دلگیر۔۔۔ اب جن کے پاس بارش نہیں۔۔۔ وہ کیا کریںہم دیوبند پہنچ گئے۔زندگی کا ایک بڑا ارمان پورا ہوگیا۔بھارت یاترا کا مقصد پورا ہوگیا۔کافی کچھ دیکھ لیا، کافی کچھ رہ گیا۔ کشمیر کی وادیاں، دارجلنگ کی صبح، لکھنؤ کی نزاکتیں، علی گڑھ کی یونیورسٹی اور جے پور کا گلابی چہرہ.
مگر۔۔۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
سارے نہ سہی کئی مقاصد تو پورے ہوگئے تھے۔ وہ جگہ دیکھی جہاں والدین کا بچپن گزرا۔ جہاں سے کئی رشتے دار پاکستان آتے اور وہاں کے قصے سناتے۔ دلّی دیکھی جو اِک عالم کا انتخاب تھی۔ تاج محل دیکھا جو اِک عالم کا خواب تھا۔
اب ان سب کو خواب و خیال بن جانا تھا!!!
دیوبند میں روز و شب اکتاہٹ بھرے گزرنے لگے۔۔۔
وہی اکتاہٹ جس سے جان چھڑا کر یہاں آئے تھے پھر ہمارے پاس آگئی۔۔۔
اب گھر کی یاد آنے لگی۔ دیارِ غیر میں بیس بائیس دن ہوچکے تھے۔ اتنا عرصہ کبھی گھر سے دور نہیں رہے۔ ابا کا بھی فون آگیا کہ کافی سیر سپاٹے ہوگئے اب بدھو کو چاہیے کہ لوٹ کے گھر کو آئے۔ اماں الگ فکر مند تھیں۔ ایک دن جی کڑا کرکے ناشتہ پر دھماکہ کر دیا:
’’اب ہمیں واپس جانا ہے۔‘‘
’’کیوں؟ یہاں کیا پریشانی ہے؟‘‘ چچا نے حیرانی سے پوچھا۔ باقی سب کے ہاتھ بھی ناشتہ سے رُک گئے۔ اُداس ہوگئے۔ اُداس تو ہم بھی تھے لیکن پردیسی کو پرائے دیس سے کیا مطلب۔ ایک نہ ایک دن تو جانا ٹھہرا۔
’’پریشانی کچھ نہیں ہے۔ لیکن واپس تو جانا ہے، آج نہیں تو کل۔ ‘‘
’’کون سا روز روز آنا ہوتا ہے۔ اب آئے ہو تو دو مہینے پورے کرکے جاؤ۔‘‘ چچا نے سمجھایا۔
اب انہیں کیا سمجھاتے دل کی باتیں۔ سر جھکا کر، نظریں چرا کر یہی کہا:
’’گھر یاد آرہا ہے۔ ابھی واپس جانے دیں اگلے سال پھر آجائیں گے۔‘‘ چچا نے بے یقینی سے دیکھا مگر کچھ سوچ کر خاموش ہوگئے۔
’’دوبارہ آنا اتنا آسان نہیں۔‘‘ دادی آہستگی سے بولیں۔ مگر ہم نے سن لیا۔ دل بجھ گیا۔ لیکن گھر والوں پر مزید بوجھ بننا بھی گوارا نہ کیا۔
’’کم از کم میرے ساتھ ہی واپس چلنا۔‘‘ آنٹی نے سمجھایا۔
’’آپ ابھی ایک مہینہ اور ٹھہریں گی۔یہ بہت زیادہ ہوجائے گا۔ کہا تو ہے دوبارہ آجائیں گے۔‘‘ ہم نے آنٹی کی پیشکش کو نرمی سے منع کردیا۔ ایک ماہ ٹھہرنا تو کسی طور سمجھ میں نہیں آیا۔ یہ خود تو گھر گھر رشتہ داروں میں گھومتی پھریں گی، مگر ہم کیا کریں گے۔
’’ چلو جیسے اس کی مرضی۔ شام کو واپس آکر سوچتا ہوں۔‘‘ چچا کے لہجہ میں زمانہ بھر کی تھکن اُتر آئی۔ نجانے ہمارا دل اتنا سخت کیوں ہوگیا تھا، کسی کی اداسی کا احساس نہیں کررہا تھا۔
شام کو چچا واپس آئے تو پوچھا:
‘‘کیا پروگرام ہے؟‘‘
’’وہی صبح والا۔‘‘ ہم نے جی کڑا کرکے کہا۔ چچا کچھ نہ بولے۔ عجیب نظروں سے دیکھتے رہے۔
’’کب جانا ہے؟‘‘
’’صبح۔‘‘ چچا کی نظریں مزید عجیب ہوگئیں۔
اس رات سارے گھر کی گہما گہمی کو اداسی کی دیمک چاٹ گئی۔ کام تو سب ہورہے تھے مگر سلو موشن میں۔ ہم سب سے نظریں چرائے چور بنے اپنا سامان پیک کرنے لگے۔ سامان زیادہ ہوگیا تھا۔ کچھ ہماری شاپنگ، کچھ دوسرے کے لیے تحائف۔ ایک بیگ کا اور اضافہ کرنا پڑا۔
رات کھانے کا دسترخوان لگا۔ سب بیٹھ گئے۔ مگر چپ چاپ کھا رہے تھے۔ کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا۔ معین کی آنکھوں چمک رہی تھیں نہ شائستہ ہنس ہنس کے دہری ہورہی تھی۔ شگفتہ بھی شام کو نک سک سا تیار نہیں ہوئی تھی اور بابر جو ہمیشہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھاتا تھا آج چچی کے پاس بیٹھا تھا۔ شاید ابھی سے جدائی کی تیاری کررہا تھا۔
نہ چچا نے کچھ کہا، نہ آنٹی نے کسی بات پر دانت پیس کے ہمارا بازو نوچا۔ صبا کی باتوں کی پھلجھڑیاں بھی نہیں چھوٹ رہی تھیں۔ آج رات ہم وہ مہمانِ خصوصی بن چکے تھے جس کا صرف احترام کیا جاتا ہے۔ اس سے بے تکلی نہیں برتی جاتی، کہیں کوئی بات ناگوار نہ گزر جائے۔
رات کو سوتے وقت کزنز ہمارے ارد گرد آکر بیٹھ گئے۔ سب خاموش تھے۔ کہنے کو کسی کے پاس کچھ نہیں تھا، مگر اٹھ کر جانے کو بھی من نہیں تھا۔ اسی عالم میں کافی دیر گزر گئی تب چچی آئیں:
’’اٹھو سب یہاں سے۔ بھائی کو سونے دو صبح لمبا سفر کرنا ہے۔‘‘ آج کے دن چچی کی پہلی اور آخری آواز سنائی دی۔ بولتی پہلے بھی زیادہ نہیں تھیں مگر آج تو بالکل ہی چپ لگا لی تھی۔ دادی بھی آج کسی کے گھر نہیں گئیں۔ سارا وقت رہ رہ کے ہمارے آس پاس پھرتی رہیں۔
کزنز کے جانے کے بعد بھی ہم کافی دیر جاگتے رہے۔ پھر نجانے کس وقت نندیا پور سے پریاں آکر آنکھوں میں نندیا سمو گئیں!!!
صبح ناشتے کے بعد ہم نے تیار ہو کر سامان ایک جگہ اکٹھا کیا اور سب سے ملنے لگے۔ آج کوئی اسکول کالج نہیں گیا تھا۔ سب اُسی طرح اُسی برآمدے میں کھڑے تھے جہاں آتے وقت ہمارے استقبال میں ہار پھول لیے کھڑے تھے۔ آج کسی کے ہاتھ میں ہار نہیں تھا، سب سرحدوں کے فاصلوں سے ہار رہے تھے۔ ان سرحدوں سے جس کے اُس پار جاکر کوئی واپس نہیں آتا۔ جہاں سے واپسی انتہائی مشکل ہے!!!
ہم جھک کر دادی سے ملے تو انہوں نے گلے لگالیا۔ چچی سے سر پہ ہاتھ پھروایا، آنٹی سے ہاتھ ملایا۔ معین کے گلے لگے اور باقی سب کو خدا حافظ کہہ کر سامان اٹھایا۔ آتے وقت گھر میں گہما گہمی تھی، خوشیوں بھری چہکاریں تھیں اور اونچی اونچی آوازیں تھیں۔ آج بالکل خاموشی، اداسی اور سناٹا تھا۔ کوئی کچھ نہیں بولا، کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اسی گھمبیر خاموشی میں راستہ طے کرتے ہم دروازے تک آگئے۔ پردہ اٹھایا اور پلٹ کر آخری بار نظر بھر محبتوں کے خمیر سے گندھے ان لوگوں کو دیکھا جن کو دیکھنا شاید دوبارہ نصیب نہ ہو!!!
ہم سمجھے سب ہمیں جاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے، ہم پلٹ کر دیکھیں گے تو ہمیں دیکھ کر ہاتھ ہلائیں گے۔ مگر یہ کیا؟ سب اپنے آپ میں مگن تھے، کوئی ہمیں نہیں دیکھ رہا تھا۔ دادی سر پر ہاتھ رکھے سر جھکائے بیٹھی تھیں۔ معین کی بڑی بڑی چمک دار آنکھیں پانی بھرنے سے گدلی ہورہی تھیں، موٹے موٹے آنسوؤں کی قطار رخسار پہ بہہ رہی تھی۔ شائستہ چچی سے لپٹی ہچکیاں لے رہی تھی ۔ چچی دوپٹہ سے آنکھیں پونچھ رہی تھیں اور بابر کے صرف کپڑے نظر آئے۔ وہ ستون کے پیچھے چھپا کھڑا تھا۔ نہ جانے کیوں!!!
ہم پردہ گرا کر فوراً باہر آگئے۔ سب کی پردہ پوشی کر لی۔ کوئی نہ دیکھ سکا کہ ہم نے انہیں اس حال میں دیکھ لیا ہے۔ جہاں سب کی آنکھیں تر تھیں وہاں ایک ہم تھے جس کی آنکھیں خشک تھیں اور دل پتھر کا۔ کیا ہمیں ان سے ایسی محبت نہیں جیسی ان لوگوں کے دلوں میں رچی بسی ہے۔ ہم سارے راستے سوچتے رہے، اپنا محاسبہ کرتے رہے۔
دلّی اسٹیشن پر ٹرین کی سیٹ پر چچا بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ جب گاڑی نے روانگی کے لیے سیٹی بجائی تو اٹھے، گلے ملے، مصافحہ کیا اور ایک مسکراہٹ کے ساتھ رخصت ہوکر نیچے اتر گئے۔ چچا مسکرا تو رہے تھے مگر ان کے ہونٹوں کے کنارے لرز رہے تھے۔ آنکھیں بھیگ گئی تھیں تبھی وہ منہ پھیر کر تیزی سے پلٹ گئے، ٹرین سے اُتر گئے۔ ہم لپک کر دروازے تک آئے انہیں جی بھر کر دیکھنے کے لیے۔ مگر وہ ہمیں نہیں دیکھ رہے تھے۔ ہتھیلیوں سے آنکھیں مسل رہے تھے!!!
ٹرین آگے بڑھ گئی۔ چچا بھیڑ میں گم ہوگئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا یہ ہماری ان کی آخری ملاقات ہے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب کے جو بچھڑے تو کبھی خوابوں میں بھی نہ ملیں گے۔
چچا ہم سے دوبارہ ملے بغیر اس دنیا سے چلے گئے!!!
ٹرین دلی شہر سے نکلی تو چھم چھم بارش ہونے لگی۔ لگا سارا جہاں رو رہا ہے۔ بس ایک ہم ہیں جس کی آنکھوں کے سوتے خشک ہیں۔ شاید بارش رات بھر ہوتی رہی۔ صبح کے پانچ بجے ہوں گے جب ہم نے کھڑکی کھول کر دیکھا۔ بارش ہلکی پھوار میں تبدیل ہوچکی تھی۔ اکا دکا کے علاوہ سب مسافر سورہے تھے۔ ہمارے چہرے پر پھوار کے ہلکے ہلکے قطرے پڑنے لگے۔ ہم بار بار صاف کرتے اور وہ بار بار چہرہ بھگودیتے۔ تبھی اچانک سرحدوں کی درمیانی باڑ آگئی۔ پھاٹک کھل گئے اور ہم سرحد کے اُس پار داخل ہوگئے۔ اپنے دیس میں۔
لیکن ہمارا دیس کون سا تھا یہ یا وہ؟؟؟
ہمارے جسم کے ٹکڑے اِدھر بھی تھے اور اُدھر بھی۔ ہم اپنے آپ کو یہاں تلاشیں یا وہاں۔ اپنوں سے ایسی جدائیاں کیوں ہوئیں کہ بھائی بھائی کو ترس گیا اور ماں اولاد کو۔ اتنی دوریاں کہ ایک دوسرے کو قبروں میں اتارنے کے لیے بھی نہ آسکیں۔ سب جیتے جی اپنی اپنی قبروں میں دفن ہوگئے۔ شاید اب ہم اپنی قبر سے نکل کر ان لوگوں کو دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔ کاش ہم ان سے نہ ملے ہوتے۔ آج ہم نے جانا شناسائی کا عذاب سہنا ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ یہ شناسائی ہی تھی جو ہم سب کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ آئے تھے۔
ہماری نظروں میں دادی کا جھکا سر، معین کے آنسو کی قطاریں، شائستہ کا سسکنا، چچی کا چپکے چپکے آنسو پونچھنا اور چچا کا آنکھیں مَلنا سب گھوم گیا۔ یہ سارے رشتے ہمارے تھے مگر سب ہمارے ہاتھ سے نکل گئے تھے۔۔۔
شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لیے!!!
بے بسی کا شدید احساس تھا جو ہماری آنکھوں کے خشک سوتے بھگو گیا۔ برستی آنکھیں باہر برستی بارش کا ساتھ دینے لگیں۔۔۔
ہم نے بہتے ہوئے آنسو نہ پونچھے۔۔۔
کون پہچاننے والا تھا کہ آنسو ہیں یا برستی برسات کے قطرے!!!
شکریہ نظامی صاحب!!!واہ ہمیں یہاں بیٹھے ہندوستان کی سیر کروا دی، کیا خوب منظر نگاری ہے۔ ما شاء اللہ
دہرہ دون!اس سفرنامے کے سبب پرسوں دہرہ دون میں رشتہ داروں کی یاد آئی تو بات بھی ہوگئی!!!
جاتے ہوئے اُلٹا اور وہاں اترتے ہوئے سیدھا پاؤں پہلے رکھا!!!عمران بھائی ابھی صرف تصاویر ہی دیکھی ہیں، پوری تحریر نہیں پڑھی۔ آپ نے جس طرح اپنی تحریر کو تصاویر سے مذین کیا ہے، سچ میں وہاں کی سیر کروا دی ہے۔
باقی تبصرہ بعد میں کروں گا۔ فی الحال یہ بتا دیجیے کہ پاکستان سے جاتے ہوئے سرزمین پاک سے آپ نے اپنا کون سا پاؤں آخر میں اٹھایا اور سر زمین ہند پر سب سے پہلے کون سا پاؤں رکھا؟
میرا ددھیال لکھنؤ اورننھیال محمودآباد یہ ایک شیعہ اسٹیٹ راجہ صاحب محمودآباد ۔دہرہ دون!
میرا ددھیال وہاں کا ہے۔
ہا ہا ہادروازہ ’’بھیڑ‘‘ دیا گیا۔
جب بھی اس تحریر کو پڑھ لیتے ہیں دل بھاری ہوجاتا ہے کسقدر گداز ہے ایک ایک لفظ خلوص میں جڑُا ہے ۔۔ٹرین آگے بڑھ گئی۔ چچا بھیڑ میں گم ہوگئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا یہ ہماری ان کی آخری ملاقات ہے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ اب کے جو بچھڑے تو کبھی خوابوں میں بھی نہ ملیں گے۔
چچا ہم سے دوبارہ ملے بغیر اس دنیا سے چلے گئے!!!
کھانے لذیذ تو ہونے ہی تھے آخر علاقہ کونسا ہے کیرالہپھر اسی ہوٹل کے کھانے کھائے وہ بھی نہایت لذیذ پائے۔ معلوم ہوا کہ ہوٹل کا مالک ساؤتھ انڈین کے علاقہ کیرالہ سے تعلق رکھتا ہے۔
ھاھاھاھایہاں گائے کا گوشت نہیں ملتا، کٹّے کا گوشت استعمال کرتے ہیں۔‘‘ اس طرح شرمندہ شرمندہ انداز میں بتایا گیا کہ ہم خود شرمندہ ہوگئے۔
’’کٹّا کیا؟‘‘ ہم نے پہلی دفعہ سنا تھا۔
’’بھینس کا بیٹا۔‘‘ ایک کزن ہنستے ہنستے دوہری ہوگئی
ویسے ہم دروازہ نہیں کواڑ بھیڑتے ہیںہا ہا ہا
مزہ آ گیا سید صاحب
میرے گاؤں سے ۲ گھنٹے کے فاصلہ پر ہے۔کوئی پیغام پہنچانا ہو تو بتائیے گادہرہ دون!
میرا ددھیال وہاں کا ہے۔