مہوش علی
لائبریرین
انتہاپسندی اور جلدبازی کے تجزیے [بشکریہ بی بی سی ]
وجاہت مسعود
لاہور
پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاسی حلقوں میں انتہا پسندی کے عذرخواہوں کی کوئی کمی نہیں لاہور لبرٹی چوک میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے چند ہی منٹ بعد ایک ٹی وی چینل پر ایک معروف ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کا براہ راست انٹرویو نشر کیا گیا جنھوں نے حملے کے قلابے ممبئی کے دہشت گرد حملوں سے ملاتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے ممبئی حملوں کا انتقام ہے۔
اس ابتدائی اشارے کے بعد پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینلوں کا رُخ ممبئی حملوں اور پھر بھارت کے ممکنہ انتقامی کردار کی طرف مُڑ گیا۔ بہت کم تجزیہ کاروں نے اِس نکتے پر توجہ دی کہ اگر ممبئی حملوں اور لاہور کے لبرٹی چوک میں دہشت گردی کے طریقہ واردات میں مماثلت پائی جاتی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہیں زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ یہ واردات بھی غالباً اُسی تنظیم کا کام ہے جس نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔
بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہمسایہ ملک پر سازش کا الزام لگانے کا مقصد لاہور میں حملے کے مرتکب افراد کی نشاندہی سے زیادہ اُن کی طرف سے توجہ ہٹانا معلوم ہوتا تھا۔
خوف و ہراس
پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاسی حلقوں میں انتہا پسندی کے عذرخواہوں کی کوئی کمی نہیں۔ اِن حلقوں کا آزمودہ طریقہ کار انتہا پسندی کی کسی واردات کے بعد ایسی دھول اُڑانا ہے جس سے واردات کے مرتکب عناصر سے توجہ ہٹ جائے اور رائے عامہ کو انتہا پسندی کے مفروضہ اسباب اور سازشی نظریات میں اُلجھا دیا جائے۔ یہ اصحاب اِس امر کی نشاندہی کرنے میں تو بہت دلچسپی رکھتے ہیں کہ انتہا پسندی کی پشت پناہی کون کر رہا ہے لیکن یہ بیان کرنے سے ہچکچاہتے ہیں کہ ایسی کارروائیاں در حقیقت کون کر رہا ہے؟ یہ طریقہ کار انتہاپسندوں کے لیے نہایت مفید مطلب ہے۔
ابتدائی غبار بیٹھنے کے کچھ عرصہ بعد انتہا پسند تنظیمیں واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہیں۔ ڈنمارک کے سفارت خانے یا میریٹ ہوٹل پر حملوں کے فوراً بعد تواتر سے بیرونی ہاتھ کا ذکررہا ۔ کچھ عرصہ بعد القاعدہ نے تسلیم کر لیا کہ دونوں مقامات پر اس کے فرستادہ اراکین نے حملے کیے تھے۔
دہشت گردی کی کسی بھی واردات کے بعد رائے عامہ میں انتہاپسندوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ جھوٹ یا تاویل آرائی کی مدد سے اس ممکنہ نفرت کو دبانا کسی بھی انتہا پسند کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ایک نکتہ یہ بھی اُٹھایا گیا کہ القاعدہ یا اِس کی ذیلی تنظیمیں سری لنکا کو نشانہ کیوں بنائیں گی؟ اِس استدلال میں بنیاد پرست انتہا پسندی کی نوعیت کو سرے سے نظر اندازکر دیا گیا۔ القاعدہ یا اُس کی حلیف تنظیموں کو فلسطین، کشمیر یا افغانستان سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ۔
1998ءمیں القاعدہ نے مغربی دنیا کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تو اُس میں فلسطین یا کشمیر کا ذکر تک نہیں تھا۔ بنیاد پرستوں کا اصل مقصد اپنی ہدف سرزمینوں اور بالآخر پوری دنیا پر اپنا تصور مذہب اور اُس سے پھوٹنے والا تصور سیاست مسلط کرنا ہے۔ اس راہ میں بُدھا کے مجسمے تباہ کیے جا سکتے ہیں اور اہلِ تشیع مسلمانوں پر حملے بھی ہو سکتے ہیں۔
القاعدہ منشور
1998ءمیں القاعدہ نے مغربی دنیا کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تو اُس میں فلسطین یا کشمیر کا ذکر تک نہیں تھا۔ بنیاد پرستوں کا اصل مقصد اپنی ہدف سرزمینوں اور بالآخر پوری دنیا پر اپنا تصور مذہب اور اُس سے پھوٹنے والا تصور سیاست مسلط کرنا ہے۔ اس راہ میں بُدھا کے مجسمے تباہ کیے جا سکتے ہیں اور اہلِ تشیع مسلمانوں پر حملے بھی ہو سکتے ہیں
انتہا پسند کسی قوم یاگروہ کا اس لیے مخالف نہیں کہ مذکورہ قوم یا گروہ نے اُسے کوئی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے تصور عالم میں ہر وہ فرد، گروہ اور قوم اُس کی دشمن اور جائز ہدف ہے جو اُس سے مختلف ہے یا اُس کے دستِ وحشت خیز پر بیعت کے لیے تیار نہیں۔ لاہور میں حملے کے بعد ایک سوال یہ اُٹھا کہ انتہا پسند کرکٹ کے کھلاڑیوں کو کیوں نشانہ بنائیں گے؟ اِس دلیل میں یہ مفروضہ کار فرما ہے کہ یہ لوگ کرکٹ جیسے معصوم شغل سے کیوں کِد رکھیں گے۔ اِس میں یہ حقیقت فراموش کی جا رہی ہے کہ انتہا پسندی بنیادی انسانی معصومیت ہی کی دشمن ہے۔ ہدف جس قدر معصوم ہو دہشت گردی اُسی قدر موثر قرار پاتی ہے۔ دہشت گردی کا مقصد خوف زدہ کرنا ہے۔ ایک بالغ انسان کی مصیبت کے مقابلے میں کسی معصوم بچے کی اذیت زیادہ دہشت ناک ہوتی ہے۔
یوں بھی اب سے پچیس برس پہلے ڈاکٹر اسرار احمد نے کرکٹ کو فُحش کھیل قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ اُن دنوں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ طالبان کے افغانستان میں گیند سے کھیلنے والے بچوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ بات کرکٹ کی معصومیت یا کھلاڑیوں کی غیر سیاسی شناخت کی نہیں، انتہا پسند اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
انتہا پسند پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں اپنے پنجے موثر طور پر گاڑ چکے ہیں۔ اگلا منطقی ہدف پنجاب ہے۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر پسماندہ سرائیکی خطے میں فرقہ واریت کا ہتھیار موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ڈیرہ غازی خان، میانوالی اور بھکر جیسے علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا گراف بلند کیا جا رہا ہے۔
مرکزی پنجاب کو دھڑکا
مرکزی پنجاب میں شہری متوسط طبقہ کو یہ دھڑکا ہے کہ ان کی اقتصادی خوشحالی پنجاب کے دیگر حصوں کو کھٹکتی ہے۔ چنانچہ مرکزی پنجاب میں انتہا پسندوں نے ہراول دستے کے طور پر ایسی کارروائیاں شروع کی ہیں جنھیں بظاہر انتہاپسندی کے بڑے دھارے سے منسوب کرنا مشکل نظر آتا ہے
مرکزی پنجاب میں شہری متوسط طبقہ کو یہ دھڑکا ہے کہ ان کی اقتصادی خوشحالی پنجاب کے دیگر حصوں کو کھٹکتی ہے۔ چنانچہ مرکزی پنجاب میں انتہا پسندوں نے ہراول دستے کے طور پر ایسی کارروائیاں شروع کی ہیں جنھیں بظاہر انتہاپسندی کے بڑے دھارے سے منسوب کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ لاہور میں تھیٹروں اور دیگر تفریحی مقامات پر متعدد دھماکے کیے گئے جن میں جانی نقصان کا اندیشہ زیادہ نہیں تھا لیکن خوف و ہراس میں خاصا اضافہ ہوا۔ کرکٹ کے کھیل پر حملہ اِسی رجحان کا اگلا مرحلہ سمجھنا چاہیے۔ اب کئی برس تک کوئی بین الاقوامی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔ سیاحت کا دروازہ ایک عرصے سے بند ہو چکا ہے۔ پاکستان کی عالمی تنہائی بڑھ رہی ہے اور داخلی استحکام مخدوش ہو رہا ہے۔
پاکستان کو انتہاپسندی سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیادت، ریاستی ادارے اور رائے عامہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے میں پوری طرح یکسو نہیں ہیں۔
وجاہت مسعود
لاہور
پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاسی حلقوں میں انتہا پسندی کے عذرخواہوں کی کوئی کمی نہیں لاہور لبرٹی چوک میں سری لنکا کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملے کے چند ہی منٹ بعد ایک ٹی وی چینل پر ایک معروف ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کا براہ راست انٹرویو نشر کیا گیا جنھوں نے حملے کے قلابے ممبئی کے دہشت گرد حملوں سے ملاتے ہوئے خیال ظاہر کیا کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ بھارتی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے ممبئی حملوں کا انتقام ہے۔
اس ابتدائی اشارے کے بعد پاکستان کے نجی ٹیلی ویژن چینلوں کا رُخ ممبئی حملوں اور پھر بھارت کے ممکنہ انتقامی کردار کی طرف مُڑ گیا۔ بہت کم تجزیہ کاروں نے اِس نکتے پر توجہ دی کہ اگر ممبئی حملوں اور لاہور کے لبرٹی چوک میں دہشت گردی کے طریقہ واردات میں مماثلت پائی جاتی ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہیں زیادہ قرینِ قیاس ہے کہ یہ واردات بھی غالباً اُسی تنظیم کا کام ہے جس نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔
بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ہمسایہ ملک پر سازش کا الزام لگانے کا مقصد لاہور میں حملے کے مرتکب افراد کی نشاندہی سے زیادہ اُن کی طرف سے توجہ ہٹانا معلوم ہوتا تھا۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ اور کچھ سیاسی حلقوں میں انتہا پسندی کے عذرخواہوں کی کوئی کمی نہیں۔ اِن حلقوں کا آزمودہ طریقہ کار انتہا پسندی کی کسی واردات کے بعد ایسی دھول اُڑانا ہے جس سے واردات کے مرتکب عناصر سے توجہ ہٹ جائے اور رائے عامہ کو انتہا پسندی کے مفروضہ اسباب اور سازشی نظریات میں اُلجھا دیا جائے۔ یہ اصحاب اِس امر کی نشاندہی کرنے میں تو بہت دلچسپی رکھتے ہیں کہ انتہا پسندی کی پشت پناہی کون کر رہا ہے لیکن یہ بیان کرنے سے ہچکچاہتے ہیں کہ ایسی کارروائیاں در حقیقت کون کر رہا ہے؟ یہ طریقہ کار انتہاپسندوں کے لیے نہایت مفید مطلب ہے۔
ابتدائی غبار بیٹھنے کے کچھ عرصہ بعد انتہا پسند تنظیمیں واقعے کی ذمہ داری قبول کر لیتی ہیں۔ ڈنمارک کے سفارت خانے یا میریٹ ہوٹل پر حملوں کے فوراً بعد تواتر سے بیرونی ہاتھ کا ذکررہا ۔ کچھ عرصہ بعد القاعدہ نے تسلیم کر لیا کہ دونوں مقامات پر اس کے فرستادہ اراکین نے حملے کیے تھے۔
دہشت گردی کی کسی بھی واردات کے بعد رائے عامہ میں انتہاپسندوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہونا لازمی امر ہے۔ جھوٹ یا تاویل آرائی کی مدد سے اس ممکنہ نفرت کو دبانا کسی بھی انتہا پسند کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
ایک نکتہ یہ بھی اُٹھایا گیا کہ القاعدہ یا اِس کی ذیلی تنظیمیں سری لنکا کو نشانہ کیوں بنائیں گی؟ اِس استدلال میں بنیاد پرست انتہا پسندی کی نوعیت کو سرے سے نظر اندازکر دیا گیا۔ القاعدہ یا اُس کی حلیف تنظیموں کو فلسطین، کشمیر یا افغانستان سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ۔
1998ءمیں القاعدہ نے مغربی دنیا کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تو اُس میں فلسطین یا کشمیر کا ذکر تک نہیں تھا۔ بنیاد پرستوں کا اصل مقصد اپنی ہدف سرزمینوں اور بالآخر پوری دنیا پر اپنا تصور مذہب اور اُس سے پھوٹنے والا تصور سیاست مسلط کرنا ہے۔ اس راہ میں بُدھا کے مجسمے تباہ کیے جا سکتے ہیں اور اہلِ تشیع مسلمانوں پر حملے بھی ہو سکتے ہیں۔
انتہا پسند کسی قوم یاگروہ کا اس لیے مخالف نہیں کہ مذکورہ قوم یا گروہ نے اُسے کوئی نقصان پہنچایا ہے۔ ان کے تصور عالم میں ہر وہ فرد، گروہ اور قوم اُس کی دشمن اور جائز ہدف ہے جو اُس سے مختلف ہے یا اُس کے دستِ وحشت خیز پر بیعت کے لیے تیار نہیں۔ لاہور میں حملے کے بعد ایک سوال یہ اُٹھا کہ انتہا پسند کرکٹ کے کھلاڑیوں کو کیوں نشانہ بنائیں گے؟ اِس دلیل میں یہ مفروضہ کار فرما ہے کہ یہ لوگ کرکٹ جیسے معصوم شغل سے کیوں کِد رکھیں گے۔ اِس میں یہ حقیقت فراموش کی جا رہی ہے کہ انتہا پسندی بنیادی انسانی معصومیت ہی کی دشمن ہے۔ ہدف جس قدر معصوم ہو دہشت گردی اُسی قدر موثر قرار پاتی ہے۔ دہشت گردی کا مقصد خوف زدہ کرنا ہے۔ ایک بالغ انسان کی مصیبت کے مقابلے میں کسی معصوم بچے کی اذیت زیادہ دہشت ناک ہوتی ہے۔
یوں بھی اب سے پچیس برس پہلے ڈاکٹر اسرار احمد نے کرکٹ کو فُحش کھیل قرار دیا تھا۔ واضح رہے کہ اُن دنوں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ طالبان کے افغانستان میں گیند سے کھیلنے والے بچوں پر تشدد کیا جاتا تھا۔ بات کرکٹ کی معصومیت یا کھلاڑیوں کی غیر سیاسی شناخت کی نہیں، انتہا پسند اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتے ہیں۔
انتہا پسند پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں اپنے پنجے موثر طور پر گاڑ چکے ہیں۔ اگلا منطقی ہدف پنجاب ہے۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر پسماندہ سرائیکی خطے میں فرقہ واریت کا ہتھیار موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ڈیرہ غازی خان، میانوالی اور بھکر جیسے علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا گراف بلند کیا جا رہا ہے۔
مرکزی پنجاب میں شہری متوسط طبقہ کو یہ دھڑکا ہے کہ ان کی اقتصادی خوشحالی پنجاب کے دیگر حصوں کو کھٹکتی ہے۔ چنانچہ مرکزی پنجاب میں انتہا پسندوں نے ہراول دستے کے طور پر ایسی کارروائیاں شروع کی ہیں جنھیں بظاہر انتہاپسندی کے بڑے دھارے سے منسوب کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ لاہور میں تھیٹروں اور دیگر تفریحی مقامات پر متعدد دھماکے کیے گئے جن میں جانی نقصان کا اندیشہ زیادہ نہیں تھا لیکن خوف و ہراس میں خاصا اضافہ ہوا۔ کرکٹ کے کھیل پر حملہ اِسی رجحان کا اگلا مرحلہ سمجھنا چاہیے۔ اب کئی برس تک کوئی بین الاقوامی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں آئے گی۔ سیاحت کا دروازہ ایک عرصے سے بند ہو چکا ہے۔ پاکستان کی عالمی تنہائی بڑھ رہی ہے اور داخلی استحکام مخدوش ہو رہا ہے۔
پاکستان کو انتہاپسندی سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی قیادت، ریاستی ادارے اور رائے عامہ اس خطرے کا مقابلہ کرنے میں پوری طرح یکسو نہیں ہیں۔