سرسید احمد خان کی خدمت میں’’احمد خان پٹھان‘‘ کا سلام

فاخر

محفلین
سرسید احمد خان کی خدمت میں’’احمد خان پٹھان‘‘ کا سلام

احمد خان پٹھان ،نئی دہلی

کل سرسید احمد ڈے تھا ، پتہ نہیں اب خان صاحب کو جنت میں اس کی اطلاع ملی ہوگی یا نہیں کہ اب ان کے نام پر بھی ’’ڈے ‘‘ منایا جاتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ان کے حواری و مقلدین جو آنجہانی اور مرحوم ہوچکے ہیں ، نے اس کی اطلاع دی ہوگی اور خان صاحب خوشی میں پھولے نہیں سمارہے ہوں گے ؛کیوں کہ ’’ڈے ‘‘ منانا ان کی شریعت میں جائز اور روا ہے ، ان کو ’’یوم ‘‘ سے کلفت ہے ؛کیوں کہ ’’یوم ‘‘ قدامت پسندی کا مظہر ہے اور یوں بھی ڈے یا پھر یوم منانا ان کے مذہب میں ہی صحیح ہوسکتا ہے ۔ تاہم یہ بات ان کے لیے قابل رشک بھی ہوگی کہ خان صاحب سے متاثر ین کی ایک بڑی جماعت ان کے مقاصد کی تکمیل میں اب بھی لگی ہوئی ہے ۔ خواہ وہ لوگ پاکستان میں ہوں یا پھر ہندوستان کے کسی خطہ میں ۔ مولوی کل بھی ان (سرسید احمد خان )کی نظر میں ’’کتے ‘‘ تھے اور آج بھی مولوی جن میں زیادہ تعداد دیوبندی فاضلین کی ہی ہے ، ان کے معتقدین اور متوسلین اسی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کل خان صاحب نے مولانا قاسم نانوتوی اور دیگر علماء کو’’ہیچ نظروں ‘‘ سے دیکھا تھا اب ان کے روحانی اولاد مولوی کے ساتھ دست و گریباں ہیں ۔ اور جب سے سوشل میڈیا نے سر ابھارا ہے ،خان صاحبان اور نیچریوں کی لائن لگی ہوئی ہے اور جی بھر بھر کے ’’مولوی ‘‘ کو گالی دینا باعث ثواب اور ذخیرہ ٔ آخرت تصور کرتے ہیں ۔
خیر ! سرسید احمد خان صاحب واقعی قوم کے محسن تھے اس میں کوئی شک نہیں ہے؛ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے اس احسان کے تئیں جو راہ اختیار کی، جو تدابیر اختیار کئے وہ سرے سے ہی ناپسندیدہ ،مکروہ اور کارِ عبث تھے اور ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ سرسید نے پوری قوم کے ساتھ احسان کیا ہے؛ بلکہ یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے صرف نام نہاد ’’اشرافیہ‘‘کے لیے یہ تمام کاوشیں کیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ’’قیام پاکستان ‘‘ کی صدا اسی’’ کار گہہ دانش فرنگ ‘‘ سے بلند کی گئی تھی۔ جب کہ دارالعلوم دیوبند نے اس کی شدید مخالفت کی تھی ، شیخ الہند اور شیخ الاسلام حضرت مدنی حتیٰ کہ مولانا آزادعلیہ الرحمہ کی ذات نے اس کی شدید مخالفت کی تھی مولانا آزاد کی جامع مسجد سے تاریخی تقریر تو آج بھی ہمارے سوشل میڈیا کے احباب یوٹیوب پرسنتے آئے ہیں۔ کئی حوالہ جات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انگریزوں کے تملق میں انہوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی ،حتیٰ کہ انگریز کی مداہنت میں قوم کے دینی تعلیم یافتگان کی ’’کتے ‘‘ سے بھی تشبیہ دے دی ،(تہذیب الاخلاق دیکھیں )جب کہ بحیثیت ایک معزز شخص کے اس طرح کی دیدہ و دانستہ ’’حماقت ‘‘ شایان نہیں تھی۔ ملکہ وکٹوریہ کی تعریف و توصیف میں ایسے ایسے اشارے ، تعبیرات اور تشبیہات وضع کئے گئے کہ فن قصیدہ گوئی کو بھی شرم آتی ہے ، یقین نہ آئے تو تہذیب الاخلاق دیکھ لیں۔ ذرا یاد کیجئے! انہوں نے انگلستان کا دورہ کیوں کیا تھا؟اس در کے پیچھے کون سے مقاصد تھے؟ وجہ تویہ بتائی جاتی ہے کہ اس کے پیچھے یہ مقصد تھا کہ وہ یورپی اقوام کے طور طریقے اور ان کی طرز زندگی کو قریب سے دیکھ اور سمجھ سکیں تاکہ اسی کے لحاظ سے قوم کی یعنی مسلمانوں کی پستی کو دور کرسکیں۔ ظاہراً اس تعبد اور تعشق کا نتیجہ یہ نکلا کہ عیسائیوں اور یہودیوں کی دیکھا دیکھی میں انہوں نے معجزات کا سرے سے ہی انکار کردیا۔ تفسیرات احمدیہ لکھی؛ لیکن تفسیرات کیا لکھی ،گویا ذہنی غلاظت کی مشق کاری قرآن مجید کی مقدس آیات کے ساتھ فرمادی تھی۔ انگریز وائسرائے سے علی گڑھ کی بنیاد رکھوائی ،کیوں ؟ ظاہر ہے کہ حکومت وقت سے امداد و کرم حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایسے وقت میں جب انگریز کا ظلم علماء کے ساتھ جائز تھا ،علماء کی گردنیں دہلی کے چاندنی چوک کے درختوں میں لٹکی ہوتی تھی ،مگر سرسید صاحب نے ایسے ظالم اور جابر کی مداہنت اور قربت کو جائزاور لازمی سمجھا۔ ان کی زندگی کا یہ پہلو بھی ہے کہ ان کی جماعت اور صف میں شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی جیسے لوگ تھے۔ در اصل شبلی نعمانی تو محض چند دنوں کے بعد ہی علی گڑھ کو خیرباد کہہ چکے تھے ،البتہ مولانا حالی ؔ اس سے وابستہ رہے۔ جس کو آج تک علی گڑھ کے اوباش اور الواط قسم کے لوگ برداشت اور تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ذرا یاد تو کیجئے ! خان صاحب کے ہی اصرار پر مولانا حالی نے ’’مسدس لکھا تھا ۔ ہاں اگر ان کی جگہ کوئی وائسرائے ہوتا تو بصد شوق فخریہ یہ کہا جاتا کہ فلاں وائسرائے ہماری یونیورسٹی سے وابستہ تھے۔
مسئلہ تقلیدکے عنوان سے خان صاحب کی گمراہی بھی قابل دید ہے ، یہودیوں اور نصرانیوں نے خان صاحب کو طلسم کدہ بناکر ہی دم لیا ۔ کبھی وہ خود اس کے قائل ہیں کہ اسلام کو ترقی دے جائے جو کہ ان کے گمان کے مطابق ’’زبوں حالی ‘‘ کا شکار ہے تو کبھی خود یہ بھی کہتے ہیں کہ اس ترقی کو مغرب کی طرز پر حاصل کیا جائے ۔ خیر!محسن الملک کے نام اپنے ایک خط میں سرسید احمد خان لکھتے ہیں( واضح ہو کہ اس خط کا ذکر ڈاکٹر منظر اعظمی نے اپنی کتاب میں ’’سید احمد خان ‘‘ مرتبہ پروفیسر خلیق نظامی کے حوالہ سے کیا ہے) خان صاحب لکھتے ہیں :
’’بھائی جان سنو ! اب یہ وقت نہیں رہا ہے میں اپنی مکنونات ِ ضمیر کو مخفی رکھوں ۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر لوگ تقلید کو نہ چھوڑیں گے اور خاص اس روشنی میں جو قرآن و حدیث سے حاصل ہوتی ہے ، نہ تلاش کریں گے اور حال کے علوم سے مذہب کا مقابلہ نہ کرسکیں گے تو مذہب اسلام ہندوستان سے معدوم ہوجاوے گا ۔ اس خیرخواہی نے مجھ کو برانگیختہ کیا ہے جو ہر قسم کی تحقیقات کرتا ہوں اور تقلید کی پروا نہیں کرتا ۔ ورنہ آپ کو خوب معلوم ہے کہ میرے نزدیک مسلمان رہنے کے لیے اور بہشت میں داخل ہونے کے لیے ائمہ کبار تو درکنار مولوی ’’حبو ‘‘ کی بھی تقلید کافی ہے ‘‘ ۔
(اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ، صفحہ نمبر 204 )
دیکھ لیجئے ! خان صاحب نے اپنے ایک ہی جملے میں کتنی متضاد بات بیان کرڈالی ہے ۔گویا انہوں نے ائمہ کبار کی ترک تقلید کو اسلام کی ترقی کیلئے نہیں ؛بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی ’’ترقی‘‘ کے لیے ’’لازم ‘‘ خیال کیا ہے ۔ مولوی نے ان کی اس روش پر نکیرکی ہو ؛کیوں کہ مولوی ان کے اور ان کی لائی ترقی کے سخت ترین مخالف تھے ؛لیکن جب ان کے دست راست مولانا الطاف حسین حالیؔ بھی چیخ پڑے ہوں تو پھر کسی اور کے اعتراض کی ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے۔حیات جاوید میں سرسید احمد خان کی ’’کرتوت، انحراف ، نصاریٰ کی تقلید ، اور تتبع ‘‘ پر سردھنتے ہوئے مولانا الطاف حسین حالی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ :
’’آخر عمر میں سرسید کی خود رائی یا جو ’’وثوق ‘‘ کہ ان کو اپنی رایوں پر تھا وہ حد اعتدال سے متجاوز ہوگیا تھا ۔ یعنی آیات قرآنی کے وہ ایسے معنی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیوں کر ایسا اعلیٰ دماغ آدمی کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے ‘‘۔
(حیات جاوید،بحوالہ اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ)
حتیٰ کہ خود ان کا یعنی خان صاحب کا یہ بھی ایمان تھا کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور خردبرد نہیں کیا گیا ہے ۔جب کہ خود قرآن کا اعلان ’’یحرفون الکلم عن مواضعہ ‘‘ ہے ۔ ایک طر ف تو خان صاحب محسن الملک کو اپنے مکتوب میں یہ کہتے ہیں کہ :’’ خاص اس روشنی میں جو قرآن و حدیث سے حاصل ہوتی ہے ، نہ تلاش کریں گے ‘‘ تو وہیں یہ بھی ان کا عقیدہ ہے کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف ہی نہیں ہوئی ہے ۔ اس باب میں خود ڈاکٹر منظر اعظمی نے سرسید احمدخان کا گمان ، عقیدہ اور راسخ قول نقل کرتے ہوئے اس کے پس منظر میں لکھا ہے کہ :
’’تفسیر انجیل کے سلسلے میں انہوں نے مسلمان علمائے دین کے خیالات کی بھی تردید کی کہ مسیحی صحیفوں میں ترمیم و تحریف بھی ہوئی ہے۔تر میم و تحریف کی متعدد شکلوں کو بیان کرنے کے بعد سیرسید کہتے ہیں کہ ’’مسیحی صحیفوں میں عبارتیں نہ تو گھٹی ہیں اور نہ بڑھی ہیں ۔ اور نہ اصل لفظ کے بدلے اور لفظ داخل کئے گئے ہیں ۔ جو کچھ بھی تحریف و ترمیم ہوئی ہے وہ الفاظ میں نہیں معنی میں ہے ‘‘ ۔
) اردو ادب کے ارتقاء میں ادبی تحریکوں اور رجحانات کا حصہ صفحہ 205 (
اب خان صاحب کی فراست اور علم پر سر دھنئے کہ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ کتب سابقہ میں کسی طرح کی کوئی تحریف اور ترمیم نہیں ہوئی ہے ۔ لیکن اس وقت کیا کریں گے جب ان عبارتوں کا کیا کریں گے کہ جن عبارتوں میں اللہ اوردیگر انبیاء کے متعلق نازیبا اور گستاخانہ کلمات کہے گئے ہیں ؟ ۔ اگر بفرض محال یہ مان لیں کہ ان میں نعوذباللہ ان میں تحریف نہیں ہوئی تو پھرتثلیث کے متعلق اورحضرت عیسیٰ کے متعلق ان کی وہی رائے ہے جو نصرانیوں کا ہے ؟ ۔در اصل سرسید احمد خان اس بحر نا پیدا کنار سمندر ؛بلکہ وادیٔ حیران کا نام ہے جواپنے انکار و قبول اور تردیدو تسلیم کی دنیا میں حیران و پریشان ہیں ۔ وہ کبھی امام غزالی سے متاثر ہوتے ہیں تو کبھی شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ سے قریب ہوتے چلے جارہے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ خان صاحب کو ان دونوں معزز اسلام کی قابل قدر ہستیوں سے متاثر نہیں ہونا چاہیے ؛بلکہ ہونا چاہیے ؛لیکن مزاج کی ترشی اور خلل نے ان اس جا سے اس جا لیتا چلا گیا ۔ خیران کے کارنامے اور ’’کرتوت‘‘ وسیع ہیں ، جن کو مطالعہ کرنا ہو ان کی سوانح حیات پڑھ لیں ۔ اخیر میں ان کی شان میں لکھی ہوئی ایک تازہ ترین نظم ان کی خدمت میں پیش ہے ؎

آزر سا تدبر ترا ، مومن سا تن و توش
تہذیبِ کلیسا سے عبارت تری آغوش

اٹّھی ترے قدموں سے وہ الحاد کی آندھی
افکارِ براہیم کی شمعیں ہوئیں خاموش

پھر فکر کے رَستے ہوا دل قوم کا مرتد
کہنے کو بظاہر نہ صنم ساز، نہ مے نوش

احمد ! ترے کالج نے وہ اسباق پڑھائے
مسلم کی ہوئی غیرتِ دینی کہیں روپوش

اک پیکر ِخاکی ، جو شریعت ، نہ حقیقت
ملّا سے گریزندہ تو کافر سے ہم آغوش

تو مذہبِ توحید کی ترمیم میں کوشاں
فرزند ترے دین کی تغلیط میں پرجوش

گو رنگ الگ ہے تری گردن زدنی کا
کہتا ہوں بجا، تو بھی ہے فرعون کا ہمدوش

اسلام کی تبلیغ میں کچھوے کی طرح سست
توسیعِ کلیسا میں مسلماں ہوئے خرگوش

اٹّھے ترے خیمے سے کہاں زمزمہ ٔ حق
خیمے ہیں ترے بادہ ٔ الحاد سے مدہوش
 

یاسر شاہ

محفلین
محترم فاخر صاحب السلام علیکم !

ایک بزرگ کے سامنے کوئی صاحب کسی مردہ کی برائی کر رہے تھے تو بزرگ نے فرمایا دیکھو میاں وہ تین مرحلوں سے تو گزر چکے -ایک تو موت کی سختی سکرات 'نزع وغیرہ سے پار ہوگئے -دوسرا منکر نکیر کے جوابات سے بھی فارغ ہوگئے -تیسرے برے انجام کے خوف سے بھی باہر ہوگئے -کم از کم یہ خوف نہیں کہ نہ جانے موت کے بعد کیا حال ہوگا -جو گزرنا تھی گزر رہی ہے کم از کم خوف نہیں -تم اپنی فکر کرو میاں کہ یہ مراحل تم پر ابھی رکھے ہیں-

جناب سیدصاحب بھی یہ مراحل پار کر چکے اب اگر ان کی تصانیف سے جرح بھی کرنی ہے تو ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے کی جا سکتی ہے -اس قدر شدّت نہ چاہیے -

سچی بات تو یہ ہے کہ ’’قیام پاکستان ‘‘ کی صدا اسی’’ کار گہہ دانش فرنگ ‘‘ سے بلند کی گئی تھی۔ جب کہ دارالعلوم دیوبند نے اس کی شدید مخالفت کی تھی ، شیخ الہند اور شیخ الاسلام حضرت مدنی حتیٰ کہ مولانا آزادعلیہ الرحمہ کی ذات نے اس کی شدید مخالفت کی تھی مولانا آزاد کی جامع مسجد سے تاریخی تقریر تو آج بھی ہمارے سوشل میڈیا کے احباب یوٹیوب پرسنتے آئے ہیں

پھر یہاں فاضل مضمون نگار نے تاریخی غلطی کی ہے-کئی اکابر دیو بند نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے جن میں مجدد الملّت حکیم الامّت مولانا اشرف علی تھانوی 'مولانا شبّیر احمد عثمانی (جنھوں نے جناح مرحوم کا جنازہ بھی پڑھایا تھا )'مولانا ظفر احمد عثمانی علیھم الرحمہ وغیرہم شامل ہیں -اور بعد میں مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ نے بھی تاریخی جملہ کہا جس کا مفہوم تھا کہ مسجد کی تعمیر میں تو دو رائے ہو سکتی ہیں کہ یوں بنائی جائے یا اس طرح بنائی جائے لیکن ایک بار مسجد بن جائے تو اس میں نماز پڑھنے میں دو رائے نہیں - دیکھئے پاکستان کو گویا مسجد سے تشبیہ دی -بات یہ ہے کہ اکابر کا اختلاف بھی حسین ہوا کرتا ہے بر بنائے اخلاص -

اب موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یوں ہے گویا کسی کو مجبور کر کے پوچھا جائے کہ میاں ہندو کی چماٹیں کھا کھا کے جیو گے یا مسلمان کی -تو بہر حال لاکھ درجہ بہتر ہے یہ کہنا کہ مسلمان کی -آپ کے گزشتہ مضامین کو پڑھ کے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے ہاں ارتداد کی فضا ہے مسلمان بچیاں ہندو ؤ ں کے ساتھ بھاگی چلی جا رہی ہیں اور مسلمان لڑکے ہندوؤں کی لڑکیاں لے کے چلتے ہو رہے ہیں -یہ تو گویا مسلمان نسل کی ہی بیخ کنی ہے-ایسا کچھ یہاں نہیں الحمد للّه یہ ہمارے لئے تمام عمر سجدہ ریزی کا مقام ہے -

پھر یہاں" گے میرج " کا قانون پاس نہیں ہوسکتا -مولانا حضرات اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دیں گے مگر "پانڈو جی "نہیں بنیں گے -یہ تو آپ کے ہاں ہندو بنیا حاکم ہے انگریز کی نقل میں چاہے تو "شرامی جی " بنے یا "پانڈو جی "-اس لطیفے کی طرح کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے چاہے انڈے دے یا بچے -ہمارے لئے یہ بھی مقام شکر ہے -تمام عمر سجدے میں گزار دیں تو کم ہے -

پھر میں ذرا فرض کروں میرے محلے میں بابری مسجد ڈھائی جا رہی ہے - سکھ شہید کر رہے ہیں اور میں گھر میں ٹھنڈے پیٹ بیٹھا ہوں -کیا میرے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام نہیں -اب تو عذر ہے کہ چارہ نہیں -لڑ نہیں سکتے 'مر نہیں سکتے -رو رو کے گڑگڑا کے دعا کیجئے -یہ بھی مقام شکر ہے -

پھر آپ کے ہاں لبرلزم کا زیادہ پرچار ہے ہمارے مقابلے میں-وجہ وہی بالفرض ضمیر میرا کہتا ہے "تمہاری عورت(بہن /بیٹی ) ہندو کے ساتھ بھاگ گئی اور تم پہ قیامت نہیں گزری -تم غیرت سے خالی ہو' حمیّت سے عاری ہو "-میں نے بھی کہہ دیا "نہیں بھئی! میں بے غیرت نہیں ہوں' بندہ ذرا لبرل ہوں -سب انسان ہیں میری بھاگ گئی تو کیا فلاں کی بھی بھاگی ہے "-لبرلزم بھی سکون آور دوا سے زیادہ کچھ نہیں -ایک طفل تسلّی ہے جو ضمیر کو دی جاتی ہے - مسلمان رہنا آسان ہے کیا ؟اور وہ بھی صابر -


والسلام
 

فاخر

محفلین
محترم فاخر صاحب السلام علیکم !

ایک بزرگ کے سامنے کوئی صاحب کسی مردہ کی برائی کر رہے تھے تو بزرگ نے فرمایا دیکھو میاں وہ تین مرحلوں سے تو گزر چکے -ایک تو موت کی سختی سکرات 'نزع وغیرہ سے پار ہوگئے -دوسرا منکر نکیر کے جوابات سے بھی فارغ ہوگئے -تیسرے برے انجام کے خوف سے بھی باہر ہوگئے -کم از کم یہ خوف نہیں کہ نہ جانے موت کے بعد کیا حال ہوگا -جو گزرنا تھی گزر رہی ہے کم از کم خوف نہیں -تم اپنی فکر کرو میاں کہ یہ مراحل تم پر ابھی رکھے ہیں-

جناب سیدصاحب بھی یہ مراحل پار کر چکے اب اگر ان کی تصانیف سے جرح بھی کرنی ہے تو ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے کی جا سکتی ہے -اس قدر شدّت نہ چاہیے -



پھر یہاں فاضل مضمون نگار نے تاریخی غلطی کی ہے-کئی اکابر دیو بند نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے جن میں مجدد الملّت حکیم الامّت مولانا اشرف علی تھانوی 'مولانا شبّیر احمد عثمانی (جنھوں نے جناح مرحوم کا جنازہ بھی پڑھایا تھا )'مولانا ظفر احمد عثمانی علیھم الرحمہ وغیرہم شامل ہیں -اور بعد میں مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ نے بھی تاریخی جملہ کہا جس کا مفہوم تھا کہ مسجد کی تعمیر میں تو دو رائے ہو سکتی ہیں کہ یوں بنائی جائے یا اس طرح بنائی جائے لیکن ایک بار مسجد بن جائے تو اس میں نماز پڑھنے میں دو رائے نہیں - دیکھئے پاکستان کو گویا مسجد سے تشبیہ دی -بات یہ ہے کہ اکابر کا اختلاف بھی حسین ہوا کرتا ہے بر بنائے اخلاص -

اب موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یوں ہے گویا کسی کو مجبور کر کے پوچھا جائے کہ میاں ہندو کی چماٹیں کھا کھا کے جیو گے یا مسلمان کی -تو بہر حال لاکھ درجہ بہتر ہے یہ کہنا کہ مسلمان کی -آپ کے گزشتہ مضامین کو پڑھ کے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے ہاں ارتداد کی فضا ہے مسلمان بچیاں ہندو ؤ ں کے ساتھ بھاگی چلی جا رہی ہیں اور مسلمان لڑکے ہندوؤں کی لڑکیاں لے کے چلتے ہو رہے ہیں -یہ تو گویا مسلمان نسل کی ہی بیخ کنی ہے-ایسا کچھ یہاں نہیں الحمد للّه یہ ہمارے لئے تمام عمر سجدہ ریزی کا مقام ہے -

پھر یہاں" گے میرج " کا قانون پاس نہیں ہوسکتا -مولانا حضرات اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دیں گے مگر "پانڈو جی "نہیں بنیں گے -یہ تو آپ کے ہاں ہندو بنیا حاکم ہے انگریز کی نقل میں چاہے تو "شرامی جی " بنے یا "پانڈو جی "-اس لطیفے کی طرح کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہے چاہے انڈے دے یا بچے -ہمارے لئے یہ بھی مقام شکر ہے -تمام عمر سجدے میں گزار دیں تو کم ہے -

پھر میں ذرا فرض کروں میرے محلے میں بابری مسجد ڈھائی جا رہی ہے - سکھ شہید کر رہے ہیں اور میں گھر میں ٹھنڈے پیٹ بیٹھا ہوں -کیا میرے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام نہیں -اب تو عذر ہے کہ چارہ نہیں -لڑ نہیں سکتے 'مر نہیں سکتے -رو رو کے گڑگڑا کے دعا کیجئے -یہ بھی مقام شکر ہے -

پھر آپ کے ہاں لبرلزم کا زیادہ پرچار ہے ہمارے مقابلے میں-وجہ وہی بالفرض ضمیر میرا کہتا ہے "تمہاری عورت(بہن /بیٹی ) ہندو کے ساتھ بھاگ گئی اور تم پہ قیامت نہیں گزری -تم غیرت سے خالی ہو' حمیّت سے عاری ہو "-میں نے بھی کہہ دیا "نہیں بھئی! میں بے غیرت نہیں ہوں' بندہ ذرا لبرل ہوں -سب انسان ہیں میری بھاگ گئی تو کیا فلاں کی بھی بھاگی ہے "-لبرلزم بھی سکون آور دوا سے زیادہ کچھ نہیں -ایک طفل تسلّی ہے جو ضمیر کو دی جاتی ہے - مسلمان رہنا آسان ہے کیا ؟اور وہ بھی صابر -


والسلام
آپ پریشان نہ ہوں ویسے بھی احمد خان نے پہلے ہی سرسید کو جنت نشیں کہہ چکا ہے ۔
 

فاخر

محفلین
کئی اکابر دیو بند نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے جن میں مجدد الملّت حکیم الامّت مولانا اشرف علی تھانوی 'مولانا شبّیر احمد عثمانی (جنھوں نے جناح مرحوم کا جنازہ بھی پڑھایا تھا )'مولانا ظفر احمد عثمانی علیھم الرحمہ وغیرہم شامل ہیں
یہ ان لوگوں کا اس وقت کا مزاج تھا جب تحریک پاکستان کی داغ بیل ڈالی گئی تھی ۔ آپ نے ایک اور معتبر نام ؛بلکہ مستند نام کا ذکر کرنا ہی بھول گئے ! وہ نام ہے شیخ التفسیر مولانا ادریس کاندھلوی کا۔ جب آپ نے اس کا ذکر چھیڑہی دیا ہے تو پھر معارف القرآن میں مفتی شفیع صاحب کا مقدمہ بھی پڑھ لیں جوانہوں نے کراچی میں رہتے ہوئے قیام پاکستان کے خوابوں کو کرچی کرچی ہوتے ہوئے بیان کیا ہے ۔ یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ ان درویش صفت علماء کا جوش اسی وقت تک تھا جب تک کے پاکستان کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا ۔ اور ہاں ! یہ بات ضرور سچ ہے کہ جب شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ پاکستا ن کے دورہ پر تھے تو انہوں نے لاہور کی کسی مسجد میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ جب مسجد بن گئی تو اب تمام مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ اس کی بقا اور تحفظ کے لیے کوشش کرے اور اس کے لیے تمام طرح کی کوشش و دعا کرے‘‘۔ لیکن جب آپ نے اس تاریخی شق کو چھیڑا ہے تو کیا یہ بتانے کی زحمت کریں گے کہ علماء کا ردعمل رہا جب اسلام کے نام پر بننے والی مملکت میں ہی اسلام نافذ نہ ہوسکا؟۔ یہ بھی بتادیتے تو مہربانی ہوتی ۔
 

فاخر

محفلین
پھر یہاں" گے میرج " کا قانون پاس نہیں ہوسکتا
’’گے میرج ‘‘ کا قانون بننا یا پھر اس کو رواج دینا کسی غیر مسلم ملک میں عام بات ہے اور پھر کثرت لواطت کی پیشن گوئی بھی موجود ہے کہ قرب قیامت لواطت اور بدکاریاں عروج پر ہوں گی۔ ذرا یہ بھی تو بتادیتے کہ ’’قصور‘‘ سانحہ جس میں تقریباً 150سے زائد نوعمر لڑکوں کو بندوق کی نوک پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنا یا گیا پھر اس قبیح عمل کا ویڈیو بنا کر پورن کمپنی کو بیچا گیا ، اس اسلامی ملک میں اس سانحہ کے ملزمین کا کیا ہوا؟ یا پھر نواز شریف یا شہباز شریف کے ’’کرپشن ‘‘ کی نذر ہوگیا ؟ وضاحت ضرور کریں۔ اور رہی بات ’’گے‘‘ کی تو یہ بھی جان لیجئے اور شاید آپ کو بھی علم ہوگا کہ دنیا میں سب سے زیادہ ’’گے‘‘ ویڈیو سرچ کرنے والا ملک یہی نام نہاد اسلامی مملکت ’’پاکستان ‘‘ ہے۔ آخر ایسا کیوں؟ کیا ’’فجعلنا عالیہا سافلہا ‘‘ اور’’ سجیل منضود‘‘ کی وعید یاد نہیں اس طرح کی سزا کا خوف بھی نہیں ؟
 

فرقان احمد

محفلین
بدقسمتی سے اس مضمون میں سر سید احمد خان کے حوالے سے منفی باتیں ہی سامنے رکھی گئی ہیں۔ سر سید احمد خان کی زندگی کو انیسویں صدی کے حالات و واقعات اور برصغیر میں بپا ہنگاموں اور نوآبادیاتی دور کے مسائل کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ سر سید سے بعض غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی تاہم ان کی شخصیت کو محض یوں، یک رخے انداز میں پیش کرنا مناسب نہیں۔ ان میں کچھ خوبی تو رہی ہو گی کہ مولانا حالی نے ان کی زندگی پر ایک اہم کتاب لکھی جس کا نام انہوں نے 'حیاتِ جاوید رکھا۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم
دیکھئے محترمی حالات کبھی آئیڈیل نہیں رہے -میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اضطرار کا مفروضہ :
گویا کسی کو مجبور کر کے پوچھا جائے کہ میاں ہندو کی چماٹیں کھا کھا کے جیو گے یا مسلمان کی -تو بہر حال لاکھ درجہ بہتر ہے یہ کہنا کہ مسلمان کی -

تقسیم سے پہلے بھی اکابر علماء نے مسلم لیگ کا ساتھ یہ کہہ کر دیا تھا کہ مسلم لیگ اگر کانی ہے کانگریس اندھی ہے اور اندھوں میں کانا راجا -
باقی ذاتی افعال کو رہنے دیجئے پاکستان بہر حال اسلامی مملکت ہے اگرچہ جمہوریہ ہے -لیکن یہ جمہوریہ وہ سانپ ہے جس کا زہر نکال دیا گیا ہے -پہلے بھی عرض کر چکا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ووٹ کی کثرت سے پوری مملکت کو پانڈو جی ڈکلئیر کر دیا جائے -بلکہ اسلام کی روح کے خلاف کوئی فیصلہ مثلا گے میرج لے لیجئے کثرت ووٹ کی بنا پر پاس ہوکر باقاعدہ قانون نہیں بن سکتا -

باقی ایک قصور کا مجرم پھانسی چڑھ چکا -آپ نے اور کس کو دیکھا ہے بتائیے -تاکہ کارروائی کی جا سکے -بلکہ آپ شرعی عدالت میں چشم دید گواہ بن کر زانی کو سزا دلوائیے -نوازش ہوگی -
 

یاسر شاہ

محفلین
آپ کے تعارفی کیفیت نامے کی نذر ایک شعر:

"اردو ادب کا ادنیٰ طالب علم اور خادم جو اردو کی عالم گیر خوشبو،محبت کا پیغام عام کرنا چاہتا ہوں۔ صلح کل کا نظریہ اپنا شعار ہے۔"



آپ کہتے تھے ہم ہیں صلح کل
واہ صاحب کھلائے خوب ہیں گل
 

یاسر شاہ

محفلین
لواطت کی پیشن گوئی بھی موجود ہے کہ قرب قیامت لواطت اور بدکاریاں عروج پر ہوں گی
میرا ذوق ہے کہ میں "لواطت "لفظ کے استعمال کو بےادبی سمجھتا ہوں کیونکہ اس لفظ سے یہ قبیح 'شنیع اور غلیظ فعل نبی لوط علیہ السلام کے نام سے مشتق (derive)ہو رہا ہے -
 

فاخر

محفلین
السلام علیکم
دیکھئے محترمی حالات کبھی آئیڈیل نہیں رہے -میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں اضطرار کا مفروضہ :


تقسیم سے پہلے بھی اکابر علماء نے مسلم لیگ کا ساتھ یہ کہہ کر دیا تھا کہ مسلم لیگ اگر کانی ہے کانگریس اندھی ہے اور اندھوں میں کانا راجا -
باقی ذاتی افعال کو رہنے دیجئے پاکستان بہر حال اسلامی مملکت ہے اگرچہ جمہوریہ ہے -لیکن یہ جمہوریہ وہ سانپ ہے جس کا زہر نکال دیا گیا ہے -پہلے بھی عرض کر چکا کہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ووٹ کی کثرت سے پوری مملکت کو پانڈو جی ڈکلئیر کر دیا جائے -بلکہ اسلام کی روح کے خلاف کوئی فیصلہ مثلا گے میرج لے لیجئے کثرت ووٹ کی بنا پر پاس ہوکر باقاعدہ قانون نہیں بن سکتا -

باقی ایک قصور کا مجرم پھانسی چڑھ چکا -آپ نے اور کس کو دیکھا ہے بتائیے -تاکہ کارروائی کی جا سکے -بلکہ آپ شرعی عدالت میں چشم دید گواہ بن کر زانی کو سزا دلوائیے -نوازش ہوگی -


پھر اس کانی یعنی مسلم لیگ کا رویہ علماء کے ساتھ کیسا رہا؟ آپ سب کچھ سمجھ کر بھی انجان بنے ہوئے ہیں ،بولیے!
اورہاں جب یہ آپ جانتے ہیں کہ بھارت ایک غیر مسلم ملک ہے تو پھر آپ یہاں کیوں کر اسلامی قانون اور اسلامی مزاج کی تشکیل کی امید لگائے بیٹھے ہیں ؟ جیسے کہ ایوان میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ اپنے وقت کے جنید و بسطامی ہوں ؟ ھا ھا ھا ھا ۔ یہ پانڈو جی ہوں یا پھر بنیا جی ! یہ تو اس وقت سرابھارے ہیں جب مسلمانوں کو اپنے کئے کا نتیجہ ملنا تھابطور سزا کے۔ یاد کیجئے ! اقبالؔ لاہوری نے کس طرح ’’متاع تیموری ‘‘ کے لٹ جانے کا مرثیہ پڑھا ہے۔ یہ اب پانڈو جی کی طبعیت میں جو کچھ بھی آئے وہ کریں اب کا سکہ چل رہا ہے ۔ آج ہی کی خبر ہے کہ میرٹھ میں دو ہندو بھائی پرشانت اور دھرمیش نامی نوجوان نے اپنی ہی سگی بہن کے ساتھ مسلسل چار سال سے جنسی زیادتی کی ہے، کل وہ لڑکی ایک سماجی تنظیم کے تعاون سے تھانہ میں رپورٹ درج کراپائی ہے ۔تو یہ ہے اس کی مثال اب حکومت بھی سرپر ہاتھ رکھ کر بیٹھی ہے اور عوام بھی پریشان ہیں کہ آخر کیسے ایک بھائی اپنی ہی بہن کے ساتھ جنسی زیادتی کا مرتکب ہوا ۔خیر اس کوبھی رہنے دیں یہ تو ایک ادنیٰ مثال تھی ۔ یہ بھی جو بھی کریں ان کی مرضی ہے ۔
تاہم یہ عرض کردوں عمران علی کو پھانسی تو ایسے وقت میں دی گئی ہے جب قصور کے عوام کا اشتعال اپنے شباب پر پہنچ گیا تھا ؛کیوں کہ اس کے خلاف احتجاج میں دو دیگر مظاہرین کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا ۔عمران علی کو تو پھانسی پر چڑھادیا گیا ؛لیکن اسی قصور کے حویلی والے ’’عمرانوں‘‘ کا کیا ہوا جو لڑکوں کے ساتھ زیادتی کرتے تھے ؟۔

خیر! چھوڑیں مجھے معلوم ہے کہ آپ بار بار پانڈو جی کا ذکر چھڑیں گے ۔اور پانڈو جی سے ہمارا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے بس ا تنا کہ وہ ہمارے ہی معاشرے کےلوگ ہیں ۔ اپنے بھائیوں کے ذریعہ ہمیشہ کے لیے ’’الوداع ‘‘ کہہ دیئے جانے کے بعد ان کے ہم رحم و کرم پر ہیں ۔ اوریہ بھی کہہ دیں کہ ہم وہ بزدل بھی نہیں ہیں جو اپنی میراث پدری کے چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کرلیں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
چلیں جی بحث ختم -آج انڈیا پاکستان دونوں جگہ جمعہ ہے -کچھ دیر میں جمعہ نماز بھی ہے - سب مسلمان وہاں کے بھی یہاں کے بھی تیّار ہو کے مسجد کو جائیں گے - کیا حسن اتفاق ہے-آپ کی نذر اپنا ایک اور شعر :

آپ ہیں سخت مبلّغ ہمیں کہنے دیجے
ہم کو جمعے کا مسلمان تو رہنے دیجے
 

فاخر

محفلین
بدقسمتی سے اس مضمون میں سر سید احمد خان کے حوالے سے منفی باتیں ہی سامنے رکھی گئی ہیں۔ سر سید احمد خان کی زندگی کو انیسویں صدی کے حالات و واقعات اور برصغیر میں بپا ہنگاموں اور نوآبادیاتی دور کے مسائل کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ سر سید سے بعض غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہوں گی تاہم ان کی شخصیت کو محض یوں، یک رخے انداز میں پیش کرنا مناسب نہیں۔ ان میں کچھ خوبی تو رہی ہو گی کہ مولانا حالی نے ان کی زندگی پر ایک اہم کتاب لکھی جس کا نام انہوں نے 'حیاتِ جاوید رکھا۔
جناب آپ پھر اس پیراگراف کو بھی بھول رہے ہیں ،یہی مولانا الطاف حالی ہیں جنہوں نے اپنا سردھنتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے :
’’آخر عمر میں سرسید کی خود رائی یا جو ’’وثوق ‘‘ کہ ان کو اپنی رایوں پر تھا وہ حد اعتدال سے متجاوز ہوگیا تھا ۔ یعنی آیات قرآنی کے وہ ایسے معنی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیوں کر ایسا اعلیٰ دماغ آدمی کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے ‘‘۔
کبھی آ پ نے اس عبارت پر بھی غور کیا ہے ؟ کر لیجئے گا !!!
 

فرقان احمد

محفلین
جناب آپ پھر اس پیراگراف کو بھی بھول رہے ہیں ،یہی مولانا الطاف حالی ہیں جنہوں نے اپنا سردھنتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے :
’’آخر عمر میں سرسید کی خود رائی یا جو ’’وثوق ‘‘ کہ ان کو اپنی رایوں پر تھا وہ حد اعتدال سے متجاوز ہوگیا تھا ۔ یعنی آیات قرآنی کے وہ ایسے معنی بیان کرتے تھے جن کو سن کر تعجب ہوتا تھا کہ کیوں کر ایسا اعلیٰ دماغ آدمی کمزور اور بودی تاویلوں کو صحیح سمجھتا ہے ‘‘۔
کبھی آ پ نے اس عبارت پر بھی غور کیا ہے ؟ کر لیجئے گا !!!
سر سید احمد خان کی تفسیر سے اختلاف کرنا ہر کسی کا حق ہے تاہم ہماری گزارش کچھ اور ہی تھی۔ براہ مہربانی ہمارا مراسلہ ایک بار پھر دیکھ لیجیے گا، شکریہ!
 

فاخر

محفلین
خیر چھوڑیں اس باب کو ؛کیوں کہ آپ کی دلائل نہ تو میرے لیے سرسید کے تئیں نرم گوشہ پیدا کرسکتی ہیں اور نہ ہی میں آپ کو ان کے رفیق کار خواجہ الطاف حالؔی کے اقتباس کے ذریعہ خاموش کرسکتا ہوں ۔ چلیں چھوڑیں ۔
 
Top