عاطف بٹ
محفلین
سخنِ حق کو فضیلت نہیں ملنے والی
صبر پر دادِ شجاعت نہیں ملنے والی
وقتِ معلوم کی دہشت سے لرزتا ہوا دل
ڈوبا جاتا ہے کہ مہلت نہیں ملنے والی
زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی
راس آنے لگی دنیا تو کہا دل نے کہ جا
اب تجھے درد کی دولت نہیں ملنے والی
ہوسِ لقمہء تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
گھر سے نکلے ہوئے بیٹوں کا مقدر معلوم
ماں کے قدموں میں بھی جنت نہیں ملنے والی
زندگی بھر کی کمائی یہی مصرعے دو چار
اس کمائی پہ تو عزت نہیں ملنے والی