مہوش علی
لائبریرین
اس بات میں اختلاف ہے کہ پاکستان کا موجودہ توہین رسالت قانون قرآن و حدیث کے مظابق ہے یا نہیں۔
۔1۔ امام ابو حنیفہ کا فتوی
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں سورۃ توبہ کی آیت 12 کے ذیل میں، اور عون المعبود میں "باب الحکم فیمن سِب النبی" کے ذیل میں امام المنذری کے حوالے درج ہے کہ:۔
أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، ما هو عليه من الشرك أعظم، ولكن يؤدب ويعزر. والحجة عليه قوله تعالى: "وإن نكثوا" الآية.
یعنی امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور انکی اتباع میں اہل کوفہ کا قول ہے کہ شاتم رسول (ص) کو قتل کی سزا نہیں دی جائے گی ،ان کی دلیل یہ ہے کہ مشرک کو شرک کے جرم میں قتل کرنا جائز نہیں حالانکہ شرک سب سے بڑا جرم ہے۔بلکہ (قتل) کی بجائے انہیں ادب سکھایا جائے اور تعزیر لگائی جائے (یعنی ہلکی سزا)۔
۔2۔ رسول (ص) کی اپنی ثانبت شدہ سنت
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ:۔
' اورحضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشرکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے ناگوار گزری بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے کوگوارا نہیں کرتا۔ میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنےایسے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ' ' ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی '' میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور '' اچھا فرمایا ۔ '' ( صحیح مسلم ) ۔
چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر جناب ابو ہریرہ نے اپنی والدہ کو قتل نہیں کر ڈالا کہ انہوں نے بدکلامی کی، بلکہ آپ رسول (ص) سے انکے لیے دعا کرانے کے لیے پہنچ گئے۔
اور رسول خدا (ص) نے بھی اس پر جناب ابو ہریرہ کو برا بھلا نہیں کہ کہ اپنی ماں کو توہینِ رسالت مین قتل کرنے کی بجائے میرے پاس کیوں آ گئے ہو۔
نہیں، بلکہ اللہ کے رسول (ص) نے جناب ابو ہریرہ کی والدہ کو قتل کرنے کی بجائے انکی ہدایت کی دعا فرمائی۔
علماء حضرات کا سلمان تاثیر شہید کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار
سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھی جائے نہ ہلاکت پر افسوس کیاجائے، علماء
۔۔۔پانچ سو سے زائد علماء ومفتیان کرام نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی عبرتناک موت پر اپنے مشترکہ بیان میں مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ نہ کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھے نہ پڑھانے کی کوشش کرے اور گورنر کی ہلاکت پر کسی قسم کے افسوس یا ہمدردی کا اظہار ہرگز نہ کیا جائے۔ گستاخ رسول کا حمایتی بھی گستاخ ہے۔ قائدین علماء اہلسنت نے کہاکہ گورنر کو ہلاک کرنے والے عاشقِ رسول غازی ملک ممتاز حسین قادری کی جرأت، بہادری ایمانی غیرت ودینی حمیت کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس جانباز نے امت کی چودہ سو سالہ روایت کو باقی رکھا اور دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ قائدین وعلماء اہلسنت نے کہاکہ قانون ناموس رسالت کی مخالفت اور گستاخان رسول کی حمایت کرنے والے وزراء سیاستدان، نام نہاد دانشور، اینکر پرسن ودیگر گورنر پنجاب کی موت سے عبرت حاصل کریں۔ ۔۔۔
یہ چیز مناسب نہیں ہے کہ کوئی طبقہ بھی دین کا ٹھیکیدار بن بیٹھے اور نماز جنازہ کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرنے لگے۔
سلمان تاثیر کے قتل اور نمازِ جنازہ نہ پڑھانے کی دلیل
سلمان تاثیر مرحوم پر یہ لوگ براہ راست تو توہین رسالت کا کوئی الزام لگا کر انکے قتل اور نمازِ جنازہ سے انکار کا کوئی جواز تو پیش نہ کر سکے۔
آخر میں جب ان حضرات کے اس فیصلے پر تنقید ہوئی کہ جس میں انہوں نے سلمان تاثیر کا نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا، اور ممتاز قادری کے قتل کی مذمت نہ کی، تو انہوں نے جواب میں ان حضرات نے اپنے طرز عمل کے حق میں فقط یہ 1 دلیل پیش کی، اور یہ دلیل ہے حضرت عمر کا واقعہ، جسکی تفصیل ان علماء حضرات کی ہی زبانی سنیے:۔
اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریمﷺ نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول ﷺ! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )
[سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.
یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی نبی کریمﷺ کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے۔ چنانچہ سلمان تاثیر نے نبی (ص) کے فیصلے سے عدم اتفاق کیا ہے اور اس لیے ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا قتل بالکل درست کیا ہے، اور اسی لیے سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ نہیں ۔
جواب: علماء حضرات کی طرف سے پیشکردہ حضرت عمر والا واقعہ "ضعیف" ہے
حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:۔
یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ مگر چونکہ ان لوگوں کو فساد پھیلانا ہے، اس لیے اس “صحیح” حدیث کو چھپا کر ایک ایسی روایت کے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے بیٹھے ہیں جو کہ غریب اور ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منکر بھی ہے اور ان سب کو اسکا علم بھی ہے۔ مگر اس علم کے باوجود یہ منافقت جاری ہے۔
سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:۔
اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)۔
امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔پہلی روایت کا لنک یہ ہے۔ دوسری روایت کا لنک یہ ہے۔
سلمان تاثیرمرحوم کا قتل فقط اسی ضعیف و منکر روایت کی وجہ سے ہوا ہے
ممتاز قادری اکیلا نہیں ہے، بلکہ اس وقت لاکھوں ممتاز قادری جیسے انتہا پسند موجود ہیں جو مسلسل سلمان تاثیر مرحوم کے قتل کو بالکل حق بجانب کہہ رہے ہیں اور انکی دلیل یہی ضعیف اور منکر روایت ہے۔
سلمان تاثیر مرحوم پر تو وہ براہ راست گستاخیِ رسول ثابت نہیں کر پائے کہ اسکی بنیاد پر انکے قتل کو حق بجانب قرار دیتے۔ مگر اب انکا اصرار ہے کہ چونکہ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون سے راضی نہیں تھےاس لیے انکا قتل ایسے ہی ضروری تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت عمر نے اُ س شخص کو قتل کر دیا تھا جو اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہورہا تھا۔
چنانچہ یاد رکھیے کہ سلمان تاثیر مرحوم کا قتل توہین رسالت کی پاداش میں نہیں ہوا بلکہ اسکی وجہ علماء حضرات کا صحیح روایت کو چھوڑ کر مسلسل یہ ضعیف اور منکر روایت کا بیان کرنا اور اسے عام مسلمانوں کے ذہنوں میں بٹھا کر انکی برین واشنگ کر دینا ہے، اور اسکے بعد آپ یونہی ماروائے عدالت قتل ہوتے دیکھیں گے جہاں بس الزام لگانے کی دیر ہے اور پھر انسان کو کوئی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا اور نہ کسی گواہوں کی ضرورت ہو گی، بلکہ جنگل کے قانون کی مانند کشت و خون کیا جا رہا ہو گا۔
اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔ اس روایت میں یہ پوٹینشل پورا موجود ہے کہ صرف توہین رسالت قانون ہی نہیں بلکہ جلد ہی اسکا نفاذ دیگر قوانین سے اختلاف کرنے والوں پر بھی ہو رہا ہو گا اور انہیں فقط اس بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہوگا کہ انکے دل ان قوانین پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہذا انکو کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قتل کر ڈالو۔
۔1۔ امام ابو حنیفہ کا فتوی
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں سورۃ توبہ کی آیت 12 کے ذیل میں، اور عون المعبود میں "باب الحکم فیمن سِب النبی" کے ذیل میں امام المنذری کے حوالے درج ہے کہ:۔
أبا حنيفة والثوري وأتباعهما من أهل الكوفة فإنهم قالوا: لا يقتل، ما هو عليه من الشرك أعظم، ولكن يؤدب ويعزر. والحجة عليه قوله تعالى: "وإن نكثوا" الآية.
یعنی امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور انکی اتباع میں اہل کوفہ کا قول ہے کہ شاتم رسول (ص) کو قتل کی سزا نہیں دی جائے گی ،ان کی دلیل یہ ہے کہ مشرک کو شرک کے جرم میں قتل کرنا جائز نہیں حالانکہ شرک سب سے بڑا جرم ہے۔بلکہ (قتل) کی بجائے انہیں ادب سکھایا جائے اور تعزیر لگائی جائے (یعنی ہلکی سزا)۔
۔2۔ رسول (ص) کی اپنی ثانبت شدہ سنت
صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ:۔
' اورحضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کو جو مشرکہ تھیں قبول اسلام کی تلقین کیا کرتا تھا ، چنانچہ ایک دن میں نے ان کو ( معمول کے مطابق ) اسلام قبول کرنے کی تلقین کی تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے متعلق ايك ايسى بات كہی جو مجھے ناگوار گزری بلکہ میں تو اب بھی اس کو نقل کرنے کوگوارا نہیں کرتا۔ میں ( اس بات سے مغموم اور رنجیدہ ہو کر کہ انہوں نے میرے سامنےایسے الفاظ زبان سے نکالے ہیں اور ماں ہونے کی ودہ سے میں ان کی تادیب بھی نہیں کر سکتا ) روتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اور عرض کیا کہ یار سول اللہ ! اب تو آپ ہی اللہ سے دعا فرما دیجئے کہ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرمائے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما ! میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاسے بڑی خوش آیند امید لے کر ( بارگاہ نبوت سے ) واپس لوٹا اور جب اپنی والدہ کے گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازہ بند ہے ، لیکن میری والدہ نے میرے قدموں کی آواز سن لی تھی انہوں نے ، ( اندر سے آواز دے کر کہا کہ ' ' ابو ہریرہ ! وہیں ٹھہرو ( یعنی ابھی گھر میں نہ آؤ ) پھر میں نے پانی گر نے کی آواز سنی '' میری والدہ نے غسل کیا ، کپڑا پہنا اور مارے جلدی کے دوپٹہ اوڑھے بغیر دروازہ کھول دیا اور ( مجھے دیکھ کر ) کہا ، میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ میں یہ دیکھتے ہی کہ میری پیاری ماں کو ہدایت مل گئی اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا ، الٹے پاؤں لوٹا اور خوشی کے آنسو گراتا ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں حاضر ہوا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی تعریف کی اور میری والدہ کے اسلام پر شکر ادا کیا اور '' اچھا فرمایا ۔ '' ( صحیح مسلم ) ۔
چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اگر جناب ابو ہریرہ نے اپنی والدہ کو قتل نہیں کر ڈالا کہ انہوں نے بدکلامی کی، بلکہ آپ رسول (ص) سے انکے لیے دعا کرانے کے لیے پہنچ گئے۔
اور رسول خدا (ص) نے بھی اس پر جناب ابو ہریرہ کو برا بھلا نہیں کہ کہ اپنی ماں کو توہینِ رسالت مین قتل کرنے کی بجائے میرے پاس کیوں آ گئے ہو۔
نہیں، بلکہ اللہ کے رسول (ص) نے جناب ابو ہریرہ کی والدہ کو قتل کرنے کی بجائے انکی ہدایت کی دعا فرمائی۔
علماء حضرات کا سلمان تاثیر شہید کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار
سلمان تاثیر کی نماز جنازہ پڑھی جائے نہ ہلاکت پر افسوس کیاجائے، علماء
۔۔۔پانچ سو سے زائد علماء ومفتیان کرام نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی عبرتناک موت پر اپنے مشترکہ بیان میں مسلمانوں کو ہدایت کی ہے کہ نہ کوئی اس کی نماز جنازہ پڑھے نہ پڑھانے کی کوشش کرے اور گورنر کی ہلاکت پر کسی قسم کے افسوس یا ہمدردی کا اظہار ہرگز نہ کیا جائے۔ گستاخ رسول کا حمایتی بھی گستاخ ہے۔ قائدین علماء اہلسنت نے کہاکہ گورنر کو ہلاک کرنے والے عاشقِ رسول غازی ملک ممتاز حسین قادری کی جرأت، بہادری ایمانی غیرت ودینی حمیت کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ اس جانباز نے امت کی چودہ سو سالہ روایت کو باقی رکھا اور دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ قائدین وعلماء اہلسنت نے کہاکہ قانون ناموس رسالت کی مخالفت اور گستاخان رسول کی حمایت کرنے والے وزراء سیاستدان، نام نہاد دانشور، اینکر پرسن ودیگر گورنر پنجاب کی موت سے عبرت حاصل کریں۔ ۔۔۔
یہ چیز مناسب نہیں ہے کہ کوئی طبقہ بھی دین کا ٹھیکیدار بن بیٹھے اور نماز جنازہ کے نام پر لوگوں کو بلیک میل کرنے لگے۔
سلمان تاثیر کے قتل اور نمازِ جنازہ نہ پڑھانے کی دلیل
سلمان تاثیر مرحوم پر یہ لوگ براہ راست تو توہین رسالت کا کوئی الزام لگا کر انکے قتل اور نمازِ جنازہ سے انکار کا کوئی جواز تو پیش نہ کر سکے۔
آخر میں جب ان حضرات کے اس فیصلے پر تنقید ہوئی کہ جس میں انہوں نے سلمان تاثیر کا نمازِ جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا، اور ممتاز قادری کے قتل کی مذمت نہ کی، تو انہوں نے جواب میں ان حضرات نے اپنے طرز عمل کے حق میں فقط یہ 1 دلیل پیش کی، اور یہ دلیل ہے حضرت عمر کا واقعہ، جسکی تفصیل ان علماء حضرات کی ہی زبانی سنیے:۔
اس ضمن میں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ طرز عمل بھی نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ جس کی تحسین اور تائید میں سورہ النساء کی آیت ٦٥ نازل ہوئی۔ واقعہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ایک یہودی اور ایک مسلمان میں ایک تنازعہ ہوا. نبی کریم صلی اللہ الہی وسلم نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا. مسلمان جو کہ در حقیقت منافق تھا اس فیصلے سے مطمین نہ تھا اور حضرت عمر فاروقؓ کے پاس جا کر اپنے حق میں فیصلہ لینے کا ارادہ کیا. سوچا کہ حضرت عمرؓ ایک یہودی کو مسلمان پر ترجیح نہ دیں گے. وہ لوگ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا کہ کس طرح نبی کریمﷺ نے اس مقدمے کا فیصلہ یہودی کے حق میں دے دیا اور وہ منافق اس فیصلے پر مطمین نہ تھا اور حضرت عمر رض سے اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتا تھا. سیدناعمرؓ نے یہ سنا تو تلوار نکالی اور اس منافق کی گردن اڑا دی. اس معاملے کا ہر جگہ ذکر ہوا اور بات پھیل گئی کہ حضرت عمر فاروقؓ نے ایک مسلمان کا نا حق خون کر دیا . حضرت عمر رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول ﷺ! عمر نے ایک ایسے شخص کو قتل کیا ہے جو کلمہ پڑھتا تھا، نماز پڑھتا تھا اور روزے رکھتا تھا، مگر آپ جانتے ہیں عمر نے کسی مسلم کو قتل نہیں کیا . کیونکہ وہ مسلم ہو ہی نہیں سکتا کہ جس کو آپکے فیصلے سے اتفاق نہ ہو ”اللہ سبحانہ تعالیٰ کو سیدنا عمر فاروق کی یہ بات اس قدر پسند آئی کہ حضرت جبرئیل علیہ سلام سورہ نسا کی یہ آیت لے کر نازل ہوئے ؛
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( سورہ النساء – آیت ٦٥ )
[سورۃ النساء 4:65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے.
یہاں سیدنا عمر فاروقؓ کا طرز عمل ایک رہنما طرز عمل ہے جس کی تحسین خود ذات حق نے کی . بغیر کسی ظاہری توہین رسالت کے وہ اتنے حساس تھے ان معاملات میں کہ توہین تو بڑی بات یہ تک گوارا نہیں تھا کہ کوئی نبی کریمﷺ کے فیصلے سے بھی عدم اتفاق کرے۔ چنانچہ سلمان تاثیر نے نبی (ص) کے فیصلے سے عدم اتفاق کیا ہے اور اس لیے ممتاز قادری نے سلمان تاثیر کا قتل بالکل درست کیا ہے، اور اسی لیے سلمان تاثیر کی نمازِ جنازہ نہیں ۔
جواب: علماء حضرات کی طرف سے پیشکردہ حضرت عمر والا واقعہ "ضعیف" ہے
حضرت عمر والی اس روایت کے متعلق اصل حقائق یہ ہیں کہ:۔
- یہ روایت ضعیف ہے (اس میں ایک روای ابن لهيعة ہے جو ضعیف ہے)
- یہ روایت غریب ہے اور فقط ابن الاسود سے مروی ہے۔
- یہ روایت منکر ہے (یعنی ایسی روایت جو نہ صرف یہ کہ ضعیف ہو، بلکہ کسی صحیح روایت کے مخالف بھی ہو)
- اس روایت کو ثابت کرنے کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہےجو کہ ضمرة بن حبيب سے مروی ہے۔ مگر ضمرۃ نے رسول اللہ ﷺ کا دور نہیں پایا ہے، لہذا یہ لائق اعتماد نہیں۔ (اس راوی کی وفات 130 ہجری میں ہوئی ہے، یعنی رسول ﷺ کی وفات کے 117 سال کے بعد)
یہ آیت نازل ہوئی جب صحابی حضرت زبیر اور ایک بدری صحابی حضرت حاطب کے مابین تنازعہ ہوا تھا اور اس کی تفسیر میں امام بخاری نے اپنی صحیح میں پورا واقعہ دوصحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ مگر چونکہ ان لوگوں کو فساد پھیلانا ہے، اس لیے اس “صحیح” حدیث کو چھپا کر ایک ایسی روایت کے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے بیٹھے ہیں جو کہ غریب اور ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منکر بھی ہے اور ان سب کو اسکا علم بھی ہے۔ مگر اس علم کے باوجود یہ منافقت جاری ہے۔
سعودی عرب سے اردو میں قران بمع ترجمہ اور تفسیر شائع ہوا ہے (تفسیر کی ہے صلاح الدین صاحب نے)۔ سعودی حکومت نے لاکھوں کی تعداد میں یہ قرآن چھپا کر مفت تقسیم کیا ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں:۔
اس آیت کا شان نزول ایک یہودی اور مسلمان کا واقعہ عموماً بیان کیا جاتا ہے جو بارگاہ رسالت سے فیصلے کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ سے فیصلہ کروانے گیا جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس مسلمان کا سر قلم کر دیا۔ لیکن سنداً یہ واقعہ صحیح نہیں ہے جیسا کہ ابن کثیر نے بھی وضاحت کی، صحیح واقعہ یہ ہے جو اس آیت کے نزول کا سبب ہے کہ حضرت زبیر رضی اللہ کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد تھے۔ اور ایک آدمی کا کھیت کو سیراب کرنے والے (نالے) کے پانی پر جھگڑا ہو گیا۔ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا آپ نے صورت حال کاجائزہ لے کر جو فیصلہ دیا تو وہ اتفاق سے حضرت زبیر رضی اللہ کے حق میں تھا، جس پر دوسرے آدمی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھوپھی زاد ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(صحیح بخاری، کتاب التفسیر)۔
امام بخاری نے یہ واقعہ دو مختلف اسناد کے ساتھ اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔پہلی روایت کا لنک یہ ہے۔ دوسری روایت کا لنک یہ ہے۔
سلمان تاثیرمرحوم کا قتل فقط اسی ضعیف و منکر روایت کی وجہ سے ہوا ہے
ممتاز قادری اکیلا نہیں ہے، بلکہ اس وقت لاکھوں ممتاز قادری جیسے انتہا پسند موجود ہیں جو مسلسل سلمان تاثیر مرحوم کے قتل کو بالکل حق بجانب کہہ رہے ہیں اور انکی دلیل یہی ضعیف اور منکر روایت ہے۔
سلمان تاثیر مرحوم پر تو وہ براہ راست گستاخیِ رسول ثابت نہیں کر پائے کہ اسکی بنیاد پر انکے قتل کو حق بجانب قرار دیتے۔ مگر اب انکا اصرار ہے کہ چونکہ سلمان تاثیر توہینِ رسالت قانون سے راضی نہیں تھےاس لیے انکا قتل ایسے ہی ضروری تھا جیسا کہ اس روایت میں حضرت عمر نے اُ س شخص کو قتل کر دیا تھا جو اللہ کے رسول کے فیصلہ پر راضی نہیں ہورہا تھا۔
چنانچہ یاد رکھیے کہ سلمان تاثیر مرحوم کا قتل توہین رسالت کی پاداش میں نہیں ہوا بلکہ اسکی وجہ علماء حضرات کا صحیح روایت کو چھوڑ کر مسلسل یہ ضعیف اور منکر روایت کا بیان کرنا اور اسے عام مسلمانوں کے ذہنوں میں بٹھا کر انکی برین واشنگ کر دینا ہے، اور اسکے بعد آپ یونہی ماروائے عدالت قتل ہوتے دیکھیں گے جہاں بس الزام لگانے کی دیر ہے اور پھر انسان کو کوئی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا اور نہ کسی گواہوں کی ضرورت ہو گی، بلکہ جنگل کے قانون کی مانند کشت و خون کیا جا رہا ہو گا۔
اور یہ تو صرف ابتدا ہے۔ اس روایت میں یہ پوٹینشل پورا موجود ہے کہ صرف توہین رسالت قانون ہی نہیں بلکہ جلد ہی اسکا نفاذ دیگر قوانین سے اختلاف کرنے والوں پر بھی ہو رہا ہو گا اور انہیں فقط اس بنیاد پر قتل کیا جا رہا ہوگا کہ انکے دل ان قوانین پر راضی نہیں ہو رہے تھے لہذا انکو کلمہ گو مسلمان ہوتے ہوئے بھی قتل کر ڈالو۔
آخری تدوین: