محمد وارث
لائبریرین
یہ لطیفہ نما واقعہ اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر بریگیڈیر اے آر صدیقی نے جنرل یحییٰ خان پر اپنی کتاب میں لکھا ہے، واقعے سے پہلے کچھ اس کا پس منظر:
یہ جنوری 1971ء کے اوائل کے دن ہیں، ملک میں پہلے عام اور شفاف انتخابات ہو چکے ہیں۔ عوامی لیگ واضح برتری حاصل کر چکی ہے اور اب قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کا انتظار ہے جس میں ارکان نے حلف اٹھانا ہے اور ملک کے وزیرِ اعظم کا انتخاب کرنا ہے۔ بطور صدر، اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار جنرل یحییٰ کے پاس ہے۔ جنرل یحییٰ نے مارچ کے اوائل میں ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کر دیا ہے اور اسی سلسلے میں مجیب الرحمٰن سے ملنے ڈھاکہ کا دورہ کرتا ہے۔ ڈھاکہ میں جنرل یحییٰ اور مجیب الرحمٰن کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں، مجیب، جنرل کو یہ عندیہ دے دیتا ہے کہ اس کی حکومت جنرل یحییٰ کو بطور صدر اور بطور آرمی کمانڈر ان چیف قبول کر لے گی۔ جنرل یحییٰ ڈھاکہ سے واپسی پر ایئرپورٹ پر ایک سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ اس کا جانشین اور اگلا وزیر اعظم اکثریتی جماعت کا لیڈر ہوگا۔ ڈھاکہ میں اس بیان پر خوشی کے شادیانے بج اٹھتے ہیں اور ان کو ایک آس بندھ جاتی ہے کہ اقتدار صحیح معنوں میں عوام کی منتخب قیادت کو منتقل ہو جائے گا۔
یہاں سے یہ واقعہ شروع ہوتا ہے۔ جنرل یحییٰ ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اعلان کر کے کراچی کے لیے روانہ ہو جاتا ہے جہاں سے وہ سیدھا لاڑکانہ پہنچتا ہے۔ لاڑکانہ میں دوسری اکثریتی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو میزبان ہیں اور المرتضیٰ لاڑکانہ میں صدر صاحب کی تین دن کے لیے مہمانداری کی جاتی ہے۔ لاڑکانہ میں جنرل یحییٰ کے دیگر قریبی جنرلز بھی موجود ہیں جن میں جنرل عبدالحمید، جنرل پیرزادہ، جنرل عمر اور جنرل مٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
بھٹو نے جرنیلوں کے لیے شکار اور ضیافتِ طبع کا خوب اہتمام کر رکھا ہے۔ اسی سلسلے میں مختلف فنکاروں کو بھی لاڑکانہ میں مدعو کر رکھا ہے، انہی میں اس وقت کی ایک فلمی ہیروئن "ترانہ" نامی بھی شامل ہے۔ مذکورہ ہیروئن جب المرتضیٰ ہاؤس پہنچتی ہے تو سیکورٹی پر متعین اہلکار ضابطے کے مطابق انتہائی سخت چیکنگ اور سوال جواب کرتا ہے۔ تین دن کے بعد جب وہ ہیروئن وہاں سے رخصت ہو تی ہے تو وہی سیکورٹی گارڈ ہیروئن کو دیکھتے ہی انتہائی مستعدی سے سلیوٹ کرتا ہے۔ ہیروئن حیران ہو کر رویے میں تبدیلی کی وجہ پوچھتی ہے تو وہ کہتا ہے۔ میڈم جب آپ تشریف لائی تھیں تو صرف ترانہ تھیں، اب آپ "قومی ترانہ" ہیں۔ مصنف مذکور کے مطابق یہ لطیفہ چل نکلتا ہے اور پورے ملک میں ہر طرف "قومی ترانہ" کا ہی ذکر ہے۔
یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ یا لطیفہ ہے لیکن اس میں سقوطِ ڈھاکہ کے تمام فوجی اور سیاسی کرداروں کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے اور ان کا کردار بھی واضح ہوتا ہے۔
اس کا پیش منظر یہ ہے کہ لاڑکانہ میٹنگ کے بعد، جنرل یحییٰ پہلے مارچ کے شروع میں ہونے والے ڈھاکہ اسمبلی اجلاس کو دو تین ہفتوں کے لیے مؤخر کرتا ہے اور پھر بعد میں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیتا ہے۔ بھٹو، اقتدار میں شراکت، اجلاس میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے اور ڈھاکہ کے "ون وے ٹکٹ" کی بات کرتا ہے اور عوامی لیگ یہ کہتی ہے کہ لاڑکانہ میں ان کا مینڈیٹ لوٹ لیا گیا۔ مارچ کے شروع میں اسمبلی کے اجلاس والے دن مجیب الرحمٰن ڈھاکہ میں لاکھوں لوگوں کا جلسہ کرتا ہے اور ایک طرح سے "بنگلہ دیش" کا اعلان کر دیتا ہے۔ 23 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں یومِ پاکستان کی بجائے یومِ بنگلہ دیش منایا جاتا ہے اور اگلے دن پاکستان آرمی وہاں فوجی آپریشن شروع کر دیتی ہے اور اس سے اگلے دن 'ایسٹ پاکستان رائفلز' کے فوجی بغاوت کر دیتے ہیں جو بعد میں انڈیا کی مدد سے "مکتی باہنی" کہلواتے ہیں۔ اس کے بعد نو ماہ آگ اور خون کی ہولی ہے جو بالآخر 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ اور پاکستانی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنےتک پہنچتی ہے۔
یہ جنوری 1971ء کے اوائل کے دن ہیں، ملک میں پہلے عام اور شفاف انتخابات ہو چکے ہیں۔ عوامی لیگ واضح برتری حاصل کر چکی ہے اور اب قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کا انتظار ہے جس میں ارکان نے حلف اٹھانا ہے اور ملک کے وزیرِ اعظم کا انتخاب کرنا ہے۔ بطور صدر، اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار جنرل یحییٰ کے پاس ہے۔ جنرل یحییٰ نے مارچ کے اوائل میں ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اعلان کر دیا ہے اور اسی سلسلے میں مجیب الرحمٰن سے ملنے ڈھاکہ کا دورہ کرتا ہے۔ ڈھاکہ میں جنرل یحییٰ اور مجیب الرحمٰن کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں، مجیب، جنرل کو یہ عندیہ دے دیتا ہے کہ اس کی حکومت جنرل یحییٰ کو بطور صدر اور بطور آرمی کمانڈر ان چیف قبول کر لے گی۔ جنرل یحییٰ ڈھاکہ سے واپسی پر ایئرپورٹ پر ایک سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ اس کا جانشین اور اگلا وزیر اعظم اکثریتی جماعت کا لیڈر ہوگا۔ ڈھاکہ میں اس بیان پر خوشی کے شادیانے بج اٹھتے ہیں اور ان کو ایک آس بندھ جاتی ہے کہ اقتدار صحیح معنوں میں عوام کی منتخب قیادت کو منتقل ہو جائے گا۔
یہاں سے یہ واقعہ شروع ہوتا ہے۔ جنرل یحییٰ ڈھاکہ ایئرپورٹ پر اعلان کر کے کراچی کے لیے روانہ ہو جاتا ہے جہاں سے وہ سیدھا لاڑکانہ پہنچتا ہے۔ لاڑکانہ میں دوسری اکثریتی پارٹی یعنی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو میزبان ہیں اور المرتضیٰ لاڑکانہ میں صدر صاحب کی تین دن کے لیے مہمانداری کی جاتی ہے۔ لاڑکانہ میں جنرل یحییٰ کے دیگر قریبی جنرلز بھی موجود ہیں جن میں جنرل عبدالحمید، جنرل پیرزادہ، جنرل عمر اور جنرل مٹھا وغیرہ شامل ہیں۔
بھٹو نے جرنیلوں کے لیے شکار اور ضیافتِ طبع کا خوب اہتمام کر رکھا ہے۔ اسی سلسلے میں مختلف فنکاروں کو بھی لاڑکانہ میں مدعو کر رکھا ہے، انہی میں اس وقت کی ایک فلمی ہیروئن "ترانہ" نامی بھی شامل ہے۔ مذکورہ ہیروئن جب المرتضیٰ ہاؤس پہنچتی ہے تو سیکورٹی پر متعین اہلکار ضابطے کے مطابق انتہائی سخت چیکنگ اور سوال جواب کرتا ہے۔ تین دن کے بعد جب وہ ہیروئن وہاں سے رخصت ہو تی ہے تو وہی سیکورٹی گارڈ ہیروئن کو دیکھتے ہی انتہائی مستعدی سے سلیوٹ کرتا ہے۔ ہیروئن حیران ہو کر رویے میں تبدیلی کی وجہ پوچھتی ہے تو وہ کہتا ہے۔ میڈم جب آپ تشریف لائی تھیں تو صرف ترانہ تھیں، اب آپ "قومی ترانہ" ہیں۔ مصنف مذکور کے مطابق یہ لطیفہ چل نکلتا ہے اور پورے ملک میں ہر طرف "قومی ترانہ" کا ہی ذکر ہے۔
یہ بظاہر ایک معمولی سا واقعہ یا لطیفہ ہے لیکن اس میں سقوطِ ڈھاکہ کے تمام فوجی اور سیاسی کرداروں کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے اور ان کا کردار بھی واضح ہوتا ہے۔
اس کا پیش منظر یہ ہے کہ لاڑکانہ میٹنگ کے بعد، جنرل یحییٰ پہلے مارچ کے شروع میں ہونے والے ڈھاکہ اسمبلی اجلاس کو دو تین ہفتوں کے لیے مؤخر کرتا ہے اور پھر بعد میں غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیتا ہے۔ بھٹو، اقتدار میں شراکت، اجلاس میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے اور ڈھاکہ کے "ون وے ٹکٹ" کی بات کرتا ہے اور عوامی لیگ یہ کہتی ہے کہ لاڑکانہ میں ان کا مینڈیٹ لوٹ لیا گیا۔ مارچ کے شروع میں اسمبلی کے اجلاس والے دن مجیب الرحمٰن ڈھاکہ میں لاکھوں لوگوں کا جلسہ کرتا ہے اور ایک طرح سے "بنگلہ دیش" کا اعلان کر دیتا ہے۔ 23 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ میں یومِ پاکستان کی بجائے یومِ بنگلہ دیش منایا جاتا ہے اور اگلے دن پاکستان آرمی وہاں فوجی آپریشن شروع کر دیتی ہے اور اس سے اگلے دن 'ایسٹ پاکستان رائفلز' کے فوجی بغاوت کر دیتے ہیں جو بعد میں انڈیا کی مدد سے "مکتی باہنی" کہلواتے ہیں۔ اس کے بعد نو ماہ آگ اور خون کی ہولی ہے جو بالآخر 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ اور پاکستانی فوجیوں کے ہتھیار ڈالنےتک پہنچتی ہے۔
آخری تدوین: