اس واقعہ پراسلام آباد نےسخت احتجاج کیا ہے نیز ناٹو اور افغان فوج پر افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف کارروائی پر ان کی ناکامی کا الزام لگایا ہے۔
خدشہ ہے کہ ممکنہ طور پر اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان مشکلات کے شکار تعلقات مزید تناؤ کا شکار ہوں گے جن کی بہتری کے لئے مذاکرات جاری ہیں۔
پیر کودفتر خارجہ سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اتوار کوافغانستان کے صوبہ کنڑ سے 100 کے قریب جنگجوؤں نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع دیر میں داخل ہو کرفوج کے گشی دستے پر حملہ کیا۔
"جوابی فائرنگ کے تبادلہ میں 11 جنگجو ہلاک ہوئے جبکہ 6 فوجی شہید ہوئے"،دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ لڑائی کے بعد 11 فوجی لاپتہ ہو گئے۔ تا ہم دفاعی ذمہ داران نے کہا ہے کہ جنگجوؤں نے 11 میں سے 7 فوجیوں کے سر دھڑ سے کاٹ دئیے ہیں۔
پیر کی دوپہر کو جنگجوؤں نے سرحد کے اس پار سے دو راکٹ فائر کئے جو سرکاری ذرائع کے مطابق لوئر دیر کے علاقے ترپ مین میں گرے۔راکٹ پھینکنے سے قبل شدید فائرنگ بھی کی گئی۔
گروپ کے ترجمان سراج الدین نے نا معلوم مقام سے فون پر "دی ایکسپریس ٹرائبون" سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے جنگجوؤں نے پاکستانی فورسز پر اس وقت حملہ کیا جب فورسز اپر دیر کی تحصیل براول کے علاقے سنائی کاندو میں پہنچیں۔
اس نے دعوی کیا کہ کہ 17 پاکستانی فوجی مارے گئے اور 16 فوجیوں کی لاشیں ان (گروپ) کے قبضہ میں ہیں۔اس نے مزید کہا کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے جنگجوؤں نےحملے کے دوران 17 G 3 رائفلوں اوربھاری مقدار میں گولہ و بارود پربھی قبضہ کر لیا۔
سراج الدین نے کہا"جب تک پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہو جاتی ہماری جنگ جاری رہے گی،،،،،جو بھی ہمارے راستے میں آئے گا ہم اس سے لڑیں گے"۔
خونریز جھڑپ پر شدید ناراض پاکستان نے افغان ڈپٹی ناظم الامور کو وزارت خارجہ میں طلب کیا اور اپنا رد عمل ان کے حوالے کیا۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے "افغان سفیر کو بتایا گیا کہ حکومتِ افغانستان کو مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے اور ان کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے سے روکنے کے لئے ضروری اقدامات کرنا چاہئیں"۔
کُنڑ کے گورنر فضل اللہ واحدی نے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلحین افغانستان سے نہیں بلکہ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔"ہمارے پاس مسلحین کےافغان سرحد پار کرکے پاکستانی فوج پر حملہ کرنے کی کوئی اطلاعات نہیں ہیں"۔
ربط