فاخر
محفلین
سرسید احمد خان کی خدمت میں’’احمد خان پٹھان‘‘ کا سلام
احمد خان پٹھان ،نئی دہلی
کل سرسید احمد ڈے تھا ، پتہ نہیں اب خان صاحب کو جنت میں اس کی اطلاع ملی ہوگی یا نہیں کہ اب ان کے نام پر بھی ’’ڈے ‘‘ منایا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ان کے حواری و مقلدین جو آنجہانی اور مرحوم ہوچکے ہیں ، نے اس کی اطلاع دی ہوگی اور خان صاحب خوشی میں پھولے نہیں سمارہے ہوں گے ؛کیوں کہ ’’ڈے ‘‘ منانا ان کی شریعت میں جائز اور روا ہے ، ان کو ’’یوم ‘‘ سے کلفت ہے ؛کیوں کہ ’’یوم ‘‘ قدامت پسندی کا مظہر ہے اور یوں بھی ڈے یا پھر یوم منانا ان کے مذہب میں ہی صحیح ہوسکتا ہے ۔ تاہم یہ بات ان کے لیے قابل رشک بھی ہوگی کہ خان صاحب سے متاثر ین کی ایک بڑی جماعت ان کے مقاصد کی تکمیل میں اب بھی لگی ہوئی ہے ۔ خواہ وہ لوگ پاکستان میں ہوں یا پھر ہندوستان کے کسی خطہ میں ۔ مولوی کل بھی ان (سرسید احمد خان )کی نظر میں ’’کتے ‘‘ تھے اور آج بھی مولوی جن میں زیادہ تعداد دیوبندی فاضلین کی ہی ہے ، ان کے معتقدین اور متوسلین اسی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کل خان صاحب نے مولانا قاسم نانوتوی اور دیگر علماء کو’’ہیچ نظروں ‘‘ سے دیکھا تھا اب ان کے روحانی اولاد مولوی کے ساتھ دست و گریباں ہیں ۔ اور جب سے سوشل میڈیا نے سر ابھارا ہے ،خان صاحبان اور نیچریوں کی لائن لگی ہوئی ہے اور جی بھر بھر کے ’’مولوی ‘‘ کو گالی دینا باعث ثواب اور ذخیرہ ٔ آخرت تصور کرتے ہیں ۔
خیر ! سرسید احمد خان صاحب واقعی قوم کے محسن تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے؛ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے اس احسان کے تئیں جو راہ اختیار کی، جو تدابیر اختیار کئے وہ سرے سے ہی ناپسندیدہ ،مکروہ اور کارِ عبث تھے اور ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سرسید نے پوری قوم کے ساتھ احسان کیا ہے؛ بلکہ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے صرف نام نہاد ’’اشرافیہ‘‘کے لیے یہ تمام کاوشیں کیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ’’قیام پاکستان ‘‘ کی صدا اسی’’ کار گہہ دانش فرنگ ‘‘ سے بلند کی گئی تھی۔ جب کہ دارالعلوم دیوبند نے اس کی شدید مخالفت کی تھی ، شیخ الہند اور شیخ الاسلام حضرت مدنی حتیٰ کہ مولانا آزادعلیہ الرحمہ کی ذات نے اس کی شدید مخالفت کی تھی مولانا آزاد کی جامع مسجد سے تاریخی تقریر تو آج بھی ہمارے سوشل میڈیا کے احباب یوٹیوب پرسنتے آئے ہیں۔ کئی حوالہ جات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزوں کے تملق میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ،حتیٰ کہ انگریز کی مداہنت میں قوم کے دینی تعلیم یافتگان کی ’’کتے ‘‘ سے بھی تشبیہ دے دی ،(تہذیب الاخلاق دیکھیں )جب کہ بحیثیت ایک معزز شخص کے اس طرح کی دیدہ و دانستہ ’’حماقت ‘‘ شایان نہیں تھی۔ ملکہ وکٹوریہ کی تعریف و توصیف میں ایسے ایسے اشارے ، تعبیرات اور تشبیہات وضع کئے گئے کہ فن قصیدہ گوئی کو بھی شرم آتی ہے ، یقین نہ آئے تو تہذیب الاخلاق دیکھ لیں۔ ذرا یاد کیجئے! انہوں نے انگلستان کا دورہ کیوں کیا تھا؟اس در کے پیچھے کون سے مقاصد تھے؟ وجہ تویہ بتائی جاتی ہے کہ اس کے پیچھے یہ مقصد تھا کہ وہ یورپی اقوام کے طور طریقے اور ان کی طرز زندگی کو قریب سے دیکھ اور سمجھ سکیں تاکہ اسی کے لحاظ سے قوم کی یعنی مسلمانوں کی پستی کو دور کرسکیں۔ ظاہراً اس تعبد اور تعشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی دیکھا دیکھی میں انہوں نے معجزات کا سرے سے ہی انکار کردیا۔ تفسیرات احمدیہ لکھی؛ لیکن تفسیرات کیا لکھی ،گویا ذہنی غلاظت کی مشق کاری قرآن مجید کی مقدس آیات کے ساتھ فرمادی تھی۔ انگریز وائسرائے سے علی گڑھ کی بنیاد رکھوائی ،کیوں ؟ ظاہر ہے کہ حکومت وقت سے امداد و کرم حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایسے وقت میں جب انگریز کا ظلم علماء کے ساتھ جائز تھا ،علماء کی گردنیں دہلی کے چاندنی چوک کے درختوں میں لٹکی ہوتی تھی ،مگر سرسید صاحب نے ایسے ظالم اور جابر کی مداہنت اور قربت کو جائزاور لازمی سمجھا۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی ہے کہ ان کی جماعت اور صف میں شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی جیسے لوگ تھے۔ در اصل شبلی نعمانی تو محض چند دنوں کے بعد ہی علی گڑھ کو خیرباد کہہ چکے تھے ،البتہ مولانا حالی ؔ اس سے وابستہ رہے۔ جس کو آج تک علی گڑھ کے اوباش اور الواط قسم کے لوگ برداشت اور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ذرا یاد تو کیجئے ! خان صاحب کے ہی اصرار پر مولانا حالی نے ’’مسدس لکھا تھا ۔ ہاں اگر ان کی جگہ کوئی وائسرائے ہوتا تو بصد شوق فخریہ یہ کہا جاتا کہ فلاں وائسرائے ہماری یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔
مسئلہ تقلیدکے عنوان سے خان صاحب کی گمراہی بھی قابل دید ہے ، یہودیوں اور نصرانیوں نے خان صاحب کو طلسم کدہ بناکر ہی دم لیا ۔ کبھی وہ خود اس کے قائل ہیں کہ اسلام کو ترقی دے جائے جو کہ ان کے گمان کے مطابق ’’زبوں حالی ‘‘ کا شکار ہے تو کبھی خود یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ترقی کو مغرب کی طرز پر حاصل کیا جائے ۔ خیر!محسن الملک کے نام اپنے ایک خط میں سرسید احمد خان لکھتے ہیں( واضح ہو کہ اس خط کا ذکر ڈاکٹر منظر اعظمی نے اپنی کتاب میں ’’سید احمد خان ‘‘ مرتبہ پروفیسر خلیق نظامی کے حوالہ سے کیا ہے) خان صاحب لکھتے ہیں :
’’بھائی جان سنو ! اب یہ وقت نہیں رہا ہے میں اپنی مکنونات ِ ضمیر کو مخفی رکھوں ۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر لوگ تقلید کو نہ چھوڑیں گے اور خاص اس روشنی میں جو قرآن و حدیث سے حاصل ہوتی ہے ، نہ تلاش کریں گے اور حال کے علوم سے مذہب کا مقابلہ نہ کرسکیں گے تو مذہب اسلام ہندوستان سے معدوم ہوجاوے گا ۔ اس خیرخواہی نے مجھ کو برانگیختہ کیا ہے جو ہر قسم کی تحقیقات کرتا ہوں اور تقلید کی پروا نہیں کرتا ۔ ورنہ آپ کو خوب معلوم ہے کہ میرے نزدیک مسلمان رہنے کے لیے اور بہشت میں داخل ہونے کے لیے ائمہ کبار تو درکنار مولوی ’’حبو ‘‘ کی بھی تقلید کافی ہے ‘‘ ۔
(اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ، صفحہ نمبر 204 )
دیکھ لیجئے ! خان صاحب نے اپنے ایک ہی جملے میں کتنی متضاد بات بیان کرڈالی ہے ۔گویا انہوں نے ائمہ کبار کی ترک تقلید کو اسلام کی ترقی کیلئے نہیں ؛بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی ’’ترقی‘‘ کے لیے ’’لازم ‘‘ خیال کیا ہے ۔ مولوی نے ان کی اس روش پر نکیرکی ہو ؛کیوں کہ مولوی ان کے اور ان کی لائی ترقی کے سخت ترین مخالف تھے ؛لیکن جب ان کے دست راست مولانا الطاف حسین حالیؔ بھی چیخ پڑے ہوں تو پھر کسی اور کے اعتراض کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔حیات جاوید میں سرسید احمد خان کی ’’کرتوت، انحراف ، نصاریٰ کی تقلید ، اور تتبع ‘‘ پر سردھنتے ہوئے مولانا الطاف حسین حالی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ :
’’آخر عمر میں سرسید کی خود رائی یا جو ’’وثوق ‘‘ کہ ان کو اپنی رایوں پر تھا وہ حد اعتدال سے متجاوز ہوگیا تھا ۔ یعنی آیات قرآنی کے وہ ایسے معنی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیوں کر ایسا اعلیٰ دماغ آدمی کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے ‘‘۔
(حیات جاوید،بحوالہ اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ)
حتیٰ کہ خود ان کا یعنی خان صاحب کا یہ بھی ایمان تھا کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور خردبرد نہیں کیا گیا ہے ۔جب کہ خود قرآن کا اعلان ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ ‘‘ ہے ۔ ایک طر ف تو خان صاحب محسن الملک کو اپنے مکتوب میں یہ کہتے ہیں کہ :’’ خاص اس روشنی میں جو قرآن و حدیث سے حاصل ہوتی ہے ، نہ تلاش کریں گے ‘‘ تو وہیں یہ بھی ان کا عقیدہ ہے کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف ہی نہیں ہوئی ہے ۔ اس باب میں خود ڈاکٹر منظر اعظمی نے سرسید احمدخان کا گمان ، عقیدہ اور راسخ قول نقل کرتے ہوئے اس کے پس منظر میں لکھا ہے کہ :
’’تفسیر انجیل کے سلسلے میں انہوں نے مسلمان علمائے دین کے خیالات کی بھی تردید کی کہ مسیحی صحیفوں میں ترمیم و تحریف بھی ہوئی ہے۔تر میم و تحریف کی متعدد شکلوں کو بیان کرنے کے بعد سیرسید کہتے ہیں کہ ’’مسیحی صحیفوں میں عبارتیں نہ تو گھٹی ہیں اور نہ بڑھی ہیں ۔ اور نہ اصل لفظ کے بدلے اور لفظ داخل کئے گئے ہیں ۔ جو کچھ بھی تحریف و ترمیم ہوئی ہے وہ الفاظ میں نہیں معنی میں ہے ‘‘ ۔
) اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ صفحہ 205 (
اب خان صاحب کی فراست اور علم پر سر دھنئے کہ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور ترمیم نہیں ہوئی ہے ۔ لیکن اس وقت کیا کریں گے جب ان عبارتوں کا کیا کریں گے کہ جن عبارتوں میں اللہ اوردیگر انبیاء کے متعلق نازیبا اور گستاخانہ کلمات کہے گئے ہیں ؟ ۔ اگر بفرض محال یہ مان لیں کہ ان میں نعوذباللہ ان میں تحریف نہیں ہوئی تو پھرتثلیث کے متعلق اورحضرت عیسیٰ کے متعلق ان کی وہی رائے ہے جو نصرانیوں کا ہے ؟ ۔در اصل سرسید احمد خان اس بحر نا پیدا کنار سمندر ؛بلکہ وادیٔ حیران کا نام ہے جواپنے انکار و قبول اور تردیدو تسلیم کی دنیا میں حیران و پریشان ہیں ۔ وہ کبھی امام غزالی سے متاثر ہوتے ہیں تو کبھی شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ خان صاحب کو ان دونوں معزز اسلام کی قابل قدر ہستیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے ؛بلکہ ہونا چاہیے ؛لیکن مزاج کی ترشی اور خلل نے ان اس جا سے اس جا لیتا چلا گیا ۔ خیران کے کارنامے اور ’’کرتوت‘‘ وسیع ہیں ، جن کو مطالعہ کرنا ہو ان کی سوانح حیات پڑھ لیں ۔ اخیر میں ان کی شان میں لکھی ہوئی ایک تازہ ترین نظم ان کی خدمت میں پیش ہے ؎
آزر سا تدبر ترا ، مومن سا تن و توش
تہذیبِ کلیسا سے عبارت تری آغوش
اٹّھی ترے قدموں سے وہ الحاد کی آندھی
افکارِ براہیم کی شمعیں ہوئیں خاموش
پھر فکر کے رَستے ہوا دل قوم کا مرتد
کہنے کو بظاہر نہ صنم ساز، نہ مے نوش
احمد ! ترے کالج نے وہ اسباق پڑھائے
مسلم کی ہوئی غیرتِ دینی کہیں روپوش
اک پیکر ِخاکی ، جو شریعت ، نہ حقیقت
ملّا سے گریزندہ تو کافر سے ہم آغوش
تو مذہبِ توحید کی ترمیم میں کوشاں
فرزند ترے دین کی تغلیط میں پرجوش
گو رنگ الگ ہے تری گردن زدنی کا
کہتا ہوں بجا، تو بھی ہے فرعون کا ہمدوش
اسلام کی تبلیغ میں کچھوے کی طرح سست
توسیعِ کلیسا میں مسلماں ہوئے خرگوش
اٹّھے ترے خیمے سے کہاں زمزمہ ٔ حق
خیمے ہیں ترے بادہ ٔ الحاد سے مدہوش
احمد خان پٹھان ،نئی دہلی
کل سرسید احمد ڈے تھا ، پتہ نہیں اب خان صاحب کو جنت میں اس کی اطلاع ملی ہوگی یا نہیں کہ اب ان کے نام پر بھی ’’ڈے ‘‘ منایا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ان کے حواری و مقلدین جو آنجہانی اور مرحوم ہوچکے ہیں ، نے اس کی اطلاع دی ہوگی اور خان صاحب خوشی میں پھولے نہیں سمارہے ہوں گے ؛کیوں کہ ’’ڈے ‘‘ منانا ان کی شریعت میں جائز اور روا ہے ، ان کو ’’یوم ‘‘ سے کلفت ہے ؛کیوں کہ ’’یوم ‘‘ قدامت پسندی کا مظہر ہے اور یوں بھی ڈے یا پھر یوم منانا ان کے مذہب میں ہی صحیح ہوسکتا ہے ۔ تاہم یہ بات ان کے لیے قابل رشک بھی ہوگی کہ خان صاحب سے متاثر ین کی ایک بڑی جماعت ان کے مقاصد کی تکمیل میں اب بھی لگی ہوئی ہے ۔ خواہ وہ لوگ پاکستان میں ہوں یا پھر ہندوستان کے کسی خطہ میں ۔ مولوی کل بھی ان (سرسید احمد خان )کی نظر میں ’’کتے ‘‘ تھے اور آج بھی مولوی جن میں زیادہ تعداد دیوبندی فاضلین کی ہی ہے ، ان کے معتقدین اور متوسلین اسی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کل خان صاحب نے مولانا قاسم نانوتوی اور دیگر علماء کو’’ہیچ نظروں ‘‘ سے دیکھا تھا اب ان کے روحانی اولاد مولوی کے ساتھ دست و گریباں ہیں ۔ اور جب سے سوشل میڈیا نے سر ابھارا ہے ،خان صاحبان اور نیچریوں کی لائن لگی ہوئی ہے اور جی بھر بھر کے ’’مولوی ‘‘ کو گالی دینا باعث ثواب اور ذخیرہ ٔ آخرت تصور کرتے ہیں ۔
خیر ! سرسید احمد خان صاحب واقعی قوم کے محسن تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے؛ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے اس احسان کے تئیں جو راہ اختیار کی، جو تدابیر اختیار کئے وہ سرے سے ہی ناپسندیدہ ،مکروہ اور کارِ عبث تھے اور ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سرسید نے پوری قوم کے ساتھ احسان کیا ہے؛ بلکہ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے صرف نام نہاد ’’اشرافیہ‘‘کے لیے یہ تمام کاوشیں کیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ’’قیام پاکستان ‘‘ کی صدا اسی’’ کار گہہ دانش فرنگ ‘‘ سے بلند کی گئی تھی۔ جب کہ دارالعلوم دیوبند نے اس کی شدید مخالفت کی تھی ، شیخ الہند اور شیخ الاسلام حضرت مدنی حتیٰ کہ مولانا آزادعلیہ الرحمہ کی ذات نے اس کی شدید مخالفت کی تھی مولانا آزاد کی جامع مسجد سے تاریخی تقریر تو آج بھی ہمارے سوشل میڈیا کے احباب یوٹیوب پرسنتے آئے ہیں۔ کئی حوالہ جات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزوں کے تملق میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ،حتیٰ کہ انگریز کی مداہنت میں قوم کے دینی تعلیم یافتگان کی ’’کتے ‘‘ سے بھی تشبیہ دے دی ،(تہذیب الاخلاق دیکھیں )جب کہ بحیثیت ایک معزز شخص کے اس طرح کی دیدہ و دانستہ ’’حماقت ‘‘ شایان نہیں تھی۔ ملکہ وکٹوریہ کی تعریف و توصیف میں ایسے ایسے اشارے ، تعبیرات اور تشبیہات وضع کئے گئے کہ فن قصیدہ گوئی کو بھی شرم آتی ہے ، یقین نہ آئے تو تہذیب الاخلاق دیکھ لیں۔ ذرا یاد کیجئے! انہوں نے انگلستان کا دورہ کیوں کیا تھا؟اس در کے پیچھے کون سے مقاصد تھے؟ وجہ تویہ بتائی جاتی ہے کہ اس کے پیچھے یہ مقصد تھا کہ وہ یورپی اقوام کے طور طریقے اور ان کی طرز زندگی کو قریب سے دیکھ اور سمجھ سکیں تاکہ اسی کے لحاظ سے قوم کی یعنی مسلمانوں کی پستی کو دور کرسکیں۔ ظاہراً اس تعبد اور تعشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی دیکھا دیکھی میں انہوں نے معجزات کا سرے سے ہی انکار کردیا۔ تفسیرات احمدیہ لکھی؛ لیکن تفسیرات کیا لکھی ،گویا ذہنی غلاظت کی مشق کاری قرآن مجید کی مقدس آیات کے ساتھ فرمادی تھی۔ انگریز وائسرائے سے علی گڑھ کی بنیاد رکھوائی ،کیوں ؟ ظاہر ہے کہ حکومت وقت سے امداد و کرم حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایسے وقت میں جب انگریز کا ظلم علماء کے ساتھ جائز تھا ،علماء کی گردنیں دہلی کے چاندنی چوک کے درختوں میں لٹکی ہوتی تھی ،مگر سرسید صاحب نے ایسے ظالم اور جابر کی مداہنت اور قربت کو جائزاور لازمی سمجھا۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی ہے کہ ان کی جماعت اور صف میں شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی جیسے لوگ تھے۔ در اصل شبلی نعمانی تو محض چند دنوں کے بعد ہی علی گڑھ کو خیرباد کہہ چکے تھے ،البتہ مولانا حالی ؔ اس سے وابستہ رہے۔ جس کو آج تک علی گڑھ کے اوباش اور الواط قسم کے لوگ برداشت اور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ذرا یاد تو کیجئے ! خان صاحب کے ہی اصرار پر مولانا حالی نے ’’مسدس لکھا تھا ۔ ہاں اگر ان کی جگہ کوئی وائسرائے ہوتا تو بصد شوق فخریہ یہ کہا جاتا کہ فلاں وائسرائے ہماری یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔
مسئلہ تقلیدکے عنوان سے خان صاحب کی گمراہی بھی قابل دید ہے ، یہودیوں اور نصرانیوں نے خان صاحب کو طلسم کدہ بناکر ہی دم لیا ۔ کبھی وہ خود اس کے قائل ہیں کہ اسلام کو ترقی دے جائے جو کہ ان کے گمان کے مطابق ’’زبوں حالی ‘‘ کا شکار ہے تو کبھی خود یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ترقی کو مغرب کی طرز پر حاصل کیا جائے ۔ خیر!محسن الملک کے نام اپنے ایک خط میں سرسید احمد خان لکھتے ہیں( واضح ہو کہ اس خط کا ذکر ڈاکٹر منظر اعظمی نے اپنی کتاب میں ’’سید احمد خان ‘‘ مرتبہ پروفیسر خلیق نظامی کے حوالہ سے کیا ہے) خان صاحب لکھتے ہیں :
’’بھائی جان سنو ! اب یہ وقت نہیں رہا ہے میں اپنی مکنونات ِ ضمیر کو مخفی رکھوں ۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر لوگ تقلید کو نہ چھوڑیں گے اور خاص اس روشنی میں جو قرآن و حدیث سے حاصل ہوتی ہے ، نہ تلاش کریں گے اور حال کے علوم سے مذہب کا مقابلہ نہ کرسکیں گے تو مذہب اسلام ہندوستان سے معدوم ہوجاوے گا ۔ اس خیرخواہی نے مجھ کو برانگیختہ کیا ہے جو ہر قسم کی تحقیقات کرتا ہوں اور تقلید کی پروا نہیں کرتا ۔ ورنہ آپ کو خوب معلوم ہے کہ میرے نزدیک مسلمان رہنے کے لیے اور بہشت میں داخل ہونے کے لیے ائمہ کبار تو درکنار مولوی ’’حبو ‘‘ کی بھی تقلید کافی ہے ‘‘ ۔
(اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ، صفحہ نمبر 204 )
دیکھ لیجئے ! خان صاحب نے اپنے ایک ہی جملے میں کتنی متضاد بات بیان کرڈالی ہے ۔گویا انہوں نے ائمہ کبار کی ترک تقلید کو اسلام کی ترقی کیلئے نہیں ؛بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی ’’ترقی‘‘ کے لیے ’’لازم ‘‘ خیال کیا ہے ۔ مولوی نے ان کی اس روش پر نکیرکی ہو ؛کیوں کہ مولوی ان کے اور ان کی لائی ترقی کے سخت ترین مخالف تھے ؛لیکن جب ان کے دست راست مولانا الطاف حسین حالیؔ بھی چیخ پڑے ہوں تو پھر کسی اور کے اعتراض کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔حیات جاوید میں سرسید احمد خان کی ’’کرتوت، انحراف ، نصاریٰ کی تقلید ، اور تتبع ‘‘ پر سردھنتے ہوئے مولانا الطاف حسین حالی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ :
’’آخر عمر میں سرسید کی خود رائی یا جو ’’وثوق ‘‘ کہ ان کو اپنی رایوں پر تھا وہ حد اعتدال سے متجاوز ہوگیا تھا ۔ یعنی آیات قرآنی کے وہ ایسے معنی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیوں کر ایسا اعلیٰ دماغ آدمی کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے ‘‘۔
(حیات جاوید،بحوالہ اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ)
حتیٰ کہ خود ان کا یعنی خان صاحب کا یہ بھی ایمان تھا کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور خردبرد نہیں کیا گیا ہے ۔جب کہ خود قرآن کا اعلان ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ ‘‘ ہے ۔ ایک طر ف تو خان صاحب محسن الملک کو اپنے مکتوب میں یہ کہتے ہیں کہ :’’ خاص اس روشنی میں جو قرآن و حدیث سے حاصل ہوتی ہے ، نہ تلاش کریں گے ‘‘ تو وہیں یہ بھی ان کا عقیدہ ہے کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف ہی نہیں ہوئی ہے ۔ اس باب میں خود ڈاکٹر منظر اعظمی نے سرسید احمدخان کا گمان ، عقیدہ اور راسخ قول نقل کرتے ہوئے اس کے پس منظر میں لکھا ہے کہ :
’’تفسیر انجیل کے سلسلے میں انہوں نے مسلمان علمائے دین کے خیالات کی بھی تردید کی کہ مسیحی صحیفوں میں ترمیم و تحریف بھی ہوئی ہے۔تر میم و تحریف کی متعدد شکلوں کو بیان کرنے کے بعد سیرسید کہتے ہیں کہ ’’مسیحی صحیفوں میں عبارتیں نہ تو گھٹی ہیں اور نہ بڑھی ہیں ۔ اور نہ اصل لفظ کے بدلے اور لفظ داخل کئے گئے ہیں ۔ جو کچھ بھی تحریف و ترمیم ہوئی ہے وہ الفاظ میں نہیں معنی میں ہے ‘‘ ۔
) اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ صفحہ 205 (
اب خان صاحب کی فراست اور علم پر سر دھنئے کہ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور ترمیم نہیں ہوئی ہے ۔ لیکن اس وقت کیا کریں گے جب ان عبارتوں کا کیا کریں گے کہ جن عبارتوں میں اللہ اوردیگر انبیاء کے متعلق نازیبا اور گستاخانہ کلمات کہے گئے ہیں ؟ ۔ اگر بفرض محال یہ مان لیں کہ ان میں نعوذباللہ ان میں تحریف نہیں ہوئی تو پھرتثلیث کے متعلق اورحضرت عیسیٰ کے متعلق ان کی وہی رائے ہے جو نصرانیوں کا ہے ؟ ۔در اصل سرسید احمد خان اس بحر نا پیدا کنار سمندر ؛بلکہ وادیٔ حیران کا نام ہے جواپنے انکار و قبول اور تردیدو تسلیم کی دنیا میں حیران و پریشان ہیں ۔ وہ کبھی امام غزالی سے متاثر ہوتے ہیں تو کبھی شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ خان صاحب کو ان دونوں معزز اسلام کی قابل قدر ہستیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے ؛بلکہ ہونا چاہیے ؛لیکن مزاج کی ترشی اور خلل نے ان اس جا سے اس جا لیتا چلا گیا ۔ خیران کے کارنامے اور ’’کرتوت‘‘ وسیع ہیں ، جن کو مطالعہ کرنا ہو ان کی سوانح حیات پڑھ لیں ۔ اخیر میں ان کی شان میں لکھی ہوئی ایک تازہ ترین نظم ان کی خدمت میں پیش ہے ؎
آزر سا تدبر ترا ، مومن سا تن و توش
تہذیبِ کلیسا سے عبارت تری آغوش
اٹّھی ترے قدموں سے وہ الحاد کی آندھی
افکارِ براہیم کی شمعیں ہوئیں خاموش
پھر فکر کے رَستے ہوا دل قوم کا مرتد
کہنے کو بظاہر نہ صنم ساز، نہ مے نوش
احمد ! ترے کالج نے وہ اسباق پڑھائے
مسلم کی ہوئی غیرتِ دینی کہیں روپوش
اک پیکر ِخاکی ، جو شریعت ، نہ حقیقت
ملّا سے گریزندہ تو کافر سے ہم آغوش
تو مذہبِ توحید کی ترمیم میں کوشاں
فرزند ترے دین کی تغلیط میں پرجوش
گو رنگ الگ ہے تری گردن زدنی کا
کہتا ہوں بجا، تو بھی ہے فرعون کا ہمدوش
اسلام کی تبلیغ میں کچھوے کی طرح سست
توسیعِ کلیسا میں مسلماں ہوئے خرگوش
اٹّھے ترے خیمے سے کہاں زمزمہ ٔ حق
خیمے ہیں ترے بادہ ٔ الحاد سے مدہوش