محترم بہنا پنجابی زبان کی درست ترین تشریح کے لئےمحترم
فلک شیر بھائی کی ہستی قابل ترین ہے ۔ یقین ہے کہ بنا درخواست کے ہی وہ اس کافی کی تشریح کرتے علم کی شمع روشن کریں گے ۔۔۔ ۔۔۔ ان شاءاللہ
میں نے پنجابی زبان میں یہ کافیاں اکثر بزرگوں کے عرس کے موقع پر بزرگوں سے سنی ہیں ۔ اور ان کی تفہیم ہی سے ان کے مطالب سے کچھ آگہی ملی ہے ۔
اس کافی بارے جو کچھ میرے ذہن میں ہے وہ کچھ یوں ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
سجن دے ہتھ بانہہ اساڈی،کیونکر آکھاں چھڈ وے اڑیا
رات اندھیری،بدل کنیاں،باجھ مُشکل بنیاں
ڈاہڈے کیتا سڈ وے اڑیا
عشق محبت سو ای جانن،پئی جیہناں دے ہڈ وے اڑیا
کلر کھٹن کھوہڑی چینا ریت نہ گڈ وے اڑیا
نِت بھرناں چُٹھیاں، اک دن جاسیں چھڈ وے اڑیا
کہے حسین فقیر نمانا نین نیناں نال گڈ وے اڑیا
صوفیانہ کلام مجاز پر استوار ہوتے حقیقت پر قائم ہوتا ہے ۔۔۔
درج بالا کلام میں بھی صاحب کلام مجاز سے مخاطب ہوتے حقیقت کی جانب متوجہ کر رہا ہے ۔۔
سجن " سچا دوست سچا ساتھی ہر پل مددگار " اگر ہاتھ پکڑ لے تو کیسے اس سے کہا جائے کہ چھوڑ دے مجھے درد ہو رہا ہے ۔۔۔ ۔
حق ہمیشہ اپنے چاہنے والوں کو آزمائیش میں مبتلا کرتا ہے ۔ اور اس کے چاہنے والے اس کی رضا پر راضی رہتے صبر و شکر سے تنگی برداشت کرتے ہیں ۔ کبھی گلہ نہیں کرتے ۔۔۔ ۔ جناب ایوب علیہ السلام کا مرض کی شدت کو برداشت کرنا ۔۔
اندھیری رات ہو اور بادل گرج چمک رہے ہوں تو کسی کے بلائے پہ جانا بہت مشکل امر ہوتا ہے ۔مگر محبوب بلائے تو ہر مشکل برداشت کر نے پر محب آمادہ ہوتا ہے
دنیا کی چمک آنکھوں کی بصارت کو محو کر نے والی ہو لالچ نفس کی خواہش بارش کے قطروں کی مانند دل پہ برس رہی ہو اور حق اپنی جانب بلا رہا ہو توان سب سے دامن چھڑا کر حق کی جانب جانا آسان امر نہیں ۔۔۔ "غار حرا" میں قیام ۔۔
عشق و محبت کی حقیقت وہی جانتے ہیں جنہوں نے اس جذبے کی حدت اپنی ہڈیوں تک میں محسوس کی ہو ۔۔۔ ۔۔
جناب بلال رضی اللہ تعالی کا صحرا کی ریت کی تپش کو جو ہڈیوں تک کو سلگانے والی ہوتی ہے برداشت کر کے واحد کی صدا پر قائم رہنا
میرے محبوب یہ جو تو اپنے حسن فانی پہ نازاں ہو تے غرور بھری باتیں کرتا ہے اک دن تجھے چھوڑنی پڑیں گی ۔۔۔
حسین فقیر یہ کہتا ہے کہ محبت کو مان لے اور نین سے نین ملا لے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
شاہ حسین یہ جو تو لمبی لمبی لچھے دار باتیں کرتا ہے جب وقت سفر آئے گا تو کچھ کام نہ آئیں گی ۔
حسین فقیر یہ تجھ کو کہتا ہے کہ تو عبادت میں یوں محو ہو کہ گویا تیری نگاہ حق کی نگاہ کو دیکھ رہی ہو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
(کلر کھٹن کھوہڑی چینا ریت نہ گڈ وے اڑیا)۔ یہ سمجھ نہیں آیا محترم فلک شیر بھائی یا محترم
تلمیذ بھائی ہی اس بارے آگہی دیں گے ۔ ان شاءاللہ
" یہ اس کافی کا لفظی ترجمہ نہیں ہے ۔ بلکہ بزرگوں سے سنی اس کی مجمل تشریح ہے " اگر کچھ بھول گیا ہوں تو اس کی معذرت