سرمہ درِ گلو ہے بڑے احترام سے ۔۔ غزل اصلاح کے لئے

ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی گزارش ہے۔
احباب محفل سے بھی نظرِ عنایت کی درخواست ہے۔

بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن

----------------------------------
کردار زندگی میں ہے جو میرے نام سے
سرمہ درِ گلو ہے بڑے احترام سے

مشہور کر دیا مری لب بستگی نے یوں
پہچان ہے "زبانِ بریدہ" کے نام سے

معیارِ زندگی ہیں مرے فَقر سے قریں
ورنہ اٹھاتا فیض زمیں پر قیام سے

"پرواز کی ہوس نے اسیرِ فلک رکھا"

بڑھ کر تھے مرحلے گو ابھی اس مقام سے

آوارہ چاند مل گیا کل راہ پوچھتا
ورنہ پہنچ گیا تھا میں گھر اپنے شام سے

میں ٹوٹتے ستارے سے کل ہم کلام تھا
برگشتہ نکلا میری طرح ہر نظام سے

سیلابِ تشنہ خواب نے کوشش تو خوب کی
دیوارِ ضبط بچ گئی کل، انہدام سے

ممکن ہے ایک حل یہی اب سوزِ عشق کا
تم اپنا گھر سنبھالو، لگیں ہم بھی کام سے

امکانِ اندمال ہے کاشف اسی طرح
ہر درد کو جو راہ دو اپنے کلام سے

سیّد کاشف

مرحوم جناب زیب غوری صاحب کی غزل کا مصرع ہے۔
------------------------------
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، لیکن فی الحال میں مطلع کے بارے میں ہی کہوں گا کہ سرمہ تو آنکھوں میں لگایا جاتا ہے، گلو سے کیا تعلق اور وہ بھی درِ گلو!!!
باقی سب درست ہیں، البتہ آخری شعر میں ’راہ دو‘ واضح نہیں، نکلنے کی راہ دو ہونا چاہیے۔ الفاظ بدل کر دیکھو۔
 
استاد محترم
سرمہ در گلو آواز کے بیٹھ جانے کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سرمہ کھا لیا جائے تو آواز نکلنا بند ہو جاتی ہے۔ :)
'راہ دو' سے مراد یہاں نکالنے سے ہی ہے. آپ کے مشورے کے مطابق کوشش کرونگا کہ کچھ اور متبادل لفظ کا استعمال ہو.
جزاک اللّہ
 
سرمہ درِ گلو ہے بڑے احترام سے
کاشف بھائی، "سرمہ در گلو" ہونا محاورہ ہے۔ اس میں "دریں" یا در کی اضافت کی گنجائش نہیں۔
مشہور کر دیا مری لب بستگی نے یوں
پہچان ہے "زبانِ بریدہ" کے نام سے
زبانِ بریدہ (زبان کے نیچے زیر کے ساتھ) کا مطلب ہے کٹی ہوئی زبان۔ جبکہ خیال یہاں کٹی ہوئی زبان والا کو چاہتا ہے۔ لہٰذا زبان کی اضافت کو حڈف کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔
آوارہ چاند مل گیا کل راہ پوچھتا
ورنہ پہنچ گیا تھا میں گھر اپنے شام سے

میں ٹوٹتے ستارے سے کل ہم کلام تھا
برگشتہ نکلا میری طرح ہر نظام سے
بہت اچھے شعر ہیں۔
 
کاشف بھائی، "سرمہ در گلو" ہونا محاورہ ہے۔ اس میں "دریں" یا در کی اضافت کی گنجائش نہیں۔

زبانِ بریدہ (زبان کے نیچے زیر کے ساتھ) کا مطلب ہے کٹی ہوئی زبان۔ جبکہ خیال یہاں کٹی ہوئی زبان والا کو چاہتا ہے۔ لہٰذا زبان کی اضافت کو حڈف کر دیا جائے تو بہتر ہو گا۔

بہت اچھے شعر ہیں۔
بہت بہت شکریہ راحیل بھائی۔
'دریں' کے متعلق میں بھی مخمصے میں تھا۔
سرمہ در گلو کے ضمن میں آپ کے مشورے کو ذہن میں رکھونگا۔ ان شا اللہ
اشعار درست کرنے کے بعد دوبارہ شیر و شکر کرونگا۔
جزاک اللہ۔
 

الف عین

لائبریرین
َ
کاشف بھائی، "سرمہ در گلو" ہونا محاورہ ہے۔ اس میں "دریں" یا در کی اضافت کی گنجائش نہیں۔
اس محاورے سے میں نا واقف تھا، لیکن بحر کے لحاظ سے درِ مجھے بہر حال غلط لگا، اس لیے میں نے اسے ’دریں‘ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
 
اصلاح کے بعد مکمل غزل پیش کر رہا ہوں۔


----------------------------------
کردار زندگی میں ہے جو میرے نام سے
ہے سرمہ در گلو وہ بڑے احترام سے

مشہور کر دیا مری لب بستگی نے یوں
پہچان ہے "زبان بریدہ" کے نام سے

معیارِ زندگی ہیں مرے فَقر سے قریں
ورنہ اٹھاتا فیض زمیں پر قیام سے

"پرواز کی ہوس نے اسیرِ فلک رکھا"

بڑھ کر تھے مرحلے گو ابھی اس مقام سے

آوارہ چاند مل گیا کل راہ پوچھتا
ورنہ پہنچ گیا تھا میں گھر اپنے شام سے

میں ٹوٹتے ستارے سے کل ہم کلام تھا
برگشتہ نکلا میری طرح ہر نظام سے

سیلابِ تشنہ خواب نے کوشش تو خوب کی
دیوارِ ضبط بچ گئی کل، انہدام سے

ممکن ہے ایک حل یہی اب سوزِ عشق کا
تم اپنا گھر سنبھالو، لگیں ہم بھی کام سے

امکانِ اندمال ہے کاشف اسی طرح
ہر درد کو جو راہ دو اپنے کلام سے

سیّد کاشف

مرحوم جناب زیب غوری صاحب کی غزل کا مصرع ہے۔
------------------------------
 
Top