواتین و مرد) بنیادی طورپر عملیت پسند، کارگزار، مستقل مزاج، معاون اور مضبوط کردار رکھتے ہیں۔ یہ لوگ محنتی، کم گو اور کسی حد تک تنہائی پسند ہوتے ہیں۔ ان کا منطقی ذہن صرف دلیل سے ہی مطمئن ہو سکتا ہے۔
جدی شخصیت کے منفی پہلو شک و بدظنی، سردمہری، خودغرضی، مزاحمت پسندی، یعنی روک ٹوک، ضد اور کٹ حجتی، ناراضی، یاسیت پسندی اور غیرجذباتی انداز فکر ہیں۔
مثبت یا منفی پہلوﺅں میں کمی یا زیادتی کسی بھی جدی مرد یا عورت کے انفرادی زائچہ پیدائش میں کچھ دوسرے عوامل پر انحصار کرتی ہے۔ اگر ذاتی پیدائشی زائچے میں سیارے سعد، باقوت اثر دے رہے ہوں تو مثبت خصوصیات نمایاں ہوں گی اور منفی پہلوﺅں میں کمی واقع ہوگی جب کہ اس کے برعکس صورت میں منفی پہلو نمایاں ہوں گے اور مثبت خصوصیات دب جائیں گی۔
جدی شخصیت و کردار
جدی افراد میں ضرورت سے زیادہ بلند حوصلگی، بے انتہا انتظامی صلاحیتیں اور بہت زیادہ ہمت اور کام کرنے کا جذبہ ہوتا ہے۔ برج جدی کا حاکم سیارہ زحل ان خصوصیات کا مظہر ہے لیکن ساتھ ہی یہ سیارہ بڑا آزمائش طلب بھی ہے، اس لیے عموماً معاملات دل میں جدی افراد کو نکما بنا دیتا ہے۔ یہ لوگ کافی حد تک خودشناسی یا خودپسندی اور اپنی ذات کی محویت کے جذبات میں گھرے رہتے ہیں اور یہی محویت ان کی زندگی کو کسی حد تک تکلیف دہ یا مشکل بنا دیتی ہے۔
سیارہ زحل بنیادی طور پر حدود و قیود اور پابندی کے اثرات کا حامل ہے۔ اس کے اثرات کے تحت برج جدی زندگی کے مختلف ادوار میں طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرتے ہیں اور یوں وہ خود کو کسی حد تک محدود رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ اثرات جدی افراد میں اپنے معاصرین یا مخالفین کے مقابلے میں زیادہ کامیابیوں کا حوصلہ دیتے ہیں جو بالآخر منافع بخش ثابت ہوتا ہے۔ اب یہ اور بات ہے کہ یہ سارا عمل خاصا سست رفتار ہوتا ہے اور راہ میں آنے والی رکاوٹیں اور مزاحمتیں جدی افراد کو ایسی کیفیات کا عادی بنا دیتی ہیں جن کے نتیجے میں وہ بہت روایت پسند اور قدامت پرست بھی ہو سکتے ہیں۔ نتیجتاً ان میں کھل کر آزادی سے کوئی کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات تو یہ لوگ ضرورت سے زیادہ ہی محتاط ہو جاتے ہیں۔ ان سب باتوں کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثر جدی افراد زندگی کی بہت سی نعمتوں اور رنگینیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
برج جدی چوں کہ دائرئہ بروج کا دسواں برج ہے اور زندگی میں تگ و دو، قوت، حاکمیت، جاہ پسندی، پیشہ ورانہ حیثیت اور سخت محنت اس سے منسوب ہے اور ان خصوصیات کی وجہ سے ان لوگوں کو دولت کے حصول میں مشکلات پیش نہیں آتیں۔ دولت کے حصول کے لیے انہیں کوئی بھی کام مشکل محسوس نہیں ہوتا مگر ساتھ ہی ساتھ بعض اوقات یہ لوگ قوت و اقتدار کے حصول کی خاطر بے اصولی اور ظلم کی حد تک جا سکتے ہیں۔ ان کے مزاج میں کسی حد تک بے یقینی پائی جاتی ہے اور یہ دوستوں کے ہجوم یا محفلوں سے کتراتے ہیں۔ دوسروں سے آسانی سے گھلتے ملتے بھی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا رویہ بعض اوقات کام اور کھیل دونوں میں بڑا ”غیرمتعلق“ سا ہو جاتا ہے، یعنی ابھی یہ جس معاملے میں نہایت سرگرمی سے شریک تھے، اچانک اس سے اپنی واضح لاتعلقی کا اعلان کر دیں گے۔
قوس اور جدی کی حد اتصال
اگر آپ کی تاریخ پیدائش 19 دسمبر سے 25 دسمبر تک ہے تو آپ برج قوس اور جدی کی اتصالیسرحد پر پیدا ہوئے ہیں، یعنی آپ نے دونوں بروج کے مشترکہ اثرات قبول کیے ہیں۔ ایسے افراد دل، دماغ، جسم اور روح کے درمیان پھیلاﺅ اور پابندی، آزادی اور حدود و قیود وغیرہ کی جنگ میں گھرے ہوئے ہوتے ہیں، یعنی بہ قول غالب ”ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر“ کی مثال ان پر صادق آتی ہے۔ یہ ایک ایسا متضاد اور متنوع مرحلہ ہے جس کے ذریعے ایک نئی دنیا تخلیق پا سکتی ہے یا ایک نیا نظام پیدا ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ ایک نئے توازن اور خوش گوار تعلق کے لیے کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔ اس نئے انداز یا نئی کوشش کا مطلب مکمل طور پر آزادی پر غلبہ پانا ہوتا ہے۔ اکثر ان معاملات میں خوش نصیبی یا بہترین ذہنی صلاحیتیں آپ کی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ آپ کی قسمت میں ضرورت کے مطابق پیسہ ہے، آپ اثاثے اورجائیداد بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ ایک بہترین منتظم، مصلح یا ایک باغی بننے کی صلاحیتیں بھی آپ میں موجود ہیں۔ صحت کے معاملات میں آپ کے لیے ٹانگوں، گھٹنوں، رانوں، دانتوں، ہڈیوں اور کولہے کی تکالیف مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔ آپ کے اندر عملیت کے ساتھ ساتھ خیالی دنیا میں رہنے کی صلاحیت بھی موجود ہے، جو عام طور پر بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
جدی کا عشرہ اوّل
جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ایک برج 30 درجے پر محیط ہے اور اس کی 3 حصوں میں تقسیم سے 3 عشرے وجود میں آتے ہیں۔ ہر عشرہ دوسرے عشرے سے کچھ مختلف خصوصیات کا حامل ہوتا ہے۔ اگر آپ کی پیدائش 22 دسمبر سے یکم جنوری تک کسی بھی تاریخ کو ہوئی ہے تو آپ برج جدی کے پہلے عشرے کے زیراثر پیدا ہوئے ہیں۔ یہ عشرہ سیارہ زحل کے ہی ماتحت ہے۔ اس عشرے میں پیدائش کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ نے سیارہ زحل کے گہرے اثرات قول کیے۔ زحل ایک طاقت ور سیارہ ہے اور ا س میں بہت زیادہ عملی قوت پائی جاتی ہے۔ انجینئروں، صنعت کاروں، ٹھیکے داروں، سیاست دانوں اور معماروں کے لیے یہ سیارہ خصوصی طور پر بہت معاون ہے۔ اس عشرے میں پیدا ہونے والے افراد کے لیے ہر وہ کام مالی لحاظ سے انتہائی مفید اور منافع بخش ہوگا جس میں زمین اور مکانات کے معاملات آتے ہوں۔ ایسے افراد میں نظم اور صبر و ضبط خصوصی طو رپر نمایاں ہوتا ہے۔
جدی اور جدی کا ساتھ
اگرچہ دونوں ایک برج، ایک عنصر رکھتے ہیں مگر یہ جوڑی بڑی بے لطف اور بے زار کن ثابت ہو سکتی ہے، کیوں کہ یہ ایک دوسرے پر پابندی عائد کرنے یا دوسرے کو اپنی مرضی کے مطابق چلنے پر مجبورکرنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں، خصوصاً نوجوانی میں یا ازدواجی رشتے کی ابتدا میں۔ ایک بڑی عجیب سی بات یہ ہے کہ برج جدی کے زیراثر لوگوں کا عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دل جوان ہوتا جاتا ہے، یعنی ابتدائی عمر میں یہ لوگ چوں کہ کام پر بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے عموماً ایک خشک زندگی گزارتے ہیں لیکن جب مالی طور پر مستحکم ہو جاتے ہیں تو پھر طبیعت زندگی میں آسائشات کی طرف راغب ہوتی ہے۔
یہ جوڑی دولت کمانے کے لیے تو بہت کامیاب ثابت ہو سکتی ہے، کیوں کہ جدی افراد کے جذبات میں زندگی کے مادی پہلوﺅں، خصوصاً دولت کے لیے بڑی پُرجوشی پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے یہ بہت عملی سوچ رکھتے ہیں اور اضطراری طور پر بھی کوئی کامیاب سود و زیاں نہیں کرتے۔ یہ لوگ ذرا سست رفتار تو ہوتے ہیں لیکن مستقل مزاجی سے اپنی منزل کی طرف گامزن رہتے ہیں۔ یہ مزاجاً تنہائی پسند ہوتے ہیں۔ انہیں موسیقی، فنون لطیفہ سے دل چسپی اور محبت ہوتی ہے اور فطرت کا مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان مشترکہ دل چسپیوں کی وجہ سے یہ دونوں کچھ اچھا وقت اکٹھا گزار سکتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے درمیان فاصلے کی ایک نظر نہ آنے والی دیوار سی کھڑی ہو سکتی ہے اور اس کی وجہ جدی افراد کی ضد کی عادت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ اپنے جذبات پر قابو پانا خوب جانتے ہیں۔ اگرچہ اندر سے بڑے جذباتی ہوتے ہیں مگر اپنی اندرونی کیفیات کو زیادہ نمایاں نہیں ہونے دیتے۔ اگر ایک ہی برج کے یہ دونوں شریک ان حقائق کا ادراک کرلیں تو ان کی شراکت بہت کامیاب ہو سکتی ہے اور یہ ایک مطمئن زندگی گزار سکتے ہیں۔
جدی اور دلو کا ساتھ
یہ خاک اور ہوا کا ساتھ ہے۔ دونوں کے درمیان عنصری طو رپر موافقت نہیں ہے۔ علم نجوم کے قواعد کے مطابق یہ جڑواں بروج ہیں۔ جدی سے دلو دوسرے نمبر پر، دلو سے جدی بارہواں برج ہے۔ گویا ایک دلو فرد برج جدی کے لیے مالی معاملات میں فائدہ مند ہو سکتا ہے اور ایک دلو فرد کے لیے برج جدی میں روحانی اور جذباتی کشش ہو سکتی ہے۔
دلو شخصیت اپنے مثبت پہلوﺅں میں دیانت دار، نرم دل اور ہم درد، تخلیق کار، وجدانی اور کشادہ ذہن، ہر دل عزیز اور خوش مزاج ہوتی ہے اور اس کے منفی پہلوﺅں میں مزاجی تلون، تغیرپسندی، تذبذب، انوکھاپن، غیرروایتی اور باغیانہ انداز، کٹ حجتی وغیرہ شامل ہیں۔
یہ ایک بڑی غیریقینی اور سخت مشکل شراکت ہو سکتی ہے۔ ان دونوں بروج کے ملاپ کا اختتام کسیتکلیف دہ صورت میں ہونے کا اندیشہ رہے گا۔ جدی اور دلو کے درمیان کسی بھی قسم کی مماثلت ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہے۔ دلو افراد بڑے متلون مزاج، من موجی اور نہایت آزادرو ہوتے ہیں۔ ان کے لیے جدی جیسے محتاط اور نگہبان فرد کے ساتھ گزارہ کرنا ایک دشوار کام ہو سکتا ہے۔ وہ اس کی روک ٹوک سے جلد اکتا سکتے ہیں، کیوں کہ وہ خود ہر لمحہ متحرک رہنے اور چیزوں کو حرکت میں رکھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ دوسری طرف جدی فرد کی نظر میں دلو شخصیت بہت ہی عجیب و غریب ہوتی ہے، جس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کب کیا کر بیٹھے۔ جدی افراد خود بہت ذمے دار اور روایات کے پابند ہوتے ہیں جب کہ دلو ان کے بالکل برعکس۔ ان دونوں کو اکٹھا رہنے کے لیے ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جاننے اور سیکھنے کی ضرورت ہوگی