زبیر مرزا
محفلین
کوئی چراغ تخیل نہ میری راہ میں رکھ
بس اک سلام کا گوہر میری کلاہ میں رکھ
اگرچہ تو کسی سچائی کا مورخ ہے
یزید عصر کو بھی دفتر سپاہ میں رکھ
بکھیر صفحہء قرطاس پر لہو کے حروف
قلم سنبھال کے مت دل کی خانقاہ میں رکھ
سمجھ سکے جو شہیدان حق کی تاجوری
جبین عجز کو تو خاک پائے شاہ میں رکھ
علی کے سجدہء آخر سے حلق اصغر تک
ہر ایک تیر ستم مرکز نگاہ میں رکھ
وہی امام زماں جو ہیں سب پہ سایہ فگن
انہیں کے سایہ دستار کی پناہ میں رکھ
مجھے وہ حریت فکر بھی دے حُر کی طرح
پھر اُس کے بعد اُسی لشکر و سپاہ میں رکھ
سلام و مرثیہ و نعت لے کے حاضر ہوں
اُنہیں کا بندہ سمجھ اپنی بارگاہ میں رکھ
ترا یہ شاعر نقاش تو ہے ذرہء خاک
اسے غبار بنا کہ مہر و ماہ میں رکھ