نمرہ
محفلین
موسم سرما کی طویل شاموں میں ، جو کبھی پراسریت کی دھند میں لپٹی ہوا کرتی تھیں مگر اب ہمارے مزاج کی طرح نری خشک رہ گئی ہیں، اداس تو ہم بھی پھرا کرتے ہیں مگر اس کا سبب اکثر خراش زدہ گلا ہوا کرتا ہے۔
ایسا نہیں کہ ہمیں دنیا سے خدانخواستہ اور کوئی شکایت ہی نہیں رہی ۔ بات یہ ہے کہ باقی غم مثلا انسان کی لاچاری اور پھر اس پر آزادی کی سزا، دنیا بلکہ کاسموس کی بے التفاتی نیز با س کی بےرخی، گردش ایام کی تلخی اور صبح کی کافی کی مٹھاس وغیرہ تو جون کی چلچلاتی دوپہر میں بھی اسی قدر ہمراہ ہوتے ہیں جتنے کہ جنوری کی شام میں مگر موسم سرما میں اصل غم نزلے کا ہوتا ہے جوکسی بھی وقت انسان کو یا تو
۱۔ لاحق ہو چکا ہوتا ہے ،یا پھر
۲۔ لاحق ہونے والا ہوتا ہے یعنی اردگرد کسی شخص کو چمٹا ہوتا ہے۔
بیمار پڑنا بلکہ بیماری میں پڑنا تو ایک طے شدہ امر ہے مگر سردیوں میں اس کے انتظار میں اچھا خاصا وقت غارت ہوتا ہے۔ایک لحاظ سے اتنا کڑا وقت بیماری کے دوران نہیں گزرتا جتنا ا س کی راہ دیکھنے میں گزرتا ہے، نہ تو آئے نہ جائے بے قراری۔ سچ یہ ہے کہ جیسے ہی ہم اعشاریہ ایک ہرٹز کی فریکوئنسی کے ساتھ چھینکنا شروع کرتے ہیں تو دل کو یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ شکر ہے آخرکار بیمار ہو ہی گئے۔ اب کچھ عرصہ علیل رہیں گے اور پھر خدا نے چاہا تو اچھے بھلے ہو کر چہکتے پھریں گے۔ بیماری میں پڑنا یوں کہ ہمارا نظریہ ہے کہ جب بیماری آ ہی جائے تو اسے اچھی طرح خود پر طاری کر کے دنیا کی ہمدردی حاصل کرنی چاہیے لیکن کچھ لوگ اس پر الزام لگاتے ہیں کہ شاید ہمیں بیمار ہونے اور رہنے کا شوق ہے اسی لیے سویٹر کے بغیر گھوما کرتے ہیں۔ اب جو شخص وائرسوں کا قائل نہ ہو، اس سے بحث کیسی۔
پھر جب کبھی طبیعت ناساز ہو تو نصف ٹھنڈی آہیں ہم بیماری کے باعث بھرا کرتے ہیں اور بقیہ نصف جوش کی حسن بیمار کے مارے۔ یوں تو جوش ایک قادرالکلام شاعر تھے مگر نظم مذکورہ میں انھوں نے جو اردو شاعری اور فینٹسی کی حدیں ملا دیں ہیں اس پر ہر عام بیمار کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔اگر انسان کو فینٹسی پڑھنی ہی ہو تو برینڈن سینڈرسن پڑھے، اردو شاعری میں گھسنے کی کیا تک ہے؟ پھر اس نظم کے استعارے اور تشبیہات تو دیکھیے۔ کچی نیند سے بیدار کیے جانے پر لوگ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور مروت تو اب زمانے کی آنکھ سے ہی غائب ہے۔ ایفائے پیماں؟ ہاہا جناب، بڑے مزاحیہ ہیں آپ۔ بیماری میں مسکرانے کا نہیں بلکہ پوری دنیا کی مسکراہٹیں نوچنے کو جی چاہتا ہے اور چوڑیاں تو خیر اس وقت کی یادگار ہیں جب خواتین باضابطہ طور پر دوسرے انسانوں کی پراپرٹی ہوا کرتی تھیں۔ بھری برسات کے تذکرے سے اب فقط آنکھیں بھر آتی ہیں جب اپنے ملک کی سال بہ سال گھٹتی رین فال کا خیال آتا ہے۔
وہ جو جناب آرویل کے باڑے میں برابر اور کچھ زیادہ برابر جانور تھے تو اسی طرح آج کل بیمار سب ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔ ہمارا شمار مؤخرالذکر میں ہوتا ہے یا کم از کم ہم اپنے آپ کو تسلی یہی دیا کرتے ہیں کہ بھئی اور بیمار اتنے بیمار نہیں ہوتے اس لیے ان کی شکل سے دوران علالت ایسی نحوست نہیں ٹپکتی کہ آئینہ دیکھنے سے خود ڈر لگے ۔ جلنے والے کہا کرتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیماری میں انسان کا ظاہر و باطن ایک ہو جاتا ہے لیکن ہمارے لیے تو ایسا گمان بھی خوش فہمی کے زمرے میں آتا ہے۔قیاس ہے کہ جوش کو کبھی کسی جینوئن بیمار کی تیمارداری سے بھی واسطہ نہیں پڑا ہو گا کیونکہ اگر انھیں بار بار من پسند درجہ حرارت والے پانی کے لیے دوڑایا جاتا تو وہ گلاس ہی اگلے کے سر پر مار دیتے، اس قسم کی نظمیں نہ کہتے۔ علیل ہو کر تو اچھے بھلے لوگ بھی ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں، دیار ناز میں رہنے والوں کا کیا کہنا۔
انسانی تاریخ کا غالبا بگ بینگ کی ساعت سے ایک اصول چلا آتا ہے کہ جو وقت گزر چکا وہ (اور وہ ہی ) بہت اچھا تھا ۔ قدیم لٹریچر اٹھا کر دیکھیے، یہ ہمیشہ کا رونا پیٹنا رہا ہے کہ ہائے، کیا کیا اوصاف تھے کہ مرور زمانہ کے ہاتھوں خاک میں پنہاں ہو گئے۔ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں بھی شاید اسی کی ایک کرولری ہے ۔ سکول کے زمانے کو وہ لوگ بھی بعدمیں آہیں بھرتے ہوئے یاد کرتے ہیں جنھیں ان کے کلاس فیلوز عجیب و غریب سمجھ کر ان کا سماجی مقاطعہ کیے رکھتے تھے ، لنچ چھیننے کے علاوہ ،اور جو دنیا سے اس کا بدلہ لینے کو دفتر میں سیاست بازی کرتے ہیں۔ اب ہم اسی اصول سے متاثر ہو رہے ہوں تو اسے انسانی کمزوری پر محمول کیا جائے مگر وہ اچھا وقت تھا کہ ہمارے برصغیر میں لوگ چشم نرگِس وغیرہ کے بیمار ہوتے تھے اور دل کے عارضے میں مبتلا۔ اس میں آسانی یہ تھی کہ مہنگے ہسپتالوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے تھے۔ تیر نیم کش بھی مفت میں آتا تھا اور مسیحا کابھی کوئی خاص خرچہ نہ ہوتا تھا اگر وہ نصیب ہو جائے۔ نہ ملے تو گریبان پھاڑ، صحرا کو نکل جائیے اور آئیڈیل زندگی بسر کیجیے۔ تپ دق تک کو تو کنزمپشن جیسا شاعرانہ نام دے رکھا تھا لوگوں نے۔ خود ہم ودرنگ ہائٹس کی کیتھرین ارن شا کے بڑے معتقد ہیں کہ خاتون کے بریک ڈاؤن کے بعد نسخے میں گھر والوں کو ان سے اختلاف سے پرہیز بتایا گیا تھا۔ اب تو بریک ڈاؤن قطعی گاڑیوں کے انجنوں کا فعل رہ گیا ہے۔ رہا دل تو وہ اب بھی آ جاتا ہے مگر مہینے کے تیس دنوں میں انٹرنیٹ پر دیکھے گئے ساٹھ جوتوں پر جنھیں خریدنے کو ایک سو بیس دنوں کی تنخواہ بھی کم ہو۔ لیکن بھئی وہ لوگ اور تھے، زندگی میں کمی محسوس کرتے تھے تو راج پاٹ تک سے ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ کمی کے تو ہم بھی شکار ہیں مگر یہ قلت ہمیشہ نمبروں اور ہندسوں کی رہی ہے، کبھی رزلٹ کارڈ میں تو کبھی کریڈٹ کارڈ میں۔نمبر آج کل بہت ان ہیں بگ ڈیٹا کی شکل میں ،مثال کے طورپر لوگ انسانوں کی ٹوئیٹوں کی مدد سے ان کی آمدنی اور سماجی طبقے کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمار ی دلچسپی اب فقط کریڈٹ ڈیبٹ والی تحریروں میں ہے۔
بیماری کا ایک فائدہ جوہزار تکالیف پر بھاری ہے وہ یہ ہے کہ صحت یاب ہونے کے بعد انسان کا زاویہ نگاہ ایک دم سے تبدیل ہو جاتا ہے اور پوری دنیا خوبصورت لگتی ہے۔ان پھولوں اور بادلوں کی طرف نگاہ جاتی ہے جو عام حالات میں کبھی دکھائی نہیں دیتے۔ بے ہنگم ٹریفک میں ترتیب نظر آتی دیتی ہے اور ہارنوں کے شور میں موسیقیت سنائی دیتی ہے۔ لوگوں کی جو باتیں عام دنوں میں ضرب دے کر محسوس کی جاتی ہیں وہ صحت یابی کے دوران تقسیم ہو کر رستے میں گر رہتی ہیں،یہاں تک کہ نوع انسانی کے مستقبل سے خودبخود امیدیں سی بندھنے لگتی ہیں۔ کچھ تو ہوتا ہے کہ انسان کی سوئی شوپنہار سے گھوم کر رسل کی طرف مڑ جاتی ہے۔ لوگ زاویہ نگاہ کا تعلق عمر سے جوڑتے ہیں مگر ہم اتنا کہتے ہیں کہ گلے کی بحالی کے اگلے دن کوئی شخص قنوطی نہیں رہ سکتا۔ ہر مرتبہ بستر علالت سے اٹھنے اور بستر غیرعلالت پرگرنے کےدرمیانی وقفے میں یہی خیال آتا ہے کہ زندگی اتنی بری بھی نہیں اور جیسی بھی ہے، بہرحال جدوجہد سے عبارت ہے اور اب چونکہ بفضل خدا ہمارا گلا خراش فری ہے تو جدوجہد جیسا معمولی کام تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔اگر جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی تو یہ کون سا بڑا مسئلہ ہے۔ اگلی دفعہ البتہ ہلکے سے خراش زدہ گلے پر آئس کریم کھانے سے پرہیز کریں گے کہ احتیاط اچھی چیز ہے، کر لینی چاہیے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کہ آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری میں گلے کے ساتھ ساتھ قوت ارادی بھی بہت نازک ہوا کرتی ہے۔
سکول کالج سے بیماری کی صور ت میں چھٹی کی جاتی ہے اور ضمیر پر بوجھ لیے بغیر ۔پسند کی نوکری کا البتہ یہ نقصان ہے کہ انسان اس سے بھی جاتا رہتا ہے۔جب گھر میں لیٹ کر بھی ذہن اپنی تاروں میں الجھا ہوا ہو تو بہتر یہی ہے کہ تاریں سلجھانے دفتر کی راہ لی جائے۔ ایسے میں اپنے ساتھ والوں پر ہمیں ضرور ترس آتا ہے جو مفت میں بیماری سمیٹتے ہیں۔اگر ہمارےبس میں ہو تو وائرس سمیت دفتر آنے والوں کو بزور شمشیر واپس گھر بھیجا جائے۔ہماری رائے میں بیمار لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے وائرسوں سے اور لوگوں کو محفوظ رکھیں۔
بیمار ہو کر ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ دراصل یہ دنیا بیکٹیریوں، وائرسوں کی دنیا ہے جو ایسے ایسے مقامات پر پھلتے پھولتے ہیں جہاں اوروں کا ٹھہرنا محال ہے۔ ہم آپ تو محض اس لیے تخلیق کیےگئے ہیں کہ دنیا فتح کرنے میں ان کی مدد کریں۔ خوردبین کے بغیر دکھائی نہ دینے والے یہ جاندار اچھے بھلے انسان پر حملہ کر کے اس کا سسٹم ہیک کر لیتے ہیں اور اسے اپنی نشونما کے لیے جس طرح چاہیں استعمال کرتے ہیں ۔اِدھر انسانوں میں ارتقا کی رفتار اتنی کم ہے کہ ہم ابھی تک موبائل فونوں کے درست استعمال سے آشنا نہیں ہو پائے۔ اْدھر یہ چھوٹے موٹے سے کیڑے اتنی تیزی سے ہیئت تبدیل کرتے ہیں کہ نت نئی ادویہ کو پیچھے چھوڑتے جاتے ہیں اور بیچارے ڈبلیو ایچ او والے خطرے کے سائرن بجانے سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔
ہارر فلموں اور بیماریوں کا ایک مشترکہ اصول یہ ہے کہ نظر نہ آنے والے فنومینا، نظر آنے والے فنومینا سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔کیڑوں کانٹوں سے ہونے والی بیماریوں کا انسان پر اثر تو خیر نظر آتا ہے مگر ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کیا ذہنی طور پر متوازن اور غیر متوازن ہونے کی تخصیص قطعی جمہوری اصولوں پر نہیں کی جاتی؟ یعنی کہ کسی شخص کو پاگل قرار دینے کی دلیل صرف یہ ہے کہ اور بہت سے لوگ اسے پاگل کہیں۔ جمہوریت اچھی چیز ہے مگر منطق کے اصولوں میں اس کی کوئی خاص گنجائش نہیں۔ یہ سوچ کر ہی جھرجھری آتی ہے کہ آج تک دنیا نے نجانے کتنے مختلف لوگ پاگل قرار دے کر خانوں میں بند کرا دیے ہوں گے۔
بیماری کے عالم میں انسان کو سب سے پہلے خدا اور پھر اپنی اماں کا خیال آتا ہے جو عام حالات میں لیپ ٹاپ کے شومئی قسمت سے بند ہو جانے سے قبل نہیں آتا۔یوں تو ہم سارتر کے جملے کو ایٹ بریکفاسٹ اڑا کے ہیل از ادر پیپل پڑھتے ہیں اور گلے میں اس کی تختی ڈال کے پھرنے کی آرزو رکھتے ہیں لیکن اتنا اعتراف کریں گے کہ بیمار انسان ایک معاشرتی جانور ہوا کرتا ہے۔درست ہےکہ کچھ لوگوں کی بیماری کا مقصد ہی اردگرد کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے پر اس کے علاوہ تکلیف کی صورت میں انسانی ہمدردی کی ضرورت سبھی کو محسوس ہوتی ہے۔ وہ جو غالب نے تیمار دار کی غیر موجودگی میں بیمار ہونے کی دعا کی ہے تو وہ خود اذیتی کی حدوں کو پہنچتی ہوئی صورت حال میں کی ہے ۔ دنیا لاکھ بری سہی لیکن اس سےکٹ کرصرف تندرستی کےعالم میں ہی رہا جا سکتا ہے۔ روبن سن کروسو والی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ جزیرے پر انسان کو بیمار کرنے والے جراثیم نہ ہوں۔ ان کے دیکھے کی تو خیر بات ہی اور ہے مگر خرابئ صحت میں جنیرک تسلیاں بھی اچھی لگتی ہیں۔ بعض ڈاکٹروں کو دیکھ کر مشورہ دینے کو جی چاہتا ہے کہ جناب والا، آدھے مریض تو صرف آپ کی ایک مسکراہٹ سے شفایاب ہو سکتے ہیں تو آپ انھیں کیوں محروم رکھتے ہیں۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا کہ خوش اخلاقی کو ہمارے لیے صدقہ کہا گیا ہے اور ہم ہی اسے یا تو اپنا مطلب نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا دوسرے کا غلط مطلب نکالنے کے لیے۔
سب شکایتیں اپنی جگہ مگر صحت کی اہمیت کا اندازہ بیمار ہو کر ہی ہوتا ہے وگرنہ شکر کی پٹی کون باندھے پھرتا ہے۔دنیا میں رواج ہے کہ ہر چیز کی قدر یا تو اس کے ہاتھ میں آنے سے پہلے کیا کرتے ہیں یا جانے کے بعد۔ تو ایسے میں کرہ ارض پر بھاگنے دوڑنے کی آزادی کی قدر جاننے کے لیے کبھی کبھار بیڈرڈن یا بستر کا پابند ہونا گھاٹے کا سودا نہیں۔
ایسا نہیں کہ ہمیں دنیا سے خدانخواستہ اور کوئی شکایت ہی نہیں رہی ۔ بات یہ ہے کہ باقی غم مثلا انسان کی لاچاری اور پھر اس پر آزادی کی سزا، دنیا بلکہ کاسموس کی بے التفاتی نیز با س کی بےرخی، گردش ایام کی تلخی اور صبح کی کافی کی مٹھاس وغیرہ تو جون کی چلچلاتی دوپہر میں بھی اسی قدر ہمراہ ہوتے ہیں جتنے کہ جنوری کی شام میں مگر موسم سرما میں اصل غم نزلے کا ہوتا ہے جوکسی بھی وقت انسان کو یا تو
۱۔ لاحق ہو چکا ہوتا ہے ،یا پھر
۲۔ لاحق ہونے والا ہوتا ہے یعنی اردگرد کسی شخص کو چمٹا ہوتا ہے۔
بیمار پڑنا بلکہ بیماری میں پڑنا تو ایک طے شدہ امر ہے مگر سردیوں میں اس کے انتظار میں اچھا خاصا وقت غارت ہوتا ہے۔ایک لحاظ سے اتنا کڑا وقت بیماری کے دوران نہیں گزرتا جتنا ا س کی راہ دیکھنے میں گزرتا ہے، نہ تو آئے نہ جائے بے قراری۔ سچ یہ ہے کہ جیسے ہی ہم اعشاریہ ایک ہرٹز کی فریکوئنسی کے ساتھ چھینکنا شروع کرتے ہیں تو دل کو یک گونہ اطمینان ہوتا ہے کہ شکر ہے آخرکار بیمار ہو ہی گئے۔ اب کچھ عرصہ علیل رہیں گے اور پھر خدا نے چاہا تو اچھے بھلے ہو کر چہکتے پھریں گے۔ بیماری میں پڑنا یوں کہ ہمارا نظریہ ہے کہ جب بیماری آ ہی جائے تو اسے اچھی طرح خود پر طاری کر کے دنیا کی ہمدردی حاصل کرنی چاہیے لیکن کچھ لوگ اس پر الزام لگاتے ہیں کہ شاید ہمیں بیمار ہونے اور رہنے کا شوق ہے اسی لیے سویٹر کے بغیر گھوما کرتے ہیں۔ اب جو شخص وائرسوں کا قائل نہ ہو، اس سے بحث کیسی۔
پھر جب کبھی طبیعت ناساز ہو تو نصف ٹھنڈی آہیں ہم بیماری کے باعث بھرا کرتے ہیں اور بقیہ نصف جوش کی حسن بیمار کے مارے۔ یوں تو جوش ایک قادرالکلام شاعر تھے مگر نظم مذکورہ میں انھوں نے جو اردو شاعری اور فینٹسی کی حدیں ملا دیں ہیں اس پر ہر عام بیمار کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے۔اگر انسان کو فینٹسی پڑھنی ہی ہو تو برینڈن سینڈرسن پڑھے، اردو شاعری میں گھسنے کی کیا تک ہے؟ پھر اس نظم کے استعارے اور تشبیہات تو دیکھیے۔ کچی نیند سے بیدار کیے جانے پر لوگ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں اور مروت تو اب زمانے کی آنکھ سے ہی غائب ہے۔ ایفائے پیماں؟ ہاہا جناب، بڑے مزاحیہ ہیں آپ۔ بیماری میں مسکرانے کا نہیں بلکہ پوری دنیا کی مسکراہٹیں نوچنے کو جی چاہتا ہے اور چوڑیاں تو خیر اس وقت کی یادگار ہیں جب خواتین باضابطہ طور پر دوسرے انسانوں کی پراپرٹی ہوا کرتی تھیں۔ بھری برسات کے تذکرے سے اب فقط آنکھیں بھر آتی ہیں جب اپنے ملک کی سال بہ سال گھٹتی رین فال کا خیال آتا ہے۔
وہ جو جناب آرویل کے باڑے میں برابر اور کچھ زیادہ برابر جانور تھے تو اسی طرح آج کل بیمار سب ہوتے ہیں مگر کچھ لوگ زیادہ بیمار ہوتے ہیں۔ ہمارا شمار مؤخرالذکر میں ہوتا ہے یا کم از کم ہم اپنے آپ کو تسلی یہی دیا کرتے ہیں کہ بھئی اور بیمار اتنے بیمار نہیں ہوتے اس لیے ان کی شکل سے دوران علالت ایسی نحوست نہیں ٹپکتی کہ آئینہ دیکھنے سے خود ڈر لگے ۔ جلنے والے کہا کرتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیماری میں انسان کا ظاہر و باطن ایک ہو جاتا ہے لیکن ہمارے لیے تو ایسا گمان بھی خوش فہمی کے زمرے میں آتا ہے۔قیاس ہے کہ جوش کو کبھی کسی جینوئن بیمار کی تیمارداری سے بھی واسطہ نہیں پڑا ہو گا کیونکہ اگر انھیں بار بار من پسند درجہ حرارت والے پانی کے لیے دوڑایا جاتا تو وہ گلاس ہی اگلے کے سر پر مار دیتے، اس قسم کی نظمیں نہ کہتے۔ علیل ہو کر تو اچھے بھلے لوگ بھی ناقابل برداشت ہو جاتے ہیں، دیار ناز میں رہنے والوں کا کیا کہنا۔
انسانی تاریخ کا غالبا بگ بینگ کی ساعت سے ایک اصول چلا آتا ہے کہ جو وقت گزر چکا وہ (اور وہ ہی ) بہت اچھا تھا ۔ قدیم لٹریچر اٹھا کر دیکھیے، یہ ہمیشہ کا رونا پیٹنا رہا ہے کہ ہائے، کیا کیا اوصاف تھے کہ مرور زمانہ کے ہاتھوں خاک میں پنہاں ہو گئے۔ خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں بھی شاید اسی کی ایک کرولری ہے ۔ سکول کے زمانے کو وہ لوگ بھی بعدمیں آہیں بھرتے ہوئے یاد کرتے ہیں جنھیں ان کے کلاس فیلوز عجیب و غریب سمجھ کر ان کا سماجی مقاطعہ کیے رکھتے تھے ، لنچ چھیننے کے علاوہ ،اور جو دنیا سے اس کا بدلہ لینے کو دفتر میں سیاست بازی کرتے ہیں۔ اب ہم اسی اصول سے متاثر ہو رہے ہوں تو اسے انسانی کمزوری پر محمول کیا جائے مگر وہ اچھا وقت تھا کہ ہمارے برصغیر میں لوگ چشم نرگِس وغیرہ کے بیمار ہوتے تھے اور دل کے عارضے میں مبتلا۔ اس میں آسانی یہ تھی کہ مہنگے ہسپتالوں کے چکر نہیں لگانے پڑتے تھے۔ تیر نیم کش بھی مفت میں آتا تھا اور مسیحا کابھی کوئی خاص خرچہ نہ ہوتا تھا اگر وہ نصیب ہو جائے۔ نہ ملے تو گریبان پھاڑ، صحرا کو نکل جائیے اور آئیڈیل زندگی بسر کیجیے۔ تپ دق تک کو تو کنزمپشن جیسا شاعرانہ نام دے رکھا تھا لوگوں نے۔ خود ہم ودرنگ ہائٹس کی کیتھرین ارن شا کے بڑے معتقد ہیں کہ خاتون کے بریک ڈاؤن کے بعد نسخے میں گھر والوں کو ان سے اختلاف سے پرہیز بتایا گیا تھا۔ اب تو بریک ڈاؤن قطعی گاڑیوں کے انجنوں کا فعل رہ گیا ہے۔ رہا دل تو وہ اب بھی آ جاتا ہے مگر مہینے کے تیس دنوں میں انٹرنیٹ پر دیکھے گئے ساٹھ جوتوں پر جنھیں خریدنے کو ایک سو بیس دنوں کی تنخواہ بھی کم ہو۔ لیکن بھئی وہ لوگ اور تھے، زندگی میں کمی محسوس کرتے تھے تو راج پاٹ تک سے ہاتھ جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ کمی کے تو ہم بھی شکار ہیں مگر یہ قلت ہمیشہ نمبروں اور ہندسوں کی رہی ہے، کبھی رزلٹ کارڈ میں تو کبھی کریڈٹ کارڈ میں۔نمبر آج کل بہت ان ہیں بگ ڈیٹا کی شکل میں ،مثال کے طورپر لوگ انسانوں کی ٹوئیٹوں کی مدد سے ان کی آمدنی اور سماجی طبقے کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمار ی دلچسپی اب فقط کریڈٹ ڈیبٹ والی تحریروں میں ہے۔
بیماری کا ایک فائدہ جوہزار تکالیف پر بھاری ہے وہ یہ ہے کہ صحت یاب ہونے کے بعد انسان کا زاویہ نگاہ ایک دم سے تبدیل ہو جاتا ہے اور پوری دنیا خوبصورت لگتی ہے۔ان پھولوں اور بادلوں کی طرف نگاہ جاتی ہے جو عام حالات میں کبھی دکھائی نہیں دیتے۔ بے ہنگم ٹریفک میں ترتیب نظر آتی دیتی ہے اور ہارنوں کے شور میں موسیقیت سنائی دیتی ہے۔ لوگوں کی جو باتیں عام دنوں میں ضرب دے کر محسوس کی جاتی ہیں وہ صحت یابی کے دوران تقسیم ہو کر رستے میں گر رہتی ہیں،یہاں تک کہ نوع انسانی کے مستقبل سے خودبخود امیدیں سی بندھنے لگتی ہیں۔ کچھ تو ہوتا ہے کہ انسان کی سوئی شوپنہار سے گھوم کر رسل کی طرف مڑ جاتی ہے۔ لوگ زاویہ نگاہ کا تعلق عمر سے جوڑتے ہیں مگر ہم اتنا کہتے ہیں کہ گلے کی بحالی کے اگلے دن کوئی شخص قنوطی نہیں رہ سکتا۔ ہر مرتبہ بستر علالت سے اٹھنے اور بستر غیرعلالت پرگرنے کےدرمیانی وقفے میں یہی خیال آتا ہے کہ زندگی اتنی بری بھی نہیں اور جیسی بھی ہے، بہرحال جدوجہد سے عبارت ہے اور اب چونکہ بفضل خدا ہمارا گلا خراش فری ہے تو جدوجہد جیسا معمولی کام تو ہم کر ہی سکتے ہیں۔اگر جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی تو یہ کون سا بڑا مسئلہ ہے۔ اگلی دفعہ البتہ ہلکے سے خراش زدہ گلے پر آئس کریم کھانے سے پرہیز کریں گے کہ احتیاط اچھی چیز ہے، کر لینی چاہیے۔ لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ کہ آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری میں گلے کے ساتھ ساتھ قوت ارادی بھی بہت نازک ہوا کرتی ہے۔
سکول کالج سے بیماری کی صور ت میں چھٹی کی جاتی ہے اور ضمیر پر بوجھ لیے بغیر ۔پسند کی نوکری کا البتہ یہ نقصان ہے کہ انسان اس سے بھی جاتا رہتا ہے۔جب گھر میں لیٹ کر بھی ذہن اپنی تاروں میں الجھا ہوا ہو تو بہتر یہی ہے کہ تاریں سلجھانے دفتر کی راہ لی جائے۔ ایسے میں اپنے ساتھ والوں پر ہمیں ضرور ترس آتا ہے جو مفت میں بیماری سمیٹتے ہیں۔اگر ہمارےبس میں ہو تو وائرس سمیت دفتر آنے والوں کو بزور شمشیر واپس گھر بھیجا جائے۔ہماری رائے میں بیمار لوگوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اپنے وائرسوں سے اور لوگوں کو محفوظ رکھیں۔
بیمار ہو کر ہم یہ بھی سوچتے ہیں کہ دراصل یہ دنیا بیکٹیریوں، وائرسوں کی دنیا ہے جو ایسے ایسے مقامات پر پھلتے پھولتے ہیں جہاں اوروں کا ٹھہرنا محال ہے۔ ہم آپ تو محض اس لیے تخلیق کیےگئے ہیں کہ دنیا فتح کرنے میں ان کی مدد کریں۔ خوردبین کے بغیر دکھائی نہ دینے والے یہ جاندار اچھے بھلے انسان پر حملہ کر کے اس کا سسٹم ہیک کر لیتے ہیں اور اسے اپنی نشونما کے لیے جس طرح چاہیں استعمال کرتے ہیں ۔اِدھر انسانوں میں ارتقا کی رفتار اتنی کم ہے کہ ہم ابھی تک موبائل فونوں کے درست استعمال سے آشنا نہیں ہو پائے۔ اْدھر یہ چھوٹے موٹے سے کیڑے اتنی تیزی سے ہیئت تبدیل کرتے ہیں کہ نت نئی ادویہ کو پیچھے چھوڑتے جاتے ہیں اور بیچارے ڈبلیو ایچ او والے خطرے کے سائرن بجانے سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتے۔
ہارر فلموں اور بیماریوں کا ایک مشترکہ اصول یہ ہے کہ نظر نہ آنے والے فنومینا، نظر آنے والے فنومینا سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں ۔کیڑوں کانٹوں سے ہونے والی بیماریوں کا انسان پر اثر تو خیر نظر آتا ہے مگر ہماری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کیا ذہنی طور پر متوازن اور غیر متوازن ہونے کی تخصیص قطعی جمہوری اصولوں پر نہیں کی جاتی؟ یعنی کہ کسی شخص کو پاگل قرار دینے کی دلیل صرف یہ ہے کہ اور بہت سے لوگ اسے پاگل کہیں۔ جمہوریت اچھی چیز ہے مگر منطق کے اصولوں میں اس کی کوئی خاص گنجائش نہیں۔ یہ سوچ کر ہی جھرجھری آتی ہے کہ آج تک دنیا نے نجانے کتنے مختلف لوگ پاگل قرار دے کر خانوں میں بند کرا دیے ہوں گے۔
بیماری کے عالم میں انسان کو سب سے پہلے خدا اور پھر اپنی اماں کا خیال آتا ہے جو عام حالات میں لیپ ٹاپ کے شومئی قسمت سے بند ہو جانے سے قبل نہیں آتا۔یوں تو ہم سارتر کے جملے کو ایٹ بریکفاسٹ اڑا کے ہیل از ادر پیپل پڑھتے ہیں اور گلے میں اس کی تختی ڈال کے پھرنے کی آرزو رکھتے ہیں لیکن اتنا اعتراف کریں گے کہ بیمار انسان ایک معاشرتی جانور ہوا کرتا ہے۔درست ہےکہ کچھ لوگوں کی بیماری کا مقصد ہی اردگرد کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے پر اس کے علاوہ تکلیف کی صورت میں انسانی ہمدردی کی ضرورت سبھی کو محسوس ہوتی ہے۔ وہ جو غالب نے تیمار دار کی غیر موجودگی میں بیمار ہونے کی دعا کی ہے تو وہ خود اذیتی کی حدوں کو پہنچتی ہوئی صورت حال میں کی ہے ۔ دنیا لاکھ بری سہی لیکن اس سےکٹ کرصرف تندرستی کےعالم میں ہی رہا جا سکتا ہے۔ روبن سن کروسو والی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ جزیرے پر انسان کو بیمار کرنے والے جراثیم نہ ہوں۔ ان کے دیکھے کی تو خیر بات ہی اور ہے مگر خرابئ صحت میں جنیرک تسلیاں بھی اچھی لگتی ہیں۔ بعض ڈاکٹروں کو دیکھ کر مشورہ دینے کو جی چاہتا ہے کہ جناب والا، آدھے مریض تو صرف آپ کی ایک مسکراہٹ سے شفایاب ہو سکتے ہیں تو آپ انھیں کیوں محروم رکھتے ہیں۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا کہ خوش اخلاقی کو ہمارے لیے صدقہ کہا گیا ہے اور ہم ہی اسے یا تو اپنا مطلب نکالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں یا دوسرے کا غلط مطلب نکالنے کے لیے۔
سب شکایتیں اپنی جگہ مگر صحت کی اہمیت کا اندازہ بیمار ہو کر ہی ہوتا ہے وگرنہ شکر کی پٹی کون باندھے پھرتا ہے۔دنیا میں رواج ہے کہ ہر چیز کی قدر یا تو اس کے ہاتھ میں آنے سے پہلے کیا کرتے ہیں یا جانے کے بعد۔ تو ایسے میں کرہ ارض پر بھاگنے دوڑنے کی آزادی کی قدر جاننے کے لیے کبھی کبھار بیڈرڈن یا بستر کا پابند ہونا گھاٹے کا سودا نہیں۔
آخری تدوین: