کاشف اسرار احمد
محفلین
ایک غزل اصلاح کے لئے پیش کر رہا ہوں۔
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی گزارش ہے۔
احباب محفل سے بھی نظرِ عنایت کی درخواست ہے۔
استاد محترم جناب الف عین سر سے اصلاح کی گزارش ہے۔
احباب محفل سے بھی نظرِ عنایت کی درخواست ہے۔
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
----------------------------------
کردار زندگی میں ہے جو میرے نام سے
سرمہ درِ گلو ہے بڑے احترام سے
مشہور کر دیا مری لب بستگی نے یوں
پہچان ہے "زبانِ بریدہ" کے نام سے
معیارِ زندگی ہیں مرے فَقر سے قریں
ورنہ اٹھاتا فیض زمیں پر قیام سے
"پرواز کی ہوس نے اسیرِ فلک رکھا"
بڑھ کر تھے مرحلے گو ابھی اس مقام سے
آوارہ چاند مل گیا کل راہ پوچھتا
ورنہ پہنچ گیا تھا میں گھر اپنے شام سے
میں ٹوٹتے ستارے سے کل ہم کلام تھا
برگشتہ نکلا میری طرح ہر نظام سے
سیلابِ تشنہ خواب نے کوشش تو خوب کی
دیوارِ ضبط بچ گئی کل، انہدام سے
ممکن ہے ایک حل یہی اب سوزِ عشق کا
تم اپنا گھر سنبھالو، لگیں ہم بھی کام سے
امکانِ اندمال ہے کاشف اسی طرح
ہر درد کو جو راہ دو اپنے کلام سے
سیّد کاشف
مرحوم جناب زیب غوری صاحب کی غزل کا مصرع ہے۔
------------------------------
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
----------------------------------
کردار زندگی میں ہے جو میرے نام سے
سرمہ درِ گلو ہے بڑے احترام سے
مشہور کر دیا مری لب بستگی نے یوں
پہچان ہے "زبانِ بریدہ" کے نام سے
معیارِ زندگی ہیں مرے فَقر سے قریں
ورنہ اٹھاتا فیض زمیں پر قیام سے
"پرواز کی ہوس نے اسیرِ فلک رکھا"
بڑھ کر تھے مرحلے گو ابھی اس مقام سے
آوارہ چاند مل گیا کل راہ پوچھتا
ورنہ پہنچ گیا تھا میں گھر اپنے شام سے
میں ٹوٹتے ستارے سے کل ہم کلام تھا
برگشتہ نکلا میری طرح ہر نظام سے
سیلابِ تشنہ خواب نے کوشش تو خوب کی
دیوارِ ضبط بچ گئی کل، انہدام سے
ممکن ہے ایک حل یہی اب سوزِ عشق کا
تم اپنا گھر سنبھالو، لگیں ہم بھی کام سے
امکانِ اندمال ہے کاشف اسی طرح
ہر درد کو جو راہ دو اپنے کلام سے
سیّد کاشف
مرحوم جناب زیب غوری صاحب کی غزل کا مصرع ہے۔
------------------------------