وقوف عرفات کے دورانیہ میں تو اتنا کھانا تقسیم کے لئے آجاتا ہے کہ اکثرجگہوں پر کھانا، حاجیوں کا منتظر ہی رہتا ہے۔ حاجیوں کی بسیں جب مکہ سے مدینہ سفر کرتی ہیں تو اکثر بس ٹرمینلز پر ہر بس کے ہر مسافر کو کھانوں کا پیکٹ اور زم زم پانی مفت تقسیم ہوتا ہے۔ بیت اللہ شریف کے آس پاس وقتاً فوقتاً کھانون کے پیکٹس تقسیم کرنے والی گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں اور لوگ قطار لگاکر اسے وصول کرتے ہیں۔ رمضان المبارک میں افطار کے وقت دونوں حرم میں دنیا کا طویل ترین دسترخوان بچھتا ہے، جس میں کھانے پینے کی اشیا مفت تقسیم ہوتی ہیں۔ یہ دستر خوان نماز عصر کے بعد بلکہ لگنا شروع ہوتا ہے تو مغرب تک لگتا ہی رہتا ہے۔ واضح رہے کہ وہاں نماز عصر اول وقت میں ادا کی جاتی ہے۔ اور عصر مغرب کے درمیان کئی گھنٹہ کا وقفہ ہوتا ہے۔ مکہ مدینہ دونوں جگہوں پر حرمین کے قریب مہنگے ترین ہوٹلز ہیں۔ جبکہ اگر حرم سے دور ہوٹلز اور کمرشیل بلڈنگز کے کرائے نسبتاً بہت سستے ہوتے ہیں۔ آف سیزن میں تو قریب کے مہنگے ہوٹلز بھی سستے ریٹ پر کمرے فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی باؤنڈری سے متصل مہنگے ترین Movinpick ہوٹل میں ہم 2010 کے حج کے کوئی تین چار ہفتے بعد ”آف سیزن“ میں پہنچے تو ہمیں تین کمروں کا کمرہ 8 دن کے لئے ایک ہزار ریال میں ملا تھا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ اگر آپ حرمین کے قریب ہوٹلز سے ذرا دور چلے جائیں تو وہاں متعدد این جی اوز کے تحت ایسی قیام گاہیں بھی ہیں، جہاں رہائش مفت ملتی ہے۔ لیکن اکثر حاجیوں کو ان جگہوں کا علم نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اکثر و بیشتر حاجی زندگی میں ایک مرتبہ ہی حج پر جاتے ہیں۔ اور جو بار بار حج اور عمرہ کرنے جاتے ہیں، انہیں مالی دشواریوں کا سامنا ہی نہیں ہوتا۔
یہی حقیقت ہے میں نے پہلے کچھ بھی نہیں لکھا کیونکہ میرے لکھنے پر بہت سی باتیں سامنے آجائنگی۔
اللہ کی مرضی سے میں نے حج البیت اللہ بہت سالوں پہلے ادا کیا اور متعدد بار عمرہ کرچکا ہوں
میرے کچھ رشتہ دار وہاں ہیں جو بلڈنگ رینٹ پر دیتے ہیں ایک ایک بلڈنگ کی مالیت کئیں ملین ریال ہیں
وہ کہتے ہیں کہ رمضان اور ذوالحجہ ہی میں ہمارا کام ہوتا ہے باقی 10 مہینے بالکل نہ ہونے کے برابر۔
کچھ جاننے والے گائڈ کا کام کرتا ہیں جب میں حج پر تھا تو میں بھی اس جو مناسب کرایہ تھا وہ ادا کیا۔
حج کے لئے کہا گیا کہ جو استطاعت رکھتا ہو اس پر فرض ہے
کافی سالوں پہلے کی بات ہے جب دبئی سے حج سستا تھا اس وقت یہاں کئیں تاجر اور فیکٹریوں کے مالک
اپنے اسٹاف کو حج انکے خرچے پر بھیجتے تھے، لیکن ابھی دبئی سے حج کر پانا کافی مشکل ہے
ایک تو کوٹہ دوسرا 35 ہزار درھم ۔ اس لئے لوگ اب اپنے اپنے ملکوں سے روانہ ہوتے ہیں
اور یہی بہتر ہے ایک تو سعودیہ عرب کا ملکوں کے لئے کوٹہ جو ہوتا ہے اس پرعمل ہوجاتا ہے
دوسرا ہر ملک کے لئے مینا میں الگ الگ ایریا اور واٹر کول سسٹم فائر ریٹرڈنٹ خیمے ہیں جسکی مالیت کا
اندازہ عام لوگ نہیں لگاسکتے۔ ابھی حاجیوں کے لئے مینا میں میٹرو ٹرین سسٹم بھی لگایا ہے اس سے قبل بسیں
تھیں میرے اندازے کے مطابق سعودی عوام گائڈ کا کام نہیں کرتے ہیں کام کرنے والوں میں زیادہ تر برمی روہنگیا قوم،
بنگالی، پاکستانی، انڈین، یمنی ہوتے ہیں
اسی طرح مکہ کے حدود میں ساڑھے سات لاکھ روہنگیا مظلوم قوم رہتے ہیں جو برما کے ظلم و ستم کو کراس کرکے
بنگلہ دیش پھر پاکستان کو کراس کرتے کرتے یہاں آباد ہیں جن کا سارا نان نفقہ انہیں سیزن میں پورا ہوتا ہے
یہ سارے لوگ ان کا لہجہ اور رہن سہن بالکل عربیوں کی طرز کا ہوگیا ہے
اسی طرح بنگالی ، پاکستانی اور یمنی بھی آباد ہوگئے جو برسوں سے یہاں حاجیوں کو سروس دیتے ہیں
اور بھی لکھنے کے لئے بہت سی باتیں ہیں
انتھی۔