سید عمران

محفلین
تاج محل کی بنیادوں میں کھڑے سینکڑوں پلرز کی تخیلاتی تصویر!!!

4-1.jpg
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
حوض کے اِس پار شاید کبھی شاہِ معظم شاہجہاں جلوہ افروز ہوتے ہوں گے۔۔۔
حوض کے اُس پار بنے طاقچوں میں شاید کبھی چراغ جلتے ہوں گے!!!
mehtab-bagh-pond.jpg
 

سید عمران

محفلین
دلچسپ بات ہے کہ تاج محل کی جتنی تصویریں منظر عام پر ہیں وہ اس کا پچھلا رُخ ہے۔۔۔
تاج محل کا فرنٹ ویو مہتاب باغ سے نظر آتا ہے ۔۔۔
یہاں سے تاج محل کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ آپ کی طرف متوجہ ہے۔۔۔
اپنی بھرپور توجہ کے ساتھ!!!

admiring-the-taj-mahal-from-mehtab-bagh-park-in-agra-uttar-prade.jpg
 

سید عمران

محفلین
قلعہ آگرہ اور تاج محل میں تقریباً دو کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔۔۔
دونوں جمنا دریا کے دائیں طرف واقع ہیں۔۔۔
شاہجہاں قلعہ سے بذریعہ کشتی تاج محل کے پچھلی جانب بنے دروازے سے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آتا تھا۔۔۔
اب دروازہ پر اینٹیں چنوا دی گئیں ہیں۔۔۔
اور سیڑھیوں پر جالی کا دروازہ لگا کر بند کردیا گیا!!!
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
انسان کے ہاتھوں بنے تاج محل کا سب سے بڑا دشمن بھی انسان ہی ثابت ہورہا ہے۔ تاج محل کے انجینئرز اور معماروں نے اسے قدرتی آفات سے بچانے کی تو ہر ممکن تدابیر اختیار کرلی تھیں۔ لیکن انسانی ہاتھوں سے بچانے کے معاملے میں وہ بھی بے بس نظر آئے۔انگریز کے ہاتھوں مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اسے انگریزوں نے جس بے دردی سے لوٹا، اس کی دیواروں پہ جڑے ہیرے جواہرات گِدھوں کی طرح نوچ کھائے اس کی مثال نہیں ملتی۔
رہی سہی کسر آج کے مشینی دور کے کیمیائی مادّوں نے پوری کردی۔ کارخانے کی چمنیوں سے نکلتا دھواں، گاڑیوں سے خارج ہوتے سیسے کے مادّے اور ڈیزل جنریٹرز کی بہتات نے تاج محل کا حسن گہنا دیا، اس کی سفیدی ماند کردی۔ جب ہم نے آگرہ قلعہ سے تاج محل دیکھا تھا تو اس کا گنبد بالکل پیلا نظر آیا۔ دیکھ کر دکھ ہوا۔ لیکن اب تاج محل پر جمی پیلاہٹ دور کرنے کا ایک آسان نسخہ ہاتھ آیا ہےجو صدیوں سے برصغیر کی خواتین استعمال کرتی آئی ہیں یعنی ملتانی مٹی کا ماسک۔
کوئی اسے ملتانی مٹی کہتا ہے اور کوئی خاص قسم کی مٹی۔ لیکن ہوتا یہ Clay Mask ہے۔ اس کا لیپ تاج محل پر جمی تمام چکناہٹ اور میل کچیل جذب کرکے اس کا رُخ دوبارہ روشن و تاباں کردیتا ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
تاج محل میں جابجا بنے نقش و نگار اور جڑاؤ پتھروں کی قریب سے تصویر۔۔۔
متعدد جگہوں پر اب تک لاکھوں انسانی ہاتھ لگنے سے یہ اُکھڑنے لگے ہیں یا کالے پڑگئے ہیں۔۔۔
مغلیہ محلات میں ہوا اور روشنی کی آمد و رفت کے لیےoctagonal یعنی ہشت پہلو یعنی آٹھ پہلو والے ڈیزائن کی کھڑکیاں بنائی گئی ہیں جیسا کہ اس تصویر میں بھی نمایاں ہیں۔۔۔
بقول ایک گائیڈ یہ ڈیزائن اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے باہر سے ہوا اور روشنی تو آتی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آتا!!!

o-jali-trelica-tela-e-parede-decorados-dentro-do-taj-mahal-agra.jpg
 
Top